• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الہٰ کا معنی؟؟؟

ام حسان

رکن
شمولیت
مئی 12، 2015
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
32
پوائنٹ
32
"اللہ تعالیٰ"

س:مسلمان بننے کے لیے کیا پڑھنا پڑتا ہے؟
ج:اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ۔
س:اسے کیا کہتے ہیں؟
ج:اسے کلمہ کہتے ہیں۔
س:کلمے کا کیا ترجمہ ہے؟
ج:میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالٰی کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺاُس (اللہ تعالیٰ) کے بندے اور رسول ہیں۔
س: اللہ تعالیٰ کون ہے؟
ج:اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جس نے ہمیں پیدا کیا جو ہمیں رزق دیتا ہے۔جو تمام چیزوں کا مالک ہے۔جو پوری کائنات کا خالق ہے۔اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفات ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کو پہچانا جا سکتا ہے۔
س:اللہ تعالیٰ کو آپ نے کیسے پہچانا؟
ج:دن رات کا آنا جانا۔سورج کا طلوع و غروب ہونا۔سردیوں گرمیوں کا آنا جانا۔ہواؤں کاچلنا۔بارش کا برسنا۔اس دنیا میں بہت سی نشانیاں ہیں جن سے انسان اللہ تعالیٰ کو پہچان سکتا ہے۔
س: ایمان مجمل کسے کہتے ہیں؟
ج: امنت باللہ۔کہ میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا۔
س: ایمان مفصل کسے کہتے ہیں؟
ج: امنت باللہ وملائکتہ و کتبہ ورسلہ والیوم الاخر والقدر خیرہ و شرہ والبعث بعد الموت۔
میں ایمان لایا اللہ تعالیٰ پر،اس کے فرشتوں ،اس کی کتابوں پر،اس کے رسولوں پر،آخرت کے دن پر۔تقدیر اچھی اور بُری پر اور مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے پر۔
س: ایمان بالغیب کا کیا معنی ہے؟
ج:وہ چیزیں جن کو کوئی شخص نہیں دیکھ سکتااللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ کے کہنے پر ان پر ایمان لانا ایمان بالغیب کہلاتا ہے۔
س: الہ کا معنی کیا ہے؟
ج: الہ اس کو کہتے ہیں جو معبود ہو۔
س: ہمارا الہ کون ہے؟
ج: ہمارا الہ اللہ تعالیٰ ہے۔
----------------------
اوپر کے سوال میں "الہٰ" کا معنی صرف معبود کیا گیا۔ کسی کا کہنا ہے کہ یہاں معبود برحق ہونا چاہیے۔
ہم نے کہا کہ یہاں لغوی معنی مراد ہے جبکہ اصطلاحی معنی "برحق" کے ساتھ کلمہ کے ترجمہ میں موجود ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ غلطی علماء سے بھی ہوسکتی ہے، چونکہ یہاں عنوان دیا گیا "اللہ تعالیٰ" تو یہاں معبود برحق ہی ہونا چاہیے۔
اہل علم سے وضاحت مطلوب ہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
اہل علم سے وضاحت مطلوب ہے۔
اہل علم کا جواب آنے تک آپ درج ذیل تحریر ملاحظہ فرمائیں :

وأما تفسير لا إله إلا الله : لا معبود إلا الله فهذا غير صحيح لأنه يتضمن خطأ عقدياً ونحوياً
عقدياً :
لأنه يوهم أنكل معبود عبد في الوجود هو الله وهذه عقيدة الحلولية.
وأيضاً يوهم أنه ليس هناك معبودعبد في الوجود إلا الله ، وهذا باطل فهناك معبودات عبدت في الوجود كالشمسوالقمر والجن والبشر والقبر والوثن...فهذا خلاف الواقع.
نحوياً :
فإن لا النافية للجنس كثيراً ما يحذف خبرهاكما قرره ابن مالك في الألفية ، وقدره العلماء (حق) فيكون معنى لا اله إلاالله
أي لا معبود(حق)إلا اللهوالدليل قوله تعالى(ذلك بأن الله هو الحق وان مايعبدون من دونه هوالباطل)
قال الشيخ صالح آل الشيخ في شرح الطحاوية:
"كلمة التوحيد (لا إله إلا الله) ما معناها؟
معناها: لا معبود حق إلا الله - عز وجل -.
وكما هو معلوم الخبر في قوله (لا)، خبر (لا) النافية للجنس محذوف (لا إله)، ثم قال (إلا الله).
وحذف الخبر؛ خبر (لا) النافية للجنس شائع كثير في لغة العرب كقول النبي - صلى الله عليه وسلم - (لا عدوى، ولا طيرة، ولا هامة، ولا صفر، ولا نوء، ولا غول)(1) فالخبر كله محذوف.
وخبر (لا) النافية للجنس يحذف كثيرا وبشيوع إذا كان معلوما لدى السامع، كما قال ابن مالك في الألفية في البيت المشهور: وشاع في ذا الباب -يعني باب لا النافية للجنس:
وشاع في ذا الباب إسقاط ****** الخبر إذا المراد مع سقوطه ظهر
فإذا ظهر المراد مع السقوط جاز الإسقاط.
وسبب الإسقاط؛ إسقاط كلمة (حق)، (لا إله حق إلا الله) أن المشركين لم ينازعوا في وجود إله مع الله - عز وجل -، وإنما نازعوا في أحقية الله - عز وجل - بالعبادة دون غيره، وأن غيره لا يستحق العبادة.


https://majles.alukah.net/t84483/
 
Last edited:

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
@اسحاق سلفی بھائی!
اردو ترجمہ بھی پیش کردیتے تاکہ عربی زبان سے ناواقف ارکان کی معلومات میں بھی اضافہ ہو سکے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
بسم اللہ الرحمن الرحيم
کلمہ ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ کي تفسير و معني يہ کرنا کہ : کوئي معبود نہيں ،سوائے اللہ کے ‘‘
تو يہ صحيح نہيں،کيونکہ يہ معني عقيدہ کے لحاظ سے ايک غلطي اور قواعد نحو کي ايک خطا کو متضمن ہے ،
(۱) عقيدہ کے لحاظ سے اس تفسير ميں يہ خطا پائی جاتی ہے کہ :
ان الفاظ سے يہ وہم ہوتا ہے کہ عالم وجود ميں جس جس کي عبادت کی جاتی ہے ،وہ اللہ ہی ہے
(يعنی محض مظاہر کا اختلاف ہے ، حقيقت ميں وہ ’’ اللہ ‘‘ ہي ہيں ) اور يہ حلوليہ (جو اللہ کا مخلوق ميں حلول مانتے ہيں ) ان کا عقيدہ ہے ؛
(۲) اس سے يہ وہم بھي جنم ليتا ہے کہ کائنات ميں في الواقع اللہ کے سوا کسي کي عبادت ہي نہيں کي جاتي ،سب ايک اللہ کي عبادت ہي کرتے ہيں ،جو خلاف واقعہ ہے
کيونکہ عالم وجود ميں کتني ہي چيزوں کي عبادت کي جارہي ہے ،شمس و قمر ۔۔ جن و انس۔۔قبر و وثن وغيرہ کو لوگ پوجتے ہيں ،اس لئے اس معنی و تفسير ميں عقيدے کي يہ خرابي بھي پائي جاتي ہے۔
(۲) نحوي خطا ؛
نحوي خطا اس ميں يوں ہے کہ :کلمہ ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ ميں جو ’‘ لا ’‘ ہے ،وہ نفي جنس
کا ہے ،اور نفي جنس کے ’‘ لا ’‘ کي خبر اکثر محذوف ہوتي ہے ،جيسا علامہ ابن مالک نے ’‘ الفيہ ’‘ ميں بتايا ہے ،اور علماء نے کلمہ ’’ لا الہ ۔۔ کي خبر ’‘ حق ’‘ ماني ہے ،
جس کے مطابق ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘کا معني کيا جائے گا ’’ أي لا معبود(حق)إلا الله ‘‘
يعني کوئي معبود برحق نہيں ،سوائے اللہ کے ۔۔
اسکي دليل يہ ہے کہ :قرآن مجيد ميں اللہ تعالیٰ کا فرمانا ہے :
(ذلك بأن الله هو الحق وان مايعبدون من دونه هوالباطل)يعني اللہ ہي معبود برحق ہے ،اور باقي جنکي عبادت کي جاتي ہے وہ سرا سر معبود باطل ہيں ،
(يعني لوگ بہت سارے معبودوں کي عبادت کرتے ہيں ،تاہم وہ معبودان باطل ہيں ،حقيقي معبود صرف ايک اللہ ہے )

اور حذف خبر کا يہ طريقہ لغت عرب ميں عام پايا جاتا ہے ،جيسا حديث نبوي ہے:
(لا عدوى، ولا طيرة، ولا هامة، ولا صفر، ولا نوء، ولا غول) کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا کہ نہيں کچھ ‘چھوت لگنا، بدشگوني لينا، الو کا منحوس ہونا اور صفر کا منحوس ہونا اور ستاروں سے بارش کا تعلق ، ‘‘

فالخبر كله محذوف ‘‘يہاں ان سب کي خبر محذوف ہے۔اور تقديراً يہ ہے کہ يہ اشياء في نفسہ ،طبعاً کوئي ايسي تاثير نہيں رکھتتيں جيسي لوگ مانتے ہيں
( تقديره: مؤثِّرة بطبعها وذاتها،)

اور کلمہ ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ ميں خبر کو اس لئے ساقط کيا کہ مشرکين اللہ کے ساتھ کسي دوسرے معبود کے وجود پر نزاع جھگڑا تو نہيں کر رہے تھے ،

ان کا جھگڑا اور لڑائي تو صرف اللہ کے معبود برحق ہونے پر تھي،کہ عبادت صرف اسی کا حق ہے ،اور اس کے غير کسی عبادت کے مستحق نہيں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیز اس پورے جملہ میں 'لا' کی مخذوف خبر ( اور وہ حق کا کلمہ ہے) مقدر ماننے سے ہمارے لیۓ درج ذیل اشکال کا جواب واضح ہو جاتا ہے:
(اور اشکال یہ ہے): کہ یہ کہنا کیسے ممکن اور صحیح ہے (لا الہ الا اللہ) کہ اللہ کے سوا کوئ معبود نہیں"
جب کہ یہاں دنیا میں (بے شمار) معبودان ایسے موجود ہیں جن کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے اور جن کا نام خود اللہ تعالی نے قران حکیم میں 'آلهة'(معبود ) رکھا اور ان کو پوجنے والے بھی اسی نام سے پکارتے ہیں اور اس کی تائید میں اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے : )
فَمَا أَغْنَتْ عَنْهُمْ آلِهَتُهُمُ الَّتِي يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ لَمَّا جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ)(هود:الآية101)
" اور جب تیرے رب کا حکم آگيا تو ان کے وہ معبود، جنہیں وہ اللہ کو چھوڑ کے پکارا کرتے تھے، ان کے کچھ بھی کام نہ آسکے۔"
اور یہ کیونکر ممکن ہے کہ ہم 'الوہیت' (عبودیت) کو اللہ عزوجل کے علاوہ کسی اور کے لئے ثابت کریں، جب کہ اللہ تعالی کے پیغمبر علیہم السلام اپنی اقوام کو یہ کہتے رہے ہیں :
(اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ )(الأعراف:الآية59) "
ایک اللہ کی عبادت کرو، تمہارے لئے اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں"
( تو آیت ھذا میں اللہ کے پیغمبر علیہ السلام نے بھی غیر اللہ کو 'الہ' معبود۔کے نام سے ذکر کیا ہے) تو اس اشکال کا جواب ( جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں) کہ جملہ لا الہ الا اللہ میں۔ لا نافیہ ۔کی خبر مقدر ماننے سے واضح ہو جاتا ہے تو ہم جواب میں یہ کہیں گے ( لا الہ حق الا اللہ) کہ " ایک اللہ کے سوا معبود برحق کوئ نہیں" اور بقیہ جتنے معبودان ہیں، جن کی اللہ کے سوا پوجا کی جاتی ہے، وہ آلهة ۔معبودان تو ہیں، مگر سب خود ساختہ، باطل ( یعنی جھوٹے طاغوت) ہیں اور نہ ہی الوہیت میں سے کچھ ان کے لئے ہوسکتا ہے، اور اس بات کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے
ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْبَاطِلُ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ) (الحج:62)
" یہ اس لیئے کہ اللہ تعالی ہی 'حق' ذات ہے اور اللہ کے سوا جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں، وہ سب کچھ باطل ہے اور اللہ ہی عالی شان اور کبریائ والا ہے۔"
نیز اس بات کی حقیقت پر اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی دلالت کرتا ہے
(أَفَرَأَيْتُمُ اللاتَ وَالْعُزَّى * وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الأُخْرَى * أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الأُنْثَى * تِلْكَ إِذاً قِسْمَةٌ ضِيزَى * إِنْ هِيَ إِلا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الأَنْفُسُ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مِنْ رَبِّهِمُ الْهُدَى)
(النجم:19-23) " کیا بھلا تم نے لات و عزی (دیویوں) پر بھی غور کیا؟ اور ایک تیسری (دیوی) منات پر بھی؟ کیا تمہارے لیۓ تو لڑکے ہوں اور اس (اللہ عزوجل) کے لیۓ لڑکیاں؟ یہ تو بڑی بھونڈی تقسیم ہے، یہ تو بس ایسے نام ہیں، جو تم نے اور تمہارے آبا و اجداد نے رکھ لیۓ ہیں، ( ان ناموں کے علاوہ ان کی کوئ حقیقت نہیں) اللہ تعالی نے ان کے لیۓ کوئ دلیل نہیں اتاری، یہ (مشرک) لوگ محض ظن (گمان) کی پیروی کر رہے ہیں یا پھر اس چیز کی جو ان کے دل چاہتے ہوں (یعنی خواہشات نفس کے پجاری ہیں) حالانکہ ان کے پاس ان کے پرودگار کی طرف سے ہدایت پہنچ چکی کے۔"

اللہ تعالی کا حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں یہ ارشاد بھی اس کی تائید کرتا ہے
مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ )(يوسف:الآية40)
" اس ( اللہ عزوجل) کو چھوڑ کر تم جن (بتوں) کی پوجا کر رہے ہو، کہ ہو اس کے سوا کچھ نہیں ہیں، کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے رکھ لیۓ ہیں، اللہ تعالی نے ان کے حق میں کوئ سند ( دلیل وغیرہ) نہیں اتاری۔"

تب مذکورہ بحث کی رو سے لا الہ اللہ اللہ کا معنی یہ ہوگآ " اللہ عزو جل کے سوا حق کے ساتھ کوئ اور معبود نہیں اور جو اس دنیا میں اللہ کے سوا ' معبودان' پائے جاتے ہیں، توان کی ان کی ناموں کے سوا کوئ حقیقت نہیں اور نام بھی ان کے صرف ان کے پجاریوں نے رکھ چھوڑے ہیں، تو اس طرح سے ان کی الوہیت (عبودیت کا وصف) جس کا ان کے پجاری دعوی کرنے ہیں ، حقیقت پر مبنی نہیں بلکہ اس کے برعکس جھوٹ اور باطل ہے۔
 
Last edited:

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ کا یہ ترجمہ کیسا ہے ؟
اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ کا یہ ترجمہ کیسا ہے ؟
اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں
صحیح ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اسی طرح ۔۔۔اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ۔۔ بھی صحیح ہے ؛
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
abc.GIF


بشکریہ ہفت روزہ اخبار جہاں، کراچی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
لا الٰہ الا اللہ

حامد کمال الدین

کلمۂ لا الٰہ الا اللہ میں لفظِ ”الٰہ“ کی خاص دلالت کیا ہے؟
نفی واثبات کے مسئلہ کے بعد دوسری اہم بات خود مسئلۂ الوہیت ہے....

یہ ذہن نشین ہونا ضروری ہے کہ اس کلمہ کے اندر اہل توحید اور اہل شرک کے مابین مسئلۂ باعثِ نزاع ’الوہیت‘ ہے نہ کہ ’ربوبیت‘۔ ہر آدمی دیکھ سکتا ہے کلمہ میں ”لا الٰہ“ کے لفظ آتے ہیں نہ کہ ”لا رب“ کے لفظ، یعنی غیر اللہ سے ”الٰہ“ ہونے کی نفی ہی اس کلمہ میں فرض ٹھہرا دی گئی ہے (غیر اللہ سے ”الوہیت“ کی نفی ہو تو غیر اللہ سے ”ربوبیت“ کی نفی آپ سے آپ ہو جاتی ہے)۔ ”ربوبیت“ کا مطلب ہے خدائی طاقتوں کا مالک ہونا اور ”الوہیت“ کا مطلب ہے افعالِ بندگی کا حقدار ہونا۔ یوں لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کہتے ہوئے آدمی کو غیر اللہ سے ”الوہیت“ ہی کی نفی کرنا ہوتی ہے۔ ”الٰہ“ کا مطلب ہے ”لائقِ عبادت ہونا“ جبکہ ”عبادت“ ہے کسی ذات کو پوجنا، اس کو سجدہ و رکوع کرنا، اس سے دعاءو فریاد کرنا، اس کے در کا طواف کرنا، اس کے آگے نیاز بجا لانا اور اس کے فرمائے کو دستور جاننا، وغیرہ۔ بنا بریں.... غیر اللہ کیلئے عبادت کے جتنے مظاہر پائے جاتے ہیں ان سب کی نفی کر دینے کے بعد ہی ”لا الٰہ“ کا معنیٰ متحقق ہوتا ہے، جو کہ ”الا اللہ“ سے پہلے ہے۔ جس ہستی کیلئے آدمی سے پرستش کے افعال سرزد ہوں وہ ہستی اس کا ”الٰہ“ ہوتی ہے خواہ اُس میں تخلیق کی قدرت اُس نے مانی یا نہیں مانی۔ آدمی اپنے ان افعال سے جو ”بندگی“ کے زمرے میں آتے ہوں کسی بھی ہستی کو اپنا ”الٰہ“ بنا لیتا ہے چاہے اُس ہستی میں خدائی طاقتیں اور خدائی افعال کی صلاحیت (یعنی ربوبیت) اس نے تسلیم کی یا نہیں کی۔

اور یہ تو اظہر من الشمس ہے، اور خود ”کلمہ“ کے لفظ ہی شاہد ہیں کہ کلمہ کو ماننے اور نہ ماننے والوں کے مابین جھگڑا ”الوہیت“ کا رہا ہے؛ نفی بھی غیر اللہ کے لائقِ عبادت ہونے کی رہی ہے اور تنازعہ بھی غیر اللہ کی پرستش اور بندگی کا ہی رہا ہے۔

سب جانتے ہیں لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ ہر نبی کی دعوت کا عنوان رہا ہے۔ گویا کرۂ ارض پر رہنے والا ہر انسان ہر زمانے میں اس کلمہ پر ایمان لانے اور اس کو اپنے وجود کا عنوان بنانے کا پابند رہا ہے۔ اگر ایسا ہے تو ضرور اس کلمہ کا ایک ایک لفظ پھر غور طلب ہے۔ اور یہ گنتی کے چار ہی تو لفظ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اللہ کے حق کا اثبات اور غیر اللہ کے حق کا انکار کرانا اس کلمہ کا مقصد تھا __ اور یقینا تھا اور ہے __ تو اس کیلئے یہاں لفظ ’الٰہ‘ کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا اور اسی کو دوسرے ہر لفظ کی نسبت موزوں تر کیوں جانا گیا؟ خالق، مالک، رازق، رب .... اور بھی تو کتنے الفاظ ہیں جو صرف اللہ وحدہ لاشریک کیلئے ہی درحقیقت سزاوار ہیں۔ کلمہ میں ’خالق‘، ’مالک‘، ’رازق‘ یا ’رب‘ ایسے لفظ بھی تو ’الٰہ‘ کی جگہ استعمال ہو سکتے تھے، مگر انبیاءنے جن چار مختصر ترین الفاظ میں اپنا پورا مُدعا بیان کیا ان میں لفظ ’الٰہ‘ کی کیا خاص اہمیت اور معنویت ہے؟(1)

اس قدر واضح ہونے کے باوجود کہ انبیاءاور ان کے مخالفین کے مابین تنازعہ دراصل عبادت اور الوہیت کا تھا لوگوں نے لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کے مفہوم میں بھی زیادہ تر ربوبیت ہی بیان کی نہ کہ الوہیت!

یہ بات کہ سب کچھ کرنے والا خدا ہے ربوبیت ہے نہ کہ الوہیت۔ خدا سے سب کچھ ہونے کا یقین خدا کو ’تنہا رب‘ ماننا ہے جو بلاشبہ اور حددرجہ مطلوب ہے۔ البتہ خدا کو ’تنہاالٰہ‘ ماننا اس سے بڑھ کر کچھ ہے۔ ’خدا کے علاوہ کوئی کچھ کرنے والا نہیں‘ .... یہ توحیدِ ربوبیت ہے۔ توحیدِ الوہیت یہ ہے کہ خدا کے علاوہ کوئی پوجا وپرستش اور بندگی و انقیاد کے لائق نہیں اور یہ کہ پرستش اور بندگی کا کوئی فعل اگر کسی اور کیلئے روا رکھا جاتا ہے تو وہ سراسر غلط اور باطل ہے اور یہ کہ بندگی و عبادت مثلاً دُعا والتجا، ذبیحہ وطواف، نیاز وانقیاد اور اطاعتِ قانون صرف اور صرف اللہ وحدہ لاشریک ہی کیلئے لائق ولازم ہے۔

الوہیت میں ربوبیت خودبخود آجاتی ہے۔ ربوبیت پر ایمان پختہ کرانے پر بھی بہت محنت ہونی چاہیے۔ مگر اسلام کا عنوان مسئلۂ الوہیت ہی کو رہنا ہے کیونکہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کے اندر باعثِ نزاع در اصل مسئلۂ توحیدِ الوہیت ہی کو ٹھہرایا گیا ہے۔

ربوبیت کا بیان قرآن میں بھی بہت ہوا ہے مگر یہ بھی دراصل الوہیت کے مسئلہ کو پختہ کرنے کیلئے ہے۔ چنانچہ قرآن نے ربوبیت پر ایمان کے معتبر ہونے کو توحیدِ الوہیت پر ہی موقوف رکھا اور ربوبیت کے مکرر و مؤثر بیان سے دراصل بندگی اور پرستش کی توحید ہی کو بار بار ثابت کیا۔ قرآن میں آپ دیکھتے ہیں خدا کی قدرتوں کا ذکر ہمیشہ بندگی ونیاز میں اس کی توحید منوانے پر ہی جا کر ختم ہوتا ہے۔ جنت اور جہنم کے تذکرے توحیدِ عبادت کے ساتھ ہی جڑے ہوئے ملتے ہیں۔

چنانچہ ربوبیت (یعنی خدا سے سب کچھ ہونے کا یقین ہونا) اگرچہ بنیاد ہے الوہیت (خدا کا تنہا اور بلا شرکت غیرے عبادت کے لائق ہونا) کی اور اس کو قرآن باقاعدہ انداز میں پختہ بھی ضرور کرتا ہے پھر بھی بات ہمیشہ توحیدِ عبادت پر ہی لے جا کر ختم کرتا ہے۔ بلکہ بات شروع بھی توحید عبادت سے کرتا ہے اور ختم بھی اسی پر کرتا ہے، ربوبیت کو توحیدِ عبادت کی دلیل کے طور پر درمیان میں لاتا ہے۔ چنانچہ ربوبیت (خدا کی قدرت اور فاعلیت) کا جتنا بھی بیان قرآن میں آپ دیکھتے ہیں وہ توحیدِ بندگی کی دلیل اور بنیاد کے طور پر ہی دیکھتے ہیں اور گو مسئلۂ ربوبیت (خدا کی قدرت اور فاعلیت) قرآن کا ایک بڑا موضوع ہے مگر قرآن میں اس کی حیثیت ہے بہرحال فریقین (انبیاءاور ان کے مخالفین) کے مابین ایک طے شدہ مسئلہ کی .... جس کو قرآن ایک طرف مزید پختہ کرتا ہے تو دوسری طرف اِس سے عین اُس مسئلہ کو ثابت کرتا اور منواتا ہے جو فریقین کے مابین سرے سے باعث نزاع ہے یعنی توحیدِ عبادت۔

بنا بریں الوہیت اگر ربوبیت پر سہارا کرتی بھی ہے، تو بھی الوہیت ہی اسلام کا واجہہ Face اور اسلام کا دروازہ رہے گا کیونکہ کلمۂلَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی بنیاد اسی لفظ (الٰہ) کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ لہٰذا لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی تعلیم اور اس کی تفہیم وتوضیح میں اصل زور مسئلہ الوہیت پر ہی دیا جائے گا نہ کہ مسئلہ ربوبیت پر۔

آدمی کے ”اسلام“ میں داخل مانا جانے کی بنیاد ”ربوبیت“ (یعنی خدا سے سب کچھ ہونے کا یقین) نہیں بلکہ ”الوہیت“ (یعنی خدا کے سوا کسی کی بندگی اور پرستش نہیں) ہی رہے گا۔ ”نہیں کوئی عبادت کے لائق مگر اللہ“ ہی ”اسلام“ کا دروازہ رہے گا۔ آدمی ”اسلام“ میں داخل ہو گا تو اِس سے گزر کر داخل ہو گا۔ ”اسلام“ سے خارج ہو گا تو اِس سے نکلنے کے باعث خارج ہو گا۔ ”ربوبیت“ (یعنی خدا کی قدرت اور فاعلیت) پر بے شک آدمی کا ایمان ہو، مگر ”الوہیت“ (یعنی لائقِ بندگی و پرستش ہونے) میں غیر اللہ کے حق کا انکار کر کے اگر وہ نہیں آیا تو اُس کا ”اسلام“ لانا غیر معتبر ہی رہے گا۔ ”الوہیت“ (یعنی بندگی اور پرستش) میں اُس نے خدا کے ساتھ کسی کو شریک کر دیا ہے تو ”ربوبیت“ (یعنی قدرت اور فاعلیت) میں خدا کی وحدانیت کا وہ بے شک قائل رہے، ”اسلام“ کے احاطہ سے وہ یقینا نکل جاتا ہے۔ پس یہیں سے آپ ”اسلام“ میں آتے ہیں اور یہیں سے ”اسلام“ سے نکلتے ہیں۔ ”کلمہ“ میں لفظِ ”الٰہ“ کا مذکور کر دیا جانا اور اسی چیز کو ہر رسالت کا عنوان ٹھہرا دیا جانا یہی مفہوم رکھتا ہے۔ ورنہ ”الٰہ“ کے سوا اور کتنے ہی لفظ ہیں جو اگر اس کلمہ میں بولے جاتے تو ان سے بھی خدا کی وحدانیت ہی ثابت ہوتی۔

اصل غور طلب بات یہی ہے کہ ”لا“ کے متصل بعد لفظِ ”الٰہ“ بول کر خدا کی وحدانیت کا کونسا پہلو مراد لیا گیا ہے جو کہ انبیاءاور ان کی قوموں کے مابین اصل باعثِ نزاع مسئلہ رہا ہے اور جس پر داعیانِ اسلام کا پورا زور صرف کرا دیا جانا سب سے زیادہ ضروری رہا اور ہر رسالت ہر نبوت کے اندر ضروری رہا اور جس کو ”اسلام“ کا اصل پھاٹک بنا کر رکھا گیا اور قیامت تک اِس کی یہی حیثیت رہے گی۔ خدا کی وحدانیت کا یہ خاص پہلو (الوہیت) جو کہ رسولوں اور ان کے مخالفوں کے مابین اصل وجہِ نزاع رہا.. خدا کی وحدانیت کے اِس خاص پہلو سے صرفِ نظر کر رکھنا توحید کا ایک ناقص مفہوم ہوگا خواہ ’خدا کی فاعلیت‘ اور ’خدا سے سب کچھ ہونے کے یقین‘ پر کتنی ہی بات کر لی جائے۔ پس یہ توحید کا ایک ناقص مفہوم ہے، کجا یہ کہ ’کلمہ‘ کا معنیٰ ہی اِس ناقص مفہوم میں محصور کر دیا جائے اور جب بھی ’کلمہ‘ کا بیان شروع ہو بس یہی ناقص مفہوم بیان کر کر کے امت کو دیا جاتا رہے اور ’کلمہ‘ پر جتنی بھی محنت ہو بس اِسی ناقص مفہوم پر کرائی جاتی رہے۔ پس کلمۂ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ میں لفظِ ”الٰہ“ کی معنویت کو جاننا اور اس پر غور کرنا کہ کیوں خاص یہی لفظ کلمہ میں استعمال ہوا اور خدا کی وحدانیت کا اعلان کرواتے وقت کیوں خاص یہی لفظ ہر رسالت کے عنوان کا جزوِ لا ینفک بنا، نہایت اہم ہے۔

منہجِ انبیاءکو سمجھنے کیلئے یہ بات ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔

بسا اوقات یہاں ایک شبہ بھی اذہان میں آتا ہے اور وہ یہ کہ:

جب ہم مانتے ہیں کہ خدا کی الوہیت کو منوانا خدا کی ربوبیت کے مسلَّم ہونے پر ہی سہارا کرتا ہے اور یہ کہ انبیاءنے اپنی قوموں کے ساتھ اس مسلَّمہ کو بنیاد بناتے ہوئے کہ پیدا کرنے اور مارنے اور جلانے والا اور سب قوتوں کا مالک جب اللہ ہے (توحیدِ ربوبیت)، یہی تنازعہ اٹھایا کہ ”پھر پرستش اور پوجا اور بندگی اور اطاعت بھی صرف ایک اُسی کی ہو گی“ (توحیدِ الوہیت).... یوں ’ربوبیت‘ کو ’الوہیت‘ کی بنیاد بنایا.. تو اصل زور پھر ربوبیت پر ہی دیا جانا چاہیے!

تو اس کا جواب یہ ہے کہ:

ربوبیت پر زور دینے کی بلاشبہ ضرورت ہے اور مخاطبین کی ضرورت کے بقدر اس پر بھی ضرور محنت ہونی چاہیے مگر یہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کا ایک ”مقدمہ“ ہوگا نہ کہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کا ”مطلب اورمفہوم“۔ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کا مطلب اور مفہوم بہرحال یہی ہے کہ اللہ کے سوا ہر ہستی کو پوجنا باطل ہے اور بندگی صرف اللہ وحدہ لاشریک کیلئے واجب ہے۔

”مقدمہ“ (یعنی توحیدِ ربوبیت) کا بیان خواہ آپ کتنا ہی طویل کر لیں، ”اصل مدعا“ پر آئے بغیر بہر حال مفر نہیں۔ اور یہ ”اصل مدعا“ یہی ہے کہ اللہ کے سوا ہر کسی کی پرستش باطل ہے اور بندگی ایک اللہ کی ہے، یعنی ”توحیدِ الوہیت“۔

مزید دیکھئے۔ الوہیت اگر ربوبیت پر سہارا کرتی ہے تو ربوبیت خدا کے وجود (یعنی خدا کو موجود ماننے) پر سہارا کرتی ہے۔ تو پھر کیا خدا کے موجود ہونے کا بیان خدا کے رب ہونے کے بیان سے کفایت کرے گا؟ اب جس طرح خدا کے رب ہونے میں خدا کا موجود ہونا خودبخود آجاتا ہے اسی طرح خدا کے الٰہ ہونے میں خدا کا رب ہونا خودبخود آجاتا ہے۔ یقینا کچھ مخاطبین کیلئے خدا کے وجود پر بھی بہت کچھ بات کرنے کی ضرورت پائی جا سکتی ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا کے وجود کا بیان خدا کی ربوبیت کے بیان سے کفایت کر جائے گا۔

بعینہ اسی طرح خدا کی ربوبیت (یعنی خدا کے فاعل حقیقی ہونے) کا بیان بھی اشد ضروری ہے مگر یہ توحیدِ الوہیت (توحیدِ عبادت و پرستش) کے بیان سے کفایت نہیں کرتا خصوصاً اسے کلمۂ توحید (لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ) کی تفسیر تو ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔

غرض خدا کی ذات (وجودِ باری تعالیٰ) کا اثبات اور خدا کی ربوبیت (خدا سے سب کچھ ہونے کا یقین) کا بیان ایک تمہید ہے اس بات کیلئے کہ پورا زور خدا کے واحد اور تنہا اور بلاشرکت غیرے لائق بندگی ہونے پر دے دیا جائے اور عبادت وپرستش کے معاملے میںنفی اور اثبات کی وہ ترتیب جو لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ میں بیان ہوئی (یعنی نفی کا لازماً اثبات سے پہلے لایا جانا) جلی سے جلی تر کر دیا جائے۔

یہ دو باتیں (نفی کا اثبات پر مقدم ہونا، اور خاص لفظ الٰہ کا ہی کلمہ میں استعمال ہونا) داعیوں کیلئے نہایت اہم ہیں۔ لوگوں کو ”کلمہ کا علم“ دلواتے ہوئے (جوکہ کلمہ کی شرطِ اول ہے) یہ دونوں باتیں داعیوں اور مربیوں کے مد نظر رہنا آج بے حد ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top