• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کہاں ہے؟

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
اللہ کہاں ہے ؟

کتاب کا یہ مذکورہ بالاعنوان محض ایک سوال نہیں ، بلکہ اسلامی عقائد میں سے ایک أہم ترین عقیدہ ہے ، جو براہ راست اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات مبارک سے متعلق ہے ، دیگر بہت سے عقائد کی طرح اس عقیدے میں بھی ایسی بات کو اپنایا جا چکا ہے اور اُس کی تشہیر و ترویج کی جاتی ہے جو بات قران کریم ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین ،تبع تابعین اور اُمت کے أئمہ رحمہم اللہ اجمعین کی تعلیمات کے خلاف ہے ، اس کتاب میں اسی غلطی کو واضح کیا گیا ہے ، وللہ الحمد ۔

تالیف : عادل سہیل ظفر​
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
فہرست مضامین

  • مقدمہ (جسے اکثر پڑھنے والے ، پڑھتے نہیں )
  • اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے فرامین
  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین
  • صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے أقوال
  • چار اِماموں کے أقوال ( اِمام أبو حنیفہ رحمہ ُ اللہ تعالیٰ )
  • ا ِِمام مالک بن أنس رحمہ ُ اللہ تعالیٰ
  • اِِمام محمد بن اِِدریس الشافعی رحمہ ُ اللہ تعالیٰ
  • ا ِِمام أحمد بن حنبل رحمہ ُ اللہ تعالیٰ
  • تابعین اور تبع تابنیب رحمہم اللہ کے اقوال
  • شکوک و شبہات
  • شکوک و شبہات کے جوابات
  • پہلے شک کا جواب
  • دوسرے شک کا جواب
  • تیسرے شک کا جواب
  • مصادر و مراجع
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
:::مقدمہ:::

بِسّمِ اللہ الرّ َحمٰنِ الرَّحیم​
اِن اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدہٗ وَ نَستَعِینہٗ وَ نَستَغفِرہٗ وَ نَعَوذ بَاللَّہِ مِن شرورِ أنفسِنَا وَ مَن سِیَّئاتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہُ اللَّہ ُ فَلا مُضِلَّ لَہ وَ مَن یُضلِل ؛ فَلا ھَاد یَ لَہ ، وَ أشھَد أن لا اِِلٰہَ اِِلَّا اللَّہ وَحدَہ لا شَرِیکَ لَہ ، وَ أشھَد أنَّ محمَداً عَبدہٗ وَ رَسولہٗ ۔
وَ أَما بعدُ فَاِنَّ خیر الکلامِ کِتابُ اللَّہ ، وَ خیر الھُدیٰ ھُدیٰ مُحَمدٍ صَلّی اللَّہُ عَلِیہ و عَلی آلہ وَسلِّم وَ شَّر الأمورِ مُحدَثاتُھا وَ کُلَّ مُحدَثۃٌ بِدَعَۃٌ وَ کُلَّ بِدَعَۃٌ ضلالۃٌ وَ کُلَّ ضلالۃٌ فی النَّار ۔

بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے بُرے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول ہیں ،
اِس کے بعد ::: بے شک سب سے زیادہ خیر والی بات اللہ کی کتاب ہے اور سب سے خیر والی ہدایت محمدصلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم(کے ذریعے ملنے)والی ہدایت ہے ، اور ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں ہے ۔
سابقہ ا ُمتوں کی طرح ہم نے بھی اپنے مذہبی عقائد اور مسائل اپنانے میں اپنے قصے کہانیوں اور نام نہاد علماء سے حُسنِ ظن پر بہت زیادہ أعتماد کیا اور اپنے معبودِ حقیقی اللہ تعالیٰ کے ناموں اور صفات کی توحید سے دور ہوئے ، اپنے مالک و خالق سے دُور ہوئے ، نہ اُسکی ذات کو پہچانا نہ اُسکی صفات کو جانا ، اللہ کو خُدا کر ڈالا ، خالق کو مخلوق میں قید کر ڈالا ، اور اور اور،
اللہ تعالیٰ نے ہماری ہدایت و رُشد کے لیےاپنے ایک رسول جبریل علیہ السلام کے ذریعے اپنے دوسرے رسول محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر اپنا کلام نازل کیا ، اور اپنی ذات اور صفات کے بارے میں جو چاہا جتنا چاہا اپنے کلام اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے کلام میں ہمیں اُس کی خبر فرمائی ،
اِن دو ذریعوں اور واسطوں کے عِلاوہ اور کوئی ذریعہ یا واسطہ ایسا نہیں جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے بارے میں کوئی ایسی خبر دے سکے جِس پر شک کی گنجائش نہ ہو اور اُس پر اِیمان لانا فرض ہو ، اور اِن دو ذرائع سے آنے والی اخبار کے بارے میں شک کی کوئی گُنجائش نہیں جِس نے شک کیا وہ صاحبِ اِیمان نہیں کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرمان پر اِیمان لانا فرض ہے بات کو مُختصر رکھنے کے لیے اپنے اِس وقت کے موضوع کی طرف آتا ہوں، جو کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ، صفات اور ناموں کی توحید سے متعلق ایک بُنیادی عقیدہ ہے اور ایک بُنیادی سوال بھی ہے کہ
:::: اللہ کہاں ہے ؟؟؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
آئیے اِختصار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اِس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہیں ، مندرجہ ذیل چیزوں میں اور مندرجہ ذیل ترتیب سے :::
پہلے (1) اللہ تعالیٰ کے کلام پاک یعنی قرآن الکریم میں ،
اُس کے بعد ( 2 ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کےفرامین مبارکہ یعنی احادیث شریفہ میں (اور اِن شاء اللہ صِرف صحیح ثابت شدہ احادیث کا ذِکر ہوگا)،
اُس کے بعد ( 3 )صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے أقوال میں ،
اُس کے بعد ( 4 ) تابعین رحمہم اللہ ،
اُس کے بعد ( 5 ) تبع تابعین رحمہم اللہ ،
اُس کے بعد ( 6 ) اُمت کے معروف أئمہ (اِماموں)رحمہم اللہ کے اقوال،
اور اِن شاء اللہ تعالیٰ تمام أقوال کی صحت اور درستگی کی تحقیق کے ساتھ ، اپنے مندرجہ بالا سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں ،
اِس موضوع سے متعلق اکثر کچھ شکوک اور شبہات کا اظہار رہتا ہے ، مثلاً کہا یا لکھا جاتا ہے کہ :::
::: اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے ::: یا ،
الفاظ کی کچھ تبدیلی کے ساتھ کہا یا لکھا جاتا ہے کہ :::اللہ کا وجود زمینوں اور آسمانوں میں ایک ہی جیسا قائم ہے ، یا ،
::: اللہ تعالیٰ کے لیے مکان ثابت کرنا کفر ہے ::: یا ،
::: اللہ کو کِسی ایک جگہ پر ثابت کرنے سے تجسیم وارد ہوتی ہے اور یہ کفر ہے ::: وغیرہ وغیرہ ،
دِلوں کے حال صِرف اور صِرف اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ ہی جانتا ہے ، لیکن ظاہری طور پر عموماً ان شکوک و شبہات کے دو تین ہی اسباب سجھائی دیتے ہیں کہ، یا تو لاعلمی کی بنا پر ، یا کبھی جانتے بوجھتے ہوئے اور کبھی نہ جانتے ہوئے کسی مسلک و مذھب کو ہی درست ثابت رکھنے کی کوشش میں ، اور، یا اپنی کسی پسندیدہ شخصیت کی بات کو ہی ٹھیک ثابت کرنے کی کوشش میں، یا اپنے خود ساختہ فسفلوں اور اپنی ذاتی عقل میں نے والے وساوس کو ہی دُرُست ثابت کرنے کی کوشش میں ایسا کیا جاتا ہے ،
یہاں آغاز میں ، تو میں اِن مذکورہ بالا فلسفیانہ شکوک کا صرف اتنا ساذِکر ہی کافی سمجھتا ہوں، اِن شاء اللہ اِن فلسفہ زدہ شبہات کا انہی کے انداز میں منطقی اور فلسفیانہ جواب آخر میں دوں گا ۔
اللہ تعالیٰ میری اِس کوشش کو قبول فرمائے اور اِس کو پڑھنے والوں کی اِصلاح کا اور میری مغفرت کا سبب بنائے ۔
عادِل سُہیل ظفر ۔
15ذوالقعدہ1424ہجری ، الموافق ، 07/JANUARY/2004​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الحمد للہ ، کتاب کا پہلا اصدار بتاریخ 10 ربیع الثانی 1433 ہجری ، الموافق 3 مارچ 2012کو قابل نشر صُورت میں تیار ہوگیا ، کتابت کی غلطیوں کی نشاندہی کے لیے میں ہونہار بھتیجے عبداللہ حیدر کا شکر گزار ہوں ، اللہ تعالیٰ اُسے جزائے خیر سے نوازے ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
اللہ کہاں ہے؟ ( اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فرامین)

آئیے سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں کیا فرمایا ہے؟
1۔ اللہ العلی القدیر کا فرمان ہے:
إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ يُغْشِى ٱلَّيْلَ ٱلنَّهَارَ يَطْلُبُهُۥ حَثِيثًۭا وَٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ وَٱلنُّجُومَ مُسَخَّرَٰتٍۭ بِأَمْرِهِۦٓ ۗ أَلَا لَهُ ٱلْخَلْقُ وَٱلْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ ٱللَّهُ رَبُّ ٱلْعَٰلَمِينَ﴿54﴾
ترجمہ: بے شک تمہارا رب الله ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھرعرش پر قرار پکڑا رات سے دن کو ڈھانک دیتا ہے وہ اس کے پیچھے دوڑتا ہوا آتا ہے اور سورج اورچاند اور ستارے اپنے حکم کے تابعدار بنا کر پیدا کیے اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا الله بڑی برکت والا ہے جو سارے جہان کا رب ہے (سورۃ الاعراف ،آیت 54)
2۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے:
إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۖ يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ ۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِنۢ بَعْدِ إِذْنِهِۦ ۚ ذَٰلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمْ فَٱعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ﴿٣﴾
ترجمہ: بے شک تمہارا رب الله ہی ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے پھر عرش پر قائم ہوا وہی ہر کام کا انتظام کرتا ہے اس کی اجازت کے سوا کوئی سفارش کرنے والا نہیں ہے یہی الله تمہارا پروردگار ہے سو اسی کی عبادت کرو کیا تم پھر بھی نہیں سمجھتے (سورۃ یونس ،آیت 3)
3۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے:
ٱللَّهُ ٱلَّذِى رَفَعَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍۢ تَرَوْنَهَا ۖ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۖ وَسَخَّرَ ٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ ۖ كُلٌّۭ يَجْرِى لِأَجَلٍۢ مُّسَمًّۭى ۚ يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ يُفَصِّلُ ٱلْءَايَٰتِ لَعَلَّكُم بِلِقَآءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ ﴿٢﴾
ترجمہ: الله وہ ہے جس نے آسمانوں کو ستونوں کے بغیر بلند کیا جنہیں تم دیکھ رہے ہو پھر عرش پر قائم ہوا اور سورج اور چاند کو کام پر لگا دیا ہر ایک اپنے وقت معین پر چل رہا ہے وہ ہر ایک کام کاانتظام کرتا ہے نشانیاں کھول کر بتاتا ہے تاکہ تم اپنے رب سے ملنے کا یقین کر لو (سورۃ الرعد،آیت 2)
4۔ اللہ الرحمن کا فرمان ہے:
ٱلرَّحْمَٰنُ عَلَى ٱلْعَرْشِ ٱسْتَوَىٰ ﴿٥﴾
ترجمہ: رحمان جو عرش پر جلوہ گر ہے (سورۃ طہ،آیت 5)
5۔ اللہ ہر ایک چیز کے واحد خالق کا فرمان ہے:
ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۚ ٱلرَّحْمَٰنُ فَسْـَٔلْ بِهِۦ خَبِيرًۭا ﴿59﴾
ترجمہ: جس نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے چھ دن میں بنایا پھر عرش پر قائم ہوا وہ رحمنٰ ہے پس ا س کی شان کسی خبردار سے پوچھو (سورۃ الفرقان،آیت 59)
6۔ اللہ الحکیم کافرمان ہے:
ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۖ مَا لَكُم مِّن دُونِهِۦ مِن وَلِىٍّۢ وَلَا شَفِيعٍ ۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ ﴿٤﴾
ترجمہ: الله وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اورجو کچھ ان میں ہے چھ روز میں بنایا پھر عرش پر قائم ہوا تمہارے لیے اس کے سوا نہ کوئی کارساز ہے نہ سفارشی پھر کیا تم نہیں سمجھتے (سورۃ السجدۃ،آیت 4)
7۔ اللہ الکریم کا فرمان ہے:
هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۚ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌۭ ﴿٤﴾
ترجمہ: وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ جو چیز زمین میں داخل ہوتی اور جو اس سے نکلتی ہے اور جو آسمان سے اُترتی اور جو اس کی طرف چڑھتی ہے سب اس کو معلوم ہے۔ اور تم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے (سورۃ الحدید ،آیت 4)
اس مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں ہمارے اس رواں موضوع کی دلیل کے ساتھ ساتھ ایک اور بات کی بھی وضاحت ہے ،جس کے بارے میں اکثر لوگ غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں،اور وہ ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کی "معیت" یعنی اُس کا ساتھ ہونا۔جس کے بارے میں عموما یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی ذات مبارک کے ذریعے کسی کے ساتھ ہوتا ہے،جو کہ درست نہیں ہے کیونکہ اللہ جل جلالہ نے خود ہی اپنی "معیت" کی کیفیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌۭ ﴿٤﴾
ترجمہ: اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے (سورۃ الحدید ،آیت 4)
یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ساتھ ہونا اُس کے علم و قدرت ،سماعت و بصارت کے ذریعے ہے ،نہ کہ اس کی ذات مبارک کے وجود پاک کے ساتھ کسی کے ساتھ ہونا ہے۔ان شاء اللہ اس موضوع پر بات پھر کسی وقت۔(1)
(8) اللہ المعز کا فرمان ہے:
مَن كَانَ يُرِيدُ ٱلْعِزَّةَ فَلِلَّهِ ٱلْعِزَّةُ جَمِيعًا ۚ إِلَيْهِ يَصْعَدُ ٱلْكَلِمُ ٱلطَّيِّبُ وَٱلْعَمَلُ ٱلصَّٰلِحُ يَرْفَعُهُۥ ۚ وَٱلَّذِينَ يَمْكُرُونَ ٱلسَّيِّـَٔاتِ لَهُمْ عَذَابٌۭ شَدِيدٌۭ ۖ وَمَكْرُ أُو۟لَٰٓئِكَ هُوَ يَبُورُ ﴿10﴾
ترجمہ: جو شخص عزت چاہتا ہو سو الله ہی کے لیے سب عزت ہے اسی کی طرف سب پاکیزہ باتیں چڑھتی ہیں اور نیک عمل اس کو بلند کرتا ہے اور جو لوگ بری تدبیریں کرتے ہیں انہی کے لیے سخت عذاب ہے اوران کی بری تدبیر ہی برباد ہو گی (سورۃ الفاطر،آیت 10)
(9) اللہ ذی المعارج کا فرمان ہے:
سَأَلَ سَآئِلٌۢ بِعَذَابٍۢ وَاقِعٍۢ ﴿١﴾لِّلْكَٰفِرِينَ لَيْسَ لَهُۥ دَافِعٌۭ ﴿٢﴾مِّنَ ٱللَّهِ ذِى ٱلْمَعَارِجِ ﴿٣﴾تَعْرُجُ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ وَٱلرُّوحُ إِلَيْهِ فِى يَوْمٍۢ كَانَ مِقْدَارُهُۥ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍۢ ﴿٤﴾
ترجمہ: ایک طلب کرنے والے نے عذاب طلب کیا جو نازل ہو کر رہے گا (یعنی) کافروں پر (اور) کوئی اس کو ٹال نہ سکے گا (اور وہ) اللہ ئے صاحب درجات کی طرف سے (نازل ہوگا) جس کی طرف روح (الامین) اور فرشتے پڑھتے ہیں (اور) اس روز (نازل ہوگا) جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا (سورۃ المعارج،آیت 1تا4)
(10) اللہ الاعلیٰ کا فرمان ہے:
يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ إِلَى ٱلْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِى يَوْمٍۢ كَانَ مِقْدَارُهُۥٓ أَلْفَ سَنَةٍۢ مِّمَّا تَعُدُّونَ ﴿٥﴾
ترجمہ: وہ آسمان سے لے کر زمین تک ہر کام کی تدبیر کرتا ہے پھراس دن بھی جس کی مقدار تمہاری گنتی سے ہزار برس ہو گی وہ انتظام اس کی طرف رجوع کرے گا (سورۃ السجدۃ،آیت 5)
(11) اللہ العلی القدیر کا فرمان ہے:
يَخَافُونَ رَبَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ۩ ﴿50﴾
ترجمہ: اور اپنے پروردگار سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے ہیں اور جو ان کو ارشاد ہوتا ہے اس پر عمل کرتے ہیں (سورۃ النحل،آیت 50)
اللہ تعالیٰ کے مندرجہ بالا فرامین سے صاف اور واضح طور پر سمجھ آتا ہے کہ اللہ الاعلیٰ اپنی تمام مخلوق کے اوپر ،اُس سے جدا اور بلند ہے،کسی لفظ کی کوئی تشریح یا تاویل کرنے سے پہلے ہمیں اللہ تعالیٰ کے یہ درج ذیل فرامین بھی ذہن میں رکھنے چاہیے جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اکرم محمد ﷺ کو مخاطب فرما کر ،اُن کے اُمتیوں کو اُن ﷺ کے منصب رسالت کی ذمہ داریوں میں سب سے اہم ذمہ داری بتائی ہے اور ہمیں یہ سمجھایا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین مبارک کو اللہ کے رسول ﷺ کی بیان کردہ قولی اور عملی تفسیر شرح اور تعلیمات کے مطابق سمجھنا ہے،نہ کہ اپنی عقل و سوچ،مزاج،پسند و ناپسند اور اپنے خود ساختہ جہالت زدہ فلسفوں کے مطابق:
بِٱلْبَيِّنَٰتِ وَٱلزُّبُرِ ۗ وَأَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٤٤﴾
ترجمہ: (اور ان پیغمبروں کو) دلیلیں اور کتابیں دے کر (بھیجا تھا) اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو (ارشادات) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو اور تاکہ وہ غور کریں (سورۃ النحل،آیت 44)
اور مزید تاکید فرمائی کہ:
وَمَآ أَنزَلْنَا عَلَيْكَ ٱلْكِتَٰبَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ ٱلَّذِى ٱخْتَلَفُوا۟ فِيهِ ۙ وَهُدًۭى وَرَحْمَةًۭ لِّقَوْمٍۢ يُؤْمِنُونَ ﴿64﴾
ترجمہ: اور ہم نے جو تم پر کتاب نازل کی ہے تو اس کے لیے جس امر میں ان لوگوں کو اختلاف ہے تم اس کا فیصلہ کردو۔ اور (یہ) مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے (سورۃ النحل،آیت 64)
اللہ تعالیٰ کے فرمان کی تفسیر اور شرح کی ذمہ داری اللہ کی طرف سے اپنے رسول ﷺ کو دی گئی ہے ہر کس و ناکس کو یہ اجازت نہیں کہ وہ اپنی مرضی سےیا اپنی سوچ و فکر کے مطابق ،یا اُس کے ذہن پر مسلط فلسفوں اور شرعا نا مقبول خود ساختہ کسوٹیوں کی بنا پر قرآن پاک کی آیات مبارکہ کی ایسی تفسیر یا تشریح کرے جو اللہ یا رسول ﷺ کی صحیح ثابت شدہ سنت مبارکہ کہ مطابق نہ ہوں، اور جب اس کی جہالت زدہ سوچیں اور فلسفے قرآن کریم کی ہی آیات شریفہ کے ذریعے مردود قرار پائیں تو آیات شریفہ کی باطل تاویلات کرنے لگے،اور جب اس کی باطل تاویلات صحیح چابت شدہ سنت مبارکہ کے ذریعے مردود قرار پائیں تو سنت مبارکہ کا ہی انکار کرنے لگے۔
پس اللہ کے مقرر کردہ تفہیمء قُران کے اس دُرست ترین منھج کے مطابق، اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پاک کے تمام تر مخلوق سے جُدا،الگ اور بُلند ہونے کی صفت کے بیان والی آیات مبارکہ کے بعد اب ہم یہ مطالعہ کرتے ہیں کہ اللہ الرَّحیم کے رسول کریم مُحمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے اللہ کی اِن باتوں اور اللہ کی اِس صفتِ عُلو یعنی تمام تر مخلوق سے جُدا، الگ اور بُلند ہونے کے بارے میں کیا فرمایا ہے ؟
اُس کے بعد اِن شاء اللہ تعالیٰ جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین ، تبع تابعین اور أئمہ رحمہم اللہ جمعیاً کے أقوال ، پھر آپ فیصلہ کیجیے گا کہ اللہ تعالیٰ اُوپر ہے ؟ یا معاذ اللہ ہر جگہ منتشر جسے عام طور پر ہر جگہ موجود ہونے کے الفاظ میں بھی ذکر کیا جاتا ہے ؟ یا کہیں اور ؟ اور اللہ تعالیٰ نے خود اپنے بارے میں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے جو کچھ اللہ بارے میں بتایا ہے وہ کہنا کُفر ہے یا اُس کے خِلاف کہنا ؟؟؟
فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ​
:::
پس عبرت حاصل کرو اے بصیرت والو ،​
اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین کے بعد ، اب اِن شاء اللہ ہم اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اِرشادات جو بلا شک و شبہ اللہ کی وحی کے مطابق اُن صلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے ادا ہوئے ، اُن اِرشادات کا مطالعہ کرتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) اس اہم موضوع پر مضمون کے لیے ہم شیخ عادل سہیل صاحب کے منتظر ہیں۔(محمد ارسلان)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین

اُوپر ذِکر شدہ آیاتِ مبارکہ کے بعد اب اِن شاء اللہ أحادیث شریفہ ذِکر کرتا ہوں آئیے دیکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اللہ کی اِس صفتِ عُلو یعنی تمام تر مخلوق سے جُدا اور بُلند ہونے کے بارے میں کیا فرمایا ہے
( 1 ) معاویہ ابن الحکم السُّلمی رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے " ایک دفعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی امامت مُبارکہ میں نماز پڑھ تھا کہ نمازیوں میں سے کسی کو چھینک آئی تو میں نے کہا " اللہ تُم پر رحم کرے"،
تو لوگوں نے مجھے کن انکھیوں سے دیکھا ، تو میں نے کہا " میری ماں مجھے کھو دے تُم لوگ مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو "
تو ان سب نے اپنے ہاتھ اپنی رانوں پرمارے ، تو میں جان گیا کہ یہ لوگ مجھے خاموش کروا رہے ہیں تو میں خاموش ہو گیا ،
میرے ماں باپ اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر قربان ہوں میں نے اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے پہلے اور نہ ہی بعد میں اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرح بہترین تعلیم دینے والا اچھا استاد کوئی نہیں دیکھا ، کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنی نماز سے فارغ ہوئے ، تو انہوں نے نہ تو مجھے ڈانٹا نہ ہی مجھے مارا نہ مجھے برا کہا ، بلکہ صرف اتنا فرمایا کہ
﴿ إِنَّ ہذہِ الصَّلَاۃَ لَا یَصْلُحُ فیہا شَیْء ٌ من کَلَامِ النَّاسِ إنَّما ہو التَّسْبِیحُ وَالتَّکْبِیرُ وَقِرَاء َۃُ الْقُرْآنِأو کما قال رسول اللَّہِ صلی اللَّہ علیہ وعلی آلہ وسلم
﴿یہ نماز ہے اس میں انسانوں کی باتیں جائز نہیں ہیں یہ(نماز ) تو تسبیح ہے، تکبیر ہے اور قران پڑھنا ہے﴾ یا جیسے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےفرمایا ،
میں نے عرض کیا
یا رَسُولَ اللَّہِ إنی حَدِیثُ عَہْدٍ بِجَاہِلِیَّۃٍ وقد جاء اللہ بِالْإِسْلَامِ وَإِنَّ مِنَّا رِجَالًا یَأْتُونَ الْکُہَّانَ
یا رسول اللہ میں ابھی ابھی جاہلیت میں تھا ، اور اللہ ہمارے پاس اسلام لے کر آیا اور ہم میں سے کچھ لوگ کاہنوں کے پاس جاتے ہیں تو ارشاد فرمایا:
فلا تَأْتِہِمْ
تُم اُن (کاہنوں )کے پاس مت جانا
میں نے پھر عرض کیا
وَمِنَّا رِجَالٌ یَتَطَیَّرُونَ
ہم میں سے کچھ لوگ پرندوں کے ذریعے شگون لیتے ہیں
تو اِرشاد فرمایا
قال ذَاکَ شَیْء ٌ یَجِدُونَہُ فی صُدُورِہِمْ فلا یَصُدَّنَّہُمْ
یہ ایسی چیز ہے جو وہ لوگ اپنے سینو ں میں پاتے ہیں لیکن یہ کام انہیں(اپنے کاموں ) سے روکے نہیں
یعنی شگون وغیرہ مت لیا کریں ورنہ اس بد عقیدگی کی وجہ سے شگون بازی کرنے والے لوگ اپنے کاموں سے رُک جاتے ہیں اور انہیں اپنے کاموں سے رکنا نہیں چاہیے ،
قال بن الصَّبَّاحِ فلا یَصُدَّنَّکُمْ
ابن الصباح (اِمام مسلم رحمہُ اللہ کی طرف سے سند میں سب سے پہلے راوی رحمہ اللہ) کا کہنا ہے کہ "یہ شگون بازی تمہیں (اپنے کاموں)سے مت روکے"
( آگے پھر معاویہ بن الحکم رضی اللہ کا کہنا ہے ) پھر میں نے عرض کیا """ وَمِنَّا رِجَالٌ یَخُطُّونَ ::: ہم میں سے کچھ لوگ لکیریں بناتے ہیں """ (یعنی زائچہ بازی کرتے ہیں جو کاہنوں کے کاموں میں سے ہے)،
تو اِرشاد فرمایا :
کان نَبِیٌّ من الْأَنْبِیَاء ِ یَخُطُّ فَمَنْ وَافَقَ خَطَّہُ فَذَاکَ
نبیوں ( علیھم السلام )میں سے ایک نبی خط کَشی کیا کرتے تھے پس اگر کسی کا خط اس نبی(علیہ السلام)کے خط کے موافق ہو جائے توٹھیک ہے
یہ ایک ناممکن کام ہے ، کیونکہ انبیاء علمہل السلام کو اللہ کی طرف سے وحی ہوتی تھی اور ان کو دیے جانے والے خصوصی علوم میں سے یہ ایک علم ایک نبی علیہ السلام کو دیا گیا تھا ،لہذا اس علم کا حصول جو صرف وحی کے ذریعے کسی نبی یا رسول کو خاص طور پر دیا گیا ہو ، کسی غیر نبی کے لیے نا ممن ہے، اور یہی بات سمجھانے کے لیے یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ اندازء بیان اختیار فرمایا ہے
،
پھر معاویہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں پیش آنے والے اپنے ایک اور واقعہ کا ذکر کیاکہ
میرے پاس ایک باندی ہے جو اُحد (پہاڑ) کے سامنے اور اِرد گِرد میری بکریاں چَرایا کرتی تھی ایک دِن میں نے دیکھا کہ اس کی (نگرانی میں میری )جو بکریاں تھیں اُن میں سے ایک کو بھیڑیا لے گیا ، میں آدم کی اولاد میں سے ایک آدمی ہوں جس طرح باقی سب آدمی غمگین ہوتے ہیں میں بھی اسی طرح غمگین ہوتا ہوں ، لیکن میں نے (اس غم میں ) اسے ایک تھپڑ مار دِیا ، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاس آیا کیونکہ اسے تھپڑ مارنا میرے لیے (دِل پر )بڑا (بوجھ)بن گیا تھا ، میں نے عرض کیا '' اے اللہ کے رسول کیا میں اسے آزاد نہ کرو دوں ؟ "
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:
ائْتِنِی بہا
اُس باندی کو میرے پاس لاؤ
فَأَتَیْتُہُ بہا
تو میں اس باندی کو لے کر (پھر دوبارہ )حاضر ہوا،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا
أَیْنَ اللہ
اللہ کہاں ہے ؟
قالت فی السَّمَاء ِ
اس باندی نے جواباً عرض کیا '' آسمان پر ''
پھر دریافت فرمایا
مَن أنا
میں کون ہوں ؟
قالت أنت رسول اللَّہِ
اس باندی نے جواباً عرض کیا '' آپ اللہ کے رسول ہیں ''
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مجھے حُکم فرمایا
أَعْتِقْہَا فَإِنَّہَا مُؤْمِنَۃٌ
اِسے آزاد کرو دو یہ اِیمان والی ہے
صحیح مسلم /حدیث 537 /کتاب المساجد و مواضح الصلاۃ / باب7، بَاب تَحْرِیمِ الْکَلَامِ فی الصَّلَاۃِ وَنَسْخِ ما کان من إباحۃ ۔
ذرا غور کیجیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے باندی سے کیا پوچھا اور اُس باندی نے کیا جواب دِیا؟؟؟
غور کیجیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اُس باندی کا اِیمان جانچنے کے لیے ، اُس کے اِیمان کی درستگی جانچنے کے لیے صِرف دو باتیں دریافت فرمائیں،
اللہ کی ایک ذات مبارک کے بارے میں سوال کیا کہ اللہ کہاں ہے ؟
اِیمانیات کے بارے میں کوئی تفصیل دریافت نہیں فرمائی ،
اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اپنی ذات مبارک کے بارے میں ایک سوال فرمایا کہ اُن کی حیثیت و رُتبہ کیا ہے ؟،
اور اُس باندی کے مختصر سے جواب کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اُس کےاِیمان والی ہونے کی گواہی دِی ، جِس جواب میں اللہ کی ذات مبارک کے بارے میں اُس باندی نے یہ کہا کہ""" اللہ آسمان پر ہے """،
اب ذرا کچھ مزید توجہ سے غور فرمایے ،کہ اگر اللہ تعالیٰ کے لیے یہ کہنا کُفر ہے کہ وہ اُوپر ہے ، آسمانوں سے اوپر ہے ، اپنی تمام تر مخلوق سے اُوپر ہے،تو پھر اس بات پر ، یا ایسا کہنے والوں پر کُفر کا فتویٰ لگانے والے لوگ سچے ہیں ؟یا اُس باندی کو اِیمان والی قرار دینے والے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اُن پر میرے باپ قُربان ہوں سچے ہیں ؟؟؟؟؟
اس حدیث شریف کو عموماً " حدیث الجاریہ " کہا جاتا ہے ، اس حدیث شریف میں اور بھی بہت سے مسائل میسر ہوتے ہیں ،
الحمدُ للہ اِن سب کا ذِکر ایک الگ مضمون """حدیث الجاریہ ، ایک حدیث میں 9مسائل کا بیان"""میں کر چکا ہوں ۔(1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عادل سہیل بھائی سے گزارش ہے کہ ہمیں بھی یہ کتاب یا مضمون فراہم کریں۔جزاک اللہ خیرا
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
( 2 )أبو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا :
يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الآخِرُ يَقُولُ مَنْ يَدْعُونِى فَأَسْتَجِيبَ لَهُ مَنْ يَسْأَلُنِى فَأُعْطِيَهُ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِى فَأَغْفِرَ لَهُ
جب رات کا آخری تیسرا پہر ہوتا ہے تو ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات میں دُنیا کے آسمان کی طرف اُترتا ہے اور فرماتا ہے کون ہے جو(اِس وقت ) مُجھ سے دُعا کرے کہ میں اُسکی دُعا قبول کروں ، کون ہے جو (اِس وقت)مُجھ سے کوئی سوال کرے کہ میں اُسکا سوال پورا کروں ، کون ہے جو (اِس وقت) مجھ سے مغفرت طلب کرے کہ میں اُسکی مغفرت کروں)صحیح البُخاری/ابواب التہجد/باب14، صحیح مُسلم/حدیث 758 ، کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا / باب24 (
قارئین کرام ، اِس مذکورہ بالا حدیث شریف کو بھی غور سے پڑہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہمارے رب اللہ عز و جل کے بارے میں کیا فرما رہے ہیں ، پس اگر یہ کہنا ہے کُفر ہے کہ اللہ اُوپر ہے تو کُفر کا فتویٰ لگانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اِس فرمان پر کیا فتویٰ لگائیں گے ؟؟؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
( 3 ) أبو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےاِرشاد فرمایا :
يَتَعَاقَبُونَ فِيكُمْ مَلاَئِكَةٌ بِاللَّيْلِ وَمَلاَئِكَةٌ بِالنَّهَارِ وَيَجْتَمِعُونَ فِى صَلاَةِ الْفَجْرِ وَصَلاَةِ الْعَصْرِ ثُمَّ يَعْرُجُ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ فَيَسْأَلُهُمْ رَبُّهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ كَيْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِى فَيَقُولُونَ تَرَكْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ وَأَتَيْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ
رات کے فرشتے اور دِن کے فرشتے تُم لوگوں میں ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں اور نمازِ عصر اور نمازِ فجر کے وقت اکٹھے ہوتے ہیں(یعنی فرشتوں کا ایک گرو ہ فجر کے وقت آتا ہے اور عصر تک رہتا ہے ، یہ دِن کے فرشتے ہیں اور دوسرا گروہ عصر کے وقت آتا ہے اور فجر تک رہتا ہے یہ رات کے فرشتے ہیں )پھر وہ فرشتے جنہوں نے تمہارے درمیان رات گذاری ہوتی ہے(یعنی عصر کے وقت آنے والے فرشتے ) اُوپر ( اللہ کی طرف) چڑھتے ہیں تو(وہاں )اُن کا رب اُن سے پوچھتا ہے، جبکہ وہ بندوں کے بارے میں فرشتوں سے زیادہ جانتا ہے ، تُم نے میرے بندوں کو کِس حال میں چھوڑا ؟ تو فرشتے کہتے ہیں جب ہم نے اُنہیں چھوڑا تو وہ لوگ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم اُن کے پاس گئے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے) صحیح مُسلم / حدیث632/کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ / باب 37 کی پہلی حدیث ،صحیح البُخاری / حدیث 555 / کتاب مواقیت الصلاۃ / باب 16کی دوسری حدیث ، صحیح ابنِ خزیمہ/حدیث 321 /کتاب الصلاۃ / باب12 ذكر اجتماع ملائكة الليل وملائكة النهار في صلاة الفجر وصلاة والعصر جميعا ودعاء الملائكة لمن شهد الصلاتين جميعا کی پہلی حدیث، صحیح ابن حبان /حدیث 1736/کتاب الصلاۃ/باب9،مؤطامالک/حدیث416/کتاب قصر الصلاۃ/ باب24 ،مُسند احمد /مُسند ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ ُ ،سنن النسائی /حدیث489/ کتاب الصلاۃ/باب21۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
(4) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا :
إِنَّ لِلَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى مَلاَئِكَةً سَيَّارَةً فُضْلاً يَتَبَّعُونَ مَجَالِسَ الذِّكْرِ فَإِذَا وَجَدُوا مَجْلِسًا فِيهِ ذِكْرٌ قَعَدُوا مَعَهُمْ وَحَفَّ بَعْضُهُمْ بَعْضًا بِأَجْنِحَتِهِمْ حَتَّى يَمْلَئُوا مَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَإِذَا تَفَرَّقُوا عَرَجُوا وَصَعِدُوا إِلَى السَّمَاءِ - قَالَ - فَيَسْأَلُهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ مِنْ أَيْنَ جِئْتُمْ فَيَقُولُونَ جِئْنَا مِنْ عِنْدِ عِبَادٍ لَكَ فِى الأَرْضِ يُسَبِّحُونَكَ وَيُكَبِّرُونَكَ وَيُهَلِّلُونَكَ وَيَحْمَدُونَكَ وَيَسْأَلُونَكَ
بے شک اللہ کے کچھ ایسے فرشتے ہیں جو (زمین میں)چلتے پھرتے ہی رہتے ہیں ،اور(اللہ کے) ذِکر کی مجلسوں کی تلاش میں رہتے ہیں ، جب وہ کوئی ایسی مجلس پاتے ہیں جِس میں (اللہ کا)ذِکر ہو رہا ہو تو وہ ذِکر کرنے والوں کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنے پَروں سے ڈھانپ لیتے ہیں ، یہاں تک کہ اُن کے اور دُنیا والے آسمان کے ساری جگہ میں وہ فرشتے بھر جاتے ہیں ، اور پھر جب الگ ہوتے ہیں تو آسمان کی طرف چڑھتے اور بُلند ہوتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مزید فرمایا ۔تو(وہاں )اللہ عزّ و جلّ فرشتوں سے پوچھتا ہے کہ """ تُم سب کہاں سے آئے ہو ؟ """ جبکہ اللہ فرشتوں کے بارے میں خود اُن سے زیادہ جانتا ہے، تو فرشتے جواباًعرض کرتے ہیں """ہم آپ کے اُن بندوں کے پاس سے آئے ہیں جو زمین میں آپ کی پاکیزگی ، اور آپ کی بڑائی ، اور الوھیت میں آپ کی واحدانیت ،اور آپ کی تعریف بیان کرتے ہیں ، اور آپ سے سوال کرتے ہیں )صحیح مُسلم /حدیث 7015/کتاب الذکر و الدُعاء والتوبہ/باب 8 (
قارئین کرام ،ملاحظہ فرمائیے ، اور بغور ملاحظہ فرمایے کہ ان دونوں احادیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فرشتوں کا اللہ کی طرف چڑھنے کا ذِکر فرما رہے ہیں ، اور غور فرمایے کہ چڑھا اوپر کی طرف جاتا ہے یا کِسی اور طرف ؟؟؟

اگر اللہ تعالیٰ اپنی ذات مبارک کے ساتھ ہر جگہ موجود ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فرشتوں کے اللہ کی طرف چڑھنے کا ذکر نہ فرماتے ، بلکہ کچھ یوں کہا جاتا کہ فرشتے اپنے رب کے پاس ہی ہوتے ہیں کیونکہ وہ تو ہر جگہ موجود ہے لہذا فرشتوں کو کہیں سے کہیں ، کسی طرف جانے ، چڑھنے اترنے کی کوئی ضرورت ہی نہ ہوتی ۔
 
Top