• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ عرش پر ہے کیا یہ کہنا غلط ہے؟

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

اہل علم سے گزارش ہے کہ اس امیج میں جو لکھا ہے اس کی حقیقت واضح کر دیں

13220862_384629885040574_7260511788993394265_n.jpg


جزاک اللہ خیراً
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ترجمہ درست نہیں!
اس میں تین باتیں بیان ہوئیں ہیں۔
01: اللہ تعالی کو کسی مکان نے گھیرانہیں۔
تو اس کے قائل اہل حدیث بھی نہیں کہ کوئی بھی شئء اللہ تعالی کا احاطہ کر سکتی ہے، ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے جدا اور اپنی مخلوق کے اوپرہے!
02: نہ اس پر کوئی زمان یعنی وقت کا گذر ہوتا ہے۔
تو اہل حدیث بھی اس کے قائل نہیں،
03: بخلاف اس فرقہ شہامیہ اور کرامیہ کے اس قول کے کہ اللہ تعالیٰ (صرف) عرش پر ہے۔
یہاں ترجمہ غلط کیا گیا ہے۔ عربی عبارت یوں ہے:
خلاف قول من زعم من الشهامية والكرامية انه مماس لعرشه
اس کا ترجمہ درست ہوں ہوگا کہ:
بخلاف شہامیہ اور کرامیہ میں سے ان کے قول کے کہ جو گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے ساتھ مماس کئے ہوئے (چھوئے ہوئے) ہے۔

اور اہل حدیث کا یہ عقیدہ بھی نہیں! یہ شہامیہ اور کرامیہ میں سے جن کا عقیدہ ہوگا سو ہوگا، مگر اہل حدیث اس سے بری ہیں!

اصل بات یہاں مترجم کی فنکاری ہے! کہ اس نے کس طرح ڈنڈی مار کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

نوٹ: عبد القاھر بن طاھر ویسے بھی خود ایک اشعری تھے، اگر یہ ایسا کوئی اجماع جو اہل حدیث کے عقیدے کے خلاف کہہ بھی دیں ، تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے، اب کسی اشعری ماتریدی کے اجماع کہہ دینے سے اجماع ہو تھوڑا ہی جاتا ہے،اللہ سبحانه تعالیٰ کے بذاتہ اس کی مخلوق سے جدا، اس کی مخلوق کے اوپر، ساتوں آسمانوں سے اوپر ، عرش کے اوپر ہونے پر قرآن و حدیث کے دلائل اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال موجود ہیں!
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ترجمہ درست نہیں!
اس میں تین باتیں بیان ہوئیں ہیں۔
01: اللہ تعالی کو کسی مکان نے گھیرانہیں۔
تو اس کے قائل اہل حدیث بھی نہیں کہ کوئی بھی شئء اللہ تعالی کا احاطہ کر سکتی ہے، ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے جدا اور اپنی مخلوق کے اوپرہے!
02: نہ اس پر کوئی زمان یعنی وقت کا گذر ہوتا ہے۔
تو اہل حدیث بھی اس کے قائل نہیں،
03: بخلاف اس فرقہ شہامیہ اور کرامیہ کے اس قول کے کہ اللہ تعالیٰ (صرف) عرش پر ہے۔
یہاں ترجمہ غلط کیا گیا ہے۔ عربی عبارت یوں ہے:
خلاف قول من زعم من الشهامية والكرامية انه مماس لعرشه
اس کا ترجمہ درست ہوں ہوگا کہ:
بخلاف شہامیہ اور کرامیہ میں سے ان کے قول کے کہ جو گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے ساتھ مماس کئے ہوئے (چھوئے ہوئے) ہے۔

اور اہل حدیث کا یہ عقیدہ بھی نہیں! یہ شہامیہ اور کرامیہ میں سے جن کا عقیدہ ہوگا سو ہوگا، مگر اہل حدیث اس سے بری ہیں!

اصل بات یہاں مترجم کی فنکاری ہے! کہ اس نے کس طرح ڈنڈی مار کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

نوٹ: عبد القاھر بن طاھر ویسے بھی خود ایک اشعری تھے، اگر یہ ایسا کوئی اجماع جو اہل حدیث کے عقیدے کے خلاف کہہ بھی دیں ، تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے، اب کسی اشعری ماتریدی کے اجماع کہہ دینے سے اجماع ہو تھوڑا ہی جاتا ہے،اللہ سبحانه تعالیٰ کے بذاتہ اس کی مخلوق سے جدا، اس کی مخلوق کے اوپر، ساتوں آسمانوں سے اوپر ، عرش کے اوپر ہونے پر قرآن و حدیث کے دلائل اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال موجود ہیں!
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

بہت بہت شکریہ بھائی

اللہ آپ کے علم میں مزید اضافہ کرے آمین

ایک اور تھریڈ میں ٹیگ کیا ہے وہ بھی دیکھ لیں
 

Abdul Haseeb

مبتدی
شمولیت
اگست 14، 2016
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
18
5: اللہ تعالی عرش پر مستوی اور اپنے علم کے ساتھ وہ ہمارے قریب ہے

قرآن کریم میں اللہ تعالی کا فرمان ہے : < اس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے > تو کیا یہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالی عرش پر بیٹھا (مستوی ہو کر) دنیاوی امور میں اپنا حکم جاری کرتا ہے ؟ تو اس بنا پر اللہ تعالی کیسے ہماری رگوں سے بھی زیادہ قریب ہے ؟
Published Date: 2004-03-06
الحمدللہ
کتاب وسنت اور امت کے سلف سے یہ ثابت ہے کہ اللہ تعالی اپنے آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے اور وہ بلند و بالا اور ہر چیز کے اوپر ہے اس کے اوپر کوئی چیز نہیں ۔
فرمان باری تعالی ہے :
< اللہ تعالی وہ ہے جس نے آسمان وزمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان سب کو چھ دنوں میں پیدا کر دیا پھر عرش پر مستوی ہوا تمہارے لۓ اس کے سوا کوئی مدد گار اور سفارشی نہیں کیا پھر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے >
ارشاد باری تعالی ہے :
< بلاشبہ تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہوا وہ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے >
< تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل کو بلند کرتا ہے >
فرمان باری تعالی ہے :
وہی پہلے ہے اور وہی پیچھے ، وہی ظاہر ہے اور وہی مخفی ہے >
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ( اور ظاہر ہے تیرے اوپر کوئی چیز نہیں )
اس معنی میں آیات اور احادیث ہیں اس کے باوجود اللہ تعالی نے خبر دی ہے کہ وہ اپنے بندوں کے ساتھ ہے وہ جہاں بھی ہوں ۔
فرمان باری تعالی ہے :
< کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ اللہ تعالی آسمانوں اور زمین کی ہر چیز سے واقف ہے تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر اللہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ ہی پانچ کی مگر وہ ان کا چھٹا ہوتا ہے اور نہ اس سے کم اور نہ زیادہ کی مگر وہ جہاں بھی ہوں وہ ساتھ ہوتا ہے >
بلکہ اللہ تعالی نے اپنے عرش پر بلند ہونے اور بندوں کے ساتھ اپنی معیت کو ایک ہی آیت میں اکٹھا ذکر کیا ہے ۔ فرمان بار تعالی ہے:
< وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہو گیا وہ اس چیز کو جانتا ہے جو زمین میں جائے اور جو اس سے نکلے اور جو آسمان سے نیچے آۓ اور جو کچھ چڑھ کر اس میں جائے اور جہاں کہیں بھی تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے >
تو اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ وہ مخلوق کے ساتھ خلط ملط ہے بلکہ وہ اپنے بندوں کے ساتھ علم کے اعتبار سے ہے اور اس کے عرش پر ہونے کے باوجود ان کے اعمال میں سے اس پر کوئی چیز مخفی نہیں ۔
اللہ تعالی کا یہ فرمان کہ : < اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں >
تو اکثر مفسرین نے اس کی تفسیر میں یہ کہا ہے کہ : اللہ تعالی کا یہ قریب ان فرشتوں کے ساتھ ہے جن کے ذمہ ان کے اعمال کی حفاظت لگائی گئ ہے اور جس نے اس کی تفسیر اللہ تعالی کہ قرب کی ہے وہ اس اللہ تعالی کے علم کے ساتھ قریب ہے جس طرح کی معیت میں ہے ۔
اہل سنت والجماعت کا مذہب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کو اس کی مخلوق پر بلندی اور معیت کو ثابت کرتے ہیں اور مخلوق میں حلول سے اللہ تعالی کو پاک قرار دیتے ہیں ۔ لیکن معطلۃ یعنی جہمیہ اور ان کے پیروکار اللہ تعالی کی مخلوق پر اس کے علو اور اس کے عرش پر مستوی ہونے کا انکار کرتے اور وہ یہ کہتے کہ اللہ تعالی ہر جگہ پر ہے ۔
ہم اللہ تعالی سے مسلمانوں کی ہدایت کے طلبگار ہیں ۔ .

https://islamqa.info/ur/11035
الشیخ عبدالرحمن البراک
 
Top