• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

النصر الربانی فی ترجمہ محمد بن الحسن الشیبانی

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
اب تک کا خلاصہ
ماقبل میں جوبحث کی گئی ہے،اس کا خلاصہ یہ ہے کہ امام محمد پر محدثین کی جانب سے جو جرح کی گئی ہےان کا تعلق درج ذیل امور سے ہے۔

  1. بعض محدثین کی جرح کا تعلق ان کے مسلک اورمذہب کے اعتبار سے ہے یعنی مرجی اورجہمی وغیرذلک ،بعض روایتوں ۔
  2. بعض روایتیں ایسی ہیں جن کی سند میں کلام ہے اور وہ محل استدلال سے خارج ہیں یااس کے ثبوت مین مزید غوروفکر کی ضرورت ہے۔
  3. بعض محدثین کاکلام ایساہے جس کا تعلق جرح سے نہیں ہے اورجس کی ماقبل میں وضاحت کردی گئی ہے،جیسے جوزجانی کا کلام، ابن عدی کا کلام ،امام احمد بن حنبل کالااروی کہنا وغیرذلک
  4. بعض محدثین کاکلام جرح کے تعلق سے ہے لیکن وہ مبہم جرح ہے،جیسے نسائی دارقطنی وغیرہ کاکلام (اگردارقطنی کے کلام کو جرح تسلیم کیاجائے تو)
  5. بعض محدثین نے جرح کی ہے لیکن یاتوان کا حال یہ ہے کہ وہ متشدد اورمتعنت ہیں جیسے ابن معین،نسائی ،عقیلی وغیرذلک
  6. بعض محدثین رائے کی وجہ سے احناف یااہل الرائے سے روایت کے روادار نہیں ہوئے جیسے امام احمد بن حنبل
  7. بعض محدثین کو اہل کوفہ سے خصوصی نفرت ہے جس کی وجہ سے اہل کوفہ کے بارے میں ان کی رائے قابل اعتبار نہیں ،جیسے جوزجانی وغیرہ۔
مناسب ہے کہ امام محمد کی تعدیل پراقوال پیش کرنے سے قبل جرح مبہم کے تعلق سے کچھ اصولی باتیں بیان کی جائیں تاکہ قارئین کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
جرح مبہم اوراس کی قبولیت:
اس ضمن میں کئی مسائل سامنے آتے ہیں،ہرایک پر تفصیلی گفتگو کا یہ موقع نہیں ہے،مبہم جرح قابل قبول ہے یانہیں، اس بارے میں مشہور نقطہ نظرعلماءکے نزدیک دو ہیں:
§ مبہم جرح قابل قبول نہیں ہے ،کیونکہ جرح کے اسباب متعدد ہوتے ہیں،بعض اسباب ایسے ہیں جو واقعتا جرح نہیں ہیں، لیکن جارح کی نگاہ میں جرح ہیں اور اس کی متعد دمثالیں کتب اصول حدیث میں موجود ہیں، جمہورمحدثین کا موقف یہی ہے،جیساکہ خطیب بغدادی اورمابعد کے محدثین نے نشاندہی کی ہے۔
§ جرح مبہم اگر جرح وتعدیل اوران کے اسباب سے واقف اور عارف فرد سے صادر ہو تو یہ مقبول ہے،قاضی ابوبکر باقلانی اس قول کو جمہور اورفقہاء کی جانب منسوب کرتے ہیں،جب کہ بعض دیگر اصولیین ماقبل کے قول کو جمہور فقہاء کی جانب منسوب کرتے ہیں،جیسے صاحب کشف الاسرار وغیرذلک۔
جرح مبہم اگرقبول نہیں ہے توپھر کتب جرح وتعدیل میں جو بیشتر جروحات مبہم ہیں، ان کا کیاکیاجائے۔
اس کیلئے پھر دونقطہ نظرسامنے آتے ہیں :
اولاً: اصولی بات یہی ہے کہ جرح مبہم قابل قبول نہیں ہے ،لیکن جب راوی ایساہو ،جس کی تعدیل نہ ہو اور اس پر مبہم جرح ہو تو اس کے حال مین ایک اشتباہ اور شک پیداہوجاتاہے،جس کی وجہ سے ہم اس کے معاملے میں توقف کریں گے،اوراس کے حالات کی مزید تفتیش وتحقیق کریں گے ،اگر دیگر امور سے یہ واضح ہوجائے کہ یہ راوی ثقہ ہے ،تواس کی حدیث قبول کی جائے گی ،یہ موقف ابن صلاح اور دیگر محدثین کا ہے۔
ثانیاً: جرح مبہم اس وقت ناقابل اعتبار ہے جب راوی کے سلسلے میں تعدیل وتجریح کا اختلاف ہو، لیکن اگریہ اختلاف نہ ہو توپھر جرح مبہم کوقبول کیاجائے گا ،یہ موقف سبکی، ابن حجر اور زمانہ حال کے لوگوں کاہے۔
دلائل کی روشنی میں اوراصول حدیث پر لکھنے والوں کے کلام سے یہی واضح ہےکہ جمہورمحدثین اور فقہاء کا مسلک یہی ہے کہ جرح مبہم کوقبول نہ کیاجائے ،ہاں اس کی وجہ سے راوی میں ایک گونہ شک پیدا ہوجاتا ہے،اس لئے توقف کیاجائے گا،جمہورکے دلائل میری نگاہ میں زیادہ وزنی ہیں اوراس کی وجوہات حسب ذیل ہیں:

· راوی پر جرح عدل کی بنیاد پر بھی ہوتاہے اورضبط کی بنیاد پر بھی،جرح مبہم میں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جارح نے کس بنیاد پر جرح کیاہے۔مثلاامام احمد امام محمد کو حدیث کا مخالف کہتے ہیں ،اب یہ عین ممکن ہے کہ امام احمد کی نگاہ میں امام محمد پر جرح کی بنیاد یہی ہو ،نہ کہ حفظ وضبط میں کمی ،توایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم مبہم جرح کو قبول کرلیں۔
· بسااوقات جارح ایک چیز کو موجب جرح سمجھتاہے ؛لیکن دوسروں کی نگاہ میں وہ چیز جرح کا موجب نہیں ہوتی ہے،اس کی مثالیں کتب اصول حدیث میں موجود ہیں، مثلاًشعبہ نے کسی کو ترکی گھوڑے پرسوار دیکھ کر اس پر جرح کردی تویہ جرح کیسے قابل قبول ہوسکتی ہے،مثلاابن معین امام شافعی پر جرح کرتے ہیں اور جرح کی وجہ نہیں بناتے تویہ کیسے قابل قبول ہوسکتاہے،مثلاامام نسائی احمد بن صالح مصری پر ذاتی رنجش کی وجہ سے جرح کرتے ہیں ،اگر جرح مبہم کو قبول کرنے کا موقف سامنے ہو اور ذاتی رنجش کا پس منظر سامنے نہ ہو تواس کی وجہ سے ثقہ مجروح اور مجروح کے ثقہ ہونے کا شدید خدشہ بنارہتاہے۔
· بسااوقات عقیدہ اورمسلک کا اختلاف بھی جرح کا سبب بن جاتاہےجیساکہ علم اصول حدیث میں واضح ہے،توایسے میں اگر مبہم جرح قبول کرنے کا موقف قبول کیاجائے تو یہ بغیر کسی وجہ کے جرح کو تسلیم کرنے جیساہوگا۔
· معاصرت کا حجاب بھی جرح کی وجہ بن جاتاہے ،جس کی مثالیں کتب جرح وتعدیل میں موجود ہیں۔

یہ تمام وجوہات کا احاطہ نہیں؛ بلکہ دوچار وجوہات کا ذکر ہے، جس سے واضح ہے کہ مبہم جرح قبول نہیں کیاجاسکتا،پھر غورکرنے کی بات یہ ہے کہ جب مبہم جرح کے قبول نہ کرنے کے موقف کے حاملین اس کی روایت میں توقف کے قائل ہیں تو پھر تعارض کے وقت مبہم جرح قبول نہ کرنے اور عدم تعارض میں قبول کرنے میں دونوں میں زیادہ فرق کیارہا۔
اب تک جوکچھ کہاگیاہے، وہ کتب اصول حدیث کا اس مبحث میں خلاصہ ہے،مضمون کے طویل ہونے کے خوف سے اقتباسات سے گریز کیاگیاہے۔

جرح کی بنیاد
یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ جرح کی بنیاد دوچیزیں ہیں، عدل اورضبط ،ان دونوں میں سے کسی ایک میں کمی ہو تو یہ راوی کی روایت کو غیرمعتبر کردیتی ہے،بہت سارے حفاظ حدیث ایسے گزرے ہیں مثلاشاذکونی اورابن عقدہ وغیرذلک جن کے حافظہ پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی مگران کی عدالت مشتبہ ہے، بہت سارے ایسے افراد ہیں جو عدالت ودیانت میں سورج کی طرح روشن اورغیرمشتبہ ہیں لیکن ان کے حفظ وضبط میں کمی تھی۔
عدل میں جرح کے پانچ وجوہ ہیں اوراسی طرح ضبط میں بھی پانچ وجوہ سے جرح کی جاسکتی ہے
عدل میں جرح کیلئے پانچ وجوہ:


1. جھوٹ (کذب بیانی)
2.
جھوٹ کی تہمت
3.
فسق
4.
بدعت
5.
جہالت

ضبط میں جرح کے پانچ اسباب


1. فحش الغلط،غلطیاں کثرت سے کرتاہوں،اورنہ ہونے والی غلطیاں کرتاہو۔
2.
سوء حفظ:اس کا حافظہ کمزور ہو،یاوہ خلط ملط کرتاہو۔
3.
غفلت:روایت کرنے میں اہتمام سے کام نہ لے کر غفلت برتتاہو۔
4.
کثرت اوہام:وہم بہت زیادہ ہوتاہو۔
5.
ثقات کی مخالفت:ثقہ رایوں کی مخالفت کرتاہو۔

ان دوامور کے علاوہ جرح کرنا،مثلاحدیث کی مخالفت،اہل الرائے کہنا،حکمران وقت کے خلاف خروج کےنظریہ کا قائل ہوناوغیرذلک کا جرح سے کوئی تعلق نہیں ہے،لہذا بعض حضرات جیسے زبیر علی زئی اورمقبل الوادعی وغیرہ کا محدثین کی زبان سے نکلے ہر لفظ کو جرح وتعدیل میں شمار کرنا علم حدیث کے فن سے بے اصولی برتنے جیساہے۔
 
Last edited:

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
امام محمد کی تعدیل:
امام محمد علیہ الرحمہ پر محدثین کی جرحین ماقبل میں گزرچکی ہیں،اوران جرحوں کے مالہ وماعلیہ کے تعلق سے تفصیلات بھی آپ حضرات کے نظرنواز ہوچکیں،اب مناسب ہے کہ امام محمد ؒ کی تعدیل کے تعلق سے کچھ مزید باتیں عرض کی جائیں۔
زبیر علی زئی اپنے زیر بحث مضمون کے آخر میں لکھتے ہیں:
ان کے مقابلے میں کسی سے امام محمد بن الحسن مذکور کی توثیق صراحتا ًثابت نہیں ہے،امام ابن المدینی ،امام شافعی اوردیگر علماء سے مروی ایک ایسی روایت بھی ثابت نہیں ہے ،جس میں محمد بن الحسن کو ثقہ یا صدوق لکھاگیاہو۔
زبیر علی زئی نے اس میں کئی باتیں غلط کہی ہیں، شاید بے چارے بھول جاتے ہیں کہ پہلے کیا لکھ چکے ہیں اور اب کیالکھ رہے ہیں۔
زبیر علی زئی کے صراحتاًثقہ وصدوق کے تعلق سے اولاًکچھ عرض کروں،زبیر علی زئی نے متعدد مقام پر بالخصوص امام بخاری کی رفع الیدین کے رسالہ کے بنیادی راوی کی توثیق ضمنی توثیق سے ثابت کی ہے اور اس ضمنی توثیق کو قابل اعتبار اورمستند تسلیم کرتے ہوئے اس رسالہ کے راوی کومعتبر ماناہے؛لیکن یہاں پر وہ ہم سے صراحتا ًتوثیق کا مطالبہ کررہے ہیں،یہ بجائے خود دورنگی اورقابل مذمت عمل ہے،جب اپنی باری تھی تو رفع یدین کے اس راوی کے ایک سند پر حافظ ابن حجر نے حسن کہہ دیا،توان کے نزدیک نہ صرف روایت معتبر بلکہ مذکورہ راوی بھی مکمل طورسے قابل اعتبار واعتماد،لیکن امام محمد کے باب میں ہم سے مطالبہ ہے کہ صراحتا توثیق پیش کرو،ان کےمعتقدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ زبیر علی زئی کی اس دورنگی کی کوئی مناسب توجیہ کریں۔

امام محمد کی تعدیل کرنے والے درج ذیل حضرات ہیں۔

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ
امام شافعی رحمتہ اللہ نے امام محمد سے اپنی مایہ ناز کتاب جو ربیع کے واسطے سے مروی ہے،یعنی ’’الام‘‘میں بہت سی روایتیں ان سے نقل کی ہیں اوران کی احادیث سے فقہ کے باب میں استدلال کیاہے،کتاب الام کے مطالعہ کرنے والے شخص پر یہ بات مخفی نہیں ہوگی کہ امام محمد کی فقہی آراء پر وہ تنقید کرتے ہیں ،کہیں اختلاف کرتے ہیں ،کہیں تائید کرتے ہیں،اسی کے ساتھ وہ احادیث کے نقل وروایت مین مختلف روات پر تنقید کرتے ہیں کہ وہ قابل اعتماد ہے یانہیں ہے،لیکن انہوں نے کہیں بھی امام محمد بن الحسن کی ذات اورشخصیت پر اس حوالہ سے تنقید نہیں کی کہ وہ حدیث کے باب میں ضعیف یاغیرمعتبر ہیں،بلکہ وہ ان کی سند سے روایت نقل کرتے ہیں اوراس سے استدلال کرتے ہیں،اوران کا یہ استدلال کرنا ہی ان کی توثیق ہے اورامام شافعی حدیث کے باب میں امام محمد کو قابل اعتماد واعتبار سمجھتے ہیں ،یہ بات حافظ ذہبی نے بھی کہی ہے، چنانچہ وہ کہتے ہیں:
قلت: قد احتجّ بمحمدٍ أبو عبد الله الشّافعيّ.( تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام4/954)
وَأَمَّا الشَّافِعِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ، فَاحْتَجَّ بِمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ فِي الْحَدِيثِ(مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه1/93)


علاوہ ازیں امام شافعی فرماتے ہیں:
قُلْت أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ أَوْ غَيْرُهُ مِنْ أَهْلِ الصِّدْقِ فِي الْحَدِيثِ(الام3/225)
اس اقتباس میں دیکھاجاسکتاہے کہ امام شافعی کوامام محمد بن الحسن پر اعتماد وثقاہت میں کوئی شک نہیں ہے،لیکن جب یقین نہیں ہے کہ وہی تھے یاکوئی دوسرا،توفرماتے ہیں کہ دوسرا بھی جوکوئی تھاوہ حدیث میں سچاتھا،یہ اقتباس وضاحت سے بتارہاہے کہ امام شافعی امام محمد کو صادق فی الحدیث سمجھتے ہیں۔

علاوہ ازیں امام شافعی فرماتے ہیں:
حَدثنَا أَبُو إِسْحَاق النَّيْسَابُورِي الْمَعْرُوف بِالْبيعِ قَالَ ثَنَا مُحَمَّد بن يَعْقُوب الْأَصَم قَالَ ثَنَا الرّبيع بن سُلَيْمَان قَالَ كتب الشَّافِعِي إِلَى مُحَمَّد بن الْحسن وَقد طلب مِنْهُ كتبه لينسخها فأخرها عَنهُ فَكتب إِلَيْهِ
(
قل لمن لم تَرَ عين من رَآهُ مثله ... وَمن كَأَن من رَآهُ قد رأى من قبله)
(الْعلم ينْهَى أَهله أَن يمنعوه أَهله
... لَعَلَّه يبذله لأَهله لَعَلَّه)
(اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ،ص127)
یہ سند صحیح ہے کیونکہ محمد بن یعقوب بن الاصم کی ثقاہت پر محدثین کا اجماع ہے،ربیع بن سلمان ثقہ ہیں،اورامام شافعی کی ذات محتاج تعارف نہیں،رہ گئے ابتدائی راوی ابواسحاق نیشاپوری جو بیع کے نام سے معروف ہیں، تویہ دوہی شخص ہیں ایک ابوعبداللہ الحاکم اور دوسرے امام بغوی ۔
امام صیمری کے اساتذہ کے طبقہ میں بیع کے نام سے یہی دوافراد مشہور ہیں،حاکم محمد بن یعقوب کے شاگرد ہیں،نیشاپور کے بھی ہیں اور صیمری کے استاد ہونے بھی میں کوئی استبعاد نہیں ہے،بس فرق یہ ہے کہ حاکم کی کنیت اب تک کی تلاش وتحقیق میں مجھے ہر جگہ ابوعبداللہ ہی ملی ہے،ابواسحاق کہیں نہیں ملی، یہ عین ممکن ہے کہ ان کی دوکنیت ہو ،ابوعبداللہ زیادہ مشہور ہو اورابواسحاق کم مشہور ہو،جیسے امام عیسی بن ابان کی کنیت ہرایک ترجمہ نگار نے ابوموسی ٰبیان کی ہے،لیکن حافظ ابن حجر نے لسان المیزان میں ابومحمد کنیت بیان کی ہے۔
دوسرے ابواسحاق جو بیع کے نام سے معروف ہیں، وہ مشہور امام حدیث امام بغوی ہیں، بغو کاایک شہر ہے جو ہرات اور مرو کے درمیان ہےاور نیشاپور بھی خراسان میں ہے،بلکہ وہ خراسان کا دارالسلطنت رہاہے، ایسے میں اگر کسی صوبہ کے شہر میں رہنے والے کی نسبت اس کے دارالسلطنت کی طرف شہرت کی وجہ سے کردی جائے تو کوئی غیر متوقع نہیں ہے۔خود محدثین بسااوقات تفنن کیلئے غیرمعروف نام ،کنیت وغیرہ ذکر کرتے ہیں،زمانی اعتبار سے بھی صیمری کے بغوی کے شاگرد ہونے میں کوئی استبعاد نہیں ہے۔
بہرحال بات چاہے یہ ہو ،یاپھر وہ ہو،یعنی وہ ابوعبداللہ الحاکم کے شاگرد ہوں،یاپھر بغوی کے ،جب دونوں ثقہ ہیں ،تو عدم تعیین سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اس میں دیکھاجاسکتاہے کہ امام شافعی نے امام محمد بن الحسن کی ثقاہت کیلئے انتہائی اعلیٰ الفاظ استعمال کئے ہیں،یعنی آنکھوں نے جس کا مثل نہیں دیکھا، حالانکہ امام شافعی اس سے قبل امام مالک ،سفیان بن عیینہ اور دیگر محدثین وفقہاءسے روبرو ہوچکے تھے، ان سے استفادہ کرچکے تھے۔
اس خبر کی مزید وثاقت کی دلیل یہ ہے کہ اس کو ابن عبدالبر نے بغیر سند کے لیکن جزم کے صیغہ کے ساتھ بیان کیاہے، دیکھئے(
الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء مالك والشافعي وأبي حنيفة رضي الله عنهم،ص175)

امام شافعی سے صحیح سند سے مروی ہے:
حَدَّثَنِي الحسن بن محمد بن الحسن الخلال، قَالَ: أخبرنا علي بن عمرو الجريري، أن أبا القاسم علي بن محمد بن كاس النخعي، حدثهم قَالَ: حدثنا أحمد بن حماد بن سفيان، قَالَ: سمعت الربيع بن سليمان، قَالَ: سمعت الشافعي، يقول: ما رأيت أعقل من محمد بن الحسن.
(تاریخ بغداد2/651)

ویسےایک اقتباس مزید دیکھتے چلیں ،سلام بن مطیع کے ترجمہ میں معلمی کہتے ہیں:
سلام بن أبي مطيع. مرت الإشارة إلى روايته في ترجمة سعيد بن عامر. قال الأستاذ ص 109: «قال ابن حبان لا يجوز أن يحتج بما ينفرد به. وقال الحاكم: منسوب إلى الغفلة وسوء الحفظ» .
أقول هذا الرجل من رجال (الصحيحين) منسوب إلى العقل لا إلى الغفلة فكأن الحاكم صحف، قال أبو داود: «كان يقال هو
أعقل أهل البصرة» وقال البزار: «كان من خيار الناس وعقلائهم» وقال أحمد وأبو داود: «ثقة» . وقال ابن عدي: «لم أر أحداً من المتقدمين نسبة إلى الضعف، وأكثر ما فيه أن روايته عن قتادة فيها أحاديث ليست بمحفوظة وهو مع ذلك كله لا بأس به» .
فكأن ابن حبان رأى بعض حديثه عن قتادة غريباً فأطلق، وروايته هنا هنا ليست عن قتادة، وإنما هي قصة جرت لأيوب شهدها سلام وليس ذلك من مظنة الغلط.(
التنکیل)

سوال یہ ہے کہ کہ ابوداؤد اوربزار کاکلام جس میں ان کے عقل کی تعریف کی گئی ہے،اس میں ان کی توثیق ہے یانہیں، اگرتوثیق نہیں تھی توپھر معرض استدلال میں معلمی نے کیوں پیش کیا، حقیقت یہ ہے کہ اعقل الناس یامفہم وغیرہ یہ بھی توثیق کاہی کلام ہے ،کیونکہ کسی بھلکڑ کو یاجس کا حافظہ خراب ہو،اس کو اعقل الناس نہیں کہتے،ذہانت کے ساتھ اگر حافظہ نہ ہو،تووہ عقل مند شخص نہیں ہے،کتب جرح وتعدیل میں متعددروات کے بارے میں یہی جملہ ملتاہے کہ کان من اعقل الناس یااس سے ملتا،جلتا، علماء حدیث نے اس کو بھی ثقاہت میں ہی شمار کیاہے، مثلا امام شافعی ابن یونس المصری کو اعقل فرماتے ہیں، ابن مہدی یاابن قطان امام شافعی کو شاب مفہم بتاتے ہیں،یہ اوراس کاکلام بھی توثیق کا ہی کلام ہے، بس فرق یہ ہے کہ کسی میں صراحت ہے اورکسی میں نہیں ہے۔

اسی کے ساتھ یہ بھی دیکھئے:

حَدَّثَنِي الحسن بن محمد الخلال، قَالَ: أخبرنا علي بن عمرو الجريري، أن علي بن محمد النخعي حدثهم، قَالَ: أخبرنا أحمد بن حماد بن سفيان، قَالَ: سمعت المزني، يقول: سمعت الشافعي، يقول: أمن الناس علي في الفقه محمد بن الحسن.(تاریخ بغداد2/651)
اس کی بھی سند درست ہے،اوراس میں امام شافعی بتارہے ہیں کہ ان پر فقہ کے باب میں سب سے زیادہ احسان امام محمد بن الحسن کا ہے،اس میں امام شافعی نے اپنے تمام اساتذہ کے بالمقابل امام محمد بن الحسن کی علمی فضیلت کا اعتراف کیاہے۔

میراخیال ہے کہ اتنے شواہد یہ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ امام شافعی امام محمد بن الحسن کو روایت حدیث میں معتبر اور قابل اعتماد مانتے ہیں، اوریہ تو بعد کی بات ہے،ورنہ جس شخص نے بھی کتاب الام کا مطالعہ کیاہوگا، اس کا وجدان یہ خود گواہی دے گاکہ امام شافعی کا معاملہ امام محمد کے ساتھ کیاہے؟

زبیر علی زئی کی دفع الوقتی
آپ نے ماقبل میں تفصیل سے مطالعہ کیاکہ امام شافعی سے امام محمد کی ثقاہت میں ایک نہیں متعدد اقوال ہیں اورجس کی تائید حافظ ذہبی نے بھی کی ہے،اس کے بالمقابل ہمیں کسی متقدم عالم کا قول نہیں معلوم کہ جس نے امام شافعی کو امام محمد کے جارحین کے شمار کیاہو،لیکن یہ ’’سعادت ‘‘زبیر علی زئی نے بزور قلم حاصل کیاہے،کسی کا بخشاہوانہیں ہے(ابتسامہ)وہ امام شافعی کو بھی امام محمد کے جارحین میں شمار کرتے ہیں اوران کی دلیل یه ہے کہ امام شافعی نے امام محمد پر رد کیاہے:

امام شافعی ؒ نے اگرچہ محمد بن الحسن سے روایات لکھی ہیں؛لیکن اس پر رد بھی کیاہے،مثلادیکھئے مناقب الشافعی للبیہقی (۱؍۱۸۷،وسندہ صحیح)
علمی بے مائیگی کی یہ انتہاہے ،امام شافعی نے تو امام مالک پر بھی رد کیاہے اوربسااوقات وہ اس رد میں امام محمد بن الحسن کے رد سے بھی زیادہ سخت لہجہ اپناتے ہیں توکیااس کو بھی امام شافعی کی جانب سے امام مالک پر جرح سمجھاجائے گا، فقہی استنباط واجتہاد پر تنقید الگ شے ہے اورکسی پر روایت حدیث کے تعلق سے جرح الگ بات ہے ،لیکن ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں کہ جب ایک فرقہ کا ’’نامور محقق العصر‘‘ان دونوں باتوں میں بھی تمیز کرنے سے قاصر ہے ،اوراس سے زیادہ حیرت کی بات ہے کہ اس گروہ میں کیا کوئی’’ رجل رشید‘‘نہیں ہے جو اس کو اس غلطی پر متنبہ بھی کرسکتا،یاپھر احناف کی مخالفت میں سبھی لام بند ہیں۔
اگرفقہی استنباط واجتہادپر تنقید کوبھی جرح تسلیم کیاجائے توآئیے کچھ کتابوں کے نام ملاحظہ کرتے ہیں جس میں امام شافعی پر رد کیاگیاہے اور بسااوقات کتاب کا عنوان ہی ایساہے جس میں ان کو کتاب وسنت یانصوص کا مخالف ٹھہرایاگیاہے۔

إبراهيم بن حماد بن إسحاق: من نجار أخيه على مذهب مالك ويكنى أبا إسحاق وتوفي وله من الكتب كتاب الرد على الشافعي
الفهرست (ص: 248)

إِبْرَاهِيْمُ بنُ حَمَّادِ بنِ إِسْحَاقَ بنِ إِسْمَاعِيْلَ *
الإِمَامِ، حَافِظِ وَقتِهِ حَمَّاد بن زَيْدٍ، الأَزْدِيُّ
مَوْلاَهُمُ، البَصْرِيُّ، الإِمَامُ، الثَّبْتُ، شَيْخُ الإِسْلاَمِ، أَبُو إِسْحَاقَ العَابِدُ.
سَمِعَ: الحَسَنَ بنَ عَرَفَةَ، وَعَلِيَّ بنَ مُسْلِمٍ الطُّوْسِيّ، وَعَلِيّ بنَ حَرْبٍ، وَالزَّعْفَرَانِيَّ، وَعِدَّة.
حَدَّثَ عَنْهُ: الدَّارَقُطْنِيّ، وَابْنُ شَاهِيْنٍ، وَأَبُو طَاهِرٍ المُخَلِّصُ، وَآخَرُوْنَ.
قَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ: ثِقَةٌ جَبَل (1) .
(سير أعلام النبلاء ط الرسالة (15/ 35)

الرد على الشافعي:فيما يخالف فيه القرآن، لحسن بن أحمد المقري.
كشف الظنون عن أسامي الكتب والفنون (1/ 839)
الحسن بن أحمد بن الحسن العَطَّار، أبو العلاء الحافظ المقري الهَمَذَاني.
قال ابن السمعاني: حافظ متقن، ومقرئ فاضل، حسن السيرة، جميل الأثر، مرضيَّ الطريقة، سخيٌّ بما يملكه، يعرفُ الحديث والأدب والقراءات معرفةً حسنة.
وقال عبد القادر بن عبد الله الرهاوي: هو أشهر من أن يُعَرَّف، بل يَعْذُرُ وجود مثله في أعصار كثيرة على ما بلغنا من سير العلماء والمشايخ،
الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة (3/ 344)

كتاب: الرد على الشافعي فيما يخالف فيه القرآن.
للقاضي، أبي سعيد: حسن بن إسحاق المعري بن نبيل النيسابوري، الحنفي.المتوفى: سنة 348، ثمان وأربعين وثلاثمائة.
حسن بن إسحاق بن نبيل، أبو سعيد النيسابوري ثم المعري
قاضي معرة النعمان.
أصله من نيسابور. سمع بمصر من النسائي، والطحاوي، وسمع بحلب، والكوفة، والري.
ذكره ابن العديم، في " تاريخ حلب "، وقال: له كتاب " الرد على الشافعي فيما خالف فيه القرآن "، وكان يذهب إلى قول الإمام أبي حنيفة،
الطبقات السنية في تراجم الحنفية (ص: 222،)

القاضى بكار بن قتيبة بن اسد بن ابى بردعة البكراوى الثقفى أبو بكر البصري الحنفي نزيل القاهرة ولد سنة 182 وتوفى سنة 270 سبيعن ومائتين.صنف كتاب الرد على الشافعي.

كتاب الرد على الشافعي.
يَحْيَى بن عُمَر بن يوسف. أَبُو زكريا الكِنَانيُّ الأندلسيُّ الفقيه المالكيُّ. [الوفاة: 281 - 290 ه]قَالَ ابن الفَرَضيّ، رحل وَسَمِعَ بإفريقية مِنْ: سُحْنُون بن سَعِيد، وأبي زكريا الحُفْريّ، وعَوْن.
وبمصر مِنْ: يَحْيَى بن بُكَيْر، وابن رُمْح، وحَرْمَلَة،وَسَمِعَ [ص:851] مِنْ: أبي مصعب، يعني بالمدينة، وانصرف إلى القَيْرُوَان فاستوطنها.وَكَانَ فقيهًا حافظا للرأي، ثقة، ضابطًا لكُتُبه.سَمِعَ مِنْهُ مِن الأندلُسييّن: أَحْمَد بن خَالِد، وجماعة.
تاريخ الإسلام ت بشار (6/ 850)

یہ ایک مختصر فہرست ان اکابر علماءحضرات کی ہے جنہوں نے امام شافعی پر رد کیاہے،جو معمولی تلاش وجستجوسے میسر ہواہے،اس میں ایک نام چھوٹاجارہاہے، مناسب ہے کہ اس کو بھی شامل کرلیاجائے،یہ نام ہے محمد بن عبداللہ بن الحکم کا ،جنہوں نے امام شافعی کے رد میں کتاب لکھی ہے الرد على الشافعي فيما خالف فيه الكتاب والسنة الوافي بالوفيات (3/ 272)اس کےعلاوہ بھی دیگر علماء مالکیہ وحنفیہ وحنابلہ نےا مام شافعی کےا جتہادات واستنباطات کے رد میں کتابیں لکھی ہیں، یہ علماء کرام شروع سے ایک دوسرے پر اجتہادی آراء میں تنقید کرتے آرہے ہیں ،لیکن اس کو جرح تسلیم کرنایااس کو کسی کو ثقاہت کے منافی منانا(یعنی اگر کسی نے کسی کو ثقہ قراردیاہے تواس کے بعد اجتہادی مسئلہ پر اگراس نے اس پر تنقید کی تویہ اس کے سابقہ قول کے منافی ہوگیا)یہ سعادت بس زبیرعلی زئی کے ہی مقدر میں لکھی تھی تو کوئی دوسر اکیسے اس میں شریک ہوسکتاہے۔
 
Last edited:

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
علی بن المدینی
امام علی بن المدینی سے منقول ہے :

عبد الله بن علي ابن المديني، عن أبيه، قَالَ: وسألته عن أسد بن عمرو، والحسن بن زياد اللؤلؤي، ومحمد بن الحسن، فضعف أسدا والحسن بن زياد، وَقَالَ: محمد بن الحسن صدوق.( تاريخ بغداد ت بشار (2/ 561)
اس اقتباس میں دیکھاجاسکتاہے کہ علی بن المدینی نے امام محمد بن الحسن کو صدوق کہاہے،اس پرزبیر علی زئی اعتراض کے اعتراض دو ہیں:
اولا: یہ کہ اسی عبداللہ بن علی المدینی کی روایت ہےکہ امام ابوحنیفہ نے پچاس حدیثوں کی مخالفت کی،اس کو احناف تسلیم نہیں کرتے ،اس اعتراض کا منشاغلط فہمی یا کج فہمی ہے، ایک بات یہ ہے کہ کسی قول کو قائل تک منسوب ماننا،دوسرا ہے اس قول کو صحیح تسلیم کرنا ،دونوں الگ الگ باتیں ہیں، اگر کوئی ہم سے سوال کرے کہ کیا علی بن المدینی نے امام ابوحنیفہ پر حدیث کے مخالف ہونے کی بات کہی ہے توہم کہیں گے کہ ہاں کہی ہے اوریہ بات ان سے ثابت ہے،اگرکوئی ہم سے کہے کہ کیا علی بن المدینی کے اس قول کی بناء پر آپ امام ابوحنیفہ کو حدیث کا مخالف مانتے ہیں تو ہم کہیں گے نہیں،اوراس سلسلے میں وہی تفصیلات عرض کریں گے جو ماقبل میں مخالفت حدیث کے ضمن میں مذکور ہوچکاہے۔
علی بن المدینی سے امام محمد بن الحسن کو صدوق قراردیناثابت ہے، رہ گئی یہ بات کہ امام محمد بن الحسن صدوق ہیں یانہیں، تواس پر زبیر علی زئی الگ سے مشق ستم کرسکتے ہیں (ابتسامہ)مطلب یہ کہ وہ دیگر دلائل کی بنیاد پر یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں کہ علی بن المدینی کا امام محمد کو صدوق قراردینا درست نہیں ،لیکن ان کا یہ انکار کہ علی بن المدینی نے امام محمد بن الحسن کو صدوق قرارنہیں دیا، حقیقت کومنہ چڑھانے جیساہے۔

زبیر علی زئی کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ عبداللہ بن علی المدینی کی توثیق نہیں ملتی ،ہم اس باب میں ان کے ہم زبان ہیں، کہ جی ہاں توثیق نہیں ملتی، لیکن اس باب میں ہم قطعا ہم خیال میں نہیں کہ اس کی بنیاد پر عبداللہ بن علی المدینی نے اپنے والد سے جو روایتیں جرح وتعدیل میں نقل کی ہیں، سب کو دریابرد کردیاجائے۔

حقیقت یہ ہےکہ صرف عبداللہ بن علی بن المدینی ہی نہیں بلکہ کئی دیگر حضرات ایسے ہیں جن کےواسطےسےائمہ سے جرح وتعدیل کےاقوال منقول ہیں، مثلاًابن معین سے ابن محرز جرح وتعدیل کے اقوال نقل کرتے ہیں، امام ابوداؤد سے آجری جرح وتعدیل کے اقوال نقل کرتے ہیں ،امام علی بن المدینی سے ان کے صاحبزادہ عبداللہ جرح وتعدیل کے اقوال نقل کرتے ہیں۔
ان حضرات کی تعدیل منقول نہ ہونے سے ان کے واسطے سے منقول اقوال کو بے بنیاد اورغیرمعتبر قراردینا غیرعلمی طرز فکر ہے، جن لوگوں نے جرح وتعدیل پر تصنیف وتالیف کی ہے، مثلا خطیب بغدادی، مزی،ذہبی، ابن حجر وغیرذلک ،وہ حضرات ان کے واسطہ سے منقول اقوال کو مستنداور معتبر مانتے چلے آئے ہیں، ایسے میں دورحاضر کاکوئی شخص اٹھ کر کہہ دے کہ نہیں سب ہم جب تک ان کے حق میں تعدیل کا جملہ نہ دیکھ لیں ،کسی قول کو تسلیم نہیں کریں گے، یہ ایک خودساختہ طرز فکر یاخودساختہ اصول ہوگا،جس کا ائمہ جرح وتعدیل کے طرز فکر سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

اس سلسلہ میں معتدل طرز فکر یہ ہے کہ ان کے اقوال جب تک ان سے زیادہ معتبر راوی کی روایت کے خلاف نہ ہو ،قبول کئے جائیں اوراگرکہیں پر ان سے زیادہ معتبر راوی کی نقل ان کے نقل کے خلاف ہے تو ان کے نقل کردہ جرح وتعدیل کو غیرمعتبر تسلیم کیاجائے۔

مثلا ابن معین سےجرح وتعدیل کے اقوال نقل کرنے والے دوری بھی ہیں، ابن محرز بھی ہیں، اگر ابن محرز ابن معین سے کوئی ایسا قول نقل کریں ،جو دوری سے منقول قول کے خلاف ہو توایسے میں ابن محرز کی روایت رد کردی جائے گی ،کیونکہ دوری کی ثقاہت ثابت شدہ امر ہے،اس کے بالمقابل ابن محرز کے سلسلہ میں تعدیل کا کوئی قول نہیں ملتا،لیکن اگر ابن محرز ابن معین سے کوئی ایسا قول نقل کریں جو دوری یا دیگر ثقہ روات جو ابن معین سے نقل کرتے ہیں، ان کے خلاف نہ ہو توابن محرز کے قول کوقبول کرنا علم وتحقیق تقاضاہے اوریہی علمی طرز فکر ہے۔

اسی طرح امام ابوداؤسے جرح وتعدیل کا قول نقل کرنے والےا ٓجری کا حال ہے کہ امام ابوداؤسے جرح وتعدیل کے باب میں اگر کوئی معتبر اورثقہ راوی کوئی قول نقل کریں اورآجری کی روایت اس کے خلاف ہو تو آجری کی روایت رد کردی جائے گی،لیکن اگر آجری کی روایت کسی ثقہ راوی کی روایت کے خلاف نہ ہو تو قبول کرلی جائے گی۔
یہی حال بعینہ عبداللہ بن علی ابن المدینی کا ہے،اگران کی کوئی روایت کسی دوسرے ثقہ راوی یا خود ان کے بھائی محمد- جن کی توثیق امام دارقطنی نے کی ہے –کے خلاف ہو توقبول نہیں کی جائے گی ،لیکن اگر وہ ابن مدینی سے کوئی ایسا قول نقل کرتے ہیں،جوان سے جرح وتعدیل کےا قوال نقل کرنے والے کسی ثقہ راوی یاان کے اپنے بھائی کی روایت کے خلاف نہیں ہے تواس کوبلادغدغہ قبول کیاجائے گا۔

واضح رہے کہ عبداللہ بن علی ابن المدینی کی یہ روایت جس میں انہوں نے اپنے والد سے امام محمد کے حق میں صدوق کاقول نقل کیاہے، امام ابن مدینی سے دوسرے نقل کرنے والوں کے قطعا ًخلاف نہیں ہے،لہذا علم ،تحقیق اورانصاف کا تقاضایہی ہے کہ اس کوقبول کیاجائے گا۔

زبیر علی زئی صاحب جب تک کچھ طرفہ تماشانہ کریں ،ان کا شاید کوئی پیراگراف مکمل نہیں ہوتا، ا ب اسی باب میں دیکھئے ،وہ کیا طرفہ تماشا فرمارہے ہیں:

تاریخ بغداد (ج۲ص۱۸۱)اس کے راوی عبداللہ بن علی بن عبداللہ المدینی کی توثیق نامعلوم ہے، اس کا ذکر تاریخ بغداد(۱۰؍۹،۱۰)میں بغیر کسی توثیق کے موجود ہے،اس کا بھائی محمد بن علی ضرور ثقہ تھا؛مگر ایک بھائی کے ثقہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتاکہ دوسرا بھائی عبداللہ بھی ضرورثقہ تھا۔
النصر الربانی میں آپ نے دیکھاکہ زبیر علی زئی کہہ رہے ہیں کہ ایک بھائی کے ثقہ ہونے سے دوسرے بھائی کا ثقہ ہونا لازم نہیں آتا، لیکن امام محمد پر لکھے گئے اپنے دوسرے مضمون(جس کا علم مجھے بعد میں ہوا،)اس میں تحقیق کا نمونہ پیش کرتے ہیں:
عرض ہے کہ اس قول کا راوی عبداللہ بن علی بن عبداللہ المدینی مجہول الحال ہے،کسی محدث سے بھی اس کی صریح توثیق ثابت نہیں ہے،؛بلکہ امام دارقطنی کا ایک قول اس کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ کرتاہے۔دیکھئے سوالات السہمی(۳۸۷)اورالحدیث حضرو :۱۶ص۳۱۔(الحدیث حضرو میں پھر سے وہی عبداللہ بن علی المدینی کی عدم ثقاہت کا قصہ چھیڑاگیاہے،نیاکچھ بھی نہیں ہے)
سوال یہ ہے کہ النصر الربانی میں زبیر علی زئی کو صرف اتنا نظرآیاکہ عبداللہ بن علی المدینی کی توثیق نہیں ملتی،اور تائید ربانی میں ان کو دارقطنی کےا یک قول میں تضعیف کا اشارہ بھی نظرآگیا، دیکھتے چلیں کہ وہ تضعیف کا اشارہ کیاہے؟وہ تضعیف کا اشارہ یہ ہے کہ بقول دارقطنی انہوں نے ایک بھائی محمد کو ثقہ کہا اور عبداللہ کے بارے میں کچھ نہیں کہا تو یہ ضعیف ہونے کازبیر علی زئی کے فہم اور سمجھ میں اشارہ ہوگیا،اس ناسمجھی پر بعد میں بات کریں گے،پہلے ذرا اس کی سند پر گفتگو کریں ۔
قال السهمي: سألت الدَّارَقُطْنِيّ عن عبد الله بن علي بن عبد الله المديني، روى عن أبيه كتاب «العلل» ؟ فقال: إنما أخذ كتبه وروى إجازة ومناولة، قال وما سمع كثيرًا من أبيه، قلتُ لم؟ قال لأنه ما كان يمكنه من كتبه، قال وله ابن آخر يقال له محمد، وقد سمع من أبيه وقد روى، وهو ثقة. (موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله (2/ 365)
امام دارقطنی ابن مدینی اور ان کے بیٹے عبداللہ کے معاصر نہ تھے، بلکہ ایک دو نسل کے بعد کے تھے، لہذا ضروری ہے کہ دارقطنی کو یہ بات کہ عبداللہ نے اپنے والد کی کتاب اجازت اورمناولہ کے طریق سے حاصل کی تھی یاعلی بن المدینی اپنی کتابوں پر عبداللہ کو قدرت نہ دیتے تھے ،کسی واسطہ سے سنی ہوگی ،وہ واسطہ کس راوی کا ہے، وہ راوی کیساہے،یہ سب کچھ یہاں زبیر علی زئی کویاد نہ آیا،یادآئی تو صرف یہ بات کہ دارقطنی کے کلام میں تضعیف کی جانب اشارہ ہے۔

یہ تضعیف کا اشارہ کس طرح سے ہے،اس کا زبیر علی زئی نے قطعاًذکر نہیں کیاہے، اورذکر نہ کرنے کی بڑی وجہ (قرائن سے)یہی ہے کہ دارقطنی کے کلام میں تضعیف کا کوئی اشارہ نہیں ہے،ایک بھائی کو ثقہ کہا اوردوسرے کو ثقہ نہیں کہا تواس سے یہ کیسے لازم آیاکہ وہ دوسرا ضعیف ہے، ہوسکتاہے کہ دوسرا صدوق ہو، ثقہ نہ ہو،زبیر علی زئی مفہوم مخالف کا اعتبار کرتے ہیں اور مفہوم مخالف یہاں پر یہی ہے کہ ثقاہت کے مقابل عدم ثقاہت نہیں بلکہ صدوق اورحسن الحدیث بھی ہوسکتاہے،اس کی دلیل کہ دارقطنی کے کلام میں تضعیف کا کوئی اشارہ نہیں ہے، خطیب بغدادی اورمابعد کے تراجم وتذکرہ نگاروں کا طرزعمل ہے کہ خطیب جو دارقطنی کے کلام کو بطور خاص روات کے حق میں نقل کرتے ہیں، انہوں نے اس سے تضعیف نہیں سمجھا،ذہبی،اوردیگر ترجمہ نگار وں نے بھی اس سے تضعیف کا اشارہ نہیں سمجھا،یہ سمجھ آئی تو صرف زبیر علی زئی کے حق میں۔

دوسری بات یہ ہے کہ امام علی بن المدینی کے جرح وتعدیل کے منہج پر اکرام اللہ امداد الحق نے بیش قیمت مقالہ لکھاہے، چنانچہ وہ اس میں عبداللہ بن علی بن المدینی کے بارے میں دارقطنی کے اس کلام پر کہ وہ ان کے والد ان کو اپنی کتابوں پر قدرت نہیں دیتے تھے ،نقد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وھذہ الروایۃ ان صحت عن الدارقطنی ففیھا کثیر من التسامح فی الحکم ،لان عبداللہ بن علی بن المدینی عرف بکثرۃ روایتہ عن ابیہ فان فی تاریخ بغداد وحدہ یوجد مائۃ واثنان وستون نصا من روایۃ عبداللہ بن علی بن المدینی عن ابیہ واغلب ھذہ الروایۃ سماع من ابیہ او سوال لہ فاتضح انہ سمع من ابیہ کثیرا، واللہ اعلم (الامام علی بن المدینی ومنہجہ فی نقد الرجال ،ص:۵۶)

اگریہ روایت دارقطنی سے درست ہے (درست نہ ہونے پر اشکال وہی ہے کہ دارقطنی کو یہ بات کہاں سے معلوم ہوئی،اوریہ بتانے والا خود کیساہے)تواس حکم میں بہت زیادہ نرمی (مطلب عبداللہ پر حکم لگانے میں توسع سے کام لیاگیاہے، عبداللہ کی حیثیت کو کم کرکے بیان کیاگیاہے)سےکام لیاگیاہے،اس لئے کہ عبداللہ بن علی بن المدینی اپنے والد سے روایت کرنے میں معروف ہیں، تنہا تاریخ بغداد میں ایک سوباسٹھ روایت (اقوال)ان سے علی بن مدینی کے منقول ہیں اور زیادہ تر یہ روایتیں یاتوانہوں نے اپنے والد سے سنی ہیں ،یاپھر ان سے سوال کیاہے،اس سے واضح ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے بہت زیادہ سماع کیاہے۔

جہاں تک بات یہ ہے کہ اپنی کتابوں پر قدرت نہیں دیتے تھے تو کوئی قابل جرح بات نہیں ہے، اپنی کتابوں کی حفاظت کرنااس زمانہ میں کسی بھی محدث کا اولین فریضہ ہوتاتھا، کتنے سارے محدثین ہیں جن کے بارے میں ہم پڑھتے ہیں کہ ان کی کتابوں میں کسی نے خلط ملط کردیاتھا،یہ خلط ملط کرنے والے بیشتر اپنے ہی ہواکرتے تھے،کبھی دانستہ کرتے تھے اور کبھی نادانستگی میں ،یعنی اچھاکرنے کے فراق میں براکرجاتے تھے،جیسے بعض کاتبین نے یہ سوچ کر قرآن سے فرعون ،نمرود ،ہامان ،ابلیس،شیطان کا نام نکال دیاکہ اتنی پاکیز ہ کتاب میں ان گٹھیا اور گمراہی کے سرداروں کا ذکر کیوں ہو،نیت اچھی تھی،لیکن کام غلط تھا،سوایک محدث کا لازمی فریضہ یہی ہے کہ اپنی کتابوں کو سبھی سےبچائے رکھے ،اس کا جرح سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ عبداللہ بن علی المدینی کی وہ نقل جو ثقہ روات کے خلاف نہ ہو ،قابل قبول ہے اورائمہ جرح وتعدیل کا اس باب میں یہی طرزعمل رہاہے،اورعلی بن المدینی کے امام محمد بن الحسن کو صدوق کہنے کے خلاف کسی دوسرے راوی نے علی بن المدینی سے کچھ نقل نہیں کیاہے،لہذا عبداللہ بن المدینی کی یہ نقل اپنے والد سے درست اورقابل اعتماد ہے اور اہل علم کا طرزعمل یہی رہاہے۔
 
Last edited:

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
امام دارقطنی

امام دارقطنی کا نام اس فہرست میں دیکھ کر ایک ذرا سااچنبھاہوسکتاہے ،لیکن حقیقت یہی ہے کہ امام دارقطنی امام محمد کی توثیق وثقاہت کرنے والوں میں ہیں،نہ کہ ان پر جرح کرنے والوں میں،ماقبل میں ہم نے امام دارقطنی کی تین جرحیں پیش کی تھیں اوران جرحوں کی حقیقت واضح کی تھی، یہاں اسے دوہرانے کی ضرورت نہیں،لیکن زبیر علی زئی کے ایک اعتراض پر بات کرتے چلیں ۔

امام دارقطنی نے امام ابویوسف کو امام محمد سے اقویٰ قراردیاہے،اورخود ایک دوسرے مقام پر امام ابویوسف کو اعور بین عمیان کہاہے توظاہر ہے کہ امام دارقطنی کے نزدیک امام ابویوسف ضعیف ہیں اورامام محمد ان سے بھی زیادہ ضعیف ہیں۔اس سے نتیجہ نکالتے ہوئے زبیر علی زئی کہتے ہیں:
’’معلوم ہواکہ امام دارقطنی کے نزدیک محمد بن الحسن الشیبانی دیکھنے کی قوت سے محروم تھا،ایک مقام پر دارقطنی نے کہا:وعندی لایستحق الترک اورمیرے نزدیک وہ متروک قراردیئے جانے کا مستحق نہیں ہے،(سوالات البرقانی :۵۶۸)تنبیہ:امام دارقطنی کے نزدیک کسی راوی کے متروک نہ ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ امام دارقطنی کےنزدیک ضعیف نہیں ہے یادوسرے محدثین کے نزدیک متروک نہیں ہے۔
اس چھوٹے سے پیراگراف میں زبیر علی زئی نے کئی مغالطے دیئے ہیں،
اولاًتو اقوی من محمد بن الحسن اور اعور بین عمیان دونوں کا ایک دوسرے سے کوئی جوڑ نہیں،اس کو ایک دوسرے میں شامل کردینا ’’کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا ‘‘والی بات ہے،
دوسرے زبیر علی زئی احناف سے بغض ونفرت میں اتنے آگے چلے گئے ہیں کہ کسی لفظ کا صحیح مطلب بھی ان سے اخذ کرنا مشکل ہوجاتاہے اور ڈھونڈ کر وہی معنی مراد لیتے ہیں (جواگرچہ بعید الاحتمال ہو)جس سے احناف پر کوئی زد پڑتی ہو،مثلاًاسی قول اعور بیان عمیان سے زبیر علی زئی نے سمجھاہے کہ عمیان سے احناف عمومایاامام محمد خصوصامراد ہیں۔
اعور بین عمیان والے جملے کا پس منظر بڑا واضح ہے ،خطیب بغدادی اس جملہ کےایک چشم دیدگواہ یعنی امام صیمری کا بیان نقل کرتے ہیں:
حضرت عند أَبِي الْحَسَن الدارقطني، وسمعت منه أجزاء من كتاب السنن الذي صنفه، قَالَ: فقرئ عليه حديث غورك السعدي، عَنْ جَعْفَر بن مُحَمَّد، الحديث المسند فِي زكاة الخيل، وفي الكتاب غورك ضعيف، فَقَالَ أَبُو الْحَسَن: ومن دون غورك ضعفاء.
فقيل: الذي رواه عَنْ غورك هو أَبُو يوسف الْقَاضِي، فَقَالَ:
أعور بين عميان! وكان أَبُو حامد الإسفراييني حاضرا، فَقَالَ: ألحقوا هذا الكلام فِي الكتاب! قَالَ الصيمري: فكان ذلك سبب انصرافي عَنِ المجلس ولم أعد إِلَى أَبِي الْحَسَن بعدها، ثم قَالَ: ليتني لم أفعل، وأيش ضر أبا الْحَسَن انصرافي؟! أو كما قَالَ.
تاريخ بغداد ت بشار (8/ 634)

اقتباس میں واضح ہے کہ ایک سند پر جب امام دارقطنی نے کلام کیاکہ اس کی سند ضعیف ہے تو کسی نے پوچھاکہ اس سند میں تو امام ابویوسف بھی ہیں تو فرمایا:اعور بین عمیان یعنی اس جملہ کا تعلق غورک اور اس سند کے دیگر روات سے ہے، نہ کہ امام محمد بن الحسن اور دیگر ائمہ احناف سے،اوراسی مفہوم کی تائید امام دارقطنی کے حیات وخدمات پر کتاب لکھنے والے مشہور عرب عالم عبداللہ بن ضیف الرحیلی نے کی ہے ،چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
والدَّارَقُطْنِيّ إنما تكلَّم فيه عند ما جاء في سند حديث بين ضعفاء، وهذا السند هو: "محمد بن موسى الحارثي، عن إسماعيل بن يحيى بن بحر الكِرْماني، عن الليث بن حماد الاصْطَخْرِي، عن أبي يوسف، عن غَوْرَك""".فلمّا أخبر الدَّارَقُطْنِيّ عن ضعف غَوْرك ومَنْ دونه قيل له: إن فيهم أبا يوسف فقال: ""أعور بين عميان"" يريد أن أبا يوسف وإن كان فيه ضعف ما، فهو أحسن حالاً من غورك، والليث بن حماد، ومن معهما في السند من الضعفاء"""
الإمام أبو الحسن الدارقطني وآثاره العلمية (ص: 112)



واضح رہے کہ غورک کو خود دارقطنی نے ضعیف جدا کہاہے،دیکھئے:
غورك السعدي.عن جعفر بن محمد.قال الدارقطني: ضعيف جدا.
أنبأنا الفخر على، أنبأنا منصور وجماعة، عن جماعة سمعوه من البيهقى، أنبأنا ابن عبدان، حدثنا أبي، حدثنا محمد بن موسى الاصطخرى، حدثنا إسماعيل بن يحيى الأزدي، حدثنا الليث بن حماد، حدثنا أبو يوسف، عن غورك بن الحضرمي ، عن جعفر بن محمد، عن أبيه، عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: في الخيل السائمة في كل فرس دينار.وضعف الدارقطني الليث وغيره في إسناده.
ميزان الاعتدال (3/ 337)

میرے خیال میں اتنی بحث یہ واضح کرنے کیلئے کافی ہے کہ زبیر علی زئی نے دارقطنی کا اعور بین عمیان کا مفہوم غلط سمجھا، مزید غلطی یہ کہ کہ اس کو اقوی من محمد بن الحسن سے ملادیا،حالانکہ دونوں الگ الگ باتیں،اور ظاہر سی بات ہے کہ جب زبیر علی زئی کا صغری ٰ اورکبریٰ غلط تھاتو نتیجہ بھی غلط ہی آناتھا۔

ماقبل کے زبیر علی زئی کے اقتباس میں ایک اورمغالطہ یہ ہے کہ ترک کا ترجمہ متروک کیاگیاہے جو بنیادی اوراصولی غلطی ہے جو ماقبل میں بھی بیان کی گئی ہے،راوی کا متروک ہونا علیحدہ بات ہے اور راوی کا مستحق ترک نہ ہونا دوسری بات ہے،دونوں کو ایک دوسرے مین خلط ملط کرنا یہی بتاتاہے کہ موصوف کو علم اصول حدیث سے کوئی زیادہ مس اورلگائونہیں ہے۔

راوی اگرامام دارقطنی کے نزدیک قابل ترک نہ ہوتو اس کا مفہوم مخالف (جو زبیر علی زئی لینے کے عادی ہیں )یہی ہوگاکہ وہ قابل اخذ ہے اورراوی کا قابل قبول اورقابل اخذ ہونا ہی اس کی توثیق ہے،لیکن ہمیں معلوم ہے کہ زبیر علی زئی کو یہاں پر مفہوم مخالف یاد نہیں آئے گا ؛کیونکہ یہاں پر مفہوم مخالف احناف کے حق میں جارہاہے، مفہوم مخالف ہمیشہ زبیر علی زئی موقع دیکھ کر لیتے ہیں۔

امام دارقطنی غرائب مالک میں ایک حدیث کے ناقلین کے بارے میں فرماتے ہیں کہ امام مالک سے اس کو بیس ثقات حفاظ نے نقل کیاہے،اوراس میں امام محمد کا بھی شمار کراتے ہیں، یہ تو واضح طورپرتوثیق ہے،زبیر علی زئی کا ایک طرف تو حال یہ ہے کہ وہ ضمنی توثیق کو آنکھ بند کرکے قبول کرتے ہیں اور دوسری طرف واضح توثیق سے بچنے کیلئے عجیب وغریب بہانے بناتے ہیں، پہلے امام دارقطنی کی عبارت ،پھر زبیر علی زئی کی سخن سازیاں ملاحظہ کریں:

وَكَذَلِكَ قَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ فِي غَرَائِبِ مَالِكٍ: إنَّ مَالِكًا لَمْ يَذْكُرْ فِي الْمُوَطَّأِ الرَّفْعَ عِنْدَ الرُّكُوعِ، وَذَكَرَهُ فِي غَيْرِ الْمُوَطَّأِ، حَدَّثَ بِهِ عِشْرُونَ نَفَرًا مِنْ الثِّقَاتِالْحُفَّاظِ: مِنْهُمْ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الشَّيْبَانِيُّ. وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ. وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ. وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ. وَابْنُ وَهْبٍ. وَغَيْرُهُمْ، ثُمَّ أَخْرَجَ أَحَادِيثَهُمْ عَنْ عِشْرِينَ رَجُلًا، قَالَ: وَخَالَفَهُمْ جَمَاعَةٌ مِنْ رُوَاةِ الْمُوَطَّأِ، فَرَوَوْهُ عَنْ مَالِكٍ، وَلَيْسَ فِيهِ الرَّفْعُ فِي الرُّكُوعِ: مِنْهُمْ الْإِمَامُ الشَّافِعِيُّ. وَالْقَعْنَبِيُّ. وَيَحْيَى بْنُ يَحْيَى. وَيَحْيَى بْنُ بُكَيْر. وَمَعْنُ بْنُ عِيسَى. وَسَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ. وَإِسْحَاقُ الْحُنَيْنِيُّ، وَغَيْرُهُمْ، وَاَللَّهُ أَعْلَمُ
نصب الرایہ1/408


امام دارقطنی کی پیش کردہ یہ عبارت توثیق میں صریح ،صاف اور واضح ہے، اس کے مقابلہ میں جو جرحیں بیان کی گئی ہیں وہ مبہم ہیں ، اور مبہم جرح کی حالت یہ ہے کہ وہ عدم توثیق کی حالت میں بھی جمہور کے نزدیک قابل قبول نہیں اورجن کے نزدیک قابل قبول ہے ان کے یہاں شرط یہ ہے کہ توثیق نہ ہوئی ہو، ایسے میں اگر ایک ہی شخص سے جرح مبہم اور توثیق دونوں منقول ہو تو اصول حدیث اور عقل کا تقاضایہی ہے کہ توثیق اس جرح مبہم پر مقدم ہوگی۔

زبیر علی زئی اس توثیق کے نہ تسلیم کرنے کیلئے کہتے ہیں:

آخر میں عرض ہے کہ زیلعی حنفی نے یہ دعویٰ کررکھاہے کہ دارقطنی نے غرائب مالک میں محمد بن الحسن الشیبانی وغیرہ کو ’من الثقات الحفاظ‘میں شامل کیاہے(نصب الرایہ:۱؍۴۰۴-۴۰۹)یہ حوالہ کئی وجہ سے مردود ہے:
۱:جمہور کی جرح کے خلاف ہے
۲:اصل کتاب غرائب مالک موجود نہیں ہے تاکہ زیلعی کے دعوے کی تصدیق کی جاسکے
۳:دارقطنی نے قاضی ابویوسف کے بارے میں کہا
(اوریہاں سے پھر وہی اعور بین عمیان اور اقویٰ من محمد بن الحسن کا بکھیڑا لگایاہےجس کی تفصیل پہلے ہی گزرچکی ہے کہ اس کو سمجھنے میں زبیر علی زئی سے ہی غلطی ہوئی ہے لیکن وہ دوسروں کو ملزم ٹھہرارہے ہیں سچ ہے : وکم من عائب قولاصحیحا وآفتنہ من الفہم السقیم)

زبیر علی زئی کی جمہوریت پر ہم مضمون کے آخر میں تفصیل سے بات کریں گے کہ یہ جمہوریت جو دنیامیں عقل مندوں کے نزدیک قابل قبول نہیں کیونکہ اس میں’’ بندوں کو گناکرتے ہیں تولا نہیں کرتے‘‘ ،وہ علم دین میں کیسے جائز ہے؟اور جولوگ سواد اعظم سے تکثیر جماعت کے قائل نہیں اوراکثریت کو قابل مدح تک نہیں گردانتے ہیں وہ اس باب میں جمہوریت کے چمپئن کیوں بن جاتے ہیں؟طرفہ تماشایہ ہے کہ ابھی معدلین کی بحث ہورہی ہے کہ کون معدل ہے اورکون جارح ہے لیکن اس قضیہ کے نپٹنے سے پہلے زبیر علی زئی تعدیل کے قول کو یہ کہہ کر رد کردیتے ہیں کہ یہ جمہورکے خلاف ہے، اللہ کے بندے !پہلے یہ تو طے ہوجانے دو کہ تعدیل کا قول کس کا ہے اور جرح کا قول کس کا ہے ،اس کے بعد اپنی جمہوریت کا راگ الاپنا؛لیکن نہیں!’’چت بھی میری پٹ بھی میری ‘‘ کےمفادپرستانہ اصول کے تحت پہلے طے کرلیاجاتاہے کہ جمہوریت ہمارے پاس ہے اور تعدیل والے قول کو تعدیل ثابت ہونے سے قبل جمہوریت کے خلاف کہہ کر رد کردیاجاتاہے۔

دوسرے نمبر پر زبیر علی زئی فرماتے ہیں کہ اصل کتاب غرائب مالک موجود نہیں ہے،لہذا یہ حوالہ یا نقل قابل اعتماد نہیں،اگر اس بنیاد پر اقوال رد ہونے لگیں تو پھر جرح وتعدیل کی کتابوں سے بہت سارے اقوال کو رد کرنا پڑے گا،کیونکہ اصل کتاب موجود نہیں ہے،خود سیر وتراجم کی کتابوں میں سے بہت سارے اقوال کو رد کرنا پڑے گا؛کیونکہ اصل کتاب موجود نہیں اوربعینہ یہی طرزعمل کتب حدیث میں بھی دیگر فنون کی کتابوں میں بھی دوہراناپڑے گا ؛لیکن اللہ کا شکر ہے کہ دنیا میں سارے لوگ ابھی زبیر علی زئی کی طرح کے مریض ذہنیت کے نہیں ہیں،بہت سارے لوگ ہیں جو علم وتحقیق کے معیار پر کسی قول کو پرکھ کر اپناتے یارد کرتے ہیں، خود ساختہ اصول اورمعیار طے نہیں کرتے،ورنہ اگر اس طرح کے لوگوں کے معیار پر علم وتحقیق کی دنیا گامزن ہوجائے تو پھر جہلاعلم وتحقیق کے شہسوار کہلانے لگیں

گرہمیں باشد مکتب وملا
کار طفلاں تمام خواہدشد
اورجو تیسری وجہ بیان کی ہےاس کی وضاحت ہم ماقبل میں تفصیل سے کرچکے ہیں۔
زبیر علی زئی کی دورنگی دیکھئے کہ یہاں تو حافظ زیلعی کے نقل پر اعتماد نہیں ،لیکن دوسرے مقام پر وہ وہ ایسے اقوال سے بھی استدلال کرتے ہیں جو منقطع ہو اوریہ تک معلوم نہ ہو کہ یہ قول جس قائل کی جانب منسوب ہے وہ اس کی کس تصنیف سے ماخوذ ہے:
مثلاًعلامہ عبدالحق اشبیلی نے اپنی کتاب التہجد (
ـ۱۶۷)میں امام ابن مغیث مالکی سے نقل کیاہے کہ امام مالک نے فرمایاکہ میں اپنے لئے قیام رمضان کا عدد گیارہ عدد رکعات لیتاہوں،اب یہ قول منقطع ہے ،کیونکہ اس کے ناقل علامہ اشبیلی اس کے منقول عنہ امام ابن مغیث کی وفات سے پچاسی سال بعد پیداہوئے اور علامہ اشبیلی نے یہ کوئی تصریح نہیں کی کہ انہوں نے امام ابن مغیث کا قول کہاں سے لیاہے، اس کے باوجود زبیر علی زئی نے اس قول کو معرض استدلال میں پیش کیاہے اورلکھاہے:
ظن غالب یہی ہے کہ یہ قول ان(ابن مغیث)کی کتاب المتہجدین میں مذکور ہوگا(اومین اوکاڑوی کا تعاقب،ص:۳۴)
علامہ عبدالحق اشبیلی توپھر بھی ایک الگ ہستی اور وجود ہیں، زبیر علی زئی کے تناقض کہئے یاخبط حواس کا کمال یہ ہے کہ اس نے حافظ زیلعی سے منقول جس کتاب’’ غرائب مالک‘‘ کوتسلیم کرنے سے انکار کیاہے، دوسرے مقام پر بلادھڑک غرائب مالک سے استدلال کیاہے،چنانچہ دیکھئے کیافرماتے ہیں زبیر علی زئی،محقق گروہ اہل حدیث:
شیخ الاسلام امام دارقطنی نے ایک کتاب’’ غرائب حدیث مالک ‘‘لکھی ہے، اس کتاب میں انہوں نے ہر قسم کی (موضوع وباطل وغیرہ بھی)روایات اکٹھی کی ہیں ،مگر وہ اپنی اس کتاب میں مغلطائی کی روایات نہیں لائے ہیں، ملاحظہ :نصب الرایہ للزیلعی ۱؍۴۰۴،نورالعینین ص:۷۶)
زبیر علی زئی کا دورنگی پن یہیں تک محدود نہیں رہاکہ اس نے کبھی زیلعی کے حوالہ پر اعتماد کیا اور کبھی عدم اعتماد کا ظہار کیا، بلکہ اس کی د یوانگی اورخبط کا عالم یہ ہے کہ اس نے امام زیلعی پر ہی بالواسطہ نقل میں خیانت کا الزام لگادیا، دیکھئے خوف خدا سے عاری یہ شخص کیاکہتاہے:
نصب الرایہ للزیلعی میں امام دارقطنی کی کتاب غرائب مالک سے ایک قول کانٹ چھانٹ کر نقل کیاگیاہے، جب تک اصل کتاب غرائب مالک یااس سے منقول پوری عبارت نہ دیکھی جائے ،اس مبتور (آدھ کٹے)قول سے استدلال صحیح نہیں (الحدیث ۷؍۱۹)
ہم نے آپ کے سامنے امام دارقطنی کے تمام اقوال ،اس کی اصل حقیقت ،امام زیلعی کے حوالہ پر اعتراض کی حقیقت پیش کردی ہے،میراخیال ہے کہ اس تفصیل کے بعد کسی بھی منصف مزاج شخص کو امام دارقطنی کو امام محمد کے معدلین میں شمار کرنے پر اعتراض نہیں ہوگا۔
 
Last edited:

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
ابوعبداللہ الحاکم صاحب المستدرک
زبیر علی زئی النصر الربانی میں بعض ائمہ جرح وتعدیل کے نام گناکر بڑے طمطراق کے ساتھ دعویٰ کرتے ہیں:
ان کے مقابلے میں کسی سے امام محمد بن الحسن کی توثیق صراحتاًثابت نہیں ہے
ہم نے ماقبل میں بیان کردیاہے کہ صراحتاًتوثیق کی بات زبیر علی زئی کے دورنگی چال اور دوہرے معیار کا آئینہ ہے، اپنی باری ہو تو توثیق ضمنی پربھرپور اعتبار کیاجائے اور جب دوسرے کی باری آئے توپھر صراحتاًتوثیق کا مطالبہ کیاجائے۔
زبیرعلی زئی اس اقتباس میں توکہہ رہے ہیں کہ کسی سے توثیق ثابت نہیں ہے،لیکن تائید ربانی والے اپنے مضمون میں وہ اعتراف کرتے ہیں کہ حاکم اور ہیثمی سے توثیق ضمنی ثابت ہے ،دیکھئے وہ کیاکہتے ہیں:

جمہور کے مقابلے میں صرف حاکم نیشاپوری اورآٹھویں صدی ہجری کے حافظ ہیثمی سے ابن فرقد شیبانی کی توثیق ثابت ہے(الحدیث ،55/ص:۲۸)
امام محمدکے سلسلے میں حاکم کی توثیق دیکھیں:
حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ عَوْدًا عَلَى بَدْءٍ، ثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثَنَا الشَّافِعِيُّ، أَنْبَأَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي يُوسُفَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْوَلَاءُ لُحْمَةٌ كَلُحْمَةِ النَّسَبِ لَا تُبَاعُ وَلَا تُوهَبُ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ " المستدرك على الصحيحين للحاكم (4/ 379)
اس اقتباس میں واضح ہے کہ کہ حاکم اس حدیث کو صحیح الاسناد کہہ رہے ہیں او رکسی حدیث کو صحیح الاسناد کہنا راویوں کی ضمنی توثیق ہے،جیساکہ زبیر علی زئی کو اعتراف ہے اورجیساکہ محدثین کا بھی طرزعمل رہاہے،اسی حدیث کو حاکم دوسری سند سے نقل کررہے ہیں۔

زبیر علی زئی نے بھاری دل سے یہ تومان لیاکہ حاکم نیشاپوری سے ابن فرقد شیبانی کی توثیق ثابت ہے،اس سے ہمارا مدعا ثابت ہے کہ حاکم نیشاپوری امام محمد بن الحسن کے معدلین وموثقین میں شامل ہیں،چونکہ یہ موقف زبیر علی زئی نے بھاری دل سے تسلیم کیاہے ،لہذا حاکم کی اس توثیق کو رد کرنے کیلئے فرماتے ہیں:

حافظ ذہبی نے اس حدیث کی تلخیص میں حاکم پر رد کرتے ہوئے کہا:قلت بالدبوس ،میں نے کہا:ڈنڈے کے زور سے(تلخیص المستدرک۴؍۳۴۱،ح۷۹۹۰)ذہبی کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے عبدالرئوف المناوی نے لکھاہے :وتعقبہ الذہبی وشنع فقال ،قلت بالدبوس اور ذہبی نےا ن(حاکم )پر تعاقب(رد)کیا اور طنز وتشنیع کرتے ہوئے فرمایا:میں نے کہا:ڈنڈے کے زور سے.............معلوم ہوا کہ یہ تصحیح ذہبی کے نزدیک مردودہے(الحدیث55/34)
سوال چنا اور جواب گندم والی مثال ہے،ہمارا موقف ہے کہ امام حاکم سے امام محمد بن الحسن کی توثیق ثابت ہے،ذہبی کو اس موقف سے اختلاف ہے یااتفاق ،اس سے ہمیں بحث ہی نہیں ہے۔
زبیر علی زئی یہاں ایک اور مغالطہ دینے کی کوشش کررہے ہیں، وہ مغالطہ یہ ہے کہ وہ یہ ثابت کرناچاہتے ہیں کہ ذہبی نے محمد بن الحسن کے اس سند میں ہونے کی وجہ سے یہ کلام کیاہے،حالانکہ ذہبی نے امام محمد کا نام قطعاًنہیں لیاہے،جب کہ حافظ ذہبی کی تلخیص میں یہ عادت عام طورپر رہی ہے کہ وہ راوی کا نام لے کر اس کے ضعف پر کلام کرتے ہیں۔
عین ممکن ہے کہ ذہبی کو سند پر اعتراض نہ ہو ،متن پر اعتراض ہو ،جیساکہ

اس حدیث پر بیہقی نے السنن الکبریٰ میں کلام کیاہے،جیساکہ تلخیص کے محقق نے بڑی تفصیل سے اس حدیث پر کلام کیاہے،دیکھئے (مختصر تلخيص الذهبي (6/ 3080)
اورجیساکہ علم اصول حدیث میں واضح ہے کہ صحیح الاسناد کہنے سے متن کا صحیح ہونا لازم نہیں آتاہے اور متن کے صحیح ہونے سے ضروری نہیں ہے کہ سند بھی درست مانی جائے،زبیر علی زئی کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہاں پر حافظ ذہبی نے دبوس کا لفظ جو استعمال کیاہے،اس کی وجہ امام محمد ہی ہیں۔

ویسے بھی جیساکہ ماقبل میں مذکور ہوا کہ یہاں پر ذہبی کے موقف کا سوال نہیں بلکہ حاکم کے موقف کا سوال ہے اور حاکم کا موقف کہ وہ سند کو صحیح قراردے کر محمد بن الحسن الشیبانی کی توثیق کررہے ہیں،وہ ثابت ہے،فللہ الحمد۔
اورجہاں تک بات جمہورکے اقوال کی ہے تواس پر پہلے بھی بات ہوچکی ہے اورآخر میں بھی علم جرح وتعدیل میں جمہوریت کے اصول پر تفصیل سے گفتگو کریں گے۔
 
Last edited:

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
خطیب بغدادی :
مجھے علم نہیں کہ کسی اورنے بھی خطیب بغدادی کو امام محمد کے معدلین میں شامل کیاہے یانہیں، لیکن خطیب کے طرزعمل سے میں اسی نتیجے پر پہنچاہوں کہ وہ امام محمد کے معدلین میں شامل ہیں،خطیب بغدادی کا قول تاریخ بغداد کے سلسلے میں حافظ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں نقل کیاہے کہ تاریخ بغداد میں جو قول میں آخر میں ذکر کروں گا،وہی میرا موقف ہوگا۔
الخطيب يقول : كلما ذكرت في التاريخ في رجل اختلفت فيه أقاويل الناس في الجرح والتعديل ، فالتعويل على ما أخرت ذكره من ذلك ، وختمت به الترجمة .( تاریخ الاسلام: 10 صفحة: 175)
خطیب کہتے ہیں :میں تاریخ (تاریخ بغداد)میں جب کبھی ایسے شخص کا ذکر کروں جس میں لوگوں کے اقوال جرح وتعدیل کے بارے میں مختلف ہوں تو اعتماد اس پر کیاجائے،جس کو میں نے آخر میں ذکر کیاہے اورجس پر میں نے ترجمہ کو ختم کیاہے۔
آئیے خطیب کے اس کلام کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ امام محمد کے باب میں خطیب کا طرزعمل کیاہے۔
خطیب نے پہلے امام محمد کا مختصر تعارف پیش کیاہے ،پھر تحصیل علم میں ان کے اساتذہ کا ذکر کیاہے ،پھر ان کے شاگردوں کا ذکر کیاہے،پھر ان کے مختصر حالات بیان کئے ہیں ،پھر امام شافعی اوردیگر اکابر علماءسے ان کی تعریف وغیرہ نقل کی ہے،پھرخطیب نے بعض محدثین سے جہمیت کا قول نقل کیاہے ،پھر بعض محدثین سے امام محمد کے حق میں جروحات نقل کی ہیں جیسے ابن معین،نسائی،فلاس وغیرذلک،لیکن آخری بات جس پر انہوں نے ترجمہ کو جرح وتعدیل کے لحاظ سے ختم کیاہے ،وہ امام دارقطنی کا قول کہ عندی لایستحق الترک اور علی بن المدینی کا قول کہ وہ صدوق ہیں۔
اوراس کے بعد پھر ان کی تاریخ وفات ذکرکی ہے کہ ان کاانتقال کب اورکہاں ہوا۔

خطیب بغدادی کی صراحت کی روشنی میں دیکھیں تو ان کے نظریہ کے لحاظ سے کہ انہوں نے ترجمہ کو امام دارقطنی اورامام علی بن المدینی کی تعدیل پر ختم کیاہے ،امام محمد خطیب کے نزدیک صدوق توٹھہرتے ہیں۔


نوٹ:ایک عتراض یہ کیاجاسکتاہے کہ خطیب بغدادی نے مسئلۃ الاحتجاج بالشافعی میں امام محمد بن الحسن کے ذکر میں صرف جرح نقل کیاہے ،تعدیل بالکل نقل نہیں کی ہے،اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کتاب مناظرہ کے طرز پر لکھی گئی ہے اوراس میں خطیب بغدادی خاصے مشتعل بلکہ ان میں ایک گونہ تعصب بھی پایاجاتاہے،یہی وجہ ہے کہ جس کی تردید میں یہ کتاب لکھی گئی ہے اس کوبار بار اس کو ظالم جاہل اورحاسد وغیرہ کے القاب سے یاد کیاہے،اوراس کی دلیل یہ ہے کہ امام ابویوسف جن کو خطیب بغدادی واضح طورپر ثقہ مانتے ہیں، ان کے بھی باب میں اس کتاب میں صرف جرح نقل کی گئی ہے، یہ عام بات ہے کہ مناظرہ یاجوابی انداز کی کتابوں میں تھوڑی بہت شدت مصنف سے ہوجاتی ہے اور بسااوقات وہ ایسی بات کہہ جاتاہے کہ بعد میں اگرکوئی پوچھے توشاید وہ اس سے رجوع کرلے،ھذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
خطیب بغدادی :
مجھے علم نہیں کہ کسی اورنے بھی خطیب بغدادی کو امام محمد کے معدلین میں شامل کیاہے یانہیں، لیکن خطیب کے طرزعمل سے میں اسی نتیجے پر پہنچاہوں کہ وہ امام محمد کے معدلین میں شامل ہیں،خطیب بغدادی کا قول تاریخ بغداد کے سلسلے میں حافظ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں نقل کیاہے کہ تاریخ بغداد میں جو قول میں آخر میں ذکر کروں گا،وہی میرا موقف ہوگا۔
خطیب کہتے ہیں :میں تاریخ (تاریخ بغداد)میں جب کبھی ایسے شخص کا ذکر کروں جس میں لوگوں کے اقوال جرح وتعدیل کے بارے میں مختلف ہوں تو اعتماد اس پر کیاجائے،جس کو میں نے آخر میں ذکر کیاہے اورجس پر میں نے ترجمہ کو ختم کیاہے۔
آئیے خطیب کے اس کلام کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ امام محمد کے باب میں خطیب کا طرزعمل کیاہے۔
خطیب نے پہلے امام محمد کا مختصر تعارف پیش کیاہے ،پھر تحصیل علم میں ان کے اساتذہ کا ذکر کیاہے ،پھر ان کے شاگردوں کا ذکر کیاہے،پھر ان کے مختصر حالات بیان کئے ہیں ،پھر امام شافعی اوردیگر اکابر علماءسے ان کی تعریف وغیرہ نقل کی ہے،پھرخطیب نے بعض محدثین سے جہمیت کا قول نقل کیاہے ،پھر بعض محدثین سے امام محمد کے حق میں جروحات نقل کی ہیں جیسے ابن معین،نسائی،فلاس وغیرذلک،لیکن آخری بات جس پر انہوں نے ترجمہ کو جرح وتعدیل کے لحاظ سے ختم کیاہے ،وہ امام دارقطنی کا قول کہ عندی لایستحق الترک اور علی بن المدینی کا قول کہ وہ صدوق ہیں۔
اوراس کے بعد پھر ان کی تاریخ وفات ذکرکی ہے کہ ان کاانتقال کب اورکہاں ہوا۔

خطیب بغدادی کی صراحت کی روشنی میں دیکھیں تو ان کے نظریہ کے لحاظ سے کہ انہوں نے ترجمہ کو امام دارقطنی اورامام علی بن المدینی کی تعدیل پر ختم کیاہے ،امام محمد خطیب کے نزدیک صدوق توٹھہرتے ہیں۔


نوٹ:ایک عتراض یہ کیاجاسکتاہے کہ خطیب بغدادی نے مسئلۃ الاحتجاج بالشافعی میں امام محمد بن الحسن کے ذکر میں صرف جرح نقل کیاہے ،تعدیل بالکل نقل نہیں کی ہے،اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کتاب مناظرہ کے طرز پر لکھی گئی ہے اوراس میں خطیب بغدادی خاصے مشتعل بلکہ ان میں ایک گونہ تعصب بھی پایاجاتاہے،یہی وجہ ہے کہ جس کی تردید میں یہ کتاب لکھی گئی ہے اس کوبار بار اس کو ظالم جاہل اورحاسد وغیرہ کے القاب سے یاد کیاہے،اوراس کی دلیل یہ ہے کہ امام ابویوسف جن کو خطیب بغدادی واضح طورپر ثقہ مانتے ہیں، ان کے بھی باب میں اس کتاب میں صرف جرح نقل کی گئی ہے، یہ عام بات ہے کہ مناظرہ یاجوابی انداز کی کتابوں میں تھوڑی بہت شدت مصنف سے ہوجاتی ہے اور بسااوقات وہ ایسی بات کہہ جاتاہے کہ بعد میں اگرکوئی پوچھے توشاید وہ اس سے رجوع کرلے،ھذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب
جب اظہر من الشمس اور صریح ترین جروحات کو عجیب عجیب بہانے بنا کر رد کر دیا جائے اور اس کے مقابلے میں ایسی بعید سے بعید تر چیزوں سے احتجاج لیا جائے تو جان لیں کہ یہ کارنامہ صرف تقلید اور تعصب ہی کروا سکتی ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جب اظہر من الشمس اور صریح ترین جروحات کو عجیب عجیب بہانے بنا کر رد کر دیا جائے اور اس کے مقابلے میں ایسی بعید سے بعید تر چیزوں سے احتجاج لیا جائے تو جان لیں کہ یہ کارنامہ صرف تقلید اور تعصب ہی کروا سکتی ہے۔
بھائی آپ خطیب بغدادی رح کے مذکورہ قول اور طرز عمل کے بارے میں کیا فرمائیں گے؟
خطیب کہتے ہیں :میں تاریخ (تاریخ بغداد)میں جب کبھی ایسے شخص کا ذکر کروں جس میں لوگوں کے اقوال جرح وتعدیل کے بارے میں مختلف ہوں تو اعتماد اس پر کیاجائے،جس کو میں نے آخر میں ذکر کیاہے اورجس پر میں نے ترجمہ کو ختم کیاہے۔
آئیے خطیب کے اس کلام کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ امام محمد کے باب میں خطیب کا طرزعمل کیاہے۔
خطیب نے پہلے امام محمد کا مختصر تعارف پیش کیاہے ،پھر تحصیل علم میں ان کے اساتذہ کا ذکر کیاہے ،پھر ان کے شاگردوں کا ذکر کیاہے،پھر ان کے مختصر حالات بیان کئے ہیں ،پھر امام شافعی اوردیگر اکابر علماءسے ان کی تعریف وغیرہ نقل کی ہے،پھرخطیب نے بعض محدثین سے جہمیت کا قول نقل کیاہے ،پھر بعض محدثین سے امام محمد کے حق میں جروحات نقل کی ہیں جیسے ابن معین،نسائی،فلاس وغیرذلک،لیکن آخری بات جس پر انہوں نے ترجمہ کو جرح وتعدیل کے لحاظ سے ختم کیاہے ،وہ امام دارقطنی کا قول کہ عندی لایستحق الترک اور علی بن المدینی کا قول کہ وہ صدوق ہیں۔
اوراس کے بعد پھر ان کی تاریخ وفات ذکرکی ہے کہ ان کاانتقال کب اورکہاں ہوا۔


خطیب بغدادی کی صراحت کی روشنی میں دیکھیں تو ان کے نظریہ کے لحاظ سے کہ انہوں نے ترجمہ کو امام دارقطنی اورامام علی بن المدینی کی تعدیل پر ختم کیاہے ،امام محمد خطیب کے نزدیک صدوق توٹھہرتے ہیں۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
حافظ ذہبی
حافظ ذہبی نے ضعفاءکی کتابوں میں اور دیگر تاریخ وسیر کی کتابوں میں امام محمد بن الحسن کا جو کچھ تذکرہ کیاہے،اس سے کئی باتیں واضح ہیں ،اولاًتویہ کہ وہ امام محمد بن الحسن پر کذب وجہمیت کی جرح کو قابل توجہ نہیں مانتے ،اسی کے ساتھ وہ امام محمد بن الحسن کو مطلقاًضعیف نہیں مانتے ،بلکہ کہتے ہیں کہ امام مالک سے روایت کرنے میں وہ قوی ہیں، اورامام شافعی نے ان سے احتجاج کیاہے،
(میزان الاعتدال ۴؍۸۷، دیکھئے ،مناقب الامام ابی حنیفہ وصاحبیہ)
اب غورکیجئے کہ امام محمد بن الحسن اگر تین سال یااس سے کچھ زائد امام مالک کافیض صحبت پانے کی وجہ سے امام مالک سے ان کی روایت قوی ہوسکتی ہے تو پھر امام ابوحنیفہ اورامام ابویوسف جن سے انہوں نے امام مالک سے بدرجہازیادہ فیض صحبت پایاہے، ان سے ان کی روایت کیوں مقبول نہیں ہوگی ؟
قویاًفی مالک کا یہ مطلب نکالنا کہ وہ صرف امام مالک سے روایت کرنے میں قوی ہیں ،یہ بعینہ ایساہے جیسے امام محمد کے ساتھ متعدد ترجمہ نگاروں نے صاحب ابی حنیفہ کا جملہ لکھاہے، اب کوئی اگر صاحب ابی حنیفہ سے یہ مطلب نکالے کہ وہ صرف امام ابوحنیفہ کے شاگرد ہیں اورکسی کے شاگرد نہیں ہیں تویہ مطلب جس طرح غلط اورکم فہمی کی دلیل ہوگی ،اسی طرح قویافی مالک کا مطلب یہ نکالناکہ وہ صرف امام مالک سے روایت کرنے میں قوی ہیں ،غلط اورکم فہمی بلکہ کج فہمی ہوگی۔
اب سوال یہ ہے کہ پھر امام مالک کی ذہبی نے تخصیص ہی کیوں کی ؟اس کا جواب بڑا واضح ہےکہ امام مالک روایت حدیث میں جتنے مشہور ،معروف اور مسلم عندالکل ہیں، وہ بات امام ابوحنیفہ،امام ابویوسف اوردیگر کو حاصل نہیں ہے،اسی طرح امام محمد نے جس طرح جاکر ان کے پاس تین سال کی طویل قیام کی مدت میں ان سے حدیث کا علم حاصل کیا،ایساکسی دوسرے محدث کے باب میں سوائے امام ابوحنیفہ اورامام ابویوسف کے نظرنہیں آتا،لیکن اس میں بھی بات یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ ہوں یاامام ابویوسف-رحمہمااللہ –یہ دونوں کوفہ کے رہنے والے ہیں، امام محمد بھی کوفی اوران کے شاگرد ہیں ،رات دن کی یکجائی اورہم نشینی حاصل ہے،اس کے برخلاف وہ امام مالک کے پاس بطورخاص سفر کرکے جاتے ہیں اور تین سال کی طویل مدت میں ان سے روایت کا ایک بڑا ذخیرہ حاصل کرتے ہیں،شاید یہی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر حافظ ذہبی نے قویافی مالک کہا، ورنہ جہاں تک طول مدت اور فیض صحبت کی بات ہے یااثرپذیر ی کا تعلق ہے توامام محمدامام مالک سے زیادہ امام ابوحنیفہ سے متاثر ہیں اوران کی فقاہت کے زیادہ معترف ہیں ،ایسے میں یہ بات بالکل عقل سے بعید ہوگی کہ ہم امام محمد کی وہ روایات قبول کریں جوانہوں نے امام مالک سے کی ہے اور ان روایات کو ضعیف قراردیں یاترک کردیں، جو انہوں نے امام ابوحنیفہ یاامام ابویوسف سے کی ہے۔


حافظ ہیثمی
حافظ ہیثمی نے مجمع الزوائد میں امام محمد بن الحسن کی ایک سند کو حسن قراردیاہے ۔
10172 - عن سنان بن وبرة قال: «كنا مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم - في غزوة المريسيع - غزوة بني المصطلق - فكان شعارهم: يا منصور أمت أمت».رواه الطبراني في الأوسط والكبير، وإسناد الكبير حسن.( مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (6/ 142)
اوریہ معجم کبیر طبرانی کی یہ سند وہی ہے جس میں امام محمد بن الحسن الشیبانی ہیں:
6496 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرٍو الْبَزَّارُ، ثنا حُمَيْدُ بْنُ الرَّبِيعِ الْخَزَّازُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الشَّيْبَانِيُّ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ رَافِعٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سِنَانِ بْنِ وَبَرَةَ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: " غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ الْمُرَيْسِيعِ، فَكَانَ شِعَارُنَا: يَا مَنْصُورُ، أَمِتْ أَمِتْ "( المعجم الكبير للطبراني (7/ 101)
اس سے بھی واضح ہوجاتاہے کہ حافظ ہیثمی کے نزدیک بھی امام محمد بن الحسن مستند اورمعتبر راوی ہیں، ضعیف نہیں ہیں۔
اس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ابن اسحاق کو بھی ہیثمی نے معتبر قراردیاہے آپ لوگ کیوں نہیں مانتے:

عرض ہے کہ اسی صفحے پر ہیثمی نے محمد بن اسحاق کی روایت بیان کرکے ورجالہ ثقات کہہ کر انہیں ثقہ قراردیاہے،آپ لوگوں کو اس سے کیوں چڑ ہے(تائید ربانی ص:36)
جواباًعرض ہے کہ ہم بارہاعرض کرچکے ہیں کہ ایک چیز ہے کہ حافظ ہیثمی کی جانب کسی قول کی نسبت کا صحیح ہونا اور ایک چیز ہے حافظ ہیثمی کے قول کا درست ہونا،مثلاحافظ ہیثمی ابن اسحاق کوثقہ قراردیتے ہیں،کیااس سے کسی حنفی نے انکار کیاہے کہ ہیثمی بن اسحاق کو ثقہ نہیں قراردیتے،اورایک چیز ہے ابن اسحاق کا ثقہ ہونا،ان دونوں موقف میں زمین وآسمان کا فرق ہے،لیکن زبیر علی زئی کو یہ فرق کون سمجھائے،وہ قول کی نسبت کی تصحیح اور قول کی تصحیح دونوں ایک قراردیتے ہیں اور امام محمد کی توثیق ہیثمی نے کی ہے کی بات پر امام محمد کی توثیق وعدم توثیق کے دلائل بیان کرنے لگتے ہیں۔
اس کے زبیر علی زئی نے امام محمد کی کتابوں کی نسبت امام محمدکی جانب ہونے کی بحث کو چھیڑا ہے،حقیقت یہ ہے کہ کتاب کی نسبت مصنف کی جانب ہونے کیلئے سند صحیح ضروری ہے،زبیرعلی زئی کے اس موقف میں خاصا تضاد اورتناقض پایاجاتاہے،جب ان کی مرضی ہوتی ہے توایسی کتابوں سے بھی استشہاد کرلیتے ہیں جس کے مولف تک سند درست نہ ہو اور جب مرضی نہ ہوتو مشہور سے مشہور کتاب پر بھی اعتراض اٹھادیتے ہیں،لیکن اس بحث کو ہم کسی اورمقام کیلئے چھوڑے دیتے ہیں اورہم نے زبیر علی زئی کی جمہوریت پر کئی مرتبہ اس مضمون میں تبصرہ کیاہے،لیکن مناسب ہے کہ اس تھریڈ کو مزید طوالت سے بچانے کیلئے اسے موضوع کو الگ تھریڈ میں شروع کیاجائے۔
 
Last edited:
Top