• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کے حکم پر راضی ہونے کا ربوبیت سے تعلق

شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
اللہ کے حکم پر راضی ہونے کا ربوبیت سے تعلق

اللہ کے احکام پررضامندی اور اس کے احکام کے مطابق فیصلہ ایمان کی شروط میں سے ہے ۔یہ ایسا اصول ہے کہ اس کے بغیر ایمان صحیح قرار نہیں دیا جاسکتا ۔اللہ کو تسلیم کرلینے سے انسان پر یہ لازم ہوجاتا ہے کہ اس کے فیصلوں اور مقرر کردہ تقدیر اس کی شریعت واحکام پر راضی رہے ۔اس لیے کہ تخلیق اور امر ربوبیت کی اہم ترین خصوصیت ہے ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ تَبَارَکَ اﷲُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ۔(اعراف:۵۴)
باخبر رہوکہ اسی (اللہ)کاکام ہے پیدا کرنا اور حکم کرنا بابرکت ہے اللہ جو تمام جہانوں کا رب ہے۔

فرعون نے جب موسیٰ علیہ السلام سے رب کے بارے میں سوال کیا کہ :
فَمَنْ رَّبُّکُمَا یٰمُوْسٰی۔ (طٰہ:۴۹)
تمہارا رب کون ہے ؟

توموسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا:
رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰی کُلَّ شَیْئٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی۔ (طٰہ:۵۰)
ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز پیدا کی اور پھر اس کی رہنمائی کی ہے۔

اللہ نے ہی تمام لوگوں کو پیدا کیا ہے لہٰذا شریعت وہدایت اور احکام بھی وہی دے گا ۔رب کی صفت ابراہیم علیہ السلام نے یوں بیان کی ہے :
الَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَہُوَ یَہْدِیْنِ۔(شعراء:۷۸)
جس نے مجھے پیدا کیا ہے وہی مجھے ہدایت دے گا۔

انسانیت کی تاریخ کے مختلف ادوار میں جب بھی کسی نے خدائی کا دعویٰ کیا ہے تو تخلیق ،موت ،زندگی یا تدبیردنیا کا دعویٰ بہت کم کسی نے کیا ہوگاورنہ زیادہ تر لوگوں نے امور شرعیہ میں خدائی کے دعوے کیے ہیں جیسے فرعون نے اپنی قوم کو مخاطب کرکے کہا تھا :
مَآ اُرِیْکُمْ اِلَّا مَآ اَرٰی وَ مَآ اَہْدِیْکُمْ اِلَّا سَبِیْلَ الرَّشَادِ۔(غافر:۲۹)
میں تمہیں وہی سمجھاتا ہوں جو خود سمجھتا ہوں اور میں تمہیں صرف ہدایت کا راستہ ہی دکھاتا ہوں۔

سابقہ امتوں نے اپنے انبیاء کی دعوت بھی اسی وجہ سے ٹھکرائی تھی کہ ان کے خیال میں انبیاء کی دعوت ان سے باپ دادا سے منقول چلے آنے والے دستور اور قانون کو چھڑاتے تھے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَ اِذَا قِیْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اﷲُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَآ اَلْفَیْنَا عَلَیْہِ ٰابَآئَنَا۔(بقرہ:۱۷۰)
جب ان سے کہاجاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ (دین)کی پیروی کرو تو یہ کہتے ہیں ہم تو اس کو مانیں گے جس پر ہم نے اپنے آباء واجداد (کو عمل کرتے)پایا ہے۔

قدیم وجدید جاہلیت میں کتنی مماثلت ومشابہت پائی جارہی ہے ؟جدید تہذیب کہیں یا جاہلیت اس نے کتنے مقامات پراللہ کے احکام وشرائع میں اللہ سے تنازع کیا ہے جس طرف بھی نظر اٹھا کر دیکھاجائے فرعون کی طرح بہت سے الٰہ نظر آئیں گے جو خود کو قانون بنانے کا اہل قرار دیتے ہیں اور فرعون ہی کی طرح لوگوں کو یہ کہتے ہیں کہ ہم تمہیں صحیح راستہ دکھارہے ہیں اور ہم جو بہتر سمجھتے ہیں تمہیں وہی بتاتے ہیں ۔جدید جاہلیت میں آخری فیصلہ قوم کے (لوگوں )کاہی ہوتا ہے ۔جس چیز کا فیصلہ قوم (اسمبلی)جو فیصلہ کرلے وہ ہر حکم اور فیصلہ سے بڑھ کر ہوتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے حکم سے بھی ۔یہی نظام اسلام کے دعویدار بہت سے ممالک میں رائج ونافذ ہے۔حالانکہ وہ کفریہ جمہوریت یا اشتراکیت پر ہی اعتماد کرتے ہیں اور دن رات یہی راگ الاپتے ہیں کہ جمہوریت یا اشتراکیت کے بغیر چارہ نہیں ہے ۔ یہ اللہ اور اس کے دین کا صریح انکار ہے۔توحید ربوبیت صرف اس صورت میں ثابت ہوتی ہے جب اللہ کو تخلیق اور امر میں اکیلا ماناجائے اور اسی کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کیا جائے اسی کے قانون کو تمام قوانین سے بالاتر مانا جائے ۔ حلال وہی ہے جسے اللہ نے حلال کہا ہواور حرام وہی ہے جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہو۔جو شخص اللہ کی شریعت کے علاوہ کسی اور قانون کو انسانوں کے لیے جائز سمجھے وہ کافر مشرک ہے وہ اللہ کی خاص ترین صفات اس سے چھیننا چاہتا ہے ۔اللہ نے یہود کے بارے میں یہ فرمایا ہے کہ :
اِتَّخَذُوْآ اَحْبَارَہُمْ وَ رُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ۔
انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر علماء درویشوں کو رب بنالیا ہے۔

یہ رب بنانا اس طرح نہیں تھا کہ یہ لوگ علماء کو خالق ۔رازق یا زندگی اور موت کا مالک مانتے تھے بلکہ انہوں نے ان علماء کو حلال وحرام قرار دینے کا مجاز مان لیا تھاانہیں قانون ساز تسلیم کرلیا تھا تو اللہ نے فرمایا کہ ان کو انہوں نے رب بنالیا ہے (توبۃ:۱۳)۔اللہ کو رب ماننے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی حاکمیت کوتسلیم کرلیاجائے اور اس کے قانون کو تمام قوانین پر فوقیت دی جائے ۔اس کے ان احکامات کو مطلقاً مان لیا جائے جو اس کے رسول لائے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ کے اس دین کے پاس فیصلے لیجائے جائیں جو اس نے اپنے رسول ﷺپرنازل کیا ہے اوراس تسلیم میں شک وتردد نہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ اللہ نے تحلیل وتحریم کو اپنے لیے جائز ماننے والوں کے بارے میں کہا ہے کہ یہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور رب کی آیات کی تکذیب کرتے ہیں اوروں کو اللہ کے برابر قرار دیتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قُلْ ہَلُمَّ شُہَدَآءَ کُمُ الَّذِیْنَ یَشْہَدُوْنَ اَنَّ اﷲَ حَرَّمَ ہٰذَا فَاِنْ شَہِدُوْا فَلاَ تَشْہَدْ مَعَہُمْ وَلاَ تَتَّبِعْ اَہْوَآءَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰٰیتِنَا وَ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ وَ ہُمْ بِرَبِّہِمْ یَعْدِلُوْنَ۔(انعام:۱۵۰)
کہدیجئے اپنے گواہوں کو بلاؤ جو کہتے ہیں کہ اللہ نے یہ حرام کیا ہے اگر یہ گواہی دیں تو آپ ان کے ساتھ گواہی نہ دیں اور ان لوگوںکی خواہشات کی پیروی نہ کریں جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور اپنے رب کے ساتھ (اوروں کو)برابرقرار دیتے ہیں ۔

اس آیت کے ضمن میں سید قطب شہید رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اللہ کا یہ حکم ان لوگوں کے خلاف ہے جو حق حاکمیت کو غضب کرتے ہیں اور اسے قانون سازی کا نام دیتے ہیں ان کے اس دعویٰ کی کوئی حیثیت نہیں ہے کہ وہ جو قانون بنارہے ہیں وہ اللہ کی شریعت کا ہی حصہ ہے اس لیے کہ اس معاملے میں اللہ کے حکم کے بعد کسی کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔اگر ہم یہ سوچیں اور غور کریں کہ اللہ نے یہ حکم ان پر کیوں لگایا ہے ؟ ان کو آخرت کے منکر اور اللہ کے ساتھ برابری پیدا کرنے والا کیوں قرار دیا ہے تو ہمیں سمجھ آجائے گا کہ ہرمسلمان پر اللہ کے احکام اور شریعت کو ماننا لازم ہے ۔ جو لوگ خود قانون بناتے ہیں (اگرچہ اسے اسلامی قانون کہیں)اللہ نے ان کو اپنی آیات کے جھٹلانے والے قرار دیا ہے اس لیے کہ اللہ کی آیات اگر آیات سے مراد کونیہ ہو سب کی سب اس بات پر دلالت کرتی ہیں وہی اللہ اکیلا خالق اورمالک ہے لہٰذا وہ اکیلاہی حاکم اورمتصرف بھی ہے جو شخص اللہ کو حاکمیت میں اکیلا نہیں مانتا وہ اس کی آیات کی تکذیب کرتا ہے۔ اور اگر آیات سے مراد قرآنی آیات ہیں تو پھر وضاحت وصراحت کے ساتھ یہ بات ان آیات سے ثابت ہے کہ انسان پر اپنی زندگی میں اللہ کو حاکمیت میں اکیلاماننا واجب ہے ۔اور اسی کی شریعت کو قانون کے طور پر اپنانالازم ہے ۔اور اسی کی شریعت اور احکام کی پیروی ان پر واجب ہے ۔ان لوگوں پراللہ نے یہ حکم لگایا ہے کہ یہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اس لیے کہ جو شخص آخرت پر ایمان رکھتا ہو اپنے رب سے ملاقات پر یقین رکھتا ہووہ کبھی بھی اللہ کی الوہیت میں سرکشی نہیں کرسکتا کبھی بھی خود کوقانون سازنہیں کہہ سکتا یہ جانتے ہوئے کہ قانون بنانا صرف ایک اللہ کا حق ہے ۔انسان کی زندگی میں حاکمیت کا حق صرف اللہ کو ہے یہ حاکمیت جس طرح قضاء وقدر میں ہے اسی طرح شریعت وحکم میں بھی ہے ۔پھر آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ یہ لوگ اپنے رب کے ساتھ برابری کرتے ہیں یعنی اللہ نے ان کی وہ صفت بیان کی جو اس نے کافروں کی بیان کی ہے۔اگر یہ لوگ موحد ہوتے تو کبھی بھی حاکمیت میں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے جو کہ صرف اللہ کا ہی حق ہے ۔نہ ہی کسی بندے کے اس دعوائے قانون سازی کو قبول کرتے اور نہ ہی اس حق کے استعمال کرنے پر راضی ہوتے (فی ظلال القرآن:۳/۱۲۲۸)۔
 
Top