• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کے سچے ولیوں کی پہچان

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
بعض لوگ توحید و سنت کے علمبرداروں اور خالص قرآن و حدیث کے پیروکاروں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ "اولیائے کرام"کی تعظیم نہیں کرتے ،انہیں مانتے نہیں اور یہ کہ ان کی گستاخی کرتے ہیں۔میں نے ان الزامات کو سامنے رکھتے ہوئے تحقیق کی ہے اور یہ تحقیق اللہ کی کتاب "قرآن" سے کی ہے۔اللہ کی کتاب نے اٹھاسی (88) مقامات پر "ولی" "اولیاء" اور "ولایت" کے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔اس طرح اولیائے کرام کے لیے بارہ (12) مقامات پر اللہ کی کتاب نے (لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ )کے جملہ کو استعمال فرمایا ہے۔ہم وہ پوری پوری آیات کہ جن کا اختتام مذکورہ بالا جملے پر ہوتا ہے ،وہ درج کر کے واضح کریں گے وہ کون سے "اولیائے کرام" ہیں ،کون سی صفات کے حامل ہیں کہ جن کے لیے بارہ مقامات پر اس جملے کو استعمال کیا گیا ہےاو یہ کہ ان کو ماننے کا مطلب کیا ہے؟انہیں کیا مانا جائے اور کیا نہ مانا جائے ،ان کی عزت کیا ہے اور توہین کس طرح سے ہوتی ہے؟اوریہ کہ عزت کرنے والے کون ہوتے ہیں اور توہین کرنے والے کون۔۔۔؟؟
ان ساری باتوں کا جواب ہم اللہ تعالیٰ کی کتاب سے لیتے ہیں کہ جس لاریب کتاب "قرآن حکیم"نے سو (100)دفعہ مختلف پیرائے میں اولیائے کرام کا تذکرہ کیا ہے۔
قارئین کرام!ذرا غور کیجیے کہ اگر آپ نوجوان ہیں تو کئی بار آپ کے ساتھ ایسا ہوا ہو گا کہ کسی بزرگ نےآپ کو بیٹا کہہ دیا۔اب اس "بیٹا" کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اس کے حقیقی بیٹے ہیں بلکہ یہ محض شفقت کا انداز ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ بزرگ آپ کے باپ کی عمر کا ہے اور آپ بزرگ کی اولاد کے مقام پر ہیں۔اس کے برعکس اگر کوئی نوجوان ازراہ شرارت آپ کو "بیٹا" کہے تو آپ اسے گالی سمجھیں گے اور اپنی والدہ کی توہین خیال کریں گے ،چنانچہ لڑائی یقینی ہے۔پہلے واقعے پر آپ خوشی ومسرت محسوس کریں گے جبکہ دوسرے موقعے پر آپ غیظ و غضب میں مبتلا ہو جائیں گے ،حالانکہ واقعہ ایک ہی ہے،ظاہری بول ایک ہی ہے لیکن کرداروں کے فرق نے جملے کے مفہوم میں زمین و آسمان کا فرق پیدا کر دیا۔یہی معاملہ"ولی" کا ہے۔ولی کا معنی دوست ہے،اب ایسا دوست کہ جو مشکل وقت میں کام آتا ہے ،نفع و نقصان کا مالک ہے، بندے کی دستگیری کرنے والا اور نگرانی کرنے والا ہےتو ایسا "ولی" صرف اللہ ہے ،اس کے علاوہ کوئی ولی نہیں ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نےفرمایا:
وَمَا لَكُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ مِن وَلِىٍّۢ وَلَا نَصِيرٍ ﴿107﴾
ترجمہ: اور تمہارے لیے الله کے سوا نہ کوئی دوست ہے نہ مددگار (سورۃ البقرۃ،آیت 107)
قارئین کرام! یقینا مذکورہ معنوں میں اللہ کے علاوہ کوئی ولی نہیں ہے کیونکہ اللہ نے اس بات کو بالکل واضح کر دیا ہے۔دیکھیے حضرت موسی علیہ السلام اپنے اللہ سے کس طرح مخاطب ہو رہے ہیں:
أَنتَ وَلِيُّنَا فَٱغْفِرْ لَنَا وَٱرْحَمْنَا ۖ وَأَنتَ خَيْرُ ٱلْغَٰفِرِينَ ﴿155﴾
ترجمہ: تو ہی ہمارا کارساز ہے سو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے (سورۃ الاعراف،آیت 155)
اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام اپنے اللہ سے یوں مخاطب ہوتے ہیں:
فَاطِرَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ أَنتَ وَلِىِّۦ فِى ٱلدُّنْيَا وَٱلْءَاخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِى مُسْلِمًۭا وَأَلْحِقْنِى بِٱلصَّٰلِحِينَ ﴿101﴾
ترجمہ: اے آسمانو ں اور زمین کے بنانے والے! دنیا اور آخرت میں تو ہی میرا کارساز ہے تو مجھے اسلام پر موت دے اور مجھے نیک بختوں میں شامل کر دے (سورۃ یوسف،آیت 101)
جناب والا!اب اللہ کے آخری رسول ﷺ کا انداز بھی ملاحظہ کیجیے ،آپ (ﷺ) مشرکین مکہ کو توحید کی دعوت دیتے رہتے ،ان کے خودساختہ معبودوں کی بے بسی ثابت کرتے ہوئے انہیں آگاہ فرماتے:
إِنَّ وَلِۦىَ ٱللَّهُ ٱلَّذِى نَزَّلَ ٱلْكِتَٰبَ ۖ وَهُوَ يَتَوَلَّى ٱلصَّٰلِحِينَ ﴿196﴾
ترجمہ: بےشک میرا حمایتی الله ہے جس نے کتاب نازل فرمائی اور وہ نیکو کاروں کی حمایت کرتا ہے (سورۃ الاعراف،آیت 196)
قارئین کرام! آگاہ رہیے!جن معنوں میں صرف اللہ ہی ولی ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا ولی نہیں ہے ،ان معنوں اور مفہوم میں دوسرا کوئی شخص کسی بندے کو "ولی" بنا دے تو یہ اللہ کے ساتھ شرک ہو گا۔مثال کے طور پر مشکل وقت میں صرف اللہ تعالیٰ کو ہی پُکارنا چاہیے ،لیکن اگر کوئی شخص کسی بزرگ بندے کو آواز دیتا ہے کہ وہ میری کشتی کو پار لگائے ،وہ قبر میں پڑا روحانی قوت سے اسے ساحل پر اتارےتو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو چیلنج کے انداز میں سمجھاتے ہیں:
إِنَّ ٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ ۖ فَٱدْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا۟ لَكُمْ إِن كُنتُمْ صَٰدِقِينَ ﴿194﴾
ترجمہ: بے شک جنہیں تم الله کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہیں پھر انہیں پکار کر دیکھو پھر چاہے کہ وہ تمہاری پکار کو قبول کریں اگر تم سچے ہو (سورۃ الاعراف،آیت 194)
قارئین کرام !وہ بندے کہ جنہیں بزرگ،پیر اور ولی مان کر لوگ پکارتے ہیں تو جب ان پکارنے والوں سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے بندو! ان ولیوں کی عبادت مت کرو،اولیائے کرام کو معبود نہ بناؤ تو وہ جھٹ کہہ اٹھتے ہیں :
وَٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُوا۟ مِن دُونِهِۦ أَوْلِيَآءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَآ إِلَى ٱللَّهِ زُلْفَىٰٓ
ترجمہ: جنہوں نے اس کے سوا اور کارساز بنا لیے ہیں ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ وہ ہمیں الله سے قریب کر دیں بے (سورۃ الزمر،آیت 3)
یعنی اولیائے کرام اللہ تعالیٰ اور ہمارے درمیان واسطہ ہیں ،وہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیتے ہیں اور چونکہ وہ خود اللہ کے بہت قریب ہیں اس لیے وہ ہماری مدد بھی فرتے ہیں،اس لیے کہ اللہ ان کی بات کو ر د نہیں کرتااور چونکہ ہم ان کے مرید ہیں اور مردی ہونے کے ناطے وہ ہمارے احوال سے آگاہ بھی ہیں اس لیے ہماری فریاد ان کے آگے ہے اور ان کی اللہ کے سامنے ۔تو ان عقائد پر اللہ تعالیٰ ضرب شدید لگاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
وَمَا كَانَ لَهُم مِّنْ أَوْلِيَآءَ يَنصُرُونَهُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ ۗ
ترجمہ: اور ان کا الله کے سوا کوئی بھی حمایتی نہ ہوگا کہ ان کو بچائے (سورۃ الشوری،آیت 46)
یعنی اسباب کے بغیر مدد کو پہنچنے والا توصرف اللہ ہی ہے ،بندوں میں ایسا کوئی ولی نہیں جو یہ مدد کر سکے مگر جو بھی ولیوں کی پناہ میں آنا چاہتے ہیں ،ولیوں کو سب کچھ سمجھتے ہیں تو پھر دیکھ لیں کہ قرآن کے الفاظ میں ان ولیوں کا ڈیرہ،ان کی پناہ گاہ،ان کا حصار اور قلعہ کس نوعیت کا ہے اور وہ کتنے پانی میں ہے؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَثَلُ ٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُوا۟ مِن دُونِ ٱللَّهِ أَوْلِيَآءَ كَمَثَلِ ٱلْعَنكَبُوتِ ٱتَّخَذَتْ بَيْتًۭا ۖ وَإِنَّ أَوْهَنَ ٱلْبُيُوتِ لَبَيْتُ ٱلْعَنكَبُوتِ ۖ لَوْ كَانُوا۟ يَعْلَمُونَ ﴿41﴾
ترجمہ: ان لوگوں کی مثال جنہوں نے الله کے سوا حمایت بنا رکھے ہیں مکڑی کی سی مثال ہے جس نے گھر بنایا اور بے شک سب گھروں سے کمزور گھر مکڑی کا ہے کاش وہ جانتے (سورۃ العنکبوت،آیت 41)
غور فرمائیے! مکڑی کے جالے کی کیا حیثیت ہے ؟کچھ بھی تو نہیں، یہ تو ایک ایسا کمزور گھر ہے کہ جو نہ آندھی اور طوفان کا مقابلہ کر سکتا ہے اور نہ بارش سے بچاؤ کا کام دے سکتا ہے ،یعنی اس گھر میں کوئی تحفظ نہیں۔اس طرح وہ آستانے اور دربار کہ جہاں لوگ اپنی مشکلات کے لیے جاتے ہیں تو وہ آستانے دربار اور خانقاہیں ایسے لوگوں کا کچھ بھی تحفظ نہیں کر سکتیں جو مشکلات میں پھنس کر یہاں پناہ لینے آتے ہیں تو اس فرمان الہی کی روشنی میں غور و فکر کرنے والوں کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بھلا عنکبوت( مکڑی) اپنے اس جال میں پھانس کر کن کو لے جاتی ہے؟
جناب والا جنہیں یہ شکار کرتی ہے وہ ہیں مکھی اور مچھر ،اب مکھیوں اور مچھروں کا ٹھکانہ کہاں ہیں ؟یہ بھی سوچو! جہاں تک مکھی کا تعلق ہے وہ تو غلاظت اور فضلے پر بیٹھتی ہے اور جو مچھر ہے وہ گندی نالیوں ،جوہڑوں اور متعفن و بدبودار تالابوں میں پرورش پاتا ہے۔چنانچہ متعف و بدبودار جگہ پر بیٹھنے والوں کو عنکبوت صاحب اپنے جال میں پھنسا لیتا ہے اور جو ایک بار پھنس گیا وہ وہیں تھوڑی دیر بعد ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور جو کوئی زندہ رہا ،اس کی قسمت اچھی ہوئی اور کہیں سے اسے مدد مل گئی تو خلاصی ہو جائے گی وگرنہ یہی مرنا ہو گا ۔
تو جناب والا !ہم بھی عنکبوت کے جال پر قرآن کی ضرب لگا رہے ہیں ،قرآن جو کتاب حق ہے ،اس کی ضرب کیسی ہے؟اللہ تعالیٰ تذکرہ فرماتے ہیں:
بَلْ نَقْذِفُ بِٱلْحَقِّ عَلَى ٱلْبَٰطِلِ فَيَدْمَغُهُۥ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌۭ ۚ وَلَكُمُ ٱلْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ ﴿81﴾
ترجمہ: بلکہ ہم حق کو باطل پر پھینک مارتے ہیں پھر وہ باطل کا سر توڑ دیتا ہے پھر وہ مٹنے والا ہوتا ہے او رتم پر افسوس ہے ان باتوں سے جو تم بناتے ہو (سورۃ الانبیاء،آیت 18)
قارئین کرام! اس "ضرب شدید" کا فائدہ یہ ہو گا کہ مکھیوں اور مچھروں کے ساتھ اگر کوئی تتلی راستہ بھول کر یا انجانے میں عنکبوت کے جال میں جا پھنسی ہے تو اسے رہائی دلا کر دوبارہ گلاب کے پھول پر بٹھا دیا جائے ،موسم خزاں سے نکال کر موسم بہار میں لایا جائے ،صوفیوں کے سلسلوں اور سلاسل سے نکال کر کتاب و سنت کی طرف لایا جائے،اسے اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لے آیا جائے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ٱللَّهُ وَلِىُّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ يُخْرِجُهُم مِّنَ ٱلظُّلُمَٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ ۖ وَٱلَّذِينَ كَفَرُوٓا۟ أَوْلِيَآؤُهُمُ ٱلطَّٰغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ ٱلنُّورِ إِلَى ٱلظُّلُمَٰتِ ۗ أُو۟لَٰٓئِكَ أَصْحَٰبُ ٱلنَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَٰلِدُونَ ﴿257﴾
ترجمہ: الله ایمان والوں کا مددگار ہے اور انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے اور جو لوگ کافر ہیں ان کے دوست شیطان ہیں انہیں روشنی سے اندھیروں کی طرف نکالتے ہیں یہی لوگ دوزخ میں رہنے والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے (سورۃ البقرۃ،آیت 257)
یاد رہے! ہر گناہ اندھیرا اور تاریکی ہے جسے ظلم کہا جاتا ہے ،گناہ میں مبتلا ہونے والا ظالم ہے مگر جو شرک کا ظلم ہے اسے اللہ نے "ظلم عظیم" یعنی سب سے بڑا اندھیرا کہا ہے اور شرک کا اندھیرا مچانے والے ظالم ہیں،ان ظالموں کے ہتھے چڑھنے سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ ان ظالموں کی طرف معمولی سا بھی مائل نہیں ہونا۔فرمایا:
وَلَا تَرْكَنُوٓا۟ إِلَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ فَتَمَسَّكُمُ ٱلنَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ مِنْ أَوْلِيَآءَ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ ﴿113﴾
ترجمہ: اوران کی طرف مت جھکو جو ظالم ہیں پھر تمہیں بھی آگ چھوئے گی اور الله کے سوا تمہارا کوئی مددگار نہیں ہے پھر کہیں سے مدد نہ پاؤ گے (سورۃ ھود،آیت 113)
قارئین کرام! اب اللہ تعالیٰ کے فرمان کا ایک اور انداز ملاحظہ کیجیے،کُل مخلوقات کا "ولی" اللہ رب العزت۔۔۔۔۔۔۔اپنے نبی کے ذریعے ان لوگوں کے کان کھول رہا ہے جنہوں نے اللہ کے علاوہ ولی بنا رکھے ہیں۔فرمایا:
قُلْ أَفَٱتَّخَذْتُم مِّن دُونِهِۦ أَوْلِيَآءَ لَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ نَفْعًۭا وَلَا ضَرًّۭا ۚ
ترجمہ: کہو پھر کیا تم نے الله کے سوا ان چیزوں کو معبود نہیں بنا رکھا جو اپنے نفسوں کے نفع اور نقصان کےبھی مالک نہیں (سورۃ الرعد،آیت 16)
اب آخر میں ایک اور اعلان ملاحظہ کیجیے کہ جسے "آیت عزت" (اعلان عزت) کہا جاتا ہے کہ لوگوں نے جو ولی بنا رکھے ہیں ،وہ ان کے بارے میں یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ یہ اولیائے کرام اللہ کے ایسے محبوب ہیں کہ اللہ ان کے کام کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور یہ کہ اللہ نے ان ولیوں کو بعض اختیارات اور طاقتیں سونپ رکھی ہیں یا یہ کہ اللہ اور اس کی مخلوق کے درمیان واسطہ ہیں۔۔۔تو یہ اور اس طرح کی دیگر باتیں اللہ کی عزت اوروقار کے منافی ہیں،اس لیے کہ ان باتوں سے تو اللہ عزوجل کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے اور یہ اس کی بڑی توہین اور گستاخی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ سے اعلان کرواتے ہیں:
وَقُلِ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ ٱلَّذِى لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًۭا وَلَمْ يَكُن لَّهُۥ شَرِيكٌۭ فِى ٱلْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُۥ وَلِىٌّۭ مِّنَ ٱلذُّلِّ ۖ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًۢا ﴿111﴾
ترجمہ: ور کہو کہ سب تعریف اللہ ہی کو ہے جس نے نہ تو کسی کو بیٹا بنایا ہے اور نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے اور نہ اس وجہ سے کہ وہ عاجز وناتواں ہے کوئی اس کا مددگار ہے اور اس کو بڑا جان کر اس کی بڑائی کرتے رہو (سورۃ بنی اسرائیل،آیت 111)
لوگو! اس آیت پر ،اس اعلان پر ،اس فرمان عزت پر بار بار غور کرو اور سوچو اور جواب دو کہ آخر تم نے اللہ میں کیا کمزوری دیکھی ہے کہ ولیوں کو اللہ اور مخلوق کے درمیان واسطہ مان لیا ہے؟کیا اللہ ان واسطوں وسیلوں کے بغیر اپنی مخلوق سے رابطہ نہیں رکھ سکتا؟یقینا وہ بڑا زبردست اور باریک بین ہے ،قوتوں والا ہے،وہ ایسی کمزوروں سے پاک ہے۔لہذا باز آ جاؤ!اور اللہ کے اعلان عزت کے بعد اللہ کے وقار و عزت کے منافی عقیدہ اور گفتگو سے رُک جاؤ۔
اور یاد رکھو!یہ جو لوگوں نے ولایت ولایت کی رٹ لگا رکھی ہے کہ فلاں ولی کو ولایت مل گئی،فلاں ولی کو فلاں چلہ کرنے سے ولایت مل گئی تو لایت کہ ۔۔۔جس کا معنی۔۔۔اقتدار و اختیار ہے،یہ اقتدار و اختیار اُسے کس نے دیا؟کیا اللہ نے دیا؟کیا اللہ اپنے اختیار ان بندوں کے سپرد کر رہا ہے؟کیا وہ غوث،قطب،ابدال اور قیوم کے عہدے بنا کر اپنی بادشاہت ان بندوں کے سپرد کر رہا ہے؟اور کیا وہ خود فارغ ہو گیا ہے؟استغفراللہ،نعوذباللہ،اللہ تعالیٰ کی پناہ ایسے خیالات اور فاسد تصورات سے۔وہ مالک کُل تو فرما رہا ہے:
وَمَا كُنَّا عَنِ ٱلْخَلْقِ غَٰفِلِينَ ﴿17﴾
ترجمہ: اور ہم بنانے میں بے خبر نہ تھے (سورۃ المومنون،آیت 17)
اور جب ہم بے خبر نہیں تو کسی کو ولایت بانٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ:
هُنَالِكَ ٱلْوَلَٰيَةُ لِلَّهِ ٱلْحَقِّ ۚ
ترجمہ: یہاں سب اختیار الله سچے ہی کا ہے (سورۃ الکہف،آیت 44)
قارئین کرام! بھلا کسے معلوم ہے اور کب معلوم ہوا؟جی ! یہ ایک منکر توحید تھا،شرک کرنے والا تھا،اللہ نے اس کے باغ کو تباہ کر دیا تھا۔اس تباہی کے بعد وہ ہاتھ ملتے ہوئے کہنے لگا:
يَٰلَيْتَنِى لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّىٓ أَحَدًۭا ﴿42﴾
ترجمہ: اور کہا کاش میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا (سورۃ الکہف،آیت 42)
اور جناب!پھر اللہ تعالیٰ اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَلَمْ تَكُن لَّهُۥ فِئَةٌۭ يَنصُرُونَهُۥ مِن دُونِ ٱللَّهِ
ترجمہ: اور اس کی کوئی جماعت نہ تھی جو الله کےسوا اس کی مدد کرتے (سورۃ الکہف،آیت43)
جی ہاں ! ثابت شدہ حقیقت یہی ہے کہ ولایت اللہ ہی کے لیے ہے ،کسی دوسرے کے پاس کوئی ولایت نہیں ہے۔
 
Last edited:

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
مومن بھی ولی ہے

قارئین کرام! آپ نے دیکھ لیا کہ جن معنوں اور مفاہیم میں اللہ تعالیٰ نے ولی ہے،ان معنوں میں دوسرا کوئی ولی نہیں ہے ۔باقی مومن بھی ولی ہے مگر وہ ولی ان معنوں میں ہیں کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے کام آنے والے،خوشی اور غمی میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے والے ہوتے ہیں اور سب سے بڑی مددگاری یہ ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت پر قائم رکھتے ہیں۔چنانچہ ان معنوں میں دیکھیے ان اولیائے کرام کی صفات حمیدہ۔۔۔۔کہ وہ ولی کیسے ہوتے ہیں؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَٱلْمُؤْمِنُونَ وَٱلْمُؤْمِنَٰتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍۢ ۚ يَأْمُرُونَ بِٱلْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٰةَ وَيُؤْتُونَ ٱلزَّكَوٰةَ وَيُطِيعُونَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ ٱللَّهُ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌۭ ﴿71﴾
ترجمہ: اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ایک دوسرے کےمددگار ہیں نیکی کا حکم کرتے ہیں اوربرائی سے روکتے ہیں اورنماز قائم کرتے ہیں اور زکواة دیتے ہیں اور الله اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جن پر الله رحم کرے گا بے شک الله زبردست حکمت والا ہے (سورۃ التوبہ،آیت 71)
قارئین کرام! اس فرمان الہی سے معلوم ہوا کہ ولی وہ ہے جو :
1. نیکی کی تلقین کرے۔
2. برائی سے روکے۔
3. نماز قائم کرے۔
4. زکوۃ ادا کرے۔
5. اللہ کی اطاعت کرے۔
6. رسول (ﷺ) کی اطاعت بجا لائے۔
یہ چھ خصوصیات جن میں پائی جائیں وہ ولی ہیں یعنی وہ مومن جو ان خصوصیات کے حامل ہیں وہ ولی ہیں۔قرآن و حدیث میں یہ کہیں نہیں آیا کہ ولی وہ ہوتے ہیں جن سے کرامات کا ظہور ہو اور جھوٹے سچے قصے ان کے بارے میں معروف ہوں۔حیرت ہے کہ آج ولیوں کا ایک پورا گروہ پیدا ہو گیا ہے اور بعض نسل در نسل چلتے ہیں۔باپ مر گیا تو بیٹا گدی نشین بن کر ولی بن گیا پھر پوتا ولی بن گیا،یوں ولیوں کی نسل پیدا ہو گئی ہیں اور ہوتی چلی جا رہیں ہیں۔
یاد رکھیے!ولیوں کے ماننے کا مطلب یہی ہے کہ جو شخص مندرجہ بالا چھ خصوصیات کا حامل ہو،اس کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے کہ وہ اللہ کا ولی ہے ۔باقی ہم کوئی گارنٹی نہیں دے سکتے کہ وہ اللہ کا ولی ہے کیونکہ اللہ اپنے جس بندے کو ولی بنائے گا تو مندرجہ بالا خصوصیات کی بنا پر بنائے گا ۔اس نے کس کو بنایا ہے اور کس کو نہیں بنایا،ہمیں کچھ معلوم نہیں۔اور یاد رکھیے!ہم جس شخص کے بارے میں حسن ظن رکھ کر اسے اللہ کا ولی یعنی اللہ کا دوست سمجھتے ہیں تو اسے ماننے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم دیتا ہے،دوسرے معنوں میں قرآن و حدیث کے احکامات کی روشنی میں وہ ہمیں نیکی کا حکم کرتا ہے اور برائی سے روکتا ہے تو ہم اس کے اس وعظ و نصیحت سے فائدہ اٹھائیں،اس پر عمل کریں،ایسا کرنے والے کی عزت و توقیر کریں اور اس کا احترام کریں۔
لیکن احترام کا مطلب یہ نہیں کہ اسے اللہ کا شریک بنا کر اس کی پوجا کرنے لگ جائیں۔اس کے مرنے کے بعد اس کی قبر کو عبادت گاہ اور میلا گاہ بنا لیں۔اس بات کو ایک دوسرے انداز سے یوں سمجھیں کہ ماں بھی عورت ہے اور بیوی بھی عورت ہے۔ماں کا اس قدر بلند مقام ہے کہ اللہ نے قرآن میں متعدد مقامات پر جہاں اپنی بندگی کا ذکر کیا اس کے فورا بعد ماں باپ کی اطاعت کا تذکرہ کیا۔وجہ یہ ہے کہ اللہ نے بندے کو پیدا کیا تو پیدائش کا سبب ماں باپ کو بنایا۔اللہ نے ان دونوں میں بھی پھر ماں کے مقام کو مقدم رکھا کیونکہ وہ بچے کو نو ماہ تک تکلیف کے باوجود پیٹ میں اٹھائے پھرتی ہے۔اسی لیے اللہ کے رسول ﷺ نے بھی ایک نوجوان کو جو نصیحت کی تو ماں کے اکرام کی بات تین مرتبہ کی جبکہ باپ کا ذکر ایک بار کیا۔اب کوئی نادان یوں کرے کہ بیوی کی محبت میں مبتلا ہو کر اس قدر آگے چلا جائے،اس کی عزت و توقیر میں اس حد تک چلا جائے کہ بیوی کو ماں کہنا شروع کر دے تو کیا ہو گا؟لامحالہ اس کا نکاح خرئے سے دوچار ہو جائے گا ،محض بیوی کو ماں کہنے سے ،اب بیوی کے ساتھ وہ خاص تعلق اور رشتہ کھو بیٹھے گا جو خاوند اور بیوی کا ہوتا ہے۔جناب والا!۔۔۔بالکل اسی طرح اگر کوئی مرید اپنے پیر اور مرشد کی محبت میں مبتلا ہو کر اسے ایسا ولی بنا ڈالے کہ اسے مشکل کشا،داتا اور دستگیر کہنا شروع کر دے تو یقینا اس کا ایمان خطرے میں پڑ جائے گا ،وہ شرک کا مرتکب ہو جائے گا۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ولیوں سے محبت کیجیے

میرے پیارے بھائیو! اللہ کے ولیوں سے محبت کیجیے ،ضرور کیجیے لیکن پہلی بات تو یہ ہے کہ سورہ توبہ میں ولیوں کی دی ہوئی پہچان کوسامنے رکھ کر کسی کو ولی خیال کیجیے اور پھر اس سے محبت کیجیے۔۔۔۔اور اس محبت میں بھی یہ خیال ضرور رکھیے کہ محبت بھی کئی طرح کی ہوتی ہے۔یہ محبت بھی بڑی پاکیزہ ہوتی ہےلیکن یاد رکھیے!بیوی والی محبت ماں سے نہیں کی جا سکتی کہ ماں سے یہ محبت تو سراسر حرام اور ناپاک ہے۔
جی ہاں! بات سمجھیے! جو اللہ سے محبت ہے وہ بحیثیت معبود اور مسجود کے ہے۔اللہ کی محبت میں ڈوب کر بندہ اس کے حضور قیام کرتا ہے ،رکوع میں جاتا ہے،سجدے میں گرتا ہے،اسے پکارتا ہے،ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرتا ہے،رات کے اندھیرے میں بن دیکھے اس کے ساتھ سرگوشیاں کرتا ہے۔یہ عقیدہ رکھ کر کہ وہ میرا اللہ میری ہر حرکت اور میرے ہر بول سے آگاہ ہے،وہ میرے ساتھ ہے،میری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ،وہ عرش پر ہوتے ہوئے بھی اپنے علم کے زور سے ہر بات سے آگاہ ہے۔اب اگر ایسی محبت کا انداز آپ نے کسی اور کے ساتھ اختیا ر کر لیا ،کسی مومن ولی کے ساتھ اختیار کر لیا تو آپ نے ظلم عظیم کر لیا،محبت میں شرک کا ارتکاب ہو گیا،دوسرے لفظوں میں اللہ سے محبت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہی کی عبادت کی جائے اور رسول کریم ﷺ ست محبت کا مطلب آپ ﷺ کی کامل اطاعت ہے۔
جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
من احب سنتى فقد احببنى (تہذییب تاریخ دمشق الکبیر 3/145)
جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے میرے ساتھ محبت کی۔
اسی طرح ولی کے ساتھ محبت کا مطلب ہے کہ اگر وہ کتاب و سنت کا پیروکار ہے تو اس کی نصیحت کو سنا جائے،وہ کتاب و سنت کا مبلغ ہے تو اس کا ساتھ دیا جائے،اس سے تعاون کیا جائے،دین کی سربلندی کے لیے اس کا ساتھی بن کر اپنا مال خرچ کیا جائے،پسینہ بہایا جائے اور خون بھی پیش کرنا پڑے تو وہ بھی پیش کر دیا جائے۔وہ بیمار ہو تو عیادت کی جائے،تحفہ تحائف پیش کیے جائیں کہ اس سے محبت بڑھتی ہے۔ایسے زندہ ولی سے رب کے حضور دعا کرائی جائے۔یہ ہے ولی سے محبت اور اسے ماننا۔بس ماننے ماننے میں فرق ہے،محبت محبت میں فرق ہے۔ہم کہتے ہیں:
• رب کو مانو اور صرف اسی کی عبادت کرو۔
• رسول ﷺ کو مانو اور اس کی اطاعت کرو۔
نیک بندوں کو بندے ہی رہنے دو اور دین کی سربلندی کے لیے ان کا ساتھ دو اور اگر وہ فوت ہو چکے ہیں تو ان کے لیے بخشش کی دعا کرو اور ان کے وہ اچھے کام جو کتاب و سنت کے مطابق تھے،انہیں اختیار کرو۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
خوف اور غم

ان صفات کے حامل جو اللہ کے ولی یعنی دوست ہیں ،ان کے بارے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ایک دو بار نہیں بارہ مقامات پر (لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ)کا اعلان فرمایا ہے۔لوگ تو صرف ایک آیت پڑھتے ہیں:
أَلَآ إِنَّ أَوْلِيَآءَ ٱللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿62﴾
ترجمہ: خبردار بے شک جو الله کے دوست ہیں نہ ان پر ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے (سورۃ یونس ،آیت 62)
اور پھر ہم پر الزامات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں کہ جناب لو دیکھو! یہ تو اولیائے کرام کو مانتے ہی نہیں۔جی ہاں ! ہم مانتے ہیں مگر اس طرح نہیں کہ جس طرح آپ منوانا چاہتے ہیں ۔ہم مانتے ہیں اس طرح جس طرح رب کا قرآن منواتا ہے۔تو آئیے ! ایک نہیں بارہ مقامات دیکھیے اور غور کیجیے کہ قرآن کس طرح منواتا ہے؟فرمایا:
پہلا مقام
فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّى هُدًۭى فَمَن تَبِعَ هُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿38﴾
ترجمہ: پس اگرتمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے پس جو میری ہدایت پر چلیں گے ان پرنہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے (سورۃ البقرۃ،آیت 38)
دوسرا مقام ملاحظہ ہو
بَلَىٰ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُۥ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌۭ فَلَهُۥ أَجْرُهُۥ عِندَ رَبِّهِۦ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿112﴾
ترجمہ: ہاں جس نے اپنا منہ الله کے سامنے جھکا دیا اور وہ نیکو کار بھی ہو تو اس کے لیے اس کا بدلہ اس کے رب کے ہاں ہے اور ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے (سورۃ البقرۃ،آیت 112)
تیسرا مقام
ٱلَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَٰلَهُمْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُونَ مَآ أَنفَقُوا۟ مَنًّۭا وَلَآ أَذًۭى ۙ لَّهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿262﴾
ترجمہ: جو لوگ اپنے مال الله کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر خرچ کرنے کے بعد نہ احسان رکھتے ہیں اور نہ ستاتے ہیں انہیں کے لیے اپنے رب کے ہاں ثواب ہے اوران پر نہ کوئی ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے (سورۃ البقرۃ،آیت 262)
چوتھا مقام
ٱلَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَٰلَهُم بِٱلَّيْلِ وَٱلنَّهَارِ سِرًّۭا وَعَلَانِيَةًۭ فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿274﴾
ترجمہ: جو لوگ اپنے مال الله کی راہ میں رات اوردن چھپا کر اور ظاہر خرچ کرتے ہیں تو ان کے لیےاپنے رب کے ہاں ثواب ہے ان پر نہ کوئي ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے (سورۃ البقرۃ،آیت 274)
پانچواں مقام
إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ وَأَقَامُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَوُا۟ ٱلزَّكَوٰةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿277﴾
ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے اور نماز کو قائم رکھا اور زکواةٰ دیتے رہے تو ان کے رب کے ہاں ان کااجر ہے اور ان پر کوئی خوف نہ ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے (سورۃ البقرۃ،آیت 277)
چھٹا مقام
إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَٱلَّذِينَ هَادُوا۟ وَٱلصَّٰبِونَ وَٱلنَّصَٰرَىٰ مَنْ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ وَعَمِلَ صَٰلِحًۭا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿29﴾
ترجمہ: جو لوگ اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان لائیں گے اور عمل نیک کریں گے خواہ وہ مسلمان ہوں یا یہودی یا صابی یا عیسائی ان کو (قیامت کے دن) نہ کچھ خوف ہو گا اور نہ غمناک ہوں گے (سورۃ المائدہ،آیت 69)
ساتواں مقام
وَمَا نُرْسِلُ ٱلْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ ۖ فَمَنْ ءَامَنَ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿48﴾
ترجمہ: اور ہم جو پیغمبروں کو بھیجتے رہے ہیں تو خوشخبری سنانے اور ڈرانے کو پھر جو شخص ایمان لائے اور نیکوکار ہوجائے تو ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ اندوہناک ہوں گے (سورۃ الانعام،آیت 48)
آٹھواں مقام
يَٰبَنِىٓ ءَادَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌۭ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ ءَايَٰتِى ۙ فَمَنِ ٱتَّقَىٰ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿35﴾
ترجمہ: اے ادم کی اولاد اگر تم میں سے تمہارے پاس رسول آئیں جو تمہیں میری آیتیں سنائیں پھر جو شخص ڈرے گا اور اصلاح کرے گا ایسوں پر کوئی خوف نہ ہوگا اور نہ وہ غم کھائیں گے (سورۃ الاعراف،آیت35)
نواں مقام
إِنَّ ٱلَّذِينَ قَالُوا۟ رَبُّنَا ٱللَّهُ ثُمَّ ٱسْتَقَٰمُوا۟ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴿13﴾
ترجمہ: بے شک جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب الله ہے پھر اسی پر جمے رہے پس ان پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے (سورۃ احقاف،آیت 31)
دسواں مقام
أَلَآ إِنَّ أَوْلِيَآءَ ٱللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿62﴾ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَكَانُوا۟ يَتَّقُونَ ﴿63﴾
ترجمہ: خبردار بے شک جو الله کے دوست ہیں نہ ان پر ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے جو لوگ ایمان لائے اور ڈرتے رہے (سورۃ یونس،آیت 62-63)
مزید دو مقامات
قارئین کرام ! ہم نے انہی بارہ مقامات کو درج کرنے کا ارادہ کیا کہ جن کے آخر میں (لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ )کے جملے آتے ہیں۔ایسی دس آیات بیان ہو چکی ہیں،آخری دو آیات ذکر کرنے سے پہلے یہاں مزید وضاحت کے لیے ایسے مقامات پیش کیے جا رہے ہیں جن میں خوف اور حزن (غم ) کے الفاظ ہی آئے ہیں۔تو اب ملاحظہ کیجیے یہ دو مقامات !اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إِنَّ ٱلَّذِينَ قَالُوا۟ رَبُّنَا ٱللَّهُ ثُمَّ ٱسْتَقَٰمُوا۟ تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا۟ وَلَا تَحْزَنُوا۟ وَأَبْشِرُوا۟ بِٱلْجَنَّةِ ٱلَّتِى كُنتُمْ تُوعَدُونَ ﴿30﴾ نَحْنُ أَوْلِيَآؤُكُمْ فِى ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا وَفِى ٱلْءَاخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِىٓ أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ ﴿31﴾ نُزُلًۭا مِّنْ غَفُورٍۢ رَّحِيمٍۢ ﴿32﴾
ترجمہ: بے شک جنہوں نے کہا تھا کہ ہمارا رب الله ہے پھر اس پر قائم رہے ان پر فرشتے اتریں گے کہ تم خوف نہ کرو اور نہ غم کرو اور جنت میں خوش رہو جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ہم تمہارے دنیا میں بھی دوست تھے اور آخرت میں بھی اور بہشت میں تمہارے لیے ہر چیز موجود ہے جس کو تمہارا دل چاہے اور تم جو وہاں مانگو گے ملے گا بخشنے والے نہایت رحم والے کی طرف سے مہمانی ہے (سورۃ حم السجدۃ،آیت 30-32)
ٱلْأَخِلَّآءُ يَوْمَئِذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا ٱلْمُتَّقِينَ ﴿67﴾ يَٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ ٱلْيَوْمَ وَلَآ أَنتُمْ تَحْزَنُونَ ﴿68﴾
ترجمہ: اس دن دوست بھی آپس میں دشمن ہو جائیں گے مگر پرہیز گار لوگ کہا جائے گا) اے میرے بندو تم پر آج نہ کوئی خوف ہے اور نہ تم غمگین ہو گے (سورۃ الزخرف،آیت 67-68)
گیارھواں مقام
وَلَا تَحْسَبَنَّ ٱلَّذِينَ قُتِلُوا۟ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ أَمْوَٰتًۢا ۚ بَلْ أَحْيَآءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ ﴿196﴾ فَرِحِينَ بِمَآ ءَاتَىٰهُمُ ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِۦ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِٱلَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا۟ بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿170﴾
ترجمہ: جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا (وہ مرے ہوئے نہیں ہیں) بلکہ اللہ کے نزدیک زندہ ہیں اور ان کو رزق مل رہا ہے جو کچھ اللہ نے ان کو اپنے فضل سے بخش رکھا ہے اس میں خوش ہیں۔ اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے اور( شہید ہوکر) ان میں شامل نہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں کہ (قیامت کے دن) ان کو بھی نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے (سورۃ آل عمران،آیت169-170)
بارھواں مقام
ٱدْخُلُوا۟ ٱلْجَنَّةَ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمْ وَلَآ أَنتُمْ تَحْزَنُونَ ﴿49﴾
ترجمہ: (انہیں کہا گیا ہے) جنت میں چلے جاؤ تم پر نہ ڈر ہے اور نہ تم غمگین ہو گے (سورۃ الاعراف،آیت49)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
خلاصہ کلام

قارئین کرام ! آپ نے بارہ کے علاوہ مزید دو مقامات بھی ملاحظہ فرما لیے ۔۔۔وہ ولی کہ جسے کوئی خوف اور غم نہیں مندرجہ بالا قرآنی مقامات کے مطابق اسے خوف اور غم سے نجات کا مقام تب ملے گا جب وہ:
اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہدایت کی پیروی کرے گا۔
• اس نے اپنا چہرہ اللہ کے سامنے خم کر دیا اور نیک بن گیا۔
• اس نے اللہ کے راستے میں مال خر چ کیا پھر نہ احسان جتلایااور نہ ستایا۔
• دن رات خفیہ اور اعلانیہ اپنا مال خرچ کیا۔
• ایمان لایا،نیک عمل کیے،نمازی بنا اور زکوۃ ادا کی۔
• منافق،یہودی،بے دین،عیسائی وغیرہ ،وہ جو بھی تھا،تائب ہو کر اللہ پر ایمان لے آیااور اس نے آخرت کے دن کو مان لیا تو وہ بھی ولیوں کے زمرے میں شامل ہو جائے گا ۔
• جو ایمان لایا اور اس نے اپنی اور لوگوں کی اصلاح کا کام کیا۔
• اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہدایت کو ماناپھرتقوی اختیار کیا اور اصلاح کی۔
• اللہ کو رب مان کر پھر اس کی توحید پر،اس کے دین پر ڈٹ جانا۔
• اللہ کے راستے میں جہاد قتال کرتے ہوئے جو شہید ہوئے وہ جنتوں میں خوش ہیں اور اس بات پر بھی خوش ہیں کہ ان کے جو ساتھی ان کے پیچھے دعوت و اصلاح اور جہاد و قتال کے راستے پر لگے ہوئے ہیں ،جب وہ ان سے آن ملیں گے تو ان کی طرح انہیں بھی نہ خوف ہو گا اور نہ غم۔
• ان لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ اعلان فرمائیں گے کہ جاؤ جنت میں داخل ہو جاؤ۔

قارئین کرام! یہ ہیں اولیاء اللہ کی صفات جو قرآن بیان کر رہا ہے اور واضح کر رہا ہے کہ یہ لوگ توحید و سنت کا احیاء کرنے والے ،اصلاح کا کام کرنے والے،جہاد کرنے والے،جانیں دینے والے اور شہادت کی موت پانے والے ہیں ۔۔۔جی ہاں! یہ ہیں وہ لوگ کہ جنہیں مظلوم عورتیں،بوڑھے اور بچے کافروں کے ظلم سے تنگ آ کر پکار رہے ہیں ،اپنی مدد کے لیےبلا رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے یوں فریاد کناں ہوتے ہیں:
رَبَّنَآ أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ ٱلْقَرْيَةِ ٱلظَّالِمِ أَهْلُهَا وَٱجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّۭا وَٱجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا ﴿75﴾
ترجمہ: اے پروردگار ہم کو اس شہر سے جس کے رہنے والے ظالم ہیں نکال کر کہیں اور لے جا۔ اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا حامی بنا۔ اور اپنی ہی طرف سے کسی کو ہمارا مددگار مقرر فرما (سورۃ النساء،آیت75)
اور پھر یہ ولی ۔۔۔صحیح مسلم میں اللہ کے نبی ﷺ کے فرمان کے مطابق (يطير على متنه)گھوڑے کے دوش پر اڑتا ہوا پہنچتا ہے اور (يبتغي القتل والموت مظانه)موت کو موت کی جگہوں سے تلاش کرتا ہے ۔شہادت پانے کے لیے بے تاب ہوتا ہے ۔تو یہ ہیں جناب اللہ کے سچے ولی۔انہیں کون نہیں مانتا؟کون ان کی گستاخی کر سکتا ہے؟
مذہبی و سیاسی باوے از امیر حمزہ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم
یہ بہت اہم موضوع ہے بہت سارے لوگ اس مسئلے میں گمراہی کا شکار ہیں ۔اس موضوع کو یہاں سے یونی کوڈ میں ڈاؤن لوڈ کریں اور زیادہ سے زیادہ پھیلائیں۔جزاک اللہ خیرا
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
ارسلان صاحب۔

السلام علیکم۔

بھائی تھوڑی سی تصحیح کرنا چاہتا ہوں۔

اولیاء جمع ہے ولی کی۔ اور ولی کا مطلب ہے سرپرست نہ کہ دوست۔ عربی میں دوست کو رفیق کہتے ہیں۔ لہذا آپ جہاں ولی کا ترجمہ کریں وہاں "سرپرست" لکھیں۔
 
Top