• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کی کتاب ہونے کے دلائل

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اللہ کی کتاب ہونے کے دلائل

کیا قرآن واقعی اللہ تعالی کی کتاب ہے؟ اس دعوی کی کیا دلیل ہے؟ اس حیران کن سوال کے بے شمار جواب اور دلائل ہیں جو یقینی شہادت دیتے ہیں کہ قرآن کریم واقعی اللہ تعالی کی کتاب ہے۔آئیے ان دلائل کو دیکھتے ہیں:

دلائل:
قرآن کہتا ہے اور اہل عرب بھی جانتے تھے کہ ہمارے رسول ﷺ امی تھے۔ آپ ﷺ نہ سکول وکالج گئے اور نہ ہی کسی استاذ کے آگے زانوئے ادب تہہ کئے۔عبرانی وسریانی زبانیں سیکھنا تو کجا آپ ﷺ کی کسی عیسائی یا عجمی سے دوستی تک نہ تھی کہ اس سے آپ ﷺ کی مذہبی معلومات میں اضافہ ہوتا۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ غیر عرب عجمی شخص سے آپ ایسی فصیح زبان اورنظریہ سیکھیں جو مقامی عرب خطباء کو بے بس کردے اور عقیدہ توحید ، آل یعقوب وآل عمران کے حقائق اس طرح منکشف کرے جو سابقہ مذاہب کی جڑ کاٹتے ہوں؟ کسی مشرک وکافر نے اسے بطور ہتھیاربھی آپ ﷺ کے خلاف پروپیگنڈہ نہیں بنایا۔ بارہا چیلنجز بھی دئے گئے کہ اس جیسی ایک سورت ہی بنا لاؤ مگروہ بھی نہ لا سکے۔آپ ﷺ نے بھی اس کتاب کو اپنی طرف منسوب نہ کیا۔

٭… کیا یہ ممکن ہے کہ ایک امی نبی ورسول اپنے کلام میں سائنسی باتیں کرے، پیشین گوئیاں دے، اور کائنات وحضرت انسان کے آغاز ونشوونما کے چھپے پردوں سے راز اٹھائے؟۔اُمی ہوکر ایسے کلام کو پیش کرنا عظیم معجزہ نہیں؟۔

{وَمَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّلَا تَخُطُّہٗ بِيَمِيْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ۴۸بَلْ ہُوَاٰيٰتٌۢ بَيِّنٰتٌ} (العنکبوت:۴۹،۴۸)
آپ اس کتاب کے نزول سے پہلے نہ تو کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ ہی اپنے داہنے ہاتھ سے کچھ قلمبند کیا کرتے تھے ورنہ یہ باطل پرست تو شک میں رہتے۔ بلکہ یہ روشن آیات ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭… حاسد خود متذبذب تھے کہ آخر ہم اس کتاب کو کیا کہیں۔کیونکہ وہ کبھی اسے شعر کہتے اور کبھی کہانت، کبھی جادو ، تو کبھی مجنونانہ باتیں کہہ کے ٹرخاتے۔ مگر قرآن کریم اپنی لطیف وٹھوس گفتگو سے انہیں یہ قائل کرتا رہا کہ یہ اللہ تعالی کا کلام ہے۔

٭۔ رسول اکرم ﷺ کو یہ اجازت نہیں تھی کہ آپ ﷺ ا قرآن میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی کریں۔
{وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْہِمْ اٰيَاتُنَا بَيِّنٰتٍ۰ۙقَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَيْرِ ھٰذَآ اَوْ بَدِّلْہُ۰ۭقُلْ مَا يَكُوْنُ لِيْٓ اَنْ اُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَاۗيِ نَفْسِيْ۰ۚاِنْ اَتَّبِـــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ۰ۚاِنِّىْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَيْتُ رَبِّيْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ۱۵ }(یونس: ۱۵)
اور جب ان پر ہماری روشن آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو جن لوگوں کو ہم سے ملنے کی امید نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ اس قرآن کے علاوہ کوئی اور قرآن لے آئیے یا اس کو بدل دیجیے۔ آپ فرما دیجیے کہ میرے لئے جائز نہیں کہ میں اس کو اپنی طرف سے بدل دوں ۔

٭…ا گرآپﷺ تبدیلی کرتے تو یہ انتہائی سنگین جرم ہوتا۔ کیونکہ دین میں معمولی سی تبدیلی سارے منصوبہ کو خاک میں ملا دیتی ہے۔ اللہ تعالی نے اس کی بھی ضمانت دی اور فرمایا:
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ۴۴ۙلَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْيَمِيْنِ۴۵ۙثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِيْنَ۴۶ۡۖفَمَا مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْہُ حٰجِـزِيْنَ۴۷وَاِنَّہٗ لَتَذْكِرَۃٌ لِّلْمُتَّقِيْنَ۴۸} (الحاقۃ:۴۸،۴۴ )
اور اگر یہ رسول ہم پر کوئی بات گھڑ لے تو ہم اس کے دائیں ہاتھ کو پکڑلیں پھر اس کی رگ جان کاٹ دیں تب تم میں کوئی نہ ہو جو اسے بچاسکے۔ اور بلاشبہ اس میں اللہ کی نافرمانی سے بچنے والوں کے لئے ایک نصیحت ہے۔

دین میں معمولی ہیر پھیر کی اجازت جب رسول اللہ ﷺ کو نہیں تو علماء ربانی کو بھی نہیں۔کیونکہ ایسا کردار یہودی رِبی اور عیسائی پوپ کا ہے۔جس کی مذمت قرآان کریم کرچکا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭… جبریل ؑ امین سے بھی اسے پہنچانے میں کوئی بھول چوک نہیں ہوئی۔
{اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ۱۹ۙذِيْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِيْنٍ۲۰ۙمُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِيْنٍ۲۱ۭ} (التکویر:۱۹۔۲۱)
بے شک وہ معزز قاصد کا کلام ہے جو قوت والا ہے۔ خدائے عرش کے نزدیک مرتبے والا ہے اسکی اطاعت کی جاتی ہے اور وہ وہاں امین و معتبرہے۔

٭…قرآن کو تھوڑا تھوڑا نازل کیا گیا۔ جس کا مقصد اصحاب رسول کو بآسانی یاد کرانا تھا۔ آپ ﷺ ہی پہلے فرد تھے جنہوں نے قرآن پاک کو حفظ کیا اور آپ ﷺ ہی پہلے فرد تھے جنہوں نے صحابہ کرام کو اس کی حفاظت کی ترغیب دی۔
{وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰہُ لِتَقْرَاَہٗ عَلَي النَّاسِ عَلٰي مُكْثٍ وَّنَزَّلْنٰہُ تَنْزِيْلًا۱۰۶ } (بنی اسرائیل: ۱۰۶)
اور اس قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کرکے اس لئے نازل کیا ہے تا کہ تم ٹھہر ٹھہر کر لوگوں کو سناؤ۔

٭…قرآن مجیدعرب ماحول میں نازل ہوا تھا۔ عرب اگرچہ لکھناپڑھنا نہ جانتے تھے مگر پختہ قوت حافظہ کے مالک ضرور تھے۔ انہیں اپنی تاریخ، جنگوں کے حالات، نہ صرف اپنے نسب نامے بلکہ اونٹوں کے نسب بھی سات پشتوں تک یاد ہوتے تھے۔ جب قرآن نازل ہواتو انہوں نے اس کی قدر ومنزلت جانی اور اسے یاد کرنے کا خاص اہتمام کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭…قرآن کی حفاظت کتابت کے ذریعے بھی ہوئی۔ کاتبین وحی گو کم تھے لیکن ہر وقت نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر رہتے۔ پھر جونہی کوئی وحی نازل ہوتی آپ ﷺ انہیں بلوا کر وہ آیات لکھوا لیتے۔ یہ کاتب انتیس۔۔ اور بعض علماء کے نزدیک۔۔ انچاس تھے۔ ان کاتبین میں مرد حضرات کے علاوہ خواتین بھی شامل ہیں۔ جن میں سیدہ عائشہ، سیدہ حفصہ اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہن بھی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

۱۵۔ بلاغت سے مراد ایسے جامع کلمات ہیں جو اپنی معنی ومفہوم سمیت سواد دل میں اتر جائیں۔ آواز کا ترنم اس پر مستزاد ہو۔ الفاظ کی ترکیب و سجاوٹ، اعلی قوت خیال، دل میں اس کے گہرے اثرات اور پھر ان سب الفاظ کا محسوسات کے مماثل ہونا ہے۔اسی بلاغت نے ہر عرب کو حیران و ششدر کر دیا تھاکہ ایسا عمدہ کلام جو دل کی کایا پلٹ دے مگرجو نہ نثرلگے اور نہ ہی نظم حیران کن ہے۔جس میں جگہ جگہ موضوعات بدلتے ہیں مگر بلاغت یکساں طور پرپائی جاتی ہے۔ ایک کلمہ ایسا نہیں جو کان پر بوجھل محسوس ہو۔اس میں مختلف مسائل ہیں مگر ہر مسئلہ کے مطابق احکام بیان ہوتے ہیں حالانکہ یہ سب احکام وقفہ وقفہ سے نازل ہوئے۔ یہ سب انداز انسانی حواس کے لئے بڑی جاذبیت رکھتے ہیں۔مثلاً یہ آیات بلاغت کے جمال کا عمدہ نمونہ ہے:
{وَالشَّمْسِ وَضُحٰىہَا۱۠ۙوَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰىہَا۲۠ۙوَالنَّہَارِ اِذَا جَلّٰىہَا۳۠ۙوَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰـىہَا۴۠ۙوَالسَّمَاۗءِ وَمَا بَنٰىہَا۵۠ۙوَالْاَرْضِ وَمَا طَحٰىہَا۶۠ۙ} (الشمس: ۱۔۶ )
قسم ہے سورج کی اور قسم ہے اس کی روشنی کی، قسم ہے چاند کی جب وہ اس کے پیچھے آئے۔ قسم ہے دن کی جب وہ ظاہر کرے اسے۔ اور قسم ہے رات کی جب وہ ڈھانپ لے اس کو۔اور آسمان کی اور اس کی جو اس نے بنایا۔اور قسم ہے زمین کی اور اس کی جو اس نے بچھایا۔

ان آیات کا حسن اور الفاظ میں کلام الٰہی کی شان او ر کبریائی، ان کے ایک ایک جملے اور ان کی مخصوص ترتیب سے عیاں ہیں۔کائنات میں پھیلی قدرت کی شاہکار رنگینیوں کی طرف ذہن کو لے جاتی ہیں۔۔قوت حواس کے لئے کتنا مرعوب کن یہ اسلوب ہے جس سے اللہ تعالی کی عظمت کا عقیدہ دل میں مزید مضبوطی پکڑتا ہے۔ اور یہ سب قسمیں نفس انسانی میں خیر اور شر کے مادے کو ودیعت کرنے کی عظیم شہادتیں ہیں۔حاکم مطلق کا ہر انداز اسی کو بھاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭… پیش آنے والے واقعات کے بارے میں قرآن مجید نے بڑے واضح اشارے دیے جوحرف بحرف ثابت ہوئے اور ہو رہے ہیں مثلاً:
{ الم ﴿١﴾ غُلِبَتِ الرُّ‌ومُ ﴿٢﴾ فِي أَدْنَى الْأَرْ‌ضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ ﴿٣﴾ فِي بِضْعِ سِنِينَ۔۔۔} (الروم :۱۔۴)
الم ۔اہل روم مغلوب ہوگئے اس ملک میں جو حجاز سے متصل ہے اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غلبہ حاصل کرلیں گے چند برسوں میں۔

٭… قرآن مجید نے بعض ایسی قوموں کے حالات بیان کئے جن کا نام ونشان مٹ چکا تھا اور قصہ پارینہ بن چکے تھے۔ عرب بھی انہیں بھول چکے تھے۔ ان کے حالات کی طرف قرآن مجید نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے:
{تِلْكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ ۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَـٰذَا ۖ۔۔۔} (ہود: ۴۹)
یہ واقعات غیب کی خبروں میں سے ہیں جنہیں ہم آپ کو وحی کے ذریعے پہنچا رہے ہیں۔ وحی سے قبل نہ آپ انہیں جانتے تھے نہ آپ کی قوم۔

٭… جدید سائنس نے کائنات کے بارے میں جن حقائق کا انکشاف کیا ہے یہ ابھی ابتداء ہے مگر اس متأخر سائنسی تحقیق سے کہیں آگے کے گہرے اشارے قرآن کریم نے ڈیڑھ ہزار سال قبل دے دئے تھے۔ جن کا پہلے کسی کو علم تھا اور نہ ان کی حقیقت سائنس دانوں پر منکشف ہوسکی ۔ ان آیات میں یہ اشارے ملتے ہیں:
{أَوَلَمْ يَرَ‌ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ كَانَتَا رَ‌تْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ۖ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۖ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ ﴿٣٠﴾} (الأنبیاء:۳۰ )
کیا ان کافروں کو یہ بات معلوم نہیں کہ آسمان وزمیں دونوں باہم ملے ہوئے تھے پھر ہم نے ان کو الگ الگ کیاہم نے ہی ہر شے کو پانی سے زندگی عطا کی کیا اس پر بھی یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔

پہلی آیت میں لفظ رَتْقٌ اور فَتْقٌ کے الفاظ پر غور کریں تو ساری سائنس سمجھ آجاتی ہے۔مگر موجودہ سائنسی تعبیرات کی علمی کم مائیگی وعاجزی بھی۔ رتق کسی چیز کا باہم گڈمڈ اور باہم گتھا ہوا ہونا۔ اور فتق کسی چیز میں بڑا سا شگاف ڈال کر اسے کھول دینا یا دومتصل چیزوں کو علیحد ہ علیحدہ کرنا۔Big Bang یا Little Bang جیسی بدلتی تھیوریزمیں ابھی یہ پختگی کہاں؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
{وَأَرْ‌سَلْنَا الرِّ‌يَاحَ لَوَاقِحَ فَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَسْقَيْنَاكُمُوهُ وَمَا أَنتُمْ لَهُ بِخَازِنِينَ ﴿٢٢﴾} (الحجر:۲۲)
ہم ہی بھیجتے ہیں بارآور بوجھل ہوائیں، پھر آسمان سے پانی برسا کر وہ تمہیں پلاتے ہیں۔جب کہ تم اس کو سٹور کرنے والے نہیں ہو۔

اس آیت میں لفظ اَرْسَلْنَا الرِّيٰحَ لَوَاقِحَ قابل غور ہیں کہ ایک مرتب نظام کے تحت ہوائیں بن کر آتی ہیں اور بیجوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا (Pollinate) کر چلی جاتی ہیں۔نیزہرقطرہ بارش Y, Xکا بھی حامل ہے جو اس بیج میں جا مؤثر ہوتا ہے۔

گو قرآن مجید سائنسی کتاب نہیں مگر جدید سائنس کے کائناتی انکشافات کے اشارے اس میں موجود ہیں ۔ جن سے حضرت ِ انسان صدیوں لا علم رہا۔ مثلا:
٭… قرآن کریم نے زمین کے گردش کرنے اور اس کے گول ہونے کا دعوی کیا ہے۔ {وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىہَا۳۰ۭ}(النازعات:۳۰)
اس کے بعد اس نے زمین کو پھیلا دیا
دحوۃ: شتر مرغ کے انڈے کو کہتے ہیں۔جو بیضوی شکل کا مگر گول زیادہ ہوتا ہے۔گولائی میں زمین کو دور دور تک پھیلانے کو عربی میں دَحٰی کہتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭… بارش کیسے ہوتی ہے؟ قرآن کریم اس کی تفاصیل دیتا ہے:
{۔۔۔اَنَّ اللہَ يُزْجِيْ سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَہٗ ثُمَّ يَجْعَلُہٗ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِہٖ۔۔۔} (النور:۴۳)
بے شک اللہ تعالی بادلوں کو چلاتا ہے پھر انہیں آپس میں ملاتا ہے۔پھر ان بادلوں کو تہہ در تہہ کردیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو بادل میں سے مینہ برس رہا ہے۔

٭… تمام اشیاء میں نرو مادہ کا وجود ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے:

{وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ} (الذاریات :۴۹)
اور ہر شے سے ہم نے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔

زوج کا لفظ نر ومادہ کے وجود یا شعور کے لئے ہے۔

٭…چاند، سورج ، گلیکسیز، بلیک ہولزاور سیاروں کے مقررہ راستے ہیں اور وہ گردش کررہے ہیں:
{كُلٌّ فِيْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَ} (الأنبیاء : ۳۳)
ہر ایک اپنے اپنے مدار میں گھوم رہا ہے۔

٭…سورج کی اپنی روشنی ہے اور چاند اس کی روشنی سے منور ہوتاہے۔
{ھُوَالَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاۗءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا}(یونس: ۵) ۔
وہی تو ہے جس نے سورج کو ضیاء دی اور چاند کو روشن بنایا۔

ضیاء اس روشنی کو کہتے ہیں جو اپنی ہو اور نور دوسرے سے مستعار روشنی کو کہتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭… مادہ مکھی ہی شہد جمع کرتی اور بناتی ہے نیز اس کی طرزِ معاشرت بھی عجیب ہے:
{وَاَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِيْ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا} (النحل : ۶۸)
تمہارے رب نے مادہ مکھی کو الہام کیا کہ وہ پہاڑوں پہ اپنے گھر بنائے۔

٭… بچہ رحمِ مادر میں کن تدریجی مراحل سے گذر تا ہے۔ اس کی تشکیل کیسے ہوتی ہے؟ اور کتنے پردوں میں اس کی حفاظت کی جاتی ہے؟ قرآن مجید آگاہ کرتا ہے کہ
{فِیْ ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ} (الزمر:۶ )
تین پردوں میں رہتا ہے۔ اور بالآخر ایک نئی اٹھان کے ساتھ دنیا میں آتا ہے۔

٭… خلاء میں ٹوٹ پھوٹ کا ہیبت ناک نظام ہے اور اس سے جتنا پھیلاؤ ہو رہا ہے حضرت انسان ابھی تک حیرت زدہ ہے۔ قرآن کہتا ہے : {وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ} (الذاریات :۴۷)
ہم کائنات کو وسعت دیتے اور پھیلاتے جارہے ہیں۔
اب وہ خود کو اور اپنے (Planet) کو اس (Cosmos)کا حصہ تو ضرور سمجھنے لگا ہے۔

٭…یہ بھی حقیقت ہے کہ زمین کا قطرکم ہورہا ہے۔
{نَنْقُصُہَا مِنْ اَطْرَافِہَا}(الرعد :۴۱)
ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے جارہے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭…مادہ مچھر کے اوپر کیا چیز ہوتی ہے جس کی مثال قرآن میں دی گئی ہے:
{ مَثَلاً مَّا بَعُوْضَۃ فَمَا فَوْقَہَا}(البقرۃ: ۲۶)
مائیکرو سکوپ بتاتی ہے کہ وہ اس کی جوں ہے۔ کتنی حیران کن ہے۔

ان کے علاوہ قرآن مجیدمیں ان گنت بیان شدہ حقائق ہیں جن کے سامنے حیاتیات(Biology) ارضیات(geology) اور طبیعیات(Physics) اور دیگر علوم و سائنسز ابھی طفل مکتب ہی کی حیثیت رکھتے ہیں۔مگر کیا ان حقائق کا انکشاف آج کے مسلمان سائنس دان نے کیا؟ اور کیا سائنس دانوں نے اللہ تعالی کی عظمت وکبریائی کو تسلیم کیا؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭… قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے جو تورات وانجیل میں کی گئی تحریف وتبدیلی سے آگاہ کرتی ہے اورانبیاء ورسل پر تھوپے گئے بے سروپاواقعات والزامات کی سختی سے تردید کرتی ہے۔بلکہ ان کی عصمت واحترام اور رب کریم کے ہاں ان کے مقام عالی کو واشگاف الفاظ میں بیان کرتی ہے۔اسی وجہ سے اسے مہیمن کہا گیا ہے۔ عورت کو الزام دینا کہ وہی گناہ کی جڑ ہے اور جنت سے آدم کے اخراج کا سبب بنی ہے جس کی سزا اسے اللہ تعالی نے حیض کی تکلیف میں ڈال کر دی ہے۔ ان نامعقول باتوں کا جواب انتہائی معقول انداز میں دیا ہے۔ یہ کتاب عصمت انبیاء اور احترام خاتون کی محافظ ہے۔ اقوام کے عروج وزوال کے اسباب کھل کر بیان کرتی ہے تاکہ مجرم اپنی حرکتوں کو معصومیت کا یا نسلی تفاخر کا درجہ نہ دے دیں۔ اور جرائم کی دنیا میں انہیں کوئی ملامت کرنے والا نہ رہے۔ ایسا انکشاف اللہ تعالی کا کلام ہی کرسکتا ہے۔
 
Top