• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الوہیت کا مدار کس چیز پر ہےِِ؟؟؟

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
(الوہیت کا مدار کس پر ہے ؟) میں نے ابھی تک اس پر کچھ لکھنے کی کوشش نہیں کی ۔ کیونکہ میں نے ابھی تک اس کے مفہوم کو نہیں سمجھا کہ اس سے کیا کہنا چاہتے ہیں ؟ وجہ یہ ہے کہ ۔مدار ،کا مفہوم اصل ہوتا ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ اس کا دارومدار اسپر ہے یا جیسے ۔چھت کا دارومدار اسکی بنیاد پر ہے بنیاد ہے تو چھت قائم ہے ورنہ نہیں ۔ تو اب الوہیت کا مدار کس پر قائم کرتے ہیں ،اگر الوہیت سے مراد اللہ کی ذات ہے تو یہ سوال غلط ہے کیونکہ اللہ اصل ہے وہی اول ہے اور وہی آخر ہے اور اگر اس سے مراد عبادت ہے تب تو یہ معنی کیا جا سکتا ہے کہ اسکی اصل اللہ کی ذات ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اس بحث کو اگر صرف قادری رانا اور عبدہ بھائی کے درمیان رہنے دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے ، البتہ اگر ان دونوں میں سے کوئی دستبردار ہو تو اس کی جگہ کوئی تیسرا لے سکتا ہے ۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
(الوہیت کا مدار کس پر ہے ؟) میں نے ابھی تک اس پر کچھ لکھنے کی کوشش نہیں کی ۔ کیونکہ میں نے ابھی تک اس کے مفہوم کو نہیں سمجھا کہ اس سے کیا کہنا چاہتے ہیں ؟ وجہ یہ ہے کہ ۔مدار ،کا مفہوم اصل ہوتا ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ اس کا دارومدار اسپر ہے یا جیسے ۔چھت کا دارومدار اسکی بنیاد پر ہے بنیاد ہے تو چھت قائم ہے ورنہ نہیں ۔ تو اب الوہیت کا مدار کس پر قائم کرتے ہیں ،اگر الوہیت سے مراد اللہ کی ذات ہے تو یہ سوال غلط ہے کیونکہ اللہ اصل ہے وہی اول ہے اور وہی آخر ہے اور اگر اس سے مراد عبادت ہے تب تو یہ معنی کیا جا سکتا ہے کہ اسکی اصل اللہ کی ذات ہے
محترم بھائی الوہیت کے دارومدار سے یہاں مراد کسی کے الہ بننے کا معیار کیا ہے
جیسا کہ اس دھاگہ کی پہلی پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ اہل حدیث جو بریلویوں کے بارے کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بزرگوں کو الہ بنایا ہوتا ہے تو ان اہل حدیثوں سے یہ پوچھنا ہے کہ انکو کس چیز سے یہ نظر آتا ہے کہ ہم بریلوی اپنے بزرگوں کو الہ بنا رہے ہیں اور اللہ کے برابر کر رہے ہیں کیا داتا یا مشکل کشا کسی کو سمجھنا ہی اسکو الہ بنانے کے مترادف ہے یہ سوال تھا اس دھاگہ کو شروع کرنے والے کا
پس ہم نے اسکو یہ بتانا ہے کہ بریلوی جو الوہیت کے اندر شرک کر رہے ہیں یعنی اپنے کچھ بزرگوں وغیرہ کو الہ بنا دیتے ہیں تو وہ کون سے انکے کام ہیں جن سے ہم یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ یہ انکو الہ بنا رہے ہیں
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
تقریبا پانچ سال کے عرصہ کے بعد آج جب ذہن آورگی کی راہوں سے آشنا ہوچکاہے،زندگی مختلف مسائل کا شکار ہے تو گوگل پہ کچھ تلاش کرتے ہوئے دھاگے سامنے آگئے ،اور وہ دن جب قلم ک جولانیاں مسلک اہلسنت بریلوی کے دفاع میں گزرتی تھیں بڑی بھلی معلوم ہوئیں۔۔۔اس فارم پہ کافی اچھا وقت گزرا خیر ۔۔۔۔اگر موقع ملا تو دوبارہ ان ابحاث میں حصہ لیں گے ۔۔اللہ سب کو تندرستی دے
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
ساری گفتگو کو آج دوبارہ پڑھا ۔اس کا خلاصہ پیش خدمت ہے
1۔ الوہیت کا معیار اہل سنت کے نزدیک واجب الوجود ہونا یا مستحق العبادت ہونا ہے ،مشکل کشا ہونا یا حاجت روا ہونا نہیں۔کیونکہ ایسی صفت جو مخلوق میں پائی جائے وہ ہرگز معیار الوہیت نہیں ہوسکتی۔جب ہمارے مہربانوں کے نزدیک بھی زندہ شخص مشکل کشائی کرسکتا ہے حاجت روائی کر سکتا ہے تو کیا وہ الہ بن گیاَ؟ اگر یہی معیار الوہیت ہے تو زندہ بندے کو الہ ماننا پڑے گا۔رہ گئی مافوق الاسباب مدد کو معیار الوہیت کہنا تو جن آیات سے ہمارے مہربان اس معیار الوہیت کو ثابت کرتے ہیں یعنی بیسویں پارے کا پہلا رکوع وہاں کہیں بھی یہ تقسیم موجود نہیں۔بلکہ مطلق مدد کی بات ہے اور ہمارے مہربان بھی اسباب کے تحت مدد کو جائز کہتے ہیں۔۔۔۔اس لئے مشکل کشائی حاجت روائی کو معیار الوہیت قرار دینا ہرگز درست نہیں
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
دعا (پکارنا) اور عبادت کے باہمی تعلق کا قرآنی تصور!

بعض لوگ دعا ( پکارنا) اور عبادت میں فرق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کسی ہستی کو ما فوق الاسباب طریقے سے پکارنا یا ان سے دعا کرنا عبادت نہیں ہے جبکہ مندرجہ ذیل آیات میں ”د ع و“اور ”ع ب د“کے مادے سے بنے مختلف الفاظ جہاں اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ سیاق و سباق کے اعتبار سےدَعَوَ ( پکارنا)اورعَبَدَ ( عبادت کرنا)مترادف المعنیٰ ہیں، بالکل اسی طرح ان کے استحقاق کو بھی صرف ا للہ تعالٰی کے لیے خاص کر رہے ہیں۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے :

﴿وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ﴾

اور اُن کو اِس کے سوا کوئی علم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں اپنے دین کو اُس کے لیے خالص کر کے، بالکل یکسو ہو کر، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں یہی نہایت صحیح و درست دین ہے۔( البينة: ۵)

﴿إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ

(اے محمدﷺ) یہ کتاب ہم نے تمہاری طرف برحق نازل کی ہے، لہٰذا تم اللہ ہی کی بندگی کرو دین کو اُسی کے لیے خالص کرتے ہوئے۔ (الزمر: ۲)

﴿قُلِ اللَّهَ أَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّهُ دِينِي

کہہ دو کہ میں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اُسی کی بندگی کروں گا۔ (الزمر: ۱۴)

﴿قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ وَأَقِيمُوا وُجُوهَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ﴾

اے محمدﷺ، ان سے کہو، میرے رب نے تو راستی و انصاف کا حکم دیا ہے، اور اس کا حکم تو یہ ہے کہ ہر عبادت میں اپنا رخ ٹھیک رکھو اور اُسی کو پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص رکھ کر جس طرح اُس نے تمہیں اب پیدا کیا ہے اسی طرح تم پھر پیدا کیے جاؤ گے۔ (الاعراف: ۲۹)

﴿هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ حَتَّىٰ إِذَا كُنتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِم بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِهَا جَاءَتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ لَئِنْ أَنجَيْتَنَا مِنْ هَٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ﴾

وہ اللہ ہی ہے جو تم کو خشکی اور تری میں چلاتا ہے چنانچہ جب تم کشتیوں میں سوار ہو کر بادِ موافق پر فرحاں و شاداں سفر کر رہے ہوتے ہو اور پھر یکایک بادِ مخالف کا زور ہوتا ہے اور ہر طرف سے موجوں کے تھپیڑے لگتے ہیں اور مسافر سمجھ لیتے ہیں کہ طوفان میں گھر گئے، اُس وقت سب اپنے دین کو اللہ ہی کے لیے خالص کر کے اس سے دُعائیں مانگتے ہیں کہ ”اگر تو نے ہم کو اس بلا سے نجات دے دی تو ہم شکر گزار بندے بنیں گے“۔(یونس: ۲۲)

﴿فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ﴾

جب یہ لوگ کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اُس سے دُعا مانگتے ہیں، پھر جب وہ اِنہیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو یکایک یہ شرک کرنے لگتے ہیں۔ (العنکبوت: ۶۵)

﴿وَإِذَا غَشِيَهُم مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُورٍ﴾

اور جب (سمندر میں) اِن لوگوں پر ایک موج سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہے تو یہ اللہ کو پکارتے ہیں اپنے دین کو بالکل اسی کے لیے خالص کر کے، پھر جب وہ بچا کر انہیں خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو ان میں سے کوئی اقتصاد برتتا ہے، اور ہماری نشانیوں کا انکار نہیں کرتا مگر ہر وہ شخص جو غدّار اور ناشکرا ہے۔ (لقمان: ۳۲)

﴿فَادْعُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ﴾

(پس اے رجوع کرنے والو) اللہ ہی کو پکارو اپنے دین کو اُس کے لیے خالص کر کے، خواہ تمہارا یہ فعل کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔ (غافر: ۱۴)

﴿هُوَ الْحَيُّ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ فَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾

وہی زندہ ہے اُس کے سوا کوئی معبود نہیں اُسی کو تم پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے ساری تعریف اللہ ربّ العالمین ہی کے لیے ہے۔ (غافر:۶۵)

اوپر کی پہلی تین آیات میں عَبَدَ ( عبادت ) اور آخری چھے آیات میں دَعَوَ ( پکارنا) استعمال ہوا ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ سیاق و سباق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دونوں الفاظ مترادف المعنیٰ ہیں۔ یہ تو وہ آیات ہیں جن میں عَبَدَ (عبادت ) اور دَعَوَ ( پکارنا) الگ الگ بیان ہوئے ہیں ۔ اب ہم وہ آیات پیش کرتے ہیں جن میں یہ دونوں الفاظ ایک ہی آیت میں وارد ہوئے ہیں۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے :

﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ﴾

تمہارا رب کہتا ہے ”مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، جو لوگ گھمنڈ میں آ کر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں، ضرور وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے“۔(غافر: ۶۰)

﴿قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَمَّا جَاءَنِيَ الْبَيِّنَاتُ مِن رَّبِّي وَأُمِرْتُ أَنْ أُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ﴾

اے نبیﷺ، اِن لوگوں سے کہہ دو کہ مجھے تو اُن ہستیوں کی عبادت سے منع کر دیا گیا ہے جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو (میں یہ کام کیسے کر سکتا ہوں) جبکہ میرے پاس میرے رب کی طرف سے بینات آ چکی ہیں مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں رب العالمین کے آگے سرِ تسلیم خم کر دوں۔ (غافر: ۶۶)

﴿قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ قُل لَّا أَتَّبِعُ أَهْوَاءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ﴾

اے محمدﷺ! اِن سے کہو کہ تم لوگ اللہ کے سوا جن دوسروں کو پکارتے ہو اُن کی بندگی کرنے سے مجھے منع کیا گیا ہے کہو، میں تمہاری خواہشات کی پیروی نہیں کروں گا، اگر میں نے ایسا کیا تو گمراہ ہو گیا، راہ راست پانے والوں میں سے نہ رہا۔ (الانعام: ۵۶)

ان آیات سے یہ بات پوری طرح مبرہن ہو جاتی ہے کہ پکارنا ہی عبادت ہے اور عبادت کا مغز پکارنا ہی ہے ۔ مزید یہ کہ عَبَدَ ( عبادت ) اور دَعَوَ ( پکارنا) کا مستحق صرف ا للہ تعالٰی کی ذات ہے۔اب ہم وہ آیات پیش کرتے ہیں جن میں غیر اللہ کی صرف عبادت ہی نہیں بلکہ ان کو پکارنا یا ان سے دعا کرنا بھی شرک قرار دیا گیا ہے ۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے :

﴿إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ﴾

انہیں پکارو تو وہ تمہاری دعائیں سن نہیں سکتے اور سن لیں تو ان کا تمہیں کوئی جواب نہیں دے سکتے اور قیامت کے روز وہ تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے حقیقت حال کی ایسی صحیح خبر تمہیں ایک خبردار کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔ (فاطر: ۱۴)

﴿وَإِذَا رَأَى الَّذِينَ أَشْرَكُوا شُرَكَاءَهُمْ قَالُوا رَبَّنَا هَٰؤُلَاءِ شُرَكَاؤُنَا الَّذِينَ كُنَّا نَدْعُو مِن دُونِكَ فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكَاذِبُونَ﴾

اور جب وہ لوگ جنہوں نے دنیا میں شرک کیا تھا اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے ”اے پروردگار، یہی ہیں ہمارے وہ شریک جنہیں ہم تجھے چھوڑ کر پکارا کرتے تھے“ اس پر اُن کے وہ معبود انہیں صاف جواب دیں گے کہ ”تم جھوٹے ہو“۔(النحل: ۸۶)

یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ غیر اللہ کو پکارنے یا ان سے دعا کرنے والا شرک کا مرتکب ہوتا ہے ۔ اسی سلسلہ سے جڑی اب وہ آیات پیش ِ خدمت ہیں جن سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ”من دون اللہ“ اور ” غیر اللہ“میں انبیاء ، رسل، اولیاء،صلحاء،جن ،ملائکہ، شیاطین، بت اور دیگر مخلوقات وغیرہ شامل ہیں۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے :

﴿وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ﴾

غرض جب (یہ احسانات یاد دلا کر) اللہ فرمائے گا کہ ”اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی خدا بنا لو“ تو وہ جواب میں عرض کرے گا کہ ”سبحان اللہ! میرا یہ کام نہ تھا کہ وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا، اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی، تو آپ کو ضرور علم ہوتا، آپ جانتے ہیں جو کچھ میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو کچھ آپ کے دل میں ہے، آپ تو ساری پوشیدہ حقیقتوں کے عالم ہیں۔“ (المائدة: ۱۱۶)

﴿إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ﴾‏

تم لوگ خدا کو چھوڑ کر جنہیں پکارتے ہو وہ تو محض بندے ہیں جیسے تم بندے ہو ان سے دعائیں مانگ دیکھو، یہ تمہاری دعاؤں کا جواب دیں اگر ان کے بارے میں تمہارے خیالات صحیح ہیں۔ (الاعراف: ۱۹۴)

﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَٰهًا وَاحِدًا لَّا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُون﴾

انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ (التوبة: ۳۱)

﴿أَفَحَسِبَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَن يَتَّخِذُوا عِبَادِي مِن دُونِي أَوْلِيَاءَ إِنَّا أَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ نُزُلًا﴾

تو کیا یہ لوگ، جنہوں نے کفر اختیار کیا ہے، یہ خیال رکھتے ہیں کہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو اپنا کارساز بنا لیں؟ ہم نے ایسے کافروں کی ضیافت کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے۔ (الكهف: ۱۰۲)

﴿وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَقُولُ أَأَنتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِي هَٰؤُلَاءِ أَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِيلَ﴾

اور وہ وہی دن ہو گا جب کہ (تمہارا رب) اِن لوگوں کو بھی گھیر لائے گا اور ان کے اُن معبودوں کو بھی بُلا لے گا جنہیں آج یہ اللہ کو چھوڑ کر پوج رہے ہیں، پھر وہ اُن سے پوچھے گا”کیا تم نے میرے اِن بندوں کر گمراہ کیا تھا؟ یا یہ خود راہِ راست سے بھٹک گئے تھے؟“۔ (الفرقان: ۱۷)

﴿قَالُوا سُبْحَانَكَ مَا كَانَ يَنبَغِي لَنَا أَن نَّتَّخِذَ مِن دُونِكَ مِنْ أَوْلِيَاءَ وَلَٰكِن مَّتَّعْتَهُمْ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ نَسُوا الذِّكْرَ وَكَانُوا قَوْمًا بُورًا﴾

وہ عرض کریں گے ”پاک ہے آپ کی ذات، ہماری تو یہ بھی مجال نہ تھی کہ آپ کے سوا کسی کو اپنا مولا بنائیں مگر آپ نے اِن کو اور ان کے باپ دادا کو خوب سامانِ زندگی دیا حتیٰ کہ یہ سبق بھول گئے اور شامت زدہ ہو کر رہے“۔(الفرقان: ۱۸)

﴿قَالُوا سُبْحَانَكَ أَنتَ وَلِيُّنَا مِن دُونِهِم بَلْ كَانُوا يَعْبُدُونَ الْجِنَّ أَكْثَرُهُم بِهِم مُّؤْمِنُونَ﴾

تو وہ جواب دیں گے کہ ”پاک ہے آپ کی ذات، ہمارا تعلق تو آپ سے ہے نہ کہ اِن لوگوں سے دراصل یہ ہماری نہیں بلکہ جنوں کی عبادت کرتے تھے، ان میں سے اکثر انہی پر ایمان لائے ہوئے تھے“۔(سبإ: ۴۱)

﴿إِن يَدْعُونَ مِن دُونِهِ إِلَّا إِنَاثًا وَإِن يَدْعُونَ إِلَّا شَيْطَانًا مَّرِيدًا﴾‏

وہ اللہ کو چھوڑ کر دیویوں کو معبود بناتے ہیں وہ اُس باغی شیطان کو معبود بناتے ہیں۔ (النساء: ۱۱۷)

﴿وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّن دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا﴾‏

اس شیطان کوجس نے اللہ کے بجائے اپنا ولی و سرپرست بنا لیا وہ صریح نقصان میں پڑ گیا۔ (النساء: ۱۱۹)

﴿وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ﴾‏

اور وہ دوسری ہستیاں جنہیں اللہ کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں، وہ کسی چیز کی بھی خالق نہیں ہیں بلکہ خود مخلوق ہیں۔ (النحل: ۲۰)

﴿وَاتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً لَّا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَاةً وَلَا نُشُورًا﴾‏

لوگوں نے اُسے چھوڑ کر ایسے معبود بنا لیے جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں، جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتے، جو نہ مار سکتے ہیں نہ جِلا سکتے ہیں، نہ مرے ہوئے کو پھر اٹھا سکتے ہیں۔ (الفرقان: ۳)

﴿وَجَدتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِن دُونِ اللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ﴾‏

میں نے دیکھا ہے کہ وہ اور اس کی قوم اللہ کے بجائے سورج کے آگے سجدہ کرتی ہے" شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیے اور انہیں شاہراہ سے روک دیا، اس وجہ سے وہ یہ سیدھا راستہ نہیں پاتے۔ (النمل: ۲۴)

﴿إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكًا إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِندَ اللَّهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ﴾‏

تم اللہ کو چھوڑ کر جنہیں پوج رہے ہو وہ تو محض بت ہیں اور تم ایک جھوٹ گھڑ رہے ہو در حقیقت اللہ کے سوا جن کی تم پرستش کرتے ہو وہ تمہیں کوئی رزق بھی دینے کا اختیار نہیں رکھتے اللہ سے رزق مانگو اور اُسی کی بندگی کرو اور اس کا شکر ادا کرو، اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو۔ (العنکبوت:۱۷)

﴿قُلْ أَرَأَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ أَغَيْرَ اللَّهِ تَدْعُونَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ﴾‏

ان سے کہو، ذرا غور کر کے بتاؤ، اگر کبھی تم پر اللہ کی طرف سے کوئی بڑی مصیبت آ جاتی ہے یا آخری گھڑی آ پہنچتی ہے تو کیا اس وقت تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارتے ہو؟ بولو اگر تم سچے ہو۔ (الأنعام:۴۰)

﴿لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ﴾‏

ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اُس کی قوم کی طرف بھیجا اس نے کہا ”اے برادران قوم، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے میں تمہارے حق میں ایک ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں“۔ (الأعراف:۵۹)

﴿فَأَرْسَلْنَا فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ أَفَلَا تَتَّقُونَ﴾‏

پھر اُن میں خود انہی کی قوم کا ایک رسول بھیجا (جس نے انہیں دعوت دی) کہ اللہ کی بندگی کرو، تمہارے لیے اُس کے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے، کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟ (المؤمنون:۳۲)

﴿قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ﴾‏

(اے نبیﷺ) اِن سے کہو ”پھر کیا اے جاہلو، تم اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے کے لیے مجھ سے کہتے ہو؟“ (الزمر:۶۴)

ان تمام آیات پر غور کرنے سے مندرجہ ذیل نکات سامنے آتے ہیں:
  • غیر اللہ اور من دون اللہ کی عبادت ، ان کو پکارنا یا ان سے دعا کرنا شرک ہے۔
  • غیر اللہ اور من دون اللہ میں انبیاء ، رسل، اولیاء،صلحاء،جن ،ملائکہ، شیاطین، بت اور دیگر مخلوقات وغیرہ شامل ہیں۔
  • عَبَدَ ( عبادت ) اور دَعَوَ ( پکارنا) کا مستحق صرف ا للہ تعالٰی کی ذات ہے۔
  • پکارنا ہی عبادت ہے ۔
  • عبادت کا مغز پکارنا ہی ہے۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
قال إبن أبي العز الحنفي رحمه الله تعالى :
”ولم يكونوا يعتقدون في الأصنام أنها مشاركة لله في خلق العالم، بل كان حالهم فيها كحال أمثالهم من مشركي الأمم من الهند والترك والبربر وغيرهم، تارة يعتقدون أن هذه تماثيل قوم صالحين من الأنبياء والصالحين، ويتخذونهم شفعاء، ويتوسلون بهم إلى الله، وهذا كان أصل شرك العرب“. (شرح الطحاوية - ط الأوقاف السعودية :۱ / ۳۱) .
 
Top