• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ عرش پر ہے دوسری حدیث

کیا آپ کا عقیدہ بھی یہی ہے کہ ہمارا رب ہمارے سےاوپرہے اور بلند وبالا ہے؟

  • نہیں ہمارا رب ہمارے ساتھ ہے اور ہر جگہ موجود ہے۔

    ووٹ: 0 0.0%

  • Total voters
    6
شمولیت
فروری 19، 2016
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
40

صحیح بخاری
كتاب التوحيد

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْرَجِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّ اللَّهَ لَمَّا قَضَى الْخَلْقَ كَتَبَ عِنْدَهُ فَوْقَ عَرْشِهِ إِنَّ رَحْمَتِي سَبَقَتْ غَضَبِي".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق پیدا کی تو عرش کے اوپر اپنے پاس لکھ دیا کہ میری رحمت میرے غصہ سے بڑھ کر ہے۔“
حدیث نمبر: 7422
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ فُلَيْحٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي هِلَالٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَصَامَ رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ هَاجَرَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ جَلَسَ فِي أَرْضِهِ الَّتِي وُلِدَ فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَفَلَا نُنَبِّئُ النَّاسَ بِذَلِكَ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ فِي الْجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ أَعَدَّهَا اللَّهُ لِلْمُجَاهِدِينَ فِي سَبِيلِهِ، ‏‏‏‏‏‏كُلُّ دَرَجَتَيْنِ مَا بَيْنَهُمَا كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ؟، ‏‏‏‏‏‏فَسَلُوهُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّهُ أَوْسَطُ الْجَنَّةِ وَأَعْلَى الْجَنَّةِ وَفَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ وَمِنْهُ تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الْجَنَّةِ".
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے محمد بن فلیح نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے ہلال نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا، نماز قائم کی، رمضان کے روزے رکھے تو اللہ پر حق ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے۔ خواہ اس نے ہجرت کی ہو یا وہیں مقیم رہا ہو جہاں اس کی پیدائش ہوئی تھی۔“ صحابہ نے کہا: یا رسول اللہ! کیا ہم اس کی اطلاع لوگوں کو نہ دے دیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں سو درجے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کیا ہے، ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین کے درمیان ہے۔ پس جب تم اللہ سے سوال کرو تو فردوس کا سوال کرو کیونکہ وہ درمیانہ درجے کی جنت ہے اور بلند ترین اور اس کے اوپر رحمان کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔
حدیث نمبر: 7423
وضاحت:
اس حدیث میں امام بخاری نےایک دوسرے انداز میں اللہ کے لیے صفت علو کو ثابت کیا ہے۔وہ اس طرح کہ ان میں اللہ کے لیے فوقیت کا
اثبات ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی خلق کے اوپر ہے اور ان سے جدا اور بائن ہے۔ارشاد باری تعالی ہے۔
اور وہی اپنے بندے کے اوپر غالب ہے برتر ہے اور تم پر نگہداشت رکھنے والا بھیجتا ہے۔(الانعام:61)
اور اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے، کپکپاتے رہتے ہیں ۔ اور جو حکم مل جائے اس کی تعمیل کرتے ہیں ۔(النحل:)50
اس سلسلہ میں فرعون نے اپنے درباریوں کو علو بنانے کے لیے ایک اسکیم تیار کی کہ وہ کہنے لگا اے ہامان'میرے لیے ایک بلند عمارت بناو
تا کہ میں ان راستوں تک پہنچ سکوں جو آسمانوں کہ راستے ہیں پھر موسی کے اللہ کی طرف جھانک سکوں اور میں تو اسے جھوٹا خیال کرتا ہوں
(المومن:37)
یعنی موسی جو بات کرتا ہے میں جاننا چاہتا ہوں کہ وہ کہاں اور کتنی بلندی پر ہے؟ اس آیت سے معلوم ہوتاہے کے موسی ؑنے بھی زات
باری تعالی کے لیے یہی عقیدہ پیش کیا تھا کہ وہ آسمانوں کے اوپر ہے نیز جو اس کا انکار کر تا ہے وہ فرعون کی اتباع کرتا ہے۔چنانچہ علامہ
طحاوی لکھتے ہیں کہ جہمیہ میں سے جس نے علو باری تعالی کی نفی کی وہ فرعونی ہے اور جس نے علو کو ثابت کیا وہ موسوی اور محمدی ہے۔
(شرح عقیدہ طحاویہ)
علامہ طحاوی نے بیسیوں دلائل سے زات باری تعالی کے لیے صفت علو کو ثابت کیا بلکہ فطرت کا تقاضہ ہے کہ اس کے علو کو تسلیم کیا جائے
کیونکہ انسان دعا کر تے وقت اپنے ہاتھوں کو اوپر کی طرف اٹھاتا ہے اور نہایت عاجزی کے ساتھ جہت علو کا قصد کرتا ہے اس سے مراد
زات باری تعالی ہوتی ہے۔جب بندہ اپنی پیشانی سجدہ کی حالت میں زمین پر رکھتا ہے تو اس سے مقصود یہ نہیں ہوتا کہ اللہ تعالی نیچے ہے
بلکہ اس سے مقصود خد کو اللہ کے آگے زلیل کرنا اور نیچا دکھانا ہوتا ہے۔اللہ تعالی کے نچلی جہت میں ہونے کا کسی کے دل میں خیال نہیں
آتا البتہ بشر مریسی معتزلی سے منقول ہےکہ اس نے سجدہ کی حالت میں کہا تھا سبحان ربی الاسفل یعنی میرا رب پاک ہے جو نیچے ہے۔
اللہ تعالی تو ایسی گھٹیا باتوں سے پاک ہے۔(شرح عقیدہ طحاویہ)
 
Top