• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تعظیم اور اُسے گالی دینے والے کا حُکم

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تعظیم اور اُسے گالی دینے والے کا حُکم
عبدالعزیز بن مرزوق الطَّریفی
ترجمہ: شفیق الرّحمن ضیاءاللہ مدنی
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ہرقسم کی تعریف صرف اللہ کے لئے سزاوار ہے، ایسی تعریف جو اسکی منزلت کے شایان شان ہے،اور میں اسکے اوامر کی بجاآوری کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرتا ہوں۔
میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ تمام مخلوق اسکی کماحقّہ تعظیم کرنے سے عاجز ہے، کیونکہ اسے اسکی عظمت کا علم نہیں۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نعمتیں بے شمار ہیں،جنکا شکر ادا نہیں کیا جاسکتا ، اسی کےلئے دنیا اور آخرت ہے ، اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے،اسکے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں، وہ اکیلا ہے جسکا کوئی شریک نہیں، اور اسکے علاوہ کوئی سچاعبادت کے لائق نہیں۔
میں نبی اُمّی محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیجتا ہوں۔
امّا بعد(اللہ کی حمدوثنا اور پیغمبر پردرودوسلام کے بعد):
سب سے عظیم عقلی اور نقلی ذمہ داریوں میں سے خالق سبحانہ وتعالیٰ کے مقام ومرتبہ کو پہچاننا ہے ،جسکی یکتائی اور وحدانیت کا سارا جہان معترف ہے، اور خودہرمخلوق کی ذات کے اندر اسکے خالق کی عظمت ، اسکی عظیم کاریگری اور اختراع پر واضح نشانیاں موجود ہیں،اگرہرشخص اپنے آپ کو دیکھے اور اسمیں غوروفکرکرے ،تو اپنے خالق کی قدرومنزلت کو پہچان جائے گا ، (جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے) :

﴿وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ﴾ [الذاريات : 21 ]
‘‘اور خود تمہاری ذات میں بھی(نشانیاں) ہیں، تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو’’ [ سورہ الذاریات:21]
اور نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا:

﴿مَا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا﴾ [نوح: 13-14]
‘‘ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی برتری کا عقیده نہیں رکھتے،حانکہ اس نے تمہیں طرح طرح سے پیدا کیا ہے ’’ [سورہ نوح: 13-14]

ابن عباس اور مجاہد نے فرمایا : ‘‘ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کی عظمت وبرتری کا خیا ل نہیں رکھتے ’’) (الدرّ المنثور) :8/-291)۔(
اور ابن عباس نے یہ بھی فرمایا : ‘‘ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی کما حقّہ تعظیم نہیں بجالاتے) (جامع البیان )) للطبری :23/296)، و (معالم التنزیل) للبغوی :5/156)۔
نو ح علیہ السلام نے انھیں اپنی ذاتوں اور اپنی (تخلیقی) مراحل کے بارے میں غوروفکر اورتدبّر سے کام لینے کی طرف راہنمائی فرمائی ہے تاکہ اپنے اوپر رب کی حق کو پہچان سکیں۔
اسطرح سے اپنےنفس اور اسکی مختلف مراحل میں غوروفکر کرنا اللہ کی تعظیم کرنے اور اسکے مقام ومرتبہ کو پہچاننے کیلئے کافی ہے۔
تو پھرآسمان وزمین میں اللہ کی تمام مخلوقا ت میں غوروفکر کرنے کی صورت میں کیا نتیجہ ہوگا!

درحقیقت لوگ عظمت الہی سے اس بنا پر جاہل ہیں کیونکہ وہ اللہ کی نشانیوں کونظر بصیرت سے نہیں دیکھتے ہیں ، بلکہ عجلت پسندی اور فائدہ اُٹھاتے ہوئے گذرتے ہیں، عبرت ونصیحت لیتے ہوئے اور غوروفکر کرتے ہوئے نہیں گُذرتے ہیں:
﴿وَكَأَيِّنْ مِنْ آيَةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ﴾ [يوسف : 105]
‘‘اورآسمانوں اور زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ جن سے یہ منھ موڑے گزر جاتے ہیں’’[سورہ یوسف:105]
چنانچہ غافل دلوں اور اعراض کرنے والی عقلوں کو معجزات نفع نہیں دیتی ہیں،اور نہ ہی نشانیاں ان کیلئے فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں، اللہ جل جلالہ کی تعظیم وہی کرتا ہے جس نے اسکی نشانیوں کو دیکھا ہو، یا اسکی صفات کو پہچاناہو، اسی لئے اعراض کرنے والے غافل دلوں میں اللہ کی قدرومنزلت کمزور ہوتی ہے، چنانچہ اسکی نافرمانی کی جاتی ہے، اسکا انکار کیا جاتا ہے،اور کبھی تو اسے گالی دی جاتی ہے اور اسکا استہزا کیا جاتا ہے!!

اور عظیم(اللہ) کی اسکی عظمت کی جہالت کے بقدر نافرمانی کی جاتی ہے ،اور جس قدر دلوں کے اندر اسکے مقام ومرتبہ کی کمی ہوتی ہے اسی قدر اسکے ساتھ کفرکیا جا تا ہے اوراُ س کے حق کا انکار کیا جاتا ہے،اور کبھی تو اُسے گالی دی جاتی ہے اور اسکا مذاق اُڑایا جاتا ہے!!
اور عظیم (اللہ) کی اسکی عظمت سے ناواقفیت ہونے کے بقدر نافرمانی کی جاتی ہے،اور جس قدر دلوں میں اسکی قدرومنزلت کی کمی ہوتی ہے اسی مقدار میں اسکے ساتھ کُفر کیا جاتا ہے اور اُسکے حق کا انکار کیا جاتا ہے، اور ایک کمزور کی کمزوری سے جہالت کے بقدر اسکی اطاعت کی جاتی ہے،اور جس قدر دلوں کے اندر اسکے مقام ومرتبہ کی زیادتی ہوتی ہے اسی کے بقدر اسکی عبادت کی جاتی ہے اور اسکی تعظیم وتوقیر کی جاتی ہے۔

اسی وجہ سے مشرکوں نے بتوں کی پوجا کی، اور ہڈّیوں کو زندہ کرنے والی ذات (اللہ) کا انکار کیا،اللہ تعالی ٰ نے اسی خرابی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:

﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَنْ يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ وَإِنْ يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَا يَسْتَنْقِذُوهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ﴾ [الحج : 73- 74 ]
‘‘لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو! اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وه ایک مکھی بھی تو پیدا نہیں کر سکتے، گو سارے کے سارے ہی جمع ہو جائیں، بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے، بڑا بودا ہے طلب کرنے وا اور بڑا بودا ہے وه جس سے طلب کیا جا رہا ہے انہوں نے اللہ کے مرتبہ کے مطابق اس کی قدر جانی ہی نہیں، اللہ تعالیٰ بڑا ہی زور وقوت وا اور غالب وزبردست ہے’’۔[سورہ حج:73-74]
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
[ اللہ کی تعظیم کی صورتیں]
% اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تعظیم میں سے: اسکے ناموں اور صفتوں کی جانکاری،اسکی نشانیوں میں غوروفکر ، اسکی نعمتوں اور عطیوں میں تدبّر کرنا، گزشتہ اقوام کی حالات ،اور جٹھلانے والوں اور تصدیق کرنے والوں،مومنوں اور کافروں کے انجام کے بارے میں بصارت وبصیرت کو کام میں لانا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402

% اوراللہ کی تعظیم میں سے: اسکے قوانین اور اسکے اوامر ونواہی کی معرفت حاصل کرنا،اور انکی بجاآوری کرکے اوران پر عمل کرکے اسکی تعظیم کرنا ہے،کیونکہ یہی دل کے اندر ایمان کو زندہ کرتا ہے، چنانچہ ایمان کی ایک چنگاری اور شعلہ ہوتی ہے، اس (ایمان) کی گرمی اس وقت سرد پڑ جاتی ہے اور اسکی چنگاری اسوقت بُجھ جاتی ہے جب وہ ذات جس پر آپ ایمان رکھتے ہیں کوئی حکم دیتا ہے تو اسکے حکم کو مانا نہیں جاتا ،اور وہ کسی چیز سے منع کرتا ہے تو اسکے نواہی سے رُکا نہیں جاتا ہے۔
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ھدی(قُربانی) کے شعائراور مناسک حج کی تعظیم کے بارے میں فرمایا :
﴿ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ﴾ [الحج :32 ]
‘‘یہ ہے اور جو کوئی اللہ کی حرمتوں(نشانیوں) کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سےہے’’۔ [سورہ حج:32]

پس امرونہی کی تعظیم کرنا حکم دینے والے (اللہ) کی تعظیم کرنا ہے۔اسی لئے اللہ کے حق میں الحاد کا اظہارنہیں ہوتا ہے، اور اسکے ساتھ کفر نہیں کیا جاتا ہے،اسکا انکار نہیں کیا جاتا اور اسے بُرا بھلا نہیں کہا جاتا ہے، مگراس سے پہلے اسکے اوامر ونواہی کو چھوڑدیا گیا ہوتا ہے ، اور اُنکا مذاق اُڑایا گیا ہوتا ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی قدر ومنزلت سے جاہل منھ موڑنے والے اور –اس سے پہلے- اسکے اوامر ونواہی کو چھوڑدینے والے بعض عوام کے یہاں،خاص طور پر شام اور عراق کے ملکوں اور کچھ افریقی ملکوں میں،اللہ کو گالی دینا ،بُرا بھلا کہنا ،اور کبھی کبھار ایسے الفاظ اور اوصاف سے موسوم کرنا مشہور ہو چکا ہے جن کا تذکرہ کرنا یا انہیں سننا ایک مسلمان کیلئے بہت ناگوار گُذرتا ہے۔اور کبھی تو اسے ایسے لوگ کہتے ہیں جواپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں ،اس لئے کہ وہ شہادتین (لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ )کا اقرار کرتے ہیں ،اور کبھی تو بعض نمازیوں سے ایسا ہوجاتا ہے ، اور شیطان انکی زبانوں پر اسے جاری کردیتا ہے، اور ان میں سے بہتوں کیلئے شیطان یہ مزیّن کرتا ہے کہ وہ اسکے معنی کو مراد نہیں لیتے ہیں، اور نہ ہی اس سے اپنے خالق کی تنقیص کرنا چاہتے ہیں،اور انہیں یہ باور کراتا ہے کہ یہ سب فضول باتوں میں سے ہیں جس پر دھیان نہیں دیا جاتا ہے! اسی وجہ سے انہوں نے اسمیں لا پرواہی سے کا م لیا ہے!
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اسطرح کی چیزوں کی وضاحت ضروری ہے- جبکہ صحیح عقل والوں اور آسمانی شریعتوں میں اسکے خطرات ومفاسد واضح ہیں–تاکہ شیطان کے چالوں اور اسکے رسّیوں کو کاٹ دیا جائے،اوراللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تعظیم واحترام کی جائے، اور اُسے ہر عیب وبُرائی سے پاک ٹہرایا جائے،چاہے وہ زبان پر کسی بھی شکل میں جاری ہوا ہو، اوردلوں کے اندر اسکا کچھ بھی مقصد رہا ہو۔

اس لئے میں اختصار سے کہتا ہوں کہ:

بے شک گالی دینا -
اور یہ ہر وہ قول ،یا فعل ہے جسکا مقصد اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تنقیص وتوہین ہو -کفر ہے،اس سلسلے میں مسلمانوں کا کوئی اختلاف نہیں ہے، خواہ سنجیدہ طور پراستہزا ہو،یا کھیل ہنسی اور مذاق ،یا غفلت اور جہالت کے طور پر ہو! اس میں لوگوں کے نیتوں اور مقاصد کے درمیان کوئی فرق نہیں،کیونکہ ظاہر چیز کا ہی اعتبار کیا جاتا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
گالی کی حقیقت اور اسکا مطلب
ہروہ چیز جسے لوگ اپنے عُرف میں گالی ،یا مذاق،یا تحقیر ورسوائی کا نام دیتے ہیں تو وہ شریعت میں بھی اُسی طر ح ہے؛ کیونکہ لوگوں کے عرف عام کی طرف لوٹانے کا اعتبار کیا جائے گا،جیسے لعنت،اہانت،فُحش کلامی،ہاتھ کے ذریعہ فحش اور بُرا اشارہ کرنا،اسی طرح ایسے کلمات جسے کسی خاص ملک(شہر) کے لوگ استعمال کرتے ہیں اور اسے مذاق اور گالی کا نام دیتے ہیں، تو وہ بھی گالی ہی ہے!اگر چہ وہ دوسرے ملکوں( شہروں) میں گالی نہ سمجھی جاتی ہو۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اللہ تعالیٰ کو گالی دینے کا حُکم
اہل اسلام کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو گالی دینا کُفر ہے، اور
اللہ تعالیٰ کو گالی دینے والا قتل کردیا جائے گا۔ انہوں نے صرف اسکی توبہ کے قبول کئے جانے کے بارے میں اختلاف کیا ہے، اور کیا – اگر اس نے تو بہ کرلیا ہے تو- اسکی توبہ اسے قتل سے بچا لے گی یا نہیں؟اس بارے میں علماء کے دومشہور قول ہیں:
اللہ کو گالی دینااور اسکا مذاق اُڑانا سب سے بڑی تکلیف کی بات ہے ، فرمان باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا ﴾ [الأحزاب : 57 – 58 ]

‘‘جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لئے نہایت رسوا کن عذاب ہے ،اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایذا دیں بغیر کسی جرم کے جو ان سے سرزد ہوا ہو، وه (بڑے ہی) بہتان اور صریح گناه کا بوجھ اٹھاتے ہیں’’[سورہ احزاب:57-58]
اور اللہ کو تکلیف پہنچانے کا مطلب اللہ کو نقصان پہنچانا نہیں ہے؛ کیونکہ تکلیف کی دو قسمیں ہیں:


ایک تکلیف وہ ہے جو نقصان پہنچاتا ہے،اور ایک تکلیف وہ ہے جو نقصان نہیں پہنچاتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ کو کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے!
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
چنانچہ حدیث قدسی میں اللہ تعالی ٰ نے فرمایا:
‘‘ اے میرے بندو! اگرتم مجھے تکلیف پہنچانا چاہو تو تم مجھے ہرگز تکلیف نہیں دے سکتے ) (صحیح مسلم ،باب: ظلم کرنا حرام ہے اور استغفار اور توبہ کرنے کا حکم، حدیث نمبر:2577)۔(

% اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی ہے جو اُسے تکلیف پہنچاتا ہے۔
اور لعنت کا مطلب ہے بندے کو رحمت سے دور کردینا،اس آیت سے بندے کو دونوں رحمتوں ؛ دنیا کی رحمت اور آخرت کی رحمت سے دور کردئے جانے کا پتہ چلتا ہے، اور دونوں رحمتوں سے وہی شخص دور کیا جاتا ہے جو اللہ کے ساتھ کُفر کرنے والا ہو!اور یہ حقیقت اس بات سے واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسکے بعد ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو تکلیف پہنچانے والوں کا تذکرہ کیا ہے تو اُس میں اس بات کا ذکر نہیں کیا ہے کہ اس نے دنیا وآخرت دونوں میں ان پر لعنت کی ہے؛ کیونکہ لوگوں کو صرف انکے دوسروں کو گالی ،لعنت اور تہمت لگانے کے ذریعہ تکلیف پہنچانے سے کافر نہیں ٹہرایا جاسکتا، بلکہ وہ بہتان (جھوٹا الزام) اور کھلی گنا ہ ہے، اگر اُس پر کوئی دلیل نہ ہو۔


اور اللہ نے اپنے تکلیف پہنچانے والوں پر دنیااورآخرت میں لعنت کی ہے،اور لعنت نام ہے:بندہ کا رحمت الہی سے دوری کا۔اور آیت بھی دنیا وآخرت کی دوری پر دلالت کرتی ہے،اور دونوں رحمتوں سے دور صرف اللہ کے ساتھ کفر کرنے والا ہی ہوسکتا ہے۔اور اس بات کی وضاحت اس بات سے بخوبی ہوجاتی ہے کہ اللہ نے اسکے بعد مومن مرد اور مومنہ عورتوں کو تکلیف پہچانے والوں کا تذکرہ کیا ہے مگر اس میں انکے لئے دنیا وآخرت میں لعنت کا تذکرہ نہیں کیا ہے؛کیونکہ لوگ محض کسی کو گالی دینے،لعن طعن کرنے اور تہمت لگانے کی وجہ سے کافرنہیں قرار دئے جاسکتے ہیں، بلکہ یہ دلیل اورثبوت نہ ہونے کی بنا پربہتان اور کھلی گناہ ہوگی۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
پھر اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر فرمایا کہ اس نے اپنے تکلیف دینے والے کے لئے:‘‘رسواکن عذاب’’ [سورہ احزاب:57]تیار کررکھا ہے،اوررب العالمین نے رسواکن عذاب کا تذکرہ قرآن کریم میں صرف اللہ کے ساتھ کفر کرنے والوں کے بارے میں ہی کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کو گالی دینا ہرکفر سے بڑھ کرکفرہے،اور یہ بت پرستوں کے کفر سے بھی بڑھکرہے؛ کیونکہ بت پرستوں نے پتھروں کی تعظیم اللہ کی تعظیم کرنے کی وجہ سے کی ہے! تو انہوں نے اللہ کے مقام ومرتبہ کو گرا کر اسے پتھروں کے برابر نہیں کیا ہے، بلکہ انہوں نے پتھروں کے مقام کو بلند کردیا ہے یہاں تک کہ انہیں اللہ کے برابر کردیا ہے، اسی لئے مشرکین جہنم میں داخل ہونے کے بعد کہیں گے:

﴿تَاللَّهِ إِنْ كُنَّا لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ 97 إِذْ نُسَوِّيكُمْ بِرَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ [الشعراء : 97 – 98 ]
‘‘کہ قسم اللہ کی! یقیناً ہم تو کھلی گمراہی میں مبتلا تھے جبکہ تمہیں رب العالمین کے برابر سمجھ بیٹھے تھے’’[سورہ الشعراء:97-98]
ان لوگوں نے پتھر کو اونچا کردیا ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے برابر ہوجائے، اللہ تعالی کے مقام ومرتبہ کو گرایا نہیں ہے کہ وہ پتھر کے برابر ہوجائے! تو انکا پتھر کی تعظیم کرنا انکے گمان کے مطابق اللہ کی تعظیم کرنے سے ہے! جبکہ جس نے اللہ کو گالی دیا اور بُرا کہا ہے،اس نے اللہ تعالیٰ کو گالی دینے کی وجہ سے اسکے مقام سے گرادیا ہے تاکہ پتھر سے کمتر ہوجائے، جبکہ مشرک لوگ اپنے معبودوں کو ہنسی مذاق میں بھی گالی نہیں دیتےہیں؛ کیونکہ وہ انکی تعظیم اورقدر کرتے ہیں! اسی لئے وہ انکی بُرائی کرنے والوں کو بُرا بھلا کہتے ہیں!
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا یہ فرمان نازل کیا ہے :

﴿وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللہِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ﴾ [الأنعام : 108 ]
‘‘اور گالی مت دو ان کو جن کی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں کیونکہ پھر وه براه جہل دشمنی میں اللہ کو گالی دیں گے’’[سورہ اَنعام:۱۰۸]
جبکہ مشرک لوگ کافر ہیں ،لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو انکے معبودوں کو گالی دینے سے منع فرمایا ہے ،تاکہ ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی عناد وسرکشی کی وجہ سے اپنے کفر سے بڑھکر کُفر نہ کر بیٹھیں، اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے معبود کو گالی دینا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
% اللہ کوگالی دینے کےبعض الفاظ الحاد سے بڑھکر ہیں؛کیونکہ ملحد وبےدین شخص نےاللہ کے وجود کا انکار کیا ہے،اورزبان حال سے یہ گویا ہے: ‘‘کہ کاش اگر میں اس کے وجود کومانتا تو اس کی تعظیم کرتا!’’۔
لیکن جو اللہ پر ایمان رکھنےکا گمان رکھتا ہے؛ تو وہ اپنے رب کو ثابت مانتا ہے اور اسے گالی بھی دیتا ہے،اوریہ کھلے طور پر بڑاسرکش اور چیلنج والا ہے !!
اوردنیا کے مُلکوں میں سے کسی مُلک میں بتوں کو رکھ کر انکا طواف کرنا،انکا سجدہ کرنا اور ان سے تبرک حاصل کرنا؛ اللہ رب العزّت کے نزدیک اس مُلک کے کلبوں،شاہ راہوں،بازاروں اور مجلسوں میں اللہ کو گالی دینے کے اشتہار سے کمتر اور آسان ہے؛ کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو گالی دینے کا پرچار، اُسکے ساتھ بتوں کو ساجھی ٹہرانے سے زیادہ گمبھیر ہے،جبکہ دونوں ہی کفریہ عمل ہیں،مگر مشرک اللہ کی تعظیم کرتاہے،جبکہ گالی دینے والا اللہ کو حقیر جانتا ہے! اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات اس سے بلندوبر تر ہے۔
 
Top