• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ تعالیٰ کے تین اور پسندیدہ امور

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اللہ تعالیٰ کے تین اور پسندیدہ امور

(( إِنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ: یَرْضَی لَکُمْ ثَـلَاثًا وَیَکْرَہُ لَکُمْ ثَـلَاثًا فَیَرْضٰی لَکُمْ أَنْ تَعْبُدُوْہُ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا، وَأَنْ تَعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَلَا تَفَرَّقُوْا، وَأَنْ تَنَاصَحُوْا مَنْ وَلاَّہُ اللّٰہُ أَمْرَکُمْ یَکْرَہُ لَکُمْ قِیْلَ وَقَالَ، کَثْرَۃُ السُّوَالِ، وَأَضَاعَۃَ الْمَالِ۔ ))
صحیح الجامع، رقم: ۱۸۹۱۔
'' رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تین چیزوں کو پسند کیا ہے (۱) اس نے تمہارے لیے پسند کیا ہے کہ تم اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ (۲) اور تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہوجاؤ (۳) تم اپنے امراء کی خیر خواہی کرو۔''
تشریح...: اللہ کی عبادت اور عدم شرک: خشوع و خضوع اور عاجزی، بندگی کی اصل جڑ ہے۔ تعبید سے مراد کسی کو ذلیل و عاجز کرنا ہے۔
استعبادہ کا مطلب ہے کہ کوئی ہستی کسی کو اپنی غلامی میں لے لے۔ عبادت کا معنی اطاعت و اتباع کرنا ہے اور اللہ کی عبادت کا مطلب ہے کہ اس کے لیے ہی عاجزی اور انکساری کی جائے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَاعْبُدُوا اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا o} [النساء:۳۶]
'' اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ ''
اللہ تعالیٰ صرف اپنی عبادت کا حکم دے رہے ہیں اور شرک سے روک رہے ہیں اور مخلوق سے انتہائی درجے کا مقصود بھی یہی کام ہے اسی وجہ سے رسولوں کو بھیجا گیا اور اسی لیے کتابوں کو نازل کیا گیا اور اسی کی بناء پر جنت و جہنم کو پیدا کیا گیا۔ چنانچہ فرمایا:
{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ إِِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ o} [الذاریات:۵۶]

'' اور میں نے جنوں اور انسانوں کو نہیں پیدا کیا مگر (اس لیے) کہ وہ میری عبادت کریں۔ ''
معلوم ہوا کہ جنوں اور انسانوں کو پیدا کرنے کا اصل مقصد عبادت ہی ہے اور عبادت کی اصل اور جڑ اللہ کی محبت ہے، بلکہ صرف اور صرف اس کے ساتھ محبت کرنا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو محبوب نہ گردانے اور اسی کی وجہ سے کسی اور سے محبت رکھے مثلاً انبیاء فرشتے اولیاء وغیرہ، ان کے ساتھ محبت کرنا اللہ تعالیٰ کی محبت کو مکمل کرنے سے ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی سے محبت کرنا نہیں کہتے۔ اس کے ساتھ کسی سے پیار کرنے کا مطلب ہے کہ انسان کسی اور کو اللہ کا شریک ٹھہرائے اور جیسے اللہ سے محبت کرنی ہے ویسی ہی اس چیز کے ساتھ کرے۔ مثلاً فرمایا:

{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ أَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ o} [البقرہ:۱۶۵]

'' اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اوروں کو اللہ کے شریک ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے۔ ''
یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بندگی کی حقیقت اور راز اللہ کی محبت ہے تو یہ حاصل کیسے ہوگی؟ اس کے جواب میں یہ گزارش ہے کہ اللہ کی محبت، اس کے اوامر پر عمل کرکے اور نواہی سے رک کر حاصل ہوگی۔ چنانچہ جب کوئی انسان یہ کام کرلیتا ہے تو اس پر بندگی اور محبت کی حقیقت کھل جاتی ہے۔

عبادت کی بنیاد چار قواعد پر ہے۔ انسان ہر اس چیز کو وجود میں لے آئے جس کو اللہ اور اس کا رسول پسند کرتے ہیں زبان اور دل کی بات کے ساتھ بھی، دل اور جوارح کے عمل کے ساتھ بھی، تو ان چاروں مراتب کا جامع نام بندگی یعنی عبودیت ہے۔
(۱)... دل کا اقرار: اس سے مراد اللہ کے متعلق وہ اعتقاد ہے جو اللہ نے اپنے متعلق، اپنے اسماء و صفات، افعال اور فرشتوں کے متعلق بیان کیا۔
(۲)... زبان کا اقرار: مذکورہ امور کی خبر دینا، اللہ تعالیٰ کے متعلق مذکورہ بات کا پرچار کرنا، اس کی طرف دعوت دینا اور اس کا دفاع کرنا، دعوتِ الٰہی کی مخالف بدعات کے بطلان کو واضح کرنا اور اللہ کے اوامر کی تبلیغ کرنا۔
(۳)... دل کے اعمال: یعنی اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا، اسی پر توکل رکھنا، رجوع بھی اسی کی طرف کرنا، اسی سے ڈرنا، دین کو خالص اسی کے لیے کرنا، اس کے اوامر پر صبر کرنا، نواہی سے رُک جانا، تقدیر پر راضی ہونا، اسی کی وجہ سے کسی سے دوستی اور دشمنی رکھنا، ان کے علاوہ وہ اعمال کہ جن کا تعلق دل سے ہے، ان کو بجالانا۔ دل کے اعمال، اعضاء کے اعمال کی نسبت زیادہ ضروری، فرض اور زیادہ پسندیدہ ہیں۔ یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ جوارح کے اعمال دل کے اعمال کی عدم موجودگی کے وقت یا تو بالکل فائدہ نہیں دیتے یا کم فائدہ دیتے ہیں۔
۴.. اعضاء کے اعمال: مثلاً نماز، جہاد، نماز جمعہ کی طرف چل کر جانا، کمزوروں کی مدد کرنا، مخلوق پر نیکی اور احسان کرنا وغیرہ۔
سب انبیاء اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی خالص عبادت کی طرف دعوت دیتے رہے۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بندگی کے احسان کو دین کے اعلیٰ مراتب میں سے شمار کیا ہے۔ احسان کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرمایا:

(( أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ، فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہٗ فَإِنَّہٗ یَرَاکَ۔ ))
أخرجہ البخاري في کتاب الإیمان، باب: سؤال جبریل النبي صلی اللہ علیہ وسلم عن الإیمان والإسلام والإحسان، رقم: ۵۰۔

'' کہ تو اللہ کی عبادت کرے گویا کہ تو اللہ کو دیکھ رہا ہے، پس اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو (عبادت کرتے وقت یہ ذہن میں رکھ) کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ ''
بندہ اس وقت تک بندگی میں رہتا ہے جب تک دارالتکلیف (یعنی مکلف ہوتا) ہے حتی کہ وفات پاجائے۔ لہٰذا رب تعالیٰ نے فرمایا:
{وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَأْتِیَکَ الْیَقِیْنُ o} [الحجر:۹۹]
'' اپنے رب کی عبادت کر، حتی کہ تجھے یقین (موت) آجائے۔ ''
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(( یَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ )) قُلْتُ: لَبَّیْکَ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَسَعْدَیْکَ۔ قَالَ: (( ھَلْ تَدْرِيْ مَا حَقُّ اللّٰہِ عَلَی الْعِبَادِ؟ )) قُلْتُ: أَللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ أَعْلَمُ، قَالَ: (( فَإِنَّ حَقَّ اللّٰہِ عَلَی الْعِبَادِ أَنْ یَعْبُدُوْہُ وَلَا یُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا۔ )) ثُمَّ سَارَ سَاعَۃً ثُمَّ قَالَ: (( یَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ )) قُلْتُ: لَبَّیْکَ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَسَعْدَیْکَ، قَالَ: (( ھَلْ تَدْرِيْ مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَی اللّٰہِ إِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ؟ )) قُلْتُ: أَللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ أَعْلَمُ، قَالَ: (( أَنْ لاَّ یُعَذِّبُھُمْ۔))
أخرجہ مسلم في کتاب الإیمان، باب: حق اللّٰہ علی العباد وحق العباد علی اللّٰہ۔
'' کیا تجھے علم ہے کہ اللہ کا بدنوں کے ذمہ کیا حق ہے؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کا رسولؐ زیادہ جانتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک بندوں کے ذمہ اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (کچھ دیر تک) چلتے رہے اور فرمایا: اے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ! میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں۔ فرمایا: کیا تجھے معلوم ہے کہ بندے جب یہ کام کرلیں تو پھر اللہ کے ذمہ بندوں کا کیا حق ہے؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: (اللہ کے ذمہ) یہ ہے کہ ان کو عذاب نہ دے۔ ''
فرمانِ الٰہی ہے:
{فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖ أَحَدًاo} [الکہف:۱۱۰]
'' پس جو اپنے رب کی ملاقات کا اُمید وار ہے تو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائے۔ ''
اللہ کی رسی مضبوطی سے پکڑنا اور فرقہ بازی سے بچنا


عَصَمَۃَ بمعنی بچاؤ ہے

: اور لفظ اعتصام عصمت سے باب افتعال کے وزن پر ہے۔ اس کا معنی ہے اس چیز کو پکڑنا جو قابل احتراز اور قابل خوف شے سے بچائے، قلعوں کو عواصم اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ بچاؤ کا ذریعہ بنتے ہیں۔
حبل مشترک لفظ ہے: لغوی لحاظ سے اس کو وسیلہ کہا جاتا ہے، جس کے ذریعہ مقصود تک پہنچا جاسکے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا} [آل عمران: ۱۰۳]
'' اور اللہ کی رسی کو تم سب مضبوطی سے تھامے رکھو اور جدا جدا نہ ہوجاؤ۔ ''
اللہ کی رسی:
بعض کے نزدیک اس سے اللہ کا عہد مراد ہے اور بعض قرآن کو اللہ کی مضبوط رسی قرار دیتے ہیں اور اس کو پکڑنے کا مفہوم یہ بیان کرتے ہیں کہ اس کی آیات کو تھاما جائے اور ان پر عمل کی محافظت کی جائے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
'' میں تم میں دو نفیس چیزیں چھوڑنے والا ہوں، ان میں سے ایک کتاب اللہ (اور) یہی اللہ کی رسی ہے جس نے اس کی پیروی کی وہ ہدایت پر ہے اور جس نے اسے چھوڑا وہ گمراہی پر ہے۔ ''
مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب فضائل علی بن ابی طالب۔
سیّدناعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ قرآن اللہ کی مضبوط رسی ہے کہ جس کے متعلق زبانیں مختلف نہیں ہوتیں اور بار بار پڑھنے کے باوجود بوسیدہ نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سے علماء سیر ہوتے ہیں (کہ پڑھنے کی ضرورت نہ رہے)۔
سیّدناعبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن اللہ کی رسی ہے اور یہی واضح نور اور نفع بخش شفاء ہے اور جس نے اسے تھاما اور پیروی کی، اس کے لیے نجات اور بچاؤ کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
بعض حبل اللہ سے مراد جماعت لیتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ الفت اور بھائی چارے کا حکم دے رہے ہیں اور تفرقہ بازی سے روک رہے ہیں کیونکہ تفرقہ بازی ہلاکت اور جماعت نجات ہے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ تم جماعت کو لازم پکڑو، کیونکہ یہ اللہ کی وہ رسی ہے جس کو تھامنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ جو اشیاء تمہیں جماعت اور فرمانبرداری کی صورت میں ناپسند لگتی ہیں، یہ ان اشیاء سے بہتر ہیں جو تفرقہ کی صورت میں پیاری اور پسندیدہ محسوس ہوتی ہیں۔
وَلَا تَفَرَّقُوْا: یعنی اعتصام بحبل اللہ میں اختلاف نہ کرو جیسے اہل کتاب اپنے ادیان میں تفرقہ کا شکار ہوگئے تھے۔
اس کا یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ مختلف قسم کی اغراض اور خواہشات کی پیروی کرکے جدا جدا نہ ہونا، بلکہ بھائی بھائی بن جاؤ لہٰذا یہ اتحاد کا حکم ایک دوسرے سے قطع تعلقی اور منہ پھیرنے سے روکنے کا سبب ہوگا۔
اختلاف کے وقت اللہ تعالیٰ نے ہم پر کتاب و سنت کو تھامنا واجب اور اعتقاداً و عملاً اس پر اکٹھا ہونے کا حکم دیا ہے۔چنانچہ یہ اکٹھا ہونا تمام مسلمانوں کی رائے و مقاصد کے اتفاق کا سبب ہے اور مسلمانوں کے بکھرے ہوئے مسائل کو منظم کرنے کا سبب ہے اور اسی کے ساتھ دین اور دنیا کی تمام مصلحتیں مکمل ہوتی ہیں اور اس کی وجہ سے اختلاف سے بچا جاسکتا ہے جس سے اہل کتاب نہ بچ سکے اور کئی فرقوں میں بٹ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ یہود اکہتر (۷۱) فرقوں میں بٹ گئے اور عیسائی بہتر (۷۲) فرقوں میں بٹے تھے اور میری امت کے تہتر (۷۳) فرقے ہوں گے۔
صحیح ابوداؤد رقم ۳۸۴۲
دوسری روایت میں ہے کہ میری امت تہتر ملتوں میں بٹے گی، سب کی سب آگ میں جائیں گی، سوائے ایک کے۔ سوال ہوا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ کون سی ملت اور گروہ ہے؟ فرمایا: جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔ (یعنی کتاب و سنت پر عمل کرنے والے)

وَإِّنْي تَارِکٌ فِیْکُمْ ثَقَلَیْنِ أَحَدُھُمَا کِتَابُ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ ھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ مَنْ أَتْبَعَہٗ کَانَ عَلَی الْھُدٰی وَمَنْ تَرَکَہٗ کَانَ عَلَی الضَّلَالَۃِ۔ ))
صحیح ترمذی : ۲۱۲۹

''اور میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ان میں سے ایک اللہ عزوجل کی کتاب ہے جو کہ اللہ کی رسی ہے۔ جس نے اس کی پیروی کی وہ ہدایت پر ہے اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ گمراہی پر ہے۔''

اِفْتَرَقَتِ الْیَھُوْدُ عَلیٰ إِحْدٰی أَوْ ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِیْنَ فِرْقَۃً، وَتَفَرَّقَتِ النَّصٰارٰی عَلیٰ إِحْدٰی أَوْ ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِیْنَ فِرْقَۃً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِيْ عَلیٰ ثَـلَاثٍ وَسَبْعِیْنَ فِرْقَۃٍ۔ ))
صحیح سنن أبي داود، رقم: ۳۸۴۲۔
''یہود اکہتر یا تہتر فرقوں میں بٹے، عیسائی اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹے اور میری امت تہتر (۷۳) فرقوں میں تقسیم ہوگی۔''

وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِيْ عَلیٰ ثَـلَاثٍ وَسَبْعِیْنَ مِلَّۃً کُلُّھُمْ فِيْ النَّارِ إِلاَّ مِلَّۃً وَاحِدَۃٍ۔ )) قَالَ: مَنْ ھِيَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: (( مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِيْ۔ ))
صحیح سنن الترمذي، رقم: ۲۱۲۹۔
''میری امت (۷۳) گروہوں میں بٹ جائے گی اور ایک کے سوا ہر گروہ جہنم میں ہوگا، راوی نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! وہ کون سا ہوگا فرمایا ''میں اور میرے صحابی جس طریقہ پر ہیں۔'' (مراد میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر چلنے والے لوگ ہیں)
حکمرانوں کی خیر خواہی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

(( أَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ، قُلْنَا: لِمَنْ؟ قَالَ: لِلّٰہِ وَلِکِتَابِہٖ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِأَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ وَعَامَّتِھِمْ۔ ))
أخرجہ مسلم في کتاب الإیمان، باب: الدین النصیحۃ، رقم: ۱۹۶۔

'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین خیر خواہی کا نام ہے۔ (صحابہ بیان کرتے ہیں) ہم نے سوال کیا:
کس کے لیے؟ (خیر خواہی ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب، اس کے رسول اور مسلمانوں کے حکمرانوں اور رعایا کے لیے۔ ''
نصیحت...: جامع کلمہ ہے بمعنی جس کے لیے خیر خواہی کی گئی ہو اس کے لیے کوئی فائدہ والی چیز حاصل کرنا۔ امام نووی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ مسلمانوں کے ائمہ و حکمرانوں کی خیر خواہی کا مطلب حق پر ان کا تعاون کرنا اور پیروی کرنا ہے۔ حق کا انہیں حکم دینا، ظلم سے روکنا، نرمی اور شفقت یاد دلانا، جن اشیاء اور مسلمانوں کے جن حقوق سے غافل ہیں وہ بتانا، ان کے خلاف بغاوت نہ کرنا، ان کی اطاعت و فرمانبرداری میں مسلمانوں کے دلوں کو لگانا ہے۔
امام خطابی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ان کے لیے خیر خواہی کا مطلب یہ بھی ہے کہ ان کی اقتداء میں نماز پڑھی جائے اور ان کے ساتھ مل کر جہاد کیا جائے اور صدقات کے مال بھی ان کی طرف لوٹائے جائیں۔ جب ان کی طرف سے ظلم و زیادتی اور برا سلوک ظاہر ہو اس کے باوجود ان کے خلاف بغاوت نہ کرنا اور ان کی جھوٹی تعریف نہ کی جائے۔
حافظ عسقلانی رحمہ اللہ حکمرانوں کی خیر خواہی کا مفہوم حسب ذیل بیان کرتے ہیں: جو کام ان کے سپرد ہوتے ہیں، ان کاموں میں ان کی مدد کرنا اور غفلت کے وقت ان کو متنبہ کرنا، لغزش کے وقت ان کا خلا پر کرنا اور ان پر متفق ہونا اور بھاگنے والے دلوں کو ان کی طرف مائل کرنا۔
ان کی بڑی خیر خواہی یہ ہے کہ ان کو ظلم کرنے سے اچھے طریقے سے روکا جائے۔ مسلمان اماموں کے تحت مجتہدین بھی شامل ہیں ان کی خیر خواہی کا مفہوم یہ ہے کہ ان کے علم کو اور ان کے مناقب کو پھیلایا جائے اور ان کے بارے میں اچھی فضاء بنائی جائے۔
نووی شرح مسلم، ص: ۳۸، ۲۔ فتح الباری، ص: ۱۳۸/۱۔ قرطبی، ص: ۱۰۲؍ ۴۔ مدرج السالکین لابن قیم، ص: ۴۵۸؍۱، ص: ۱۱۸، ۱۲۴ ؍ ۱۔

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 
Top