• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ ذوالجلال کی بے عمل سے ناراضگی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اللہ ذوالجلال کی بے عمل سے ناراضگی

اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے:
{یٰٓـاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَo کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَo} [الصف:۲،۳]
''اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ایسا کیوں کہتے ہو جو تم نہیں کرتے۔ اللہ کے نزدیک ناراض ہونے کے اعتبار سے بڑی بات ہے کہ تم وہ کہو جو تم نہیں کرتے۔ ''
بے عمل قول:
اس کا مطلب ہے کہ انسان کوئی وعدہ کرے (مگر اس پر پورا نہ اترے) یا کوئی بات کہے مگر اس کا ایفاء نہ کرے۔ یا اپنے بارے میں کوئی خیر، بھلائی کی بات کرے مگر اُسے سر انجام نہ دیتا ہو۔ یا تو ایسی بات کا تعلق ماضی سے ہوگا جس کے نتیجہ میں وہ جھوٹ بول رہا ہوگا یا پھر اس بات کا تعلق زمانۂ مستقبل سے ہوگا تب وہ اپنی بات کی خود ہی خلاف ورزی کرنے والا ہوگا۔ اور ان دونوں حالتوں میں یہ بات قابل مذمت ہے۔
ایسا کہنے والے جو کرتے نہیں:
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو علم کو سیکھ کر لوگوں کو سکھاتے ہیں مگر جو وہ کہہ رہے ہوتے ہیں اس پر عمل نہیں کرتے۔ حالانکہ بندوں سے مطلوب علم کے ساتھ عمل بھی ہے۔ جو قیامت کے دن نفع بخش بھی ہوگا۔
جب عمل علم سے پیچھے رہ جائے تو وہ صاحب علم پر حجت بن جایا کرتا ہے اور قیامت والے دن یہی عمل اس کے لیے ندامت اور رسوائی کا سبب بن جائے گا۔1
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 دیکھئے: فیض القدیر للمناوي / جلد ۳، ص ۲۵۳۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
امام مالک بن دینار رحمہ اللہ کہتے ہیں: جب عالم اپنے علم پر عمل نہ کرے تو جس طرح ایک چکنے پتھر سے بارش کے قطرے پھسل جایا کرتے ہیں، اسی طرح امت کی نصیحت و موعظت دلوں سے زائل ہوجایا کرتی ہے۔ شاعر کہتا ہے
یَا وَاعِظَ النَّاسِ قَدْ اَصْبَحْتَ مُتَّھَمًا
اِذْ عِبْتَ مِنْہُمْ أُمُوْرًا أَنْتَ تَأْتِیْھَا
''لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنے والے واعظ خوش الحان! جب تم لوگوں کے ایسے اُمور میں ان کے عیب نکالو گے کہ جنہیں تم خود کرتے ہو تو جانو کہ تم خود تہمت لگا دیے گئے۔''
قَالَ رُسْوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم :
((أُتِیْتُ لَیْلَۃَ أُسْرِی بِيْ عَلٰی قَوْمٍ تُقْرَضُ شِفَاھُھُمْ بِمَقَارِیْضَ مِنْ نَّارٍ، کُلَّمَا قَرَضَتْ وَفَتْ، فَقُلْتُ: یَا جِبْرِیْلُ مَنْ ھٰٓؤُ لَائِ؟ قَالَ: ھٰٓؤُلَائِ خُطَبَائُ أُمَّتِکَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ مَاَلا یَفْعَلُوْنَ، وَیَقْرَؤُوْنَ کِتَابَ اللّٰہِ وَلَا یَعْمَلُوْنَ بِہٖ۔ ))1
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
''جس رات مجھے معراج کروائی گئی اُس رات (اوپر آسمانوں پر) مجھے ایک ایسی قوم کے پاس لایا گیا جن کے ہونٹوں کو آگ کی قینچیوں سے کاٹا جارہا تھا۔ جب ان کے ہونٹوں کو کاٹ دیا جاتا تو وہ پھر سے ٹھیک ہوجاتے۔ میں نے پوچھا: اے جبریل! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ تمہارے امت کے وہ خطیب حضرات و واعظین ہیں کہ جو زبانوں سے وہ کہتے تھے جسے وہ کرتے نہیں تھے۔ حالانکہ وہ اللہ کی کتاب کو پڑھتے تھے مگر اس پر وہ عمل نہیں کرتے تھے۔''
بعض سلف صالحن کے بارے میں مروی ہے کہ اُن سے کہا گیا: جناب ہمیں کوئی حدیث بیان کیجیے۔ مگر وہ خاموش رہے۔ ان سے پھر گزارش کی گئی کہ جناب ہمیں کوئی حدیث ہی سنا دیجیے۔ تو وہ کہنے لگے: کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ میں وہ کچھ کہوں جسے میں کرتا نہیں ہوں اور میں اللہ کی ناراضگی کو جلد مول لے لوں؟
تو یہ بے عمل واعظین وہ لوگ ہوتے ہیں جو غیروں کو نیکی اور خیر کے کاموں کی نصیحت تو کرتے ہیں مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ کچھ کرتے نہیں جو وہ کہتے ہیں۔ اللہ عزوجل ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:
{اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ اَفَلَا تَعْقِلُوْنo}[البقرہ:۴۴]
''کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو، حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو، تو کیا تم نہیں سمجھتے؟''
اس آیت کریمہ میں ڈانٹ نیکی کے عمل کو ترک کرنے پر پلائی گئی ہے نہ کہ نیکی کا حکم کرنے پر۔ اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب حکیم میں ایک ایسی قوم کی مذمت بیان فرمائی ہے کہ جو نیکی کے کاموں کا حکم تو دیا کرتے تھے مگر خود ان پر عمل نہیں کرتے تھے۔ انہیں اللہ نے ایسی ڈانٹ پلائی ہے کہ جس کی تلاوت قیامت تک کی جاتی رہے گی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح الجامع الصغیر، رقم : ۱۲۹۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ابو العتاھیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وَصَفْتَ التُّقَی حَتَّی کَأَنَّکَ ذُوْتُقٰی
وَرِیْحُ الْخَطَایَا مِنْ ثِیَابِکَ تَسَطَّعُ
''اے واعظ خوش الحان! تو نے تقویٰ کی ایسی تعریف کی ہے گویا کہ تو خود بڑا ہی کوئی متقی آدمی ہے جبکہ گناہوں اور غلطیوں کی بدبو تیرے کپڑوں سے پھوٹ پھوٹ کر نکل رہی ہے۔''
یہی بات کسی اردو شاعر نے یوں کہی ہے
لبھاتا ہے دل کو کلامِ خطیب
مگر لذتِ شوق سے بے نصیب
بیاں اس کا منطق سے سلجھا ہوا
لغت کے بکھیڑوں میں اُلجھا ہوا
میراث میں آئی ہے انہیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
ایک اور عربی کا شاعر ابوالاسود الدولی کہتا ہے:
لَاتَنْہَ عَنْ خُلْقٍ وَتَأْتِيْ مِثْلَہُ
عَارٌ عَلَیْکَ اِذَا فَعَلْتَ عَظِیْمُ
وَابْدَأْ بِنَفْسِکَ فَانْھَھَا عَنْ غَیِّھَا
فَإِنْ انْتَھَیْتَ عَنْہُ فَأَنْتَ حَکِیْمُ
فَھُنَاکَ یُقْبَلُ إِنْ وَعَظْتَ وَیُقْتَدَی
بِالْقَوْلِ مِنْکَ وَیَنْفَعُ التَّعْلِیْمُ
''ایسے بُرے اخلاق سے کسی کو مت منع کر کہ جس جیسی بری عادات کا تو خود ارتکاب کرتا ہو۔ اگر تو ایسا کرے گا تو یہ تمہارے لیے بہت بڑے عار اور عیب کی بات ہے۔ پہلے اپنے نفس سے شروع کر اور اسے اس کی سرکشی سے روک۔ اگر تو اپنے نفس کی سرکشی سے باز رہا تو جان لے کہ پھر تو بہت دانا آدمی ہے۔ اگر اس کے بعد تو کسی کو نصیحت کرے گا تو تیری بات کو پھر قبول بھی کیا جائے گا۔ اس بات کی اقتدا ہوگی اور اس وقت تعلیم بھی فائدہ دے گی۔''
گویا اس بات کو ہم یوں کہہ سکتے ہیں
مرید سادہ تو رو رو کے ہوگیا تائب
اللہ کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق
خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
فطرت کے تقاضوں پہ نہ کر راہِ عمل بند
مقصود ہے کچھ اور ہی تسلیم و رضا کا
غرضیکہ: اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی اس بدکرداری پر مذمت کی ہے اور انہیں ان کے اپنے ہی حق میں خطا کرنے پر خبردار فرمایا ہے۔ اس حیثیت سے کہ وہ خیر اور نیکی کا حکم تو دیتے ہیں مگر اسے خود کرتے نہیں۔ ان کے نیکی کے لیے حکم دینے مگر اسے چھوڑ دینے پر ان کی مذمت مقصود نہیں ہے، بلکہ نیکی کو ترک کرنے پر ان کی مذمت کی گئی ہے۔ اس لیے کہ بلاشبہ نیکی کا حکم دنیا بذات خود نیکی ہے۔ یہ ہر عالم آدمی پر واجب ہے اور عالم آدمی پر بالاولیٰ واجب یہ ہے کہ وہ لوگوں کو عمل صالح کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ اسے خود بھی کرے اور اس ضمن میں وہ ان سے پیچھے نہ رہے۔1
بدعملی کا شکار یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو پوچھتے ہیں کہ: اللہ عزوجل کے ہاں کون سے اعمال زیادہ پسندیدہ ہیں تاکہ وہ انہیں کرسکیں، مگر جب انہیں ان کا علم ہوجاتا ہے تو وہ ان پر عمل نہیں کرتے۔ اللہ عزوجل کا درج ذیل فرمان ہر اس شخص کے لیے اس بات کو واجب کردیتا ہے کہ وہ اس سے ایفاء کرے جس نے اپنے آپ کو اس میں اطاعت کے طور پر عمل کے لیے واجب کرلیا ہو۔ فرمایا:
{ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَo} [الصف:۲]
''اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کیوں کہتے ہو جو تم نہیں کرتے۔ ''
یہی بے عمل وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے تیار کرتے ہیں مگر جب انہیں جہاد کے لیے بلایا جاتا ہے تو پیٹھ پھیر کر چلتے بنتے ہیں۔ اور جس بات کا انہوں نے وعدہ کیا ہوتا ہے اس سے وہ ایفاء نہیں کرتے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1تفصیل کے لیے دیکھیے: تفسیر ابن کثیر رحمہ اللہ جلد ۱، ص ۸۹۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
جبکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
{اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمْ بُنیَانٌ مَّرْصُوصٌo} [الصف:۴]
''بلاشبہ اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف باندھ کر لڑتے ہیں، جیسے وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی عمارت ہوں۔''
یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو مسلمانوں کی مدد کا وعدہ کرتے ہیں مگر اس وعدے کا ایفاء نہیں کرتے ۔یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو کہتے ہیں: ہم مسلمانوں کے شانہ بشانہ لڑیں گے مگر لڑتے نہیں۔ کہتے ہیں: ہم میدان قتال و جہاد میں صبر و استقامت سے کام لیں گے، مگر صبر کرتے نہیں۔ یہی بے عمل وہ لوگ ہوتے ہیں جو علم کے زیور سے آراستہ تو ہوتے ہیں لیکن اس کے اہل ثابت نہیں ہوتے یا دین کا اظہار تو کرتے ہیں مگر عملاً بے دین ہوتے ہیں۔ وہ اس بات کو بہت پسند کرتے ہیں کہ اُن کے ایسے کاموں کی تعریف کی جائے جو انہوں نے کیے ہی نہیں ہوتے۔
چنانچہ اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی قدر ہے:
{لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْنَ بِمَآ اَتَوْا وَّ یُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّہُمْ بِمَفَازَۃٍ مِّنَ الْعَذَابِ وَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌo} [آل عمران:۱۸۸]
''ان لوگوں کو ہر گز خیال نہ کر جو ان (کاموں) پر خوش ہوتے ہیں جو انھوں نے کیے اور پسند کرتے ہیں کہ ان کی تعریف ان (کاموں) پر کی جائے جو انھوں نے نہیں کیے۔ پس تو انھیں عذاب سے بچ نکلنے میں کامیاب ہر گز خیال نہ کر اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔''
جناب ثابت بن الضحاک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَیْسَ عَلٰی رَجُلٍ نَذْرٌ فِیْمَالَا یَمْلِکُ، وَلَعْنُ الْمُؤْمِنِ کَقَتْلِہِ، وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَہُ بِشَیْئٍ فِی الدُّنْیَا عُذِّبَ بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، مَنِ ادَّعٰی دَعْوٰی کَاذِبَۃً لِیَتَکَثِّرَبِھَا، لَمْ یَزِدْہُ اللّٰہُ إ لَّا قِلَّۃً وَمنَ حَلَفَ عَلٰی یَمِیْنِ صَبْرٍ فَاجِرَۃٍ۔'' وَقاَلَ صلی اللہ علیہ وسلم أَیْضًا : ''اَلْمُتَشَبِّعُ بِمَا لَمْ یُعْطَ کَلَابِسِ ثَوْبَيْ زُوْرٍ۔))1
''کسی آدمی پر وہ نذر پوری کرنا واجب نہیں جو اس کی ملکیت میں نہ ہو اور کسی مسلمان پر لعنت کرنا ایسے ہے جیسے اس کو قتل کرنا۔ اور جو شخص دنیا میں خودکشی کرلے اسے قیامت والے دن اسی کے ذریعے عذاب دیا جائے گا۔ اور جو شخص جھوٹا دعویٰ کرے اپنا مال بڑھانے کے لیے تو اللہ تعالیٰ اس کا مال مزید کم کردے گا۔ اسی طرح جو شخص کسی حاکم کے حکم سے جھوٹی قسم کھائے گا کسی مسلمان کا مال دبالینے کے لیے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر غصے ہوگا۔''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 أخرجہ مسلم في کتاب الإیمان، باب: غلظ تحریم قتل الإنسان نفسہ۔، حدیث : ۳۰۳، کتاب اللباس والزینۃ، باب: النھي عن التزویر في اللباس وغیرہ۔ رقم : ۵۵۸۳۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اُدھر اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی قدر ہے:
{وَ اَوْفُوْا بِعَہْدِ اللّٰہِ اِذَا عٰہَدْتُّمْ} [النحل:۹۱]
''اور جب تم عہد معاہدہ کرو تو اللہ کے عہد کی ایفاء کرو۔''
یہ لفظ ان تمام عقود کے لیے عام ہے جنہیں انسان زبان سے کرتا ہے۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
{وَاَوْفُوْا بِالْعَہْدِ اِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْئُوْلًاo} [الاسراء:۳۴]
''اور وعدے کو پور اکرو بلاشبہ عہد معاہدہ کے بارے میں (قیامت والے دن) پوچھا جائے گا۔''
ایک اور مقام پر فرمایا:
{یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ} [المائدہ:۱]
''اے ایمان والو! عقود معاہدے پورے کیا کرو۔''
یہ بے عمل وہ لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں سے خیر بھلائی کے وعدے کرتے ہیں مگر انہیں ایفاء نہیں کرتے۔ جبکہ وعدے کا سچا کر دکھانا صفات حمیدہ میں شمار ہوتا ہے۔ اسی طرح وعدہ کی خلاف ورزی کا شمار مذموم صفات میں ہوتا ہے۔ اللہ عزوجل یہی بات تو ارشاد فرما رہے ہیں:
{لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَo}
''تم لوگ وہ بات کیوں کرتے ہو جسے تم خود سر انجام نہیں دیتے۔''
اور پھر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک ہے:
((آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَـلَاثٌ: إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ))1
''(عملی) منافق کی تین علامتیں ہوتی ہیں۔ (۱)... وہ جب بھی بات کرتا ہے جھوٹ بولتا ہے۔ (۲)... وہ جب بھی وعدہ کرتا ہے اُس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ (۳)... اور اس کے پاس جب امانت رکھی جاتی ہے تو وہ اس میں خیانت کرتا ہے۔''
دیکھیے! جب یہ صفاتِ مذمومہ منافقین کی علامتیں ہیں تو پھر ان کے برعکس صفات (سچائی، ایفائے عہد اور دیانتداری) کو اختیار کرنا اہل ایمان کی صفات ہوئیں۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ بچوں کو لالچ دینے اور ان کے ساتھ ہنسی ٹھٹھہ کرنے کے لیے جھوٹا وعدہ کرنا یا جھوٹ بات کہنا بھی جھوٹ ہے۔
چنانچہ:
((عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَامِرٍ، أَنَّہُ قَالَ: دَعَتْنِيْ أُمِّي یَوْمًا وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ، قَاعِدٌ فِيْ بَیْتِنَا، فَقَالَتْ: ھَا تَعَالِ أُعْطِیَکَ، فَقَالَ لَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم : وَمَا أَرَدْتِ أَنْ تُعْطِیَہُ؟ قَالَتْ: أُعْطِیَہُ تَمْرًا، فَقَالَ لَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم : أَمَا إِنَّکِ لَوْ لَمْ تُعْطِیْہِ شَیْئًا کُتِبَتْ عَلَیْکِ کَذِبَۃٌ))2
''سیّدنا عبد اللہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: ایک دن (جب میں بچہ تھا) میری اماں جان نے مجھے بلایا۔ اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر میں تشریف فرما تھے۔ امی جان کہنے لگیں: عبد اللہ! ادھر آؤ میں تمہیں (کھانے پینے کی) کوئی چیز دوں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری والدہ سے دریافت فرمایا: تم نے عبد اللہ کو کیا چیز دینے کا ارادہ کیا ہے؟ وہ کہنے لگیں: میں اسے کھجور دوں گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: یاد رکھو! اگر تم نے اسے کوئی چیز نہ دی تو تیری یہ بات تیرے اُوپر جھوٹ لکھ دی جائے گی۔''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
! أخرجہ البخاري في کتاب الإیمان، باب: علامۃ المنافق۔ رقم : ۳۳۔ 2 صحیح سنن أبي داود رقم : ۴۱۷۶۔

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
اللہ ذوالجلال کی بے عمل سے ناراضگی

اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے:
{یٰٓـاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَo کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَo} [الصف:۲،۳]
''اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ایسا کیوں کہتے ہو جو تم نہیں کرتے۔ اللہ کے نزدیک ناراض ہونے کے اعتبار سے بڑی بات ہے کہ تم وہ کہو جو تم نہیں کرتے۔ ''
اس آیت کا یہ معنی ہر گز نہیں ہے جو بیان کیا گیا ہے ، اس آیت کا درست ترجمہ یوں ہے :
''اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ایسا کیوں کہتے ہو جو تم کر نہیں سکتے ۔ اللہ کے نزدیک ناراض ہونے کے اعتبار سے بڑی بات ہے کہ تم وہ کہو جو تم کرنہیں سکتے۔
اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ اس مسلمان یہ کہتے تھے اگر ہم لیے اچھے اچھے اعمال فرض کیے جائین تو ہم ان کو بجا لائین گے لیکن جب ان اعمال کو فرض کیا گیا تو وہ لوگ ان پر عمل کرنے میں قاصر رہے تو اللہ تعالی نے یہ آیا ت نازل فرما دیں کہ جس کام کو تم کر نہیں سکتے وہ اس خواہش کیوں کرتے ہو؟ مفسرین کرام نے بھی اس آیت کا یہی معنی مراد لیا ہے ،چناں چہ مفسر شہیر جناب ابن جریر طبری رقم طراز ہیں :
واختلف أهل التأويل في الس

بب الذي من أجله أُنـزلت هذه الآية، فقال بعضهم: أُنـزلت توبيخًا من الله لقوم من المؤمنين، تمنوا معرفة أفضل الأعمال، فعرّفهم الله إياه، فلما عرفوا قصروا، فعوتبوا بهذه الآية.
* ذكر من قال ذلك :
حدثني عليّ، قال: ثنا أبو صالح، قال: ثني معاوية، عن عليّ، عن ابن عباس، في قوله: ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لا تَفْعَلُونَ ) قال: كان ناس من المؤمنين قبل أن يفرض الجهاد يقولون: لوددنا أن الله دلنا على أحبّ الأعمال إليه، فنعمل به، فأخبر الله نبيه أن أحب الأعمال إليه إيمان بالله لا شكّ فيه، وجهاد أهل معصيته الذين خالفوا الإيمان ولم يقرّوا به؛ فلما نـزل الجهاد، كره ذلك أُناس من المؤمنين، وشقّ عليهم أمره، فقال الله: ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لا تَفْعَلُونَ )


یہ ایک حقیقت ہے کہ غلط کو غلط سمجھ کر اسکی تبلیغ و اشاعت کے بعد۔۔اگر وہی عمل تبلیغ کرنے والے سے ہوجاتا ہے۔۔اسکے لئے توبہ کے دروازے کھلے ہیں۔۔لیکن اس ڈر سے کہ۔۔کہیں‌بھی اس کا مرتکب نہ ہوجاوں سوچ کر۔۔۔فرض منصبی سے ہی رک جانا۔۔۔نادانی کے سوا کچھ نہیں۔۔۔!
مثال کے طور پر کبیرہ گناہ کبیرہ گناہ ہے۔۔وہ کرنے والے کے لئے بھی اور جسکو کہ علم ہے کہ ۔۔۔یہ کبیرہ گناہ ہے۔۔۔! اب اگر کبیرہ گناہ کسی سے سرزد ہوجاتا ہے۔۔تب وہ کیا کبھی بھی کبیرہ گناہوں‌کے بارے میں‌کسی کو نصیحت نہیں‌کرسکتا کہ۔۔۔یہ غلط ہے، اور گناہ کبیرہ ہے۔۔!
اسی طرح اگر باپ اگر پڑھا لکھا نہ بھی ہو تو بیٹے کو نصیحت کرتا ہے کہ بیٹے پڑھ لکھ لو۔۔۔کہ ہم نہیں‌پڑھ سکے تھے۔۔لیکن پڑھائی کے یہ اور یہ فائدے ہیں۔۔وغیرہ۔۔!
ایسے ہی نیکی کی نصیحت ایک مسلم حقیقت اور فرض منصبی ہے! البتہ لم تقولون مالاتفعلون کا مفہوم سوچ سمجھ کر ذہن میں‌بھی رکھ لینا چاہئےیک اور بھونڈی اور موٹی سے مثال۔۔۔! باپ اگر پڑھا لکھا نہ بھی ہو تو بیٹے کو نصیحت کرتا ہے کہ بیٹے پڑھ لکھ لو۔۔۔کہ ہم نہیں‌پڑھ سکے تھے۔۔لیکن پڑھائی کے یہ اور یہ فائدے ہیں۔۔وغیرہ۔۔!
ایسے ہی نیکی کی نصیحت ایک مسلم حقیقت اور فرض منصبی ہے، البتہ لم تقولون مالاتفعلون کا مفہوم سوچ سمجھ کر ذہن میں‌بھی رکھ لینا چاہئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
عمران بھائی!!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ پورے مضمون پر اظہار ِ رائےکرتے تو زیادہ بہتر تھا۔
باپ کی عمر گزر گئی پڑھنے لکھنے کی۔۔۔اب تو وہ صرف نصیحت ہی کرسکتا ہے۔۔
 
Top