• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الیکشن کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
سوال: الیکشن کی شرعی حیثیت کیا ہے، جماعتی اختلافات ختم کرنے کے لیے الیکشن یا انتخاب کا شرعی طریقہ کیا ہے، کیا الیکشن کمیشن میں سے بعض حضرات کابینہ کے ارکان منتخب ہو سکتے ہیں؟ قرآن وحدیث کے مطابق جواب دیں۔
جواب: واضح رہے کہ موجودہ الیکشن جمہوریت کی پیداوار ہیں ہاں، اگر سنجیدہ فکر اور درد دل رکھنے والے حضرات باہمی سر جوڑ کر بیٹھیں اور ہچکولے کھانے والی ناؤ کو ساحل سمندر سے ہم کنار کرنے کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کریں تو اسلام میں اس کی گنجائش موجود ہے کیونکہ اس میں سربراہ مملکت کے انتخاب کے لیے کوئی لگا بندھا قاعدہ مقرر نہیں ہے، بلکہ حالات وظروف کے پیش نظر اس میں توسیع کو برقرار رکھا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں تو امیدوار کی اہلیت کو دیکھا جاتا ہے اور ووٹر حضرات کے صاحب شعور ہونے کا خیال رکھا جاتا ہے۔ بلکہ دولت کے بل بوتے، دھونس دھاندلی کے ذریعے جو چاہتا ہے عوام کا نمائندہ بن کر سامنے آ دھمکتا ہے، اس سے جو نتائج برآمد ہوتے ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں، یعنی گلی کوچوں کا کوڑا کرکٹ اسمبلی میں پہنچ جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک اگر الیکشن کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہ ہو تو امیدوار کم ازکم ایسا ہونا چاہیے جو فرائض کا پابند ہو، کبائر سے گریزاں اور جس کا ماضی داغ دار نہ ہو، اسی طرح ووٹر کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ صاحب شعور اور کھرے کھوٹے کی تمیز کر سکتا ہو۔ کسی کو نمایندہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے متعلق اس قدر لیاقت، معاملات کو سلجھانے اور اختلافات کو نمٹانے کی صلاحیت کرھنے کی گواہی دینا ہے۔ اس لیے گواہی دینےوالے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھے برے کے درمیان تمیز کر سکتا ہو اور امیدوار کے کردار کو اچھی طرح جانتا ہو اگر ان باتوں کا خیال نہ رکھا گیا تو فرمان رسول ﷺ کے مطابق کہ ’’جب معاملات کی بھاگ دوڑ نالائقوں کے سپرد کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔‘‘
صورت مسؤلہ میں اختلافات کو نمٹانے کے لیے ضروری ہے کہ صاحب بصیرت اور گہری سوچ وبچار رکھنے والے حضرات اکٹھے ہو کر کسی ایک جہاں دیدہ کو اپنا امیر منتخب کر لیں اور امیر اپنی صوابدید کے مطابق کمیٹی تشکیل دے اور پھر اس مجلس شوریٰ کے مشورہ سے جماعتی امور کو چلایا جائے، اگر کمیشن نے اپنےمیں سے ہی کسی کو منتخب کرنا ہے اور یہ بات پہلے سے طے شدہ ہے تو کمیشن میں سے کسی کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی کہ ان میں کسی کو باہمی مشورہ سے منتخب کر لیا جائے۔ اگر پہلے سے طے شدہ نہیں ہے تو پھر کمیشن کے علاوہ کسی اور ساتھی کو اس ذمہ داری کا اہل قرار دیا جائے۔ بہر حال دور حاضر میں یہ مسئلہ بڑی نازک صورت حال سے دوچار ہے، اس لیے نہایت بصیؤرت کے ساتھ اس سے نمٹنا ہو گا۔ و اللہ اعلم
(انتخاب فتاویٰ اصحاب الحدیث از مولانا مفتی حافظ عبد الستار حماد حفظہ اللہ)
 
شمولیت
مارچ 03، 2013
پیغامات
255
ری ایکشن اسکور
470
پوائنٹ
77
(یہ میری ذاتی سوچ ہے پڑھنے والے کا اس سے متفق ہونا کسی بھی صورت میں ضروری نہیں ہے)
پاکستان میں ۴۵ فیصد لوگ ووٹ دیتے ہیں اور ۵۵ فیصد ووٹ نہیں دیتے۔ اُن ۵۵ فیصد میں اکثریت خواتین کی ہے اور باقی بچ جانے والے مرد حضرات جمہوری نظام کو کفر سمجھتے ہیں۔ لیکن جمہوری نظام اپنی تمام تر قباحتوں کے ساتھ رائج بھی ہے اور اسے کفر سمجھنے والے کسی نہ کسی طرح اس کا حصہ بھی بن جاتے ہیں۔ اگر یہ جمہوری نظام کفر ہے تو اس کفریہ نظام کے تحت چلنے والے مُلک میں ہم "نہی عن المنکر" کا نعرہ صرف دل میں کیوں لگاتے ہیں؟ اگر جہاد ہی اسلامی نظام کے نفاذ کا راستہ ہے تو باقاعدہ منظم طریقے سے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر اس کفریہ نظام کے خلاف اعلان جہاد کیوں نہیں کیا جاتا؟ اپنی قلیل تعداد کو مد نظر رکھ کر یا کم طاقت کا سوچ کر یا وسائل کی کمی دیکھ کر جہاد سے تو پیچھے نہیں ہوا جا سکتا کیوں کہ اگر مر گئے تو شہید زندہ رہے تو غازی۔ ۱۹۴۷ سے لے کر اب تک اس ملک میں یا تو جمہوری نظام رہا ہے یا آمرانہ نظام۔ اسلامی نظام اتنے سالوں میں نافذ کیوں نہیں ہو سکا؟ کیا ۱۹۴۷ میں ہمارے اباء و اجداد میں جذبہ جہاد نہیں تھا یا اس تمام عرصے میں علماء دین کفریہ جمہوری نظام کے خلاف جہاد کی جانب ہماری راہنمائی نہ کر سکے؟ کیا کوئی ایک جہادی گروپ ایسا ہے جو پاکستان میں حقیقی معنوں میں اسلامی نظام کے لیے جد و جہد کر رہا ہو؟ سب کے اپنے مفادات ہیں۔ کوئی ایک بھی جہادی تنظیم ایسی نہیں ہے جس کے سربراہان کا رابطہ مُلکی یا غیر مُلکی خفیہ اداروں سے نہ ہو۔ پھر اسلامی نظام کے لیے جہاد کون کرے گا؟ آج اگر کسی ایک مرد حق کو اپنا امیر مان کر کوئی گروہ جہاد شروع کرتا ہے تو فوج سے پہلے اس گروہ کو اپنے ہی پاکستانی مسلمان کفر کے فتوے لگا لگا کر مار دیں گے۔ اور کون سا اسلامی نظام؟ سُنی نظام ، شیعہ نظام، دیوبندی نظام یا وہابی نظام؟ انتہائی معذرت کے ساتھ کہ جب ہم خود اپنی ذات یا اپنے مسلک کے علاوہ کسی اور کو مسلمان ہی نہیں مانتے تو ایسے میں جہاد کے لیے اگر کوئی ہمارے ساتھ آ بھی گیا تو پہلے اُس کا مسلمانی آپریشن ہوگا۔ اگر آپریشن کا سن کر بھاگ گیا تو منافق ، مر گیا تو کافر اور اگر آپریشن کے بعد بچ گیا تو مسلمان ۔
میں ایک کمزور ڈرپوک بزدل (یا جو بھی پڑھنے والے سمجھ لیں ویسا) پاکستانی ہوں جسے اپنے مسلمان ہونے کا یقین بھی ہے اور اس ہی کفریہ جمہوری نظام کا نہ چاہتے ہوئے حصہ بھی ہوں۔ مجھے حافظ محمد عمر صاحب کی جانب سے پوسٹ کردہ مولانا مفتی حافظ عبد الستار حماد حفظہ اللہ کے فتوے کا ایک جملہ بہت اچھا لگا کہ "ہمارے نزدیک اگر الیکشن کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہ ہو تو امیدوار کم ازکم ایسا ہونا چاہیے جو فرائض کا پابند ہو، کبائر سے گریزاں اور جس کا ماضی داغ دار نہ ہو"۔ ماشا اللہ اس انتخابات ۲۰۱۳ میں بہت سے چہرے ایسے نظر آ رہے ہیں جو بیان کردہ تینوں شرائط پر پورے اترتے بھی ہیں۔ باقی فیصلہ ۴۵ فیصد عوام نے کرنا ہے اور ۵۵ فیصد عوام نے اپنی مصلحتاً خاموشی کا خمیازہ بھگتنا ہے۔ اللہ سے دعاء ہے کہ ہم سب کی نظروں سے مسلکی پردے ہٹا کر ہمیں متحد ہو کر اسلام پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے آمین یا رب العالمین
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
ہمارے نزدیک اگر الیکشن کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہ ہو تو امیدوار کم ازکم ایسا ہونا چاہیے جو فرائض کا پابند ہو
مولاناعبدالستارحمادصاحب ایک مستنداور جیدعالم دین ہیں درج بالا عبارت سےجمہوری طریقہ انتخاب کے حوالے سے ان کی رائے واضح ہے کہ یہ ایک مجبوری کےتحت اپنایا جاسکتاہے یہی بات ہم اپنے بعض بھائیوں کوسمجھانےکی کوشش کرتےہیں۔اللہ سب کاحامیووناصرہو۔
 
شمولیت
مارچ 25، 2013
پیغامات
94
ری ایکشن اسکور
232
پوائنٹ
32
ہمارے نزدیک اگر الیکشن کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہ ہو تو امیدوار کم ازکم ایسا ہونا چاہیے جو فرائض کا پابند ہو
مولاناعبدالستارحمادصاحب ایک مستنداور جیدعالم دین ہیں درج بالا عبارت سےجمہوری طریقہ انتخاب کے حوالے سے ان کی رائے واضح ہے کہ یہ ایک مجبوری کےتحت اپنایا جاسکتاہے یہی بات ہم اپنے بعض بھائیوں کوسمجھانےکی کوشش کرتےہیں۔اللہ سب کاحامیووناصرہو۔
مجبوری(شاید) میں ہی رمضان بوطی نے بشار الاسد کی تصویر کو سجدہ کرنا جائز قرار دیا تھا،
آپ بھی اسی طرح عوام کے لیے حاکمیت اعلی کو جائز قرار دینا چاہتے ہیں ؟

ویسے آپکی کیا مجبوری ہے ؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
ہمارے نزدیک اگر الیکشن کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہ ہو تو امیدوار کم ازکم ایسا ہونا چاہیے جو فرائض کا پابند ہو
مولاناعبدالستارحمادصاحب ایک مستنداور جیدعالم دین ہیں درج بالا عبارت سےجمہوری طریقہ انتخاب کے حوالے سے ان کی رائے واضح ہے کہ یہ ایک مجبوری کےتحت اپنایا جاسکتاہے یہی بات ہم اپنے بعض بھائیوں کوسمجھانےکی کوشش کرتےہیں۔اللہ سب کاحامیووناصرہو۔
بھائی اگر برا نہ مانیں تو اس مجبوری کو ہم نے خود اپنے اوپر مسلّط کیا ہے -اگر کوئی ناگہانی آفت ہوتی تو ہم کہ سکتے تھے کہ مجبوری ہے لیکن یہ کفریہ نظام تو ہماری عوام کا ہی مرہون منّت ہے پھر اس کو مجبوری بنا نا -چہ معنی دارود -ویسے بھی الله کا فرمان ہے -

وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
اور آپس میں نیک کام اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی مدد کرو اورگناہ اور ظلم میں ایک دوسرے کی مدد ہرگز نہ کرو اور الله سے ڈرو بے شک الله سخت عذاب دینے والا ہے
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
بھئی اتنے بھولے علماء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ اسے محض ایک "انتخابی طریق کار" جانیں ۔اور اس پر مستزاد کہ جمہوریت کا حصہ دیکھتے ہوئے بھی گنجائشیں !

کل ہی ایک ان سے کہیں زیادہ معروف اور معتبر مفتی اعظم پاکستان کے نام سے جانے والے عالم دین کی تحریر پر ایک تحریر حقیقر پر تقصیر سے بھی سرزد ہوئی ہے۔

http://www.kitabosunnat.com/forum/جمہوریت-283/یہ-دکھ-نہیں-کہ-اندھیروں-سے-صلح-کی-ہم-نے-12122/#post81800
 
Top