• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الیکٹرونک میڈیا پر تصویرکا شرعی حکم ؛ تقابلی جائزہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پہلا حلقہ
پہلے گروہ کی نظر میں تصویر کی اوّلین نوعیت اور فی زمانہ استعمال کی جانے والی تصاویر میں ماہیت اور طریقہ کے اعتبار سے اگرچہ کچھ فرق بھی پایا جاتا ہو لیکن ان کے حکم میں کوئی فرق نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم1 کی شریعت قیامت تک کے لئے ہے، اور اس میں ہردور کے مسائل کے بارے میں مکمل رہنمائی موجود ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تصویر کی حرمت کی وجوہات فوٹو گرافی والی تصویر میں زیادہ بہتر (کاملاً) اور ویڈیو میں انتہائی بہترین (اکملا ً) پائی جاتی ہیں، اس لئے تصویر کے ظاہری پہلو سے ان پر بحث کرنے کی بجائے ان تمام نئی صورتوں کو بھی تصویر قرار دیا جائے گا، بلکہ جوں جوںاس میں تصویری عنصراور خصوصیات کامل تر ہوتی جائیں گی، توں توں اس کی حرمت شدید تر ہوتی جائے گی۔ ان علما کے خیال میں یہ بحث کہ تصویر ہاتھ سے بنائی گئی، یا ظاہری سادہ وجود رکھتی ہے یا نہیں؟ اس کا تعلق نفسِ مسئلہ کی بجائے تمدن کی ترقی سے ہے اور صرف طریقہ مختلف ہونے کی بنا پر تصویر کے حکم میں تبدیلی پیدا کرنا حیلے سازی کے مترادف ہے ، ان چیزوںسے اصل مسئلہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس سلسلہ میںان کا استدلال ’نفس تصویرکی خصوصیات‘ اور اس کے لئے عربی لغت میں بولے جانے والا اَلفاظ واِطلاقات سے بھی ہے۔جب ہر نوعیت کی تصویر کو آج تک ’تصویر‘ اور ’صورت‘ سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے تو احادیث میں ’صورت‘، ’مصور‘ اورتصویر کے لئے بولے جانے والے تمام الفاظ دورِ حاضرکی جملہ تصاویر کو بھی شامل ہیں۔
مذاکرہ میں ان راسخ فکر علما کا یہ موقف تھا کہ کسی خارجی غلط وجہ (مثلاً فحاشی اور فسق وفجور) کے بغیر بھی تصویر کی حرمت براہِ راست قائم ہے جس کی وجہ اللہ کی صفت ِخالقیت ومصوریت میں مشابہت ہے اور اس کی احادیث میںانتہائی سنگین وعید آئی ہے۔ البتہ یاد رہے کہ تصویر کی یہ شناعت انہی احادیث کی بنا پر فقط ذی روح اشیا تک ہی محدود ہے۔ ان وجوہ کی بنا پر ایسے علما تصویر کے مسئلے اور مصداق میں اُصولی طورپر کوئی استثنا پیدا کرنے سے کلی احتراز کرتے ہیں۔
پہلے گروہ میں بھی آگے علما کی دو قسمیں ہیں، بعض تو وہ ہیں جو احادیث کے ظاہری الفاظ پر انحصارکرتے ہوئے کسی تفصیل اور بحث میں جائے بغیرہر قسم کی تصویر کو حرام قرار دیتے ہیں۔ ان علما کا رویہ حدیث کے ظاہری الفاظ پر زو ردینے کا ہے کہ ہر ایسی شے جس پر تصویر کا اطلاق کیا جاتا ہے، اس کو حرام سمجھا جائے۔ اسی بنا پر یہ اہل علم حدیث میں وارد لفظ إلا رقمًا في الثوب وغیرہ کو بھی مختلف دلائل کی بنا پر بے جان شے کی تصویر پرہی محمول کرتے ہیں۔ البتہ حدیث میں گڑیوں وغیرہ کے استعمال کے جواز کو حکم تصویر سے مستثنیٰ کہتے ہیں ، او راس جواز کی بنیاد بھی یہی ہے کہ احادیث ِنبویہؐ کے ظاہری متن سے اس کی گنجائش ملتی ہے۔
اس استدلال کا منطقی نتیجہ تو یہ ہونا چاہئے کہ ان علما کے ہاں ٹی وی اور میڈیا پر تبلیغ اسلام کے لئے تصویر سازی اور فلم بندی حرام ہو لیکن مذکورہ استدلال کے بعدیہ علما بھی کسی نہ کسی درجہ میں فی زمانہ تبلیغ اسلام کے لئے ٹی وی وغیرہ پر آنے کو جائز یا گوارا ہونے کا ہی فتویٰ دیتے ہیں، اس سلسلے میں ان کا استدلال مریض عورت کا غیرمحرم ڈاکٹر سے علاج کرانا، شناختی کارڈ اور سرکاری دستاویزات وغیرہ تیار کرنے جیسی مثالیں ہیں جن کو پورا کرنا مسلمانوں پر بطورِ اضطرار لازمی ٹھہرتا ہے۔
اسی گروہ کے دوسرے علما کا رجحان یہ ہے کہ احادیث کی ظاہری پابندی ایک نہایت قابل تعریف رویہ ہے، لیکن دین میں فقاہت کواللہ تعالیٰ نے باعث ِخیر وبرکت قرار دیا ہے۔چنانچہ صرف الفاظِ حدیث پر ڈیرہ جما دینے کی بجائے ان الفاظ کی علتوں اور حکمتوں پر غور وخوض کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ رویہ فقہاے محدثین سے قریب تر ہے کہ حدیث کی الفاظ کی رعایت رکھتے ہوئے ان میں موجود حکمتوں تک پہنچنے کی کوشش کی جائے۔
چنانچہ غیرذی روح کی تصویر کی اجازت یا بچیوں کے کھیلنے کے لئے گڑیوں کی اجازت، یا تصویر کو پائوں میں روندنے یا اس کا چہرہ وغیرہ ختم کردینے کے حدیثی استثناء ات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ علماے کرام قرار دیتے ہیں کہ ہر وہ تصویر جس سے کوئی مفید دینی مقصدپورا نہ ہوتا ہو توایسی تصاویرتو لازماً حرام ہیں، لیکن جہاں اس سے کوئی زیادہ مفید (ضروری مقصد) پورا ہوتا ہو جس کا پورا ہونا اس تصویر کے بغیر مشکل ہے تو ایسی صورت میں تصویر جائز ہے۔اس موقف کی دلیل بچیوں کی تربیتی ضرورت کے لئے نبی کریم ﷺ کا حضرت عائشہ کو گڑیوں سے کھیلنے کی اجازت دینا ہے۔ اس بنا پر اگر مذکورہ بالا صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے تبلیغ اسلام کے لئے ٹی وی پر آیا جائے یا ویڈیو بنائی جائے تو اس صورت میں تصویر کشی وفلم بندی گوارا ہے،جیسا کہ علامہ البانی ؒکا یہی موقف آگے آرہا ہے۔
اس طرح بعض علما شریعت کے مقاصد ِعامہیعنی اَخف الضررین ،مصلحت اور سدذریعہ وغیرہ کے تحت اس امر کی گنجائش پیدا کرتے ہیں کہ جب حالات وظروف کے اعتبارسے تبلیغ اسلام کی مصلحت کا یہ تقاضا نظر آئے کہ ٹی وی پر آئے بغیردفاعِ اسلام اور تعبیر دین کا فرض مؤثر طریقہ سے پورا نہیں ہوسکتا تو ایسی صورت میں بھی جدید ذرائع کو استعما ل کرنے کا جواز ہے۔
گویا پہلے گروہ کے دونوں اہل علم کے موقف میں فرق یہ ہے کہ پہلا موقف اضطرار اور نئے حالات کے جبرکے نتیجے میں پیدا ہورہا ہے جبکہ دوسرے موقف میں گڑیوں کے کھیل، دیگر استثناء ات اور مقاصد ِشریعت سے استدلال کرتے ہوئے یہ گنجائش دی گئی ہے۔ پہلے موقف کی نمائندگی بالترتیب حافظ عبد العزیز علوی، حافظ صلاح الدین یوسف اور مولانا رمضان سلفی کررہے ہیںـ، جیسا کہ ان کے خطابات اور قراردادوں سے بھی یہی مترشح ہوتا ہے۔ ایسے ہی حالت ِاضطرار کا دوٹوک موقف مولانا ڈاکٹر سرفراز نعیمی اور مولانا رشید میاں تھانوی نے بھی اختیار کیا ہے۔ جبکہ دوسرے موقف کی طرف رجحان مولانا محمد شفیق مدنی اور حافظ عبدالرحمن مدنی کے ہاں پایا جاتا ہے۔ البتہ نتیجہ وفتویٰ ہر دو کے ہاں بہرطور یہی ہے کہ تبلیغ اسلام کے لئے ٹی وی پر آنا گوارا یا جائز ہے، اگرچہ تعلیل وتوجیہ میں دونوں کا طریقہ مختلف ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عرب علما کا موقف
یوں تو یہ پہلو مذاکرہ سے خارج ہے، البتہ محض تکمیل افادہ کی خاطر یہاں عالم عرب کے مستند علما (علامہ البانی، ؒ شیخ ابن باز ؒ، شیخ ابن جبرین اور شیخ محمد علی الصابونی وغیرہ) کے موقف کا نتیجہ پیش کرنا بھی مفید ہوگا۔ علامہ محمد ناصر الدین البانی ؒ فرماتے ہیں:
وإن کنا نذہب إلی تحریم الصُّور بنوعیہ جازمین بذلک فإننا لا نرٰی مانعًا من تصویر ما فیہ فائدۃ متحققۃ بدون أن یقترن بہا ضرر ما، ولا تتیسر ہذہ الفائدۃ بطریق أصلہ مباح،مثل التصویر الذي یحتاج إلیہ الطبّ وفي الجغرافیا وفي الاستعانۃ علی اصطیاد المجرمین والتحذیر منہم ونحو ذلک فإنہ جائز بل قد یکون بعضہ واجبًا في بعض الأحیان والدلیل علی ذلک حدیثان … الخ (أحکام التصویر في الإسلام: ۶۶)
’’ اگرچہ ہم تصویر کی ہر دو نوع (تصویر بنانا اور لٹکانا) کی حرمت کے پورے وثوق سے قائل ہیں لیکن اس کے باوجود ایسی تصویر جس سے کوئی یقینی فائدہ حاصل ہوتا ہو اور اس سے کوئی شرعی ضرر لاحق نہ ہو، کو بنانے میں ہم کوئی مانع نہیں سمجھتے۔ بشرطیکہ یہ فائدہ اس جائز طریقے کے سوا حاصل ہونا ممکن نہ ہو جیسا کہ طب وجغرافیہ میں تصویر کی ضرورت پیش آتی ہے، یا مجرموں کو پکڑنے اور ان سے بچائو وغیرہ کے سلسلے میں۔ تو یہ تصویریں شرعاً نہ صرف جائز بلکہ بسا اوقات واجب بھی ہوجاتی ہیں جس کی دلیل یہ دو احادیث ہیں…‘‘
پھر اُنہوں نے حضرت عائشہؓ کی اپنی گڑیوں سے کھیلنے اور حضرت ربیع ؓ بنت ِمعوذ کی اس حدیث کو ذکر کیا ہے جس میں اُنہوں نے چھوٹے بچوں کو روزے کی تربیت کے دوران روئی کے کھلونے بناکردینے اور ان سے جی بہلانے کا تذکرہ کیا ہے۔
ان احادیث کی تحقیق و تخریج کے بعد نتیجہ کے طورپر مزید فرماتے ہیں:
فقد دلّ ہذان الحدیثان علی جواز التصویر واقتنائہ إذا ترتبت من وراء ذلک مصلحۃ تربویۃ تُعین علی تہذیب النفس وتثقیفہا وتعلیمہا، فیلحق بذلک کل ما فیہ مصلحۃ للإسلام والمسلمین من التصویر والصور۔ ویبقی ما سوٰی ذلک علی الأصل وہو التحریم مثل صور المشایخ والعظماء والأصدقاء ونحوہا ممّا لا فائدۃ فیہ بل فیہ التشبہ بالکفار عبدۃ الأصنام… واﷲ أعلم (ایضاً:۶۷)
’’یہ دونوں احادیث جوازِ تصویر اوراستعمال پر دلیل ہیں، بشرطیکہ اس سے ایسی کوئی تربیتی مصلحت پوری ہورہی ہے جس سے کسی فرد کے تہذیب وسلیقہ اور تعلیم میں مدد ملتی ہو۔ اس جواز سے تصویر کشی اورتصاویر کی وہ صورتیں بھی ملحق ہوجاتی ہیں جن میں اسلام یا مسلمانوں کی کوئی دینی مصلحت پائی جاتی ہو۔ البتہ اس کے ماسوا اُمور میں تصویر کی حرمت اپنی جگہ پر قائم ودائم ہے، مثلاً مشایخ، بڑی ہستیوں، دوستوں وغیرہ کی تصویر کشی جس میں بتوں کے بچاری کفار کی مشابہت کے سوا کوئی دینی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ۔‘‘
شیخ ناصر الدین البانی کا مذکورہ بالا موقف پہلے حلقے کے دوسرے علما والا ہے۔ جس میں حدیث ِنبویؐ کی بنا پر گڑیوں کے استثنا کو دلیل بناتے ہوئے اس پر باقی ضروریاتِ دین ومعاشرہ کو قیاس کیا گیا ہے۔ البتہ درج ذیل علماے عرب نے اس حدیث کی بجائے تصویر کے شرعی احکام کو عمومی مقاصد ِشریعت کے پیش نظر اضطراراً یا اَخف الضررین یا مصلحت کے قواعد کے تحت گوارا کیا ہے … واللہ اعلم
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مفتی اعظم سعودی عرب شیخ عبدالعزیز بن عبد اللہ بن باز ؒفرماتے ہیں:
فجمیع الصور للذکرٰی تُتلف بالتمزیق أو بالإحراق، إنما یُحتفظ بالصور التي لہا ضرورۃ کالصورۃ في حفیظۃ النفوس وما أشبہ ذلک
’’ گزری یادوں کو محفوظ کرنے کے لئے بنائی گئی تمام تصاویر کو جلا یا پھاڑ کر تلف کردینا ضروری ہے، البتہ ایسی تصاویر جن سے کوئی شرعی ضرورت پوری ہوتی ہو ، مثلاً لوگوں (یا مجرموں) کی شناخت وغیرہ جیسی ضرورتیں تو ان کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔‘‘ (فتاوی المرأۃ: ۱۵)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سعودی عرب کے متبحر عالم دین شیخ ابن جبرین کا موقف بھی تصویر کی حرمت پر دوٹوک ہے، البتہ وہ بھی اضطراری صورت میں ہی تصویر کو جائز قرار دیتے ہیں :
وقد یُستثنٰی في ہذہ الأزمنۃ الأوراق النقدیۃ التي فیہا صُور المُلوک وکذا الجوازات وحفائظ النفوس للحاجۃ والضرورۃ إلی حملہا ولکن یُقتصر علی قدر الحاجۃ… واﷲ أعلم (فتاوی المرأۃ: ۱۷، ۱۸)
’’فی زمانہ کرنسی نوٹوں پر حکمرانوں کی تصاویرممانعت ِتصویر کے شرعی حکم سے مستثنیٰ ہیں، ایسے ہی پاسپورٹ، شناختی کارڈ وغیرہ جن کی وجہ ان کو ساتھ رکھنے کی ضرورت اور تمدنی حاجت ہے (وہ بھی مستثنیٰ ہیں) ، البتہ یاد رہے کہ ان کا جواز اسی حاجت تک ہی محدود رہے گا۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سعودی عرب کے ایک عالم محمد علی صابونی اپنی تفسیرمیں فرماتے ہیں :
بل یُقتصر فیہ علی حد الضرورۃ کإثبات الشخصیۃ وکل ما فیہ مصلحۃ دنیویۃ مما یحتاج الناس إلیہ، واﷲ أعلم (روائع البیان:۲؍۴۱۶)
’’بلکہ تصویر کی اجازت کے سلسلے میں ضرورت تک ہی محدود رہا جائے گا، جیسا کہ شناختی ضرورت یا ایسی کوئی بھی دنیوی مصلحت ہے جس کے لوگ محتاج ہوتے ہیں۔‘‘
مذکورہ بالا اقتباسات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب علماے کرام (بشمول علماے عرب) اصلاً تصویر کی حرمت کے قائل ہیں، اور جدید تصاویر کو بھی اسی حرمت میں شامل سمجھتے ہیں لیکن اِضطراریا مقاصد عامہ کے تحت تبلیغ اسلام کے لئے ٹی وی پر آنے کو جائز قرار دیتے ہیں ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دوسرا گروہ
مسئلہ تصویر پردوسرا گروہ اُن اہل علم کا ہے جو عام تصویر کو تو حرام قرار دیتا ہے، لیکن ٹی وی اور ڈیجیٹل کیمرے کی تصویر کو ایک توجیہ کے ذریعے تصویر کے اصل حکم سے خارج سمجھتا ہے۔ گویا ان کے نزدیک جدید ترین تصاویربراہِ راست حکم شرعی میں شامل نہیں اورفرامینِ نبویؐ صرف انہی تصاویر پر صادق آتا ہے جو آپ کے دور میں مروّج تھیں۔ اس گروہ کی نمائندگی مذاکرہ میں جماعت ِاسلامی کے مولانا عبد المالک صاحب اور جامعہ اشرفیہ کے مولانا محمدیوسف خاں نے کی۔
چنانچہ مولانا عبد المالک صاحب نے مسئلہ تصویر کو ضرورت اور حاجت کے اعتبار سے تقسیم کرنے کا رجحان اختیار کیا۔ ان کی نظر میں ہر وہ تصویر جس کی حاجت ا ورضرورت نہیں، اس کو حرام ہونا چاہئے مثلاً پورٹریٹ، بیج، خواتین کی تصویر اور تصویری نمائشیں وغیرہ۔ البتہ ایسی تصاویر جن کی کوئی دینی یا معاشرتی ضرورت موجود ہے، ان کے بارے میں خاموشی اختیار کرنا چاہئے۔ گویا وہ تصویربنانے کو توناجائز سمجھتے ہیں، البتہ دو فقہی قواعد
"الضرورات تبيح المحظورات اور الحاجة قد تنزل منزلة الضرورة"
کے سبب ان کو بقدرِ ضرورت جائز قرار دیتے ہیں۔ یہاں تک ان کا موقف پہلے گروہ کے ساتھ ہے۔
جہاں تک ٹی وی اور ویڈیو کا تعلق ہے تو مولانا موصوف نے اس سلسلے میں یہ توجیہ اختیار کی ہے کہ چونکہ ان دونوںمیں تصویر کا کوئی ظاہری وجود نہیں ہوتا، اس لئے یہ دونوں جدید ذرائع تصویر کے مروّجہ شرعی حکم سے خارج ہیں۔ چنانچہ ٹی وی کے مسئلہ کو حرمت کی بجائے آلہ اور وسیلہ کے طور پر دیکھا جانا چاہئے اور اس آلہ؍ وسیلہ کو تبلیغ دین کے لئے استعمال کرنے کی ہرممکن کوشش ہونی چاہئے۔ بالفرض ٹی وی کی حرمت کو بھی تصویر کے حکم نبویؐ میں داخل سمجھ لیا جائے تو جنگ ِقادسیہ میں ہاتھی کی مورتی بنانے کی غالب حکمت کے مثل اس کی بھی اجازت ہونی چاہئے۔ مزید تفصیل کے لئے مولانا کا مکمل خطاب ملاحظہ فرمائیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ایسا ہی موقف ان علما کا بھی ہے جنہوں نے تصویر کی حرمت کو کاغذ پر وجود سے مشروط قرار دیا ہے۔ چنانچہ ان کے نزدیک جب تک کیمرہ کی تصویر کاغذپر شائع نہ ہوجائے، اس وقت تک وہ حرام نہیں ٹھہرتی۔ اس بنا پر وہ عام تصویر اورکیمرہ کی تصویر کو تو حرام سمجھتے ہیں لیکن ڈیجیٹل کیمرہ اور ٹی وی، ویڈیو کی تصویر میں اصلاً جواز نکالتے ہیں کہ یہ محرم تصویر ہی نہیں ہے۔
ان کے نزدیک چونکہ ٹی وی پر نشر ہونے والے پروگرام میں حفاظت یا دوام کا کوئی پہلو موجودنہیں ہوتا بلکہ وہ محض نشریاتی لہریں ہوتی ہیں، اس بنا پر عکس اور حبس الظّل ہونے کے ناطے ٹی وی نشریات میں شریک ہونا جائز ہے اور یہ تصویر کے حکم ممانعت میں شامل نہیں بلکہ یہ محض ایک نشریاتی عکس ہے۔ علاوہ ازیں ویڈیو فلم میں بھی چونکہ ظاہری طورپر کوئی تصویر موجود نہیں ہوتی بلکہ برقی ذرّات کی شکل میں محفوظ ہوتی ہے، اس بنا پر اس کو بھی حرام قرار نہیں دیا جاسکتا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تبصرہ:
دراصل اس موقف میں تصویر کو نفسِ تصویر کی بجائے بعض دیگر خصائص کا اعتبار کرتے ہوئے اس پر شرعی حکم لگایا جارہا ہے۔ حالانکہ اگر کوئی تصویر کاغذ پر پرنٹ کرنے کی بجائے کمپیوٹر سکرین پر ہی دیکھی جاسکے تو اس تصویر کو حرام کیوں نہیں کہا جائے گا جیسا کہ اس دورکے ڈیجیٹل کیمروں میں ایسے ہی ہوتا ہے کہ شاذونادر ہی کوئی تصویر کاغذ پر شائع کی جاتی ہے اور اکثر پردۂ سکرین تک ہی محدود رہتی ہیں جبکہ ایسی تصویر میں بھی دوام،جاذبیت اور تصویر کے دیگر خصائص بدرجہ اتم موجود ہوتے ہیں۔
ان علما کے اس موقف کے پس پردہ عکس اورتصویر کا باہمی فرق کارفرما ہے۔ عکس اور تصویر میں بنیادی فرق یہ ہے کہ عکس کا وجود اصل پرقائم ہوتا ہے اور اصل کے ختم ہوجانے سے عکس بھی جاتا رہتا ہے۔ ان کی نظر میں جب کوئی تصویر کاغذ پر منتقل ہوجائے تو وہ عکس کی بجائے ثبوت اور دوام اختیار کرجاتی ہے، اس لئے وہ حرام ہے۔ دوام کی یہ خصوصیت اس لئے بھی ہے کیونکہ اصل پر قائم تصویرکی بقا کا کوئی امکان نہیں ہوتا، اسلئے شرک کا امکان بھی معدوم ہوجاتا ہے۔
ہماری نظر میں دوام کی یہی خصوصیت ویڈیو اور جدید ڈیجیٹل کیمرہ میں بھی پائی جاتی ہے کہ وہاں تصویر کا وجود عکس کے بجائے مستقل بالذات ہوجاتا ہے، البتہ یہ استقلال واستقرار کاغذ کی بجائے جدید میڈیا کی شکل میں ہوتا ہے۔ چنانچہ دوام اور ثبوت کو صرف کاغذ میں منحصر سمجھنا درست نہیں۔ تصویر کی حرمت کو اسی بات سے مشروط کرناکہ وہ کاغذ پر یا سادہ انداز میں موجود ہو ، مناسب نہیں بلکہ میڈیا کی کسی بھی صورت میں اس کا مستقل وجود، چاہے وہ کمپیوٹر ڈاٹا کی شکل میںہو، اپنی تصویری خصوصیت وحکمت ِممانعت کے باعث قابل گرفت ہے۔ البتہ ٹی وی کی ایسی نشریات جن کو محفوظ نہیں کیا جاتا، ان کے بارے میں عکس کی اس توجیہ میں امکانِ شرک کے نہ ہونے کی حد تک تو وزن موجود ہے کیونکہ وہ مستقل بالذات قائم نہیں رہتیں۔ ڈیجیٹل کیمرے اور ویڈیو فلم والی تصویر کو براہِ راست نہ سہی تو کم از کم سد ذریعہ کے طور پر حرام ہونا چاہئے کیونکہ ایسی تصویر میں شرک کا نکتہ آغاز بننے یا نحوست پیدا کرنے کی صلاحیت تو بہرحال بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔
ٹی وی، ویڈیو کے بارے میں مذکورہ بالا موقف مولانا محمد تقی عثمانی نے اختیار کیا ہے جس کی تفصیل حافظ محمد یوسف خاں کے مقالہ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ یاد رہے کہ ان کے ہاں ہاتھ سے بنائی جانے والی تصویر اور عام کیمرہ کی تصویر کی ممانعت برقرار ہے۔ البتہ جامعہ اشرفیہ، لاہور کا ٹی وی کے بارے میں فتویٰ قدرے مختلف ہے کہ آلہ لہو ولعب ہونے کی وجہ سے اس کو استعمال کرنا یا اس پر تصویر نشر کرنا درست نہیں۔ اور مولانا برہان الدین سنبھلی نے بھی اپنی کتاب میں یہی فتویٰ دیا ہے ۔ (دیکھیں’ موجودہ زمانہ کے مسائل کا شرعی حل‘: ص۲۰۴)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اس سلسلے میں بعض علما کے لئے ایک مشکل فقہاے اَربعہ کے اقوال کی کوئی مناسب توجیہ کرنا ہے کیونکہ فقہاے اربعہ حرمت ِتصویر کے مسئلہ پر متفق ہیں۔ چنانچہ حنفی بریلوی علما میں سے مثلاً مولانا شیخ الحدیث شیرمحمدخاں نے قرار دیا کہ جدید دور کی تصویر کو بعض قیود کے ساتھ جائز ہونا چاہئے اوراس احتمالی جواز کی گنجائش کے لئے عرف ورواج یعنی تبدیلی حالات کے تصور سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، اسی بنا پر فقہا کے فتاویٰ میں فی زمانہ گنجائش نکالی جاسکتی ہے۔ ا س سلسلے میں اپنے خطاب میں اُنہوں نے علامہ شامیؒ کی ذکر کردہ بہت سی مثالیں پیش کیں ـ۔ بہرحال توجیہ کے اس رجحان میں کئی ایک لوگ شامل ہیں جو مختلف شبہات (عکس، ہاتھ کا استعمال ) کے سہارے جدید آلاتِ تصویر کے استعمال کے لئے اصل حکم سے ہی گنجائش پیدا کرتے ہیں۔
الغرض اس گروہِ علما کے ہاں بھی تبلیغ اسلام کے لئے ٹی وی پر آنا جائز بلکہ ضروری ہے کیونکہ ٹی وی؍ ویڈیو کی صورت میں بالخصوص تصویر کی شرعی ممانعت ہی موجود نہیں۔ نتیجہ یہاں بھی آخرکار وہی ہے کہ’’ ٹی وی پرآنے کا شریعت میں اصلاً ہی جواز ‘‘پایا جاتا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تیسرا گروہ
اس سلسلہ میں آخری گروہ بعض عرب اہل علم کا ہے جن کے ساتھ متجددین بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ان میں ایک طبقہ تو ان مصری علما کا ہے جو علامہ قرضاوی کی سرپرستی میں تصویر کی حرمت کو اس کے اصل الفاظ کی بنا پر صرف ہاتھ سے بنائی جانے والی تصویر تک محدود کرنے کا میلان رکھتے ہیں اور ہر قسم کی فوٹو گرافی کو اصلاً جائز قرار دیتے ہیں۔
علامہ قرضاوی نے اپنی کتاب (الحلال والحرام في الإسلام) میں یہ موقف مصر کے ایک عالم محمدبخیت کی کتاب الجواب الشافي في إباحۃ التصویر الفوتوغرافي سے متاثر ہوکر اختیار کیا ہے۔ دیگر مصری علما میں شیخ سائس (آیات الاحکام: ۴؍۶۱) او رڈاکٹر احمد شرباصی (یسئلونک في الدین والحیاۃ: ۱؍۶۳۲) وغیرہ شامل ہیں۔
علاوہ ازیں اس موقف کے بعض راسخفکر علما بھی شکار ہوگئے ہیں، جن میں سعودی عرب کے شیخ ابن عثیمینؒ اور کویت کے شیخ عبد الرحمن عبد الخالق وغیرہ بھی شامل ہیں۔ ان کی نظر میں تصویر کی حرمت میں ہر قسم کی فوٹوگرافی بشمول ٹی وی ویڈیو وغیرہ سرے سے شامل ہی نہیں ہیں۔
دوسرے گروہ سے ان کے موقف میں فرق یہ ہے کہ یہ موجودہ دور کی ہرقسم کی فوٹو گرافی کو عکس کی بنا پرمستثنیٰ سمجھتے ہیں، جبکہ دوسرا گروہ کیمرے کی تصویر کو تو ناجائز خیال کرتا ہے لیکن ڈیجیٹل کیمرے اور ٹی وی؍ ویڈیو کو جائز قرار دیتا ہے۔
مزید برآں تیسرا گروہ جدید آلات کی تصاویر کو حرام تصویر ہی نہیں سمجھتابلکہ اسے عکس قرار دیتا ہے، جبکہ دوسرے گروہ کے لوگ اس میں تصویر کے بعض اوصاف مثلاً ثبوت ودوام نہ ہونے کے سبب اُنہیں تصویر کے شرعی حکم سے خارج سمجھتے ہیں۔
یہ اہل علم کہتے ہیں کہ مشابہت بہ خلق اللہ کا مسئلہ تو اس وقت پیدا ہوگا جب کوئی فرضی شخصیت ہو یا حقیقی شخصیت کی ہو بہو تصویر نہ بنے، جیسا کہ ہاتھ سے بنی ہوئی تصویر اصل کے بالکلیہ مطابق نہیں ہوتی۔ ان کی نظر میں ہاتھ کی بنائی ہوئی تصویر تو انسان کی ذہنی واردات ہے جبکہ فوٹو گرافی امر واقعہ کی حکایت ہے۔ چنانچہ ایسی تصویر جو اصل خلقت کا ہی عکس ہے، اس پر حدیث میں وارد یہ الٰہی اعتراض پیدا ہی نہیں ہوگا کہ وہ اس میں روح پھونک کردکھائے، یہ مشابہت نہیں بلکہ محض حبس الظل ہے۔
شیخ ابن عثیمین کی زبانی اس کی مثال ملاحظہ فرمائیں :
والأحادیث الواردۃ إنما ہي في التصویر الذي یکون بفعل العبد ویضاہي بہ خلق اﷲ ویتبین لک ذلک جیّدًا بما لو کتبَ لَکَ شخصٌ رسالۃً فصوَّرتہا في الآلۃ الفوتوغرافیۃ فإن ہذہ الصورۃ التي تخرج لیست ہي من فعل الذي أدار الآلۃ وحرکہا فإن ہذا الذي حرّک الآلۃ ربَّما یکون لا یعرف الکتابۃ أصلاً والناس یعرفون أن ہذا کتابۃ الأول والثاني لیس لہ أي فعل فیہا ولکن إذا صُوِّر ہذا التصویر الفوتوغرافي لغرض محرم فإنہ یکون حرامًا تحریم الوسائل
’’تصویر کے بارے میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں، وہ بندے کے ایسے فعل کے حوالے سے ہیں جس میں وہ اللہ کی خلقت کی مشابہت کرتا ہے۔یہ بات آپ بہتر جانتے ہیں کہ اگر کوئی شخص آپ کو خط لکھ کردے اور فوٹو گرافی کے آلہ(فوٹو سٹیٹ مشین) سے آپ اس کی تصویر بنائیں تو اس سے نکلنے والی تصویر اُس شخص کا فعل نہیں کہلاتی جس نے مشین کو چلایا اور اسے حرکت دی ہے۔کیونکہ بعض اوقات فوٹو کاپی کرنے والا شخص ایسا بھی ہوتا ہے جو سرے سے لکھنا ہی نہیں جانتا۔ لوگ جانتے ہیں کہ یہ فوٹو کاپی پہلے شخص کی ہی لکھائی ہے، اور دوسرے شخص کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔البتہ جب ایسی تصویر کو کسی حرام مقصد کے لئے بنایا جائے تو پھر یہ تصویر سد ِذریعہ کے طورپر حرام قرار پائے گی۔‘‘
ایک اور مقام پر علامہؒ نے احتیاطاً ایسی تصویر سے شبہ کی بنا پر گریز کا مشورہ دیا ہے۔ یعنی ان کے ہاں فتویٰ تو ایسی تصویر کے جواز کا ہے ، البتہ تقویٰ کے پہلو سے بچنا بہتر ہے۔
یہ موقف رکھنے والے گروہ پرپاکستان کے اہل علم مثلاً مولانا گوہر رحمن وغیرہ کے علاوہ عالم عرب کے متعدد علما مثلاً شیخ ابن باز، شیخ صالح فوزان اور شیخ محمد علی الصابونی وغیرہ نے کڑی تنقید کرتے ہوئے اس استدلال اور مثال کو ساقط الاعتبار قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مذکورہ بالا مثال کو اگر تسلیم بھی کرلیا جاے تو یہ مشابہت بہ خلق اللہ کی علت کو رفع کرنے کی حد تک ہی مؤثرہے جبکہ ایسی تصویر میں ذریعہ شرک بننے یا نحوست کا سبب بدستور برقرار رہتا ہے۔ علاوہ ازیں اس بنا پر تو ایسے مصور کے فعل کو ہی حرام ہونا چاہئے جو فرضی تصویریں بناتا ہو، جبکہ ایسا مصور جو کسی جاندار کی صد فیصد تصویر بنانے پر قادر ہو، اس پر یہ حرمت لاگو نہیں ہونی چاہئے، وغیرہ۔
دراصل یہ مثال ہی درست نہیں ہے کیونکہ کوئی شخص قتل کرنے کی قوت نہ رکھتے ہوئے بھی ریوالور کے ذریعے اگر دوسرے کو قتل کردے تو اس صورت میں اسے ہی قاتل سمجھا جائے گا، ریوالور کو نہیں۔
سعودی عرب کے عالم شیخ صالح فوزان نے اس پرپانچ اعتراضات عائد کرتے ہوئے آخر کار یہی نتیجہ قرار دیا ہے کہ
فتبیَّن مما تقدَّم أن التصویر بجمیع أنواعہ تماثیل أو غیر تماثیل، منقوشًا بالید أو فوتو غرافیًا مأخوذًا بالآلۃ کلہ حرام وأن کل من حاول إباحۃ شيء منہ فمحاولتہ باطلۃ وحجتہ داحضۃ (حکم التصویر: ص ۵۸)
’’مندرجہ بالا بحث سے ثابت ہوا کہ تصویر کی ہر نوع حرام ہے، چاہے وہ مجسّمے ہوں یا اس کے علاوہ۔ ہاتھ سے بنائی گئی ہو یا آلہ کے ذریعے فوٹوگرافی ہو، سب تصاویر حرام ہیں۔ اور جو شخص بھی ان میں سے کسی تصویر کو جائز کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی یہ کوشش باطل اور اس کی دلیل غیر معتبر ہے۔‘‘
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top