• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ تعا لی کے ساتھ حسن ظن

imran ahmed salafi

مبتدی
شمولیت
فروری 15، 2017
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
19
دین اسلام کی عظیم خصلتوں میں سےایک اہم خصلت اللہ عزوجل کے ساتھ حسن ظن رکھنا ہے کیونکہ یہ عقیدہ توحید کا ایک اہم باب اور خصال ایمان میں سے ا یک عظیم خصتہ ہے، اللہ تعالی اپنے بندے کے ساتھ اس کے حسن ظن یا سوء ظن کے مطابق معاملہ کرتا ہے،اللہ کسی امید لگانے والے کی امید کو ضائع نہیں کرتا ہے اور نہ ہی کسی عمل کرنے والے کےعمل کو رائیگاں ہونے دیتا ہے۔
بیشک کتاب و سنت میں اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھنے کے متعلق بیشمار دلائل موجود ہیں،جو دلائل اس عظیم خصلت کے مقام و مرتبہ کے ساتھ اس سے دینا و آخرت میں حاصل ہونے والےثمرات کو بیان کرتی ہیں،ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہیکہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا
((يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي)) (بخاری و مسلم) ترجمہ : اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں۔
حضرت واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہیکہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا
((قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي ؛ فَلْيَظُنَّ بِي مَا شَاءَ)) (صحیح ابن حبان 635)ترجمہ: اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں،تو وہ جیسا چاہے میرے ساتھ گمان کرے۔٭علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔ (صحیح الجامع 4316)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ((قَالَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي ؛ إِنْ ظَنَّ بِي خَيْرًا فَلَهُ ، وَإِنْ ظَنَّ شَرًّا فَلَهُ)) (صحیح الترغیب و الترہیب 3386) ترجمہ: اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں،اگر اس نے میرے ساتھ حسن ظن رکھا تو اس کے لئے اور اگر بدگمانی کی تو وہ اس کے لئے۔
یعنی بندہ اپنے رب کے ساتھ جیسا ظن و گمان رکھتا ہے ہے اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ ہوگا،اگر بندہ اپنے رب سے خیر بھلائی،مغفرت،قبول توبہ اور بلندی درجات کے متعلق ظن رکھتا ہے تو ایسا ہی ہوگا،اور اگر اس کے برعکس ظن رکھتا ہے تو اس کے ساتھ اس کا رب اس کے ظن کے مطابق معاملہ کرتا ہے۔
اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھنے کی اہمیت کو اگر جاننا ہے تو ہم اور آپ اللہ کے رسول ﷺ کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کریں اور دیکھیں کے آپﷺ نےہمارے لئے اس باب میں کتنا عظیم نمونہ چھوڑا ہے چنانچہ آپ ﷺاپنی امت کو اس امر سے آگاہ کرتے ہوئے اپنی وفات سے تین دن پہلے وصیت کی تھی ۔

عن جابر رضي الله عنه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل وفاته بثلاث يقول ((لَا يَمُوتَنَّ أَحَدُكُمْ إِلَّا وَهُوَ يُحْسِنُ بِاللهِ الظَّنَّ)) (ٍصحیح مسلم) ترجمہ :تم سے ہرگز ہرگز کسی کی موت نہ ہو مگر وہ اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھتا ہو۔
قارئین کرام !بیشک اللہ کے ساتھ حسن ظن مبنی ہے اللہ تعالی کی ذات ، اس کے اسما ءو صفات ,اس کی عظمت جلال اور کمال قدرت کی معرفت پر،اور اس کے فضل کے عام ہونے اور اس کی وسعت رحمت کی معرفت پر،کیونکہ جیسے جیسے مومن کے دل میں اس کے رب کی معرفت میں زیادتی ہوگی اس کا حسن ظن اس کے رب کے ساتھ بڑھتا جائیگا۔ ایسے ہی حسن ظن مبنی ہے بندے کے اعمال صالحہ پر کیونکہ اگر اعمال صالح نہ ہوں تو یہ بندے کو اس کے رب کے ساتھ حسن ظن سے روک دیتا ہے جیسا کہ امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں «إنَّ المؤمن أحسن الظن بالله فأحسن العمل ، وإنَّ الفاجر أساء الظن بالله فأساء العمل» (الزھد ص 402)ترجمہ: بیشک مومن جب اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھتا ہے تو احسن اعمال کرتا ہے،اور اگر اللہ کے ساتھ بدگمانی رکھتا ہے تو برے اعمال کرتا ہے۔
ہر مومن جو اپنے نفس کی خیر خواہی کا ارادہ رکھتا ہے اسے چاہیئے کہ اعمال صالحہ کی ادائیگی میں جلدی کرے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ}[العنكبوت69]
ترجمہ: اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقت برداشت کرتے ہیں ہم انہیں اپنی راہ ضرور دکھا دیں گے يقیناً اللہ تعا لٰی نیک کاروں کا ساتھی ہے ۔
قارئین کرام اللہ تعالی کے ساتھ بدگمانی بہت ہی عظیم گناہ ہے اور دینا و آخرت کو تباہ کرنے والاہے. اللہ نے شرک کے بعد اس گناہ پر سب سے سخت وعید سنائی ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے {وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ الظَّانِّينَ بِاللَّهِ ظَنَّ السَّوْءِ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا}[الفتح6] ترجمہ: اور تاکہ ان منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرکہ عورتوں کو عذاب دے جو اللہ تعالٰی کے بارےمیں بدگماناِں رکھنے والے ہیں ۔ ( دراصل ) ان کے دل پر برائی کا پھرجا ہے اللہ ان پر ناراض ہوا اور ان پر لعنت کی اور ان کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے اور وہ ( بہت ) بری لوٹنے کی جگہ ہے ۔
ایک اور مقام اللہ کے ساتھ بدگمانی کی قباحت کو اللہ رب العزت نے ان الفاظ میں بیان کیا کہ{ وَذَلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ مِنَ الْخَاسِرِينَ (23) فَإِنْ يَصْبِرُوا فَالنَّارُ مَثْوًى لَهُمْ وَإِنْ يَسْتَعْتِبُوا فَمَا هُمْ مِنَ الْمُعْتَبِينَ}[فصلت23-24] ترجمہ: تمہاری اس بد گمانی نے جو تم نے اپنے رب سے کر رکھی تھی تمہیں ہلاک کر دیا اور بالآخر تم زیاں کاروں میں ہوگئے ، اب اگر یہ صبر کریں تو بھی ان کا ٹھکانا جہنم ہی ہے ۔ اور اگر یہ معافی کے خواستگار ہوں تو بھی معذور و معاف نہیں رکھے جائیں گے۔
اللہ تعالی ہم سب کو اپنے ساتھ حسن ظن کی توفیق دے اور سوء ظن سے محفوظ رکھے۔آمین
تحریر : عمران احمد ریاض الدین سلفی(داعی و مبلغ اسلامک دعوہ سنٹر طائف)
رابطہ :966506116251+
 
Top