• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کے وجود پر عقلی اور نقلی دلائل

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

محترم قارئین!
اللہ کے وجود پر دلائل درکار ہیں. خواہ وہ عقلی ہوں یا نقلی ہوں.
عقلی دلائل آپکے ہوں یا سلف کے ہوں کسی کے بھی ہوں براہ کرم رہنمائ کریں. اور آپ سب سے گزارش ہیکہ براہ کرم جن جن کے پاس علم ہو وہ ضرور تبصرہ کریں.

قرآن وحدیث سے دلائل تو بہت مل جاتے ہیں لیکن اللہ کے وجود کو ثابت کرنے کے لۓ غیر مسلموں کے لۓ عقلی دلائل کم ہی ملتے ہیں.

آپ سب سے یہ گزارش ہیکہ براہ کرم ضرور دلائل دیں. تاکہ ہم لوگوں کو اسلام کیطرف دعوت دے سکیں.

جزاکم اللہ خیرا
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
اگر تحاریر صفحہ قرطاس پر ڈھال دی جائیں تو بڑی مہربانی ہوگی. تاکہ میں اسے ہندی یا رومن میں ٹرانسلیٹ کرکے شیئر کر سکوں.
بارکم اللہ فیک
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
ہمارا تو الحمدللہ یہی ماننا ہے کہ ان اللہ علی کل شی قدیر اور یہ بھی کہ فتبارک اللہ احسن الخالقین.

اب کیا ملحدین بتانا پسند فرمائیں گئے کہ زیر نظر تصویر جو کہ قدرتی حسن کا شاہکار ہے اس میں ایک ہی جگہ پر یہ رنگا رنگ رعنائیاں کیسے وجود میں آ گئیں؟

ایک ہی جگہ پر پہاڑ بھی, دریا بھی اور نباتات بھی. اور تو اور ہیں تو سبھی پتھر ہی, ایک ہی مادے سے بنے ہوئے لیکن رنگ اور وزن میں جدا جدا.

تو کیا ملحدین بتا سکتے ہیں کہ کس شے سے اور کن عوامل کے تحت یہ راحت بخش نظارہ تخلیق ہوا؟

افلا تتفکرون۔۔۔۔!!!؟؟

افلا تدبرون۔۔۔۔!!؟؟

افلا تعقلون۔۔۔!!؟؟
ذیل شہزاد
777.JPG
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
خلیقِ کائنات اور الحادکے مخمصے۔ ایم تھیوری
کسی فرد یا گروہ کے بنیادی عقائد کا تعلّق اسکے کائنات اور زندگی کی تخلیقی نظرئیے سے ہوتاہے ۔ مضبوط نظریۂ حیات کی بنیاد ٹھوس عقلی اور علمی دلائل پر ہونی چاہیئے۔ جدید معاشرتی نظریات اور انکے محرّک سائنسی نظریات کا، جو کائنات کے خالق کا انکار کرتے ہیں ، طائرانہ جائزہ لینا ضروری ہے تا کہ انکے فلسفے کی عقلی بنیاد کی مضبوطی کا تعیّن ہوسکے۔
جدید دور کے نظریاتِ حیات کی بنیادیں سائنس اورسائنسی دریافتوں پر استوار تو ہیں مگر یہ اساس کتنی کھوکھلی یا مضبوط ہیں اس کا اندازہ جدید ایم ۔ تھیوری M-Theory سے لگایا جاسکتا ہے۔ گو کہ سائنس ٹھوس حقائق پر ہی انحصار کرتی ہے لیکن یہ تھیوری سائنسی مفکرّین کے خوابی تخلیّات کی مثال ہے۔ سپر اسٹرنگ تھیوریز Super-String-Theories کو یکجا کر کے سائنسداں ایک نئی تھیوری پر کام کر رہے ہیں جسے ایم۔تھیوری کا نام دیا جارہا ہے۔ اس مشترکہ تھیوری کی بنیاد خلا کے چند حقیقی مظاہر یعنی کانٹم غیر یقینیQuantum-uncertainty ، کرَوْڈ اسپیس(Curved Space)، سپر سمِٹری Super-Symmetry، کوارک Quark، اسٹرنگ Stringاور ملٹی ڈائمنشن Multidimension پر مبنی ہے۔ ایم تھیوری فریم ورک میں ان سب کو مدغم کیا جارہا ہے ۔ یہ انتہائی پیچیدہ ہے اور اسکو عام انسان نہیں سمجھ سکتا ۔
یہ کائنات کے خود بخود وجود میں آنے کے تخیّل کو ایک منطقی جواز دینے کی کاوش ہے۔
سائنس کی روسے اسکو مختصراً یوں سمجھیں کہ اگر ہم500 کو500سے10دفعہ ضرَب در ضرب دیتے چلے جائیں تو اسکے حاصل کے برابر کائناتیں خود بخود بنیں اور فنا ہوئیں! یعنی لا تعداد۔ اب تخلیق کے مرحلے کی سائنسی روداد کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔
اپنی کتاب دی گرینڈ ڈیزائن کے صفحہ 226 پر اسٹیون ہاکنگ لکھتے ہیں،
” if the total energy of the universe must always remain zero, and it costs energy to create a body, how can a whole universe be created from nothing? that is why there must be a law like GRAVITY. Because gravity is attractive, gravitational energy is negative……. This negative energy can balance the positive energy needed to create matter, but its not that simple.”
“اگر کائنات کی کُل توانائی کو ہمیشہ صفر ہی رہنا ہے اور کسی جسم کی تخلیق کے لیئے توانائی ہی ضروری ہے تو کائنات کی تخلیق نیست nothing سے کیسے ہوسکتی ہے؟ اس کے لیئے ضروری ہے کہ وہاں پر کشش ثقل gravity یا کھنچاؤکا قانون ہونا چاہیئے۔، کیونکہ ثقل میں کشش اور ثقل کی توانائی منفی ہے۔۔۔۔۔ یہ منفی توانائی اس مثبت توانائی کو متوازن کرسکتی ہے جو مادّے کی تخلیق کے لیئے ضروری ہے، لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے۔”
یہی سائنسدان اسی کتاب کے صفحہ 227 پر رقمطراز ہیں:
Because there is a law like GRAVITY, the universe can and
will create ITSELF from NOTHING.
کیونکہ ایک قانونِ کشش ثقل موجود ہے تو کائنات نیست سے اپنے آپ کو خود تخلیق کرسکتی ہے اور کریگی۔
ذرا غور کریں کہ تخلیق سے قبل جب کچھ نہیں تھا تو نیست nothing میں کشش ثقل کاقانون کیسے موجود ہوا؟ یعنی عدم میں اگر کوئی قانون موجود تھا تو وہ ماحول عدم یا نیست nothing نہیں ہوسکتا۔ مزید یہ کہ کشش کا تو تعلّق ہی مادّے کے موجود ہونے سے ہے مادّہ ہے تو کشش ہے ورنہ کشش نہیں۔ اور اگر کشش ہے تو وہ نیست nothing نہیں۔
کیونکہ سائنس دانوں کے پاس اچانک تخلیق کا کوئی ٹھوس مواد نہیں ہے تو یہ زبردستی فرض کرلیا گیا ہے کہ کائنات کی ابتدا سے پہلے ایک قانونِ کشش ثقل موجود تھا ۔ یہ کسی نظریئے کو زبردستی ٹھونسنے یا کھینچ تان کر سائنسی بنانے کی منفرد مثال ہے جو بذاتِ خود غیر سائنسی ہے۔ اسے جدید سائنس کا تخلیق کائنات کا انتہائی غیر منطقی مفروضہ hypothesis ہی کہا جاسکتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب اہم ترین بنیادی نظریہ ہی تضاد پر مبنی ہو اور ابتدا میں ہی خود اپنی نفی کر رہا ہو تو اس پر بننے والا نظریۂ حیات کیسے مستحکم ہوگا۔
اگر اسکا دوسرا استدلال یہ لایا جائے کہ بگ بینگ کے اندر قانون کشش ثقل موجود تھا لہٰذا تخلیق ہوئی، تو پھر آپ نیست کو زیر بحث ہی کیوں لارہے ہیں۔ اس جملے میں نیست یا nothing کا تذکرہ ہی ظاہر کرتا ہے کہ تخلیق کائنات میں کسی بیرونی قوّت کے اثر انداز ہونے کو سائنس قبول کرنے پر مجبورہے۔
یہی سائنسداں اسی صفحے پر آگے لکھتے ہیں،
“Spontaneous creation is the reason that there is something rather than nothing, why the universe exists, why we exist. It is not necessary to invoke God to light the blue touch paper and set the universe going. ( the Grand Design, page 227)
“یہ اچانک تخلیق spontaneous creation ہی ہے کہ جسکی وجہ ہے یہاں نیست nothing کے بجائے کچھ something ہے۔کائنات کیوں موجود ہے اور ہم کیوں موجود ہیں، اسکے لیئے خدا کوبیچ میں لانے کی ضرورت نہیں کہ جس نے کوئی نیلا کاغذ سلگا کر کائنات کو چلادیا۔”
ایسا لگتا ہے کہ سائنس اللہ کو ماننے کے بہت قریب ہے۔۔۔۔۔ کیونکہ غیر عقلی دلیل دیرپا نہیں ہوتیں۔
ایک قدم آگے بڑھ کر تخلیق کی سائنسی تشریح کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔
اس ضمن میں ایک اہم نکتہ اور سامنے رکھیں وہ ہے قانونِ امکان۔ Law (formula) of Probability
What is PROBABILITY? definition of PROBABILITY .
Likelihood; appearance of truth. The likelihood of a proposition or hypothesis being true, from its conformity to reason or experience, or from superior evidence or arguments adduced in its favor.
Law Dictionary: http//thelawdictionary.org/probability/آقانونِ امکان کیا ہے؟
قانون یا فارمولہِ امکان کی تعریف۔
سچّائی کے ظاہر ہونے کے امکانات، تجربات اور نتائج کے تواتر کی بنیاد پرکسی نظریہ کے صحیح ہونے کے آثار
مذکورہ بالا دونوں حوالوں کا لُبِّ لباب تخلیقِ کائنات کی درج ذیل سائنسی تشریح ہے۔
تخلیقِ کائنات کی سائنسی تشریح:
کیونکہ قانونِ کشش ثقل کی وجہ سے کائنات خود بخود بن سکتی ہے لہٰذا اس عمل سے لاتعداد کائناتیں بنتی ، ٹوٹتی اور فنا ہوتی رہیں لیکن ہماری کائنات اُن لاتعداد میں ایک ہے جو فنا نہیں ہوئی۔ بے شمار کائناتوں کی تخلیق اور فنا کے دوران کسی ایک کا قائم رہ جاناامکانات میں ہے! یہ ایک اتفاق ہے اور قانون امکان Law of Probability کے تحت ممکن ہے۔ طبعئی قوانین، فطری قوّتیں اور زندگی بھی ماحولیاتی اتّفاق سے وجود میں آئے ۔ سارانظام کائنات انہی طبعئی قوانین پر چل رہا ہے۔
ایم تھیوری درحقیقت کائنات کی تخلیق اور اسکی ہیئتِ ترکیبی کو سمجھنے کاے لیئے محض ایک نظریہ Theory یا مفروضہ ہے جسے کھیچ تان کر خدا کے انکار سے نتھی کیا جارہا ہے۔ اس کے صحیح ہونے کا بھی یہ مطلب نہیں ہوسکتا کہ کائنات خود بنی !
یہ تھیوری کسی پراسس یا تعمیری عمل کی محض علمی منظر کشی کے سوا اور کچھ نہیں۔ اور اگر یہ صحیح ثابت ہوتی بھی ہے تو اس سے ایک زبردست تخلیق کی تشریح سامنے آئیگی لیکن خدا کے بغیر عدم سے خود بخود تخلیق انتہائی متعصّب غیر عقلی نظریہ ہے جس کی کوئی عقلی اور علمی تشریح ہونا ناممکن ہے۔
مذہبی تشریح:
مندرجہ بالا تشریح کا ماحصل یہ بھی توہوا کہ اگر کوئی قوّت یعنی کشش کائنات کے وجود سے پہلے بھی موجود تھی جس کے اثر انداز ہونے سے کائنات بنی ہے تو سائنس اسکو کوئی بھی نام دے ہم اسے لامحدودقوّت والی ہستی کا اِذن کہتے ہیں۔ یہ تو اللہ کی لامحدود ہستی کا ارادہ تھا جس نے کائنات تخلیق کی اور اس کے نظام کو چلانے کے قوانین بنائے جن کو ہم آفاقی قوانین کہتے ہیں۔ کشش یا کوئی مخفی بیرونی کردار اس لیئے موجود ہوگا کہ اسکی تخلیق پہلے کی گئی ہوگی یعنی یہ ایک تخلیقی پراسس کا حصہ رہا ہوگا۔ ہماری یہ تشریح بھی اب تک کی سائنسی پیش رفت پر ہی مبنی ہے کیونکہ کل کی دریافتوں کا پتہ نہیں۔ یہی منطقی اور عقلی استدلال ہے جو سائنسی توجیہ میں مفقود ہے۔سائنس ایک طرف خدا سے لاتعلُقّی کا اظہار کرتی تو دوسری طرف مجبوری میں اشارتاً قبول بھی کرتی ہے۔ کیا عجیب بات ہے!
اب اس اہم مسئلہ کے کچھ اور پہلوؤں کو بھی دیکھتے ہیں کہ کائنات کا نظام بظاہر عام فہم ہے اور فطرت کے تمام مظاہروغیرہ ہر انسان کے لیے سمجھنا آسان ہیں اور فطری طور پر عام انسان خدا ہی کو خالق مانتا ہے لیکن دوسری طرف سائنسی طور پر ہم اس کائنات کی ابتدا کی ایسی تشریح نہیں دیکھتے ہیں کہ عام انسان آسانی سے سمجھ لے۔ ،ہمیں علمیت کی گہرائی میں آخر جانا ہی کیو ں پڑ رہا ہے؟
مادّہ پرستوں سے سوال ہے کہ اگر کائنات اور زندگی ایک حادثہ یا اتفاق ہے تو:
کیا کائنات اپنا کوئی ذہن بھی لے کر پیدا ہوئی کہ انسان کے ساتھ آنکھ مچولی کر رہی ہے؟
کیا نیچرانسان سے زیادہ ذہین ہے؟
نیچر میں علم کے ذخائر کہاں سے وارد ہورہے ہیں؟
جن اہم سوالوں میں سائنس تشریح سے بے بس ہے وہ بھی ملاحظہ کریں۔
۱۔ خیالات کے اجراء کا منبع کیا ہے۔
۲۔ ایٹم میں قوّت کہاں سے آتی ہے۔
۳۔ کائنات میں موجود قوّتیں کہاں سے آئی ہیں۔
۴۔ انسان اور حیوان بوڑھے کیوں ہوتے ہیں۔
۵۔ انسان کی خواہش اور اس کے عمل میں کیا طبعئی تعلق ہے۔
۶۔ روشنی کے پارٹیکلز یعنی فوٹون اتنی رفتار سے کیوں اور کیسے سفر کرتے ہیں۔
انسانیت کے رہنما:
سوال یہی ہے کہ کیا انسانیت کی نظریاتی رہنُمائی ان چند لوگوں پر چھوڑی جاسکتی ہے جن کے اخلاص پر تو ہم شبہ نہیں کرتے کیونکہ وہ علمِ طبعیّات کے اصولوں کے حساب سے ہی تحقیق کر رہے ہیں لیکن غور طلب یہ بات ہے کہ ایک غیر یقینی اور غیر مصدّقہ نظریہ کس طرح انسانوں کے لیے مفید اور دائمی نظرےۂ حیات کی بنیاد بن سکتا ہے؟
جدید لامذہب فلسفے جن کی بنیاد مادیّت ہے مثلاً لبرل ازم، سیکولر ازم اور جمہوریت انسانیت کی رہنمائی کے ارفع مرتبہ پر فائزہونے کے اس لیئے اہل نہیں کیونکہ یہ انتہائی کمزور علمی بنیاد پر ایستادہ ہیں، انکے پاس انسان اور کائنات کے موجود ہونے سے متعلّق کوئی معقول عقلی نظریہ ہے ہی نہیں۔ اسی لیئے جدید معاشرتی نظریات انسان کو نہ تو ٹھوس حیاتی فلسفہ دیتے ہیں اور نہ ہی اخلاقیات کی کوئی مستند بنیاد بتاتے ہیں بلکہ خود انسان ہی کو بر تر قرار دے کراسے جمہوریت کے ذریعے ہر قانون اور اخلاق کی تشریح کا خوگر بناتے ہیں جو بے شمار خرابیوں کی بنیاد ہے۔
در حقیقت یہ جدید نظریات انسان کو محض علمی اور نظریاتی بحث میں الجھا کر اسکی منزل کودھندلا دیتے ہیں کیونکہ اگرانسا ن اپنے آپ کو صرف فطرتی اور طبعئی ماحول سے جوڑتا ہے تو اخلاقیات کی وہ تمام بنیادیں اپنا جواز کھو دیتی ہیں جو الہاٰمی احکامات کی روشنی میں متعیّن ہوئی
ہیں۔
اس کی بہترین مثال ان لا مذہب نظریات اور اصولوں یعنی سیکولرازم اور لبرل ازم پر معاشرہ تعمیر کرنے والے وہ مغربی ممالک ہیں جہاں پر مادّی ترقّی تو بے مثال ہے لیکن دوسری طرف اب ایسے قوانین بن چکے ہیں جس میں مرد کی مرد سے شادی قانونی قرار دے دی گئیں ہیں اور جہاں مرد اور عورت بغیر نکاح کے قانونی طور پر رہ سکتے ہیں!
اب آگے مزید کیا ہوسکتا ہے عیاں ہے !
کیا یہ خالق کے بنائے ہوئے معاشرتی اور فطری قوانین سے بغاوت نہیں؟
کیاانسان معاشرتی حیوان بنکر قابل احترام رشتوں کی تمیز ختم کردے ؟
انسان جو اپنی سانس ایک منٹ نہیں روک سکتا وہ باتیں کتنی بڑی کرتا ہے ،
سوچنے کا مقام ہے! Beneyameen Mehar
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
للہ تعالیٰ کی قدرت کا عظیم الشان شاہکار : ایٹم
مادہ سے مراد وہ عنصرہے جس سے تمام مادی اشیاء بنی ہوئی ہیں۔قدیم یونانی فلسفیوں نے سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کی کہ دنیا کس چیز سے بنی ہے ۔انہوں نے ان بنیادی ذرات کا نام ایٹم رکھاجو آج تک رائج ہے ۔بنیادی ذرے کی تعریف سادہ الفاظ میں یوں کر سکتے ہیں کہ یہ مادے کا چھوٹے سے چھوٹا ذرہ ہوتا ہے جو کہ اپنی ساخت میں کامل ہوتا ہے اور اپنے اندر مزید چھوٹے یا ذیلی ذرات نہیں رکھتا۔ایٹم جومادے کے وجود کے لیے بنیادی کردار ادا کرتا ہے ،بگ بینگ کے بعد وجو دمیں آیا۔ پھر ان ایٹموں نے یکجا ہو کر اس کائنات کو بنایا جس میں ستارے ،زمین اور سورج شامل تھے۔ بعد ازاں انہی ایٹموں نے کرہ ٔارض پر زندگی کی ابتدا کی۔ اگر آپ اپنے چاروں طرف نظر دوڑائیں تو آپ کو سینکڑوں قسم کی چیزیں نظر آئیں گی ۔ان میں سے کچھ ٹھوس ہیں ،کچھ مائع اور کچھ گیس،یہ مادے کی تین مختلف صورتیں ہیں۔وہ ظاہر میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن اندرونی طور پر ایسا نہیں ہے ۔بنیادی طور پر وہ ایک ہی ذرے سے تعمیر ہوئی ہیں جسے ایٹم کہتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ پھر یہ ایٹم کیاہے ،جو ہر شے کا تعمیری جزو ہے ،یہ کس شے کا بناہوا ہے اوراس کی ساخت کیا ہے؟
پرانے و قتوں میں ایک نظریہ جو کہ ''نظریہ ایٹم '' کے نام سے جانا جاتا تھا ،کو وسیع پیمانے پر مقبولیت حاصل تھی۔ اصل میں یہ نظریہ یونان کے ایک سکالر ڈیموکراطس کا پیش کردہ تھا جو تقریباً (460-370)قبل مسیح وہاں رہتا تھا۔ ڈیمو کراطس اور اس کے بعد آنے والے لوگوں نے بھی یہی نظریہ پیش کیاتھا کہ ایٹم مادے کا سب سے چھوٹا حصہ ہوتا ہے۔ایٹم دراصل یونانی زبان کے لفظ ATOMOSسے نکلا ہے جس کا مطلب ہے ''ناقابل تقسیم ''۔یونانی فلاسفرز کا خیال تھا کہ ایٹم کو تباہ نہیں کیا جاسکتااور اس کی مزید تقسیم ناممکن ہے ۔قدیم عرب بھی اسی بات پر یقین رکھتے تھے۔ عربی زبان میں ''ذَرَّة'' کا سب سے عمدہ معنی ''ایٹم '' ہی ہے۔
چناچہ ایٹم کے متعلق یہ نظریہ 2300 سال تک قائم رہا تاآنکہ 1803ء میں سائنسدان جان ڈالٹن نے عملی طور پر ایک مفید ایٹمی نظریہ پیش کیا اور ایٹم کوایک ایسا کُرہ قرار دیا جو مثبت برقی قوت کے حامل ذروں اورمنفی الیکٹرونز سے بھرا ہوا ہے ۔چناچہ 1897ء میں سائنسدانوں نے مزید تجربات کے بعد اس میں الیکڑونز کو دریافت کیااورپھر 1911ء میں ایٹم کے مرکزی حصے نیوکلیس کو دریافت کیا گیا ۔یہ تجربات جاری رہے اور سائنسدان کائنات کے اس چھوٹے سے ذرے کا مزید باریک بینی سے جائزہ لیتے رہے ۔ان کی یہ جدوجہد رنگ لائی اور 1918ء میں اسی ایٹم کے مرکز میں پائے جانے والے نیوکلیس کے اندر پروٹان کو دریافت کیا گیا اور پھر چند سالوں بعد 1932ء میں اسی نیوکلیس کے اندر نیوٹران کو بھی دریافت کرلیاگیا۔ 1968ء میں انہوں نے پروٹان اور نیوٹران کے اندر مزید چھوٹے اجزا کو دریافت کرنے کا اعلان کردیا ۔ان چھوٹے اجزا کو، کوارکس (Quarks) کا نام دیا گیا ہے ،ہر پروٹون اور نیوٹران کے اندر تین تین کوارکس ہوتے ہیں جو آپس میں مزید دوسرے اجزا گلونز (Gluons)کے ذریعے جڑے ہوتے ہیں۔ابھی بھی سائنسدانوں کی کھوج کی رفتار کم نہیں ہوئی ہے بلکہ ان بنیادی ذرات پر تحقیق کا بازار گرم ہے اور کوئی بعید نہیں کہ آنے والے دنوں میں کوارکس (اور کچھ اور ایسے ذرات جن کو آج بنیادی کہا جاتا ہے)میں سے بھی مذید چھوٹے ذرات نکل آئیں ۔
جب ہم ایٹموں کی ساخت کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان سب کا ایک نمایاں ڈیزائن ہے اور یہ ایک خاص ترتیب ونظم کے ساتھ وجود میں آئے ہیں۔ ہر ایٹم کا ایک نیوکلیس ہوتا ہے جس میں مختلف تعداد میں پروٹون اور نیوٹرون ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ ان میں ایسے الیکٹرون ہوتے ہیں جونیوکلیس کے گرد مخصوص مداروں میں حرکت کرتے ہیں۔ایک ایٹم کے اندر الیکٹرون اور پروٹون مساوی تعداد میں ہوتے ہیں۔الیکڑون پر منفی چارج جبکہ پروٹون پر مثبت چارج ہو تاہے۔ جس سے مثبت اورمنفی برقی قوت رکھنے والے الیکٹرون اور پروٹون ایک دوسرے کا توازن برقرار رکھتے ہیں۔ان اعداد میں سے ایک بھی مختلف ہوتا تو ایٹم کا وجود ہی نہ ہوتا، اس لیے کہ اس سے برقی مقناطیسی توازن بگڑجاناتھا۔الیکٹرون ،پروٹون کی نسبت ہلکے ہوتے ہیں ۔ 1836الیکڑونز ایک پروٹون کے برابر ہوتے ہیں جبکہ پروٹون اورنیوٹران بلحاظ کمیت تقریبا ً ایک جیسے ہوتے ہیں ۔
کسی ایٹم میں ایک پروٹون کے اضافے سے وہ نئی قسم کا ایٹم بن جاتاہے ۔جو مادہ ایک ہی قسم کے ایٹمو ں سے مل کر بنا ہو اسے عنصر کہتے ہیں ۔مثلاً ہائیڈروجن ،آکسیجن اورکاربن وغیرہ عناصر کی مختلف اقسام ہیں ۔اب تک تقریباً 118 عناصر کو دریافت کیا جا چکا ہے ان میں سے زیادہ تر قدرتی طور پر پائے گئے ہیں جبکہ کچھ لیبارٹری میں تیا ر کیے گئے ہیں ۔سب سے سادہ ترین ایٹم ہائیڈروجن کا ہے ۔اس میں ایک پروٹون اور ایک ہی الیکڑون ہوتا ہے جبکہ نیوٹرون نہیں ہوتا۔دو یا دو سے زائد ایٹموں کے ملنے سے مالیکیول تشکیل پاتا ہے ،مثلاً جب عنصر ہائیڈروجن کے دوایٹم ،عنصر آکسیجن کے ایک ایٹم سے ملائے جاتے ہیں تو پانی کا ایک مالیکیول تشکیل پاتاہے۔
آئیے اب یہ معلو م کرتے ہیں کہ ایٹم اور اس کے ذرات کتنے چھوٹے ہیں۔ الیکڑون کو وزن کے لحا ظ سے ہلکے ترین اجزاء میں شمار کیا جاتا ہے ایک قطر ہ پانی کا وزن ایک الیکڑون کی نسبت اربوں گنا زیادہ ہوتاہے۔اگرہم پینسل سے ایک سینٹی میٹر لائن کھینچیں تو اس لائن میں 10کروڑ ایٹم سماسکتے ہیں۔اگر ہم ایٹم کی سکیل کے حساب سے ڈرائنگ بنائیں اور پروٹون اور نیوٹرون کے قطر کا سائز ایک سینٹی میٹر رکھیں تو الیکڑون اور کوارکس کا سائز انسانی بال کے سائز سے بھی چھوٹا ہوگاجبکہ پورے ایٹم کا سائز تیس فٹ بال کے میدان کے برابر ہوگا۔نیوکلیس ایٹم سے اس قدر چھوٹا ہوتاہے کہ اگر ہم ایٹم کو فٹ بال کے میدان جتنا بڑا پھیلادیں تو نیوکلیس ایک انگور کے دانہ کے برابر ہوگا۔آئیے اب اس بات کو سمجھتے ہیں کہ الیکٹرون نیوکلیس سے کس قدر دوری سے مخصوص مداروں میں گردش کرتے ہیں ۔اس کے لیے اگر نیوکلیس کو گولف بال کے برابر تصور کیا جائے تو اس کے گرد گردش کرنے والے الیکٹرونز کا پہلا مدار اس سے ایک کلومیٹر دور ہوگا جبکہ دوسرا مدار چار کلومیٹر اور تیسرا مدار نو کلومیٹر دور ہوگا ۔اسی طرح باقی مداروں کو بھی قیاس کیا جاسکتاہے۔ایک اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اگر چہ نیوکلیس کی جسامت ایٹم کی جسامت سے اس قدر چھوٹی ہے لیکن اس کی کمیت ایٹم کی کل کمیت کا 99.95% ہوتی ہے ۔ کتنی حیران کن بات ہے کہ ایک شے ایک طرف تو کمیت کا تقریبا ً سار ا حصہ ہے اوردوسری طرف نہ ہونے کے برابر جگہ گھیرتی ہے ۔ اورایٹم کا 99.999999999999% حصہ خالی ہے ۔علاوہ ازیں سائنسدانوں نے نہ صرف ان قوتوں کو دریافت کرلیا ہے کہ جنہوں نے ان چھوٹے چھوٹے ایٹموں کو آپس میں جکڑ رکھا ہے بلکہ اس طریقے کو بھی معلوم کرلیا ہے کہ جس کے ذریعے ان قوتوں کو ان ایٹموں سے جدا کیا جاسکتاہے ۔اسی طریقہ کو نیوکلیر پاور پلانٹ میں استعمال کرتے ہوئے بجلی حاصل کی جاتی ہے ۔جو کہ آج کے دور کی بنیادی ضرورت ہے ۔
قارئین کرام آ پ اللہ تعالیٰ کی بے نظیر اور عظیم الشان طاقت وقدرت اورعلیم وخبیر ہونے کا اندازہ مندرجہ بالا معلومات سے لگاسکتے ہیں کہ اس نے ایک چھوٹے سے ذرے کے اندر کیا کچھ تخلیق کر رکھا ہے اور اس کے اندر کس قدر قوت موجودہے کہ ہماری عقلیں اس کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کی وسعت کا اعلان چودہ صدیاں پہلے درج ذیل آیت کریمہ میں اس وقت کیا تھا کہ جب ایٹم کو کائنات کا چھوٹا ترین ذرہ تصور کیا جاتاتھا ۔ فرمان باری تعالیٰ نازل ہوتاہے:
(وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَاْتِیْنَا السَّاعَةُ ط قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتَاْتِیَنَّکُمْ لا عٰلِمِ الْغَیْبِ ج لَا یَعْزُبُ عَنْہُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ وَلَآ اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِکَ وَلَآ اَکْبَرُ اِلَّا فِی کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ)
منکرین کہتے ہیں کیا بات ہے کہ قیامت ہم پر نہیں آرہی ہے !کہوقسم ہے میرے عالم الغیب پروردگار کی 'وہ تم پر آ کر رہے گی۔ اس سے ذرّہ برابر کوئی چیز نہ آسمانوں میں چھپی ہوئی ہے نہ زمین میں۔نہ ذرّے سے بڑی اورنہ اس سے چھوٹی 'سب کچھ ایک نمایاں دفتر میں درج ہے '' (سبا، 34-03)
یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے لا محدود علم کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان تما م چیزوں کے متعلق علم رکھتا ہے جو خواہ چھپی ہوں یا ظاہر۔ اور اللہ تعالیٰ ہر اس چیز کے بارے میں بھی علم رکھتا ہے جو ایٹم یعنی ذرے سے چھوٹی ہو یا بڑی۔ چنانچہ اس آیت کریمہ سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ ایٹم سے بھی چھوٹی چیز کا وجود دنیا میں ممکن ہے جبکہ اس حقیقت کو انسا ن نے بیسویں صدی میں دریافت کیا ہے۔قرآن کے اس دعویٰ پر جدید سائنس کی تصدیق کی مہر ثبت ہونے کا مطلب یہ نکلتاہے کہ یہ واقعتا اللہ تعالیٰ کے سچے کلمات سے بھرپور وہ کتاب ہدایت ہے جو ا س نے اپنے محبوب ترین بندے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی تھی ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر اپنا ایمان مضبوط رکھنے اور ا س کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
3333.JPG
 
Top