• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کے حکم وشریعت پر رضامندی کا نبی ﷺپر ایمان سے کیا تعلق؟

شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
اللہ کے حکم وشریعت پر رضامندی کا نبی ﷺپر ایمان سے کیا تعلق؟

یہ بات بداھتاً دین سے ثابت ہے کہ دین اسلام میں داخل ہونے کا صحیح راستہ ہے اللہ پر ایمان کے ساتھ ساتھ رسول ﷺپر ایمان لانااس لیے کہ لاالٰہ الااللہ کی گواہی اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک محمد رسول اللہ کی گواہی نہ دی جائے (درآں حالیکہ وہ اس پر قدرت رکھتا ہو۔اسی لیے جس نے شہادتین کا اقرار نہیں کیا یا دونوں میں سے ایک کا نہیں کیا ایک کا کرلیا تو وہ مسلمان نہیں ہے سوائے اس صورت کے وہ اس اقرار کی قدرت نہ رکھتا ہومثلاً گونگا ہویا تلفظ کی ادائیگی (بوجہ عربی حروف سے ناواقفیت )نہ کرسکتا ہو۔جو علماء کہتے ہیں کہ صرف لاالٰہ الااللہ کی گواہی سے مسلمان ہوجاتا ہے وہ اس لیے کہتے ہیں کہ یہ کلمہ لاالٰہ الااللہ محمد رسول اللہ کی شہادت پر دلالت کرتا ہے اسی لیے امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اہل سنت محدثین ،فقہاء اورمتکلمین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ مومن جس پر اہل قبلہ ہونے کا حکم لگتاہو اور جس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہوکہ وہ ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا اس سے مراد صرف وہ مومن ہے جس نے دل سے اسلام کا پختہ عقیدہ رکھا ایسا عقیدہ جو شکوک سے پاک ہو اور اس نے شہادتین کااقرار بھی کیا ہو۔اگر ان دونوں میں سے صرف ایک پر اکتفا کرچکا ہو تو وہ سرے سے اہل قبلہ ہی نہیں ہے ۔البتہ جو آدمی زبان کی خرابی کی وجہ سے شہادتین کا اقرار نہ کرسکتا ہویا موت جلد آجانے کی وجہ سے اس کو موقع نہ مل سکا ہو یا کسی اور وجہ سے اقرار نہیں کرسکا تو (وہ مستثنیٰ ہے)وہ مومن شمار ہوگااور اگر کوئی شخص لاالٰہ الااللہ پرہی اکتفاکرتا ہے اور محمدرسول اللہ کا اقرار نہیں کرتا توہمارے اور علماء کے مذہب میں مشہور قول یہی ہے کہ ایسا شخص مسلمان نہیں ہے۔ہمارے کچھ ساتھی کہتے ہیں کہ مسلمان تو ہے البتہ اس سے مطالبہ کیاجائے گا کہ وہ محمد رسول اللہ کی شہادت بھی دے اگر اس نے انکار کردیا تو مرتد ہے اس کی دلیل حضرت انس tسے مروی حدیث سے لی جاتی ہے جس میں رسول ﷺنے فرمایا ہے:مجھے حکم ملا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک قتال کرتا رہوں جب تک وہ لاالٰہ الااللہ نہ کہہ دیں جب یہ کہہ دیں تو مجھ سے اپنا مال اوراپنی جان بچالیں گے مگر اس کے حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ پر ہے (بخاری۔مسلم۔نسائی)۔جمہور کے نزدیک یہ حدیث شہادتین کے اقرار پر محمول ہے (یعنی صرف لاالٰہ کے ذکر سے پورا کلمہ شہادت مراد ہے)ایک کے ذکر سے دوسرے کا ذکر ضروری نہیں ہوتا اس لیے کہ دونوں باہم مربوط ومشہور ہیں (شرح مسلم للنووی:۱/۱۴۹)۔
محمد ﷺکے نبی ورسول ہونے پر رضامندی کی حقیقت یہ ہے کہ آپﷺپرایمان لایا جائے آپ ﷺکی لائی ہوئی خبروں کی تصدیق کی جائے انہیں قبول کیا جائے ان کے آگے سرتسلیم خم کیا جائے اور ان کی لائی ہوئی شریعت وہدایت سے ہی فیصلے کرائے جائیں اب جو شخص محمد ﷺکی لائی ہوئی شریعت واحکام کو قبول نہ کرے یا آپ ﷺکی لائی ہوئی رہنمائی کے بجائے کہیں اور سے رہنمائی لیتا ہے یا نبی ﷺکی شریعت کو پسند نہیں کرتا یا وہ نبی ﷺکی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتا تو وہ نبی ﷺکا منکر ہے ان پر ایمان لانے والاشمار نہیں ہوگا ۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ نے نبیﷺپر ایمان لانے کا مطلب بیان کرتے ہوئے کہا ہے:
اللہ کے نبی ﷺپر ایمان لانے کامطلب یہ ہے کہ ان کی مکمل اطاعت کی جائے انہیں اس طرح تسلیم کیا جائے کہ اپنی جان سے بھی زیادہ انہیں اہمیت دی جائے ہدایت صرف انہی کے دیئے ہوئے کلمات (احکام)سے لی جائے فیصلہ صرف انہی کی طرف لیجایا جائے ان کے حکم کے خلاف کوئی فیصلہ نہ کیا جائے ۔ان کے علاوہ کسی کے حکم کو پسند نہ کیاجائے نہ رب کے اسماء میں نہ صفات وافعال میں نہ دیگر امور مثلاً ایمان کے حقائق و،متعلقات میں نہ احکام ظاہری وباطنی میں نہ ان معاملات میں کسی اور کے حکم کولیاجائے صرف محمدﷺکے حکم کو ہی اپنایا جائے (مدارج السالکین شرح منازل السائرین لابن قیم رحمہ اللہ:۲/۱۱۸)
نبی ﷺکی شریعت کو اپنانے اور آپ ﷺکی شریعت ہی ایمان کے صحیح ہونے کے لیے شرط ہونے کی دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ نے قسم کھاکر فرمایا ہے کہ جب تک کوئی شخص محمدﷺکو فیصلہ کرنے والا آپ ﷺکی شریعت کو ہر معاملے میں فیصلہ کن نہ مان لے وہ مومن نہیں ہوسکتا اور پھر آپ ﷺکی شریعت کو ہر معاملے میں فیصلہ کن نہ مان لے وہ مومن نہیں ہوسکتا اور پھر آپ ﷺکے فیصلے اور شریعت سے اپنے دل میں تنگی بھی محسوس نہ کرے بلکہ اسے دل وجان سے تسلیم بھی کرے :
فَلاَ وَ رَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔(نساء:۶۵)

ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اللہ نے اپنی مقدس ذات کی قسم کھاکر کہا ہے کہ کوئی آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک رسول ﷺکو تمام امور میں فیصلہ کرنے والا نہ مان لے جو فیصلہ رسول ﷺکردیں وہی حق ہے اس کی ظاہری وباطنی طور پر اتباع کرنا ضروری ہے اسی لیے اللہ نے فرمایا ہے:
ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔(نساء:۶۵)
اپنے دلوں میں تنگی محسوس نہ کریں اور اس فیصلے کو مکمل طور پر تسلیم کرلیں ۔
یعنی جب آپ کو فیصلہ کرنے والا مان لیں اور ظاہری کے ساتھ ساتھ باطنی طور پر بھی آپ کی اطاعت کرلیں تو اپنے دلوں میں آپ کے فیصلے سے تنگی محسوس نہ کریں اور اسے بغیر کسی رکاوٹ وتردد کے قبول کرلیں کسی قسم کی مخالفت نہ کریں ۔جیسا کہ حدیث میں آتا ہے:
لایؤمن احدکم حتی یکون ھواہ تبعا لما جئت بہ۔
تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے مطابق نہ ہوجائیں ۔
(تفسیر ابن کثیر:۱/۷۸۷۔بیہقی۔طبرانی۔ابن ابی عاصم فی السنۃ۔ابن بطی فی الأبانۃ۔ قاسم بن عساکر فی طرق الاربعین سب نے عبداﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہماسے روایت کی ہے الفاظ بہیقی کے ہیں )
شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اللہ نے ان لوگوں کے ایمان کی نفی کی ہے جو اپنے امورمیں رسول ﷺکو فیصلہ کرنے والاتسلیم نہیں کرتے اور یہ نفی تاکیداً کی ہے کہ قسم کھا کر حرف نفی ذکرکیاہے۔
فَلاَ وَ رَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔(نساء:۶۵)
تیرے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتے جب تک اپنے اختلافی معاملات میں آپ کو فیصلہ کرنے والانہ مان لیں اور پھر آپ کے فیصلے سے یہ اپنے دل میں تنگی محسوس نہ کریں اسے مکمل طور پر تسلیم کرلیں ۔
اللہ نے صرف اسی بات کو کافی نہیں سمجھا کہ آپ ﷺکو فیصلہ کرنے والاتسلیم کرلیں بلکہ یہ بھی ضروری قرار دیا کہ دل میں اس فیصلے سے تنگی محسوس نہ کریں :ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔بلکہ اسے شرح صدر کے ساتھ بغیر کسی ترشی وتنگی کے قبول کریں۔پھر ان دونوں باتوں پربھی اکتفا نہیں کیا بلکہ تسلیم کرنا اور ان کے حکم کو تسلیم کرنا ضروری و لازمی قرار دیا ہے۔تسلیم کرنے کا مطلب ہے آپ ﷺکے حکم کی اطاعت اس طرح کرنا کہ دل ہر قسم کی دیگر اطاعتوں سے خالی ہواور اس حق کو مکمل طور پر اپنالیا جائے ۔اسی لیے اللہ نے اس کے لیے تاکیدی الفاظ استعمال کیے ہیں کہ تسلیم کرنا نہیں بلکہ مکمل ومطلق تسلیم کرنا مراد ہے (رسالہ تحکیم القوانین لمحمد بن ابراہیم آل شیخ رحمہ اللہ :۶/۸)۔
شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں :
مسلمانو،اپنے تمام ممالک میں نظر دوڑا کر دیکھ لو تمہارے استعماری دشمنوں نے تمہارے ساتھ کیا کیاہے کہ مسلمانوں پر ایسے قوانین مسلط کردیئے ہیں جو گمراہی ،بداخلاقی اور بے ادبی پھیلانے کا سبب ہیں یہ قوانین ہیں انگریز کے قوانین جن کی بنیاد کسی شریعت و دین پر نہیں ہے۔بلکہ ان اصولوں پر ان کی بنیاد ہے جو ایسے کافر نے وضع کیے تھے جس نے اپنے وقت کے نبی جناب عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے سے انکارکیا تھا اور اپنی بت پرستی پر ہی برقرار رہا اور فسق وفجور کا مرتکب بنارہااس آدمی کانام گوڈستنیان تھا جو ان قوانین کا موجد ہے مصر کے ایک نام نہاد مسلمان نے جو مصر کے اہم ترین لوگوں میں شمار ہوتا تھا اس نے اس فاسق فاجر گوڈستنیان کے بنائے ہوئے قوانین کا عربی میں ترجمہ کیا اسے گوستنیان کا مدونہ قرار دیا اور امام دارالہجرۃ امام مالک رحمہ اللہ کی کتاب جو کہ قرآن وسنت کے دلائل پرمبنی فقہی مسائل سے متعلق تھی اس کا مذاق اڑایا ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ آدمی کتنا جھوٹا ہے ۔بلکہ بے شرم وجاہل ہے مسلمانوں پر ایسے دشمنان اسلام نے جو قوانین مسلط کیے ہوئے ہیں وہ دراصل ایک علیحدہ دین ہے جو دین اسلام کے متبادل کے طور پر مسلمانوں کو تھمادیا گیا ہے ان دشمنوں نے مسلمانوں پر (قوانین کے نام پر)اس دین کی اطاعت واجب قرار دیدی ہے اور اس کی محبت اور تقدس ان کے دلوں میں بٹھادیا ہے مسلمانوں کو اس کے تحفظ کا پابند کردیا گیا ہے اسی لیے تو اکثر تحریری وزبانی طور پر لوگوں سے اس قانون کے احترام کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے مثلاً عدالت کا احترام یا (توہین عدالت کا قانون)حالانکہ اس طرح کے تقدیسی الفاظ شریعت اسلامی کے لیے استعمال نہیں کرتے نہ ہی مسلمان فقہاء کی آراء کے لیے ایسے الفاظ ادا کرتے ہیں بلکہ شریعت یا اقوالِ فقہاء کو تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ جمود کا شکار ہیں ،رجعت پسند ہیں یاکہتے ہیں کہ ان باتوں کا اب دور گزرچکا ہے جیسا کہ آج کل بہت سے رسائل وجرائد میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہ بت پرست کے پیروکار کن کن الفاظ والقاب سے شریعت اسلامی کا تذکرہ کرتے ہیں ؟اس کے علاوہ یہ لوگ ان انگریزی قوانین کو فقہ وشریعت قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ لفظ صرف شریعت اسلامیہ کے لیے مستعمل ہیں اس سے بھی بڑھ کر ان کی جراء ت اب یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ یہ لوگ ان خودساختہ قوانین کا موازنہ شریعت اسلامیہ سے کرنے لگے ہیں ۔یہ جو نیا قانون اور قواعد وضوابط ہیں جن سے مسلمان اپنے فیصلے کرواتے ہیں اور اکثر مسلم ممالک میں رائج ہیں اگر کبھی ان کے کچھ قوانین شریعت اسلامی کے ساتھ موافقت بھی رکھتے ہوں تو پھر بھی یہ قانون باطل ہے اس کو اپنانا (شریعت سے)بغاوت ہے۔اس لیے کہ ان میں سے جو قانون شریعت کے مطابق اگر آبھی جائے تووہ اتفاقاً ایسا ہوتا ہے باقاعدہ شریعت کی اتباع کرتے ہوئے نہیں بنایاگیا ہوتا ہے نہ ہی اللہ کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے یا اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہوئے بنایا ہوا ہوتا ہے ۔لہٰذا خودساختہ قانون چاہے شریعت کے موافق یا مخالف ہو دونوں صورتوں میں گمراہی ہے اور اس کی پیروی کرنے والا جہنم میں جائے گا کسی مسلمان کے لیے اس کی اطاعت واتباع اور اس پر راضی ہونا جائز نہیں ہے (عمدۃ التفسیر مختصر ابن کثیر لاحمد شاکر ۳/۲۱۴-۲۱۵)۔

یہ تمام گزشتہ تفصیلات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جو شخص اللہ ورسول کے پاس فیصلہ نہیں لیجاتا یا اللہ ورسول ﷺکے فیصلے اور حکم کو پسند نہیں کرتا بلکہ کسی اور کے حکم کے مطابق فیصلہ کرتا ہے تو یہ شخص نہ اللہ کو رب مانتاہے نہ اسلام کو دین مانتا ہے نہ محمدﷺکو رسول مانتاہے یہ مومن نہیں ہے۔
 

بنت حوا

مبتدی
شمولیت
مارچ 09، 2013
پیغامات
95
ری ایکشن اسکور
246
پوائنٹ
0
یہ تمام گزشتہ تفصیلات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جو شخص اللہ ورسول کے پاس فیصلہ نہیں لیجاتا یا اللہ ورسول ﷺکے فیصلے اور حکم کو پسند نہیں کرتا بلکہ کسی اور کے حکم کے مطابق فیصلہ کرتا ہے تو یہ شخص نہ اللہ کو رب مانتاہے نہ اسلام کو دین مانتا ہے نہ محمدﷺکو رسول مانتاہے یہ مومن نہیں ہے۔
میرا سوال اس جگہ پھر وہی ہے۔۔۔
اس میں حنفی حضرات آئیں گے یا ان کو زرداری صاحب کی طرح استشناء حاصل ہے؟
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
یہ تمام گزشتہ تفصیلات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جو شخص اللہ ورسول کے پاس فیصلہ نہیں لیجاتا یا اللہ ورسول ﷺکے فیصلے اور حکم کو پسند نہیں کرتا بلکہ کسی اور کے حکم کے مطابق فیصلہ کرتا ہے تو یہ شخص نہ اللہ کو رب مانتاہے نہ اسلام کو دین مانتا ہے نہ محمدﷺکو رسول مانتاہے یہ مومن نہیں ہے۔
میرا سوال اس جگہ پھر وہی ہے۔۔۔
اس میں حنفی حضرات آئیں گے یا ان کو زرداری صاحب کی طرح استشناء حاصل ہے؟
بنت حوا کے سوال کے جواب کے ساتھ اگر ایک اور سوال کا جواب بھی دیتے جانا تو بھلا ہوگا۔۔آپ نے فرمان جاری کیا کہ
یہ مومن نہیں ہے۔
چلو مان لیا آپ کی بات کو ۔۔۔ لیکن اس مومن نہیں کا قتل کس دلیل سے ہمارے اوپر کرنا فرض ہوجاتا ہے؟
 
Top