• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کے حکم پر عدم رضامندی یا اس سے اعراض یا غیر اللہ کی طرف فیصلہ لے جانے کا ارادہ یا عملاًفیصلہ لی

شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
اللہ کے حکم پر عدم رضامندی یا اس سے اعراض یا غیر اللہ کی طرف فیصلہ لے جانے کا ارادہ یا عملاًفیصلہ لیجاناکفرہے

جس نے غیر اللہ کو اطاعت مطلق کا حق دیدیا اس نے غیر اللہ کو اللہ کا شریک بنالیا۔ جو شخص اللہ ورسول ﷺکے حکم پر راضی وخوش نہیں ہوتا وہ کافر مرتد ہے۔چاہے وہ اپنی اس عدم رضامندی کازبان سے اقرار کرے یا نہ کرے ۔جب اسے اللہ کے حکم کی طرف بلایا جائے جو اعراض کرتا ہے یا اللہ ورسول ﷺکے علاوہ کسی اور کی طرف فیصلہ لیجائے یا جاہلیت کے حکم سے فیصلہ کروائے یہ سب کفر ہے جو دین سے خارج کردینے والا ہے حکم وتشریع کے مسئلہ میں یہ دوسری بنیاد وسبب ہے اس کے دلائل جو پہلے ذکر ہوچکے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں :
1 اللہ کا فرمان ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اﷲِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلاً، اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّہُمْ ٰامَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَ مَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْآ اِلَی الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْآ اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّہُمْ ضَلٰلاً بَعِیْدًا، وَ اِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اﷲُ وَ اِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا فَکَیْفَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْہِمْ ثُمَّ جَآءُ وْکَ یَحْلِفُوْنَ بِاﷲِ اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّا اِحْسَانًا وَّ تَوْفِیْقًا،اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَعْلَمُ اﷲُ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ فَاَعْرِضْ عَنْہُمْ وَ عِظْہُمْ وَ قُلْ لَّہُمْ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَوْلاً بَلِیْغًا، وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اﷲِ وَ لَوْ اَنَّہُمْ اِذْ ظَّلَمُوْآ اَنْفُسَہُمْ جَآءُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اﷲَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اﷲَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا، فَلاَ وَ رَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(نساء:۵۹-۶۵)
ایمان والو،اللہ کی اطاعت کرو اور رسول(ﷺ) کی اور اولی الامر کی اگر تمہارے درمیان کوئی اختلاف ہوجائے تو اسے اللہ ورسول کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہویہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی اچھا ہے کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس پر ایمان لائے ہیں جو آپ ﷺکی طرف اور آپ سے قبل نازل ہوا ہے اور چاہتے ہیں کہ فیصلے طاغوت کی طرف لیجائیں حالانکہ انہیں طاغوت سے انکار کا حکم دیا گیا ہے۔شیطان چاہتاہے کہ انہیں دور کی گمراہی میں ڈال دے تیرے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے اختلافی معاملات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں اور پھر آپ کے کیے ہوئے فیصلہ سے یہ اپنے دلوں میں تنگی محسوس نہ کریں اورمکمل طور پر تسلیم کرلیں ۔

ان آیات میں اللہ نے مومنوں کو حکم دیا ہے کہ اللہ ورسول ﷺکی مطلق اطاعت کریں اور اولی الامر وعلماء کی اطاعت شریعت کی اطاعت سے مشروط کرکے کیا کرو۔اگر حکمران اور عوام کے درمیان کسی بات پر اختلاف ہوجائے تو اس کے حل کے لیے کتاب اللہ وسنت رسول اللہ ﷺکی طرف رجوع کرنا ضروری ہے اللہ نے بتلادیا کہ اللہ ویوم آخرت پر ایمان کا یہی تقاضا ہے ۔پھر اللہ نے ان لوگوں کے دعوائے ایمان پر تعجب کااظہارکیا ہے جو دعویٰ تو اس بات کا کرتے ہیں کہ وہ اللہ اور اس کے نازل کردہ تمام شریعتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور اس دعویٰ کے ساتھ ساتھ وہ فیصلہ طاغوت کے پاس لیجانا چاہتے ہیں کچھ حکمران ایسے بھی ہیں جو اللہ کے احکامات کو تبدیل کرتے ہیں اور غیر اللہ کے احکام کے مطابق فیصلے کرتے ہیں ۔پھر اللہ نے یہ بتایا ہے کہ میں نے ان حکمرانوں اور عوام سب کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ ہرطاغوت کا انکار کریں جس کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہو۔ پھر اللہ نے اپنی قسم کھاکرکہا کہ جب تک اللہ کی شریعت لانے والے محمد ﷺکو تمام چھوٹے بڑے تنازعات میں فیصلہ کرنے والا تسلیم نہ کرلیں اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے اور پھر اس فیصلے سے کسی کے دل میں تنگی بھی نہ ہویعنی اس کے ساتھ مکمل رضامندی اللہ کے حکم کو مطلق تسلیم کرنا بھی ہے جو اللہ ورسول ﷺکے پاس فیصلہ نہیں لے جاتا تو وہ مومن نہیں ہے۔اور جس کے دل میں اس فیصلہ سے تنگی اور حرج ہو وہ بھی مومن نہیں ہے اور اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اللہ ورسول ﷺکے فیصلے پرراضی نہ ہوجائے اور اللہ ورسول کے حکم کومکمل طورپر تسلیم نہ کرلے ۔

ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ :
تمام تنازعات واختلافات کتاب اللہ وسنت رسول اللہ کی طرف لوٹادیں اپنے اختلافی امور میں ان سے فیصلہ لیں {اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِر}اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جو تنازعہ میں کتاب اللہ وسنت رسول اللہ کی طرف رجوع نہیں کرتا وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتا اس کے بعد کی آیت {ضَلٰلاً بَعِیْدًا}تک اللہ کی طرف سے ان لوگوں پر ردّ ہے جو رسول eﷺاور ان سے پہلے والے انبیاء پرنازل ہونے والے دین پرایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں اور فیصلہ کتاب اللہ وسنت رسول اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف لیجانا چاہتے ہیں ۔اس آیت کے شان نزول کے بارے میں آتا ہے کہ ایک یہودی اور ایک انصاری کے درمیان تنازعہ ہوا تو یہودی نے کہا کہ محمدﷺکے پاس چلتے ہیں جبکہ انصاری نے کہا کہ کعب بن اشرف کے پاس جاتے ہیں (نعوذباللہ)بعض نے کہا کہ یہ آیت منافقوں کے ایک گروہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو بظاہر اسلام کا دعوے دار تھا ۔ یہ چاہتے ہیں کہ جاہلیت کے حکم کے پاس فیصلے لیجائیں آیت کامفہوم عام ہے ہر اس شخص کی مذمت مقصود ہے جو اللہ ورسول ﷺکے حکم سے روگردانی کرتا ہے اور ان کے علاوہ باطل کے پاس فیصلہ لے جاتا ہے یہان طاغوت سے یہی مراد ہے۔اللہ نے قسم کھاکر فرمایا ہے کہ جب تک تمام معاملات میں محمد ﷺکو حکم نہ مان لیا جائے اس وقت تک کوئی مومن نہیں ہوسکتا جو فیصلہ محمدﷺ کردیں وہی حق وسچ ہے اسے ظاہراًوباطناً ماننا ہوگا۔
اسی لیے فرمایا ہے کہ {ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا}یعنی جب آپ ﷺکو حکم بنالیں تو پھر باطنی طور پر اپنے دلوں میں تنگی بھی محسوس نہ کریں اور ظاہری وباطنی دونوں طرح اسے تسلیم کرلیں جیسا کہ حدیث بھی ہے کہ جب تک کسی کی خواہشات میری شریعت کے تابع نہ ہووہ مسلمان نہیں ہوسکتا ۔(ابن کثیر:۱/۷۸۶-۷۸۷)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
دین وشریعت کے فیصلہ پر رضامندی واجب ہے یہ دین اسلام کی بنیاد اور ایمان کی جڑ ہے ۔بندے پرواجب ہے کہ اس پر بلاحرج واختلاف کے راضی ہواس لیے کہ اللہ کا فرمان ہے :فَلاَ وَ رَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْن…اللہ نے قسم کھا کر کہا ہے کہ جب تک رسول ﷺکو فیصلہ کرنے والا تسلیم نہ کرلیں اور جب تک دلوں سے تنگی دور نہ کرلیں مومن نہیں ہوسکتے تحکیم اسلام اور دل سے تنگی ختم کرنا ایمان ہے اورتسلیم کرنا احسان ہے۔(مجموع الفتاوی:۲/۱۹۲)
شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ رحمہ اللہ اپنے رسالہ تحکیم القوانین میں کہتے ہیں:
واضح اور کھلاکفر اکبر یہ ہے کہ لعین کے قانون کو روح الامین کے نازل کردہ قانون کے مقام پر رکھ دیا جائے اور اختلافات میں اس کی طرف جایا جائے یہ اللہ کے فرمان کی مخالفت ہے اس لیے کفر اکبر ہے ۔اللہ کا فرمان ہے:فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اﷲِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلاً۔اللہ نے اس آدمی کے ایمان کی نفی کی ہے جو اختلاف کے وقت محمد ﷺکو فیصلہ کرنے والا تسلیم نہیں کرتا اور یہ نفی بھی قسم کے ذریعے موکد بنادی گئی ہے کہ :فَلاَ وَ رَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(نساء:۵۹-۶۵)۔اللہ نے صرف محمدﷺکی تحکیم پراکتفانہیں کیا بلکہ کہا کہ مکمل طور پر تسلیم کرلیں ۔فرماتے ہیں پانچواں بہت ہی بڑا ہے شریعت سے دشمنی کرنے اس کامقابلہ کرنے اور اللہ ورسول کی مخالفت کے لحاظ سے اور شرعی احکام کو ختم کرنے ،اس سے دشمنی کرنے ،مراجع و مسندات کے لحاظ سے جس طرح کہ شرعی احکام کے مراجع ہیں سب کا مرجع کتاب اللہ وسنت رسول اللہ کی طرف ہے جبکہ ان دیگر فیصلوں کا مرجع وبنیاد مختلف قوانین کا مجموعہ ہے جیسا کہ فرانسیسی ،برطانوی اور امریکی قوانین اور کچھ ایسے بدعتی لوگوں کی آراء جو خود کو مسلمان کہتے ہیں ۔اکثر اسلامی ممالک میں جو عدالتیں ہیں جن کے دروازے ہر وقت کھلے ہیں اور لوگ بھی ان کی طرف بھاگے جارہے ہیں ان عدالتوں میں کتاب وسنت کے خلاف فیصلے ہورہے ہیں اور ان میں یہ مخلوط قوانین کا مجموعہ رائج ہے اس سے بڑا کفر اب کون سا ہوسکتا ہے اور لاالٰہ الااللہ محمد رسول اللہ کی مخالفت سے بڑی مخالفت اور کون سی ہوسکتی ہے۔جتنے بھی ذہین وعقلمند گروہ ہیں وہ کیسے برداشت کرتے ہیں کہ ان پر انہی جیسے یا ان سے کم تر عقل والوں کے قوانین لاگو کیے جائیں ؟جن کی غلطیاں ان کے صحیح کاموں سے زیادہ ہیں ان کے جتنے بھی فیصلے ہیں ان میں صحیح صرف وہی ہیں جو اللہ ورسول کے احکام سے اخذ کیے گئے ہیں کیا انہیں اختیار دیا جاسکتا ہے کہ وہ لوگ جانوں اور مالوں کے فیصلے کریں اور اللہ ورسول ﷺکے احکام کو چھوڑ دیا جائے جن میں غلطی کی کوئی گنجائش وامکان نہیں ؟اس لیے کہ وہ اللہ کے نازل کردہ ہیں ۔اللہ کے احکامات کی تابعداری اپنے خالق کی اطاعت ہے جس طرح سجدہ صرف اللہ کے لیے کرنا ہے عبادت صرف اسی کی کرنی ہے مخلوق کی نہیں اسی طرح حکم بھی صرف اللہ کا ماننا ہے کسی اور کا نہیں اس لیے کہ ان لوگوں کے بنائے ہوئے قوانین میں ظلم ،جہالت،شکوک ،شبہات،جھکاؤ،غلطیاں اور خواہشات کی پیروی پائی جاتی ہے لہٰذا عقلمندوں کو چاہیے کہ وہ ا س طرح کے قوانین سے اجتناب کریں اس لیے کہ تمام مذکورہ خرابیوں کے ساتھ ساتھ کفر بھی ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے :وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ(مائدہ:۴۴)جو اللہ کے نازل کردہ دین کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہ کافر ہیں ۔(تحکیم القوانین :۸-۱۰)
سید قطب شہید رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اس آیت میں اللہ نے مسلم جماعت کے لیے جوسیاسی نظام دیا ہے اور حکومت کی بنیاد لی ہے اس کا ماخذ صرف اللہ کی ذات ہے ۔انسان کی پوری زندگی میں بڑے یا چھوٹے جتنے بھی امور ہوں ان میں حاکمیت صرف اللہ کی ہے اللہ نے شریعت بنائی ہے اسے قرآن میں رکھ کر پیغمبر ﷺکے ذریعے لوگوں کے پاس بھیجا ہے تاکہ وہ اس کی وضاحت کردیں آپ ﷺکی سنت اللہ کی شریعت ہے ۔جہاں تک اولی الامر کی بات ہے تو ان کے لیے ضروری ہے کہ ان میں اسلام وایمان ہوان کی اطاعت اللہ ورسول ﷺکی اطاعت سے مشروط ہے اور اس بات سے کہ وہ تشریع وحاکمیت صرف اللہ کے لیے مانتے ہوںاور اپنے متنازعہ معاملات میں اسی کی رجوع کرتے ہوں یہ آیت اللہ ورسول ﷺکی اطاعت کو بنیاد بناتی ہے اور اولی الامر کی اطاعت ان دونوں کی اطاعت کے تابع رکھتی ہے اس لیے ایمان کی قید وشرط لگاتی ہے ۔(الظلال:۲/۲۹۰-۲۹۱)
 

بنت حوا

مبتدی
شمولیت
مارچ 09، 2013
پیغامات
95
ری ایکشن اسکور
246
پوائنٹ
0
جس نے غیر اللہ کو اطاعت مطلق کا حق دیدیا اس نے غیر اللہ کو اللہ کا شریک بنالیا۔ جو شخص اللہ ورسول ﷺکے حکم پر راضی وخوش نہیں ہوتا وہ کافر مرتد ہے۔چاہے وہ اپنی اس عدم رضامندی کازبان سے اقرار کرے یا نہ کرے ۔جب اسے اللہ کے حکم کی طرف بلایا جائے جو اعراض کرتا ہے یا اللہ ورسول ﷺکے علاوہ کسی اور کی طرف فیصلہ لیجائے یا جاہلیت کے حکم سے فیصلہ کروائے یہ سب کفر ہے جو دین سے خارج کردینے والا ہے
محمد سمیر بھائی۔۔اس میں وہ تمام دیوبندی حضرات بھی آئیں گے نہ۔۔جنہوں نے اللہ کی شریعت کو جاننے کے باوجود ایک الگ فقہ حنفی بنا لی۔اور آج تک قرآن و سنت کے دلائل واضح ہونے کے باوجود اپنی فقہ حنفی سے چمٹے ہوئے ہیں۔
یہ سب حضرات کافر،مشرک ہیں نہ؟؟؟
براہ مہربانی وضاحت فرما دیں۔
جزاک اللہ خیرا
 
Top