• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الیکٹرانک میڈیا اور مسلمانوں کی ذمہ داریاں

شمولیت
جون 06، 2012
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
45
پوائنٹ
48
میڈیا کے متعلق یہ بات مسلمانوں کے ذہن میں بہت ہی عام ہے کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے میں بڑے کار آمد ثابت ہوئے ہیں اور ان کا سوتیلا رویہ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ آج بھی جاری و ساری ہے ۔ جس میں مسلمان حق بجانب بھی ہیں ۔ لیکن دوسری طرف میڈیا جب اسلام کے خلاف کوئی بات نہ کہے تب بھی دنیا میں بد عقیدگی اور گمراہی کو عام ہی کر رہا ہے کیونکہ ٹی وی اور ریڈیو پر نشر کی جانے والی فحاشیاں اور گمراہیاں ہر گھر میں انہی کے ذریعہ عام ہو رہی ہیں ۔ کہیں سننے میں آتا ہے کہ فلاں لڑکا کسی لڑکی کو لے کر بھاگ گیا ۔ کہیں یہ سننے میں آتا ہے کہ پچپن سال کے بوڑھے نے ایک کمسن بچی کی عصمت دری کی ۔آخر یہ سب کیوں ہو رہا ہے ؟ وجہ صرف یہ ہے کہ ٹی وی وغیرہ پر دیکھ اور سن کر ہی ایک انسان یہ سب سیکھتا اور کرنے کی کوشش کرتا ہے اور گرچہ یہ دکھنے میں مسلمانوں کے خلاف سازش نہیں لیکن اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے اس لئے زیادہ ضروری ہے کہ مسلمان اس کی روک تھام کے لئے کچھ اسی طرح کا سہارا لیں۔ اس لئے کہ جس لیول پر دشمن فحاشی پھیلا رہا ہے اس سے کہیں ہائی لیول پر اس کی روک تھام ہو۔ اور مسلمان تو خیر امت ہے اور اس عہدہ کا پہلا فریضہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے ۔
اس مختصر سی تمہید میں ہم نے تین نکات دیکھے :

۱( میڈیا کا اسلام کو بدنام کرنے میں بہت ہی اہم رول رہا ہے ۔

۲( میڈیا بدعقیدگی اور فحاشی کو عام کر رہا ہے۔

۳( ضروری ہے کہ مسلمان میڈیا کو اپنے استعمال میں لائیں۔


اول الذکر پر بے شمار لوگوں نے باتیں کی اور لکھا ہے کہ میڈیا کا رویہ اسلام کے ساتھ کیسا رہا ہے ۔ لیکن الیکٹرانک میڈیا جس طرح سے فحاشی اور بدعقیدگیوں کو پھیلا رہا ہے ۔ اسے بھی دور کرنا اشد ضروری ہو گیا ہے کیونکہ میڈیا کی ضرورت آج ہر انسان کو ہے۔ اس کے ذریعہ دلچسپ اور آسان انداز سےمعلومات میں اضافہ بھی ہوتا ہے جو کہ بچوں اور بڑوں کے ذہن نشین ہوجاتا ہے ۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ فحاشی بھی ہوتی ہے جسے دیکھنا بھی مشکل ہے بالخصوص ایک مسلمان جو کہ خیر امت کا دعوے دار اور مستحق ہے تو وہ اپنے اس عہدہ کی ذمہ داری اسی وفت پوری کرسکتا ہے جب کہ وہ فحاشی پر خاموشی نہ اختیار کرے بلکہ اس کی روک تھام کرے اور اسلام پر ہونے والی تہمت تراشیوں کا کھل کر جواب دے لیکن روک تھام اور جواب کے لئے خود اس کے پاس کوئی ایسا ذریعہ یا طاقت ہونی چاہیئے جو کارآمد ثابت ہو۔اور وہ طاقت یقینا میڈیا ہی ہے بالخصوص الیکٹرانک میڈیا ۔
یہاں یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ آخر الیکٹرانک میڈیا میں کیا چیز ہے جس بنیاد پر ہر انسان اسی کی بات کو صحیح اور درست سمجھتا ہے ۔ اور اسی کے فیصلہ کو حتمی اور آخری جانتا ہے۔ یہ جاننے اور مسلمانوں میں الیکٹرانک میڈیا کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے ہمیں الیکٹرانک میڈیا کے اصلی چہرہ کو دیکھنا ہوگا جس کے بغیر ہم نہ اس کی اصلیت کو جان سکتے ہیں اور نہ ہی اس کی ضرورت کو محسوس کر سکتے ہیں۔

میڈیااور الیکٹرانک میڈیا


ویکیپیڈیا کے مطابق معلومات کو جمع کرنا اور ان کی ترسیل کے ذرائع کو میڈیا کہا جاتاہے۔ جس میں کئی ساری چیز یں آجاتی ہیں مثلا : صحافت ، خطابت ، اشتہارات اور خبریں پہنچانے کے ذرائع اور یہ تمام چیزیں موجودہ دور میں کئی طریقوں سے استعمال کی جا رہی ہیں ۔ مثلا :پرنٹ میڈیا جس میں روزنامے ، ماہنامے اور دیگر طباعتی کتب اور کتابچہ شامل ہوجاتے ہیں تو وہیں موجودہ دور کا سب سے کارگذار اور سود مند ذریعۂ ترسیل و اشاعت الیکٹرانک میڈیا ہے جس میں شامل ہیں ریڈیو، ٹی وی، انٹرنیٹ اور سی،ڈی ، ڈی وی ڈیز وغیرہ۔
ایک آدمی جو پڑھنا لکھنا جانتا ہو اس کے لئے تو پرنٹ میڈیا بہت ہی فائدہ مند ہوتا ہے لیکن دیگر افراد جنہیں پڑھائی اور لکھائی سے کوئی شغف اور واسطہ نہیں پرنٹ میڈیا ایسوں کے لئے صفر برابر فائدہ مند ہوتا ہے ، وہیں الیکٹرانک میڈیا دونوں طرح کے افراد کے لئے بہت ہی سود مند اور کار آمد ثابت ہوتا ہے اور وہ کئی طرح سے عوام کے لئے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے:
جیسے ایک انسان جو پڑھنا لکھنا نہیں جانتا وہ خبروں کو سن اور دیکھ کر سمجھ جاتا ہے کہ کیا ماحول ہے اور دنیا میں کیا چل رہا ہے ۔ ساتھ ساتھ لوگوں کے لئے الیکٹرانک میڈیا نے کئی آسانیاں بھی کردی ہیں : مثلا وہ شخص جو پڑھنا لکھنا جانتا ہے لیکن اس کے پاس اتنا موقع نہیں ہوتا کہ وہ کسی کتاب کوپڑھے اور اکثر لوگوں کے سامنے سفر کی دشواریاں درپیش ہوتی ہیں جس میں وہ کسی کتاب کا مطالعہ تک نہیں کرسکتے ۔ لہذا ایسے وقت میں الیکٹرانک میڈیا مثلا :ٹی وی[جو کہ جگہ جگہ بس اور اسٹیشنوں پر نصب کی جاچکی ہیں] ، ریڈیو ، ایف ایم ، سی ڈیز، ڈی وی ڈیز اور ایم پی تھریز ان تک خبریں پہنچانے ،دنیا کے حالات سے باخبر کرنے اور علم میں اضافہ کا ذریعہ بنتے ہیں۔
آج کا ماحول بھی یہی بن گیا ہے کہ لوگ پڑھنے سے زیادہ سننے اور دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اس طرح ان کا اپنا ذاتی کام بھی انجام پذیر رہتا ہے اور دنیا کی خبریں اور لطف اندوزی کے سامان بھی ان کے لئے ریڈیو اور ٹی وی مہیا کرتے رہتے ہیں ۔چونکہ اخبارات اور مجلات پر بہت ہی کم افراد نظر ڈالتے ہیں اسی وجہ سے اکثر لوگ الیکٹرانک میڈیا جو کچھ کہتاہے اسی پر بھروسہ کرکے بیٹھ رہتے ہیں ۔ اور لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ جو کچھ میڈیا میں سنایا اور دکھا یا جارہا ہے وہی سچ اور حقیقت ہے۔
قارئین کرام! الیکٹرانک میڈیا یعنی وہ آواز جس کی ہر پکار پر دنیا والے لبیک کہہ اٹھتے ہیں اس کی عام مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں ہر انسان کو اپنائیت محسوس ہوتی ہے ۔ ایک عام آدمی بھی بات کرتا ہے بولتا ہے اور الیکٹرانک میڈیا بھی بولتا ہے ۔ اور اسی اپنائیت کی وجہ سے یہ لوگوں کو حق بجانب بھی لگتا ہے ۔اس وجہ سے بھی اسلام نے بولنے اور زبان کی حفاظت کی سخت تاکید کی ہے اور اس کی حفاظت نہ کرنے کی بنیاد پر سخت عذاب کی دھمکی دی ہے ۔ جب کہ پرنٹ میڈیا یعنی کتابت اور قرات (پڑھنے)ہر کسی کو نہیں آتی اور جن لوگوں کو آتی ہے ان میں سے بھی ہر ایک کوان سے دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ کئی افراد صرف سننے اور دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ وجہ صرف یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے دوکام ایک ساتھ ہوجاتا ہے ۔ پہلا جو ذاتی کا م ہو وہ بھی اپنے انجام تک بآسانی پہنچ جاتا ہے اور دوسرا الیکٹرانک میڈیا علم اور خبروں سے بھی نواز دیتاہے ۔
اور اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے غیر قوموں نے اس کے اندر قدم رکھا اور ترقی حاصل کی اور جس چیز سے ان کے ذاتی مفاد اور ان کے آبائی دین کو خطرہ نظر آیا اسے ان لوگوں نے بدنام کرنا شروع کیا اور یقینا ان کے لئے خطرہ اسلام ہی تھا کیونکہ اسلام دیگر مصنوعی اور تحریف شدہ ادیان کی طرح کسی سے گناہ اور برائی میں سمجھوتہ کرتا ہے اور نہ ہی اپنے ماننے والوں کو اس کی اجازت دیتا ہے ۔

ہندوستانی الیکٹرانک میڈیا


آج ہندوستانی الیکٹرانک میڈیا میں ہر مذہب اور دین کے ماننے والے موجود ہیں اور وہ اپنی تعلیمات کو الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ عام بھی کر رہے ہیں ۔ آپ کو ہندوستانی میڈیا میں ہر مذہب کا چینل نظر آئے گا لیکن سب سے سچا اور حق مذہب اسلام کی تشہیر کے لئے کوئی چینل اب سے تقریبا پانچ سال پہلے تک نظر نہیں آتا تھا اب نظر آنا شروع بھی ہوا تو کہیں اپنوں نے بند کرادیا کہیں غیروں نے۔
چونکہ موضوع الیکٹرانک میڈیا اور ہندوستانی مسلمانوں میں دعوت سے متعلق ہے اس لئے ہماری زیادہ تر نظر ہندوستانی میڈیا پر ہوگی ۔ ہم ہندوستانی میڈیا پر نظر دوڑائیں کہ اس میں دکھایا کیا جاتا ہے ۔
۱] کہیں اسلام کو بدنام کرنے کی خاطر الگ الگ حربہ اپنائے جارہے ہیں.

ثلا: اگر کہیں بم بلاسٹ ہوتو فوراً اسلامی تنظیموں کی فہرست سے نیوز چینلوں کومزین کردیا جاتا ہے ،لیکن جیسے ہی یہ انکشاف ہوتا ہے کہ کام کسی ہندو تنظیم کا ہے تو فورا "مائے نیم از خان" کی نیوز "بریکنگ نیوز" بن جاتی ہے ۔ اگر کوئی عام مسلمان چار شادی کرے تو بطور عیب اسے دکھایا جاتاہے لیکن جب کوئی مشہور غیر مسلم نامور شخصیت دس دس رخیل رکھے تو اس کا کوئی چرچا نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھار تو رخیلوں کے لئے وہ باعث فخر بنا دیا جاتا ہے ۔ جب کسی مسلمان کو بڑے جرم کے تحت گرفتار کیا جاتا ہے تو اسے سبھی دہشت گرد تنظیموں کا دوست اور رشتہ دار بنا دیا جاتا ہے لیکن جب دو یا تین دنوں بعد یہ انکشاف ہوتا ہے کہ سب جھوٹ تھا اوراس کی برات کا حکومت اعلان کردیتی ہے تو اسے بریکنگ نیوز نہیں بلکہ یا تو دکھایا ہی نہیں جاتا یا پھر فٹ لائن نیوز [foot line news]میں دو یا تین مرتبہ دکھا کر معاملہ کو ختم کردیا جاتا ہے۔ بلکہ کبھی کبھار تو مجرم اوربم بلاسٹ کرنے والا غیر مسلم نکلتا ہے لیکن اس خبر کو ختم کردیا جاتا ہے یا اس شخص کو مسلمان بنا دیا جاتا ہے گرچہ وہ کافر ہی ہو۔جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ساری دنیا یہی سمجھتی ہے کہ ہمیشہ مسلمان ہی ایسے کام کرتے ہیں اور وہی دہشت گرد ہوتے ہیں۔ مسلمان اسی طاقت سے جواب نہیں دیتے اور خود کے گلے میں بدنامی کا طوق ڈال لیتے ہیں۔اگر جواب دیا بھی جاتا ہے تو اردو اخبارات اور مجلوں میں جسے ایک مسلمان کے علاوہ کوئی اور نہیں پڑھتا اور مسلمان جواب دے کر اور خود ہی پڑھ کر خوش ہوتے ہیں۔
۲] تو کہیں گھریلو ماحول پر منحصر پروگرام بنائے جاتے ہیں جس میں عورتوں کی آپسی لڑائی جھگڑے اور میاں بیوی کے درمیان اختلاف کیسے بڑھے ؟ دکھائے جاتے ہیں
حالانکہ ظاہری مقصد روک تھام ہوتا ہے لیکن جس انداز سے دکھایا جاتا ہے لوگ سدھرنے کے بجائے اور زیادہ بگڑ جاتے ہیں ۔ ضروری نہیں کہ آپ زنا کے روک تھام کے لئے زنا کرکے لوگوں کو دکھائیں لیکن موجودہ الیکٹرانک میڈیا کا طریقہ یہی بن گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ دیکھیں ، ہماری ٹی آر پی بڑھے، اس لئے مرچ مسالہ بھی لگا دیا جاتا ہے کیونکہ موجودہ میڈیا کا مقصد برائی کو روکنا اور فحاشی کو ختم کرنا نہیں بلکہ فحاشی کو بڑھانا اور پیسہ کمانا ہے ۔ اگر غور کیا جائے تویہ آیت موجودہ میڈیا پر کھری اترتی ہے کہ
" إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ُ"
میں میڈیا کا پہلا چہرہ داخل ہوجاتا ہے جو اسلام یعنی اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات کو بدنام کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اور
" وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا "
میں میڈیا کا یہ چہرہ اور آگے ذکر ہونے والا چہرہ شامل ہوجاتا ہے ۔اور ان کے لئے سزا بھی اللہ نے سخت متعین کردی کہ

" أ أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا "

انہیں قتل کردیا جائے یا سولی دے دی جائے یاپھر ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹ دیئے جائیں یا پھر شہر بدر کردیا جائے ۔یہ تو ان کے لئے دنیا وی سزا اور رسوائی ہوئی ۔ ‘‘ لیکن آخرت میں بھی اللہ نے ان کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ جیسا کہ اگلاٹکڑا اسی طرف اشارہ کر رہا ہے ۔

"وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ " [سورہ مائدہ:۳۳]

اس میں وہ پروگرام اور سیرئیلس بھی آجاتے ہیں جن میں فحاشی او ر ننگے پن کو کھلے طور سے دکھایا جاتا ہے جسے بچے اوروالدین ایک ساتھ مل کر دیکھتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچی بڑی ہوکر اپنے بوائے فرینڈ کو اپنے ساتھ گھر میں لے آتی ہے جسے کئی والدین فیشن اور آزادی کا نام دیتے ہیں تو کئی بول نہیں پاتے کیونکہ یہ تربیت بچوں نے اپنے والدین کے ساتھ دیکھ کر ہی پائی ہے ۔
تو وہیں غریبوں کی عزت کو سر بازار ریلٹی شو کے نام پر خریدا اور بیچا جاتا ہے ۔ ان کی نجی زندگی میں جھانک کر میاں اور بیوی میں طلاق کرانا اور کسی کو پھانسی پر چڑھا دینا یہ ریلٹی شو کی خصوصیات رہی ہیں۔" آپ کی کچہری "کے نام پر خاندانی فسادات اور جھگڑوں کوانصاف دلانے کے نام پر ساری دنیا کے سامنےان کی عزت کو نیلام کردیا جاتاہے۔کیا ضروری ہے کہ انصاف دنیا کے سامنے ذلیل کرکے اور دنیا کے سامنے لڑا کر دلایا جائے؟
۳] الیکٹرانک میڈیا یہ بدعقیدگی کو پھیلانے اور بچوں کے ذہن کو کفر و شرک سے بھرنے کا آسان ذریعہ ہے ۔
ہم بچوں کے لئے آنے والے کارٹونز اور پروگرامس پر غور کریں کہ ان میں دکھایاکیا جاتا ہے؟ ہنومان ، رام اور کرشن کی اسٹوری کارٹونز میں دکھائی جاتی ہیں ۔اور کارٹون کے نام پر فحاشی بچوں کو دکھائی جاتی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا
" ما من مولود الا یولد علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ او ینصرانہ او یمجسانہ "
کہ ہر بچہ کی پیدائش فطرت یعنی اسلام پر ہوتی ہے لیکن اس کے والدین اسے یہودی ، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ (بخاری :۱۲۷۰، مسلم) اس حدیث کا معنی محدثین اور شارحین حدیث نے یہ بیان کیا ہے کہ مثلا اگر یہودی کے گھر بچہ پیدا ہو تو وہ فطرت اسلام پر ہی رہتا ہے اس کے اندر ابتداءً اسلامی تعلیمات ہی اللہ رب العالمین کی طرف سے داخل کی جاتی ہیں ۔ لیکن جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا جاتا ہے اور اس کے یہودی والدین اسے یہودیت کی تعلیم دیتے رہتے ہیں اور جب وہ بڑا ہوتا ہے تو بالآخر وہ یہودی بن جاتاہے ۔ لیکن موجودہ دور میں ٹی وی اور ریڈیو کے ذریعہ مسلمانوں کے بچہ بھی ہندو، یہودی اور نصرانی بنتے جارہے ہیں وجہ صرف یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں پر دھیان نہیں دیتےکہ ان کا بچہ کیا دیکھ اور سن رہا ہے ۔ اور نتیجۃ ً بچہ بڑاہونے کے بعد اگر کبھی مشکل میں آجاتا ہے تو وہی شرکیہ کام کرتا ہے جواس نے بچپن میں دیکھا اور سنا تھا۔اس طرح کی بد عقیدگیاں دوسرے ملکوں کے مقابلہ میں انڈین چینلز میں زیادہ پائی جاتی ہیں ۔
"پچھلے جنم کا راز" کہہ کر کس طرح سے پنر جنم کو سچ ثابت کرنے پر لگا ہوا ہے ۔ اور یہ سیرئلس کافر اور مسلمان سبھی دیکھتے ہیں کئی ایسے مسلمان بھی دیکھتے ہیں جو اسلام کی تعلیمات سے دور اور غیر مسلم ماحول سے قریب ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جب بات آئے گی تو اس پروگرام کوبطور دلیل پیش کرکے ایک غیر مسلم کم علم مسلمان کے سامنے پنر جنم کو سچ ثابت کردے گا۔
وہیں ہم کرشچن اور ہندو چینلز کو دیکھیں کہ وہ ہیلینگ (Healing)اور ذہنی سکون کے نام پر اپنی گمراہ تعلیمات لوگوں میں عام کر رہے ہیں ۔
یہ تھی الیکٹرانک میڈیا کی ایک مختصر سی زہریلی تصویر کہ کس طرح سے میڈیا اسلام کو بدنام ، بدعقیدگی اورفحاشی کو عام کر رہا ہے ۔ اسی کے ذریعہ بڑھائی گئی آزادی نے آج یہ ماحول بنا دیاہے کہ آپ کو دس میں سے ایک رکشہ ایسا بھی نظر آئے گا جس میں ایک دیہاتی ڈرائیور جو کہ گھر والوں سے دور کمانے آیا ہے شیشہ میں سے کسٹمر سیٹ پر ہورہے آزادی کے نام پر ہو رہی زناکاری کو دیکھ کر خود بھی فحاشی کے اڈوں اور طوائف خانوں پر جاکر اپنی محنت سے کمائی ہوئی رقم کوبرباد کرنے پر مجبور ہوجاتاہے اور گاؤں میں بیٹھا اس کا مقروض کسان باپ قرض نہ ادا کرپانے کی بنیاد پر خودکشی کرلیتا ہے ۔
ہم نے اب تک دیکھا کہ کس طرح سے میڈیا بدعقیدگی پھیلارہاہے ، آزادی کے نام پر زناکاری اور ایڈس عام کر رہا ہے ۔ گھریلو اختلافات کے حل کی بجائے گھریلو مشکلات کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ اور یہی میڈیا ہے جو ایک طرف کسانوں پر ہورہے ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو دوسری طرف کسانوں کو خودکشی پر مجبور کر رہا ہے۔ان سب کے علاوہ ہم ہمیشہ جو کچھ سنتے اور پڑھتے ہیں کہ میڈیا اسلام کی غلط تصویر عوام میں پہنچا رہا ہے وہ تو ایک واضح چیز ہے۔
اسی طرح ٹی وی پر آنے والے پروگرامز کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب کوئی بچہ ٹی وی پر بچپن سے بتوں کی پوجا ہوتے دیکھتے آتا ہے تو مکلف ہونے کے بعد اسے بت پرستی دیکھ کر دل میں معمولی حرکت تک پیدا نہیں ہوتی ، کوئی برائی محسوس نہیں کرتا اور یہی وجہ ہے کہ بیشتر مسلمان اپنی دعوتی ذمہ داری کو بھول چکے ہیں۔اور برائیوں کو دیکھ دیکھ کر سود اور شراب جیسی لعنت میں پڑے ہوئے ہیں۔

ہندوستانی مسلمانوں کی دعوتی سرگرمیاں کیا ہیں اور کیا ہونی چاہیئے؟

اب ایسے ماحول میں ضرورت ہے کہ مسلمان بھی اپنی دعوت عام کریں ۔ اپنی حقیقی اور صاف و شفاف تصویر دنیاکے سامنے پیش کریں ، اور ہورہی بہتان تراشیوں کا کھل کر جواب دیں ۔ آپ کے ذہن میں آئے گا کہ ہم تو یہ سب کر رہی رہے ہیں... ہاں ! ہم جواب بھی دے رہے ہیں ، اسلام کی سچی تصویر پیش بھی کر رہے ہیں اور دعوت الی اللہ کا کام بھی جاری ہے۔ لیکن ، کہاں...؟ جمعہ کی تقریروں میں جہاں سامعین صرف مسلمان ہی ہوتے ہیں ، جلسہ اور اجتماعات میں جہاں مسلمانوں کے علاوہ کوئی نہیں آتا، اردو ، اخباروں اور مجلات میں جنھیں ہر انسان تو درکنار ہر مسلمان بھی نہیں پڑھ سکتا ۔ ہماری مثال ایسی ہی ہے کہ انگریزی کے سوالیہ پرچہ کا جواب کوئی طالب علم دوسرے روز اردو کے جوابیہ پرچہ میں لکھ آئے گرچہ اس نے انگریزی کے پرچہ میں کئے گئے سارے سوالات کا صحیح صحیح جواب لکھا ہو، لیکن اس نے جہاں جواب دینا چاہیئے تھا وہاں جواب نہیں دیا تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔الزام ہم پر الیکٹرانک میڈیا لگاتا ہے اور ہم جواب اپنے اسلامی جلسوں اور اردو میگزینس اور اردومجلوں میں دیتے ہیں۔
اس بات سے مجھے کوئی انکار نہیں کہ جلسہ اور جلوس کا یقیناً فائدہ ہوتا ہے اور جو جوابات ابھی جس طرح سے دیئے جارہے ہیں ان سے مسلمانوں کو ضرور فائدہ ہوتا ہے اور کئی لوگ تو اپنے سے ملنے جلنے والے غیر مسلموں تک وہ جوابات پہنچا کر انھیں مطمئن بھی کردیتے ہیں لیکن وہیں لا تعداد افراد ایسے بھی ہیں جن کا کوئی ملاقاتی مسلمان نہیں اور کئی ایسے مسلمان ہیں جن کاتعلق کئی غیر مسلموں سے ہیں لیکن ان مسلمانوں کا تعلق اسلام سے نہیں بلکہ و ہ اسلامی تعلیمات سے کوسوں سے ہیں۔ایسے افراد تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے ہم نے کیا کیا جن کے ذریعہ اسلام کی غلط تصویر ٹی وی اور ریڈیو کے ذریعہ پہنچائی جا رہی ہے ۔ جسے دیکھنے اور سننے کے بعد تو کئی لوگ مسلمانوں سے ملنا جلنا بھی پسند نہیں کرتے ۔ یہ سب باتیں واضح کر رہی ہیں کہ مسلمانوں کو الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ اپنی دعوت کو عام کرنا ہوگا تب ہی جاکر اسلام کی سچی تصویر دنیا والوں کے سامنے نکھر کر آئے گی۔

ٹی وی

الیکٹرانک میڈیا کا سب سے کار آمد جزء ٹی وی ہے اور جب الیکٹرانک میڈیا کہا جائے تو سب سے پہلے لوگوں کے ذہن میں ٹی وی ہی آتی ہے۔لہذا مسلمانوں کو اپنی دعوت عام کرنے کی خاطر مجلوں اور تقریروں سے آگے بڑھ کر اپنے کئی ٹی وی چینلز دنیا والوں کے سامنے پیش کرنے ہوں گے گرچہ کچھ گنے چنے چینلز آبھی گئے ہیں جو حقیقت میں اردو چینلز ہیں لیکن لوگ اسے اسلامی چینل سمجھتے ہیں اور وہ اسلام کے نام پر چلائے بھی جارہے ہیں لیکن ان میں بھی بدعقیدگی اور فحاشی ہے ۔ایک دو چینلز ہے جو حق پرست اور حق شناس ہیں لیکن ان کی بھی کافی اصلاح کی ضرورت ہے اور جو چینلز صحیح تعلیم دے رہے ہیں تو اسے اپنے ہی بند کر ادیتے ہیں ، کیونکہ اس سے فرقہ پرست مولویوں اور درویشوں کے ذاتی مفاد اثر انداز ہوتے ہیں ۔
ہمیں ایسے اسلامک چینلز تیار کرنے ہوں گے جن میں بچوں کے لئے پروگرامس ہوں جو انھیں لطف اندوز کریں اور ان کے علم میں اضافہ کا سبب بھی بنے۔ورنہ بچےموجودہ کارٹون چینلز میں ہنومان اور رام کرشن کا ہی کارٹون دیکھیں گےجس کا نتیجہ کیا ہورہا ہے ہم نے دیکھ لیا ۔اسی طرح بڑی عمر والوں کے لئے اسلامی حدود میں رہتے ہوئے ایسے پروگرام تیار کئے جائیں جن میں اخلاقی ، عبادتی اور معاملاتی طور طریقوں کو سکھایا گیا ہو۔ مثلا: یو ٹیوب پر شیخ ربیع بن ھادی المدخلی کی ویڈیو ہے جس میں دو کردار ہیں ایک شیخ خود ہیں اور دوسرا اونٹ کا چرواہا ، اور ایک اونٹ۔ اونٹ کا چرواہا بتاتا ہے کہ اونٹ بیٹھتے وقت پہلے اپنا پیر رکھتا ہے پھر ہاتھ ، اس کے بعد شیخ اونٹ کو بٹھانے کا حکم دیتے ہیں اور یہی سین میں یہی دکھائی دیتا ہے کہ اونٹ پہلے اپنا پیر رکھتا ہے پھر ہاتھ۔ اس کے بعد شیخ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پڑھ کر بتاتے ہیں کہ اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلمنے منع کیا کہ
"إِذَا سَجَدَ أَحَدُكُمْ فَلَا يَبْرُكْ كَمَا يَبْرُكُ اَلْبَعِيرُ"
کہ جب تم میں سے کوئی سجدہ جائے تو اس طرح نہ بیٹھے جس طرح اونٹ بیٹھتا ہے۔ [ابودائود:صحیح ، ارواء الغلیل:۲/۷۸] اور پھر شیخ خود سجدہ کرنے کا صحیح طریقہ کرکے دکھاتے ہیں کہ جب سجدہ میں جائوتو اس طرح سے سجدہ میں جائو۔
غرضیکہ دعوت کے لئے مسلمانوں کے کئی اسلامی چینلز ہونے چاہیئے جس کے ذریعہ اسلام کی تعلیم عام ہو اور اسلام کی صحیح تصویر دنیا والوں کے سامنے جائے۔اور اس کے تعاون کی خاطرالیکٹرانک میڈیا میں موجود جو مسلمان ہیں ان کی بھی ضرورت پڑے گی اور سب سے اہم اس کے چلانے کے لئے روپیوں کی ضرورت ہوگی جس کی خاطر قوم کے مالدار افراد کو حصہ لینا ہوگا تاکہ دعوتی کام میں جہاد بالاموال کا اجر انھیں بھی ملے اور کام بھی آسان ہو۔

ریڈیو :

الیکٹرانک میڈیا کا ایک حصہ FM اور ریڈیو بھی ہے جسے آدمی چلتے پھرتے استعمال کرتا ہے ۔ یہ اسلام کو اتنا تو بدنام نہیں کرتے لیکن ہاں ، مسلمانوں کے ذہن کو ذکر اللہ سے ضرور غافل کردیتے ہیں ۔ اور کافروں کو انہی کی دھن میں رکھتے ہیں لہذا ان تک پیغام پہنچانا ہو اور مسلمانوں کو دین پر ثابت رہنا ہو تو ہمیں ریڈیو چینلز بھی شروع کرنے چاہیئے جس میں قرات کے مقابلہ ، اسلامی سوال وجواب یعنی فقہ وفتاوی اور تقاریر کا سلسلہ شروع ہونا چاہیئے ۔ تاکہ غیر مسلم عوام اسلام کو راہ میں چلتے وقت بھی سمجھ سکے اور مسلمان اپنے آپ کو ذکر الہی میں مشغول رکھیں کیونکہ آج بچہ بچہ راہ میں FMاور ریڈیو ہی سنتا ہے جس میں گانے اور لو اسٹوری کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا ۔ اسلامی ریڈیو چینلز تو کئی ملکوں میں ہے لیکن اس کی سخت ضرورت ہندوستان میں ہے تاکہ جو لوگ ریڈیو سنتے ہیں ان تک بھی اسلام کا پیغام پہنچے اور جو گانے اورغزلوں میں گم ہوکر ذکر اللہ سے غافل ہیں اور وقت گذاری کے لئے ریڈیو سنتے ہیں وہ بھی اپنے وقت کو شرعی حدود میں رہتے ہوئے گذاریں۔

سی ڈی ، ڈی وی ڈی,موبائل اور ایم پی تھریز

یہ الیکٹرانک میڈیا کا بہت ہی آسان اور سستا پہلو ہے جن کے ذریعہ آپ اسلام کی تعلیمات کو اپنے مسلم بعیداز اسلام دوستوں کو اسلام سے قریب کرسکتے ہو اور غیرمسلموں تک اسلام کی دعوت پہنچا سکتے ہو کیونکہ ان کا استعمال تو ہر انسان کرتا ہی ہے اور اکثر لوگ اپنے غیرمسلم ساتھیوں کو سننے اور دیکھنے کے لئے کچھ نہ کچھ دیتے رہتے ہیں جس سے ان تک اسلام کی صحیح تصویر اور شکل پہنچتی ہے لیکن ابھی جتنا ہو رہا ہے بہت ہی کم ہے اسے اور عام کرنے کی ضرورت ہے ۔
"ٹی ایف ایل الف "ملٹی میڈیا کا آڈیو میگزین "اذان " بھی الحمد للہ اسی میڈیا کا ایک حصہ ہے اس کا ذکر میں نے اس لئے کیا کیونکہ یہ ایک انوکھے اور نئے اندازمیں ہےاورمیری سمجھ کے مطابق اسے کامیاب بنانا ایک چیلنج ہے کیونکہ عوام ہر ایک کی آواز کو پسند نہیں کرتی لہذااس کے لئے مواد جمع کرنا بھی اس کے اراکین کے لئے ایک چیلنج ہوگا ۔اللہ انھیں اشاعت اسلام کی خاطر کئے جانے والے اور ہر جائز مقصد میں کامیاب کرے۔
اسی طرح اگر آپ کے پاس موبائیل ہے جس میں ویڈیو اور آڈیو کا فنکش ہو تو جس طرح ٹرینوں اور بسوں میں لوگ گانے باجے بجاے بجا کر اپنے ساتھیوں کو محظوظ کرتے ہیں آپ اپنے غیر مسلم اور اسلامی بھائی کو کوئی قرات یا اسلامی بیان سنائیں یا پھر کوئی ایسا ویڈیو دکھائیں جو تخلیق الہی کی تعریف کے گن گاتا ہو۔اس طرح آپ اپنے غیرمسلم اور اسلام سے دور مسلمان ساتھیوں تک اسلام کا پیغام سنا کر اور دکھا کر عام کرسکتے ہو،ورنہ Blue toothکا فنکشن تو آج ہر موبائل میں عام ہوچکا ہےجس کے ذریعہ آپ کے پاس موجود کوئی اسلامی آڈیو یا ویڈیو کلپ اپنے دوست کو دے دیں تاکہ وہ بھی اسلام کی دوباتیں سن کر اس پر عمل کرنے لگے۔ یا اگر آپ کے پاس کمپیوٹر ہو تو اس کے ذریعہ آپ علماء کی تقاریر اور بیانات اپنے دوستوں کو MP3/4/5 یا Memory Card میں ڈائون لوڈ کرکے دے سکتے ہو ۔
موبائل کے ذریعہ ایس ایم ایس اور آپ کے پاس بات کے لئے وقت ہو توکم از کم دس بیس منٹ تک کسی غیر مسلم دوست سے اسلام کے متعلق باتیں کرلینا بھی دعوت الی اللہ کا بہترین ذریعہ ہے۔

انٹرنیٹ

الیکٹرانک میڈیا کا یہ پہلو بہت ہی زیادہ مشہور اور اس کی بات دیگر الیکٹرانک میڈیا کے مقابلہ میں بہت ہی مقبول ہے ۔ کئی مرتبہ تو مقررین اور مصنفین اسی کا حوالہ دیتے ہیں ۔ الیکٹرانک میڈیا کے اس پہلو میں ہر چیز آجاتی ہے اگر آپ پڑھنا چاہتے ہیں تو آپ کے لئے انٹرنیٹ کافی ہے ، اگر آپ سننا یا دیکھنا چاہتے ہیں تو بھی آپ کے لئے انٹرنیٹ کافی ہے ۔ اگر آپ کسی سے بات کرنا چاہتے ہیں تو بھی آپ کے لئے انٹرنیٹ کافی ہے ۔ اس پر بے شمار اسلامی ویب سائٹ موجود ہیں لیکن جو ہیں وہ کافی نہیں کیونکہ ان سے کئی گنا زیادہ ایسی ویب سائٹس ہیں جو اسلام کے خلاف کام کر رہی ہیں اور نہیں تو اکثر ویب سائٹ میں فحاشی بالکل عام ہے ۔
یہ سب سے سستے [صرف ای میلس اور چیٹنگ کے ذریعہ ]اور مہنگے [اسلامی ویب سائٹ تیار کرکے جس میں اسلامی آڈیو ، ویڈیو اور اسلامی کتابیں ہر زبان میں اپلوڈ کردی جائیں ] ہر طرح سے ہم اس میں آکر دعوت کا کام انجام دے سکتے ہیں ۔ مثلا: پال ٹالک میسنجر میں اپنا اسلامی روم بنا کر اور دیگر میسنجرس میں بات چیت [چیٹنگ] کے ذریعہ دعوت و تبلیغ کا کام کیا جاسکتا ہے ۔ اگر آپ مراٹھی یاکسی ہندوستانی زبان میں دعوت کا کام انجام دینے کے لئے اپنے آپ کو خاص کرلیں تو آپ کی دعوت ہندوستان میں ہوگی ۔ ورنہ اس کے ذریعہ آپ پوری دنیا میں اپنا کام انجام دے سکتے ہو۔
اب تو کتابیں اور آڈیو ، ویڈیو اپلوڈ مفت میں بھی ہوتے ہیں جن کے ذریعہ آپ اسلام کے پیغام کو بالکل آسانی کے ساتھ دنیا والوں تک پہنچا سکتے ہو۔Orkut اور Face bookوغیرہ پر آپ اپنا ایک گروپ بنا کر ان میں دعوت و تبلیغ کا کام کرسکتے ہیں اور ہو بھی رہا ہے لیکن جتنا ہے وہ بہت ہی کم ہے اور جو ہے اس میں بھی کئی ایسے ہیں جو قرآن و حدیث سے کم یا نہ کے برابر باتیں کرتے ہیں ۔ جس وجہ سے وہ ناقابل اعتماد سمجھے جاتے ہیں۔
غرضیکہ الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ دعوت کا کام بہت ہی آسانی اور سائستگی کے ساتھ انجام پاسکتا ہے ضرورت ہے صرف دعوت الی اللہ کا جذبہ رکھنے اور ساتھ ساتھ ہندوستانی عوام کی خیرخواہی کی سوچ رکھنے والوں کی ۔
 
Top