• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کس سے محبت کرتا ہے؟(مکمل کتاب یونیکوڈ میں)

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مسنون دُعا (ترمذی)
اللھم ارزقنی حبک وحب ینفعنی حبہ عندک، اللھم مارزقنی ، مما احب فاجعلہ قوۃ لی فیما تُحبہ اللھم ماویت عنی مما احب فاجعلہ فراغالی فیما تحب۔ (ترمذی)
اے اللہ ! مجھے اپنی محبت عطا کر اور ہر اُس شخص کی محبت جو مجھے تیرے نزدیک ہونے میں فائدہ دے، اے اللہ! جو کچھ تُو نے مجھے عطا کیا ہے جس سے میں محبت کرتا ہوں تُو اس کو ان کاموں کا سبب بنا دے جن سے تو محبت کرتا ہے، اے اللہ!جو کچھ تُونے مجھ سے لے لیا جس سے میں محبت کرتا ہوں تُو اس کو میرے لیے فرغت کا باعث بنا دے ان کاموں کے لیے جن سے تو محبت کرتا ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ابتدائیہ
یہ مسنون دُعا جو اس کتابچے کی ابتدا میں بیان کی گئی ہے ہر اس مسلمان کے دل کی آواز ہے جو اپنے رَب سے بے انتہا محبت کرتا ہے۔ اس دُعا میں اللہ تعالی کی محبت پانے کی جو تڑپ اور جستجو نظر آرہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک دفعہ انسان کے دل میں اللہ کی محبت گھر کر جائے تو اسکی زندگی کی ترجیحات ہی بدل جاتی ہے۔ وہ ہر اس شخص سے محبت کرنے لگتا ہے جو اللہ کی محبت پانے کی جدوجہد میں لگا ہوتا ہے اور پر اس عمل کا متلاشی ہوتا ہے جس کو کرنے سے اللہ تعالی اس سے محبت کرنے لگے۔
اس کتابچے میں ہم نے قرآن اور حدیث کی مدد لے کر اُن اوصاف کا ذکر کیا ہے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے پسندیدگی کا اظہار کیا اور اُن اوصاف کے مالک شخص سے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے اور اسے اپنی جمعت میں شمولیت کا شرف بخشا ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالی سے دُعا ہے کہ ہمارے اندر بھی اُن اوصاف کو پانے کی جُستجو پیدا ہوجائے اور ہم بھی اللہ کی جماعت کا ایک رُکن بن جائیں۔ (آمین)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تعارف
محبت کیا ہے؟ محبت دراصل دل سے اُٹھنے والے اس جذبے کا نام ہے جو اپنے اندر بے انہتا طاقت رکھتا ہے۔ یہ ایسا جذبہ محرکہ ہے جو انسان کو بڑے سے بڑا کام کرنے پر آمادہ کر دیتاہے، اگر اسے پتہ چل جائے کہ اس کام سے اس کا محبوب کتنا خوش ہو گا۔
اس بات سے ہم سب واقف ہیں کہ انسان جس سے محبت کرتا ہےاسی کی رضا کے مطابق کام کرنا چاہتا ہے اور اسی لیے وہ مشکل سے مشکل کام کرنے پر بخوشی تیار ہو جاتا ہے۔ اور ایسا کرتے ہوئے نہ تو اسے کسی قسم کی تھکن کا احساس ہوتا ہے اور نہ اس کام کے راستے میں آنے والی مشکلات کا، نہ تو وہ اگر مگر (ifs&buts)کے چکر میں پڑتا ے اور نہ نفع نقصان (pros & cons)کے بارے میں سوچتا ہے۔ بس اس کے محبوب کی رضا اسی میں ہوتی ہے تو وہ یہ کام کر جاتا ہے۔
انسان اتنا مضبوط، اتنا طاقتور کیسے ہوجاتا ہے؟ دراصل اُس جذبہ محبت کے تحت جو انسان کے حواسوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ۔ اور پھر انسان کو اپنے محبوب کی خواہشات پر چلاتا ہے، اپنے محبوب کی ناراضگی سے ڈرایا ہے، اسی کی خوشی میں خوشی محسوس کرواتا ہے اور بڑی بڑی مشکلات آسان کر دیتا ہے۔
بالکل اسی طرح جب ایک مسلمان اللہ سبحانہ تعالی کو اپنا محبوب بناتا ہے تو باقی ساری محبتیں اللہ تعالی کی محبت کے پیچھے چلی جاتی ہیں اور انسان صرف اور صرف اللہ کا ذکر کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ وہ صرف اپنے رَب کو راضی کرنے کی کوششوں میں لگ جاتا ہے اور اس کی ناراضگی سے خوف کھاتا۔ وہ محبت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اپنے رَب کی مکمل فرمانبراداری میں آجاتا ہے۔
ایسا ہی شخص دراصل ایمان کی لذتوں کا بھرپور مزہ لیتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
"ایمان کا مزہ اس نے چکھا(اور ایمان کی لذت اسے ملی) جو اللہ کو رَب ، اسلام کو دین اور محمد ﷺ کو رسول ماننےپر راضی ہوجائے۔ــ" (مسلم)
یعنی اللہ تعالی کی بندگی ، اسلام کے مطابق عمل اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت، یہ سب محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر کی جائے گی تو اس کے نصیب میں ضرور ایمانی لذت شامل ہو جائےگی۔
اس ضمن میں ایک اور مقام پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ـ
"ایمان کی حلاوت اُسی کو نصیب ہوگی جس کے دل میں اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺکی محبت سب سے زیادہ ہو۔ اور جس شخص سے بھی محبت ہو صرف اللہ تعالی کےلیئے ہی ہو"ـ (بخاری)
یعنی یہاں صرف اللہ سے محبت ہو یہ نہیں کہا جارہا بلکہ سب سے بڑھ کر محبت کی بات کی جارہی ہے ۔ اور حقیقت میں ہوتا ہے کہ انسان سوچتا ہے کہ کس طرح اور کہاں سے متوقع مل جائے کہ اپنے رَب کو خوش کر سکوں اور اس کے لیے وہ دنیا کی بھی پروا نہیں کرتا۔
اللہ تعالی ہمارےدلوں میں بھی اپنی محبت کی یہ طاقت پیدا کر دیں تاکہ ہم بھی پورے اخلاصِ نیت کے ساتھ اپنے رَب کی فرمانبرداری میں لگ جائیں۔(آمین)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اللہ کس محبت کرتاہے؟
اس خوبصورت سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیئے ہم اللہ سبحانہ وتعالی ہی کی کتاب یعنی قرآن مجید سے مدد لیں گے ۔ قرآن مجید کی پانچویں سورت، سورۃ المائدہ کی تین آیات میں اس اہم راز کا انکشاف موجود ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِہٖ فَسَوْفَ يَاْتِي اللہُ بِقَوْمٍ يُحِبُّہُمْ وَيُحِبُّوْنَہٗٓ۝۰ۙ اَذِلَّۃٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ۝۰ۡيُجَاہِدُ وْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَاۗىِٕمٍ۝۰ۭ ذٰلِكَ فَضْلُ اللہِ يُؤْتِيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۝۵۴ [٥:٥٤]
اے ایمان والو اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو اللہ ایسے لوگ پیدا کر دے گا جن کو وہ دوست رکھے اور جسے وہ دوست رکھیں اور جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں اور کافروں سے سختی سے پیش آئیں خدا کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والی کی ملامت سے نہ ڈریں یہ خدا کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور الله بڑی کشائش والا اور جاننے والا ہے
اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ وَہُمْ رٰكِعُوْنَ۝۵۵ [٥:٥٥]
تمہارے دوست تو خدا اور اس کے پیغمبر اور مومن لوگ ہی ہیں جو نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے اور (خدا کے آگے) جھکتے ہیں
وَمَنْ يَّتَوَلَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللہِ ہُمُ الْغٰلِبُوْنَ۝۵۶ۧ [٥:٥٦]
اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر اور مومنوں سے دوستی کرے گا تو (وہ خدا کی جماعت میں داخل ہوگا اور) خدا کی جماعت ہی غلبہ پانے والی ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مُرتد کون؟

آئیے ! اب ہم ان بیش قیمت آیات کے ایک ایک جلملے پر غور کر کے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم کس طرح اپنا نام اللہ کے پسندیدہ بندوں کی فہرست میں لکھوا سکتےہیں تاکہ دنیا اورآخرت کی فلاح حاسل کر سکیں۔
ــ"اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے(تو پھر جائے)"
ان آیات کے ابتدائی جملے میں اللہ تعالی نے سب سے پہلے اس بات سے متبہ کر دیا کہ اللہ تعالی قعطا ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتاجو اپنے آپ کو مسلمان تو کہتے ہیں مگر دین کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کے لیے یہاں اللہ تعالی کی لاتعلقی ظاہر ہو رہی ہے کہ جو دین سے پھر جاتا ہے تو پھر جائے اللہ تعالی کو ایسے لوگوں کی بلکل ضرورت نہیں۔
یعنی یہاں مُرتد کے ضمن میں بات ہوری ہے۔
مرتد کون؟
1۔ ایسا شخص جو اسلام لانے کے بعد کُفر کا راستہ اختیار کر لے۔
2۔ ایسا جو اسلام کو رد کر کے کفر کو پسند کر لے۔
یہ طریقہ ارتداد کہلاتا ہے۔ ارتداد کا فتنہ دو طریقوں سے پروش پاتا ہے:
1۔ بیرونی ارتداد ۔
2۔ اندرونی ارتداد۔

.بیرونی ارتداد:
اس کا مطلب ہے کہ
زبان سے کفریہ کملات ادا کرنا۔
نبوت کا دعوی کرنا۔
دین کے فرائض کا انکار جیسے زکوۃ کی ادائیگی سے انکار وغیرہ۔
جمہور علما کی رائے کے مطابق اس آیت میں ان بیرونی فتنہ ارتداد کی پیشنگوئی ہے جس کے اثرات نبی اکرم ﷺ کے بالکل آخری دنوں میں ظاہر ہونے لگ گئے تھے۔ اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد ان فتنوں کے عام ہونے پر پورے ملک میں ایک طوفان کھڑا ہو گیا تھا۔ مگر ابوبکررضی اللہ عنہ ، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور حاکم ِ یمن کی سربراہی میں آخرکار ان فتنوں کا قلع قمع کیا گیا۔
اندرونی ارتداد:
اس کے معنی ہیں کہ:
اندر ہی اندر اللہ کے دین سے دور ہٹتے چلے جانا۔
اپنے آپ کو مسلمان کہنا مگر عمل سے اس کا اظہارنہ کرنا۔
ارتداد کی یہ قسم زیادہ خطرناک ہے کیونکہ یہ بظاہر نظر نہیں آرہی ہوتی مگر اندر ہی اندر اس کا مرض پھیلتا چلا جاتا ہے۔ اس فتنے کا شکار انسان صرف اپنی ذات ، اپنے مفاد کے لیے اسلام کا نام لے تو لیتا ہے مگر اسلام کو ایک نظام کے طور پر، قانون کے طور پر نہ تو نافذ دیکھنا چاہتا ہے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی جدوجہد کرتا ہے۔ کیونکہ اگر اسلامی قانون نافذ ہو جائے تو اسے خود بھی پابند ہونا پڑے گا جو وہ کبھی نہ چاہے گا۔
اس فتنہ ارتداد کا دوسرا نام منافقت ہے کیونکہ منافق کی بھی یہی کمزوری ہوتی ہے کہ وہ اسلام کو اپنے اوپر نافذ نہیں کر سکتا۔
اس فتنہ ارتداد کو انسان کے اندر ہوا دہنے والا شیطان ہے۔ اور وہ اپنا شکار ان ہی لوگوں کو بناتا ہے جو کہ کمزور ایمان والے ہوتے ہیں۔ جنہوں نے دین کو فرصت کا مشغلہ (pastime) سمجھ رکھا ہے۔ اگر وقت اور ماحول سازگار لگا تو عمل کر لیتے ہیں لیکن دین کے راستے میں آنے والی ان مخالفتوں کا جو کہ معاشرے کی طرف سے ، خاندان کی طرف سے اور حتی کہ اپنے نفس کی طرف سے ااٹی ہیں، سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے اور ان مخالفتوں کے آتے ہی ان کے ایمان کا جذبہ مدھم پڑنے لگتا ہے اور وہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
قرآن پاک میں اللہ تعالی نے ایسے ہی لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّمْ يَكُنِ اللہُ لِيَغْفِرَ لَھُمْ وَلَا لِيَہْدِيَھُمْ سَبِيْلًا۝۱۳۷ۭ [٤:١٣٧]
بیشک جو لوگ ایمان لائے پھر کافر ہوگئے، پھر ایمان لائے پھر کافر ہوگئے، پھر کفر میں اوربڑھ گئے تواللہ ہرگز (یہ ارادہ فرمانے والا) نہیں کہ انہیں بخش دے اور نہ (یہ کہ) انہیں سیدھا راستہ دکھائے،
اس آیت سے اس بات کا بھی اندازہ ہو رہا ہے کہ انسان ایک دم سے منافق نہیں بنتا بلکہ یہ تبدیلی صورت (transformation)بتدریج عمل میں آتی ہے۔ یہ باقاعدہ ایک مرحلہ (process)ہے جس سے گزر کر ایک مسلم منافق بن جاتا ہے۔
اس آیت کو ہم اس مثال سے بہت اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ جیسے کوئی شخص پانی میں ایک دم سےنہیں ڈوبتا۔ وہ ڈوبتا ہے پھر اُبھرتا ہے ، پھر ڈوبتا ہے پھر اُبھرتا ہے اور اگر اسے بچایا نہ جا سکے تو پھر وہ مکمل طور پر ہی ڈوب جاتا ہے۔
ٓآگے فرمایا گیا ہے:
ــ"اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہو گا، جو منوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے، جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔"
جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ آیت کے پہلے حصے میں اللہ تعالی نے دین سے پھرنے والوں سے فرمایا کہ اللہ کو تمہاری ضرورت نہیں۔ ان یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ عنقریب ایسی قوم لائے گا جو اللہ سے محبت کرنے والے ہوں گے۔ اور جس نے اللہ سے محبت کر لی وہ اتنا بہادر ہو جاتا ہے، اتنا غنی ہوجاتا ہے کہ اسے لوگوں کا کوئی ڈر، کوئی خوف نہیں رہتا، جس کو اللہ کی محبت مل گئی اس سے خوش قسمت کون ہوگا؟
اللہ جس سے محبت کرتاہے وہ تو ضرور ہی مجاہد ہو جاتا ہے ۔ اللہ کی محبت اس کے اندر توانائی بھر دیتی ہے۔ وہ گھر میں ہو یا گھر سے باہر، ہر طرح سے اللہ کے دین کے نفاذ کی کوششوں میں لگا رہتاہے۔ ہر حال میں مجاہد فی سبیل اللہ بنا رہتا ہے۔ اللہ ایسے ہی لوگوں سے اپنے دین کے کام کرواتا ہے ۔ ان میں وہ خوبیاں ہوتی ہیں جو اللہ کو پسند ہیں اور جن کا ذکر مندرجہ بالا آیت میں ہوا ہے۔
اللہ کی راہ کے ہر مجاہد میں یہ خوبیاں ہونی چاہیں ۔ جن پر ہم اب تفصیل سے بات کریں گے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
حزب اللہ
اللہ تعالی نے اس آیت میں اپنی جماعت یعنی حزب اللہ میں شامل ہونے کے لیئے چند اوصاف کا ذکر کیا ہے۔ ان اوصاف کے ساتھ کوئی بھی اس جماعت میں شمولیت (membership)اختیار کرسکتا ہے۔ یہ ممبر شپ ہے تو عام مگر اس کو حاصل کرنے کی کچھ شرائط ہیں جن پر پورا اترنا ضروری ہے۔ وہ شرائط درج ذیل ہیں:
حزب اللہ کی شرائط:
يُحِبُّہُم :"جو اللہ کو محبوب ہوں گے۔"
وَيُحِبُّوْنَہٗ : "اللہ ان کو محبوب ہو گا۔"
اَذِلَّۃٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ : "جو مومنوں پر نرم ہوں گے۔"
اَعِزَّۃٍ عَلَي الْكٰفِرِيْن : "کافروں پر سخت ہوں گے۔"
يُجَاہِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہ: "اللہ کی راہ میں جدوجہد و جہاد کریں گے۔"
وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَۃ لَائم: "کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے۔"
دوسری طرف شیطان اپنی جماعت حزب الشیطن کی ممبر شپ کر رہا ہے ۔ یہ شیطان کی جماعت ہے ۔ اس کی ممبر شپ کی بھی کچھ شرائط ہیں جو درج ذیل ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
حزب الشیطن کی شرائط :
وہ شیطان کو محبوب ہوں گے۔
شیطان ان کو محبوب ہو گا۔
جو مومنوں پر سخت اور بے رحم ہوں گے۔
وہ کافروں پر نرم، ان کے جگری دوست اور ان کو قابلِ تقلید(Role model)بنانے والے ہوں گے ۔ ان کی محبتیں ، خلوص اور خیر خواہی کفار کے ساتھ ہوں گی۔
ان کی جدوجہد اور جہاد صرف اور صرف شیطانی راستوں ، گناہ و معصیت کے کاموں ، فلمز، موسیقی ، فحاشی ، زنا اور بے حیائی کے نفاذ والے ہوں گے۔
ہر ملامت کرنے والے کی ملامت سے وہ ڈرنے والے ہوں گے۔
اب مرضی (choice)ہماری ہے کہ ہم حزب اللہ یا حزب الشیطن میں سے کس جماعت میں شامل ہونا چاہتے ہیں؟
آئیے اب ہم آگے ایک ایک کرکے حزب اللہ کی خوبیوں کا جائزہ لیتے ہیں:
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
يُحِبُّہُم : "جو اللہ کو محبوب ہوں گے۔"
پہلی خوبی جس ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کو وہ محبوب ہوں گے ۔ یقینا ان میں کچھ صفات لازما ہوں گی جن کی بنا پر اللہ ان سے محبت کرے گا۔
اللہ سبحانہ وتعالی کی محبت پانے کے راز:
رسول اللہ ﷺ کی اطاعت:
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ۝۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۳۱ [٣:٣١]
(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لئے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے،
اس آیت سے ہمیں یہ پتہ چلا کہ جس کو اللہ کی محبت درکار ہو اسے چاہیے کہ سنتِ رسول ﷺکو اپنی زندگی کا محور بنا لے اور زندگی کے ہر قدم ، ہر شعبے اور ہر کام میں سنتِ رسول ﷺ کا اتباع اور التزام کر لے تو اللہ کا وعدہ ہے کہ اللہ تعالی اس محبت کریں گے اور اس کے گناہوں کو معاف فرمادیں گے۔
قرآن پاک پر غوروفکر، عمل اور اس سے گہرا تعلق برقرار رکھنا:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "بیشک انسانوں میں سےکچھ اللہ والے ہیں۔"لوگوں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ﷺ ! اللہ والے سےکچھ اللہ والے ہیں۔"لوگوں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ﷺ ! اللہ والے لوگوں سے کون مراد ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "قرآن والے اللہ والے ہیں اور اس کے مخصوص بندے ہیں۔" (سنن نسائی و ابن ماجہ)
اللہ کی محبت کی طرف خود قدم آگے بڑھانا:
حدیث قُدسی: ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : "میرا بندہ مجھ سے جو توقع رکھتا ہے اور جیسا گمان اس نے میرے متعلق قائم کر رکھا ہے ویسا ہی مجھے پائے گا۔ جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھے تنہائی میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے تنہائی میں یاد کرتا ہوں ۔ اگر وہ کسی جماعت کے ساتھ بیٹھ کر مجھے یاد کرتاہے تو میں اس سے بہتر جماعت میں اس کو یاد کرتاہوں۔ اگر وہ میری طرف بالشت بھر بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہوں اور اگر وہ میری طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف چار بڑھتا ہوں اور اگر وہ میری طرف آہستہ آہستہ آتا ہے تو میں اُس کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں۔" (بخاری ومسلم )
فرائض پر دوام اور نفلوں کا اہتمام:
حدیث قدسی: رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے کہ اللہ تعالی فرامتے ہیں:"بندہ میرا قرب جن اعمال سے حاصل کرتا ہے ان میں سب سے زیادہ محبوب مجھ کو وہ اعمال ہیں جن کو میں اس پر فرض کیا ہے۔ میرا بندہ برابر نفلوں کے ذریعے مجھ سے قریب ہوتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ میرا محبوب بن جاتا ہے۔ اور جب وہ میرا محبوب بن جاتا ہے تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے پکڑتا ہے اور اس کا پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتاہے۔"(بخاری)
نماز تہجد کا اہتمام :
ابو امام باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:ــ "اے لوگو!تم لوگ تہجد کی نماز کو اپنے اوپر لازم کر لو، اس لئے کہ تم سے پہلے جو اللہ کے بندے گزرے ہیں ان کا یہی طریقہ رہا ہے اور یہ تمہارے رَب سے قریب کرنے والی، چھوٹے گناہوں کو مٹانے والی اور بڑے گناہوں سے روکنے والی ہے۔" (ترمذی)
اللہ کا ذکرکرنا:
حدیث قدسی: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:"جب میرا بندہ مجھے یاد کرت اہے اور میری یاد میں جب اس کے دونوں ہونٹ ہلتے ہیں تو اس وقت میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔"(بخاری)
اللہ کے گھروں (مسجدوں ، مدرسوں )کو آباد کرنا:
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرإ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "اللہ کے گھروں کو آباد کرنے والے اور ان کی خدمت کرنے والے اللہ کے دوست اور محبوب ہیں۔"(طبرانی)
اللہ کے لئے آپس میں محبت کرنا:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "قیامت کے دن اللہ تعالی ارشاد فرمائے گا، میری تعظیم کی وجہ سے آپس میں محبت رکھنے والے کون ہیں؟آج میں ان کو اپنے سائے میں جگہ دوں گا جبکہ میرے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔"
اللہ کے محبوب :
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"الہ تعالی نے جس طرح تم انسانوں میں روزی تقسیم فرمائی ہے اسی طرح اخلاق بھی تقسیم فرما دیئے ہیں۔اللہ دنیا توسب کو دیتا ہے، اُن لوگوں کو بھی جنہیں محبوب رکھتا ہے اور انہیں بھی جن کو وہ پسند نہیں کرتا۔ لیکن دین پر چلنے کی توفیق صرف ان کو دیتا ہے جن سے اس کو محبت ہوتی ہے۔ تو محبت کو اس نے دین بخشایوں سمجھو وہ اللہ کو محبوب ہیں۔ "(مسند احمد)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
يُحِبُّوْنَہ: "اللہ ان کو محبوب ہو گا۔"
دوسری خوبی جس کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اللہ سے ٹوٹ کر محبت کریں گے۔ ان کا اللہ سے جذباتی تعلق ہو گا۔ حقیر چیزوں کی محبت کرو تو اللہ بہترین قدردانی کرتا ہے جبکہ دنیا کی محبت تو رلاتی ہے۔ جو لوگ اللہ تعالی سے محبت کرتے ہیں ان کے لیئے دنیاوی محبتیں کمزروری نہیں بنتیں۔ اللہ کی محبت کے آگے دوسری تمام محبتیں ماند پڑ جاتی ہیں۔ اللہ کی محبت قربانی مانگتی بھی ہے اور قربانی دینا بھی سکھاتی ہے۔ دنیا کے تمام رشتوں کی محبت ، اللہ کی محبت کے تابع ہونی چاہیے۔ بندہ جب اللہ سے نہیں مانگتا تو اللہ ناراض ہوتا ہے اور بندہ جب لوگوں سے مانگتا ہے تو لوگ ناراض ہوتے ہیں۔ انسان جب اللہ سے محبت کرت اہے تو اللہ اس سے اتنا ہی قریب ہو جاتا ہے ۔ اس کے برعکس انسان جتنا حُبِ دنیا کا شکار ہوتا ہے اتنی ہی دنیا اس سے دور بھاگتی ہے ۔ ایک دفعہ جب اللہ کی محبت انسان کے دل میں آجاتی ہے تو پھر دنیا کی محبتیں اس کے پیروں کی بیٹری نہیں بنتی۔
اللہ سے تعلق جڑنا بڑے اعزاز کی بات ہے ۔ جس طرح ہم اپنے شجرہ نسب پر ناز کرتے ہیں، اس سے زیادہ ہمیں اللہ تعالی سے اپنے تعلق پر ناز اور فخر کرنا چاہیے ۔ اللہ کا عاجز بندہ بن جانا، اللہ کا بن جانا، ی ایک بہت خوبصورت رشتہ ہے۔
دنیا میں جب کوئی کسی کا ہوجاتا ہے تو اس کی کیا کیفیت اور کیسی حالت ہوتی ہے؟
اسی کو راضی کرنے کی فکر ہوتی ہے اسی کی طرف دھیان رہتا ہے۔
اس سے شدت سے محبت کرت اہے۔
دل چاہتا ہے کہ بہانے بہانے سے اس کا ذکر کیا جائے۔
اس کی پسند کے کام کیئے جائیں۔
اس کی پسند کا حال حلیہ بنایا جائے۔
اس کی ناراضگی سے بھی ڈر لگتا ہے۔
بھاگ بھاگ کر، دوڑ دوڑ کر اس کے کام کرنے کا جی چاہتا ہے۔
ہر وقت اس کی صورت نگاہوں میں گردش کرتی رہتی ہے۔
تہنائی ہو یا مجلس ، ہر جگہ اسی کا تصور ہوتا ہے۔
جس سے محبت ہوتی ہے جی چاہتا ہے کچھ بھی کریںاس کی توجہ ہماری طرف ہو جائے۔
ایسی محبت اپنے رب سے کر کے تو دیکھئے دنیا کے تمام محبوب دھوکہ دینے کی سلاحیت رکھتے ہیں، ناقدرے ہیں، بے پرواہ ہیں۔ محت کرنے کے لائق صرف اور صرف ہمارا رَب ہے ۔ اس سے محبت کر کے تو انسان دیکھے، وہ کیسے ہماری قدردانی کرے گا؟
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ۝۰ۭ
ترجمہ: "اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اﷲ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں،"(سورۃ البقرۃ: 165)
مقابلہ بازی تو ہم نے دنیا میں مال ، اولاداور شہرت کے لیئے بہت کی ، کبھی اللہ کی محبت اور توجہ حاصل کرنے کے لئے بھی آپس میں مقابلہ کیجیے۔
اگر ہمارے ملک کا صدر ہمیں اپنا دعوت نامہ بھیجے تو ہمارے دل کی کیا حالت ہوگی؟ ہم تو خوشی سے پھولے نہ سمائیں گے ۔ مگر جب اللہ تعالی ہمیں پانچ وقت نماز کے لیے بُلاتا ہے تو ہم اس کی قدر نہیں کرتے۔
جیسا کہ قرآن میں آتا ہے:
مَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہٖ۝۰ۭ
ترجمہ:" ان (کافروں) نے اﷲ کی قدر نہ کی جیسی اس کی قدر کرنا چاہئے تھی۔ "(سورۃ الحج: 74)
جبکہ ایک مومن کا طرزِ عمل کیا ہوتا ہے؟
ابوامامہ رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جس نے اللہ کے لئے دوستی کی اور اللہ کے لئےدُشمنی کی اور اللہ کے لئے دیا اور اللہ کے لئے روک کر رکھا اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا۔"(بخاری)
یہ انسان کی خوش قسمتی ہے کہ وہ انسانوں سے اللہ کے لیئے محبت کرے۔ لیکن اگر اللہ کی محبت کے بجائے باقی چیزوں کی محبت پر حاوی ہے تو پھر اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے قدم نہیں اٹھیں گے ۔ اگر ہمیں اللہ کی محبت چاہیئے تو اس کے لئے کچھ نہ کچھ تو جہاد کرنا ہو گا ورنہ ہر محبت کی محبت چاہیئے تو اس کے لئے کچھ نہ کچھ تو جہاد کرنا ہو گا ورنہ ہر محبت پائوں کی بیڑی بنے گی، ہر محبت مجبوری بنے گی ، ہر محبت ہمیں رُلائے گی ، غم کا شکار کرے گی۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہم دوسروں کی محبت کو اللہ کی محبت کے نیچے رکھیں۔ پھر دیکھیں انسان کے اندر کیسی جہاد کی روح آتی ہے۔
ورنہ محض اللہ سے اپنی دُعائیں قبول کروانے کے لئے تو اللہ سے محبت کریں لیکن جب اللہ تعالی کا حکم ماننے کی بات آئے تو ایک حکم بھی نہ مانیں تو یاد رکھیں ایسی خود غرض محبت بے روح اور بے برکت ہو گی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اَذِلَّۃٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْن: "جو مومنوں پر نرم ہوں گے۔"
تیسری خوبی یہ ے کہ وہ ایسے مومن ہیں جو مسلمانوں سے سختی کا معاملہ نہیں کرتے۔ ہر حال میں ان کی خیر خواہی چاہتے ہیں ، جو مسلمانوں کا دفاع کرتے ہیں اور مومنوں پر نرم ہوتے ہیں۔ ان کی طاقت کبھی اہل ایمان کے خلاف استعمال نہیں ہوتی۔ ان کی ذہانت ، ان کی ہوشیاری ، ان کی قابیلیت ، ان کا اثرورسوخ، ان کا مال اور ان کی طاقت ، مسلمانوں کو دبانے ، ستانے اور نقصان پہنچانے کے لیئے نہیں ہوتی بلکہ مسلمانوں کی ترقی وکامیابی کے لیے ہوتی ہے۔ مسلمان ان کو اپنے درمیان ہمیشہ ایک نرم خو، رحمدل ، ہمدرد اور حلیم ہی پائیں گے۔
مثلا غریب سبزی فروش ، ٹھیلے والوں سے چند روپوں کی خاطر بحث و مباحثہ نہ کیجیے بلکہ ان پر احسان کیجیے ، اگر وہ پانچ یا دس روپے زیادہ بھی کمالے گا تو یہ ہماری طرف سے اس کے لیے صدقہ ہو گا۔
دین کے معاملے میں مقابلہ بازی سے پرہیز کریں کیجیے۔ اگر کوئی دین کا کام قرآن اور سنت کے حوالے سے کر رہا ہے تو اس کے تعاون کیجیے ، ان کی مدد کیجیے ، مل جل کر اتحاد کے ساتھ دین کے کام کیجیے ، اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مختلف دینی جماعتوں کا احترام کیجیے اور مسلکوں اور جماعتوں کے اختلافات چھوڑ کر ایک سنتِ رسول ﷺ پر یکجا ہو جائیے۔
جو لو گ نئے نئے دین میں داخل ہوئے ہیں ، ان کو اپنا مکمل تعاون فراہم کیجیے ، ان کی حوصلہ افزائی کیجیے، ان سے ملنا ملانا رکھیئے ، دین کے راستے میں پیدا ہونے والے ان کے مسئلے مسائل حل کرنے کی کوشش کیجیے ، ان پر سختی نہ کیجیے ، دین کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کے لیئے ان کو تھوڑا وقت دیجیئے اور ان سے خوش گمان رہیے۔
زکوۃ و صدقات زیادہ سے زیادہ پہلے اپنے غریب رشتے داروں ، اور پھر دوسرے غریبوں کو دیجیے۔
دین کی سر بلندی کے حوالے سے غریب طلبا کے ساتھ ہمدردی کرتے ہوئے قرآن کورس کرنے کے لیے ان کی کفالت کیجیے ، جو دین کے کام کے لیے آگے بڑھے اس کی مدد کیجیے اور مدرسوں کے قیام اور ان کو چلانے کے لیے پیسہ لگائیے۔
اگر اپنے کسی مسلمان بھائی سے کسی بات پر جھگڑا ہو جائے تو تین دن سے زیادہ اس سے بات بند نہ کیجیے ، قطع رحمی سے بچیئے اور صلی رحمی کیجیے۔
اپنے بھائی کی مدد کرنا:
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت کے وقت اس کے کام آئے گا اللہ ضرورت کے وقت اس کی مدد کرے گا۔" (بخاری و مسلم )
مسلمان ، مسلمان کا بھائی ہے:
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ـ "مسلمان ، مسلمان کا بھائی ہے ۔ نہ تو وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس کو بے یارومددگار چھوڑتا ہے۔ اور جو اپنے بھائی کی حاجت پوری کرے گا اللہ اس کی حاجت پوری کرے گا۔ اور جو کسی مسلمان کی کسی پریشانی کو دور کرے گا تو اللہ تعالی قیامت کے دن اس کی پریشانی دور کرے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا تو قیامت کے دن اللہ تعالی اس کی پردہ پوشی کرے گا۔"(بخاری و مسلم )
مسلمانوں کے ساتھ عفوودرگزر سے کام لینا:
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اچھی سیرت و خصلت کے مسلمان سے اگر کبھی کوئی لغزش ہو جائے تو اس کو معاف کر دو، سوائے حدود کے۔" (ابودائود)
مسلمان ایک عمارت کی مانند:
"مسلمان ، مسلمان کے لیئے عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو قوت پہنچاتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دورے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست کر کے بتایا۔ "(بخاری و مسلم )
جنت کی ضمانت :
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"میں اس کو جنت میں گھردلوانے کی ذمہ داری لیتا ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے۔"(ابودائود)
مسلمان بھائی کی بھلائی چاہنا:
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ نہ چاہے جو اپنے نفس کے لیئے چاہتا ہے۔"(بخاری)
 
Top