• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الموحدین ویب: تفسیر فی ظلال القرآن (قرآن کے سائے میں) سورۃ الفاتحۃ اور سورۃ البقرۃ کی مکمل تفسیر

osamaanwar

مبتدی
شمولیت
فروری 06، 2012
پیغامات
9
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
0
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
الموحدین ویب سائٹ پیش کرتے ہیں: پی ڈی ایف اور یونی کوڈ ورژن میں تفسیر فی ظلال القرآن (قرآن کے سائے میں) سورۃ الفاتحۃ اور سورۃ البقرۃ کی مکمل تفسیر​
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ فاتحہ کے متعلق فرمایا:یہی سبع مثانی ہے اور یہی وہ قرآن عظیم ہے جو میں دیا گیا ہوں(بخاری) ۔اور سورہ بقرۃ کے متعلق فرمایا کہ:سورۃ بقرۃ قرآن کی کوہان ہے اور اس کی بلندی ہے (احمد)۔​
[h=1]فی ظلال القرآن (قرآن کے سائے میں)[/h] [h=1]سورۃ الفاتحۃ اورسورۃ البقرۃ کی مکمل تفسیر[/h]


[h=3]شہید اسلام سید قطب رحمہ اللہ[/h] [h=3]اردو ترجمہ:سید معروف شاہ شیرازی[/h]ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف
tafseer_fi_zilalil_quran.pdf - 4shared.com - document sharing - download
Tafseer_Fi_Zilalil_Quran.pdf
Tafseer_Fi_Zilalil_Quran.pdf (Tafseer_Fi_Zilalil_Quran.pdf) - DivShare
http://dl.dropbox.com/u/9911860/fizilalilquran/Tafseer_Fi_Zilalil_Quran.pdf

یونی کوڈ
Tafseer_Fi_Zilalil_Quran.doc - File Shared from Box - Free Online File Storage

[h=3]شہید اسلام سید قطب رحمہ اللہ اور تفسیر فی ظلال القرآن[/h] شہیداسلام سید قطب کا شمار امت مسلمہ کی ان چند برگزیدہ ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے تاریک ادوار میں روشنی کے چراغ جلائے اور اسلامی نظام زندگی کو اپنے خون سے سینچا۔ سید قطب رحمہ اللہ ۱۹۰۲ء میں مصر کے ایک صوبہ ”اسیوط“کے ایک گاؤں ”موشاء“میں پیدا ہوئے ۔والد کا نام حاجی قطب ابراہیم اور والدہ کا نام فاطمہ حسین عثمان تھا ۔دونوں عربی النسل تھے ۔سید قطب اپنے والدین کے سب سے بڑے لڑکے تھے ۔ آپ نے ثانوی تعلیم ”تہجیزیہ دارالعلوم“نامی ایک اسکول میں حاصل کی ۔اس اسکول میں طلباء کو دارالعلوم میں داخلہ کے لئے تیار کیا جاتا تھا۔وہاں سے فارغ ہوکر آپ ۱۹۲۹ء میں قاہرہ کے دارالعلوم میں داخل ہوئے ۔۱۹۳۲ء میں آپ نے بی ۔اے کی ڈگری اور ڈپلومہ ان ایجوکیشن حاصل کیا ۔تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے محکمہ تعلیم میں بحیثیت انسپکٹر تعلیم ملازمت اختیار کرلی اور ۱۹۵۲ء تک یہ سلسلہ جاری رہا ۔اسی دوران ۱۹۵۴ء میں آپ اخوان المسلمون سے متعارف ہوئے ۔اور ۲ جولائی ۱۹۵۴ء میں آپ کو اخوان کے شعبہ نشر واشاعت نے اخبار”الاخوان المسلمون“کا ایڈیٹر مقرر کیا۔ شہید اسلام سید قطب رحمہ اللہ ۱۹۵۴ء سے لے کر ۱۹۶۴ء تک جیل میں رہے اور اگست میں عبدالسلام عارف صدر عراق کی کوشش سے رہا ہوئے ۔رہا ہوتے ہی پوری دنیا کے نوجوانوں نے آپ کی طرف رجوع کیا ،اور آپ کا لٹریچر جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیلنے لگا۔چنانچہ لادین مغرب پرست کمیونسٹ اور سوشلسٹ عناصر چیخ اٹھے اور بیک وقت ماسکو اور واشنگٹن سے ان کے خلاف سازشیں ہونے لگیں ۔چنانچہ آپ کو ایک سال بعد اگست ۱۹۶۵ء میں دوبارہ گرفتار کرلیاگیا اور ایک سال بعد ۲۹ اگست ۱۹۶۶ء میں آپ کو شہید کردیا گیا ۔ سید قطب اخوان المسلمون میں آنے سے پہلے خالص ادبی کام کرتے رہے ۔لیکن تحریک اخوان المسلمون میں شامل ہونے کے بعد اسلامی انقلاب ،اور تحریک اسلامی ،ان کا خاص موضوع رہا ۔ مصنف نے فی ظلال القرآن میں قرآن پاک کی اثر انگیزی ،جس نے عرب کی کایا پلٹ دی تھی ،کی راہ میں حائل پردوں کو چاک کردیا ہے ۔اس کے ذریعے قرآن پاک کا مطالعہ کرنے والا اس تحریک کے ساتھ جاکھڑا ہوتا ہے جو ہبوط آدم علیہ السلام کے وقت سے روئے زمین پر برپا ہوئی اور انبیاء علیہم السلام کی قیادت میں چلتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور تک آپہنچی ۔آپ صلی اللہ علیہ کے بعد بھی یہ تحریک زندہ اور قیامت تک جاری رہے ۔قاری توحید ورسالت اور آخرت کے عقیدے کو قافلے کے ایک رفیق اور تحریک کے ایک کارکن کی حیثیت سے سنتا اور سمجھتا ہے اور قوموں کے عروج وزوال کی داستان کو امت کے ایک فرد کی حیثیت سے پڑھ کر اس سے سبق لیتاہے۔ فی ظلال القرآن میں علمی موشگافیوں اور فقہی باریکیوں سے ہٹ کر قرآن پاک کے اصل مقصد اور دعوتی رنگ کو اختیار کیا گیاہے۔اس کے لئے جو زبان استعمال کی گئی ہے ۔وہ سید کا ہی حصہ ہے اور اسے بلاشبہ الہامی زبان ہی کہا جاسکتا ہے۔اپنے اس رنگ میں یقیناً یہ ممتاز ترین تفسیر ہے ۔تفسیر کیا ہے ایک دعوت عمل اور دعوت انقلاب ہے ،الفاظ اور معنی کا دریا ہے ،جس میں تحقیقی ،علمی ،وجدانی ، اور ادبی نکات جابجا موجود ہیں ۔پورے ذخیرہ تفاسیر میں یہ پہلی تفسیر ہے ۔جو خود قرآن کے اسلوب بیان میں لکھی گئی ہے ۔دوسری تفاسیر بالعموم منطقی انداز بیان میں لکھی گئی ہیں اور فی ظلال القرآن قرآنی اور انقلابی انداز بیاں میں ہے ۔اس کی اہم خصوصیت یہ ہیں کہ یہ اختلافی مسائل اور اسرائیلیات سے خالی ہے ۔اسلام کا جامع تصور لئے ہوئے ،اس کے احیاء کا طریقہ کار نمایاں کرتی ہے ۔غرض اخلاص ،روح ایمان ،عمل صالح اور دعوت انقلاب اس کی نمایاں خصوصیات ہیں ۔پندہ پارے جیل سے باہر اور بقیہ جیل میں لکھے گئے ہیں ۔عربی میں اب تک کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں ۔
سید عارف شیرازی​
منصورہ ۲۹ دسمبر ۱۹۸۷ء​
اس بات میں نہ تو کوئی مبالغہ ہےاور نہ ہی کسی قسم کی کوئی قیاس آرائی ہے کہ آج اس تحریک کے علمبردار اور داعی مجاہدین القاعدہ ہیں ۔جنہوں نے اپنے خون سے اس تحریک کی آبیاری کی ہے ۔اور اس تحریک کے پودے کو اپنے خون سے سینچا ہے ۔آج دنیا کے جس خطے میں بھی کفار مرتدین اور صلیبیوں کے خلاف جہاد جاری ہے وہ اسی تحریک کی سربراہی میں اسلام کے جھنڈے تلے جاری ہے ۔اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کے نوجوانوں کو ان ابطال امت کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین (الموحدین ویب سائٹ)


 

ابوعیینہ

مبتدی
شمولیت
جنوری 17، 2012
پیغامات
58
ری ایکشن اسکور
281
پوائنٹ
0
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد اللہ والصلاتہ والسلام علی رسول الہ وعلی آلہ وصحبہ من ابتع ھداہ، وبعد:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:“لاتطرونی کما اطرت النصاری ابن مریم”(صحیح البخاری: 3189) ترجمہ: مجھے میرے درجے سے اس طرح بڑھا چڑھا کر بیان نہ کرنا جیسا کہ نصاری نے عیسی علیہ واصلوتہ والسلام کے ساتھ کیا۔

اس حدیث‌کے باوجود فی زمانہ کچھ فریب خوردگان افراد اور جماعتیں شخصیت پرستی میں غلو کی حد تک جاپہنچے ہیں، کہ موصوف سید قطب کو(کہ جن کے رد پر یہ کتابچہ ہے) امام دوراں و شہید ملت قرار دے بیٹھے ہیں اور یہ تک نہ سوچا کہ ان کی کتب جیسے تفسیر فی ظلال القرآن اور العدالتہ الاجتماعیتہ وغیرہ جیسی تصنیفات میں‌ کیسی بھیانک غلطیاں ہیں‌مثلا ان میں‌انبیاء‌کرام علیہم السلام و صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر زبان طعن دراز کی گئی ہے، اسلامی ممالک، معاشروں اور تنظیموں‌ پر کفر کے فتوے جڑے گئے ہیں، عقیدہ اعتزال(عقل پرستی) اور عقیدہ حلول و وحدت الوجود (تصوف کا کفریہ عقیدہ کہ ہر چیز میں اللہ ہے یا وجود صرف اللہ ہی کا ہے) کی آبیاری کی گئی ہے، جسلے جلوس مظاہروں‌ و ریلیوں‌ کے ذریعہ قوت مظاہرہ کرنے جیسی قباحتیں‌ موجود ہیں۔
الغرض اس کتاب کا مقصد سید قطب کی تصنیفات میں‌ پائی جانے والی غلطیوں کی نشاندہی کرنا ہے تا کہ اس کے جال میں پھنسنے سے بچا جا سکتے۔ المیہ تو یہ ہے کہ یہ تصنیفات دنیا میں‌ پھیل چکی ہیں‌، نشرہورہی ہیں‌، تقسیم کی جا رہی ہیں‌، تعلیمی اداروں میں‌باقاعدہ نصابی کتب کا حصہ بن چکی ہیں، مگر عام آدمی اس کے بھیانک نتائج سے بے خبر ہے۔

علامہ عبد اللہ الدویش رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب “المورد الزلال” اور علامہ ربیع بن ھادی المدخلی حفظہ اللہ نے اپنی متعدد کتب میں‌سید قطب کی کتابوں‌ پر سیر حاصل اور مفیس بحث‌ کی ہے اور ساتھ ہی ان میں‌موجود غلطیوں‌ کی نشاندہی فرمائی ہے۔ ان کے علاوہ محترم شیخ‌ ابن عثیمین ، ناصر الدین البانی اور عبد رزاق عفیفی رحمتہ اللہ علہم وغیرہ جیسے کبار علماء کرام نے بھی فتاوی صادر فرمائے ہیں‌ اور اس خوبصورت فریب سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔

وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین

سید قطب کے اعتقادی انحرافات

الحمد اللہ والصلاتہ والسلام علی رسول الہ وعلی آلہ وصحبہ من ابتع ھداہ، وبعد:

یہ رسالہ میرے ان تمام بھائیوں کی طرف ہے جو راہ سنت کو اپنانا چاہتے ہیں‌ اور بدعت و حزبیت(تفرقہ بازی ) کی دلدل سے راہ نجات کے متلاشی ہیں۔ یہ بعض اقوال (سید قطب کے اور اس پر علماء‌ کا رد) جو میں نے جمع کئے ہیں تا کہ آپ اس مسئلے میں‌شرح صدرہوں‌، اور اپنے دین کے معاملے میں‌ مکمل بصیرت پر ہوں، تا کہ اس گناہ اآلود فکری جنگ کا نشانہ نہ بنیں‌ جس جنگ سے اخوان المسلمین کے سید قطب جیسے لیڈروں کی کتب بھری پڑی ہیں۔

سماحتہ الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمتہ اللہ علیہ (سابق مفتئی اعظم سعودی عرب) اپنی وفات سے دو سال قبل یہ فتوی صادر فرما چکے ہیں‌کہ اخوان المسلمین اور تبلیغی جماعت بہتر( 72) ہلاک ہونے والے فرقوں میں‌داخل ہے

جیسا کہ مشہور و معروف افتراق امت والی حدیث میں‌مزکور ہے، آپ کا یہ کالم کیسٹ شرح المنتقی سے ماخوذ ہے۔

سید قطب وہ شخصیت ہے کہ جس سے تمام بڑے علماء کرام نے بچنے کی تلقین فرمائی ہے جیسے شیخ‌ ابن باز، ابن عثیمین، صالح‌ الفوزان وغیرہ۔ اس سللسے میں کیسٹ اقوال العلماء فی مولفات سید قطب (یعنی سید قطب کے مولفات کے متعلق علماء‌ کرام کے اقوال) سننا مفید رہے گا، ناشر: تسجیلات منھاج السنتہ، محلہ السویدی، ریاض۔

سید قطب کی بعض نمایاں‌بدعات اور عقائد میں انحراف کی مثالیں پیش خدمت ہیں۔
کلام اللہ کی تفسیر موسیقی، نغموں اور ترانوں‌سے کرنا

سید قطب سورہ نجم کی تفسیر میں اپنی تفسیر “فی ظلال القرآن” ( ط25 سن 1417ھ، جلد 6، ص 3404) میں‌لکھتے ہیں:
“یہ سورت عمومی طور پر گویا کہ ایک انتہائی اعلی اور اپنے اندر موسیقیت لئے ہوئے ایک نظم ہے، جس میں‌ ترنم بھی ہے، اور یہ ترنم اس کی لفظی بناوٹ میں‌ سماگیا ہے، نیز ہر آیت کے آخر میں متوازن قافیہ ، بندووقفات میں‌بھی یہ نغمائیت اور ترنم واضح ہے”۔

سورہ نازعات کی تفسیر ( جلد 6، ص 3957 ) مین‌لکھتے ہیں:
“موسیقیت کے پیرا ہے میں کھنچا ہے” پھر اس کے بعد لکھتے ہیں‌ : ” پھر یہ موسیقیائی
ایقاع دھیماپڑتا ہے۔۔۔”

سورہ عادیات کی تفسیر (جلد 6، ص 3967) میں‌لکھتے ہیں :
“اور موسیقیائی پرا ہے میں خشونت، سختی اور ڈانٹ کی جھلک نمایاں ہے”۔

فی ظلال القرآن تفسیر مں ایک اور جگہ رقم طراز ہیں کہ:
” داود علیہ الصلوتہ والسلام بادشاہ نبی تھے۔ آپ بعض وقت ملکی امور نپٹانے اور لوگوں کے مشائل حل کرنے کے لئے بھی مخصوص فرماتے ہیں، جبکہ دوسرے اوقات خلوت، عبادت اور اپنے ترانے پڑھنے میں لگاتے تھے تا کہ محراب مٰں اللہ تعالی کی تسبیح بیان کر سکیں “۔


کفریہ عقیدے عقیدہ خلق قرآن کا قائل ہونا

قرآن کریم سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے” فی ظلال القرآن (جلد 1، ص 3Cool میں‌لکھتے ہیں:

“اس اعجاز میں وہی شان ہے جو اللہ تعالی کی تمام مخلوقات میں‌ہے، اور وہ اللہ کی بنائی ہوئی جیزوں میں موجود شان جیسی ہے، جس طرح یہ لوگوں‌کی خلقت میں‌موجود ہے”۔

اسی تفسیر میں ایک اور جگہ (جلد 5، ص 2719) حروف مقطعات پر کلام کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
“لیکن وہ اس سے اس کے جیسی کتاب نہیں‌بنا سکتے ، کیونکہ یہ اللہ تعالی کی بنائی ہوئی ہے، انسان کی نہیں”۔

سورہ ص کی تفسیر میں‌کہتے ہین:
“اللہ تعالی اس حرف”ص” کی قسم اٹھا رہا ہے، بلکل اس طرح جس طرح اس نے اس نصحیت وذ کر والے قرآن کی قسم اتھائی ہے۔ اور یہ حرف اللہ تعالی کی کی بناوٹ میں‌سے ہے، وہی اس کا موجد(ایجاد کرنے والا) ہے، اسی نے اس کو انسان کے حلق میں آواز بنا کر پیدا گرمایا”۔
شیخ‌ عبد اللہ الدویش رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب “المورد الزلال التبیہ علی اخطاء تفسیر الظلال” ص 180 میں‌ اس کلام پر رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں‌: ” اور ان کا یہ کہنا کہ یہ حرف اللہ تعالی کا بنای اہوا ہے اور وہی اس کا موجد ہے، یہ معتزلہ اور جہمیہ(جیسے گمرہ فرقوں‌) کا قول ہے جو قرآن کو مخلوق کہتے ہیں۔ جہاں‌ تک اہل سنت والجماعت کا مزہب ہے تو وہ کہتے ہں کہ: قرآن اللہ تعالی کا کلام ہے، اس نے اسے نازل فرمایا ہے، (اللہ کا کلام اللہ تعالی کی صفت ہے) مخلوق نہیں‌ہے”۔

ایک اور جگہ تفسیر “ظلال القرآن” (جلد 4، ص 2328) میں لکھتے ہیں:
“بے شک قرآن ایک کائناتی مظہر ہے، جیسا کہ زمین اور آسمان ہیں”۔

سید قطب کا اللہ تعالی کے اولوالعزم نبی موسی کلیم اللہ علیہ الصلوتہ والسلام کی شان میں گستاخی کرنا

اپنی تصنیف “التصویر الفنی فی القرآن’ ص 200 میں لکھتے ہیں :
“مثال کے طور پر ہم موسی علیہ اصلوتہ والسلام ( کے کردار ) کو لے لیتے ہیں، وہ پر جوش، متعصب مزاج لیڈر کی ایک مثال ہیں”۔ (نعوذباللہ)

سماحتہ الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمتہ اللہ اس کلام پر تعلیق فرماتے ہیں کہ: انبیاء کا مزاق اڑانا ایک مستقل ارتداد ہے(یعنی جان بوجھ کر ایسا کرنے والا شخص حجت تمام ہونے کے بعد دین سے خارج ہو کر کافر ہو جاتا ہے )”۔

(اقتباس از کیسٹ اقوال العلماء فی سید قطب، مکتبہ منہاج السنتہ کی آڈیو رکارڈنگز، ریاض)


جلیل القدر صحابی رسول و خلیفئہ ثالث ذولنورین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور مشہور صحابی عمر بن عاص رضی اللہ عنہ ہر طعن۔

اپنی کتاب” العدالتہ الجتماعیتہ”
ص 206 میں‌ لکھتے ہیں:
“اور ہم اس طرف مائل ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کی خلافت شیخین (ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہم) کی خلافت کا ہی ایک تسلسل تھی، جہاں‌ تک عثمان رضی اللہ عنہ کے دور حکومت کا تعلق ہے تو وہ ان دونوں کے درمیان ایک دراڑ تھا”۔ (نعوذباللہ)

اپنی کتاب “کتب و شخصیات ” ص 242 میں‌لکھتے ہیں :
” معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ کی علی رضی اللہ عنہ پر غالب آنے کی وجہ یہ نہیں‌تھی کہ وہ ان سے زیادہ لوگوں‌کی نفسیات سے واقف تھے، اور حالات کی مناسبت سے صحیح‌قدم اٹھانے میں زیادہ سمجھ بوجھ رکھتے تھے، جبکہ علی رضی اللہ عنہ کو اس جنگ کے وسائل چننے میں ان کو ان کے اعلی اخلاق و کردار نے پابند سلاسل کر رکھا تھا۔ جب معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی جھوٹ، دھوکہ بازی، چالبازی، منافقت، رشوت اور لوگوں‌کو خریدنے میں تیزی دکھاتے، ایسے وقت میں علی رضی اللہ عنہ اپنے آپ کو اتنا نیچے نہیں‌گراپاتے چناچہ یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں‌کہ وہ کامیاب ہوں‌اور علی رضی اللہ عنہ ناکام ہو جائیں، اور یہ وہ ناکامی ہے جو تمام کامیابیوں‌سے بڑھ کر ہے”۔

شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمتہ اللہ علیہ اس کلام پر تعلیق کرتے ہوئی فرماتے ہیں:” معاویہ اور عمر بن العاص رضی اللہ عنہما کی برائی پر مبنی اس کا یہ کلام قبیح ہے، نہایت ہی قبیح”۔ اور ان کتب کے بارے میں‌فرماتے ہیں‌کہ: ” انہیں‌ پھاڑ دینا چاہئیے”۔ (کیسٹ : اقوال العلماء فی سید قطب )


صحابی رسول ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو کافر قرار دینا


وہ صحابی رسول ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو کافر قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

” ابو سفیان رضی اللہ عنہ وہ شخص ہے جس سے اسلام اور مسلمانوں کو جو تکلیفیں اور ازیتیں پہنچیں‌ اس سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں اور اس نے اس وقت اسلام قبول کیا جب اسلام اپنی فیصلہ کن فتح کے جھنڈے گاڑچکا تھا، چناچہ یہ محض ہونٹ اور زبان کا اسلام تھا، قلب (دل) دوجدان کا نہیں، اسلام اس شخص کے دل میں راسخ نہ ہوا”۔ (اخبار: المسلمون، شمارہ 3 سال 1371ھ )


وحدت الوجود کا اثبات


فی ظلال القرآن (جلد 6، ص 4002) سورہ اخلاص کی تفسیر میں‌رقمطراز ہیں:
” یہ وجود کا ایک ہونا ہے۔ حقیقت صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے اس کی حقیقت، اور حقیقت میں وجود بھی صرف اسی(اللہ ) کا ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی وجود ہے وہ اپنا وجود اس حقیق وجود سے لیتا ہے۔ اپنی حقیقت اس ذاتی حقیقت سے مستمد کرتا ہے۔ اس طرح یہ فعل انجام دینے کی آحادیث (ایک ہونا) ہوئی، چناچہ اس وجود میں اس کے علاوہ کوئی کسی چیز کا کرنے والا نہیں‌ ہے، اور نہ ہی کسی چیز میں کرنے والا ہے، اور یہ عقیدہ ضمیر مین‌ پہناں ہے اور وجود کی تفسیر بھی ہے”۔

شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمتہ اللہ علیہ مجلتہ الدعوتہ (عربی) شمارہ: 1591، 1418/1/9ھ میں تفسیر ظلال القرآن کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: “میں نے سید قطب ی سورہ اخلاصکی تفسیر پڑھی، اس نے اس میں بہت بڑی بات کہی ہے، جو اہل ستن والجماعت کے منھج کے مخالف ہے کیونکہ اس کی تفسیر یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ وحدت الوجود کا قائل ہے۔ اسی طرح اس کی استواء (اللہ تعالی کے مخلوق سے بلند اپنے عرش پرعظیم پر ہونے) کی تفسیر (گمراہ فرقں جیسے معتزلہ، اشاعرہ، ماتریدیہ وغیرہ جو اللہ تعالی کی صفات کی سلف صالحین کے مزہب کے بر خلاف تاویلات کرتے ہیں) استولی (قبضہ یا غلبہ ) سے کی ہے”۔
باقی سید قطب کی گمراہیوں کے لئے
دیکھئے الصادقین فورم
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
السلام علیکم..
کیا بات ہے آج کے موحدین کی!
خود موحدین اور امام کے عقائد و نظریات..........اعوذباللہ من ذالک!
میرے خیال ہے اگر "موحدین" ویب سائٹ پر موجود تکفیری فتوؤں کا منصفانہ استعمال کیا جائے تو خوب تعین ہوجائے گا!
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
اللہ اکبر
چلیں اچھا ہو آجکل کے نام نہاد سلفیوں نے خودہی اپنی فکر و منہج کا ماخذ پیش کر دیا ، ورنہ ہم شور مچا مچا کر تھک جاتے، کوئی نہ مانتا کہ آج کا فسادی سلفی نہیں بلکہ قطبی ہیں!
 
شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
شکیل افریدی کا انٹرویو تکفیریوں کو لے ڈوبا

بدھ, 12 ستمبر 2012 14:08 بی بی سی اردو مشاہدات: 18


امریکی چینل فاکس نیوز کے مطابق القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی تلاش میں مدد دینے والے پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی کا کہنا ہے کہ پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے حکام امریکہ کو اپنا ’بدترین دشمن‘ مانتے ہیں۔ ڈاکٹر آفریدی کو اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بیس دن بعد گزشتہ برس بائیس مئی کو پشاور کے علاقے حیات آباد سے حراست میں لیا گیا تھا۔ انہیں بعدازاں ایک شدت پسند تنظیم کی حمایت اور مالی امداد کے جرم میں تینتیس برس قید کی سزا سنائی گئی اور اب وہ پشاور کی جیل میں قید ہیں۔
نجی امریکی ٹی وی چینل فاکس نیوز کے مطابق حراست میں لیے جانے کے بعد پہلی مرتبہ جیل سے دیے گئے ایک مبینہ انٹرویو میں ڈاکٹر آفریدی نے یہ بھی بتایا کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ امریکی آپریشن کا ہدف کون ہے فاکس نیوز کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے اس انٹرویو میں شکیل آفریدی نے کہا کہ انہیں یہ ضرور معلوم تھا کہ ایبٹ آباد کے اس مکان میں چند دہشت گرد مقیم ہیں تاہم ان کی شناخت سے وہ ناواقف تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’مجھے جو کام دیا گیا تھا اس کے علاوہ کسی مخصوص ہدف کا علم نہیں تھا۔ مجھے دھچکا لگا اور یقین نہیں آیا کہ میں اس(اسامہ) کی ہلاکت سے جڑا ہوا تھا‘۔ ڈاکٹر آفریدی کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں لگا تھا کہ انہیں اسامہ کی ہلاکت کے بعد پاکستان چھوڑنے کی ضرورت ہے لیکن پھر انہیں آئی ایس آئی نے اغوا کر لیا۔’فاکس نیوز نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ شکیل آفریدی نے انٹرویو میں بتایا کہ سی آئی اے نے انہیں افغانستان چلے جانے کو کہا تھا۔ تاہم وہ سرحدی علاقوں کی صورتحال کی وجہ سے خدشات کا شکار تھے اور ان کے خیال میں چونکہ وہ بن لادن کی ہلاکت میں ملوث نہیں تھے اس لیے انہیں ملک چھوڑنے کی ضرورت نہیں تھی۔ فاکس نیوز کے مطابق شکیل آفریدی نے بات چیت کے دوران اسلام آباد کے علاقے آبپارہ میں واقع آئی ایس آئی کے حراستی مرکز میں ہونے والے مبینہ تشدد کا بھی ذکر کیا جہاں انہیں ابتدائی تفتیش کے لیے رکھا گیا تھا۔ امریکی نیوز چینل کے مطابق تفتیش کے دوران ان کے جسم پر سگریٹ بجھائے گئے، انہیں بجلی کے جھٹکے دیے گئے اور انہیں پرانے بوسیدہ کپڑے پہنا کر زمین پر پڑی پلیٹ سے ’کتے‘ کی طرح کھانے پر مجبور کیا گیا۔mڈاکٹر آفریدی نے کہا کہ تفتیش کے دوران آئی ایس آئی کے اہلکار انہیں کہتے رہے کہ’امریکی ہمارے بدترین دشمن ہیں، بھارتیوں سے بھی برے دشمن‘۔ فاکس نیوم کے مطابق پشاور سنٹرل جیل سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی بلاشبہ حقانی نیٹ ورک کی مالی امداد کرتی ہے۔ امریکہ کافی عرصے سے پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ اس کے قبائلی علاقوں خاص کر شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف آپریشن کیا جائے۔ ڈاکٹر آفریدی نے الزام عائد کیا کہ پاکستانی خفیہ ادارہ اکثر امریکہ کو حراست میں لیے گئے بہت سے اہم مسلح شدت پسندوں سے تفتیش نہیں کرنے دیتا اور اکثر ان شدت پسندوں کو افغانستان میں نیٹو افواج پر حملے کرنے کے لیے رہا بھی کر دیتا ہے۔ ماضی میں پاکستان ان الزامات کی کئی بار تردید کر چکا ہے۔ فاکس نیوز کے مطابق ڈاکٹر آفریدی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی شدت پسندی کے خلاف جنگ ایک ڈھونگ اور امریکہ سے پیسے نکلوانے کا ایک طریقہ ہے۔ اس انٹرویو میں انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ آئی ایس آئی بہت سے مسلح شدت پسندوں کو امریکی تفتیشی افسران سے جھوٹ بولنے اور غلط معلومات فراہم کرنے کی ہدایات دیتا ہے۔ تجزیہ کار شوکت قادر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ سکیورٹی اداروں میں ایسے لوگ ہوں جو اس موقف کے حامی ہوں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اکثریت ایسا ہی سوچتی ہے۔ امریکی نیوز چینل کے مطابق ڈاکٹر آفریدی نے مزید بتایا کہ آبپارہ جیل میں کئی مغربی سیاہ فام باشندے بھی قید ہیں جو کہ اسلام قبول کرنے کے بعد افغانستان میں جہاد کے مقاصد سے آئے تھے اور ایسے افراد کو خاص طور پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ عرب قیدیوں کے ساتھ بہتر سلوک کیا جاتا ہے۔ امریکی نیوز چینل فاکس نیوز کے مطابق ڈاکٹر آفریدی نے جیل کے اندر سے یہ انٹرویو موبائل فون پر دیا ہے۔ پشاور جیل کے حکام نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہ انٹرویو کی اطلاعات پر حیران ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ ڈاکٹر شکیل کو ان کے قید خانے میں موبائل فون پہنچایا گیا ہو۔ شکیل آفریدی کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر پاکستانی حکام کی جانب سے تاحال کوئی سرکاری موقف سامنے نہیں آیا ہے۔
شکیل افریدی کا یہ انٹرویو ان لوگوں کے لیے جو پاکستان گورنمنٹ کو کافر کہتے ہیں اور مغرب کے اسلام دشمنی میں سب سے
بڑا اتحادی کہنے والے ہیں ان کے لیے بہت سے سوالیہ نشان چھوڑ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا کوئی ہے جو اس پر اٹھنے والے سوالات کا جواب دے سکے یا اپنی تصحیح کر سکے؟؟؟؟
 

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,596
پوائنٹ
139
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
الموحدین ویب سائٹ پیش کرتے ہیں: پی ڈی ایف اور یونی کوڈ ورژن میں تفسیر فی ظلال القرآن (قرآن کے سائے میں) سورۃ الفاتحۃ اور سورۃ البقرۃ کی مکمل تفسیر​
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ فاتحہ کے متعلق فرمایا:یہی سبع مثانی ہے اور یہی وہ قرآن عظیم ہے جو میں دیا گیا ہوں(بخاری) ۔اور سورہ بقرۃ کے متعلق فرمایا کہ:سورۃ بقرۃ قرآن کی کوہان ہے اور اس کی بلندی ہے (احمد)۔​
[h=1]فی ظلال القرآن (قرآن کے سائے میں)[/h] [h=1]سورۃ الفاتحۃ اورسورۃ البقرۃ کی مکمل تفسیر[/h]


[h=3]شہید اسلام سید قطب رحمہ اللہ[/h] [h=3]اردو ترجمہ:سید معروف شاہ شیرازی[/h]ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف
tafseer_fi_zilalil_quran.pdf - 4shared.com - document sharing - download
Tafseer_Fi_Zilalil_Quran.pdf
Tafseer_Fi_Zilalil_Quran.pdf (Tafseer_Fi_Zilalil_Quran.pdf) - DivShare
http://dl.dropbox.com/u/9911860/fizilalilquran/Tafseer_Fi_Zilalil_Quran.pdf

یونی کوڈ
Tafseer_Fi_Zilalil_Quran.doc - File Shared from Box - Free Online File Storage

[h=3]شہید اسلام سید قطب رحمہ اللہ اور تفسیر فی ظلال القرآن[/h] شہیداسلام سید قطب کا شمار امت مسلمہ کی ان چند برگزیدہ ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے تاریک ادوار میں روشنی کے چراغ جلائے اور اسلامی نظام زندگی کو اپنے خون سے سینچا۔ سید قطب رحمہ اللہ ۱۹۰۲ء میں مصر کے ایک صوبہ ”اسیوط“کے ایک گاؤں ”موشاء“میں پیدا ہوئے ۔والد کا نام حاجی قطب ابراہیم اور والدہ کا نام فاطمہ حسین عثمان تھا ۔دونوں عربی النسل تھے ۔سید قطب اپنے والدین کے سب سے بڑے لڑکے تھے ۔ آپ نے ثانوی تعلیم ”تہجیزیہ دارالعلوم“نامی ایک اسکول میں حاصل کی ۔اس اسکول میں طلباء کو دارالعلوم میں داخلہ کے لئے تیار کیا جاتا تھا۔وہاں سے فارغ ہوکر آپ ۱۹۲۹ء میں قاہرہ کے دارالعلوم میں داخل ہوئے ۔۱۹۳۲ء میں آپ نے بی ۔اے کی ڈگری اور ڈپلومہ ان ایجوکیشن حاصل کیا ۔تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے محکمہ تعلیم میں بحیثیت انسپکٹر تعلیم ملازمت اختیار کرلی اور ۱۹۵۲ء تک یہ سلسلہ جاری رہا ۔اسی دوران ۱۹۵۴ء میں آپ اخوان المسلمون سے متعارف ہوئے ۔اور ۲ جولائی ۱۹۵۴ء میں آپ کو اخوان کے شعبہ نشر واشاعت نے اخبار”الاخوان المسلمون“کا ایڈیٹر مقرر کیا۔ شہید اسلام سید قطب رحمہ اللہ ۱۹۵۴ء سے لے کر ۱۹۶۴ء تک جیل میں رہے اور اگست میں عبدالسلام عارف صدر عراق کی کوشش سے رہا ہوئے ۔رہا ہوتے ہی پوری دنیا کے نوجوانوں نے آپ کی طرف رجوع کیا ،اور آپ کا لٹریچر جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیلنے لگا۔چنانچہ لادین مغرب پرست کمیونسٹ اور سوشلسٹ عناصر چیخ اٹھے اور بیک وقت ماسکو اور واشنگٹن سے ان کے خلاف سازشیں ہونے لگیں ۔چنانچہ آپ کو ایک سال بعد اگست ۱۹۶۵ء میں دوبارہ گرفتار کرلیاگیا اور ایک سال بعد ۲۹ اگست ۱۹۶۶ء میں آپ کو شہید کردیا گیا ۔ سید قطب اخوان المسلمون میں آنے سے پہلے خالص ادبی کام کرتے رہے ۔لیکن تحریک اخوان المسلمون میں شامل ہونے کے بعد اسلامی انقلاب ،اور تحریک اسلامی ،ان کا خاص موضوع رہا ۔ مصنف نے فی ظلال القرآن میں قرآن پاک کی اثر انگیزی ،جس نے عرب کی کایا پلٹ دی تھی ،کی راہ میں حائل پردوں کو چاک کردیا ہے ۔اس کے ذریعے قرآن پاک کا مطالعہ کرنے والا اس تحریک کے ساتھ جاکھڑا ہوتا ہے جو ہبوط آدم علیہ السلام کے وقت سے روئے زمین پر برپا ہوئی اور انبیاء علیہم السلام کی قیادت میں چلتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور تک آپہنچی ۔آپ صلی اللہ علیہ کے بعد بھی یہ تحریک زندہ اور قیامت تک جاری رہے ۔قاری توحید ورسالت اور آخرت کے عقیدے کو قافلے کے ایک رفیق اور تحریک کے ایک کارکن کی حیثیت سے سنتا اور سمجھتا ہے اور قوموں کے عروج وزوال کی داستان کو امت کے ایک فرد کی حیثیت سے پڑھ کر اس سے سبق لیتاہے۔ فی ظلال القرآن میں علمی موشگافیوں اور فقہی باریکیوں سے ہٹ کر قرآن پاک کے اصل مقصد اور دعوتی رنگ کو اختیار کیا گیاہے۔اس کے لئے جو زبان استعمال کی گئی ہے ۔وہ سید کا ہی حصہ ہے اور اسے بلاشبہ الہامی زبان ہی کہا جاسکتا ہے۔اپنے اس رنگ میں یقیناً یہ ممتاز ترین تفسیر ہے ۔تفسیر کیا ہے ایک دعوت عمل اور دعوت انقلاب ہے ،الفاظ اور معنی کا دریا ہے ،جس میں تحقیقی ،علمی ،وجدانی ، اور ادبی نکات جابجا موجود ہیں ۔پورے ذخیرہ تفاسیر میں یہ پہلی تفسیر ہے ۔جو خود قرآن کے اسلوب بیان میں لکھی گئی ہے ۔دوسری تفاسیر بالعموم منطقی انداز بیان میں لکھی گئی ہیں اور فی ظلال القرآن قرآنی اور انقلابی انداز بیاں میں ہے ۔اس کی اہم خصوصیت یہ ہیں کہ یہ اختلافی مسائل اور اسرائیلیات سے خالی ہے ۔اسلام کا جامع تصور لئے ہوئے ،اس کے احیاء کا طریقہ کار نمایاں کرتی ہے ۔غرض اخلاص ،روح ایمان ،عمل صالح اور دعوت انقلاب اس کی نمایاں خصوصیات ہیں ۔پندہ پارے جیل سے باہر اور بقیہ جیل میں لکھے گئے ہیں ۔عربی میں اب تک کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں ۔
سید عارف شیرازی​
منصورہ ۲۹ دسمبر ۱۹۸۷ء​
اس بات میں نہ تو کوئی مبالغہ ہےاور نہ ہی کسی قسم کی کوئی قیاس آرائی ہے کہ آج اس تحریک کے علمبردار اور داعی مجاہدین القاعدہ ہیں ۔جنہوں نے اپنے خون سے اس تحریک کی آبیاری کی ہے ۔اور اس تحریک کے پودے کو اپنے خون سے سینچا ہے ۔آج دنیا کے جس خطے میں بھی کفار مرتدین اور صلیبیوں کے خلاف جہاد جاری ہے وہ اسی تحریک کی سربراہی میں اسلام کے جھنڈے تلے جاری ہے ۔اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کے نوجوانوں کو ان ابطال امت کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین (الموحدین ویب سائٹ)


یہ واقعی ایک منفرد خوبی ہے اس تفسیر کی !
 
شمولیت
دسمبر 29، 2011
پیغامات
91
ری ایکشن اسکور
82
پوائنٹ
63
یہ بهی! ابتسامہ
https://manhajahlussunah.wordpress.com/2011/09/11/دور-جدید-کی-تکفیری-تحریکوں-کا-جائزہ-حص/

بعض سلفی وغیرسلفی علماء کا کہنا ہے کہ مصر میں تکفیر کی تحریک کا آغاز اخوانی تحریک کے رہنما سید قطب شہید کی تحریروں سے ہوا۔ علامہ یوسف قرضاوی لکھتے ہیں :
فی ھذة المرحلة ظھرت کتب الشھید سید قطب ‘ التی تمثل المرحلة الأخیرة من تفکیرہ ‘ والتی تنضح بتکفیر المجتمع’ وتأجیل الدعوة الی النظام الاسلامی بفکرة تجدید الفقہ وتطویرہ ‘ واحیاء الاجتھاد’ وتدعوا لی العزلة الشعوریة عن المجتمع’ وقطع العلاقة مع الآخرین…ویتجلی ذلک أوضح ما یکون فی تفسیر ‘فی ظلال القرآن’ فی طبعتہ الثانیة وفی ‘معالم الطریق’ ومعظمہ مقتبس من الظلال.”(أولیات الحرکة السلامیة : ص ١١٠)
”اس مرحلے میں سید قطب کی وہ کتابیں سامنے آئیں، جو سید قطب کے فکر کے آخری مرحلے کی نمائندگی کر رہی تھیں اور ان کتابوں میں اسلامی معاشروں تکفیر، نظام اسلامی کے قیام کی دعوت کو مؤخر کرنا اور فقہ اسلامی کی تجدید، تشکیل اور اجتہاد کے احیاء کی دعوت کو مقدم کرنا مترشح ہوتا ہے۔ اسی طرح سید قطب کی یہ کتابیں اسلامی معاشروں سے شعوری علیحدگی اور اپنے کے علاوہ سے قطع تعلقی کی دعوت دیتی ہیں… اور یہ تمام افکار ان کی تفسیر ‘فی ظلال القرآن’ کے دوسرے ایڈیشن میں وضاحت سے موجود ہیں اور ان کی کتاب ‘معالم الطریق’ میں بھی ہیں اور اس کتاب کا اکثر حصہ ان کی تفسیر فی ظلا ل القرآن ہی پر مشتمل ہے۔”

شیخ ابو حسام الدین طرفاوی نے بھی اپنی کتاب الغلو فی التکفیر میں تکفیری فکراور تحریک کی بنیاد سید قطب شہید کو قرار دیا ہے جبکہ محمود عزت کا کہنا ہے کہ سید قطب کا آخری کلام مسلمان معاشروں کی تکفیر نہ کرناتھا۔ جہاں تک سعودی سلفی علماء کا سید قطب شہید کے بارے رائے کا معاملہ تو اکثر کبار سلفی علماء سید قطب شہید کو جلیل القدر صحابہ کرام پرطعن، انبیاء کے لیے غیر مناسب کلمات کے استعمالات، وحدت الوجود کے قائل ہونے، حلول کے عقیدے کے مطابق قرآنی آیات کی تفسیر کرنے، صفات باری تعالی میں تحریف، مسلمان معاشروں کی تکفیر، مسئلہ جبر میں جبریہ کی تقلید، کلمہ توحید کی غلط تفسیر، عقیدے میں خبر واحد بلکہ خبر متواتر کابھی انکار، قرآن کو اللہ کی مخلوق قرار دینا، میزان کا انکار، اشتراکیت کا قائل ہونے، روح کو ازلی قرار دینے، بتوں اور قبر پرستی کے شرک کو شرک اکبر نہ سمجھنا، رؤیت باری تعالی، صفت ید، صفت وجہ اور استواء علی العرش کی باطل تاویلات پیش کرنا، صفت کلام سے مراد اللہ کا ارادہ لینا، نبوی معجزات کی توہین اور عقیدہ الولاء و البراء میں غلو سے متہم کرتے ہوئے بدعتی شمار کرتے ہیں۔
سید قطب شہید کے عقیدے اور منہج کو بدعتی قرار دینے پر سعودی عرب کی فتوی کمیٹی اور ہیئہ کبار العلماء کے رکن شیخ صالح الفوزان کا رسالہ براء ة علماء الأمة من تزکیة أھل البدعة والمذمة کے نام سے موجودہے۔علاوہ ازیں مدینہ یونیورسٹی کے استاذ شیخ ربیع المدخلی نے بھی کئی ایک کتب میں سید قطب شہید پر رد کیا ہے اور اس بارے ان کی مفصل کتاب أضواء سلامیة علی عقیدة سید قطب وفکرہ ایک معروف کتاب ہے۔علاوہ ازیں معروف سعودی عالم شیخ عبد اللہ الدویش کی بھی سید قطب کے رد میں کافی تحریریں موجود ہیں جن میں سے المورد العذب الزلال فی التنبیہ علی أخطأ الظلال ایک اہم تحریر ہے۔شیخ ابو عبد الرحمن الراجحی نے سید قطب کے عقائد کے رد میں ایک قصیدہ عربی زبان میں لکھاجو عرب دنیا میں بہت معروف ہوا یہ قصیدہ الھائیة فی بیان عقیدة سید قطب البدعیة کے نام سے مشہور ہے۔

لیکن ہم یہاں یہ بات بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ کوئی بھی شیء اس دنیا میں شر محض نہیں ہے۔ سید قطب شہید رحمہ اللہ میں عقیدے کے بگاڑ کے باوجود بہت سی خوبیاں تھیں اور دین اسلام کے لیے ان کی قربانیاں ایک تسلیم شدہ امر ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض مقامات پر اگرچہ واقعتاً سید قطب کے عقیدے میں کجی محسوس ہوتی ہے لیکن بعض مقامات پر ناقدین کی طرف سے سید قطب شہید رحمہ اللہ کی عبارتوں کو کھینچ تان کر ان کے کھاتے میں وہ الزام بھی ڈال دیے جاتے ہیں جو ان کے عقائد معلوم و محسوس نہیں ہوتے ہیں۔بہر حال سید قطب شہید ایک داعی، مصلح اور ادیب تھے اور اس اعتبار سے ان کا مقام مسلم اور قابل تعریف ہے لیکن انہیں ایک فقیہ یا مجتہد کے مقام پر فائز کرنا یا عقیدہ جیسے محتاط علم میں ان کو رہنما بنانا خود ان کے ساتھ بھی زیادتی ہے اور عوام الناس کے ساتھ بھی۔

ہم یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بعض سلفی نوجوان یاطلبۃ العلم، کبار علماء کے اس قسم کے رد کو کسی شخصیت کو رگیدنے یا مسخ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں حالانکہ علماء کا مقصد کسی شخص کی ذات کو گندا کرنا نہیں ہوتا۔ عام طور پربعض نوجوان جذباتی قسم کے متشدد سلفیہ کا یہ منہج بن چکا ہے کہ کسی بھی داعی، مصلح یا خادم دین کے بارے انہیں عقیدے یامنہج کی کسی خرابی کا علم ہوتا ہے تو وہ اس داعی یا مصلح کی پوری شخصیت ہی کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس نوجوان سلفی نظریاتی تشدد کا نتیجہ ہے کہ آج سلفیہ کئی ایک جماعتوں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کی تکفیر کر رہے ہیں ۔اور یہ سب انٹر نیٹ پر موجود ہے۔ انبیاء و رسل کے علاوہ اس عالم بشری میں کوئی بھی معصوم نہیں ہے اورہر کوئی خطا کا پتلا ہے لہذا کسی کی فکری خطا یا عقیدے کے بگاڑ کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آپ ان کی من جملہ دینی خدمات یا اوصاف حسنہ ہی کا رد کر دیں ۔ قرآن مجید تو یہود تک کے بعض اوصاف پر ان کی تعریف کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ومن أھل الکتاب من ا ن تأمنہ بقنطاریؤدہ الیک.(آل عمران : ٧٥)

مصر میں بھی اگرچہ قانون سازی کی تاریخ ڈیڑھ سو سال پرانی ہے لیکن مصر کے ظالم حکمرانوں کے ظلم کے خلاف ردعمل کی صورت میں تکفیر کی تحریک کا باقاعدہ آغاز سید قطب شہید کی تحریروں کی روشنی میں بیسیویں صدی عیسوی کی سترکی دہائی میں ہوا۔ مصر میں تکفیر کا دوسرا مرحلہ ‘جماعت المسلمین’ سے شروع ہواجنہیں جماعة التکفیر والھجرة کا نام دیا گیا۔ اس جماعت کی ابتداء حسن البناء کی قائم کردہ جماعت’الخوان المسلمون’کے ان راکین سے ہوئی جنہیں حکومت مصر کی طرف سے پابند سلاسل کیا گیااور ان پر معاصر حکام کی طرف سے شدید ظلم و ستم ہوا۔١٩٦٧ء میں جیل میں قید اخوانیوں کے لیے جمہوریہ مصر کے صدر جمال عبد الناصر کی طرف سے یہ حکم جاری ہوا کہ اخوانی کارکنان صدرکی تائید و حمایت کریں ۔ اکثر اخوانی اراکین نے اپنے آپ کو مجبور اور حالت اکراہ میں سمجھتے ہوئے صدر کی تائید کر دی جبکہ نوجوانوں کی ایک جماعت نے اس تائید سے انکار کر دیا اور صدر اور اس کے حواریوں حتی کہ ان اخوانیوں کو بھی مرتد قرار دیا جو صدر کی تائید کر چکے تھے۔نوجوانوں کی اس جماعت نے یہ بھی کہا کہ جو ان مرتدین کو مرتد نہ کہے وہ بھی مرتد ہو جائے گا۔ ان نوجوانوں کے امام اس وقت انجینئر علی اسماعیل تھے۔ علی اسماعیل نے بعد میں اپنے افکار اور نظریات سے توبہ کر لی ۔

ان کے بعد شکری مصطفی نے ان نوجونواں کی قیادت سنبھال لی اور تنظیم کو بیعت کی بنیادوں پر منظم کیا۔ شکری مصطفی کے دور میں اس جماعت کے افکار و نظریات میں تشدد اور بھی بڑھ گیا اور جو بھی جماعت سے علیحدہ ہوتا تو اس کو وہ ایک طرف تو جسمانی سزا دینا اپنا حق سمجھتے تھے اور دوسری طرف اس کی تکفیر بھی کرتے تھے۔٣٠مارچ ١٩٧٨ء کوحکومت مصر کی طرف سے شکری مصطفی اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ شکری مصطفی کے بعد اس جماعت کی قیادت ماہر عبد اللہ زناتی نے سنبھال لی۔ اس جماعت کے بنیادی عقائد میں تکفیر اور ہجرت شامل ہے۔ تکفیر کے اصول کے تحت یہ ان حکمرانوں کی تکفیر کرتے ہیں جو اسلامی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے ۔ یہ حکمرانوں کے علاوہ ان مسلمان معاشروں کی بھی تکفیر کرتے ہیں جو اپنے حکمرانوں کے فیصلوں پر راضی ہوں یا انہیں ووٹ دیں یا کسی طرح سے بھی ان کے ساتھ تعاون کریں۔ یہ ان علماء کی بھی تکفیر کرتے ہیں جو شریعت کے مطابق فیصلے نہ کرنے والے مسلمان حکمرانوں کی تکفیر نہیں کرتے۔ یہ جماعت تمام مسلمانوں کے لیے اپنے امام سے بیعت کو واجب قرار دیتی ہے جس مسلمان تک ان کے امام کی دعوت پہنچ جائے اور وہ اس کی بیعت نہ کرے تو اس مسلمان کی بھی وہ تکفیر کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی ان کی جماعت میں شامل ہونے کے بعد نکل جائے تو وہ بھی ان کے نزدیک مرتد اور واجب القتل ہے۔ اپنے ہجرت کے اصول کے تحت انہوں نے تمام اسلامی معاشروں کو دور جاہلیت کے معاشرے قرار دیا اور ان سے قطع تعلقی کا حکم جاری کیا ۔ اس جماعت کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ موجودہ اسلامی معاشروں میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر نہیں ہے کیونکہ یہ جاہلی معاشرے ہیں اور جاہلی معاشرے کو اللہ کے رسول نے ایمان کی دعوت دی لہذا ان مسلمان معاشروں کو بھی مکہ کے جاہلی معاشرے پر قیاس کرتے ہوئے صرف ایمان کی دعوت دینی چاہیے۔ اس جماعت کے بعض اکابرین کو پھانسی چڑھا دیا گیا، بعض نے اپنے افکار سے رجوع کر لیا اور بعض مختلف علاقوں اور بلاد اسلامیہ میں منتشر ہو کر اپنا یہ فکر پھیلانے لگ گئے۔ (الموسوعة المیسرة ‘ جماعات غالیة ‘ جماعة التکفیر والھجرة)

مصر میں تکفیر کی اس تحریک کا زوال تیسرے مرحلے میں الاخوان کے مرشد عام شیخ حسن الھضیبی سے شروع ہوا ۔ انہوں نے ‘دعاة لا قضاة’کے نام سے کتاب لکھی اور اس میں اخوانیوں کو مسلمان معاشروں اور عمومی تکفیر سے منع کیا۔ انہوں نے اپنی تحریک کے اراکین میں اس بات کو اجاگر کیا کہ ہم داعی ہیں نہ کہ قاضی۔ شیخ نے یہ واضح کیا کہ اخوانیوں کا اصل کام لوگوں کی اصلاح ہے نہ کہ ان پر فتوے لگانا اور ان کے کفر کے فیصلے جاری کرنا۔ علامہ قرضاوی نے اپنی کتاب ظاھرة الغلو فی التکفیرمیں اس کتاب کی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ اس کتاب نے اخوانیوں کو ان کے صحیح منہج اور کام کا احساس دلایا۔
مصر کے معروف سلفی عالم دین شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ کے بارے عام طور پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ حکمرانوں کی تکفیر کے قائل تھے۔ ہمارے علم کی حد تک ان کی کوئی ایسی تحریر نہیں ہے جس میں انہوں نے توحید حاکمیت کی بیان پر مصری یا عثمانی حکمرانوں کی تکفیر کی ہو۔ ہاں! ان کی بعض ایسی تحریریں ضرور موجود ہیں جس میں انہوں نے وضعی قوانین کے مطابق فیصلے کرنے کو جائز قرار دینے والوں کو گمراہ قرار دیا ہے ۔شیخ ایک جگہ فرماتے ہیں:
ھذہ الآثار عن ابن عباس وغیرہ ممایلعب بہ المضللون فی عصرنا ھذا من المنتسبین للعلم’ ومن غیرھم من الجراء علی الدین یجعلونھا عذرا أو باحة للقوانین الوضعیة الوثنیة الموضوعة التی ضربت علی بلاد المسلمین.”(عمدة التفسیر:جلد ١، ص ٥١٤)
” اور حضرت عبد اللہ بن عباس کے ان آثار وغیرہ کی بنیاد پر ہمارے زمانے کے بعض نام نہاد اہل علم اور دین کے معاملے میں جرات کا اظہار کرنے والے کھیل تماشہ کرتے ہیں اور وہ ان آثارکو بنیاد بناتے ہوئے ان شرکیہ وضعی قوانین کو قابل عذر یا مباح قرار دیتے ہیں جو مسلمان ممالک میں نافذ کیے گئے ہیں۔‘‘

شیخ کی درج ذیل عبارت اپنے موقف میں انتہائی صریح ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سلفی علماء کا اس بات پر اتفا ق ہے کہ جو حضرات خلاف اسلام وضعی قوانین کے نفاذ یا ان کے مطابق فیصلوں کو مباح یا قابل عذر قرار دیتے ہیں وہ گمراہ تو کجا دائرہ اسلام سے بھی خارج ہو جاتے ہیں۔شیخ نے اسی فعل کو ایک دوسری جگہ کفر بواح قرار دیا ہے۔ شیخ فرماتے ہیں:
ان الأمر فی ھذہ القوانین الوضعیة واضح وضوح الشمس ھی کفر بواح لا خفاء فیہ.”(عمدة التفسیر : جلد١، ص١٧٤٤)
”ان وضعی قوانین کا معاملہ روز روشن کی طرح واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ ایسا کفر بواح ہے کہ جس میں کوئی شک نہیں ہے۔‘‘

وضعی قوانین کے کفریہ ہونے میں بھی کوئی شک نہیں ہے اور جو ان کفریہ قوانین کے مطابق فیصلوں کو جائز، حلال یا قابل عذر سمجھے تو اس کے اس عمل کے کفر بواح ہونے میں بھی کوئی شک نہیں ہے لیکن یہ واضح رہے کہ شیخ نے اس فعل کے فاعلین کو کافر قرار نہیں دیا ہے بلکہ اصل زور فعل کے کفریہ اور کفر بواح ہونے پر ہے۔

کسی فعل کے ‘کفریہ’ ہونے یا ‘کفر بواح’ ہونے اور اس کے فاعل کو ‘کافر’ قرار دینے میں جو فرق ہے وہ اہل علم سے مخفی نہیں ہے۔یہ بھی واضح رہے کہ کسی فعل کو ‘کفر’ یا ‘شرک’ یا ‘کفر بواح’قرار دینے کو عرف عام میں تکفیر نہیں کہتے کیونکہ تکفیر تو ‘فاعل ِ کفر’ یا’ فاعل ِ شرک’ کی ہوتی ہے نہ کہ’ افعال کفر’ یا ‘افعال شرک’ کی۔

https://manhajahlussunah.wordpress.com/2011/09/11/دور-جدید-کی-تکفیری-تحریکوں-کا-جائزہ-حص/
 
Top