• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کے ایک ہونے کا مطلب کیا ہے؟

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
اللہ کے ایک ہونے کا مطلب کیا ہے؟




ترتیب و تالیف: ابوعبداللہ محمد بن عبدالمالک حفظہ اللہ

ناشر: محمد سعید ٹیلررحمانیہ مسجد بوہرہ پیر کراچی

بشکریہ: صراط الہدیٰ فورم
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
فہرست مضامین


  1. کلمے کا سادہ مطلب
  2. تمام قومیں اللہ کو ایک مانتی ہیں
  3. ایک ماننے کے باوجود مشرک
  4. مشرک ہونے کی وجہ
  5. ایک ماننے کی مخالفت کے انداز
  6. اللہ کے ایک ہونے کا مطلب کہاں سے لیا جائے؟
  7. اللہ کے ایک ہونے کے تصور کی بنیاد
  8. ایک ہونے کے صحیح تصور کی وضاحت
  9. خالق و مخلوق کی صفات کا اصل فرق
  10. اللہ اسباب سے بے نیاز ہے
  11. تمام مخلوقات اسباب کی پابند ہیں
  12. مخلوق کی صفات کی حدود
  13. فرق کی وضاحت
  14. اسباب سے کیا مرادہے؟
  15. اسباب کا اثر مخصوص اصولوں کے تحت ہوتا ہے
  16. انسان کی قوت و اختیار کی حدود
  17. اسباب و قوانین اللہ کے محکوم ہیں
  18. کچھ اور سائنسی قوانین
  19. صرف اللہ جو چاہے کر سکتا ہے
  20. اسباب کی پابندی میں تمام انسان یکساں ہیں
  21. اللہ اپنے اختیار کا اظہار کس طرح کرتا ہے؟
  22. معجزات انبیاء کے اختیار میں نہیں ہوتے
  23. اللہ اپنے اختیارات کسی کو نہیں دیتا
  24. وہی ہوتا ہے جو اللہ کو منظور ہوتا ہے
  25. کیا انبیاء کرام جو چاہتے ہیں ہوجاتا ہے؟
  26. نبی کریم نے اختیارات کیوں نہیں استعمال کیے؟
  27. اختیار صرف اللہ کا ہے
  28. کیا وفات کے بعد اختیارات میں اضافہ ممکن ہے؟
  29. روحوں کو دنیا میں آنے کی ضرورت نہیں
  30. روحیں کسی کی مدد نہیں کر سکتیں
  31. روحوں کی واپسی ممکن ہی نہیں
  32. معجزات سے لوگوں کو غلط فہمی
  33. عبادت اور اِلٰہ کا مفہوم
  34. زندگی کا اصل اور اولین مقصد
  35. کلمہء طیبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲ کا بنیادی مفہوم۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
کلمے کا سادہ مطلب


کلمۂ طیبہ لَا اِلٰہ اِلا اللہ کا مفہوم یوں بھی بیان کیا جاتا ہے کہ ’’اللہ ایک ہے‘‘، یا ’’اللہ کا کوئی شریک نہیں ہے‘‘۔ اور یہی مفہوم سورہ اخلاص (قُلْ ھُوَ اﷲُ اَحَدٌ) میں بھی پایا جاتا ہے۔

ہر کلمہ پڑھنے والا، چاہے وہ کسی گروہ سے تعلق رکھتا ہو، اس مفہوم کا قائل ہوتا ہے اور اسے اسلام کی بنیاد سمجھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ایک اور اکیلا ہونا ایک بڑا اور وسیع لفظ ہے جس میں کچھ اہم باتیں اور مفاہیم شامل ہیں۔ محض اتنا کہہ دینے سے کہ ’’اللہ ایک ہے‘‘، اللہ کے ایک کہلانے کا حق ادا نہیں ہو سکتا جب تک اس ’’ایک ہونے‘‘ کی مراد اور حقیقت کو نہ پہنچا جائے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
تمام قومیں اللہ کو ایک مانتی ہیں

ہندو، سکھ، پارسی، عیسائی، یہودی، مجوسی وغیرہ سب کے سب نہ صرف اللہ کے وجود کو مانتے ہیں بلکہ اس کے ایک ہونے کے بھی قائل ہیں۔ اس کے باوجود یہ سب مشرک ہیں۔ اللہ کے آخری پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مکہ کے مشرکین بھی اللہ کو ایک مانتے تھے۔ قرآن مجید میں کئی جگہ اس کی وضاحت موجود ہے۔

لہٰذا اصل جھگڑا یہ نہیں ہے کہ اللہ کو ایک مانو یا اللہ کو ایک کہو۔ اصل جھگڑا اس تفصیل میں ہے کہ اللہ کے ایک ہونے کا اصل اور صحیح مطلب کیا ہے اور کوئی اور اس کا کیا مطلب لیتا ہے؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
ایک ماننے کے باوجود مشرک

عیسائی اللہ کو ایک سمجھتے ہیں لیکن اس کے ایک ہونے سے ان کے نزدیک یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی کوئی اولاد نہ ہو۔ معاذ اللہ۔ ہندو بھی ایک ہی بھگوان کو مانتے ہیں ۔لیکن اس ایک ماننے کا مطلب وہ یہ نہیں لیتے کہ اس کے جیسی صفات اور خصوصیات رکھنے والے اس کے اپنے اوتار اور دیوی دیوتا وغیرہ نہ ہوں۔ بالکل اسی طرح اب بہت سے ’’مسلمان‘‘ جو یقینا اللہ کو ایک کہتے اور مانتے ہیں، وہ ایسے نظریات اور اعمال کے قائل ہیں جو واضح طور پر اللہ کے ایک ہونے کے تصور کی مخالفت کرتے ہیں۔ لیکن خود ان ’’مسلمانوں‘‘ کے نزدیک ان نظریات و اعمال سے اللہ کے ایک ہونے کے نظریے میں کوئی فرق واقع نہیں ہو رہا ہوتا۔!
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
مشرک ہونے کی وجہ

ان سب باتوں کی وجہ وہی ایک ہے۔ یعنی اللہ کے ایک ہونے کے صحیح اور مکمل مفہوم کا نگاہوں سے اوجھل ہونا۔ یہ مفہوم اگر عیسائی پر واضح ہو جائے تو وہ عیسائی نہ رہے، ہندو پر کھل جائے تو وہ اپنا دَھرم چھوڑ دے۔ اور اگر اس نام نہاد مسلمان پر آشکار ہو جائے تو وہ حقیقتاً مسلمان ہو جائے۔ وَ مَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاﷲ۔

جن جن قوموں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول علیہم السلام بھیجے، ان میں سے ہر قوم نہ صرف اللہ کے وجود کو مانتی تھی بلکہ اس کے ایک ہونے کی بھی قائل تھی۔ لیکن اللہ کا ایک ہونا ان پر مکمل اور صحیح طور پر واضح نہ تھا جس کی وجہ سے وہ اپنے نظریات اور اعمال میں اس عقیدے کی مخالفت کا ارتکاب کرتی رہتی تھیں۔ یوں انہوں نے اللہ کی بندگی کے حقوق کی وہ پاسداری نہ کی جو اللہ کا حق ہے۔

وَ مَا قَدَرُوا اﷲَ حَقَّ قَدْرِہٖ
اور (لوگوں نے) اللہ کی قدر نہیں کی جیسے کہ اُس کی قدر کی جانی چاہیے تھی۔
انبیاء علیہم السلام اسی عقیدے کی درستی اور اعمال کو اس کے مطابق استوار کروانے کے لئے بھیجے گئے۔ قوموں کے کافر کہلانے جانے کی اصل وجہ بھی عقیدے کی یہی خرابی تھی۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
ایک ماننے کی مخالفت کے انداز

چنانچہ ماضی میں اور آج بھی، جو قومیں اللہ کو ایک ماننے کے باوجود مشرک ہیں وہ یہ نہیں کہتیں کہ ’’اللہ دو ہیں‘‘ یا ’’اللہ بہت سارے ہیں‘‘ (معاذ اللہ، استغفر اﷲ) ۔بلکہ یا تو وہ اللہ کی بعض صفات میں نقص مان کر اور ان میں اس کو مخلوق کے برابر یا اس کے جیسا قرار دے کر شرک کی مرتکب ٹھہرتی ہیں اور یا پھر بعض مخلوق کو ان کی کسی صفت یا صفات میں خالق جیسی صفات کا (تھوڑا یا زیادہ) حامل سمجھ کر مشرک قرار پاتی ہیں۔

پہلی صورت میں خالق کا کسی مخلوق کی شکل میں دنیا میں نمودار ہونا یا کسی مخلوق کے اندر حلول کر جانے کا عقیدہ شامل ہے (جیسا کہ عیسائیوں وغیرہ کے عقائد ہیں) جبکہ دوسری صورت میں کسی مخلوق کے اندر کسی ایسی صفت کے موجود ہونے کا نظریہ رکھنا جو اللہ تعالیٰ میں پائی جاتی ہو، شامل ہے۔ ہر دوصورت میں، یہ مشرک قومیں اللہ کو ذات اور ہستی کے اعتبار سے تو ایک مان رہی ہوتی ہیں، اور مخلوق کو مخلوق ہی سمجھ رہی ہوتی ہیں۔ لیکن کہیں نہ کہیں اللہ کو مخلوق کے برابر کھڑا کر کے، یا مخلوق کو اس کے برابر لے جا کر شرک کا ارتکاب کر رہی ہوتی ہیں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
اللہ کے ایک ہونے کا مطلب کہاں سے لیا جائے؟

اللہ کے ایک ہونے کا عقیدہ اللہ کی ذات کے تعارف اور اس کی صفات کے بھرپور مطالعے سے حاصل کیا گیا ہو تو اس میں نقص کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ اللہ نے اپنی صفات خود بیان کی ہیں۔ رسولوں نے وحی اور آسمانی کتابوں کی روشنی میں ان صفات کو کھول کھول کر بیان کیا ہے۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی صفات کے تذکروں سے بھرا پڑا ہے۔ ان صفات کی نشانیاں کائنات کے ان گنت مظاہر کی شکل میں اور خود انسان کے اپنے نفس کی صورت میں جابجا موجود ہیں، جو اللہ کے ایک ہونے کا پتہ دیتی ہیں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
اللہ کے ایک ہونے کے تصور کی بنیاد

اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور تمام صفات میں یکتا اور بے مثال ہے۔ اللہ کے ایک ہونے کے عقیدے کا بنیادی تصور یہی حقیقت ہے ۔

لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ (الشورٰی:۱۱)
’’کوئی بھی شے اس (اللہ) کے جیسی نہیں ہے۔‘


وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًااَحَدٌ (الاخلاص:۴)
’’اور کوئی ایک بھی اس کا ہم سر نہیں ہے۔‘‘
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
ایک ہونے کے صحیح تصور کی وضاحت

کسی شے یا ہستی کا ’’اللہ تعالیٰ کے جیسا نہ ہونے ‘‘اور’’ اس کا ہم سر نہ ہو نے ‘‘کا مطلب جہاں یہ ہے کہ کوئی شے ’’مکمل طور سے‘‘ اللہ تعالیٰ جیسی اور اس کے برابر نہیں ہے، وہاں یہ بھی ہے کہ کوئی شے یا ہستی کسی بھی لحاظ سے، کسی بھی درجے میں (کم یا زیادہ) اللہ کے جیسی نہیں ہے، اس کی کسی صفت کی حامل نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ’’سننا‘‘ ہے، مخلوق کا سننا کسی بھی طرح، کسی بھی درجے میں اللہ کے سننے کی طرح نہیں ہو سکتا۔ نہ کم نہ برابر۔ ذرہ برابر بھی کسی مشابہت یا مماثلت کا تصور محال ہے۔ محض لفظی مُشابہت ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ’’دیکھنا‘‘ ہے۔ مخلوق کا دیکھنا کسی بھی لحاظ سے، کسی بھی درجے میں اللہ تعالیٰ کے دیکھنے کی طرح نہیں ہو سکتا۔ نہ تھوڑا نہ زیادہ۔

اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ’’جاننا‘‘ ہے۔ مخلوق کا جاننا کسی بھی طور سے، کسی بھی درجے میں اللہ تعالیٰ کے جاننے جیسا نہیں ہو سکتا۔ نہ محدود نہ غیر محدود۔

اللہ تعالیٰ کی ایک صف ’’قدرت اور اختیار رکھنا‘‘ ہے۔ مخلوق کا قدرت اور اختیار رکھنا کسی بھی انداز سے، کسی بھی درجے میں اللہ تعالیٰ کے قدرت رکھنے کی مانند نہیں ہو سکتا۔ نہ معمولی طور پر نہ غیر معمولی طور پر۔ صرف لفظی مُماثلت ہے۔

یہی معاملہ اللہ تعالیٰ کی باقی تمام صفات کا ہے۔ کسی مخلوق کی کوئی صفت کسی بھی درجے میں اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کے جیسے نہیں ہو سکتی۔ کوئی بھی ایک صفت یا خصوصیت اللہ تعالیٰ اوراس کی مخلوق میں کسی بھی طرح مشترک (Common or Similar) نہیں ہے۔ ایک ذرّے کے برابر بھی نہیں۔
 
Top