• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور ان کا معنی ومطلب

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور ان کا معنی ومطلب

قرآن مجید میں اللہ کے بہت سے اسمائے حسنیٰ موقع محل کی مناسبت سے بار بار ذکر ہوئے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ان کے جامع معانی کی طرف اشارہ کردیا جائے چنانچہ ہم کہتے ہیں:
(۱) اسم مبارک (رب) بہت سی آیات میں آیا ہے۔ ’’رب‘‘ کا مطلب ہے اپنے تمام بندوں کو تدبیر اور طرح طرح کی نعمتوں کے ساتھ پالنے والا۔ اس کا ایک محدود ترمفہوم بھی ہے یعنی اپنے چنے ہوئے بندوں کے دلوں، روحوں اور اخلاق کی اصلاح کر کے ان کی تربیت کرنے والا۔ وہ لوگ زیادہ تر اللہ کے اسی نام سے دعائیں کرتے ہیں کیوں کہ اس سے اس خاص تربیت کے طلب گار ہوتے ہیں۔

(۲) (اللہ)کا مطلب ہے معبو د ۔ تمام مخلوق اس کی الوہیت اور عبودیت میں شامل ہے کیوں کہ وہ ان معبودانہ صفات کا حامل ہے جو صفات کمال ہیں۔

(۳) (الملک) ’’بادشاہ‘‘ اور(المالک) بادشاہی اسی کی ہے۔ اسی لیے وہ ’’بادشاہ‘‘ کی صفات سے متصف ہے یعنی عظمت، کبریائی، غلبہ، تدبیروانتظام وغیرہ۔ اسے تخلیق میں، احکامات جاری کرنے میں اور جزاوسزا دینے میں مطلقاً تصرف حاصل ہے ۔ اوپر والا اور نیچے والا سارا جہان اس کی ملکیت ہے۔ سب اس کے بندے، مملوک اور محتاج ہیں۔ وہی اکیلا مالک ہے۔

(۴) (الواحد) ’’ایک‘‘ (الاحد) ’’یکتا‘‘: وہ تمام صفات کمال میں یکتا ہے۔ ان میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں۔ بندوں کا فرض ہے کہ اسے عقلی طور پر ‘ زبانی طور پر اور عملی طور پر ایک مانیں یعنی اس کے کمال مطلق کا اعتراف کریں، وحدانیت صرف اسی کے لیے تسلیم کریں اور ہر قسم کی عبادت صرف اکیلے کے لیے خاص کردیں۔

(۵) (الصمد) ’’بے نیاز‘‘: یعنی وہی ذات ہے جس کی طرف تمام مخلوقات اپنی تمام ضرورتوں ، تمام مجبوریوں اور تمام حالات میں متوجہ ہوتی ہیں کیوں کہ وہ اپنی ذات میں، اسماء میں، صفات میں اور افعال میں لامحدود کاملیت سے متصف ہے۔

(۶) (العلیم) ’’علم رکھنے والا‘‘ (الخبیر) ’’خبررکھنے والا‘‘: جس کا علم ظاہر اور باطن کو محیط ہے۔ وہ چھپائی ہوئی باتیں بھی جانتا ہے اور ظاہر کی ہوئی بھی، واجبات سے بھی باخبر ہے اور ممکنات ومحالات سے بھی، وہ ماضی سے بھی واقف ہے ، حال سے بھی اور مستقبل سے بھی چنانچہ اس سے کچھ بھی مخفی نہیں۔

(۷) (الحکیم) ’’حکمت ودانائی والا‘‘: اس کی تخلیق میں اور اس کے احکام میں اعلیٰ ترین حکمت پوشیدہ ہے۔ اس نے ہر چیز کو بہترین انداز سے پیدا فرمایا: {وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ} (المائدہ: ۵۰) ’’یقین رکھنے والوں کے لیے اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟‘‘ وہ کسی چیز کو بے مقصد پیدا کرتا ہے، نہ بے فائدہ کوئی قانون جاری فرماتاہے۔ دنیا وآخرت میں اسی کا فیصلہ نافذ ہے، تینوں طرح کے حکم اسی کے لیے ہیں۔ ان میں اس کا کوئی شریک نہیں یعنی شریعت (اور احکام نافذ کرنے) میں بھی بندوں کے درمیان وہی فیصلہ کرتا ہے۔ تقدیر میں بھی اور جزاوسزا میں بھی ۔ حکمت کا مطلب ہے: ’’ہر چیز کو اس کے مقام ومرتبہ پر رکھنا۔‘‘

(۸) (الرحمن) ’’مہربان ‘‘(الرحیم) ’’رحم کرنے والا‘‘ (البر) ’’احسان کرنے والا‘‘ (الکریم)’’صاحب کرم‘‘ (الجواد) ’’سخی‘‘ (الرء وف) ’’شفقت کرنے والا‘‘ (الوھاب) ’’داتا‘‘: یہ سب اسمائے مبارکہ قریب المعنی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ رحمت، احسان، سخاوت اور کرم کی صفات سے متصف ہے۔ اس کی رحمت وعطا لامحدود ہے جو اس کی حکمت کے مطابق ہر موجود کو حاصل ہے۔ اس میں سے مومنوں کو وافر اور کامل تر حصہ نصیب ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہیـ: {وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْ ء فَسَاَ کْتُبُھَا لِلّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ} (الاعراف: ۱۵۶)’’میری رحمت ہر شے کو محیط ہے، میں اسے ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو تقویٰ اختیار کریں گے۔‘‘ تمام نعمتیں اور احسان اس کی رحمت اور اس کے جودوکرم کا مظہر ہیں اور دنیا وآخرت کی تمام بھلائیاں اس کی رحمت کے نشان ہیں۔

(۹) (السمیع) ’’سننے والا‘‘ جو مختلف زبانوں میں ، ہر قسم کی حاجات پر مشتمل تمام آوازیں سنتا ہے۔

(۱۰) (البصیر) ’’دیکھنے والا ‘‘ : جو ہر چھوٹی سے چھوٹی اور باریک سے باریک چیز کو دیکھتا ہے۔ وہ تاریک رات میں ٹھوس چٹان پر چلتی ہوئی سیاہ چیونٹی کو بھی دیکھتا ہے۔ وہ سات زمینوں کے نیچے کی چیزوں کو بھی اسی طرح دیکھتا ہے جس طرح سات آسمانوں کے اوپر کی چیز کو نیز وہ یہ بھی سنتا اور دیکھتا ہے کہ کون اس کی حکمت کے مطابق جزا کا مستحق ہے۔ یہ آخری معنی صفت حکمت ہی کا ایک پہلو اجاگر کرتا ہے۔

(۱۱) (الحمید) ’’قابل تعریف‘‘: وہ اپنی ذات کے لحاظ سے، اپنے اسماء کے لحاظ سے ، صفات کے لحاظ سے اور افعال کے لحاظ سے (ہرطرح) قابل تعریف ہے۔ اس کے نام بہترین، اس کی صفات اور اس کے افعال کامل ترین اور بہترین ہیں کیوں کہ اس کے افعال اس کے فضل کے مظہر ہیں یا اس کے عدل کے۔

(۱۲) (المجید) ’’بزرگی والا‘‘ (الکبیر) ’’بڑائی والا‘‘ (العظیم) ’’عظمت والا‘‘ (الجلیل) ’’شان والا‘‘ : وہ بزرگی، عظمت اور شان کی صفات سے متصف ہے۔ وہ ہر چیز سے بڑا، عظیم، جلیل اور بلند ہے۔ اس کے اولیاء کے دل اس کی عظمت کے احساس سے بھرپور ہیں لہٰذا اس کی کبریائی کے سامنے عجزوانکسار کا اظہار کرتے ہوئے سرنگوں ہیں۔

(۱۳) (العفو) ’’ بہت معاف کرنے والا‘‘ (الغفور) ’’گناہوں کو سدا بخشنے والا‘‘ (الغفار) ’’انتہائی معاف کرنے والا‘‘: اس کی معاف کرنے کی صفت ہمیشہ سے معروف ہے اور بندوں کے گناہ بخش دینا سدا سے اس کی شان ہے۔ ہر کوئی اس کی معافی اور مغفرت کا محتاج ہے جس طرح اس کی رحمت اور اس کے کرم کے بغیر کسی کو چارہ نہیں۔ اس نے وعدہ کیا ہے کہ جو شخص معافی کے ذرائع اختیار کرے گا، اسے ضرور بخش دیا جائے گا۔ اس کا ارشاد ہے: (وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحاً ثُمَّ اھْتَدٰی) (طہٰ: ۸۲) ’’میں بہت بخشنے والا ہوں اس کو جو توبہ کرے، ایمان لائے، نیک عمل کرے پھر ہدایت پر قائم رہے۔‘‘

(۱۴) (التواب) ’’توبہ قبول کرنے والا‘‘: جو ہمیشہ سے توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول کرنے والا اور رجوع کرنے والوں کے گناہ معاف کرنے والا ہے لہٰذا جو بھی اللہ کے دربار میں سچے دل سے توبہ کرے، اللہ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے ۔ وہ بندوں پر پہلے تو اس انداز سے التفات فرماتا ہے کہ انھیں توبہ کی توفیق دیتا اور ان کے دل اپنی طرف پھیر لیتا ہے پھر اس انداز سے التفات فرماتا ہے کہ ان کی توبہ قبول کرکے ان کی غلطیوں سے درگزرفرماتا ہے۔

(۱۵) (القدوس) ’’پاک‘‘ (السلام ) ’’سلامتی والا‘‘: یعنی وہ تمام نقائص سے پاک ہے اور اس بات سے بھی پاک ہے کہ مخلوق میں کوئی اس کی مثل ہو۔ وہ تمام عیوب سے منزہ ہے اور اس بات سے بھی منزہ ہے کہ کوئی مخلوق کسی صفت کمال میں اس کی مثل یا اس سے قریب ہو۔ ارشاد ہے: {لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ} (الشوریٰ:۱۱) ’’کوئی چیز اس کی مثل نہیں‘‘ {وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُواًاَحَدٌ} (الاخلاص: ۴) ’’اس کا کوئی ہم سر نہیں‘‘ {ھَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَمِیّاً} (مریم: ۶۵) ’’کیا تجھے کوئی اس کے برابر کا معلوم ہے؟‘‘ {فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا } (البقرہ: ۲۲) ’’دوسروں کو اللہ کے جوڑ کا قرار نہ دو۔‘‘ ’’قدوس‘‘ اور ’’سلام‘‘کا مفہوم باہم مشابہ ہے۔ ان دونوں میں اللہ تعالیٰ سے نقص کی ہر لحاظ سے نفی پائی جاتی ہے اور ہر لحاظ سے کمال مطلق کا اثبات ہوتا ہے کیوں کہ جب نقص کی نفی ہو جائے تو اس سے کمال کا اثبات ہوتا ہے۔

(۱۶) (العلی، الاعلی) ’’بلند ، سب سے بلند‘‘: اسے ہر لحاظ سے مطلق بلندی حاصل ہے۔ ذاتی طور پر بھی علو اور صفات اور قدرومنزلت کا علو، غلبہ واقتدار کا علو۔ وہی عرش پر مستوی ہے اور اقتدار کا مالک ہے۔ وہ عظمت، کبریائی، جلال اور کمال کی تمام ترصفات سے بہرہ ور ہے جن کے آگے کمال کا کوئی درجہ نہیں۔

(۱۷) (العزیز) ’’بااقبال‘‘ : اسے ہر طرح کا اقبال حاصل ہے۔ قوت کا اقبال، غلبہ کا اقبال، امتناع کا اقبال یعنی کوئی مخلوق اس کا کچھ نہیںبگاڑ سکتی ۔ تمام مخلوقات اس کے آگے دبی ہوئی ہیں، اس کی مطیع ہیں اور اس کی عظمت کو دل سے تسلیم کرتی ہیں۔

(۱۸) (القوی) ’’قوت والا‘‘ (المتین) ’’زبردست‘‘ : ان صفات کا مفہوم بھی العزیز والا ہے۔

(۱۹) (الجبار): اس کا مطلب سب سے بلند بھی ہے، زبردست بھی جس کے سامنے کوئی بولنے کی جرأت نہ کر سکے اور اس کا معنی شفقت کرنے والا، ٹوٹے دلوں کو جوڑنے والا بھی ہے۔ ضعیفوں، عاجزوں اور پناہ کے طالبوں کے زخمی دلوں پر مرہم رکھنے والا ہے۔

(۲۰) (المتکبر) ’’کبریائی والا‘‘ : یعنی اتنا عظیم کہ اس کی طرف کسی برائی، نقص یا عیب کی نسبت نہیں ہو سکتی۔

(۲۱) (الخالق) ’’پیداکرنے والا‘‘ (الباریٔ) ’’عدم سے وجود بخشنے والا‘‘ (المصور) ’’صورتیں بنانے والا‘‘: جس نے تمام موجودات کو پیدا کیا، انھیں وجود بخشا اور اپنی حکمت کے ساتھ ٹھیک ٹھیک بنایا اور اپنی حمدوحکمت کے ساتھ ان کی صورت گری کی۔ وہ ازل سے اس وصف عظیم کا حامل ہے۔

(۲۲) (المؤمن) ’’تصدیق کرنے والا‘‘: جس نے اپنی صفات کمال اور کمال جلال وجمال کے ساتھ اپنی تعریف فرمائی جس نے دلائل وبراہین کے ساتھ رسول بھیجے اور کتابیں نازل کیں ۔ اس نے معجزات اور دلائل کے ساتھ اپنے رسولوں کی تصدیق فرمائی جن سے ان کا سچا ہونا اور ان کی لائی ہوئی شریعت کا صحیح ہونا ثابت ہوگیا۔

(۲۳) (المھیمن ) ’’نگراں‘‘: یعنی پوشیدہ باتوں اور دلوں کے رازوں سے باخبر جسے ہر چیز کا علم ہے۔

(۲۴) (القدیر) ’’قدرت رکھنے والا‘‘:جس کی قدرت کامل ہے۔ اس نے اپنی قدرت سے تمام اشیاء کو وجود بخشا، اپنی قدرت سے ان کی تدبیر کی، اپنی قدرت سے انھیں درست اور محکم بنایا۔ وہ اپنی قدرت سے زندہ کرتا اور موت دیتا ہے اور اپنی قدرت سے بندوں کو جزاوسزا کے لیے اٹھائے گا پھر نیکی کرنے والے کو نیکی کا انعام دے گا اور برائی کرنے والے کو برائی کی سزا۔ وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو (کن) کہتے ہی وہ چیز ہو جاتی ہے۔ وہ اپنی قدرت سے دلوں کو پلٹتا اور اپنی مشیت کے مطابق ان کو پھیرتا ہے۔

(۲۵) (اللطیف) ’’باریک بین‘ مہربانی کرنے والا‘‘ : اس کا علم تمام خفیہ معاملات اور اسرار کو محیط ہے۔ وہ پوشیدہ اشیاء، ہر کسی کے باطن اور باریک معاملات سے باخبر ہے۔ علاوہ ازیں وہ اپنے مومن بندوں پر لطف وکرم کرنے والا ہے۔ اس لطف واحسان کی وجہ سے وہ ان تک ان کے فائدے کی اشیاء اس انداز سے پہنچادیتا ہے کہ انھیں معلوم بھی نہیں ہوتا۔ گویا اللہ کا یہ نام مبارک (الخبیر ) کا معنی بھی رکھتا ہے اور (الرء وف) کا معنی بھی۔

(۲۶) (الحسیب) ’’حساب لینے والا، کافی ہوجانے والا‘‘: وہ اپنے بندوں (کے حالات) سے باخبر ہے۔ توکّل کرنے والوں کو کافی ہو جاتا ہے۔ اپنے بندوں کو اپنی حکمت اور اپنے علم کے مطابق ان کے چھوٹے بڑے اعمال کی جزاوسزا دیتا ہے۔

(۲۷) (الرقیب) ’’نگراں‘‘ : دلوں میں پوشیدہ خیالات سے باخبر، ہر کسی کے اعمال ملاحظہ فرمانے والا، جو مخلوقات کی حفاظت کرتا ہے اور انھیں بہترین نظام کے ساتھ اور مکمل نظم وضبط کے ساتھ چلاتا ہے۔

(۲۸) (الحفیظ) ’’حفاظت کرنے والا‘‘ : جو اپنی مخلوقات کی حفاظت کرتا ہے، اس کا علم اس کی تخلیق کردہ تمام اشیاء کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ گناہوں اور ہلاکت کے کاموں سے اپنے دوستوں کی حفاظت کرتا ہے ۔ حرکات وسکنات میں ان پر لطف وکرم فرماتا ہے۔ وہ بندوں کے تمام اعمال اور ان کی جزاوسزا کی تفصیلات سے باخبر ہے۔

(۲۹) (المحیط) ’’احاطہ کرنے والا‘‘ : کوئی چیز اس کے علم، قدرت، رحمت اور اقتدار کے دائرے سے باہر نہیں۔

(۳۰) (القھار) ’’ہر چیز پر غالب‘‘: جس کے سامنے کوئی سر نہیں اٹھاسکتا ۔ تمام مخلوقات اس کے سامنے سرنگوں ہیں۔ سب اس کی شان ، قدرت، طاقت اور اقتدار کامل کے سامنے عاجز اور سرافگندہ ہیں۔

(۳۱) (المقیت) ’’روزی رساں‘‘: جوہر موجود کو اس کی غذا پہنچاتا ہے اور انھیں رزق بہم پہنچاتا ہے۔ اپنی حکمت اور حمد کے ساتھ جس طرح چاہتا ہے روزیاں تقسیم کرتا ہے۔

(۳۲) (الوکیل) ’’کام بنانے والا، مشکل کشا‘‘ : جو اپنے علم ، کامل قدرت اور کامل حکمت کے ساتھ مخلوقات کے کام سنوارتا ہے، جو اپنے اولیاء سے محبت رکھتا ہے انھیں آسانیاں مہیا فرماتا اور مشکلات سے بچاتا ہے جو اسے اپنا کارساز مان لے، اسے کسی اور کی محتاجی نہیں رہتی۔ ارشاد ہے: {اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلیَ النُّوْرِ} (البقرہ:۲۵۷) ’’اللہ مومنوں کا دوست ہے، انھیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے۔‘‘

(۳۳) (ذوالجلال والاکرام) ’’عظمت والا اور عزت افزائی کرنے والا‘‘ : وہ عظمت وکبریائی سے متصف ہے۔ رحمت اور سخاوت والا ہے۔ اس کا عمومی احسان بھی ہے اور خصوصی احسان بھی۔ وہ اپنے دوستوں اور مقربین کو عزت بخشتا ہے۔ وہ اس کی عظمت وجلالت شان کو پیش نظر رکھتے اور اس سے محبت رکھتے ہیں۔

(۳۴) (الودود) ’’محبت کرنے والا اور محبوب‘‘: وہ اپنے نبیوں، رسولوں اور ان کی اتباع کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے اور وہ اس کی محبت سے سرشار ہیں۔ وہ انھیں ہر شے سے زیادہ پیارا ہے۔ ان کے دل اس کی محبت سے لبریز ہیں۔ ان کی زبانیں اس کی حمدوثنا میں مصروف رہتی ہیں۔ ان کے دل ہر لحاظ سے انابت، اخلاص اور محبت سے اس کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں۔

(۳۵) (الفتاح) ’’فیصلہ کرنے والا، کھولنے والا‘‘ :وہ شرعی احکام کے ذریعے سے ، تقدیر کے فیصلوں کے ذریعے اور جزا اور سزا کے ذریعے سے اپنے بندوں کے درمیان فیصلے کرتا ہے۔ وہ اپنے لطف وکرم سے سچے لوگوں کی چشم بصیرت کو کھول دیتا ہے، ان کے دل اپنی معرفت، محبت اور اپنی طرف جھکاؤ کے لیے کھول دیتا ہے۔ اپنے بندوں کے لیے رحمت کے اورطرح طرح کے رزق کے دروازے کھول دیتا ہے۔ انھیں وہ اسباب مہیا فرماتا ہے جن سے انھیں دنیا اور آخرت کی بھلائی نصیب ہو جائے۔ ارشاد ہے: {مَایَفْتَحِ اللّٰہُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَۃٍ فَلَا مُمْسِکَ لَھَا وَمَا یُمْسِکْ فَلَا مُرْسِلَ لَہٗ مِنْ بَعْدِہِ} (فاطر:۲) ’’اللہ لوگوں کے لیے جو رحمت کھولتا ہے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جسے روک لے اس کے بعد اس (رحمت ) کو کوئی نہیں بھیج سکتا۔‘‘

(۳۶) (الرزاق) ’’رزق دینے والا‘‘: وہ اپنے تمام بندوں کو رزق دیتا ہے۔ زمین میں چلنے والی جو بھی چیز ہے اس کا رزق اللہ ہی کے ذمے ہے۔ اس کی طرف سے بندوں کو ملنے والے رزق کی دو قسمیں ہیں۔

رزق عام: اس میں نیک وبد، پہلے اور پچھلے سب شریک ہیں۔ یہ ابدان کا رزق ہے۔

رزق خاص: یہ دلوں کا رزق ہے اور دلوں کو غذا علم اور ایمان سے ملتی ہے۔

رزق حلال وہ ہوتا ہے جو دین کی درستی کے لیے ممدومعاون ثابت ہو۔ یہ مومنوں کے لیے مخصوص ہے۔ تاہم یہ انھیں اپنے اپنے مرتبے کے مطابق (کم وبیش ) ملتا ہے جیسے بھی رب کی حکمت ورحمت کا تقاضا ہوتا ہے۔

(۳۷) (الحکم) ’’فیصلے کرنے والا‘‘ (العدل) ’’انصاف کرنے والا‘‘: وہ دنیا اور آخرت میں عدل وانصاف کے ساتھ بندوں کے فیصلے کرتا ہے۔ وہ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا، نہ کسی پر کسی اور کا بوجھ لادتا ہے، نہ بندے کو اس کے گناہوں سے زیادہ سزا دیتا ہے۔ وہ ہر حق دار کو اس کا حق پہنچاتا ہے چنانچہ وہ تدبیر میں بھی اور تقدیر میں بھی (العدل) ’’انصاف کرنے والا‘‘ ہے۔ {اِنَّ رَبِّیْ عَلیٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ} (ہود: ۵۶) ’’میرا رب سیدھی راہ پر قائم ہے‘‘۔

(۳۸) (جامع الناس) : وہ لوگوں کو اس دن جمع کرے گا جس کے وقوع میں کوئی شک نہیں۔ وہ ان کے عملوں اور رزقوں کو بھی جمع کرنے والا ہے چنانچہ ہر چھوٹا بڑا عمل اس کے شمار میں ہے۔ وہ پہلے اور پچھلے مردوں کے بکھر جانے والے اور تبدیل ہو کر مٹی بن جانے والے اعضا ء کو بھی اپنی کامل قدرت وعلم کے ساتھ جمع کرلے گا۔

(۳۹) (الحی، القیوم) ’’زندہ ، قائم رہنے اور رکھنے والا‘‘: اس کی حیات کامل اور ذاتی طور پر قائم ہے اور آسمان اور زمین والوں کو قائم رکھنے والا ہے۔ ان کے تمام انتظامات، رزق اور تمام حالات اس کے ہاتھ میں ہیں۔ ’’الحی‘‘ صفات ذاتیہ کا جامع نام ہے اور ’’القیوم‘‘ صفات افعال کا جامع ہے۔

(۴۰) (النور ) ’’روشنی ، روشن کرنے والا‘‘ : وہ آسمانوں اور زمین کو روشن کرنے والا ہے۔ اس نے عارفین کے دل معرفت اور ایمان کے ساتھ منور فرمادیے اور ان کے دلوں کو ہدایت کے نور سے روشن فرمایا۔ اس نے آسمان اور زمین کو اپنے پیدا کیے ہوئے انوار سے روشن کر رکھا ہے۔ اس کا پرد ہ بھی نور ہے اگر وہ اسے ہٹادے تو اس کے چہرۂ انور کے جلووں سے تمام مخلوق فنا ہو جائے۔

(۴۱) (بدیع السماوات والارض) ’’آسمان اور زمین کا موجد‘‘: جس نے انھیں کسی سابقہ مثال کے بغیر پیدا فرمایا۔ ان کی تخلیق انتہائی حسن وجمال اور تخلیق بے مثال اور عجیب وغریب پختہ نظام پر قائم ہے۔

(۴۲) (القابض، الباسط) ’’محدود کرنے والا، وسیع کرنے والا‘‘: وہ رزق کوتنگ کرتا ہے، روحوں کو قبض کرتا ہے، رزق کو وسیع کرتا ہے، دلوں کو کھولتا ہے اور یہ سب کچھ اس کی رحمت اور حکمت کے تحت ہے۔

(۴۳) (المعطی، المانع) ’’دینے والا، روک لینے والا‘‘: وہ جو کچھ دینا چاہے، کوئی اس میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتا اور جس چیز کو وہ روک لے، کوئی عطا نہیں کرسکتا لہٰذا تمام نعمتیں اور فوائد اس سے مانگنا چاہئیں، ان کے لیے اس کی طرف رغبت کرنا چاہیے۔ وہی اپنی حکمت ورحمت کی بنا پر جسے چاہتا ہے، وہ نعمتیں اور فوائد عطا فرماتا ہے اور جس سے چاہتا ہے روک لیتا ہے۔

(۴۴) (الشھید) ’’گواہ، حاضر ناظر‘‘: جوہر چیز سے باخبر ہے۔ وہ تمام آوازیں سنتا ہے خواہ وہ ظاہر ہو ں یا پوشیدہ۔ وہ تمام موجودات کو دیکھتا ہے خواہ وہ چھوٹی ہوں یا بڑی۔ اس کا علم ہر شے کو محیط ہے۔ وہ بندوں کے اعمال کے مطابق ان کے حق میں یا ان کے خلاف گواہ ہے۔

(۴۵) (المبدیٔ ، المعید)’’ابتدا کرنے والا، دہرانے والا‘‘: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {ھُوَ الَّذِیْ یَبْدَؤُاالْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ} (الروم: ۲۷)’’وہی ہے جو پہلی بار پیدا کرتا ہے پھر دوبارہ پیدا کرے گا۔‘‘ اس نے اپنی مخلوق کو پہلی بار اس لیے پیدا کیا ہے کہ ان کو آزمائے کہ کون بہترین عمل کرتا ہے پھر دوبارہ پیدا کرے گا تاکہ نیکی کرنے والوں کو نیکیوں کی جزادے اور برے کام کرنے والوں کو ان کی بداعمالیوں کی سزا دے۔ اسی طرح وہ اپنی مخلوقات کو ایک تدریج کے ساتھ ابتداء پیدا کرتا ہے اور پھر اس کا ہر وقت اعادہ کرتا رہتا ہے۔

(۴۶) (الفعال لمایرید) ’’جو چاہے کرنے والا، مختار کل‘‘: اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی قوت کامل اور اس کی قدرت اور مرضی نافذ ہونے والی ہے۔ وہ جو کام کرنا چاہے کرلیتا ہے، اسے کوئی روکنے والا نہیں، اس پر کوئی اعتراض کرکے رکاوٹ ڈالنے والا نہیں، نہ اسے کسی بھی کام کے لیے کسی مددگار کی ضرورت ہے بلکہ وہ جس چیز کا ارادہ فرماتا ہے اسے کہتا ہے: (کُنْ) ’’ہو جا‘‘ وہ ہو جاتی ہے۔ وہ اگرچہ جو چاہے کرسکتا ہے تاہم اس کا ارادہ اس کی حکمت کے تابع ہے۔ اس کی قدرت کامل اور اس کی مشیت پوری ہونے والی ہے اور اس نے جو کچھ کیا ہے، جو کررہا ہے، جو کرے گا ان سب میں اس کی حکمت موجود ہے۔

(۴۷) (الغنی) ’’بے پروا، جو کسی کا محتاج نہیں‘‘ (المغنی) ’’غنی کرنے والا‘‘: وہ غنی ہے، جسے ہر پہلو اور ہر اعتبار سے مکمل اور لامحدودغنا واستغنا حاصل ہے کیوں کہ وہ خود بھی کمال سے متصف ہے اور اس کی صفات بھی اس قدر کامل ہیں کہ ان میں کسی لحاظ سے کسی نقص کا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کا غنا کے برعکس کیفیت میں ہونا ممکن نہیں کیوں کہ غنا اس کی ذاتی لازمی صفات میں سے ہے، آسمان وزمین کے خزانے بلکہ دنیا اور آخرت کے خزانے اس کے ہاتھ میں ہیں ۔ وہ اپنی تمام مخلوقات کوعمومی غنا عطا فرماتا ہے اور اپنے خاص بندوں کے دلوں پر ربانی معارف اور ایمانی حقائق کو فیض پہنچاکرغنی کردیتا ہے۔

(۴۸) (الحلیم) ’’حلم اور بردباری والا‘‘: جو اپنی مخلوقات پر ظاہری اور باطنی نعمتیںنازل فرماتا رہتا ہے حالاں کہ وہ گناہ اور بے شمار لغزشوں کا ارتکاب بھی کرتے ہیں۔ وہ نافرمانوں کو فوری سزادینے کے لیے بردباری کرتے ہوئے انھیں موقع دیتا ہے کہ توبہ کرلیں اور انھیں مہلت دیتا ہے کہ اس کی طرف رجوع کرلیں۔

(۴۹) (الشاکر) ’’قدردانی کرنے والا‘‘ (الشکور) ’’قدرداں‘‘: جو تھوڑے سے عمل کی قدرکرتے ہوئے اسے بھی شرف قبولیت سے نوازتا ہے اور بے شمار لغزشوں کو معاف کردیتا ہے اور اہل اخلاص کے اعمال کا ثواب بے حساب بڑھادیتا ہے۔ جو شکر کرنے والوں کی قدر کرتا ہے اور ذکر کرنے والوں کو یاد فرماتا ہے۔ بندہ کوئی نیکی کرکے اس کا جس قدر تقرب حاصل کرنا چاہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ قرب عطا فرماتا ہے۔

(۵۰) (القریب) ’’نزدیک‘‘ (المجیب) ’’قبول کرنے والا‘‘: یعنی وہ ہر کسی سے قریب ہے۔ اس کا قرب دو انداز کا ہے۔ ایک عمومی قرب اس لحاظ سے کہ اللہ اس کا علم رکھنے والا، اس (کے حالات واعمال ) سے باخبر، اس کی نگرانی کرنے والا، اسے دیکھنے والا اور اس کا احاطہ کرنے والا ہے۔ دوسرا خاص قرب جو اس کی عبادت کرنے والوں، اس سے سوال کرنے والوں اور اس سے محبت رکھنے والوں کو حاصل ہوتا ہے، یہ قرب ایسا ہے کہ اس کی حقیقت کا ادراک ممکن نہیں البتہ اس کے اثرات معلوم ہو سکتے ہیں مثلاً بندے پر لطف وکرم، اس پر عنایتیں ، توفیق وہدایت وغیرہ۔ دعا کی قبولیت اور عبادت پر ثواب بھی اس قرب کا ایک مظہر ہے۔ اس کی قبولیت بھی ایک عام ہے ایک خاص ۔ وہ تمام دعا کرنے والوں کی دعا عمومی طور پر قبول کرنے والا ہے، وہ جو بھی ہوں، جہاں بھی ہوں، جس حال میں بھی ہوں۔ ان سے اس نے وعدہ بھی مطلق کیا ہے۔ اس کی خصوصی قبولیت ان کے لیے ہے جو اس کے احکام تسلیم کرتے اور اس کی شریعت کی پابندی کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ ان لاچار اور مجبور بندوں کی دعا بھی قبول کرتا ہے جنھیں مخلوق سے کوئی امید نہ رہی ہو اور ان کا اللہ کے ساتھ طلب، امیداور خوف کا تعلق مضبوط ہو چکا ہو۔

(۵۱) (الکافی) ’’کفایت کرنے والا‘‘: وہ اپنے بندوں کی تمام حاجتیں پوری کرنے والا ہے ۔ یہ عمومی کفایت ہے۔ اس کی خصوصی کفایت اس شخص کو حاصل ہوتی ہے جو اس پر ایمان لائے، اس پر توکل کرے اور دنیا ودین کی تمام حاجتیں اس سے مانگے۔

(۵۲) (الاول) ’’پہلا‘‘ (الآخر) ’’آخری‘‘ (الظاہر) ’’ظاہر‘‘ (الباطن) ’’پوشیدہ‘‘: نبی ﷺ نے ان اسمائے حسنیٰ کی ایک واضح اور جامع تشریح فرمادی ہے۔ ارشاد نبوی ہے : {اَنْتَ الْاَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیئٌ وَاَنْتَ الْآخِرو فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْء وَاَنْتَ الظَّاھِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْء وَاَنْتَ الْبَاطِنُ وفَلَیْسَ دُوْنَکَ شَیْئٌ} ’’تو ہی اول ہے، تجھ سے پہلے کچھ نہیں تھا۔ تو ہی آخر ہے تیرے بعد کچھ نہیں۔ تو ظاہر ہے تجھ سے بلند تر کوئی چیز نہیں، تو باطن ہے تجھ سے قریب تر کوئی چیز نہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الذکروالدعاء، باب الدعاء عندالنوم ، حدیث:۲۷۱۳)

(۵۳) (الواسع) ’’وسعت والا‘‘: جس کی صفات اور صفات کے متعلقات بے حدوسیع اور لامحدود ہیں۔ کوئی اس کی حمدوثنا کما حقہ ادا نہیں کرسکتا ۔ بس وہ ویسے ہی ہے جیسے اس نے اپنی تعریف خود فرمائی ہے۔ اس کی عظمت اور سلطنت بھی بے انتہا وسیع ہے، اس کا فضل واحسان بھی وسیع ہے۔ اس کے جودوکرم کی بھی انتہا نہیں۔

(۵۴) (الھادی) ’’ہدایت دینے والا‘‘ (الرشید) ’’ہدایت دینے والا، حکمت والا‘‘: وہ ہر فائدے کے حصول اور ہر ضرر سے بچاؤ کے لیے اپنے بندوں کی رہنمائی فرماتا ہے اور انھیں وہ کچھ سکھاتا ہے جسے وہ نہیں جانتے ، وہ انھیں ہدایت نصیب فرماتا ہے، ان کے دلوں میں تقویٰ ڈالتا ہے، ان کے دلوں کو اپنی طرف رجوع کرنے والے اور اپنے احکامات کی تعمیل کرنے والے بناتا ہے۔

رشید کے ایک معنی حکیم کے بھی ہیں۔ وہ اپنے ارشادات وافعال میں صاحب حکمت ہے۔ اس کی شریعت کے تمام احکام خیر، ہدایت اور حکمت پر مشتمل ہیں۔ اس کی تمام مخلوقات میں حکمت پائی جاتی ہے۔

(۵۵) (الحق) ’’حقیقت، سچا‘‘: وہ اپنی ذات وصفات میں حق ہے۔ وہ واجب الوجود ہے۔ کامل صفات سے متصف ہے۔ موجود ہونا اس کی ذات کے لوازم میں سے ہے۔ اس کے بغیر کسی چیز کا وجود ممکن نہیں ۔ وہ ہمیشہ سے جلال ، جمال او رکمال کی صفات سے متصف ہے اور ہمیشہ ان صفات سے موصوف رہے گا۔ وہ ازل سے احسان کے ساتھ معروف ہے اور ہمیشہ یوں ہی رہے گا۔ اس کا قول بھی حق ہے۔ اس کا فعل بھی حق ہے۔ اس کی ملاقات (اور قیامت) بھی حق ہے۔ اس کے رسول حق ہیں، اس کی کتابیں حق ہیں۔ اس کا دین حق (اور سچا ) ہے، اس اکیلے کی عبادت حق ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس سے جس چیز کی بھی نسبت ہے وہ حق ہے۔ {ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْحَقُّ وَاَنَّ مَایَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ ھُوَالْبَاطِلُ وَاَنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ} (الحج: ۶۲) ’’یہ اس لیے ہے کہ اللہ ہی حق ہے اور اس کے سوا جس جس کو پکارتے ہیں، وہ سراسر باطل ہے اور اللہ ہی بلندیوں والا اور بڑا ہے۔‘‘ {وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنْ شَآئَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَآئَ فَلْیَکْفُرْ} (الکہف: ۲۹) ’’فرما دیجیے، حق تمھارے رب کی طرف سے ہے لہٰذا جو شخص چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر اختیار کرلے‘‘ {فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ} (یونس:۳۲) ’’حق کو چھوڑ کر گمراہی کے سوا کیا رہ جاتا ہے‘‘ {وَقُلْ جَآء الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقاً } (الاسراء:۸۱) ’’فرمادیجیے، حق آگیا اور باطل مٹ گیا، یقیناً باطل کو مٹنا ہی تھا‘‘

والحمد للّٰہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات
وصلی اللّٰہ علی محمدوعلیٰ آلہ واصحابہ ومن تبعھم الی یوم الدین۔
عبدالرحمٰن بن ناصرالسعدی

عنیزہ قصیم، سعودی عرب​
 
Top