• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ تعالیٰ کے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بنانے والے

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اللہ تعالیٰ کے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بنانے والے

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّی وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَآئَ تُلْقُوْنَ إِِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ کَفَرُوْا بِمَا جَآئَ کُمْ مِّنَ الْحَقِّ یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَإِِیَّاکُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ رَبِّکُمْ إِِنْ کُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِہَادًا فِیْ سَبِیْلِیْ وَابْتِغَآئَ مَرْضَاتِیْ تُسِرُّوْنَ إِِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَیْتُمْ وَمَا أَعْلَنتُمْ وَمَنْ یَّفْعَلْہُ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآئَ السَّبِیْلِ o} [الممتحنہ: ۱]
'' اے ایمان والو! میرے اور خود اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ سمجھو، تم تو محبت کی بنیاد ڈالنے کے لیے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو اور وہ اس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں، پیغمبر کو اور خود تمہیں بھی محض اس وجہ سے جلا وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے پروردگار پر ایمان رکھتے ہو، اگر تم میری راہ کے جہاد میں اور میری رضا مندی کی طلب میں نکلتے ہو (تو ان سے دوستیاں نہ کرو) تم ان کے پاس محبت کا پیغام پوشیدہ بھیجتے ہو اور مجھے خوب معلوم ہے جو تم نے چھپایا اور وہ بھی جو تم نے ظاہر کیا، تم میں سے جو بھی اس کام کو کرے گا وہ یقینا راہ راست سے بہک جائے گا۔ ''
تشریح...: اس مقام ذی شان پر وہ مومن مراد ہیں جو ان کفار اور مشرکوں سے دوستی نہیں لگاتے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کے خلاف جنگ کا اعلان کر رکھا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی دوستی سے منع کیا اور ان کو کاٹنے، قتل کرنے اور ان سے دشمنی کا حکم دے رکھا ہے۔ اس کی وجہ رب تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کی:
{إِِنْ یَثْقَفُوکُمْ یَکُوْنُوْا لَکُمْ أَعْدَآئً وَّیَبْسُطُوْٓا إِِلَیْکُمْ أَیْدِیَہُمْ وَأَلْسِنَتَہُمْ بِالسُّوْٓئِ وَوَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ o} [الممتحنہ: ۲]
'' اگر انہیں تم پر غلبے کا موقع مل جائے تو وہ تمہارے کھلے دشمن ہوجائیں اور برائی کے ساتھ تم پر دست درازی اور زبان درازی کرنے لگیں اور دل سے چاہنے لگیں کہ تم بھی کفر کرنے لگ جاؤ۔ ''
یعنی اگر انہیں مسلمانوں کے خلاف کامیابی ملے تو یہ زبان اور ہاتھ کے ساتھ انہیں تکلیف پہنچانے سے ہرگز باز نہ آئیں اور اس بات کے بھی حریص ہیں کہ ہم مسلمان ہرگز بھلائی کو نہ پہنچیں چنانچہ ان کی عداوت ظاہر اور واضح ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے متعلق فرماتے ہیں:
{مَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ أَھْلِ الْکِتٰبِ وَلَا الْمُشْرِکِیْنَ أَنْ یُّنَزَّلَ عَلَیْکُمْ مِّّنْ خَیْرٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَاللّٰہُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ ذُوْا الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ o}[البقرہ: ۱۰۵]
'' نہ تو اہل کتاب کے کافر اور نہ ہی مشرکین چاہتے ہیں کہ تم پر تمہارے رب کی کوئی بھلائی نازل ہو (ان کے اس حسد سے کیا ہوا) اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنی رحمت و خصوصیت سے عطا فرمائے، اللہ تعالیٰ بڑے فضل والے ہیں۔''
بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے مومن بندوں کو کافروں، یعنی اہل کتاب کے راستہ پر چلنے سے ڈرایا اور ان کی ظاہری اور باطنی دشمنی بتلا دی نیز مسلمانوں اور ان کے نبی کی فضیلت کی وجہ سے جو حسد اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں، اس سے بھی آگاہی دے دی۔ فرمایا:
{وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ أَھْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْ بَعْدِ إِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ أَنْفُسِھِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمُ الْحَقُّ فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ إِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ o} [البقرہ: ۱۰۹]
'' ان اہل کتاب کے اکثر لوگ باوجود حق واضح ہوجانے کے محض حسد و بغض کی بناء پر تمہیں بھی ایمان سے ہٹا دینا چاہتے ہیں۔ ''
کافروں سے دوستی نہ رکھنے والے مومنوں کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ دشمنوں کو راضی کرنے کے لیے مسلمانوں کی جاسوسی اور ان کی خبریں ان تک نہیں پہنچاتے، ایسے مومن اللہ کے حکم پر لبیک کہنے والے ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا:
{یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓی أَوْلِیَآئَ بَعْضُھُمْ أَوْلِیَآئُ بَعْضٍ وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَإِنَّہٗ مِنْھُمْ إِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ o} [المائدہ: ۵۱]
'' اے ایمان والو یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور (یاد رکھو) تم سے جس نے انہیں دوست بنایا تو یقینا وہ انہیں میں سے ہے۔ ''
چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کو مانتے ہوئے ایسے لوگوں سے بھی نہیں ہوتے جن کے دلوں میں نفاق اور شک ہے اور باطن اور ظاہر میں کافروں کی دوستی اور پیار اختیار کرنے میں جلد بازی سے کام لیتے ہیں۔
کافروں سے دشمنی رکھنے والے مومن ان کے پیار اور محبت سے اجتناب کرتا ہے کیونکہ انھیں علم ہے کہ جس نے ایسا کام کیا وہ اللہ کے ذمہ سے بری ہوگیا اور اللہ کی جماعت اور اس کے دوستوں سے خارج ہوگیا
کیونکہ فرمایا:
{لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ أَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ إِلَّآ أَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰۃً وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ وَإِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ o}[آل عمران: ۲۸]
'' مومنوں کو چاہیے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی کسی حمایت میں نہیں مگر یہ کہ ان کے شر سے کسی طرح بچاؤ مقصود ہو اور اللہ تعالیٰ خود تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ جانا ہے۔ ''
چنانچہ ایسے مومن کفار، منافقین اور اہل ہواء کو اپنا خازن، دخیل اور دلی دوست نہیں بناتے کہ اپنی آراء میں ان کو داخل کریں اور اپنے امور میں ان پر تکیہ کریں کیونکہ کفار اور خواہش پرست لوگ مسلمانوں میں خرابی ڈالنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں گنواتے۔ اگرچہ ایسے لوگ مسلمانوں سے ظاہری طور پر جنگ نہ بھی کریں مگر وہ دھوکہ دینے اور مکر کرنے سے ہرگز باز نہیں آئیں گے۔ ان کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عداوت اور بغض ان کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو کچھ ان کے سینوں میں چھپا ہے، ظاہری دشمنی اور حسد سے بہت زیادہ ہے۔
ایک مرتبہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ایک کافر کو اپنا کاتب بنا لیا تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں لکھا:
جب اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کو دور کردیا تو پھر آپ ان کو قریب کیوں کرتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے ان کی عزت نہیں کی، لہٰذا تو بھی نہ کر اور اللہ نے انہیں خائن قرار دیا لہٰذا آپ انہیں امین مت بنائیے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایا تھا:
اہل کتاب کو عامل نہ بناؤ کیونکہ وہ رشوت کو حلال سمجھتے ہیں، لہٰذا اپنی رعیت اور اپنے امور میں ان لوگوں سے مدد مانگو جو اللہ تعالیٰ کا ڈر اور خوف اپنے دل میں رکھتے ہیں۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَکُمْ ھُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ اَوْلِیَآئَ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o وَاِذَا نَادَیْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ اتَّخَذُوْھَا ھُزُوًا وَّلَعِبًا ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لاَّ یَعْقِلُوْنَ o} [المائدہ: ۵۷، ۵۸]
'' اے ایمان والو! ان لوگوں کو دوست نہ بناؤ، جو تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنائے ہوئے ہیں، خواہ وہ ان میں سے ہوں جو تم سے پہلے کتاب دیے گئے یا کفار ہوں اگر تم مومن ہو تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور جب تم نماز کے لیے پکارتے ہو تو وہ اسے ہنسی کھیل ٹھہرا لیتے ہیں یہ اس واسطے کہ وہ بے عقل لوگ ہیں۔ ''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
لہٰذا جو سچے مومن ہیں وہ اسلام کے دشمن خواہ وہ اہل کتاب سے ہوں یا مشرکوں سے (کہ جنہوں نے شریعت اسلامیہ اور ان امور کو کھیل تماشا سمجھا ہے حالانکہ شریعت میں دنیوی اور اخروی کامرانیاں پنہاں ہیں) کو دوست نہیں رکھتے۔ خصوصاً جب نماز کا معاملہ آتا ہے جو کہ اہل عقل اور ذی شعور لوگوں کے ہاں افضل عمل ہے، تو اس کے لیے پکار (اذان) سن کر ہنسی و مذاق کرتے ہیں کیونکہ یہ اللہ کی عبادت اور اس کی شریعت کی حقیقت کو نہیں سمجھتے اور ایسی صفات شیطان کے پیروکاروں کی ہیں
چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
(( إِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلَاۃِ أَدْبَرَ الشَّیْطَانُ لَہُ ضُرَاطٌ حَتّٰی لَا یَسْمَعَ التَّأْذِیْنَ حَتّٰی اِذَا اقْضَی النِّدَائُ أَقْبَلَ، حَتّٰی إِذَا ثُوِّبَ لِلصَّلَاۃِ أَدْبَرَ، حَتّٰی إِذَا قُضِیَ التَّثْوِیْبَ أَقْبَلَ حَتّٰی یَخْطُرَ بَیْنَ الْمَرْئِ وَنَفْسِہِ یَقُوْلُ: اذْکُرْ کَذَا، لِمَا لَمْ یَذْکُرُ حَتّٰی یَظَلَّ الرَّجُلُ لَا یَدْرِیْ کَمْ صَلّٰی۔ ))1
'' جب نماز کے لیے پکارا جاتا ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر گوز مارتا بھاگ جاتا ہے حتیٰ کہ اذان نہیں سنتا۔ یہاں تک کہ جب اذان مکمل ہوجاتی ہے تو آجاتا ہے۔ جب نماز کے لیے اقامت کہی جاتی ہے پھر بھاگ جاتا ہے یہاں تک کہ اقامت مکمل ہوجاتی ہے تو آجاتا ہے۔ یہاں تک کہ آدمی اور اس کے دل میں خیالات ڈالتا ہے فلاں چیز یاد کر، یہاں تک کہ آدمی کو پتہ نہیں چلتا کہ اس نے کتنی نماز پڑھی ہے۔''
مومنین اللہ کی وعید سے ڈرتے ہیں اور آگ سے بچنے کے لیے کافروں اور ظالموں کی طرف نہیں جھکتے۔ فرمایا:
{وَلَا تَرْکَنُوْٓا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ أَوْلِیَآئَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ o} [ھود: ۱۱۳]
'' اور ظالموں کی طرف ہرگز نہ جھکو ورنہ تمہیں بھی آگ کا شعلہ لگ جائے گا اور اللہ کے سوا کوئی تمہارا دوسرا مددگار نہ کھڑا ہوسکے گا اور نہ تم مدد دیے جاؤ گے۔ ''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 أخرجہ البخاري في کتاب الأذان، باب: فضل التأذین، رقم: ۶۰۸۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
"رکون " یعنی جھکنے کا مطلب ہے کہ کسی پر مکمل اعتماد اور بھروسہ کرنا اور اس پر راضی ہونا۔مذکو رہ آیت کا لفظ ترکنوا سے ماخوذ ہے۔
اس کا یہ معنی بھی کیا گیا ہے کہ نہ انہیں دوست بناؤ اور نہ ہی ان کی پیروی کرو اور نہ ہی ان کی طرف مائل ہو، ان کے اعمال سے راضی بھی نہ ہو، ان کی چاپلوسی بھی نہ کرو کہ ان کے کفر کا انکار نہ کرسکو چنانچہ نیک اور صالح مسلمان، اہل بدعت اور اہل کفر کو چھوڑ دیتے ہیں اور ان کی طرف مائل نہیں ہوتے اور نہ ہی ان سے مراد مانگتے ہیں اور نہ ہی ان کی چاپلوسی کرتے ہیں لہٰذا جو ایسا کام کرے گا، اسے آگ اپنی لپیٹ میں کرلے گی اور ایسے لوگوں کا کوئی مددگار اور کوئی دوست اللہ کے مقابلے میں نہیں ہوگا جو انہیں عذاب سے بچا سکے۔
مزید فرمایا:
{وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَھُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتِھُمْ قُلْ إِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ھُوَ الْھُدٰی وَلَــِٔنِ اتَّبَعْتَ أَھْوَآئَ ھُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَآئَ کَ مِنَ الْعِلْمِ مَالَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیِّ وَّلَا نَصِیْرٍ o} [البقرہ: ۱۲۰]
'' اور تجھ سے (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ) یہودی اور عیسائی، ہرگز راضی نہیں ہوسکتے حتیٰ کہ تو ان کے مذہب کی پیروی کرلے۔ کہہ دیجیے! بے شک اللہ کی ہدایت ہی تو ہدایت ہے اور اگر اے نبی! آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی باوجود اس کے کہ آپ کے پاس علم آچکا ہے تو پھر اللہ کے سوا تیرا کوئی دوست اور مددگار نہ ہوگا۔''1
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 تفسیر ابن کثیر، ص: ۱۵۸ ؍ ۱، ص: ۷۱، ۷۴، ۷۵، ۴۷۸ ؍ ۲۔ ص: ۳۷۱ ؍ ۴۔ تفسیر قرطبی، ص: ۳۸ ؍ ۴، ۱۱۵، ۴؍ ۷۲،۹۔

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 
Top