• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ تعالی ہر چیز كا خالق ہے اس كے علاوہ ہر چیز مخلوق ہے

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اللہ تعالی ہر چیز كا خالق ہے اس كے علاوہ ہر چیز مخلوق ہے

تمام تعريفيں صرف الله کے لئے ہيں، اور درود وسلام اس ذات پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں ہے، اور آپ کی آل اور صحابہ پر بھی درود و سلام ۔

اما بعد :
ایک بھائی نے مجھے یہ لکھا ہے کہ اس کے کسی ساتھی نے یہ کہہ کر اسے ایک شبہ میں ڈال دیا ہے کہ وہ اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی آسمانوں اور زمین ، عرش و کرسی اور ہر چیز کا خالق ہے ، لیکن وہ یہ سوال کرتا ہے :
اللہ کا وجود کيسے ہوا ؟
تو اس نے اسے جواب دیا :
تمہاری پہلی بات صحیح ہے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جا سکتا ، جہاں تک تمہاری دوسری بات کا تعلق ہے کہ اللہ کا وجود کيسے ہوا ؟ تو کوئی مسلمان ایسا نہیں کہہ سکتا ، تجھے چاہیے کہ اتنی ہی باتوں پر اکتفاء کرے جتنے پر صحابہ رضی الله عنهم نے اکتفاء کيا،
چنانچہ صحابہ نے اس طرح کا سوال نہیں پوچھا ہے، اور وہ علم میں بلند تر درجہ پر تھے، اور اس سے یہ بھی کہا :
بیشک اللہ سبحانہ نے اپنی ذات کے بارے میں یہ فرمایا :
" لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ "
اس جیسی کوئی چیز نہیں، وہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔
اور فرمایا :
" هُوَ الأَوَّلُ وَالآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ "
وہی پہلے ہے اوروہی پیچھے،وہی ظاہر ہے اوروہی مخفی ، اور وہ ہر چیز کو بخوبی جاننے والا ہے۔
اور آخر تک جو اس نے ذکر کیا ،
اور اس شبہ کا جواب دینے کے لئے مجھ سے پوچھا تو میں نے اس کو جواب دیا جس کی عبارت یہ ہے :
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
یاد رکھو:
اللہ مجھے اور تمہیں اور سارے مسلمانوں کو اپنے دین کو سمجھنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ بیشک انسانوں اور جنوں ميں سے شیاطین پہلے بھی اہل اسلام اور دیگر لوگوں کو شکوک و شبہات میں ڈالتے رہیں ہيں اور آئندہ بھی ڈالتے رہيں گے، تاکہ حق میں شک پیدا کرکے مسلمان کو ہدایت سے نکال کر گمراہی میں مبتلا کريں، اور کافر کو باطل عقیدے پر مضبوط رکھ سکیں، اور یہ صرف اللہ تعالی کے علم قدیم اور اس کی تقدیر سے ہوتا ہے، کہ اس نے اس دنیا کو آزمائش و امتحان کا گھر، اور حق و باطل کے مابین کشمکش کا مرکز بنایا ہے، یہاں تک کہ طالبِ ہدایت دوسروں سے نماياں ہوجائے، اور جھوٹے سے سچا الگ ہوجائے، اور مومن منافقين سے الگ ہوجائيں، جيساكہ الله تعالى نے فرمايا :
" الم (1) أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لاَ يُفْتَنُونَ (2) وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ "
الم(1) کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے(2) ان سے اگلوں کو بھی ہم نے خوب جانچا۔ یقینا اللہ تعالی انہیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی معلوم کر لے گا جو جھوٹے ہیں۔
اور الله سبحانہ وتعالى نے فرمايا ہے:
"وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ"
یقینا ہم تمہارا امتحان کریں گے تاکہ تم میں سے جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو ظاہر کر دیں اور ہم تمہاری حالتوں کی بھی جانچ کر لیں
اور الله سبحانہ وتعالى نے فرمايا ہے،:
" وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ "
اور یقینا شیاطین اپنے دوستوں کے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ یہ تم سے جدال کریں، اوراگر تم ان لوگوں کی اطاعت کرنے لگو تو یقینا تم مشرک ہو جاؤ گے
الله تعالى نے فرمايا ہے، :
"وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ (112) وَلِتَصْغَى إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ وَلِيَرْضَوْهُ وَلِيَقْتَرِفُوا مَا هُمْ مُقْتَرِفُونَ "
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے پیدا کئے تھے کچھ آدمی اور کچھ جن، جن میں سے بعض بعضوں کو چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تاکہ ان کو دھوکہ میں ڈال دیں، اوراگر اللہ تعالی چاہتا تو یہ ایسے کام نہ کرسکتے، سو ان لوگوں کو اور جو کچھ یہ افترا پردازی کر رہے ہیں اس کو آپ رہنے دیجئے(112) اور تاکہ اس کی طرف ان لوگوں کے قلوب مائل ہوجائیں جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور تاکہ اس کو پسند کر لیں اور تاکہ مرتکب ہو جائیں ان امور کے جن کے وہ مرتکب ہوتے تھے۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے پہلی ، دوسری اور تیسری آیت میں اس کی وضاحت فرما دی ہے، کہ ایمان کا دعویدار فتنوں میں سے کسی چیز کے ذریعہ آزمایا جاتا ہے، تاکہ اس کے ایمان اور عدم ایمان کی حقیقت ظاہر ہوجائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اور اللہ سبحانہ نے اس کی خبر دی ہے کہ اس نے ايسا گزرے ہوئے لوگوں کے ساتھ اس لیے کیا، تاکہ سچے جھوٹوں سے الگ ہوجائیں، اور یہ فتنہ مال ، فقر ، بیماری ، صحت ، دشمن اور جو شیاطین انس وجن شک و شبہہ کی باتيں اس پر القا کرتے ہیں تو وہ فتنہ کی انواع ہیں ، اور اس کے بعد سچا مومن جھوٹے مومن سے الگ ہوجاتا ہے، اور اللہ تعالی ایسے مومن کو یقینی طور پر جانتا ہے، جو اس کے علم قدیم کے بعد عملی زندگی میں عیاں ہوجاتا ہے، کیونکہ اللہ سبحانہ کے علم قدیم میں ہر چیز موجود ہے جیساکہ عز و جل کا فرمان ہے :
" لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا "
تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے، اور اللہ تعالی نے ہر چیز کو بہ اعتبار علم گھیر رکھا ہے

اور نبى كريم صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا :
اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیر کو آسمانوں اور زمینوں کی پیدائش سے پچاس ہزار سال سے پہلے لکھ دیا تھا آپ نے فرمایا:
اور اللہ کا عرش پانی پر ہے۔ اسےمسلم نے اپنی صحيح ميں روايت كيا ہے ۔ لیکن اللہ تعالی اپنے علم سابق کی وجہ سے لوگوں کا مواخدہ نہیں کرتا، بلکہ لوگوں کے عمل کرنے کے بعد اور ان کی جانب سے اس عمل کے خارج ميں وجود ہوجانے کے بعد اپنے علم کے مطابق ان کا مواخذہ کرتا ہے اور انہيں ثواب عطا کرتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اور چوتھی ، پانچویں اور چھٹی آیت میں ذکر کیا ہے کہ شیاطین اپنے دوستوں کے دلوں میں شک و شبہ اور باطل باتیں ڈالتے ہیں، اور ان کو دھوکہ دیتے ہیں، تاکہ وہ اہل حق کے ساتھ جھگڑا کریں، اور اس کے ذریعہ اہل ایمان کو شبہات میں مبتلا کریں، اور ان لوگوں کے دل ان شبہات کی طرف مائل ہوجائيں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور وہ ان کو پسند کرنے لگیں، چنانچہ وہ سرگرم عمل رہتے ہيں اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط کردیتے ہیں، تاکہ لوگ حق کی باتوں میں شک کرنے لگیں ، اور ان کو ہدایت سے روک دیں ، اور اللہ تعالی اس سے غافل نہیں جو وہ کرتے ہیں ، لیکن اللہ عز و جل کی رحمت ہے کہ اس نے ان شیاطین اور ان کے ہمنواؤں کے لئے ايسے لوگ پيدا فرمايا جو مضبوط دلائل اور قطعی براہین کے ساتھ ان کے باطل کا انکشاف اور ان کے شبہات کو مٹاتے ہيں ، اور اپنی ان دلائل سے وہ حیلہ کا راستہ بند کردیتے ہیں، اور عذر یا بہانہ کا کوئی چارہ باقی نہیں رکھتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اور اللہ عز و جل نے ہر چیز کی وضاحت اور اس کی تفصیل کے لئے کتاب اتاری، جیساکہ اللہ عز وجل نے فرمایا:
" وَنَـزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ "
اور ہم نے تجھ پر یہ کتاب نازل فرمائی ہے جس میں ہر چیز کا شافی بیان ہے، اور ہدایت اور رحمت اور خوشخبری ہے مسلمانوں کے لیے

اور الله سبحانہ وتعالى نے فرمايا ہے:
" وَلاَ يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا "
یہ آپ کے پاس جو کوئی مثال لائیں گے ہم اس کا سچا جواب اور عمدہ توجیہ آپ کو بتا دیں گے

بعض اسلاف نے کہا کہ یہ آیت ہر اُس دلیل کے لیے عام ہے، جو اہل باطل قیامت کے دن اپنے ساتھ لائیں گے۔
صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ بعض صحابہ رضی الله عنهم نے نبی صلى الله علیہ وسلم سے پوچھا :
اے اللہ کے رسول؛ ہم اپنے دلوں میں ایسی باتیں محسوس کرتے ہیں جن کو بیان کرنا ہمارے لئے ایک بہت بڑی بات ہوجائے گی، تو آپ نے فرمایا: کیا واقعی تمہیں اس کا احساس ہوتا ہے؟ تو انہوں نے کہا: جی ہاں، تو آپ نے فرمایا: یہی تو صريح [حقیقی] ایمان ہے۔

اس کی تفسیر میں بعض اہل علم نے کہا کہ انسان کے دل میں شیطان ایسے شکوک اور وساوس ڈال دیتا ہے کہ ان کو پراگندگی اور ناپسندیدگی کی وجہ سے زبان پر لانا ہی اس کے لیے مشکل ہوجاتا ہے ، حتی کہ آسمان سے گرنا اس کے لیے آسان ہے اس بات سے کہ وہ یہ باتیں اپنی زبان پر لائے، تو بندے کا ان وساوس کو ناپسند کرنا، اس کو بڑا سمجھنا اور اس سے لڑنا ہی صریح ایمان ہے، کیونکہ اس کا اللہ عز و جل اور اس کے کمال اسماء و صفات پر سچا ایمان ہے، اور يہ کہ اس کا کوئی شبيہ و نظير نہيں ہے، اورنہ ہی اس کا کوئي مد مقابل ہے ، اور یہ کہ وہ علم والا ، حکمت والا اور باخبر پيدا کرنے والا ہے، اس کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ ان شکوک اور وساوس کو انکار کرے اور ان سے برسرپيکار رہے، اور ان کے باطل ہونے کا اعتقاد رکھے، اور اس میں کوئی شک نہیں تمہارے ساتھی نے تم سے جو ذکر کیا وہ وساوس کے قبیل سے ہے، اور تم نے اچھا جواب ديا، اور صحیح بات بتانے کی تمہیں توفیق ملی ہے۔ اللہ تعالی تمہارے علم اور توفیق میں اضافہ فرمائے۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اور میں ان شاء اللہ اپنے اس جواب ميں اس مسئلہ سے متعلق بعض احادیث ذکر کرتا ہوں: اور اس کی بابت اہل علم کا کلام بھی پيش کرتا ہوں شاید تمہارے اور تمہارے شبہہ میں مبتلا ساتھی کے لیے وہ امر واضح ہو جائےجس کا تم نے ذکر کیا ہے، جو شبہ کا ازالہ اور اس کو غلط ثابت کرتے ہوئے حق کو واضح کردے گا، اور اس بات کو بیان کرے گا کہ مومن کو ایسے شبہ کے آتے وقت کیا کہنا اور کس چيز پر اعتماد کرنا چاہیے، پھر میں اس اہم موضوع سے متعلق اللہ تعالی کی طرف سے الہام کردہ باتوں پر اپنی یہ گفتگو ختم کروں گا۔ اللہ تعالی ہی توفیق کا مالک اور سیدھی راہ کی ہدایت دینے والا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
امام بخاری نے اپنی کتاب (الجامع الصحيح) کی جلد نمبر 6 کے صفحہ نمبر 336 [از فتح الباری - مطبعہ سلفيہ] ابليس اور اس کے لاؤ لشکر کے اوصاف کے باب ميں فرمايا:
ہميں حدیث بیان کی یحیی بن بكير نے، اور وہ ليث سے، اور وہ عقیل سے، اور انہوں نے ابن شھاب سے روایت کیا : فرمايا کہ مجھے عروة بن زبير نے بتایا : کہ ابو ہریرہ رضي الله عنہ نے کہا کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا :
شیطان تمہارے پاس آکر کہتا ہے كہ اس کو کس نے پیدا کیا؟ اس کو کس نے پیدا کیا؟ حتی کہ یہ کہتا ہے کہ تیرے رب كو کس نے پیدا کیا؟ تو جب کسی کے پاس شیطان آکر وسوسہ ڈالے تو اسے چاہیے کہ اللہ تعالی کی پناہ طلب کرے اور اس سے باز رہے۔
پھر کتاب (الاعتصام) جلد نمبر تیرہ صفحہ نمبر 264 از فتح الباری، میں انس رضي الله عنہ سے روایت کیا کہ رسول الله صلى الله علیہ وسلم نے فرمايا :
ہميشہ لوگ پوچھتے رہیں گے حتی کہ وه یہ کہیں گے کہ اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے تو اللہ کو کس نے پیدا کیا؟
اور مسلم نے اپنی صحيح - امام نووی کی شرح مسلم ميں جلد اول جزء دوم صفحہ نمبر 154 پر، حدیث کے پہلے لفظ کے ساتھ أبو ہریرہ کی حديث سے روایت کیا ہے، مسلم ہی نے أبو ہریرہ رضي الله عنہ سے ایک دوسرے لفظ کے ساتھ روایت کیا ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا :
ہميشہ لوگ پوچهتے رہیں گے حتی کہ یہ بھی کہا جائیگا کہ اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا، تو پھر اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ تو تم میں سے جس کے دل میں یہ سوال پیدا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ یہ کہے میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتا ہوں۔
پھر دوسرے الفاظ کے ساتھ بيان کيا، پھر اس حدیث کو انس رضی الله عنہ سے روایت کیا کہ رسول الله صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ عزّ و جلّ کا فرمان ہے:
بے شک تیری امت یہ کہتی رہے گی کہ یہ كيا ہے؟ یہ کیا ہے؟ حتی کہ کہیں گے کہ اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو پھر اللہ کو کس نے پیدا کیا؟
اور مسلم رحمہ الله نے أبو ہریرہ رضی الله عنہ سے يہ بھی روایت کی ہے:
صحابہ کرام میں سے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے سوال کیا کہ ہم اپنے اندر بعض امور کا احساس کرتے ہیں جن کو کہنا بھاری لگتا ہے۔ تو آپ نے پوچھا کیا واقعی تمہیں اس کا احساس ہوتا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: ہاں، تو آپ نے فرمایا: یہ تو صريح ایمان ہے۔
پھر اس کو ابن مسعود رضي الله عنہ سے روایت کیا ہے، فرمايا:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وسوسہ كے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: یہ تو ایمان محض ہے
شرح مسلم میں نووی رحمہ اللہ نے اس حديث کی شرح ميں کہا جس کی عبارت یہ ہے : ( جہاں تک حدیث کے معانی اور اس کی فقہ کا تعلق ہے ، تو نبی صلى الله عليہ وسلم کا فرمان ہے :
وہ صريح ايمان اور ایمان محض ہے
اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا اس بات کو بہت بھاری سمجھنا ہی صریح ایمان ہے، چنانچہ اسے بھاری سمجھنا اور اس کو زبان پر لانے سے شدتِ خوف، چہ جائے کہ وہ اس کا معتقد ہو، يہ کیفیت اس آدمی کے لئے حاصل ہوگی، جس کا ایمان حقیقی طور پر مکمل ہو اور اس کے اندر کسی قسم کے شبہات اور شکوک نہ پائے جاتے ہوں، اور جان لو دوسری روایت میں اگرچہ اس کو بڑا سمجھنے کا ذکر نہیں تو اس سے مراد پہلی روایت کا اختصار ہے ، اس لیے مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے پہلی روایت کو مقدم کیا ، اور کہا : اس کا معنی یہ ہے کہ شیطان اس شخص کے اندر وسوسہ ڈالتا ہے جس کو گمراہ کرنے سے وہ مايوس ہوچکا ہو، گویا کہ شیطان اس کو گمراہ کرنے ميں اپنی عاجزی کی وجہ سے اس پر وسوسوں کی بوچھار کردیتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اور جہاں تک کافر کا تعلق ہے تو شیطان اس پر جہاں سے چاہے حملہ آور ہوتا ہے ، اور اس کے لئے صرف وسوسوں پر ہی انحصار نہیں کرتا، بلکہ اس کے ساتھ جیسے چاہتا ہے کھیلتا ہے، تو حدیث کے اس معنی کے اعبتار سے وسوسہ کا سبب ایمان محض ہے، یا وسوسہ ایمان محض کی نشانی ہے ، قاضی عیاض نے اسی قول کو راجح قرار دیا ہے ۔
اور جہاں تک آپ صلى الله علیہ وسلم کے فرمان کا تعلق ہے تو
جو شخص ایسی کوئی بات پائے تو کہے میں اللہ پر ایمان لایا.
اور ایک دوسری روایت میں ہے :
تو وہ اللہ کی پناہ طلب کرے اور اس سے باز رہے
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس باطل خیال سے اعراض کرے اور اللہ تعالی کی طرف اپنی توجہ مرکوز رکھے، امام مازرى رحمہ الله نے کہا :
حدیث کے ظاہر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا کہ وہ ذہنی خیالات سے اعراض کرتے ہوئے انہیں دور کریں اور ان کو اپنے ذہنوں سے جھٹک دیں ، ان کے بطلان میں کسی دلیل اور غور و فکر کی ضرورت نہیں ہے۔
اور علامہ نووی نے كہا کہ:
اور اسی ضمن میں یہ کہا جاتا ہے کہ: ذہنی خیالات کی دو قسمیں ہیں : وہ قسم جو استقرار نہیں رکھتی اور نہ ہی ایسا شبہ پیدا کرتی ہے جس کو اعراض کے ذریعہ دور کیا جاسکتا ہے، اور اس جیسے مفہوم ہی پر یہ حدیث محمول کی جائیگی، اور اسی طرح کی چيزوں کو وسوسہ کہا جاتا ہے، گویا جب کوئی عارضی چیز ہو، اور اس کی کوئی دلیل نہ ہو، تو دلیل کی تلاش و جستجو کے بغیر اس چیز سے صرفِ نظر کیا جائیگا، کیونکہ درحقیقت اس چیز کی کوئی دلیل ہی نہیں ہے، جس میں غور کیا جائے، اور جہاں تک ذہن ميں گھر کرجانے والے ایسے وساوس کا تعلق ہے جن سے شبہات کا پیدا ہونا لازمی ہوتا ہے، تو ان کو استدلال، غور و فکر اور دلائل سے رد کئے بغیر دور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اور جہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا تعلق ہے :
تو وہ اللہ کی پناہ طلب کرے اور اس سے باز رہے
تو اس کا مطلب یہ ہے جب وہ اس وسوسہ سے اعراض کرے تو اللہ تعالی کی پناہ لے، تاکہ اس کے شر کو دور کرسکے اور اس فکر سے اعراض کرسکے، اور یہ جان لے کہ یہ وسوسۂ شیطان ہے ، جو برباد اور گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اس لیے اس کے وسوسہ کے جھانسے میں آنے کی بجائے اس سے اعراض کرے، اور اس وسوسے بچنے کے لئے کسی دوسری چیزوں میں مشغول ہونے کی جلدی کریں، واللہ اعلم ۔ نووی رحمۃ اللہ علیہ کا کلام ختم ہوا ۔
حافظ ابن حجر نے میرے اس جواب کی ابتداء میں مذکورہ ابو ہریرہ کی حدیث پر گفتگو کرتے ہوئے جو بات کہی ہے، اس کا مضمون یہ ہے:
تیرے رب کو کس نے پیدا کیا ؟ لہذا جب کسی کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہو تو اللہ کی پناہ طلب کرے اور باز رہے .
يعنی : اس کے ساتھ مائل ہونے اور اس پر بھروسہ کرنے سے باز رہے، بلکہ اسے دور کرنے کے لیے اللہ تعالی کی پناہ میں آئے، اور یاد رہے کہ شیطان انسان کے دین اور عقل کو اس وسوسہ کے ذریعہ فاسد کرنا چاہتا ہے، تو انسان کو چاہیے کہ وہ اس کو دور کرنے اور کسی دوسری مصروفیت میں مشغول ہونے کی کوشش کرے،
علامہ خطابی نے کہا : حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب شیطان وسوسہ ڈالے تو اس شخص کو چاہیے کہ اس سے اللہ تعالی کی پناہ مانگے، اور شیطان کو حد سے گذرنے سے باز رکھے، تو وہ دور ہوجائیگا، نیز یہ كہا کہ: برخلاف اس کے کہ اگر کوئی شخص اس شیطانی وسوسے سے متاثر ہوجائے، تو اسے حجت اور دلیل سے توڑنا ممکن ہے، اور كہا : ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ انسان کے اندر سوال و جواب کی وجہ سے ایسی باتیں پیدا ہوجاتی ہیں، اور جب کہ اس کا حال [حقیقت] محصور [محدود] ہوتا ہے، اور جب وہ صحیح راستہ اپنا لیتا ہے، اور صحیح دلیل تک پہنچ جاتا ہے، تو وسوسوں کا یہ سلسلہ ختم ہوجاتا ہے، اور جہاں تک شیطان کا تعلق ہے تو اس کے وسوسوں کی کوئی انتہاء نہیں ہے، بلکہ بعض مرتبہ ایک دلیل پیش کی جائے، تو وہ پھر دوسرا حربہ لیکر وسوسے پیدا کرنے لگتا ہے، جس کی وجہ سے انسان حیرت میں پڑ جاتا ہے، [ہم اس سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں]۔
خطابی نے کہا :
کہ شیطان کا یہ قول : " تیرے رب کو کس نے پیدا کیا " لغو کلام ہے، جس کا آخرحصہ پہلے حصے کی نقیض ہے، کیونکہ خالق کے لیے محال ہے کہ وہ مخلوق ہو، پھر اگر سوال اسی طرح ہوتا رہے تو اس سے تسلسل لازم آتا ہے ، اور یہ محال ہے ، اور عقل نے یہ ثابت کیا کہ ایجادات کسی بنانے والے کی محتاج ہوتی ہیں، لہذا اگر ربِ کائنات کسی بنانے والے کا محتاج ہوتا تو وہ محدثات [وجود میں آکر ختم ہونے والی چیزوں] میں سے ہوتا۔ ۔ ختم شد ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اور جو انسان لوگوں کی آپسی گفتگو میں پیدا ہونے والے سوالات اور شیطانی وسوسوں کے درمیان فرق کی بات کرتے ہیں، ان کی یہ بات قابلِ غور ہے؛ کیونکہ مسلم كى روايت میں ہشام بن عروہ کی سند سے جسے وہ اپنے باپ سے روايت کرتے ہيں، يہ حديث ہے:
ہميشہ لوگ پوچهتےرہیں گے حتی کہ یہ بھی پوچھا جائیگا کہ اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو پھر اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ تو تم میں سے جس کے دل میں یہ سوال پیدا ہو تو وہ یہ کہےکہ ميں اللہ پر ایمان لایا۔اس حدیث میں انسان اور شیطان میں سے چاہے جس کسی کی بھی طرف سے سوال اور ذاتِ الہی میں چھان بین کی باتیں ہوں، ان دونوں کو برابر قرار دیا گیا ہے۔
اور مسلم نے ابو ہریرہ سے روایت کیا ہے کہ مجھ سے اس بارے میں دو آدمیوں نے سوال کیا، اور چونکہ یہ سوال ذات الہی کے بارے میں تھا، اس لئے وہ سوال جواب دینے کے قابل نہ تھا، یا اس قسم کے جوابات سے باز رہنا، صفات و ذات میں غور و خوض سے باز رہنے کے مترادف ہے۔
مازری نے کہا : دل ميں پيدا ہونے والے خيالات کی دو قسمیں ہیں : ایک وہ جو پختہ نہیں ہوتا ہے اور اس سے شبہ پیدا نہیں ہوتا ہے، تو اس کو اعراض کے ذریعہ دور کیا جاسکتا ہے ، اور اس کے بارے میں حدیث وارد ہوئی ہے ، اور اس جیسی قسم کو وسوسہ کہا جاتا ہے ، اور وہ ذہنی خیالات جو شبہ کے ذریعہ پیدا ہوکر پختہ ہوجاتے ہیں، تو یہ وہ ہیں جن کو غور و فکر اور استدلال کے بغیر دور نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اور طیبی نے کہا : تعوّذ اور کسی دوسرے معاملہ میں مشغول ہونے کا حکم ديا گيا ہے، اس ميں غور و فکر اور اس کے بارے میں مباحثہ کا حکم نہيں ديا گيا ہے؛ کیونکہ موجد کے سلسلہ ميں اللہ جل و علا کے استغناء [بے نیازی] کا علم ضروری و یقینی ہے، اور یہ علم و یقین مباحثہ کا محتاج نہیں ہے، کيونکہ غور و فکر کی کثرت انسان کے اندر سوائے حیرت میں اضافہ کے اور کچھ پیدا نہیں کرتی ہے، اور اس جیسی حالت کا سوائے اللہ تعالی کی پناہ، اور اس کو مضبوطی سے پکڑنے کے کوئی علاج نہیں ہے، چنانچہ حدیث میں غیر ضروری اور غیر متعلقہ سوال کی کثرت کی مذمت کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے، اور اس میں نبوت کی نشانيوں ميں سے ايک نشانی ہے، کيونکہ آپ نے ايک واقع ہونے والی چيز کے بارے ميں خبر دی، جو حقیقت میں واقع ہوگئی۔
 
Top