• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ تعالیٰ کی مدد کب آئے گی ؟اسباب وعوامل

afrozgulri

مبتدی
شمولیت
جون 23، 2019
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
17
تحریر : افروز عالم ذکراللہ سلفی گلری حفظہ اللہ

تمام تعریف اللہ رب العالمین کے لیے ہے جو زمین میں تباہی ،فتنہ و فساد کو پسند نہیں کرتا ،نہ ہی کبروعناد سے راضی ہوتا ہے ۔دلوں کے اندر پوشیدہ باتیں اس پر مخفی نہیں ۔وہ ذات آزمائشوں کے بقدر اجر بھی عطا کرتا ہے یہ اس کا بھت بڑا فضل و احسان ہے ۔

موجودہ دور میں زندگی کی ہر سانس ،ہر لمحہ ،ہر وقت ،ہر آن امت مسلمہ کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ،چو طرفہ ظلم وستم کے تیر مسلمانوں کے جگر کو پاس پاس کرنے پر برسائے جاتے ہیں ،مشرق ومغرب جہاں بھی آندھیاں چلتی ہیں ،طوفان بدتمیزی اٹھتی ہے خواہ وہ مساجد ومندروں میں دھماکے کی شکل میں ہو ،یا نقاب پوش عورتوں کو بے پردہ کرنے کی مہم ہو ،طلاق ، داڑھی ،کرتا یا پائجامہ پر بحث ہو،ظلم وجبر یا جرائم کے واقعات ہوں ہر معاملے میں سب کی نسبت اسلام اور مسلمانوں کی طرف ہی آجاتی ہے ،میڈیا کو مسلمانوں کی جماعت نظر آتی ہے ۔ان کو لگتا ہے کہ ہم مظلوم ہیں جب کہ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم ہمیشہ قوموں کو عروج و سربلندی پر پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتے نظر آئے ہیں ۔
ہم نے نہ صرف خشکی بلکہ سمندروں میں بھی فتح کے جھنڈے گاڑ دیے تھے ۔ہمارے حکم کی تابعداری کبھی مشرق سے مغرب اور جنوب سے شمال تک چلنے والی ہواؤں نے کی تو کبھی جنگل کے بے زبان جانوروں نے کی ۔
مگر آج جب بغیر جرم کے ہمیں سزا دی جاتی ہے ،اور پوسٹ سے محروم کیا جاتا ہے،ذلت کے غار میں دھکیلا جاتا ہے ،وطن عزیز ہندوستان میں سب سے بڑی اقلیت ہونے کے باوجود حق بات کہنے سے ڈرنا پڑتا ہے ۔
تو میرے ذہن میں ایک سوال اٹھنے لگتا ہے کہ آخر ایسا سلوک کیوں ہورہا ہے ۔؟

کہیں ایسا تو نہیں ہمارے دلوں میں نفرت ،بغض و حسد اور جلن نے جگہ بنالیا۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے شریعت پر عمل کرنا چھوڑ دیا ۔
ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ہم نے اپنی ذمہ داری سے نظر پھیر لیا ۔
ایسا بھی امکان ہے کہ بہنوں اور بیٹیوں کے حقوق ہم نے غصب کر لیے ۔
غریبوں ،مسکینوں اور کمزوروں و بیواؤں پر رحم کرنا چھوڑ تو نھیں دیا ۔
کیا ہم نے مغرب کے آئین و تہذیب کو اپنانے میں کسر تو نہیں چھوڑی اور قرآن و سنت کو اپنی زندگی سے نکال دیا۔

فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
"ان الله يرفع بهذالكتاب أقواما ،ويضع به آخرين " (رواه مسلم في صحيحه)

بےشک اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے ایک قوم کے درجات کو بلند کرتا ہے ،تو دوسری قوم کو ذلیل کرتا ہے ۔

بقول علامہ اقبال رحمہ اللہ

وہ معجزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

آج ضرورت ہے کہ ہم اسلامی سانچے میں خود کو ڈھالیں ،ظلم ،اختلاف و انتشار ،گروہ بندی وگروپ بندی و تفرقہ بازی کا خاتمہ کردیں ،ایک اور نیک بنیں ،اعمال صالحہ کی طرف رغبت و پیش قدمی کریں، حقوق کو صاحب حق تک پہونچائیں اسے مکمل طور پر ادا کریں خواہ وہ کسی کا بھی حق ہو ۔اخلاقی اعتبار سے صحیح اور مضبوط بنیں تو دشمنوں کے بالمقابل قوی و مضبوط ہوں گے ۔

منصوبہ بندی اپنائیں
بقول علامہ اقبال رحمہ اللہ :

تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر


اہل علم کی قدر وعزت کریں ان پر زبان درازی نہ کریں ،تہمتوں کی تیر نہ برسائیں ،دشمنان کی خفیہ سازشوں کو بے نقاب کرکے عوام کو آگاہ کریں ۔
خیر کے کام کو عام کرنے کے لئے میدان میں آئیں ،دینی و عصری تعلیم کے زیور سے آراستہ و پیراستہ ہوں ، خطابت کے ساتھ ساتھ صحافت کا طریقہ بھی اپنائیں اور آنے والی نسلوں کو اس طرح کی چیزوں کے انجام دینے پر ابھاریں ۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضے کو انجام دیں ۔
ان شاءاللہ عزوجل اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت ساتھ ہوگی اور ہم اپنی عظمت رفتہ کو بحال کرسکیں گے ۔

شاعر کہتا ہے :
چمن کے مالی بنالیں مناسب شعار اب بھی
چمن میں اتر سکتی ہے روٹھی بہار اب بھی



قارئین کرام :
امت قرآن ،امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ،امت توحید وایمان ، اللہ تعالیٰ کی کامیابی کا وعدہ سچا وبرحق ہے ۔
" ان وعد الله حق فلا تغرنكم الحياة الدنيا ولا يغرنكم بالله الغرور "
(سورۃ لقمان آیت نمبر :33)
یاد رکھو اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے (دیکھ ) دنیا کی زندگی تمہیں دھوکہ میں نہ ڈال دے اور نہ دھوکہ باز شیطان تمہیں دھوکے میں ڈال دے ۔

قرآن کا وعدہ سچا ہے اور مومنوں کی کامیابی کا وعدہ برحق ہے ۔
ہمیں مایوس و ناامید نہیں ہونا چاہیے ۔بلکہ اس کے لیے کچھ اسباب اپنانے کی ضرورت ہے ۔
ہمیں اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے کے ساتھ ساتھ اسلامی شریعت پر مکمل طور سے عمل کرنا ہوگا ۔
اللہ رب العالمین نے مومنوں سے مدد ،فتح ونصرت ،جنت کی نعمتوں اور اسی طرح کے بے شمار وعدے کیے ہیں اور نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان وعدوں کا تذکرہ کیا ہے مگر ہر وعدے کے اتمام کے لئے کچھ شرائط و اسباب بھی متعین کیے ہیں ۔
تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے آباء واجداد نے ان شرائط و اسباب کو پورا کیا تو انھیں وعدہ الہی کے مطابق عروج و سربلندی کا مبارک زمانہ نصیب ہوا ۔
لیکن ہمارا ایمان دن بدن کمزور پڑ رہا ہے ۔
اعمال صالحہ سے ہماری زندگی مزین نہیں رہی بالکل خالی ویران پڑی ہوئی ہے ۔
کتاب وسنت کی تعلیم سے ہم روگردانی کرتے ہوئے خواہشات اور شہوات کے ہم غلام بن چکے ہیں ۔
ہم نے اس موضوع کے تحت کچھ اہم اسباب پیش کرنے کی جسارت کی ہے اگر امت مسلمہ انہیں تمام اسباب کو بجا لائے تو قوم و جماعت کا نقشہ بدل جائے گا اور کامیابی ہماری مقدر بن جائے گی ۔ ہمارے بچوں کو یتیم ،عورتوں کو بیوہ ،بہنوں کی عزت و آبرو کو پامال نہیں کیا جائے گا ۔

اس لیے امت مسلمہ کو اسباب وعوامل پر غور کرکے ان کو عملی جامہ پہنانا ہوگا تاکہ فوز و فلاح ان کا مقدر بنے ۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے زوال کے اسباب وعوامل کو سمجھ ان کی تشخیص کرنے اور فتح ونصرت کے اسباب وعوامل کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین۔

afrozgulri@gmail.com

01/03/2019
(جاری)


Sent from my TA-1053 using Tapatalk
 

afrozgulri

مبتدی
شمولیت
جون 23، 2019
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
17
( فتح ونصرت پانے کے لئے قرآنی تعلیمات )
تحریر : افروز عالم ذکراللہ سلفی گلری ، ممبئی

تمام تعریف اللہ رب العالمین کے لیے ہے جو زمین میں تباہی ،فتنہ و فساد کو پسند نہیں کرتا ،نہ ہی کبروعناد سے راضی ہوتا ہے ۔دلوں کے اندر پوشیدہ باتیں اس پر مخفی نہیں ۔وہ ذات آزمائشوں کے بقدر اجر بھی عطا کرتا ہے یہ اس کا بھت بڑا فضل و احسان ہے ۔

محترم قارئین:
ہمیں معلوم ہونا چاہیے اور اس چیز پر مکمل ایمان و اعتماد ہونا چاہیے کہ مدد اللہ ہی کی جانب سے ہوتی ہے " وَمَا النَّصْرُ إِلا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ " (سورة آل عمران :آيت نمبر :126)
مدد تو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے جو غالب اور حکمتوں والا ہے ۔
مومنوں کی مدد اور کفار پر ان کا غلبہ بطور تفضل واحسان یہ چیز اللہ تعالی نے اپنے اوپر واجب کرلی ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے اندر ذکر کیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا یہ حکم بدل نہیں سکتا ۔وہ ہمیشہ ایمان والوں کا مددگار رہا ہے اور اچھا انجام مومنوں کے لیے ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان : " وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ

"(سورة روم آيت نمبر : 47)

مزید اللہ تعالیٰ کا فرمان : "إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ " (سورة مومن ،آيت نمبر : 51)

یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد زندگانی دنیا میں بھی کریں گے (یعنی ان کے دشمن کو ذلیل اور ان کو غالب کریں گے )۔

بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ اشکال پیدا ہوسکتا ہے کہ بعض نبی قتل کر دیے گئے جیسے حضرت یحییٰ و زکریا علیھما السلام وغیرھما اور بعض ہجرت پر مجبور ہوگیے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ،

وعدہ امداد کے باوجود ایسا کیوں ہوا ؟؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ دراصل یہ وعدہ غالب حالات اور اکثریت کے اعتبار سے ہے ،اس لیے بعض حالتوں میں اور بعض اشخاص پر کافروں کا غلبہ اس کے منافی نہیں ۔

یا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ عارضی طور پر بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کی حکمت و مشیت کے تحت کافروں کو غلبہ عطا فرما دیا جاتا ہے ۔لیکن بالآخر اہل ایمان ہی غالب اور سرخرو ہوتے ہیں ۔
جیسے حضرت یحییٰ و زکریا علیہما السلام کے قاتلین پر بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمنوں کو مسلط فرما دیا ، جنہوں نے ان کے خون سے اپنی پیاس بجھائی اور انھیں ذلیل و خوار کیا ،

اور جن یھودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دے کر مارنا چاہا ،اللہ تعالیٰ نے ان یھودیوں پر رومیوں کو ایسا غلبہ دیا کہ انھوں نے یھودیوں کو خوب ذلت کا عذاب چکھایا ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء یقینا ہجرت پر مجبور ہوئے لیکن اس کے بعد جنگ بدر،احد،احزاب ،غزوہ خیبر ،اور پھر فتح مکہ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے جس طرح مسلمانوں کی مدد فرمائی اور اپنے پیغمبر اور اہل ایمان کو جس طرح غلبہ عطا فرمایا ،

اب اس کے بعد اللہ تعالٰی کی مدد کرنے میں کیا شبہ رہ جاتا ہے ؟؟

کافروں پر غلبہ انھیں کا ہوگا ہلاکت یہ کافروں کا مقدر ہے ۔
" كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي ۚ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ " (سورة المجادلة آيت نمبر : 21)

اللہ تعالیٰ نے یہ لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول یقینا غالب رہیں گے یقینا اللہ تعالی زور آور اور غالب ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا فیصلہ قدر محکم اور امر مبرم ہے اٹل و ناقابل تغیر ہے ۔

اللہ تعالیٰ کی مدد کی وجہ سے دین کے اندر ثابت قدمی ہوتی ہے ۔
(الثبات علی دین اللہ ج /2 ص: 780)

یہ مدد صرف دنیا ہی میں نہیں بلکہ دنیا وآخرت دونوں میں ہے ۔
(تفسیر المراغی ج /4 صفحہ نمبر : 118)

بہت ساری تہذیبیں مٹ گئیں ،ہلاک و برباد ہوگئیں ،مختلف قوموں کا وجود ختم ہو گیا وہ صفحۂ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دییے گیے ۔

یہ اللہ کی سنت رہی ہے " وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ " (سورة آل عمران آيت نمبر :140)
ہم ان ایام دنوں کو لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے ( پھیرتے) رہتے ہیں ۔

زمانہ کتنا بھی گزر جائے نصرت و مدد امت اسلامیہ ہی کے لیے ہے " وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ ، إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنصُورُونَ ، وَإِنَّ جُندَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ " (سورة الصافات ،آيت نمبر : 171_173)

اور البتہ ہمارا وعدہ پہلے ہی اپنے رسولوں کے لیے صادر ہوچکا ہے کہ یقینا وہ ہی مدد کیے جائیں گے اور ہمارا ہی لشکر غالب اور برتر رہے گا ۔

امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے " وَإِنَّ جُندَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ " کی تفسیر میں ذکر کیا ہے کہ
" وَإِنَّ جُندَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ"

یہ وہ لوگ ہیں جن کی دنیا وآخرت میں مدد کی جائے گی ۔اللہ تعالیٰ نے کافروں کو ہلاک کیا مومنوں کو نجات دی اور مومنوں کے لیے اچھا انجام ہے ۔(تفسیر ابن کثیر ،جلد نمبر /4 صفحہ نمبر:30)


یہ سنت الٰہی ہمیشہ سے چلی آرہی ہے ۔" فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا " (سورة فاطر ،آيت نمبر : 43)۔

سو آپ اللہ کے دستور کو کبھی بدلتا ہوا نہ پائیں گے اور آپ اللہ کے دستور کو کبھی منتقل ہوتا ہوا نہ پائیں گے ۔

اللہ تعالیٰ سے مدد کی پوری امید ہونی چاہیے "
وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ " (سورة آل عمران آيت نمبر: 139)
تم نہ سستی کرو اور نہ غمگین ہو ،تم ہی غالب رہو گے اگر تم ایماندار ہو ۔
یہ آیت اس وقت اتری جب مسلمان غزوہ احد سے لوٹ رہے تھے ،ستر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مقتول ہوچکے تھے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنی مدد کا وعدہ کیا کہ اگر ایمانی قوت موجود ہے تو غالب وکامران ہوں گے ۔
اس کے بعد مومنوں نے تمام غزوات فتح کیے ۔

ہر داعی الی اللہ کو اللہ تعالیٰ سے مدد کی پوری امید ہونی چاہیے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری پیاری امت کو فتح ونصرت اور کامیابی کی بشارتیں سنائیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی ہیں ۔جس میں اہل اسلام کے لیے بشارتیں اور خوشخبریاں موجود ہیں کہ یہ دین دنیا کے کونے کونے میں پہونچ کر رہے گا ۔کوئی قتال کیے بغیر
زمین پر کوئی مٹی اور پھوس کا گھر بھی باقی نہیں رہے گا مگر اسلام کے کلمے کو اللہ تعالیٰ داخل کرکے رہے گا عزیز کو عزت کے ساتھ اور ذلیل کو ذلت کے ساتھ ۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مولائے رحمان ورحیم تو ہماری مدد فرما اور فتح ونصرت سے ہمیں ہمکنار فرما ۔(آمین )

afrozgulri@gmail.com
03/03/2019
(جاری)


Sent from my TA-1053 using Tapatalk
 

afrozgulri

مبتدی
شمولیت
جون 23، 2019
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
17
( فتح ونصرت پانے کے لئے نبوى تعلیمات )
تحریر : افروز عالم ذکراللہ سلفی گلری ،ممبرا، ممبئی

تمام تعریف اللہ رب العالمین کے لیے ہے جو زمین میں تباہی ،فتنہ و فساد کو پسند نہیں کرتا ،نہ ہی کبروعناد سے راضی ہوتا ہے ۔دلوں کے اندر پوشیدہ باتیں اس پر مخفی نہیں ۔وہ ذات آزمائشوں کے بقدر اجر بھی عطا کرتا ہے یہ اس کا بھت بڑا فضل و احسان ہے ۔

محترم قارئین:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیاری پیاری امت (ہمیں)کو فتح ونصرت اور کامیابی کی بشارتیں سنائیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبانی بیان کی ہیں ۔جس میں اہل اسلام کے لیے بشارتیں اور خوشخبریاں موجود ہیں کہ یہ دین دنیا کے کونے کونے میں پہونچ کر رہے گا ۔کوئی قتال کیے بغیر
زمین پر کوئی مٹی اور پھوس کا گھر بھی باقی نہیں رہے گا مگر اسلام کے کلمے کو اللہ تعالیٰ داخل کرکے رہے گا عزیز کو عزت کے ساتھ اور ذلیل کو ذلت کے ساتھ ۔
بعض لوگوں نے اس سے یہ سمجھ لیا کہ یہ صرف دور نبوی کے لیے خاص ہے یا دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم و صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور تک محدود ہے یا سلاطین اسلام کے دور تک ۔
مگر ایسا نہیں ہے بلکہ یہ سچا وعدہ ہمیشہ ہمیش کے لیے ہے جس کی طرف ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رہنمائی کی ہے۔

پہلی حدیث :
عن ثوبان رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :" إن الله زوى لي الأرض فرأيت مشارقها ومغاربها وإن أمتي سيبلغ ما زوي لي منها "(1)

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین سمیٹ دی ہے تو میں نے مشرق و مغرب کی ساری چیزیں دیکھ لیں ۔یقینا امت کی حکمرانی وہاں تک پہونچ کر رہے گی جہاں تک زمین میرے لیے سمیٹ دی گئی ہے ۔

اس مضمون کی احادیث میں بشارت ہے کہ امت مسلمہ کی عملداری مشرق و مغرب کی انتہاؤں تک پھونچے گی ۔

دوسری حدیث :
عن جابر بن سمرة قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : لا يزال الدين قائما حتي تقوم الساعة ،أو يكون عليهم اثنا عشر خليفة كلهم من قريش و سمعته يقول ،عصيبة من المسلمين يفتتحون البيت الأبيض : بيت كسرى أو آل كسرى " (2)

یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہو یا تم پر بارہ خلیفہ ہوں اور وہ سب قریشی ہوں گے (شاید یہ واقعہ بھی قیامت کے قریب ہوگا کہ بارہ خلیفہ بارہ ٹکڑیوں پر مسلمانوں کے ہوں گے ایک ہی وقت میں ) اور سنا میں نے آپ فرماتے تھے ایک چھوٹی سی جماعت مسلمانوں کی کسریٰ (بادشاہ ایران )کے سفید محل(چاندی کے خزانے) کو فتح کریں گے ۔

ایک اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک حدیث میں ہے کہ خلافت میرے بعد تیس برس تک رہے گی اور تیس برس میں صرف پانچ خلیفہ ہوئے امام حسن سمیت تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں خلافت نبوت مراد ہے اور بارہ خلیفوں سے خلافت عام (بادشاہت)
دوسرا اشکال یہ ہے کہ بارہ سے زیادہ خلیفہ گزرے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے :
حدیث میں بارہ کا حصر نہیں کہ ان کے سوا کوئی اور خلیفہ نہ ہوں گے بلکہ یہ ہے کہ بارہ خلیفہ ہوں گے تو زیادہ ہونا کچھ خلاف نھیں ۔

یہ معجزہ تھا آپ کا اور ایسا ہی ہوا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ۔
اسی طرح اگر ہم فتح ونصرت کے تعلق سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئیوں کو دیکھیں تو وہ سب پوری ہوئیں ۔
آپ قسطنطنیہ جس کا موجودہ نام استنبول ہے(معجم البلدان 347/4) جو ابھی ترکی کا دارالحکومت ہے جسے ہزارہا برس قبل روم کے بادشاہ قسطنطین نے اپنا دارالحکومت بنایا تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس شہر کو قسطنطنیہ اور بعض روایات میں مدینہ قیصر (شاہ روم کے شہر ) سے موسوم کیا گیا اس شہر کے بارے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کی اور آپ کی یہ پیشین گوئی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں پوری ہوئی ۔کیونکہ امیر معاویہ بن ابو سفیان کے عہد میں 55/ ہجری میں یزید بن معاویہ کی کمان میں قسطنطنیہ کی طرف پیش قدمی کی گئی تھی۔
فی الواقع مجموعی طور پر دنیا میں دولت کے مصادر جس قدر مسلمانوں کے پاس ہیں کسی اور امت کے پاس نہیں ہیں یہ الگ بات ہے کہ موجودہ حالات میں مسلمان اپنی نادانی اور اللہ کے عتاب کی وجہ سے اس میں فتنے میں مبتلا ہیں اور دوسری قومیں ان کی دولت سے فائدہ اٹھا رہی ہیں ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دینے کے انداز میں امت کی رہنمائی کے لئے بہت کچھ فرمایا لھذا ہم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری پیاری امت کو کامیابی کی وہ بشارتیں سنائیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی ہیں _

تیسری حدیث :
عن أبي بن كعب رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : " بشر هذه الأمة بالسنا والنصر والتمكين فمن عمل منهم عمل الآخرة للدنيا لم يكن له في الآخرة نصيب " (3)

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اس امت کو خوشخبری سنادو برتری ،فتح ونصرت اور قیادت و سیادت کی تو جو آخرت کا کام دنیا کے لیے کرے گا (نیک نامی،دکھاوے) تو اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا ۔

چوتھی حدیث :
حضرت تمیم الداری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ليبلغن هذا الأمر ما بلغ الليل والنهار ولا يترك الله بيت مدر ولا وبر إلا أدخله الله هذا الدين بعز عزيز أو بذل ذليل ،عزا يعز به الإسلام و ذلا يذل الله به الكفر " (4).
یہ دین دنیا کے چپے چپے ،کونے کونے میں پہونچ کر رہے گا ۔
اللہ تعالیٰ زمین پر کوئی مٹی اور پھوس کا گھر بھی باقی نہیں رکھے گا مگر اسلام کے کلمے کو اللہ تعالیٰ داخل کرکے رہے گا عزیز کو عزت کے ساتھ اور ذلیل کو ذلت کے ساتھ ۔

کوئی قتال کے بغیر اسلام میں داخل ہوگا اور کوئی ذلیل و خوار ہوکر مسلمان ہوگا۔

امت اسلامیہ ہمیشہ ہمیش سے اللہ تعالیٰ سے مدد کی امید میں رہی ہے جیسا کہ آج انتظار کررہی ہے۔

پانچویں حدیث :
حضرت خباب بن الأرت رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کعبہ کے سایے میں اپنی چادر پر بیٹھے ہوئے تھے ،ہم نے عرض کیا کیوں نہیں آپ ہمارے لیے اللہ تعالٰی سے مدد مانگتے اور اللہ تعالی سے دعا کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
" قد كان من قبلكم يوخذ الرجل فيخفر له في الأرض فيجعل فيها فيجاء بالميشار فيوضع على رأسه ،فيجعل نصفين ويمشط بأمشاط الحديد ما دون لحمه وعظمه فما يصيره ذلك عن دينه ، والله ليتمن هذا الأمر حتى يسير الراكب من صنعا الى حضرموت لا يخاف إلا الله والذئب على غنيمه ، ولكنكم تستعجلون " (5) .

تم سے پہلے بہت سے نبیوں اور ان پر ایمان لانے والوں کا حال یہ ہوا کہ ان میں سے کسی ایک کو پکڑ لیا جاتا اور گڑھا کھود کر اس میں انھیں ڈال دیا جاتا پھر آرا لایا جاتا تھا اور ان کے سر پر رکھ کر دو ٹکڑے کردیے جاتے تھے اور لوہے کے کنگھے ان کے گوشت اور ہڈیوں میں دھنسا دیے جاتے لیکن یہ آزمائشیں بھی انھیں اپنے دین سے نہیں روک سکتی تھیں ۔
آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم اسلام کا مکمل غلبہ ہوگا اور ایک شھشوار صنعاء سے حضرموت تک تنہا سفر کرےگا اور اسے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کا خوف (کسی لوٹ وغیرہ) نہیں ہوگا اور بکریوں پر سوائے بھیڑیے کے خوف وہراس کے ،لیکن تم لوگ جلدی کرتے ہو ۔

چھٹی حدیث :
عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : " إن الله يبعث لهذه الأمة على رأس كل مأة سنة من يجدد لها دينها " (6)_

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس امت کے لیے ہر صدی کی ابتداء میں ایک ایسے شخص کو مبعوث فرمائے گا جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید (از سرنو قیام اور مضبوط) کرے گا ۔
یہ بہت بڑا انعام ہے کہ امت میں ایسے صالحین پیدا ہوئے ہیں اور آئندہ بھی ہوں گے جو دین کے معاملے میں ایسی خدمات سر انجام دیں گے جو انتہائی اہم اور ضروری ہوں گے ۔مگر یہ کوئی ضروری نہیں کہ خود انہیں بہی دین کا احساس ہو یا لوگوں میں اس سے ان کا تعارف ہو یا وہ خود اپنا چرچا کرتے پھریں ۔بلکہ ان کی خدمات جلیلہ علمائے حق میں ان کے متعلق یہ صفت جانی جائے گی ۔ممکن ہے کہ وہ مجاہد ہو یا حاکم یا داعی ۔

ساتویں حدیث :
عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : تقاتلكم اليهود فتسلطون عليهم حتى يقول الحجر : يا مسلم هذا يهودي ورائي فاقتله " (7) .

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ تم مسلمان یھودیوں سے ایک جنگ کرو گے اور اس میں ان پر تم غالب آجاؤ گے ۔اس وقت یہ کیفیت ہوگی کہ اگر کوئی یہود ی جان بچانے کے لیے کسی پہاڑ میں بھی چھپ جائے گا تو پتھر بولے گا کہ اے مسلمان : یہ یہودی میری آڑ میں چھپا ہوا ہے اسے قتل کردے ۔(سوائے غرقد نامی درخت کے وہ نہیں کہے گا کیونکہ وہ یھود کا درخت ہے )

یہ اس وقت ہوگا جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے اور یہودی لوگ دجال کے لشکری ہوں گے ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام باب لد کے پاس دجال کو ماریں گے اور اس کے لشکر والے جابجا مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوں گے ۔

اچھا انجام صالحین نیکو کاروں کے لیے ہے سختی کے ساتھ آسانی ہے ۔

آٹھویں حدیث :
عن أبي العباس رضي الله عنه قال : "كنت خلف النبي صلى الله عليه وسلم يوماً فقال يا غلام ! إني أعلمك كلمات
إحفظ الله يحفظك
إحفظ الله تجده تجاهك
إذا سألت فاسئل الله
وإذا استعنت فاستعن بالله
واعلم أن الأمة لو اجتمعت على أن ينفعوك بشئي لم ينفعوك إلا بشئي قد كتبه الله لك .
وإن اجتمعوا على أن يضروك بشئي لم يضروك إلا بشئي قد كتبه الله عليك
رفعت الأقلام و جفت الصحف "
رواه الترمذي
وفي رواية غير الترمذي
إحفظ الله تجده أمامك
تعرف إلى الله في الرخاء يعرفك في الشدة
وأعلم أن ما أخطأك لم يكن ليصيبك
وما أصابك لم يكن ليخطئك
وأعلم أن النصر مع الصبر
وأن الفرج مع الكرب
وأن مع العسر يسرا "(8)_

سیدنا ابوالعباس عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک روز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھا تو آپ نے فرمایا : اے لڑکے میں تجھے چند مفید باتیں بتاتا ہوں ۔
تم اللہ کے احکام کی حفاظت کرو (اس کے احکام،فرائض ،حدود کی پابندی کرو) وہ تیری حفاظت (جان و مال ،عزت وآبرو اور تیرے دین کی) کرےگا ۔
تو اللہ تعالیٰ کے احکام کی حفاظت کر تو اسے اپنے سامنے پائے گا ۔( جہاں تو ہوگا حفاظت،امانت اور تائید میں)

جب تو سوال کرے تو اللہ تعالیٰ ہی سے سوال کرے " واسئلوا اللہ من فضلہ " النساء :4/32
جب تو مدد طلب کرے تو اللہ تعالیٰ ہی سے مدد مانگ ( اکیلے اللہ سے مدد مانگو کیونکہ دعاؤں کی قبولیت اور تمہاری اعانت کا اختیار اسی کو ہے کسی دوسرے پر نہیں )
یاد رکھ ساری دنیا جمع ہوکر بھی تجھے فائدہ پھونچانا چاہے تو وہ تجھے کسی بات کا فائدہ اور نفع نہیں دے سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے تیرے لیے مقدر کر رکھا ہے۔
اور اگر سارے لوگ مل کر تجھے نقصان پہونچایا چاہیں تو وہ تیرا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے سوائے اس نقصان کے جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے مقدر کر رکھا ہو ۔
قلم اٹھا لیے گئے ( یہ تمام امور پہلے تحریر ہوچکے اور عرصہ ہوا اس تحریر کی روشنائی خشک ہوچکی )
اور صحیفے خشک ہوچکے ہیں ( وہ صحیفے جس میں کائنات کی تقدیریں درج ہیں ) ۔

امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے روایت کیا ہے ۔
امام ترمذی رحمہ اللہ کے علاوہ دوسرے محدثین کی روایت میں یوں ہے ۔
تو اللہ تعالیٰ کے احکام کی حفاظت کر تو اسے اپنے سامنے پائے گا۔
تو خوشحالی میں اس کی طرف رجوع کر وہ تنگ دستی کے وقت تیری مدد فرمائے گا۔

یاد رکھ جو چیز تمہیں نہیں ملی وہ تمہیں مل ہی نہیں سکتی تھی اور جو چیز تمہیں مل گیا اس سے تو محروم نہیں رہ سکتا تھا ۔

یاد رکھ اللہ تعالیٰ کی مدد صبر سے وابستہ ہے اور تکالیف کے بعد کشادگی اور فراخی آتی ہے اور تنگی کے بعد آسانی بھی ہوتی ہے۔
یہ تمام نبوی تعلیمات ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر کے ہم فتح و نصرت سے ہمکنار ہوسکتے ہیں ۔


اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچازاد بھائی ابو العباس عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو چند نصیحتیں فرمائی ہیں ۔
بظاہر اس حدیث کے مخاطب آپ رضی اللہ عنہ ہیں لیکن فی الحقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی وساطت سے تمام مسلمانوں کو یہ ہدایات دی ہیں ۔
یہ ہدایات اور نصائح بڑی جامع ہیں ان پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں ایک مسلمان کا ایمان تکمیل پذیر ہوتا ہے ۔دنیا سنور جاتی ہے ۔وہ دنیا کی پرواہ نہیں کرتا اور اپنا حاجت روا صرف اللہ تعالیٰ ہی کو سمجھتا ہے اور اسے دنیا کے کسی بھی شخص کا ڈر نہیں رہتا ہے ۔وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت ،مدد اور امان میں آجاتا ہے ۔۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مولائے رحمان ورحیم تو ہماری مدد فرما،فتح و کامیابی وکامرانی سے ہمیں ہمکنار فرما مزید فتح ونصرت کی نبوی تعلیمات و پیشین گوئیوں کو سامنے رکھتے ہوئے ان سے ہمیں سبق لینے اور ان تعلیمات پر عمل کرنے والا بنا ۔(آمین )

_________________________
حوالہ جات :
(1) صحيح مسلم ،كتاب الإمارة ،حديث نمبر :1920 و كتاب الفتن ،حديث نمبر : 2889، وأبو داود كتاب الفتن والملاحم ،باب ذكر الفتن ودلا ئلها ،حديث نمبر : 4252,وابن ماجة , كتاب الفتن ،باب ما يكون من الفتن ،حديث نمبر : 3952 ،والدارمي في المقدمة 205 وصححه الألباني رحمه الله

(2) صحيح مسلم ،كتاب الإمارة ،باب الناس تبع لقريش والخلافة في قريش ،حديث نمبر : 4711

(3) رواه الحاكم في المستدرك ،كتاب الفتن والملاحم ،حديث نمبر : 8336, وأحمد في مسنده ،حديث نمبر : 21223, والبيهقي في السنن الكبرى ،باب إظهار دين النبي صلى الله عليه وسلم ،حديث نمبر : 18400, والطبراني في الكبير ،حديث نمبر : 1280، والطحاوي في مشكل الآثار ،حديث نمبر : 5389, وابن عاصم في الزهد : حديث نمبر " 168, وابن حبان (405) والبغوي (4144) والبيهقي في شعب الإيمان (6834)والشاشي في مسنده (1491)
وصححه الألباني رحمه الله في صحيح الجامع الصغير : 2825,

(4) مسند احمد ،حدیث نمبر : 16957, اس حدیث کی سند صحیح ہے مسلم کے شرط پر ہے اس حدیث کو ابن مندہ رحمہ اللہ نے کتاب الایمان (1085) اور امام طحاوی رحمہ اللہ نے مشکل الآثار (6155) اور امام طبرانی رحمہ اللہ نے المعجم الکبیر (1280) میں نقل کیا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔

(5) صحیح البخاری ،کتاب الاکراہ ،باب من اختار الضرب والقتل والھوان علی الکفر ،حدیث نمبر : 6943,

(6) رواہ ابوداود ،کتاب الملاحم ،باب ما یذکر فی قرن المأۃ ،حدیث نمبر : 4291, وصححہ الألبانی رحمہ اللہ

(7) صحیح بخاری ،کتاب المناقب ،باب علامات النبوۃ فی الاسلام ،حدیث نمبر : 3593, صحیح مسلم ،کتاب الفتن ،باب لا تقوم الساعۃ حتی یمر الرجل بقبر الرجل فیتمنی أن یکون مکان المیت من البلاء ،حدیث نمبر : 2922,

(8) سنن ترمذي ،کتاب صفۃ القیامۃ ،حدیث :2516،المعجم الکبیر للطبرانی 11/123 حدیث نمبر : 11243



afrozgulri@gmail.com

18/03/2019
(جاری)


Sent from my TA-1053 using Tapatalk
 

afrozgulri

مبتدی
شمولیت
جون 23، 2019
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
17
تحریر : افروز عالم ذکراللہ سلفی گلری،ممبرا ، ممبئی

تمام تعریف اللہ رب العالمین کے لیے ہے جو زمین میں تباہی ،فتنہ و فساد کو پسند نہیں کرتا ،نہ ہی کبروعناد سے راضی ہوتا ہے ۔دلوں کے اندر پوشیدہ باتیں اس پر مخفی نہیں ۔وہ ذات آزمائشوں کے بقدر اجر بھی عطا کرتا ہے یہ اس کا بھت بڑا فضل و احسان ہے۔

فتح ونصرت کے اسباب وعوامل :

پانچواں سبب : تقویٰ و صبر

مومنوں کو ہمہ وقت تقوی' وصبر کا دامن تھامے رکھنا چاہیے اگر ہمارے اندر صبر و تقویٰ کا جذبہ ہوگا تو ہمارے دشمنان ہمیں نقصان نہیں پہونچاسکتے ہیں ۔

فرمان الٰہی " وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا ۗ إِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ "(سورة آل عمران : 120)

تم اگر صبر اور پرہیز گاری سے کام لو تو ان کا مکر تمہیں کچھ نقصان نہ دے گا ۔

اگر ہدایت وبرکت حاصل کرنی ہے ،امامت وقیادت حاصل کرنی ہے تو یہ امامت صبر و تقویٰ اور یقین کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے " وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ "
(سورة السجدة :24).

اور جب ان لوگوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ دین میں امامت و قیادت ،کامیابی و کامرانی صبر اور یقین سے حاصل ہوتی ہے ۔
(رسالۃ ابن القیم الی احد اخوانہ ص: 14,13)۔

اللہ تعالیٰ نے صبر اور یقین کو ایک ساتھ ذکر کیا کیونکہ یہ دونوں چیزیں بندے کی سعادت اور خیر و بھلائی کا سبب ہیں ۔بندہ صبر کے ذریعے شہوات کو اور یقین کے ذریعے شکوک وشبہات کو دور کرتا ہے۔

(اقتضاء الصراط المستقیم لشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ 120/1)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کی اہمیت وفضیلت کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالی کی مدد صبر سے وابستہ ہے اور تکالیف کے بعد خوشحالی آیا کرتی ہے ۔اور تنگی کے بعد آسانی بھی ہوتی ہے۔

اسی طرح فرمایا : " وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۖ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَىٰ عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُوا ۖ وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَمَا كَانُوا يَعْرِشُونَ "(سورۃ الأعراف :137)

اور جو لوگ کمزور سمجھے جاتے تھے ان کو زمین (شام) کے مشرق ومغرب کا جس میں ہم نے برکت دی تھی وارث کردیا اور بنی اسرائیل کے بارے میں ان کے صبر کی وجہ سے تمہارے پروردگار کا وعدہٴ نیک پورا ہوا اور فرعون اور قوم فرعون جو (محل) بناتے اور (انگور کے باغ) جو چھتریوں پر چڑھاتے تھے سب کو ہم نے تباہ کردیا۔

مدد یہ صبر کے ساتھ ہے سختی کے بعد آسانی ہے صبر و نماز کے ذریعے مدد حاصل کرنا دشمنوں سے بچنے کا بہترین علاج ہے ۔
واعلم أن النصر مع الصبر، وأن الفرج مع الكرب، وأن مع العسر يسراً }.
[رواه الترمذي:2516 وقال: حديث حسن صحيح].

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ "

"اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد لیا کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
(سورۃ البقرۃ : 153)

اور فرمایا:

" لتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا ۚ وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ "

" (اے اہل ایمان) تمہارے مال و جان میں تمہاری آزمائش کی جائے گی۔ اور تم اہل کتاب سے اور ان لوگوں سے جو مشرک ہیں بہت سی ایذا کی باتیں سنو گے۔ اور تم اگر صبر اور پرہیزگاری کرتے رہو گے تو یہ بڑی ہمت کے کام ہیں۔( سورۃ آل عمران : 186)

لہذا کسی موقع پر کوئی امتحان ،آزمائش یا پریشانی ہو تو صبر کرنا اور اللہ تعالٰی سے مدد طلب کرنی چاہئے ۔آخر کار وہ تکلیف اور پریشانی دور ہوجائے گی۔


چھٹا سبب : ایمانی اخوت

امت اسلامی میں اتحاد کی داغ بیل ڈالنے کے سلسلے میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار کو تین بنیادی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

اول : اس زمانہ کے عربی معاشرہ کے حالات کی جستجو، اورضروری زمینہ سازی کیلئے ”سیاسی“ اسباب کا استعمال۔

دوم : تمام مسلمانوں کو امت واحدہ کے پیرایہ میں ڈھالنے کے لئے مسلمانوں کی فکری بالیدگی اور فہم کی ارتقائی فضاء کو ایجاد کرنا۔

سوم : پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ان طریقوں کو اپنانا جن کو آپ اسلامی اتحاد کے قائم کرنے میں وسیلے کے طور پر استعمال کرتے تھے۔

ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

ہمیں چاہیے کہ ہم سب مسلمان ظلم ، تجاوز، فتنہ اور فساد کے مقابلہ میں ایک دوسرے کے ساتھ متحد رہیں ۔

کوئی بھی مومن تمام مومنین کی مرضی کے خلاف صلح نہیں کرے اور صلح ہو تو سب کے لئے جاری ہو۔

”ذمةاللہ“ (اللہ کی ذمہ داری) میں سب لوگ برابر کے شریک ہوں ۔

اگر مسلمانوں میں کوئی اختلاف ہوجائے تو اس کو اللہ تعالیٰ اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں حل کریں۔

جو شخص مقروض ہو یا اس کا قرض زیادہ ہو تو مسلمان اس کو اکیلا نہیں چھوڑیں بلکہ اس کی مدد کریں ۔
جس کی طرف توجہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں پر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) وحدت قومی کو قائم کرنا چاہتے ہیں:

اور ایک ملت کی طرح زندگی بسر کریں گے اور ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے دین پرقائم ہوگا۔

جن لوگوں سے عہد و پیمان ہو ان کی مدد کی جائے گی اور جب مسلمان ان کو مصالحت کی دعوت دیں تو قبول کرنا ہوگا۔

بہر حال ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دینی اور قومی حساسیت کو ایجاد کرنے کیلئے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بتائے ہوئے بہترین طریقوں کو اسلامی اتحاد قائم کرنے کیلئے موثرترین طریقوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اس کے بعد بھی مسلمانوں میں ایمانی اتحاد کو محکم کرنے کیلئے ہمیشہ اس موضوع کی تاکید فرمائی۔
دینی حس کوبیدار کرکے اور مومنین کے درمیان مذہبی ہمبستگی پیدا کی ۔

اجتماعی نظام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ میں داخل ہونے کے بعدسب سے پہلے اسلامی اتحاد کو ایجاد کرنے کیلئے جو اہم کام انجام دیا وہ مسلمانوں(مرد اور عورتوں) کے درمیان عقد مواخات تھا:

جس کو شاعر اس طرح بیان کرتا ہے:

دو قبیلہ اوس و خزرج جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسہ تھے

اسلام اور پیغمبر اکرم کی وجہ سے ان کی قدیمی دشمنی ختم ہوگئ

اور وہ آپس میں اس طرح بھائی بھائی ہوگئے جس طرح
ایک انگور کے خوشہ کے تمام انگورہوتے ہیں۔

اور وہ ”المومنون اخوة“ کے نعرہ سے ایک جان کی طرح ہوگئے۔

یہ عقد اخوت صرف قومی اورخاندانی تعصبات کی نفی کی بنیاد پر تھا بلکہ حق و حقیقت کے محور اورایک دوسرے کا ہاتھ بٹانے کی وجہ سے تھا:

”انما المومنون اخوة فاصلحوا بین اخویکم واتقوا اللہ لعلکم ترحمون“ (سورہ حجرات آیت ۱۰)۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ایک مہاجر اور ایک مدینہ کے رہنے والے شخص کے درمیان عقد اخوت قائم کیا ۔

بہرحال آپ کا یہ مدبرانہ ارادہ اس زمانہ کے معاشرہ میں محبت و الفت قائم کرنے کیلئے کارآمد ترین وسیلہ ثابت ہوا جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی اجتماعی تعلقات کو ایجاد کرنے کی کوششوں کو ایمان اور خدا محوری کی بنیاد پر آشکار کرتا ہے۔

پیغمبرا کرم(صلی اللہ علیہ وسلم) کے مطلوب معاشرہ سے مراد ایسا نظام ہے کہ جس کے تمام اعضاء توحیدپرست اور ایک دوسرے کے بھائی ہوں۔ اور یہ تمام موظف ہیں کہ اس مواخاة کو باقی رکھیں تاکہ عزیز و حکیم خدا بھی اپنی قدرت کے ذریعہ الفت، محبت اور وحدت کی راہ کو ہموار کردے اور اس طرح سماجی سمجھوتے کی بنیادیں محکم ہوجائیں۔

دیانت کے محور و ملاک اور ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارگی سے دوچار ہیں اور مکلف ہیں کہ اس کو ہمیشہ قائم رکھیں تاکہ خداوند عالم بھی ان کے دلوں میں الفت ومحبت اور وحدت کو(اپنی قدرت سے) مستحکم کردے اور اس طرح اسلامی معاشرہ کی اجتماعی سوچ و فکر محکم ہوجائے:

"وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ۚ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ "(سورۃ الانفال :63)

آیات الہی کے پیش نظر ، اجتماعی الفت کے قائم ہوئے بغیرمعاشرہ کی بات نہیں کی جاسکتی،
دوسرے یہ کہ اس امر کو محقق کرنا صرف خدا کے ہاتھ میں ہے۔

تیسرے یہ کہ مومنین بھی اس بات پر قادر ہیں کہ اجتماعی وحدت کے مقدمات کو فراہم کریں۔

قبائل کے درمیان بھائی چارگی پیدا کرنے کے لئے خدائے پاک کا سچا کلام کتنا واضح ہے :

”․․وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّـٰهِ جَـمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ۚ وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّـٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُـمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُـمْ بِنِعْمَتِهٓ ٖ اِخْوَانًاۚ وَكُنْتُـمْ عَلٰى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْـهَا ۗ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّـٰهُ لَكُمْ اٰيَاتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ"

اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی، اس طرح تم پر اللہ اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ․“۔ (سورہ آل عمران، آیت ۱۰۳)۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی آرزوؤں والا معاشرہ جس میں اخوت و برادری کی لہرموجیں مار رہی ہے ، یہ ایسا معاشرہ تھا جو کفر پر شدت اور ایمان پر رحمت کے معیار پر قائم تھا یعنی

”مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاء عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا "(سورہ محمد:29)

محمد (ﷺ) اﷲ کے رسول ہیں ، اور جو لوگ اُن کے ساتھ ہیں ، وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں ، (اور) آپس میں ایک دوسرے کیلئے رحم دل ہیں ۔ تم اُنہیں دیکھوگے کہ کبھی رُکوع میں ہیں ، کبھی سجدے میں ، (غرض) اﷲ کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں ۔ اُن کی علامتیں سجدے کے اثر سے اُن کے چہرو ں پر نمایاں ہیں ۔ یہ ہیں اُن کے وہ اوصاف جو تورات میں مذکور ہیں ۔ اور اِنجیل میں اُن کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک کھیتی ہو جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اُس کو مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوگئی، پھر اپنے تنے پر اس طرح سیدھی کھڑی ہوگئی کہ کاشتکار اُس سے خوش ہوتے ہیں ، تاکہ اﷲ ان (کی اس ترقی) سے کافروں کا دل جلائے۔ یہ لوگ جو ایمان لائے ہیں ، اور انہوں نے نیک عمل کئے ہیں ، اﷲ نے ان سے مغفرت اور زبردست ثواب کا وعدہ کر لیا ہے

آیت ۲۹ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ اَشِدَّآء عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآء بَیْنَہُمْ : ’’محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو ان کے ساتھ ہیں‘ وہ کافروں پر بہت بھاری اور آپس میں بہت رحم دل ہیں‘‘

آیت کے اس ٹکڑے کا ترجمہ دو طرح سے کیا جاتا ہے۔ اگر پہلا فقرہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پر مکمل کر دیا جائے اور وَالَّذِیْنَ سے دوسرا فقرہ شروع کیا جائے تو آیت کا مفہوم وہی ہو گا جو اوپر ترجمے میں اختیار کیا گیا ہے۔ یعنی یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو ان کے ساتھی ہیں وہ کفار پر بہت بھاری اور آپس میں بہت رحم دل ہیں۔ لیکن اگر پہلے فقرے کو وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ تک پڑھا جائے تو اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ کے رسول محمد اور آپؐ کے ساتھی ایک وحدت اور ایک جماعت ہیں۔ اس طرح دوسرے فقرے میں بیان کی گئی دو خصوصیات اس جماعت کی خصوصیات قرار پائیں گی۔ یعنی اللہ کے رسول اور آپؐ کے ساتھی کفار پر بہت بھاری اور آپس میں بہت شفیق و مہربان ہیں۔

اہل ایمان کی اس شان کا ذکر زیر مطالعہ آیت کے علاوہ سورۃ المائدۃ آیت54/ میں بھی ہوا ہے۔ وہاں مؤمنین صادقین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا: " اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ. ’’وہ اہل ایمان کے حق میں بہت نرم ہوں گے‘کافروں پر بہت بھاری ہوں گے‘‘۔

علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں اسی مضمون کی ترجمانی کی ہے:

ہو حلقہ ٔ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مؤمن!

ایسا معاشرہ جس کے تمام افراد ایک وحدت بخش ارتباط کے ذریعہ ایک دوسرے کے ساتھ پائیدار ہیں اور ان کے ایمان کی مذہبی روح ان کی روح میں بس گئی ہے:

تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں " إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ "
(سورۃ الحجرات : 10)

بے شک مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں سو اپنے بھائیوں میں صلح کرادو، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

مومنین کو آپس میں جسد واحد کی طرح ہونی چاہیے

" عَن النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ( مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ؛ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى ).

(صحيح البخاري، برقم: (6011)، وصحيح مسلم، برقم: (2586), واللفظ له.)

ترجمہ: ’’باہمی محبت اور رحم و شفقت میں تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں، جب انسان کے کسی عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے جسم کے تمام اعضاء بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔‘‘

حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان ایک جسم کے مانند ہیں اور ایک جسم کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ جسم کے ایک حصے میں اگر درد ہو تو سارا جسم اس درد کو محسوس کرتا ہے اور اس درد کو دور کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور جو کچھ اختیار میں ہوتا ہے وہ کرتا ہے، یہی حالت ہماری اپنے مسلمان بھائیوں کے بارے میں ہونی چاہیے، کیونکہ ساری دنیا کے مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ دنیا کے کسی حصے میں، کسی کونے میں مسلمانوں پر کوئی تکلیف آئے تو یوں سمجھیں کہ گویا ہم پر تکلیف آگئی ہے۔ ہمارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں ان کی تکلیف کا احساس ہونا چاہیے، ایسے موقع پر مسلمانوں کی تکلیف کا احساس ہونا اور ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنا یہ ہمارے ایمان کے زندہ ہونے کی علامت ہے۔

آج ملکِ شام اور دیگر مسلم ممالک یا جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر قیامت گزرتی ہے اس کی ایک المناک اور دردناک داستان ہے، جس کے نتیجہ میں بے شمار مسلمان شہید ہوگئے۔
ان عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوگئے اور کتنے لوگ زخمی ہوگئے اور اُن کے گھر تباہ ہوگئے ا کتنے بے گھر ہوگئے۔ کتنے لوگ ہیں جو کل تک مالدار تھے آج فقیر ہوگئے اور خیموں اور کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

اس صورت حال میں ہر مسلمان کو ان کی تکلیف کا احساس ہونا چاہیے اور عالَم کے مسلمانوں کو حسبِ استطاعت ان کی مدد کرنی چاہیے،

پہلا کام: مظلوم مسلمانوں کے حق میں دعا کریں:

ہر مسلمان کو چاہیے کہ اپنے مظلوم مسلمانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ دعائیں کریں کہ اللہ تعالی مظلوم مسلمانوں کی مدد فرمائے اور انہیں اس مصیبت سے نجات عطا فرمائے۔ اللہ تعالی قادرِ مطلق ہیں، جو کچھ ہورہا ہے ان کی مرضی اور حکم سے ہورہا ہے، وہ حالات بدلنے پر قادر ہیں، اس لیے اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
یہ عمل بہت ہی مفید ہے، کیونکہ دعا کسی بھی صورت میں ضائع نہیں ہوتی، بشرطیکہ آداب اور شرائط کی رعایت کے ساتھ کی جائے اور یہ عمل بہت آسان بھی ہے، ہر عام و خاص، امیر و غریب کرسکتا ہے اور آسان ہونے کے باوجود اللہ تعالی کے نزدیک بہت ہی اونچا عمل ہے اور حدیث شریف میں دعا کو مومن کا ہتھیار اور ہر مصیبت اور مشکل سے نجات دینے والی عبادت فرمایا گیا ہے۔

دوسرا کام: اپنی مالی حیثیت کے مطابق مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنا بھی ضروری ہے۔

دوسرا کام جو ہمیں کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو اللہ تعالی کے دیئے ہوئے مال سے اپنی حیثیت کے مطابق ان متأثرین کی مدد کرنی چاہیے، جو اس وقت بیچارے بے کسی کے عالم میں ہیں اور محتاج ہیں، انہیں مدد کی ضرورت ہے اور کسی ضرورت مند مسلمان کی مدد کرنا بہت بڑے ثواب کا کام ہے اور اگر اس میں کوئی اجر و ثواب نہ ہوتا تب بھی انسان اور مسلمان ہونے کے ناتے ان کا ہمارے اوپر حق ہے کہ ہم ان کی مدد کریں اور ان کے ساتھ ہمدردی کریں۔

لیکن اللہ تبارک و تعالی کا خاص فضل ہے کہ اس نے اس حق کی ادائیگی میں بھی ہمارے لیے بے شمار انعامات رکھے ہیں، احادیث طیبہ میں مسلمانوں کی مدد کرنے کے بڑے فضائل آئے ہیں اور بڑا اجر و ثواب بیان ہوا ہے، چند احادیث ملاحظہ ہوں:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:

عن ابن عمر -رضي الله عنهما- أن رسول الله ﷺ قال: " المسلم أخو المسلم، لا يظلمه، ولا يسلمه، من كان في حاجة أخيه، كان الله في حاجته، ومن فرج عن مسلم كربة، فرج الله عنه بها كربة من كرب يوم القيامة، ومن ستر مسلما ستره الله يوم القيامة"

( أخرجه البخاري، كتاب المظالم والغصب، باب: لا يظلم المسلم المسلم ولا يسلمه (3/ 128)، برقم:2442 )

"المسلم اخو المسلم"
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر زیادتی کرتا ہے، نہ اس کو اوروں کے سپرد کرتا ہے۔ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں لگتا ہے اللہ پاک اس کی ضرورتیں پوری فرماتے ہیں اور جو کوئی کسی مسلمان کی مصیبت دور کرتا ہے اللہ پاک اس سے قیامت کے دن کی مصیبتیں دور فرمائیں گے اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ پاک قیامت کے روز اُس کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔‘‘

کے تحت مومنین کو اکھٹا ہوکر اتحاد کا دامن تھام کر کافروں کو دندان شکن جواب دینا چاہیے۔

لیکن آج امت کا شیرازہ بکھر چکا ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمان غیر تو غیر اپنوں میں بھی کٹ مر رہے ہیں ایک ہی کلاس ،ایک ہی جماعت ،ایک ہی ہی طرح کے مدارس کے اندر سب طلبہ یا مدرسین کے اندر اتفاق نہیں پیدا ہوتا ہے تو ایسے لوگ پوری امت مسلمہ کو اتحاد کی دعوت کیسے دے سکتے ہیں ؟

ضرورت ہے ایک پلیٹ فارم پر آنے کی ورنہ یہی حالت رہی تو رفتہ رفتہ پورے مسلمان چن چن کر ختم کردیے جائیں گے اور کافروں کا غلبہ ہوگا ۔اعاذنا اللہ منھا ۔واللہ ولی التوفیق ۔

ساتواں سبب : تجربہ کار لوگوں سے مشورہ لینا '

کامیابی کی راہ میں باہمی مشورہ کا بڑا دخل ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام مومنین کے لیے یہ ربانی وصیت ہے۔

" فَبِمَا رَحۡمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنۡتَ لَهُمۡۚ وَلَوۡ كُنۡتَ فَظًّا غَلِيۡظَ الۡقَلۡبِ لَانْفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِكَ فَاعۡفُ عَنۡهُمۡ وَاسۡتَغۡفِرۡ لَهُمۡ وَشَاوِرۡهُمۡ فِى الۡاَمۡرِۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَكَّلۡ عَلَى اللّٰهِؕ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُتَوَكِّلِيۡنَ‏ ﴿
(سورۃ آل عمران : 159)

اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بدزبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے ،سو آپ ان سے درگزر کریں اور ان کے لیے استغفار کریں اور ان سے اپنے کام میں مشورہ کیا کریں ۔

امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس قوم نے بھی مشورہ لیا تو انھیں بہترین امور کی رہنمائی کی گئی۔
(تفسیر القرطبی 37/16)۔

اسلام میں مشورہ

اس میں کسی بحث کی ضرورت نھیں کہ مشورہ کے ذریعہ بھت سی انفرادی و اجتماعی مشکلات حل ھوتی ھیں۔دو فکروں کا ٹکراو گویا بجلی کے دو مثبت ومنفی تاروں کے ٹکرانے کے مانند ھے جس سے روشنی پیدا ھوتی ھے اور انسان کی زندگی کی راہ روشن ھوجاتی ھے۔

مشورہ مشکلات کے حل کے لئے اس قدر اھم ھے کہ قرآن کریم پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کوحکم دیتاھے کہ زندگی کے مختلف امور میں مشورہ کرو۔چنانچہ فرماتاھے:

”وشاورھم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللہان اللہےحب المتوکلین“ (سورہ آل عمران: 159)

یعنی اپنے فیصلوں میں ان سے مشورہ کرو اور جب فیصلہ کرلو توخدا پر بھروسہ کرو۔بلا شبھہ خدا توکل کرنے والوں کو دوست رکھتا ھے ۔

خداوند عالم ایک دوسری آیت میں صاحبان ایمان کی یوں تعریف کرتاھے:

”والذین استجابوالربھم واقامواالصلوٰةوامرھم شوریٰ بینھم ومما رزقناھم ینفقون“ (سورہ شوری':38)

یعنی جو لوگ اپنے خدا کی آواز پر لبیک کھتے ھیںاورنمازقائم کرتے ھیںاوران کے فیصلوںاور کاموں کی بنیادان کاآپسی مشورہ ھے اورجوکچہ خداانھیںرزق دیتاھے اس میں سے انفاق کرتے ھیں۔

لھٰذا ھم دیکھتے ھیں کہ عقل اور نقل دونوں نے مشورہ کی اھمیت کو واضح کیا ھے اور کیا اچھا ھو کہ مسلمان اسلام کے اس عظیم دستور کی پیروی کریں جس میں ان کی سعادت وخوشبختی اور سماج کی ترقی پوشیدہ ھے۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نہ صرف لوگوں کو یہ روش اپنانے کاحکم دیتے تھے بلکہ آپ نے اپنی زندگی میں خود بھی خدا کے اس فرمان پر عمل کیاھے ۔جنگ میں جبکہ ابھی دشمن کاسامنا نھیں ھواتھا ،بدر کے صحرا میں آگے بڑھنے اور دشمن سے مقابلہ کے سلسلہ میں آپ نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا اور ان سے فرمایا :

”اشیروا الیّ ایھا الناس“قریش سے جنگ کے سلسلہ میں تم لوگ اپنا نظریہ بیان کروکہ ھم لوگ آگے بڑھکر دشمن سے جنگ کریں یا یہیں سے واپس ھوجائیں ؟

مہاجرین وانصار کی اھم شخصیتوں نے دو الگ الگ اور متضاد مشورے دیئے لیکن آخر کار پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے انصار کا مشورہ قبول کیا۔

اُحد کی جنگ میں بڑے بوڑھے لوگ قلعہ بندی اور مدینہ میں ھی ٹھھرنے کے طرفدار تھے تاکہ برجوں اور مکانوں کی چھتوں سے دشمن پر تیر اندازی اور پھتروں کی بارش کرکے شھر کا دفاع کریں،جبکہ جوان اس بات کے طرفدار تھے کہ شھر سے باھر نکل کر جنگ کریں اور بوڑھوں کے نظریہ کو زنانہ روش سے تعبیر کرتے تھے ۔یھاں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے دوسرے نظریہ کو اپنایا ۔

جنگ خندق میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ایک فوجی کمیٹی تشکیل دی اور مدینہ کے حساس علاقوں کے گرد خندق کھودنے کا جناب سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا مشورہ قبول کیا اور اس پر عمل کیا ۔

طائف کی جنگ میں لشکر کے بعض سرداروں کے مشورہ پرفوج کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا۔

لیکن اس بات پر توجہ ھونی چاھئے کہ کیا صرف مشور ہ اور تبادلہٴ خیالات ھی مشکلات کاحل ھے یا یہ کہ پھلے عقل وفکر کے اعتبار سے بانفوذ مرکزی شخصیت جلسہ تشکیل دے اور تمام آراء کے در میان سے ایک ایسی رائے منتخب کرے اور اس پر عمل کرے جو اس کی نظر میںبھی حقیقت سےقریب ھو۔

معمولاً مشوروں کے جلسوں میں مختلف افکارونظریات پیش کئے جاتے ھیں اور ھرشخص اپنے نظریہ کا دفاع کرتے ھوئے دوسروں کی آرا ء کو ناقص بتاتا ھے ۔ایسے جلسہ میں ایک مسلم الثبوت رئیس و مرکزی شخص کا وجود ضروری ھے ،جو تمام لوگوں کی رائے سنے اور ان میں سے ایک قطعی رائے منتخب کرے۔ورنہ دوسری صورت میں مشورہ کا جلسہ کسی نتیجہ کے بغیر ھی ختم ھو جائے گا۔

اتفاق سے وہ پھلی ہی آیت جو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو اپنے ساتھیوں سے مشورہ کا حکم دیتی ھے مشورہ کے بعد سے یوں خطاب کرتی ھے :

”فاذا عزمت فتوکل علی اللہ “ پس جب تم فیصلہ کر لو تو خداپر بھروسہ کرو ۔

اس خطاب سے مراد یہ ھے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ مشورہ کے بعد فیصلہ کرنے والی مرکز ی شخصیت خود پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی ذات ھے لھٰذاپیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو ھی فیصلہ کرنا اور خدا پر بھروسہ کرنا چاھئے۔

جمعیت کا پیشوا و رہبر ،جس کے حکم سے مشورہ کاجلسہ تشکیل پاتا ہے ممکن ہے کہ لوگوں کے درمیان کسی تیسرے نظریہ کو اپنائے جو اس کی نظر میں ”اصلح “ یعنی زیادہ بھتر ھو۔

جیسا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے صلح حدیبیہ کے موقع پر اپنے اصحاب کے عمومی خیالات کی مخالفت کی اور مسلمانوں اور قریش کے بت پرستوں کے درمیان صلح کی قرار داد باندھی اور خود صلح یا صلح نامہ کے بعض پہلووٴں سے متعلق اپنے اصحاب کے اعتراضات پر کان نہیں دیئے اور زمانہ نے یہ بات ثابت کردی کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں مفید تھا ۔

نوواں سبب : اللہ تعالیٰ سے مدد کی پوری امید

مدد اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوتی ہے ۔
"وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (سورہ انفال :10)۔

اور فرمایا:

"وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ "
سورۃ آل عمران : 126)

بطور تفضل و احسان اللہ تعالیٰ نے یہ چیز اپنے اوپر واجب کرلی ہے مومنوں پر اپنی مدد ونصرت اور کافروں پر ان کا غلبہ ہوگا ۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے اندر ذکر کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ کا یہ حکم بدل نہیں سکتا وہ ہمیشہ ایمان والوں کا مددگار رہا ہے اور اچھا انجام مومنوں کے لیے ہے ۔

فرمایا :

" وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ رُسُلًا إِلَىٰ قَوْمِهِمْ فَجَاءُوهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَانتَقَمْنَا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا ۖ وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ "
(سورۃ روم : 47)

" إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ"(سورۃ المؤمن : 51)

کافروں پر غلبہ انھیں کا ہوگا ہلاکت ان کا مقدر ہے ۔

" كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي ۚ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ (سورۃ المجادلۃ : 21)"

اللہ تعالیٰ کی مدد کی وجہ سے دین کے اندر ثابت قدمی ہوتی ہے ۔
(الثبات علی دین اللہ :780/2)

یہ مدد صرف دنیا ہی میں نہیں بلکہ دنیا وآخرت دونوں میں ہے ۔(تفسیر المراغی :118/4)

بہت ساری تہذیبیں مٹ گئیں ،ہلاک و برباد ہوگئیں ،مختلف قوموں کا وجود ختم ہوگیا وہ صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیے گئے یہ اللہ تعالیٰ کی سنت رہی ہے ۔

" إِن يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهُ ۚ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَاءَ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ "(سورۃ آل عمران : 140)

یہ ایام ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں ۔

زمانہ کتنا بھی گزر جائے مدد ونصرت امت اسلامیہ ہی کے لیے ہے۔

فرمایا:

" وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ ، إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنصُورُونَ ، وَإِنَّ جُندَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ ،
(الصافات : 171-173)۔

امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے " وان جندنا لھم الغالبون " کی تفسیر میں ذکر کیا ہے کہ " وان جندنا لھم الغالبون" یہ وہ لوگ ہیں جن کی دنیا و آخرت میں مدد کی جائے گی اللہ تعالیٰ نے کافروں کو ہلاک کیا مومنوں کو نجات دی اور مومنوں کے لیے اچھا انجام ہے ۔
(تفسیر ابن کثیر : 30/4)۔

یہ سنت الٰہی ہمیشہ سے چلی آرہی ہے۔

" فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ ۚ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا "
(سورۃ فاطر : 43)

اللہ تعالیٰ سے مدد کی پوری امید ہونی چاہیے ۔

" وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ "
(سورۃ آل عمران: 139)۔

یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب مسلمان غزوۂ احد سے لوٹ رہے تھے ستر صحابہ مقتول ہوچکے تھے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنی مدد کا وعدہ کیا کہ اگر ایمانی قوت مضبوط ہے تو غالب وکامران ہوگے ۔
اس کے بعد سے مومنین نے تمام غزوات فتح کیے ۔
لھذا ہر داعی الی اللہ کو بھی اللہ تعالیٰ سے مدد کی پوری امید ہونی چاہیے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین یا رب العالمین

(جاری)
afrozgulri@gmail.com
14/07/2019
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2389242957970769&id=100006552645719


Sent from my TA-1053 using Tapatalk
 

afrozgulri

مبتدی
شمولیت
جون 23، 2019
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
17
تحریر : افروز عالم ذکراللہ سلفی گلری،ممبرا ، ممبئی

تمام تعریف اللہ رب العالمین کے لیے ہے جو زمین میں تباہی ،فتنہ و فساد کو پسند نہیں کرتا ،نہ ہی کبروعناد سے راضی ہوتا ہے ۔دلوں کے اندر پوشیدہ باتیں اس پر مخفی نہیں ۔وہ ذات آزمائشوں کے بقدر اجر بھی عطا کرتا ہے یہ اس کا بھت بڑا فضل و احسان ہے۔

فتح ونصرت پانے کے اسباب:

دسواں سبب : بہترین قیادت

قیادت کا مفہوم :

چندخصوصیات ایسی ہیں جو انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز ونمایاں کرتی ہیں جن میں لیڈرشپ "leadership" (قیادت ) بھی شامل ہے۔

قیادت کا بنیادی مقصد انسانوں کی درست رہنمائی اور ان کے مسائل کا آسان حل فراہم کرنا ہوتا ہے۔باشعور،باصلاحیت اور دیانت دار قیادت نہ صرف انسانی مسائل کے حل میں ہمیشہ مستعدد و سرگرم رہتی ہے بلکہ معاشرے کی خوشحالی امن اور ترقی میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

قیادت متعین مقاصد کے حصول کے لئے عوام کو بلاجبر و اکراہ ایک طئے شدہ سمت پر گامزن کرنے کانام ہے۔تاثیر و کردار کے مجموعہ کوقیادت کہتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر جہت سے مسلمانوں کے سرپرست ورہبر تھے ۔

امت کی قیادت ایسے شخص کو دی جائے جو اسے بحسن و خوبی انجام دے سکے ۔قائد ایسا متعین کریں جو تقوی'شعار ،فوجی مہارت کے ساتھ ہی ساتھ تجربہ کار ہو جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے امراء کی تعیین کی تھی ۔

حکومت ، ولایت ، امر بالمعروف معروف و نہی عن المنکر ، دفاع ، قضایا، شہادات ، حدود ، قصاص ، تجارت ، معاملات ، نا بالغوں ، یتیموں اور مجانین کی ولایت ، سماجی اور گھریلو حقوق ، تربیتی اور ثقافتی امور ، اقتصادی مسائل ، زکوٰة ، خمس ، غنائم ، ذمّی اور اھل کتاب کے احکام ، دوسری ملتوں سے امت مسلمہ کے تعلقات ، جنگ و صلح اور اسی طرح کے دوسرے مسائل سب امور میں قرآن کی متعدد آیتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ آنحضرت کی وسیع قیادت ورہبری کی گواہی دیتی ھیں جن میں سے بعض آیتیں ہم یہاں ذکر کرتے ھیں:

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

1۔ "یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِیعُوا اللهَ وَاٴَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْکُم" [النساء: 59]

”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تمہیں میں سے ہیں“۔

2۔ ” النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ “(الاحزاب:06)

پیغمبر مومنوں (کی جان ومال )پر ان سے زیادہ سزاوار ہے۔

اس وسیع وعریض قیادت ورہبری کاایک پہلو اسلامی سماج میں عدالت قائم کرنا ھے ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ میں اپنے قیام کے دوران خود یامدینہ سے باہر دوسروں کے ذریعہ سماج میں عدالت برقرار کرتے تھے ۔

قرآن مسلمانوں کو حکم دیتاھے کہ اپنے معاملات اور اختلافات میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فیصلوں کو بلا چوں وچرا تسلیم کریں:

” فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (النساء: 65)۔

(تمہارے پروردگار کی قسم وہ لوگ ہرگز مومن واقعی شمار نہیں ہوں گے جب تک وہ اپنے اختلاف میں تمہیں حَکَم اور قاضی قرار نہ دیں اوراس پر ذرا بھی ملول نہ ہوں اور تمھارے فیصلہ پر مکمل تسلیم ہوں)۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و
آلہ وسلم کی سماجی رہبری کاایک پہلو اسلام کے مالی واقتصادی امور کو مستحکم و مضبوط کرناتھا کہ ٓانحضرت اپنی حیات میں ان کاموں کوانجام دیتے تھے۔
قرآن مجید نے ان الفاظ میں آپ کوخطاب کیاھے۔

"خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ "(سورۃ التوبہ:103)

ان کے اموال میں سے زکات لو اور اس طرح انھیں پاک کرو۔

دوسری آیات میں زکات اور ٹیکس کی مقدار اور ان کے مصارف کا بھی پوری باریکی کےساتھ ذکر کیا گیاہے۔

ان آیات کے معانی،ان کی وضاحت کرنے والی روایات اور خود آنحضرت کاطرز عمل یہ بتاتاھے کہ آنحضرت مسلمانوں کے سرپرست ،سماج کے حاکم ،اور ملت وامت کے فرمانروا تھے۔اور جو سماج کامطلق العنان حاکم انجام دیتا ھے وہ انجام دیتے تھے ۔

قائد سے مراد :

قائد سے مراد ایک ایساشخص ہوتا ہے جب اسے کوئی ذمہ داری یا عہدہ عطا کیا جائے تووہ اسے اپنے منصب کے شایان شان انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

قیادت کوئی آسان اور معمولی کام نہیں ہے کہ جس کی انجام دہی کی ہر کس و ناکس سے توقع کی جائے۔قیادت کاہردم اندرونی و بیرونی چیلنجز سے سامنا ہوتا رہتا ہے ۔ ان چیلنجز سے عہدہ براں ہوکر ہی قیادت اعتماد ،استحکام اور قبولیت کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔گوناں گوں مسائل اور چیلنجز کے باعث قیادت کی باگ ڈور ہمیشہ اہل افراد کے ہاتھوں میں ہونا بے حد ضروری ہے۔ معاشرے کو درپیش تمام مسائل کا حل ایک فرد واحد سے خواہ وہ کتنی ہی اعلیٰ صلاحیت و کردار کا حامل کیوں نہ ہو ممکن نہیں ہے ۔اکیلے انسان کاقیادت کی ذمہ داریوں سے عہدہ براں ہونا بھی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔

آج ہم قیادت کا مطلب کسی فرد واحد کی آمریت کو سمجھ بیٹھے ہیں جو کہ اسلامی تعلیمات اور اصولوں کے عین مغائر ہیں۔فکری جمود اور رواجی ذہن کی وجہ سے عوام ایک فرد واحد کو اپنا لیڈر اور نجات دہندہ مان کر اسی سے اپنے مقاصد و مسائل کے حل کی توقعات وابستہ کر تے ہوئے نقصان سے دوچار ہیں۔آمریت پسند فرد واحد کی قیادت اپنی ذات کو حقیقی قیادت کے طور پر پیش کرتے ہوئے عوام کودھوکادیتی ہے۔دلفریب نعروں سے یہ قیادت اپنے مفادات کے حصول میں جٹی رہتی ہے اور عوام ان نعروں کی گونج میں اجتماعیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شخصیت کے سحر میں گرفتارہوجاتے ہیں۔

مسلمانوں کا یہ المیہ ہے کہ ان کا شخصیات کی آڑ اور قوم کی خدمت کے نام پر خوب استحصال ہوا بلکہ کیا جارہاہے لیکن آج تک یہ اپنے استحصال سے بے خبر ہیں۔اس منظر نامے کی تبدیلی کے لئے نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت کی اشد ضرورت ہے ۔

طلبہ میں اخلاص ،شعوری اور استعداد پیدا کرتے ہوئے حقیقی لیڈر شب کوالیٹیز (قائدانہ اوصاف) کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔

بلاشبہ قیادت ایک عظیم الشان اور جلیل القدر منصب ہے۔

قیادت کے احکامات و نظریات کو قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا ۔اگر وہ قرآن و سنت کے اصولوں پر پورے اترتے ہوں تب ہی قابل قبول ا ور واجب العمل ہوں گے ورنہ یکلخت انھیں نامنظور کردیا جائے گا۔
"یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِیعُوا اللهَ وَاٴَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْکُم"
’’اے ایمان والوں ﷲ کی اطاعت کرو اور رسول صلی ﷲ علیہ و سلم کی اور اپنے الوالامر ( صاحبان امر ) کی‘‘ (النساء: 59 )

سورۃ النساء کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ﷲ اور اس کے رسول صلی ﷲ علیہ و سلم کی اطاعت ہی ایک مستقل اطاعت کا درجہ رکھتی ہے۔

اولوالامر کی اطاعت مستقل اطاعت کے درجے میں نہیں آتی بلکہ یہ ﷲ اور رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و سلم(قرآن و سنت کے احکامات) کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے۔

قیادت ( الوالامر) کے احکامات و نظریات قرآن کے قطعی نصوص و احادیث رسول صلی ﷲ علیہ و سلم سے متضاد نہ ہوں ۔

صاحبان امر(قیادت) کے نظریات ، اقوال و اعمال اگر قرآن اور سنت رسول سے ٹکرائیں تب یہ ہرگز لائق اتباع و قابل اطاعت نہیں ہوں گے اور اس کا انکار کرنے والے نہ تو غلطی پر ہوں گے اور نہ ہی باغی۔

اسلامی تعلیما ت کی روشنی میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ گویا قیادت مطلق العنان نہ ہو بلکہ احکامات خداوندی ،سنت رسول کی روشنی میں متقی ،باشعور اور اہل علم افراد کی مشاورت سے خلق خدا کی درست رہنمائی کے فرائض انجام دیتی ہو۔
ﷲ رب العزت نے انسان کے پیکر خاکی میں قیادت و سیادت ،رہنمائی ا ور ہدایت کے ظاہری و باطنی بیش بہا قوتیں ودیعت فرمائی ہیں جن سے انسان کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوا ہے۔

انسان ﷲ کی عطا کردہ ان خوبیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ابتدائے آفرینش سے قیادت و سیادت کے فرائض انجام دے رہا ہے۔اساتذہ اپنے تلامذہ کو،اکابر اپنے اصاغر ،راعی اپنی رعیت ،بڑے اپنے چھوٹوں کو زندگی کے راز ہائے سربستہ اور زندگی بسر کرنے سلیقے و طریقے سکھاتے آئے ہیں اور یہ علم و فن انسانی زندگی کے آغاز سے ہی نسل در نسل منتقل ہوتا چلاآرہا ہے۔ قوم وملت کی قیادت کے فرائض کی انجام دہی کے لئے قیادت کا اولوالعز م ،دوراندیش اور عقابی نگاہ کا حامل ہونا لازمی گردانا گیا ہے۔قیادت کے منصب جلیلہ پر فائز ہونے کے لئے قرآن و سنت کی روشنی میں صراحت کردہ شرائط کی تکمیل لازمی ہے ۔کسی بھی فرد کو اپنا قائد منتخب کرنے سے قبل قرآن و سنت کی بیان کردہ شرائط کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔

یہ بات ہمیں ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ قائد بنے بنائے نازل نہیں ہوتے ہیں بلکہ ان کی صورت گری میں تربیت کا بڑا دخل ہوتا ہے۔

آج انسان کو ایک ایسے قائد و آئیڈیل کی ضرورت ہے جو ز ندگی کے ہرشعبے میں اس کی رہنمائی و رہبری کرسکے جس کی زندگی میں اعتدال و توازن ہو ۔
قائد کے بیان کردہ اصول و قوانین انسانی فطرت کے عین مطابق ہوں۔

قیادت و سیادت پر لکھی گئی ہزاروں کتابوں اور دنیا کی نامور شخصیات کے حالات زندگی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اثر کا دائرہ بہت ہی محدودہے لیکن نبی اکرم صلیﷲ علیہ و سلم کی ذات اقدس کے اثرکا دائرہ بسیط و محیط ہے اور ہر طرح کی زمانی اور مکانی حدود کی قید سے آزادبھی ۔ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کی سیرت اور تعلیم و ہدایت بذات خود ایک زندہ معجزہ ہے۔

قیادت کے لیے ضروری اوصاف:

(1) مخلص ہونا

(2) علم کاہونا

(3) عقل و حکمت سے پر ہونا

(4) امانت و دیانتداری کا حامل ہونا ؛۔

قیادت ایک امانت ہے اور اس کو اہل افراد تک پہنچانا بھی ایک اہم ذمہ داری ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اِنَّ اللّـٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰٓى اَهْلِهَاۙ وَاِذَا حَكَمْتُـمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهٖ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ كَانَ سَـمِيْعًا بَصِيْـرًا (النساء:58)

’’مسلمانوں ﷲ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو،ﷲ تم کو نہایت ہی عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقینا ﷲ سب کچھ دیکھتا ہے۔‘‘

قیادت جب اہل و اعلیٰ صفات افراد تک پہنچتی ہے تو وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکراعلیٰ نصب العین کی جانب گامز ن رہتے ہیں۔

مذکورہ آیت خاندانی اور موروثی حکمرانی وقیادت کے خاتمہ کا اعلان کرتی ہے ۔موروثیت،طاقت ،اثر و رسوخ کے بل پر کوئی قیادت کا دعویدار نہیں ہوگا۔
قائد وہی ہوگا جوقیادت کا اہل ہوگا۔ عوام کی خیر و بہتری کے اقدامات کرنے والے ہوگا۔

(5) عوام میں اعتماد پیدا کرنے سے پہلے قائد کا ﷲ کے بعد اپنی ذات پر کامل یقین و اعتماد ہونا ۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ﷲ کی ذات پر کامل یقین اوراورخود اعتمادی ہی تھی کہ وہ دہکتی آگ کے شعلوں میں کود پڑے اور ان کے پائے استقامت میں ذرہ برابربھی لغزش نہیں آئی۔

بہ زبان علامہ اقبالؒ
بے خطر کود پڑا آتش نمرو د میں عشق
عقل ہے محوئے تماشہ لب بام ابھی

ﷲ پر یقین اور اپنی ذات پر جب اعتما د ہوتو نصرت الہی مدد کے لئے پہنچتی ہے ’’ہم نے فرمایا ؛اے آگ تو ابراہیم (علیہ السلام)پر ٹھنڈی اور سراپا سلامتی ہوجا۔‘‘(الانبیا:69) ۔

(6) اولوالعزمی کا ہونا :

قرآن نے صبر کا ایک ساتھی عزیمت کو قرار دیا ہے۔

"وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ ۖ إِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ" (سورۃ لقمان:17)
’’اور جو بھی مصیبت تمہیں پہنچے ،اس پر صبر کرو،بلاشبہ یہ عزیمت کے کاموں میں سے ہے۔

عزم کے معنی پختہ ارادہ کے ہیں وہ آدمی اولوالعزم ہے، جو کسی مقصد کے لیے ارادہ کرے اور اس پر جم جائے۔ ایسا آدمی جو اپنے مقاصد میں پر عزم ہو اور اس کی نگاہیں اپنی منزل پرجمی ہوں تب وہ راستے کی مشکلات کو خاطر میں لائے بغیر آگے بڑھتا چلاجاتا ہے۔

اس کے برعکس جس کے پاس عزم و ہمت کی کمی ہوگی اس کے ارادے پختہ نہیں ہوں گے اور وہ رئیس المنافقین عبد ﷲ بن ابی کی طرح میدان آزمائش سے بھاگ کھڑاہوگا۔

پست عزم و حوصلے والے کبھی منزل تک نہیں پہنچ پاتے ہیں۔اولوالعز م قیادت مصائب و وسائل کی کمی کاشکوہ کرنے کے بجائے عزیمت سے مشکلات کا سامنا کرتی ہے اور پورے عزم و حوصلے کے ساتھ اپنی منزل کی سمت گامزن رہتی ہے۔

حضرت عمرؓ ابو عبیدہ بن جراح ؓ سے فرماتے ہیں’’فتح امید سے نہیں ،یقین ِمحکم اور خدا پر اعتماد سے حاصل ہوتی ہے۔
‘‘طارق بن زیاد کو جب اندلس کی مہم پر سپہ سالار بنا کر بھیجا گیاساحل سمندر پر پہنچ کر اس نے ایک تاریخی اور حیران کن اقدام کرتے ہوئے اپنی ساری کشتیاں جلادیں اور فوج کے سامنے ایک ولولہ انگیز تقریر کی کہ’’ہم لو گ یہاں ﷲ کے پیغام کو عام کرنے اور اس کی حکومت قائم کرنے کے لئے آئے ہیں اب ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوئیں گے یا پھر اپنی جانیں جان آفریں کے حوالے کردیں گے لیکن ﷲ کی حکومت قائم کیئے بغیر نہیں لوٹیں گے‘‘۔یہ طارق کی اولوالعزمی ہی تھی کہ پوری فوج میں ایک ولولہ پیدا ہوگیا اور انھوں نے اندلس کو فتح کرلیا۔

(7)اعتدال اختیار کرنا ؛۔

ہر کام کو عمدگی سے انجام دینے کے لئے اعتدال و توازن کی ضرورت ہوتی ہے۔اسلا م زندگی کے ہرشعبے میں ہمیں اعتدال کی راہ اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔

ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے"وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا ’’
اور ہم نے تمیں امت وسط بنا یا ہے۔‘‘
(سورہ البقرہ :143)

ﷲ رب العز ت نہ صرف امت کے ہر فرد کو اپنی زندگی میں اعتدال و توازن برقراررکھنے کا حکم دیتے ہیں بلکہ ہادی اعظم صلی ﷲ و علیہ سلم کو بھی اعتدال والی روش اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔

اے محمدؐ! کہہ دیجئے کہ میرے رب نے اعتدال کی راہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے‘‘۔(اعراف ۔92)۔

قیادت کے مطلوبہ اوصاف میں اعتدال اور توازن کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ ہر شخص کو اور بالخصوص قائد کو اپنی زندگی میں شدت پسندی،افراط و تفریط اور غلو سے اجتناب کرتے ہوئے میانہ روی اختیار کرنا چاہئے۔

(8) ذمہ داری کا احساس ہونا ؛۔

اسلام ہر انسان میں احساس ذمہ داری اور جوابدہی کا ملکہ پیدا کرتا ہے ۔یہ احساس انسان میں نیکی، تقویٰ، پرہیزگاری، صالحیت اور اعلیٰ اخلاق و اقدار کو پروان چڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔

نبی اکرم صلی ﷲ علیہ و سلم کا فرمان عالی شان ہے ’’تم میں ہر شخص ذمہ دار ہے ہر ایک سے اس کی رعیت کے سلسلے میں باز پرس ہوگی۔‘‘
۔ذمہ داری اور جواب دہی کے اسی احساس نے صحابہ اکرم ؓ کو دنیا والوں کے لئے ایک بے مثال نمونہ بنا دیا۔سرکارصلی ﷲ علیہ و سلم نے صحابہ میں ذمہ داری اور پاسداری کا ایسا جویا پیدا کیا جو رہتی دنیا تک کے لئے ایک روشن مثال ہے۔

حضرت ابوبکر ؓ نے پوری ذمہ داری اور دوراندیشی سے خلافت کے فرائض کو انجا م دیا۔بیت المال سے کسی قسم کی مد د یا رعایت کبھی حاصل نہیں کی اور نہایت کسمپرسی میں زندگی گزاری۔
دنیا کے ایک وسیع رقبے کو اسلامی حکومت کے پرچم تلے کرنے والے حضرت فاروق اعظم ؓ کے احساس ذمہ داری کا یہ عالم تھا کہ وہ کھجور کی چٹائی پر سوتے راتوں کو جاگ کر رعایا کی خبر گیر ی کرتے ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے حتی کہ اپنی پیٹھ پر غلے کا بوجھ لادکر رعایا تک پہنچاتے کیو نکہ آپ نے اپنے آقا و قائد سرور عالم صلی ﷲ علیہ وسلم کو اپنے دست مبارک سے خندق کھودتے ہوئے دیکھا تھا۔

قائد اپنی قوم کا سربراہ ہوتا ہے ۔یہ مخدوم نہیں بلکہ خادم ہوتا ہے۔عوام کی خیرخواہی،ان کی ضرورتوں کا خیال،ان کی بہتری کی فکرنہ صرف قائد کی ذمہ داری ہے بلکہ اس کا فرض منصبی بھی ہے۔قائد میں جب احساس ذمہ داری و جواب دہی جاگزیں ہوتا ہے تو وہ اپنے فرائض کو ٹھیک طور سے انجام دیتا ہے جس کے نتیجے میں عوام اور اس کے ماتحت اس سے خوش رہتے ہیں۔ان میں جاں نثاری کا جذبہ پروان چڑھتا ہے اور وہ قائد کو اپنا عملی تعاون پیش کرنے سے گریز نہیں کرتے۔

(9) مقاصد سے آگہی کا ہونا :
قائد کا نصب العین اس کی قوم کا نصب العین ہوتا ہے۔دوراندیش ولائق قیادت اپنے ملک و قوم کی ضرورتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے مقاصد کو وضع کرتی ہے۔

قائد کا فرض ہے کہ وہ متعین مقاصد کو صاف اور شفاف انداز میں پوری قوم کے آگے پیش کرے اور خیال رہے کہ مقاصد کے متعلق قائد اور قوم میں کسی قسم کا ابہام نہ ہو۔مقاصد واضح ہوں اور مقاصد کے ادراک و تفہیم میں کسی کو بھی کسی قسم کی دشوار ی نہ پیش آئے ۔

ﷲ تعالیٰ نے واشگاف الفاظ میں زندگی کا مقصد و مدعا بیان کردیا ہے ’’
" وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ"
میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘( الذاریات:56) ۔

اگر ایک جگہ ﷲ نے حسن عمل کو مقصد زندگی قرار دیا ہے۔
"الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ
’’جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔‘‘( الملک:02) ۔

تو دوسری جگہ زندگی کا مقصد اور کامیابی کو تزکیہ نفس قراردیا ہے۔

"قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ"
’’فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی۔‘‘( الاعلیٰ:14)۔

قرآن کی ان آیات سے جہاں انسان کے مقصد حیات اور زندگی کی کامیابی کے راز سے پردہ اٹھا جاتا ہے وہیں قیادت کے مقاصد بھی بڑے واضح انداز میں ہمارے سامنے آجاتے ہیں۔

’’لوگوں میں بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے لوگوں کو نفع پہنچائے‘‘۔مقاصد پوری قوم کی آرزؤ ں اور تمناؤ ں کا مرکز ہو تے ہیں اسی لئے قائد مقاصد کے تعین میں اپنے ملک و قوم کے معاشی ،سیاسی،معاشرتی ،اخلاقی،مذہبی ،دینی،اور علمی حالات کو پیش نظر رکھاسلام قائد کو اونچا مقام ضرور عطا کرتا ہے لیکن وہیں اسے پابند بھی کرتا ہے کہ وہ قوم کا خادم ہے’’قوم کا سردار ،قوم کا خادم ہوتا ہے۔‘‘

(10) قوانین واصولوں کی پاسداری کرنا ؛۔

قائد اگر پابند ڈسپلن ہوتو اس کا خوش گوار اثر معاشرے ،ماحول اور عوام پر بھی مرتب ہوتا ہے۔ قائد کی ذات اصول و قوانین سے بالاتر نہیں ہوتی ہے۔ عوام کے ساتھ قائد کی اصول و قوانین پر عمل پیرائی لازمی ہے۔

قیادت کی اصول پسندی سے اس کے رعب ، دبدبے اور مقبولیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔نبی کریم صلی ﷲ علیہ و سلم نے اپنی حیات طیبہ سے ہم کو قانون کی پاسداری اور اصول پسندی کی تعلیم دی ہے۔نبی کریم صلی ﷲ علیہ و سلم نے چوری کی مرتکب عرب کی ایک معزز وبا اثرخاتون کے ہاتھ کاٹ دینے کا جب حکم جاری فرمایاتو اس کے قبیلے والوں نے رسوائی اور سزا سے بچنے کے لئے آپ صلی ﷲ علیہ و سلم سے سفارش کی ۔

آپ صلی ﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’ إنما أهلك من كان قبلكم أنهم كانوا إذا سرق فيهم الشريف تركوه، وإذا سرق فيهم الضعيف أقاموا عليه الحد، وأيم الله، لو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطعتُ يداها[1]،
(متفق عليه أخرجه البخاري، كتاب أحاديث الأنبياء، باب حديث الغار، برقم (3475)، ومسلم، كتاب الحدود، باب قطع السارق الشريف وغيره، والنهي عن الشفاعة في الحدود، برقم (1688).

پہلی قومیں اس لئے تباہ ہوگئیں کہ جب کوئی بڑا غلطی کا ارتکاب کرتا تو مختلف حیلوں،بہانوں سے سزا سے بچ جاتا اور جب کوئی عام انسان کسی فعل شنیع کا مرتکب ہوتا تو سزا پاتا۔

آپ صلی ﷲ علیہ و سلم نے فرمایا اگر فاطمہؓ بنت محمد صلی ﷲ علیہ و سلم بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘

یہ حدیث مبارکہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اصولوں کی پاسداری اور حدود کے نفاذ میں تعلقات اور قربت داری کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔قائد میں جب اصولوں پسندی کا یہ جذبہ بیدار ہوجاتا ہے تو ہر طرف امن و امان کا دور دوررہ رہتا ہے۔امیر غریب الغرض معاشرے کے ہر فرد کے حقوق محفوظ ہوجاتے ہیں۔

(11) سخاوت و فیاضی کا ہونا ؛۔

سخاوت ایک عبادت اور ﷲ کی نعمتوں کے شکر کا نام ہے۔رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و سلم نے سخاوت کی اعلیٰ ترین مثال قائم کی ہے۔ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے ہر چیز کو ﷲ کی راہ میں لٹا دیا اور جتنا بھی تھا سارا کا سارا ﷲ کی راہ میں قربان کردیا اور اپنے پاس کچھ بھی باقی نہ رکھا۔

حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم سے جب کسی نے مانگا تو آپ نے انکار نہیں کیا،حتیٰ کہ ایک آدمی نے بکریوں سے بھری وادی کا سوال کیا تو آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے اسے وہ بھی دے دی۔

آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ اپنے تن پر موجود قمیض بھی اتار کر دے دی۔یہ بھی آپ کی سخاوت ہی ہے کہ آپ نے اپنی ساری زندگی امت کی خیر خواہی کیلئے وقف کردی۔

ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’ وہ تو محض ایک سخت عذاب سے پہلے تمہیں ڈرانے والا ہے۔
‘‘(سورہ سبا)

امت سے آپ کی محبت بھی آپ کی جود و سخا کی ایک مثال ہے۔

(كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ وَكَانَ أَجْوَدَ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ وَكَانَ جِبْرِيلُ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام أَجْوَدَ بِالْخَيْرِ مِنْ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ)

1-ابن المبارك( أحمد 2616) و( تهذيب الاثار للطبري120)(مكارم الأخلاق لابن أبي الدنيا393)و )حديث أبي الفضل الزهري57)
2- ابن وهب ( النسائي2095)و(ابن حبان في صحيحه6370)و(النسائي في الكبرى2405)
3- عثمان بن عمر(أ حمد 3539) وفي مسند ابي يعلى2552)و(الصنف لبن عبد الرزاق 646)و( الاثار للطبري120)۔

حضرت عبدﷲ ابن عباس رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے تھے۔
آپ صلی ﷲ علیہ و سلم سب سے زیادہ حاجتمندوں، ضرورتمندوں اور محتاجوں پر خرچ کرتے تھے۔

آپ کے خرچ کرنے اور سخاوت کرنے کی شان ایک تیز ہوا کی طرح تھی جو کچھ مال آپ کے پاس آتا اسے فوراً مستحقین تک پہنچا دیتے۔
جو کچھ دن کو آتا وہ رات آنے سے پہلے پہلے بٹ جاتا تھا اور تقسیم ہوجاتا تھا۔

قیادت سخاوت کے وصف سے آراستہ ہونی چاہئے۔قیادت کو معلوم ہونا چاہئے کہ مال و اسباب کاباٹنا ہی سخاوت نہیں ہے۔

سخاوت کے کئی طریقے ہیں۔
مال خرچ کرناسخاوت ہے۔
ظالم کو معاف کر دیناسخاوت ہے۔
زیادتی کرنے والے سے درگزرکرناسخاوت ہے۔
قطع تعلق کرنے والے سے تعلق جوڑناسخاوت ہے۔مسلمانوں کی اصلاح کرناسخاوت ہے۔
غیرمسلموں کواسلام کی دعوت دیناسخاوت ہے۔
کسی کا عذرقبول کرناسخاوت ہے۔
علم و معرفت اور اپنا تجربہ کسی کو دینا سخاوت ہے۔ اپنا وقت کسی کو دینا سخاوت ہے۔
کسی کی حق پر سفارش کرناسخاوت ہے۔
کسی کی خدمت کرناسخاوت ہے۔
تکلیف دہ اشیاکو راستے سے ہٹانا اورلوگوں کی خدمت کے لئے ان کے ساتھ چلنا بھی سخاوت ہے۔
قیادت کوعلم ہونا چاہئے کہ سب سے آسان ترین سخاوت ہے۔
ایک مسکراہٹ، کسی کی خیریت دریافت کرنے کیلئے ملاقات کرنا،اچھی بات کہنا، دعا دینا، کسی کی تھوڑی بہت مدد کردینا، دوا خرید کر دینا،یہ بھی سخاوت ہے۔نہ صرف قیادت بلکہ اب جو چاہے سخاوت کرے ۔سخاوت پر عمل کرنے کے لئے سخاوت کے دروازے اب ہر ایک کے لئے کھلے ہیں ۔

(12) عدل و انصاف کرنا؛۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

"إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيتَاء ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ " (سورہ النحل :90)۔

بیشک ﷲ انصاف کا، احسان کا، اور رشتہ داروں کو (ان کے حقوق) دینے کا حکم دیتا ہے، اور بے حیائی، بدی اور ظلم سے روکتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتاہے، تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔

اس آیت کے مخاطب صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دنیا کا ہر انسان ہے، جس پر عمل پیرا ہو کرنہ صرف دنیا کی مختصر سی زندگی کو کارآمد بنایاجا سکتا ہے بلکہ اپنی آخرت کو بھی سنواراجا سکتا ہے۔پہلا حکم عدل کرنے کا ہے۔

عدل کے معنی انصاف کرنے کے ہیں یعنی ایک انسان دو سرے انسان سے اس دنیاوی زندگی میں انصاف سے کام لے۔ کسی کے بھی ساتھ دشمنی، عناد، محبت یا قرابت کی وجہ سے انصاف کے تقاضے مجروح نہ ہوں۔غزوہ بدر کے موقع پر دوسرے قیدیوں کے ساتھ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس بھی گرفتار ہوئے تھے۔قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں رہا کیا جا رہا تھا۔ فدیہ کی رقم چار ہزار درہم تھی لیکن امیر ترین لوگوں سے اس سے بھی کچھ زیادہ رقم لی جا رہی تھی۔حضرت عباسؓ سرکارصلی ﷲ علیہ وسلم کے چچا تھے اس لیے چند صحابہ اکرام نے عرض کیا یا رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و سلم اجازت دیجئے کہ حضرت عباسؓ کا فدیہ معاف کر دیا جائے اور انہیں یو نہی رہا کر دیا جائے یہ سن کر رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و سلم نے فرمایا ہرگز نہیں بلکہ عباسؓ سے ان کی امیری کی وجہ سے حسب قاعدہ چار ہزار درہم سے زیادہ وصول کیے جائیں۔(صحیح بخاری، کتاب المغازی)۔

اس واقعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی نظر میں قرابت بعد میں ہے اور عدل و انصاف پہلے ہے۔عدل کا دوسرانام اعتدال بھی ہے۔ یعنی آدمی کسی بھی معاملے میں افراط یا تفریط سے کام نہ لے ۔

قائد اس با ت کا خاص خیال رکھے کہ ذرا سی بھی اونچ نیچ عدل وانصاف کے تقاضوں کے منافی ہوتی ہے۔عدل و انصاف کے تقاضوں کی تکمیل حاکم و رعایا سب پر یکساں عائد ہوتی ہے ۔

ﷲ تعالیٰ حکام(قائدین)کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں’’
" وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا"

’’اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے کرو یقینا وہ بہتر چیز ہے اس کی نصیحت تمہیں ﷲ کر رہا ہے، بے شک ﷲ سنتا اور دیکھتا ہے۔‘‘ (سورہ النساء:58) ۔

سورہ مائدہ میں ﷲ تعالیٰ نے بلاتخصیص عوام و خواص کو یہی احکامات صادر فرمائے ہیں۔

"وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ" (المائدہ: 8)

’’کسی قوم کی دشمنی کے باعث عدل کو ہر گز نہ چھوڑو،عدل کرو یہی تقویٰ کے بہت قریب ہے۔‘‘

عدل کا ایک مترادف لفظ انصاف بھی ہے۔عدل کرنے والے کو عادل اور انصاف کرنے والے کو منصف کہاجاتا ہے۔قائد کا عدل و انصاف کے صفات سے متصف ہونا بہت ضروری ہے۔اگر قیادت عدل و انصاف سے کام لینے میں پہلو تہی کر ے تو اسے اس کا خمیازہ دنیا اور آخرت دونوں جگہوں پر بھگتنا پڑے گا۔عدل و انصاف کے بغیرامن و امان کا تصور بھی محال ہے اسی لئے قیادت کے لئے لازم ہے کہ وہ ہر جگہ ،ہر معاملے میں عدل و انصاف کادامن تھامے رہے ۔

(13) شجاعت و بہادری کا ہونا؛۔

قائد میں شجاعت کاہونا بے حدضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر امارت ،قیادت و سیادت ممکن نہیں ہے۔
سیرت طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی ﷲ علیہ و سلم سب سے زیادہ سے زیادہ حسین اوربہادر تھے۔

نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کا شجاعت، بہادری اور دلیری میں بھی مقام سب سے بلند اور معروف ہے۔ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم سب سے زیادہ دلیر تھے۔ نہایت کٹھن اور مشکل موقع پر جبکہ اچھے اچھے جانبازوں اور بہادروں کے پاؤں اکھڑجاتے آپ صلی ﷲ علیہ وسلم اپنی جگہ برقرار رہتے ، پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے ہی بڑھتے چلے جاتے اور کبھی پائے ثبات میں لغزش نہ آئی۔

حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جب جنگ کے شعلے خوب بھڑک اٹھتے تو ہم رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کی آڑ لیا کرتے تھے۔ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی دشمن کے قریب نہ ہوتا۔ (الرحیق المختوم)۔

حضرت انس رضی ﷲ عنہ کا بیان ہے:

" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ ، وَأَجْوَدَ النَّاسِ ، وَأَشْجَعَ النَّاسِ ، وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ المَدِينَةِ ذَاتَ لَيْلَةٍ ، فَانْطَلَقَ النَّاسُ قِبَلَ الصَّوْتِ ، فَاسْتَقْبَلَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ سَبَقَ النَّاسَ إِلَى الصَّوْتِ ، وَهُوَ يَقُولُ : لَنْ تُرَاعُوا لَنْ تُرَاعُوا وَهُوَ عَلَى فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ مَا عَلَيْهِ سَرْجٌ ، فِي عُنُقِهِ سَيْفٌ ، فَقَالَ : لَقَدْ وَجَدْتُهُ بَحْرًا . أَوْ : إِنَّهُ لَبَحْرٌ
کہ ایک رات اہل مدینہ کو خطرہ محسوس ہوا لوگ شور کی طرف دوڑے تو راستے میں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم واپس آتے ہوئے ملے۔ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم لوگوں سے پہلے ہی آواز کی جانب پہنچ کر (خطرے کے مقام کا جائزہ لے) چکے تھے اس وقت آپ صلی ﷲ علیہ وسلم ابوطلحہ رضی ﷲ عنہ کے بغیر زین کے گھوڑے پر سوار تھے۔ گردن میں تلوار حمائل کر رکھی تھی۔ اور فرما رہے تھے ڈرو نہیں، ڈرو نہیں (کوئی خطرہ نہیں ہے۔

(صحيح البخاري ,كتاب الأدب ,باب حسن الخلق والسخاء، وما يكره من البخل ,حديث رقم 5709 )۔

اگر آج ہم اپنے سینوں میں آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کی شجاعت بھر لیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتی۔

(14) حسن اخلاق کا پیکر بننا ؛۔

اچھے اخلاق و عمدہ خصائل قیادت کی اعلیٰ خصوصیات ہیں۔حسن اخلاق قیادت و سیادت کو استحکام بخشتے ہیں۔حسن اخلاق کی بدولت اپنے تو اپنے دشمن، باغی اور سرکش لو گ بھی مطیع بن جاتے ہیں۔بااخلاق قیادت سے مرجھے دلوں میں امید ،عزم ، حوصلہ اور زندگی کی امنگ پیدا ہوجاتی ہے۔عمدہ اخلاق کے ذریعے انسان لوگوں کے دلوں پر راج کرتا ہے۔نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایاکہ روز قیامت میزان میں سب سے وزنی چیز اچھے اخلاق ہوں گے۔آپ صلی ﷲ علیہ و سلم اخلاق و کردار کے سب سے افضل اور بلند معیار پر فائز تھے۔آپ صلی ﷲ علیہ و سلم نے اپنے اخلاق کریمانہ سے پوری دنیا کو فتح کرلیا۔ آپ صلی ﷲ علیہ و سلم بڑوں سے عزت ،چھوٹوں سے شفقت سے پیش آتے تھے۔ آپ صلی ﷲ علیہ و سلم یتیموں، غیریبوں اور نادار لوگوں کے ساتھ مل کر بیٹھتے اور ان سے محبت ،رحم دلی اور جودو سخا کامعاملہ فرماتے تھے۔ گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک فرماتے تھے۔

"قالت عائشة لما سئلت رضي الله عنها عن خلق النبي عليه الصلاة والسلام، قالت: ( كان خلقه القرآن) (البخاري [4997]

ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے کسی نے آپ صلی ﷲ علیہ و سلم کے اخلاق کے بارے میں پوچھا تو آپؓ نے بتا یا کہ نبی اکرم صلی ﷲ علیہ و سلم کے اخلاق مکمل قرآن تھے۔

عن عبد الله بن عمرو بن العاص -رضى الله عنهما- قال: "لم يكن رسول الله ﷺ فاحشاً ولا متفحشاً، وكان يقول: إن من خياركم أحسنكم أخلاقاً" متفق عليه.

(أخرجه البخاري، كتاب المناقب، باب صفة النبي ﷺ، برقم (3559)، وبرقم (6029)، في كتاب الأدب، باب لم يكن النبي ﷺ فاحشا ولا متفحشا، ومسلم، كتاب الفضائل، باب كثرة حيائه ﷺ، برقم (2321)

حضرت عمرو بن عاصؓ فرماتے ہیں کہ آپ نہ تو فحش گوئی کرنے والے تھے اور نہ فحش گوئی کو پسند کرتے تھے۔ﷲ رب العزت نے نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کو بڑے ہی اعلیٰ اخلاق سے نوازا تھا۔

یہ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کے ارفع اخلاق ہی تھے جس سے دشمن دوست، بیگانے اپنے اور سخت دل نرم خوبنے۔ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے اسی بلند اخلاق کی تعریف ﷲ رب العزت نے ان الفاظ میں فرمائی ہےکہ

اللہ تعالیٰ کا فرمان -: ﴿ وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ ﴾ [القلم: 4]،
۔اور بے شک آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کا اخلاق بہت بلند ہے۔

موطا امام مالک میں نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ
’" بعثت لأتمم مكارم الأخلاق" میں بہترین اخلاق کی تکمیل کیلئے بھیجا گیا ہوں۔
(صححه الألباني في الصحیحہ 1 / 75 :
رواه البخاري في " الأدب المفرد " رقم ( 273 ) , و ابن سعد في " الطبقات "
( 1 / 192 ) , و الحاكم ( 2 / 613 ) , و أحمد ( 2 / 318 ) , و ابن عساكر في
" تاريخ دمشق " ( 6 / 267 / 1 ) )

خادم رسول حضرت انس ؓ فرماتے ہیں

"يقول سيدنا أَنس بن مالك: "خدمتُ النبي صلى الله عليه وسلم، عشرَ سنين فما قال لي أُفٍّ قَط .. وما قال لشيء صنعتُه لِمَ صنعتَه .. ولا لشيء تركتُه لِمَ تركتَه ..
(صحیح البخاری،کتاب الادب،باب حسن الخلق,5691)

میں نے دس برس تک نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کی خدمت کی’’ اس مدت میں آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے مجھے اف تک نہ کہا اور نہ کبھی یہ کہا کہ تو نے یہ کام کیوں کیا یہ کام کیوں نہیں کیا‘‘

قائد کے اخلاق و اطوار مثالی ہونے چاہئے۔قائد کے لئے منصب کے حصول سے زیادہ ووٹ عوام کے دلوں میں جگہ بنانا ضروری ہوتا ہے اورجو دلوں کو فتح کرتا ہے وہی حقیقی فاتح کہلاتا ہے۔

وہ ادائے دلبر ی ہو یا نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ

(16) حلم و بردباری اپنانا (جذباتی ذہانت)؛۔

بعض لوگ اپنے انتہائی بلند آئی کیو لیول کے باوجود دوسروں کی رہبری سے قاصر رہتے ہیں۔ انتہائی ذہین لوگ بھی تنظیمی و انتظامی امور میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔اس کی ایک بالکل سادہ سی وجہ جذباتی ذہانت کا فقدان ہے۔

قائد کا اپنے پیروں اور کارکنان کے مثبت اور منفی جذبات کو پہچان کر خود اپنے جذبات پر قابو رکھنا، ایک اچھی اور کامیاب لیڈرشب کی ضمانت ہے۔حلم و بردباری کی تعریف یہ ہے کہ قائد کسی ناگہانی صورتحال میں بھی جذبات کی رو میں نہ بہے۔ناگہانی صور تحال میں اپنے ہوش و حواس پر قابو رکھے ۔معاملے پر نہایت سنجیدگی سے غور وخوض کرے۔دوراندیشی سے کام لے اور زعمائے قوم سے مشاورت کے بعد کوئی فیصلہ کرے۔

اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ قائد ،قیادت کے نشے میں کسی سے مشاورت کو درخوراعتناء نہیں سمجھ کر جذبات کی رو میں ایسے فیصلے کربیٹھتاہے جو قوم اور ملک کے مفاد میں نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔

نبوی تعلیمات کی روشنی میں وہ حلم قابل تعریف ہے جس میں گالیاں دینے والے کو بھی دعائیں دی جاتی ہیں۔زیادتی کے مرتکب افراد کو نہ صرف معاف کردیا جاتاہے بلکہ اس سے مزید حسن سلوک کا معاملہ کیا جاتا ہے۔رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و سلم نے اپنے ذاتی دشمنوں اور عزیزوں کے قاتلوں کو تک معاف فرمادیا۔ یہ معاملہ اور حسن سلوک دنیا کی تاریخ میں حلم و بردباری کا ایک سنہری باب ہے۔

مختصراً ذاتی معاملات اور نظریات میں اختلاف رکھنے والوں کو برداشت کرنے اور ان سے حلم و بردباری سے پیش آنا قیادت کی مقبولیت اور اثر پذیری میں اضافے کا باعث ہوتا ہے۔

(17) ایفائے عہد کی پاسداری ؛۔

ایفائے عہد کی اجتماعی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت ہے۔قائد میں عہدو پیمان کی پاسداری اگر نہ ہو تو عوام کا قیادت پر سے یقین و اطمینان اٹھجاتا ہے۔ نبی کریم صلی ﷲ علیہ و سلم وعدے کے اتنے پکے تھے کہ کفارمکہ آپ کو صادق و امین کہہ کر پکارتے تھے اور اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھتے تھے۔
آج قیادت دھوکہ دہی،مکر و فریب ،جھوٹ،بددیانتی ،خیانت جیسے موذی امراض میں مبتلاہے۔بات بات میں جھوٹ بولنا اور معاملات میں بددیانتی کرنا آج کے قائدین کا وطیرہ بن چکا ہے۔

اسلام میں ایفائے عہد کا بڑی سخت کے ساتھ حکم دیا گیا ہے اور وعدہ خلافی و عہد شکنی کی سخت مذمت کی گئی ہے۔
ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا "
’’عہد کو پورا کرو، کیوں کہ قیامت کے دن عہد کے بارے میں انسان جواب دہ ہو گا۔‘‘(بنی اسرائیل:34).

قرآن نے ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو اپنے وعدے وفا کرتے ہیں ۔
خود ﷲ تعالیٰ نے اپنی اس صفت کا بار بار ذکر فرمایا ہے کہ ﷲ تعالیٰ وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔

"إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ "
(آل عمران:9 )۔

رسول ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات کے ذریعے بھی ایفائے عہد کی اہمیت اور وعدہ خلافی کی برائی کو بیان فرمایا ہے۔

"عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((أربع من كُنَّ فيه كان منافقاًخالصا: إذا حدَّث كذب، وإذا عاهد غَدَر، وإذا وعَدَ أخلف، وإذا خاصم فَجَر)) رواه البخاري برقم (3007)، ومسلم رقم (58) واللفظ له.
رواه البخاري برقم (33).

چنانچہ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس میں چار باتیں پائی جاتی ہوں وہ پکا منافق ہے : جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، اگر امانت رکھی جائے تو خیانت کرے،اور جب لڑائی کرے تو گالی دے ۔‘

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم اور صحابہ رضی ﷲ عنہم کی نگاہ میں ایفائے عہد کس قدر اہم تھا۔

قائد و کارکنان ہر دم دوست ہو یا دشمن ،اپنا ہو یا بیگانہ،مسلمان ہو یا غیر مسلم ہر ایک کے ساتھ عہد و پیمان کی پابندی کریں۔رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و سلم اپنے معاہدات اور عہد و پیمان کا پور اپورا خیال رکھتے تھے ۔

آج کی قیادت خاص طور پر مسلم قیادت میں وعدے اور معاہدے کی پاسداری کا فقدان ہے۔
ایفائے عہد کی تکمیل کے بغیر قیادت نہ تو مقبول ہوتی ہے اور نہ ہی پروان چڑھتی ہے۔

(18) رفق و نرمی سے پیش آنا ؛۔

نرمی اور آسانی اسلامی سمات اور خصوصیات میں داخل ہیں ارشاد باری ہے (یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر)

اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے مشکل نہیں چاہتا ہے.
(سورۃ البقرہ:185)

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں

"یسرا ولا تعسرا وبشرا ولا تنفرا"

(صحیح البخاری ،کتاب الاداب ،باب یسروا ولاتعسروا)

تم دونوں آسانی کرنا مشکل نہ کرنا بشارت دینا نفرت نہ پیدا کرنا ۔
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت معاذبن جبل اور ابو موسی' اشعری کو تھی۔

رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((دَخَلَ رَہْطٌ مِنَ الْیَہُودِ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالُوا: أَلسَّامُ عَلَیْکُمْ، قَالَتْ عَائِشَۃُ: فَفَہِمْتُہَا فَقُلْتُ: وَعَلَیْکُمُ السَّامُ وَاللَّعْنَۃُ۔ قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم : مَہْلًا یَا عَائِشَۃُ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الرِّفْقَ فِی الْأَمْرِ کُلِّہِ۔ فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم: أَوَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا؟ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم: قَدْ قُلْتُ وَعَلَیْکُمْ۔ ))

( أخرجہ البخاري في کتاب الأدب، باب: الرفق في الأمر کلہ، رقم: 6024).

''یہود کا ایک چھوٹا سا گروہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور انہوں نے کہا: آپ پر موت ہو (نعوذ باللہ من ذالک) اُم المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ''میں سمجھ گئی ۔
چنانچہ میں نے کہا: تم پر موت واقع ہو اور لعنت بھی۔ فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''ٹھہرو تو اے عائشہ! یقینا اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔میں نے عرض کیا: ''اے اللہ کے رسول آپ نے نہیں سنا کہ انہوں نے کیا کہا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''بے شک میں نے کہا تھا ''اور تم پر بھی ہو (موت)۔''

دوسری حدیث میں ارشاد ہے:

(( یَا عَائِشَۃُ إِنَّ اللّٰہَ رَفِیْقٌ یُّحِبُّ الرِّفْقَ وَیُعْطِي عَلَی الرِّفْقِ مَا لَا یُعْطِيْ عَلَی الْعُنْفِ وَمَا لَا یُعْطِيْ عَلَی مَا سِوَاہُ"

(أخرجہ مسلم في کتاب البر والصلۃ والآداب، باب: فضل الرفق، رقم: 6601)

'' بے شک اللہ تعالیٰ نرم ہے اور نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی پر جو دیتا ہے وہ سختی اور دیگر اشیاء پر نہیں دیتا۔ ''

ان احادیث میں نرمی کی فضیلت اور اسے عادت بنانے پر ابھارا گیا ہے، نیز سختی کی مذمت بھی کی گئی ہے۔ـ

کہا گیا ہے کہ جب لوگ کوئی سخت کلام کرتے ہیں تو اس کی ایک جانب ضرور اس سے زیادہ نرم بات بھی ہوتی ہے جو کہ اس کے قائم مقام کھڑی ہوتی ہے۔ عمومی حالات اور اکثر امور میں نرمی قابل ستائش ہے اگرچہ سختی کی ضرورت پڑتی ہے مگر یہ کبھی کبھی ہے۔
کامل وہی ہے جو نرمی اور سختی کے مواقع کو پہچان لے اور ہر جگہ ویسا ہی معاملہ کرے اور اگر کم بصیرت والا ہے یا مواقع کی پہچان اس کے لیے مشکل ہے تو اسے نرمی کی طرف ہی مائل رہنا چاہیے کیونکہ اکثر طور پر اسی میں کامیابی ہوتی ہے۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(إِنَّ الرِّفْقَ لَا یَکُوْنُ فِيْ شَيْئٍ إِلاَّ زَانَہُ وَلَا یُنْزَعُ مِنْ شَيْئٍ إِلاَّ شَانَہُ
'' نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے اسے خوبصورت کردیتی ہے اور جس چیز سے نکال لی جائے اسے عیب دار کردیتی ہے۔ ''

( أخرجہ مسلم في کتاب البر والصلۃ والآداب، باب: فضل الرفق، رقم: 6602)۔ [احیاء علوم الدین للغزالی ص :184/ 186/3 نووی شرح مسلم ص :145/16 عون المعبود ص :114-113)۔

ہر بھلائی کا سبب نرمی ہے۔
جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

" مَنْ یُحْرَمُ الرِّفْقَ یُحْرَمُ الْخَیْرَ"(صحيح مسلم:2593)

'' اور جو نرمی سے محروم ہوا وہ بھلائی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ ''
إِنَّ اللّٰہَ رَفِیْق یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر شفقت اور آسانی کرنے والا ہے سختی اور تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا چنانچہ رب کریم نے بندوں کو ان کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بنایا۔
وَیُعْطِیْ عَلَی الرِّفْقِ: یعنی جتنا ثواب نرمی کی وجہ سے ملتا ہے کسی اور چیز کی وجہ سے نہیں ملتا نیز اس کی وجہ سے دنیا میں اللہ تعالیٰ عمدہ ثناء اور تعریف کا حقدار بناتا ہے اور مقاصد تک پہنچنا آسان بنا دیتا ہے اور آخرت میں اتنا زیادہ ثواب مہیا کرے گا جو کہ سختی اور دیگر اشیاء کی وجہ سے نہیں دے گا۔

نرمی، قابل تعریف صفت ہے اس کی ضد سختی اور گرمی ہے۔ نرمی، حسن اخلاق کا نتیجہ ہے چنانچہ تمام امور میں نرمی کو نتیجہ خیز صرف اور صرف عمدہ اخلاق ہی بناتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ تمام امور کو ان کی جگہوں پر رکھنا نرمی کہلاتا ہے یعنی سختی کے مقام پر سختی، نرمی کی جگہ پر نرمی، تلوار کی جگہ پر تلوار اور کوڑے کے مقام پر کوڑا، یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ نرمی کے ساتھ سختی اور گرمی کا عنصر بھی ہونا چاہیے۔
چنانچہ تعریف کے قابل، نرمی اور سختی میں میانہ روی ہے تمام اخلاق میں ایسا ہی ہونا چاہیے۔ لیکن طبیعتیں سختی اور گرمی کی طرف زیادہ راغب ہیں چنانچہ انہیں نرمی کی طرف ترغیب دلانے کی زیادہ ضرورت ہے، اسی لیے شریعت اسلامیہ نے نرمی کی زیادہ ثناء اور تعریف کی ہے، گو سختی اپنے مقام پر اور نرمی اپنی جگہ پر اچھی ہے۔ چنانچہ سختی ناگزیر ہو تو انسان کی خواہش حق کے موافق ہوجاتی ہے اور یہ سختی بلحاظِ نتائج شہد ملے مکھن سے بھی زیادہ لذیذ ہوجاتی ہے.

نرم خوئی قیادت کے لئے بہت ضروری ہے۔اگر قائد کے دل میں نرمی ہوگی تو کارکنان(عوام) کے دل میں بھی اس کے لئے محبت و عزت ہوگی اور معاشرہ فتنے و فساد سے محفوظ رہے گا۔

ام المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و سلم نے فرمایا:

" حديث عائشة -رضى الله عنها- قال: سمعت رسول الله ﷺ يقول في بيتي هذا: اللهم من ولي من أمر أمتي شيئاً فشق عليهم فاشقق عليه، ومن ولي من أمر أمتي شيئاً فرفق بهم فارفق به"
[أخرجه مسلم، كتاب الإمارة، باب فضيلة الإمام العادل، وعقوبة الجائر، والحث على الرفق بالرعية، والنهي عن إدخال المشقة عليهم، برقم (1828).

کہ یا ﷲ جو کوئی بھی میری امت کے کسی معاملے کا ولی بنا اور اس نے ان پر سختی کی تو تو بھی اس پر سختی فرما اور جو کوئی بھی میری امت کے کسی امر کا ولی بنا اور اس نے نرمی کی تو تو بھی اس پر نر می فرما۔‘‘

اور ایک حدیث جو ام المومنین حضرت عائشہؓ سے مروی ہے۔

’’ رسول اﷲ صلی ﷲ علیہ و سلم نے فرمایا بے شک ﷲ تعالیٰ نرمی فرمانے والاہے او نرمی کو پسند فرماتا ہے۔

(مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب: فضل الرفق، رقم: 6601)

مذکورہ احادیث کی روشنی میں یہ بات عیا ں ہوجاتی ہے کہ قیادت (اولوالامر ) کے لئے نرم خوئی(رفق) انتہائی اہم ہے۔

(19) تجربہ و مہارت پیدا کرنا ؛۔

قیادت کسی چھوٹے گروہ کی بھی ہوسکتی ہییا پھر ایک بڑی جماعت کی بھی ۔قیادت ادنیٰ درجے کی بھی ہوسکتی ہے اور اعلیٰ درجے کی بھی۔قائد کو جب کوئی قیادت سونپی جائے وہ اس میں مہارت رکھتا ہو یا کم از کم اس کی مبادیات اور اساسیات کا اسے علم ضرور ہو بصورت دیگر وہ اپنے عہدے سے انصاف نہیں کرسکے گا۔قائد کا زندگی کے دیگر شعبہ جات جیسے علم ودانش ،معاشیات،مالیات،
سیاسیات،قانون،ثقافت،تعلیم و تربیت ،طب و صحت،فلاح و بہبود وغیرہ سے بھی آگہی رکھنا ضروری ہے ورنہ وہ قیادت کی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے انجام نہیں دے پائے گا۔

(20) عفو درگزرکرنا؛۔

زندگی کے سفر میں بعض مرتبہ ناراضگی اوررنجش پیدا ہوسکتی ہے۔ایسے موقعوں پر رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و سلم نے آپسی رعایت اور عفو ودرگزر کے ذریعے ہماری بہترین رہنمائی فرمائی ہے۔عفو و درگزر کی وجہ سے زندگی کے معمولات احسن طریقے سے انجام پاتے ہیں اور سماجی تعلقات اور رشتوں کے درمیان توازن اور الفت پیدا ہوتی ہے۔عفو و درگزر کی صفت قائد کی عظمت کو بلندی عطا کرتی ہے۔

ﷲ تعالیٰ بھی عفودرگزر سے کام لینے والے بندوں کو پسند فرماتا ہے۔

" وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (سورہ البقرۃ:134)

’’اور غصے کو پی جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور ﷲ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔‘

قائد کو چاہئے کہ اپنے اعلیٰ کردار اور عفو ودرگزر کے ذریعے لوگوں کے دلوں کو فتح کرے انہیں حقائق سے روشناس کرائیں۔
قیا دت کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ سختی ،رعونت اور درشتگی کبھی بھی مفید اور کارگر ثابت نہیں ہوتی ہے۔سخت مخالفت اور تعصب کے باوجود قائد کو نرمی اور خوداری کا مظاہرہ پیش کرنا چاہئے۔قائد اگر ﷲ کی رحمت اور نصرت کا طلب گار ہے تو اسے چاہئے کہ وہ عفوودرگزر کو اپنے اخلاق کا لازمی حصہ بنائے۔

(21) رواداری سے پیش آنا ؛۔

سیرت طیبہ صلی ﷲ علیہ و سلم کے مطابق ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قائد میں رواداری کا عنصر ہونا بے حد ضروری ہے۔
قائد کو چاہئے کہ کو اپنے ہم عقیدہ ،ہم نظریہ اور ہم مذہب سے ہی نہیں بلکہ غیر مذہب اور دیگر عقائد و نظریات کے حامل لوگوں سے بھی رواداری اور حسن سلوک سے پیش آئے۔قائد کے اردگرد مختلف نظریات اور مختلف ذہنوں کے لوگ پائے جاتے ہیں۔قائد کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان کے مذہنی نظریات و عقائد کا پا س و لحاظ رکھے اور نہیں مذہبی عبادت کی پوری آزادی فراہم کرے۔اسلام رواداری والا ایک ایسا واحد مذہب ہے جو مسلمانوں کو دیگر باطل مذاہب کے معبودوں کے متعلق بدکلامی اور گالیاں دینے سے روکتا ہے۔ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے رواداری اور صلہ رحمی کے ایسے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں کہ جس کی مثال قیامت تک کوئی دوسرا نہیں دے سکتا۔ایک عیسائی وفد نجران سے مدینہ آپ صلی ﷲ علیہ و سلم سے مناظرے کے مقصد سے آیا۔ وفد کا ذہن مذہبی عداوت اور تعصب سے زہر آلود تھا۔جب اس وفد کے قیام کے متعلق آپ صلی ﷲ علیہ و سلم سے پوچھا گیا تو آپ صلی ﷲ علیہ و سلم نے اسے مسجد نبوی میں ٹھہرانے کا حکم دیا اور جب ان کی عبادت کا وقت آیا تو پھر آپ صلی ﷲ علیہ و سلم سے رجوع کیا گیا۔آپ صلی ﷲ علیہ و سلم نے ان کو مسجد نبوی میں اپنی عبادت کی اجازت مرحمت فرمادی۔آپ صلی ﷲ علیہ و سلم کی تعلیمات سے پتا چلتا ہے کہ رواداری سے اغیار قریب آتے ہیں اور اچھائیاں از خود جنم لینے لگتیں ہیں۔

(22) عوامی رابطہ رکھنا:

ایک اعلیٰ قیادت خود کو کبھی بھی دوسروں سے الگ تھلگ نہیں رکھتی ۔اسلام ہمیں لوگوں سے الگ تھلگ رہنے اور لوگوں سے منہ پھیرکر زندگی گزارنے سے منع کرتا ہے۔ قرآن مجید نے سختی کے ساتھ اس امر سے منع کیا ہے۔
’’وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ۔ترجمہ؛۔اورتم لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کرو‘‘ ۔(سورہ لقمان:18)۔

صعر اصل میں ایک بیماری کانام ہے جو عرب میں اونٹوں کی گر دنوں میں پائی جاتی ہے۔یہ بیماری جب اونٹ کولگ جاتی ہے تو وہ اپنی گردن کو دائیں بائیں گھما نہیں سکتا۔ قیادت جب اناپرستی کا شکار ہوجاتی ہے تو قائد کا رویہ بھی بالکل اسی طرح ہوجاتا ہے۔قائد کو اس طرح کے افعال سے سختی سے اجتناب کرنا چاہیے۔

(23)معلومات کا ذخیرہ ہونا؛۔

دنیا میں جتنے بھی کامیاب لیڈر گزرے ہیں ان میں سنجیدگی سے مطالعہ کرنے اور نئی معلومات اکٹھی کرنے کا جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا۔ کسی بھی واقعے کی تہہ تک پہنچنے کے لئے قائد کے پاس مفید معلومات کا ہونا ضروری ہے۔ قائد اپنی معلومات کی بنیاد پر جو اچھا یا غلط فیصلہ کر ے گا اس کا براہ راست اثر اس کے پیرروں اور متعلقہ ادارے پر پڑے گا۔ بعض اوقات غلط معلومات یا معلومات نہ ہونے کی وجہ سے قائد سے ناقابل تلافی سرزدہوجاتی ہے۔قائد کو اپنے وسائل سے باخبر اور آشنا رہنا چاہئے۔ قائد کو سخت محنت کے بجائے دانشمندانہ سرگرمیوں اور افعال کی جانب رخ کرنا چاہئے۔ اکثر عام قائد سخت اور کڑی محنت کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔ایک ہی کاز کی تکمیل کے لئے دیر تک کاوش و کوشش کرنا سخت محنت کے زمرے میں آتاہے۔دانشنمدانہ انداز میں مسائل و کاز کو تخلیقی ،تعمیری اور منطقی انداز میں دیکھا جانا ضروری ہے ۔اس طریقہ کار میں تنوع پایا جاتا ہے۔اگر سخت محنت کے نکتہ پر ہی انسان اڑا رہتا تو بتایئے کہ گوگل اورجاوا جیسی اختراعات آج عالم منظر پر نہیں ابھرسکتی تھیں۔قائد اسی لئے ہاڑورک کے ساتھ اسمارٹ ورک کو ترجیح دے۔اپنے کارکنوں کے اچھے افعال و اعمال کی ستائش کرے۔کارکنوں کو اختیار ات تفویض کرنے کے بجائے انھیں ذمہ داری سونپے۔

(24) قوت فیصلہ کی صلاحیت ؛۔

عام حالات کی طرح مشکل اور ہنگامی حالات میں ہر شخص کے پاس فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ہے۔
ایک بااثر قائد مشکل اور کٹھن وقت میں بھی اپنی دانش و بینش کے بل پر اہم فیصلے لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بہتر قائد ہمیشہ فیصلہ سازی میں جماعت کے تجربہ کار اہل علم افراد کو نہ صرف شامل رکھتا ہے بلکہ ان تجاویز و آرا پر ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔آرا وتجاویز کو رد کرتے وقت ان کی عزت نفس کا بھی خاص خیال رکھتا ہے۔
اگر قائد ان امور پر توجہ مرکوز نہیں کرے گا تو اپنے ماتحتوں کے مشوروں اور تجاویز سے وہ محروم ہوجائے گا اور وہ اسے ایک آمر یت پسند قائد کے طور پر دیکھنے لگیں گے۔

(25) مسائل کا حل کرنا ؛۔

قائد کے لئے عوامی (تنظیمی)حالات سے واقفیت ضروری ہوتی ہے تاکہ وہ ان کی فلاح وبہبود کے کام انجام دے سکے۔قائد اپنے کارکنوں اورپیروں سے باخبر رہے ۔اس جانب قرآن ہماری توجہ مبذول کرتاہے.

"وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ"

’’انہوں نے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہا کہ کیا ہوگیا مجھے ہدہد نظر نہیں آرہا ہے وہ غائب ہے۔‘‘ (سورہ نمل:20)۔

اس آیت سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جنہیں ﷲ نے عظیم الشان سلطنت عطا کی تھی وہ نہ تو ہدہد سے بے خبر تھے اور نہ ہی اس کے معاملات سے۔حضرت عمر ؓ رعایا کی خبر گیری کے معاملے میں اتنے حساس تھے کہ اسی لئے آپ نے کہا ’’اگر فرات کے کنارے بھیڑ کا بچہ (بھوک سے)بھی مرگیا تو مجھے ڈر ہے کہ ﷲ مجھ سے اس کے متعلق سوال کرے گا۔‘‘(حلیۃ الاولیاء:53/1)

(26) اپنا پیغام دوسروں تک پہنچانے کاملکہ ہونا؛۔

تقریر ہو یا تحریر، قائد کے پاس دوسروں تک موثر طریقے سے اپنا پیغام پہنچانے کا گر ہونا چاہئے۔ اسکے پاس اچھے اور متبادل الفاظ کی فراوانی، جملوں کی روانی، زبان کی شائستگی اور بولنے میں سوز و گداز جیسے عناصر کا لازمی طور پر ذخیرہ ضروری ہے۔
قائدین مطالعہ اور اہل علم حضرات کی صحبتوں سے اپنی اس کمی کو دور کرسکتے ہیں۔

آج کے اس پرفتن در رمیں ایسی صفات کی حامل قیاد ت کا ملنا مشکل تو ضرورہے لیکن محال بھی نہیں ہے۔آج قیادت بدترین شخصیت پرستی اور آمریت کے دور سے گزر رہی ہے۔

قیادت و سیادت آج احساس ذمہ دار اور اپنے فرض منصبی سے عاری ہے۔قیادت عیاری ومکاری کا دوسرا نام بن کر رہ گئی ہے۔قوم کے مال پر قائدین اپنی زندگی شاہانہ ٹھاٹ باٹ اور کروفر سے بسر کررہے ہیں۔معصوم عوام قیادت کے ظلم وستم سہہ رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ یہ قیاد ت کی عیاری سے واقف نہیں ہے ۔یہ بالکل واقف ہیں لیکن ان کے پاس جرات نہیں ہے کیونکہ ان کے پاس علم نہیں ہے ۔اگر علم ہوتو بھی یہ قرآن و سنت کی تعلیمات سے لاعلم ونابلد ہیں۔علم آدمی میں اعتماد پیدا کرتا ہے پھر اعتماد آدمی میں جرات پیدا کرتا ہے۔

شخصی و موروثی قیادت کی موجودگی میں نوجوان نسل کی قائدانہ تعلیم وتربیت کا انتظام کیئے بغیر اس منظر نامے کو نہ تو ہم بدل سکتے ہیں اور نہ ہی ترقی ،خوشحالی اور امن و استحکام کی توقع کرسکتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور ہمیں اپنی طرف سے فتح ونصرت سے ہمکنار فرما مزید ہمیں اسلام کے کلمے اور اس کے علم کو بلند کرنے والا والا بنا اور ہمیں اپنی طرف سے بہترین دینی وملی وسماجی قائد ورہبر بنا ۔ آمین تقبل یا رب العالمین۔

(جاری )

afrozgulri@gmail.com
16/07/2019
at 06:35 am
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2389362187958846&id=100006552645719


Sent from my TA-1053 using Tapatalk
 
Top