• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابن تيميہ رحمہ اللہ،مختصر تعارف

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
امام ابن تيميہ رحمہ اللہ،مختصر تعارف

شيخ الاسلام تقي الدين ابو العباس احمد بن عبد الحليم بن عبد السلام بن عبد اللہ بن الخضر بن محمد بن الخضر بن علي بن عبد اللہ ابن تيميہ نميرى ، حرانى، دمشقى ، حنبلى ، عہد مملوكى كے نابغہ روزگار علماء ميں سے تھے ۔ اللہ تعالى نے انہيں ايك مجدد كى صلاحيتوں سے نوازا تھا ۔آپ نے عقائد ، فقہ، رد فرق باطلہ، تصوف اور سياست سميت تقريبا ہر موضوع پر قلم اٹھايا اور اہل علم ميں منفرد مقام پايا ۔ آپ بہت فصيح اللسان اور قادر الكلام تھے ۔ علم وحكمت، تعبير وتفسير اور علمِ اصول ميں انہيں خاص مہارت حاصل تھي ۔اپنے والد كى وفات كے بعد دمشق كے دارالحديث السكرية كى مسندِ حديث پر جب آپ نے پہلا درس ديا، اس وقت آپ كى عمر بيس سال كے قريب تھي، اس ميں قاضي القضاة اور ديگر مشايخ زمانہ موجود تھے ۔آپ نے صرف بسم اللہ الرحمن الرحيم كے بارے ميں اتنے نككات بيان كيے کہ سامعين دنگ رہ گئے ۔ شيخ الاسلام تاج الدين فزارى شافعى ( م 690 ہجرى) نے ان كا پورا درس حرف بحرف قلم بند كر كے دارالحديث السكرية كے كتب خانہ ميں محفوظ كروا ديا ۔

ذہانت اور بےپناہ علمى قابليت كے ساتھ ساتھ آپ کي زندگي جہدِ مسلسل سے عبارت تھي ۔ آپ نے اپنے دور كے كئى علماء كے ساتھ علمى مناظرے بھي کيے اور حكومتِ وقت كے ساتھ مل كر تاتاريوں اور باغيوں کے خلاف عملى جہاد ميں بھي حصہ ليا ۔

نفاذِ شريعت كى كوششوں كے سلسلہ ميں آپ كو كئى تجاويز وشكايات لے كر وفود كے ساتھ حكام كے پاس جانے كا موقع بھي ملا۔ آپ كا انداز محققانہ اور محتاط تھا ۔ايك مرتبہ آپ كو قاضى كا عہدہ بھي پيش كيا گيا مگر آپ نے حكومتى شرائط سے متفق نہ ہونے كى وجہ سے اسے قبول نہيں کيا۔

موصوف كى انسانيت دوستى كا يہ عالم تھا کہ شام كے جنگي قيديوں كى رہائي كے ليے تاتارى مسلمان بادشاہ غازان كے پاس جا پہنچے ۔ اس نے آپ کے احترام ميں صرف مسلمان قيديوں كى رہائي كا اشارہ ديا تو آپ اس پر راضى نہ ہوئے اور يہ کہہ كر سب قيديوں كى رہائي پر اصرار كيا كہ يہودي اور نصرانى بھي ہماري رعايا ہيں اور ان كے جان ومال كى حفاظت ہم پر ضرورى ہے چنانچہ سبھي كو رہا كر ديا گيا ۔

آپ بےباك اس قدر تھے كہ 27 ريع الاول 699 ہجرى كو جب شام كے شہر حمص اور سلميہ کے درميان وادى خازندار ميں تاتارى سلطان غازان اور سلطانِ مصر ملك ناصر محمدبن قلاؤن كے درميان سخت لڑائي كے نتيجے ميں بہت تباہي ہوئي ، مصرى اور شامى فوجوں كا بہت نقصان ہوا اور ملك ناصر بھي فرار ہو كر قاہرہ پہنچ گئے تو امام ابن تيميہ رحمہ اللہ مشائخ دمشق كو لے كر 3 ربيع الثاني 699 ہجري كو بعلبك كے قريب تاتارى بادشاہ غازان سے ملاقات كرنے پہنچ گئے ۔ انہوں نے بادشاہ کے سامنے بہت پر حوش انداز ميں عدل وانصاف كى خوبياں بيان كيں اور اس كے آباؤ اجداد كے مظالم كے ساتھ ساتھ ان كے بعض اصولوں اور وفائے عہد كا تذكرہ كيا ۔ غازان اگرچہ اس سے قبل ہي مسلمان ہو چکا تھا مگر تاتارى اور غيرتاتارى كى لڑائي تسلسل سے جارى تھي ۔ آپ كى تقريريں اس قدر سخت اور جملے اس قدر تندوتيز تھے كہ پورے وفد كو آپ کے قتل ہو جانے كا يقين ھو چلا تھا ۔ غازان نے انہيں قتل كرنے كى بجائے اپنے امراء كے سامنے ان كى بےباكى اور شجاعت كى تعريف كى اور ان سے دعاؤں كى درخواست كى ۔امام ابن تيميہ رحمه اللہ نے اس كے ليے يہ دعا كى :

" اے اللہ اگر تو جانتا ہے كہ غازان تيرا كلمہ بلند كرنے كے ليے لڑ رہا ہے اور وہ تيرى راہ ميں جہاد کے ليے نكلا ہے تو تو اس كى مدد كر ۔اور اگر تيرے علم ميں ہے کہ وہ مال ودولت حاصل كرنے كے ليے نكلا ہے تو اس كو اس كى پوري جزا عطا كر ۔"

غازان اس پوري دعا پر آمين كہتا رہا !

آپ كى حق گوئي اور بے نفسى كا يہ عالم تھا كہ غازان نے آپ كے وفد كے ليے دسترخوان لگوايا مگر آپ نے وہاں كھانے سے انكار كرديا اور كہا: "ميں يہ کھانا كيسے کھا سکتا ہوں جب كہ اس كو لوٹ کھسوٹ كے مال سے تيار كيا گيا ہے ؟"

امام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے كسى کے خوف اور دباؤ كي پرواہ كيے بغير اپني منفرد علمى تحقيقات كى اشاعت كى ۔ اپنے بعض علمى مباحثوں اور فتووں كى وجہ سے آپ كو ايك مدت تك قيد وبند كى صعوبتيں بھي برداشت كرنا پڑيں، حتى كہ جب داعئ اجل كو لبيك كہنے كا وقت آيا تو آپ زندگي كى آخرى قيد برداشت كر رہے تھے اور آپ كا جنازہ جيل ہي سے نكلا ۔ آپ كى كل مدت قيد سوا چھ سال بنتى ہے ۔

خير الدين زركلى نے دُرر كے حوالہ سے لکھا ہے كہ آپ كى تصانيف چار ہزاراجزاء سے متجاوز ہيں ۔ فوات الوفيات ميں ان كى تعداد تين سو مجلد منقول ہے ۔ ان ميں سے آپ كا ايك مبسوط فتاوى ، الجوامع، السياسة الشرعية ، الجمع بين العقل والنقل، الصارم المسلول على شاتم الرسول، رفع الملام عن الأئمة الأعلام، مجموعة الرسائل والمسائل بھي ہيں ۔

آپ کے حالات زندگي پر ابن قدامہ نے العقود الدرية في مناقب شيخ الإسلام أحمد بن تيمية ، شيخ مرعى حنبلى نے الكوكب الدرية ، سراج الدين عمر البزار نے الأعلام العلية في مناقب ابن تيمية ، عبدالسلام حافظ نے الإمام ابن تيمية ، شيخ محمد ابو زہرہ نے ابن تيمية ؛ حياته وعصره_ آراؤه وفقهه، اور اسى طرح شہهاب الدين أحمد بن يحيى بن فضل الله العمري، ابو عبدالله محمد بن أحمد بن عبدالهادي الحنبلي، وغيره كئى اہل علم نے عليحدہ عليحدہ كتابيں لکھيں ۔اردو ميں آپ كى سوانح پرڈاکٹر غلام جيلانى برق كى كتاب امام ابن تيميہ، افضل العلماء محمد يوسف كوكن عمرى كى مبسوط كتاب امام ابن تيميہ، اور مولانا ابو الحسن على ندوى كى كتاب تاريخ دعوت وعزيمت جلد دوم بہت مفيد ہيں۔


مقالہ نگار: حافظ اکرام الحق يسين
 

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
جب شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا انتقال ھو گیا تو دمشق کی مرد وخواتین بچے بوڑھے اور جوان سب اس کی جنازے میں شریک ھوگیے یہ دمشق کا سب سے بڑا جنازہ تھا صرف دمشق کی جامع مسجد کا امام نھی آیا کیونکہ وہ بدعتی تھا
 
شمولیت
مارچ 03، 2016
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
21
چار ہزار سے زائد کتب کی تصنیف! ماشاء اللہ۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی عمر کتنی تھی؟
اور کتاب عقیدہ واسطیہ آپ نے کتنے وقت میں تصنیف کی تھی؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اورتقلید


سوال: محترم حافظ زبیر علی زئی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ،
دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو قرآن و سنت کا پابند بنائے رکھے اور ہم سے اپنے دین کی خدمت لے ہماری طاقت کے مطابق ۔ محترم حافظ صاحب چند سوالات ہیں مہربانی فرما کر ان کے جوابات مفصل دیئے جائیں ۔ جوابات دینے میں تھوڑی دیر ہوجائے تو کوئی بات نہیں جواب مفصل ہونے چاہئیں اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ (آمین)
۱۔ حافظ ابن تیمیہؒ، حافظ ابن قیمؒ ، ان کا مسلک ان کی کتابوں سے باحوالہ نقل فرمائیں۔ یہ مقلد تھے یا غیر مقلد ۔
۲۔ نیز یہ بھی بتائیں کہ کیا ان کتابوں میں شرک وغیرہ ثابت کیا جا سکتا ہے ۔ بریلوی (حضرات) کتاب الروح وغیرہ سے ان کا یہ عقیدہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ مردوں کے سننے اور مد د مانگنے کے قائل تھے۔ کیا ن کی مزید (دوسری) کتابوں میں، مردے اور غائب سے مدد مانگنا ، ناجائز یا شرک لکھا ہوا موجود ہے ۔ اگر ہے تو باحوالہ لکھیں۔ ایک بریلوی دوست کہتا ہے کہ ہمارا عقیدہ ابن تیمیہ اور ابن قیم سے ملتا ہے ۔ کیا واقعی یہ بات درست ہے اگر نہیں تو وضاحت فرمائیں۔ اگر ان میں سے کوئی سوال الحدیث کیلئے موزوں ہوتو ضرور شائع کیجئے۔
جزاک اللہ خیراً

۳۔ بریلوی دوست کہتا ہے کہ محمد بن عبدالوہاب سے پہلے کسی نے قبروں سے اور غائب سے مدد مانگنا شرک نہیں لکھا۔ کیا یہ بات درست ہے اگر نہیں تو اللہ آپ کو بہترین جزا عطا فرمائے ۔ کم از کم دس قدیم مفسرینِ قرآن و حدیث کے حوالہ جات لکھیں جنہوں نے غائب یا فوت شدہ سے مانگنا شرک لکھا ہو۔ یاد رہے کہ اہم مفسرین کے اقوال ہوں۔
۴۔ حدیث کہ جب تم کسی ویران جگہ پر ہو اور تمہاری سواری گم ہوجائے تو پکارو (اے اللہ کے بندو میری مدد کرو۔) اس کی سند اگر ضعیف ہے (تو) ثابت کریں، تمام طرق کے بارے میں بتائیں۔ جن محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔ ان کے اقوال باحوالہ بتائیں نیز یہ بھی بتائیں کہ کیا کسی اہم مفسر نے (سوائے غلام رسول سعیدی بریلوی کے) شارح مسلم، کسی نے اس حدیث سے قبروں یا غائب سے مدد مانگنا ثابت کیا ہے ؟
فضیلۃ الشیخ یہ سوال بہت اہم ہے مفصل جواب دیجئے گا۔ اللہ آپ کو علم و عمل میں برکت دے اور دنیا اور آخرت میں آپ کےلئے آسانیاں پیدا فرمائے ۔ والسلام خادم العلم و العلماء ابو علی اسد ندیم
الجواب:
۱: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ ، حافظ ابن تیمیہؒ مشہور عالم بلکہ شیخ الاسلام تھے۔ ان کا مقلد ہونا قطعاً ثابت نہیں ہے بلکہ حافظ ابن القیمؒ لکھتے ہیں کہ :
ولقد أنکر بعض المقلدین علی شیخ الاسلام فی تدریسہ بمدرسۃ ابن الحنبلي وھي وقف علی الحنابلۃ، والمجتھد لیس منھم، فقال: إنما أتناول ما أتناولہ منھا علی معرفتي بمذھب أحمد، لا علیٰ تقلیدي لہ

اور بعض مقلدین نے شیخ الاسلام (ابن تیمیہ) پر اعتراض کیا کہ وہ مدرسہ ابن الحنبلی میں پڑھاتے ہیں حالانکہ یہ مدرسہ حنابلہ پر وقف ہے اور مجتہدان (حنبلیوں و مقلدین) میں نہیں ہوتا، تو انہوں نے فرمایا: میں اسے احمد (بن حنبل) کے مذہب کی معرفت پر استعمال کرتا ہوں، میں اس (احمد) کی تقلید نہیں کرتا۔
(اعلام الموقتین ۲۴۲،۲۴۱/۲ مطبوعہ دارالجیل بیروت لبنان، الرد علی من أخلد إلی الأرض للسیوطی ص ۱۶۶)
دلیل دوم: حافظ ابن تیمیہؒ کے شاگرد حافظ ذہبیؒ ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :
الشیخ الإمام العلامۃ الحافظ الناقد (الفقیہ) المجتھد المفسر البارع شیخ الإسلام عَلم الزھاد نادرۃ العصر….(تذکرۃ الحفاظ ۱۴۹۶/۴ ت ۱۱۷۵)

معلوم ہوا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ حافظ ذہبی کے نزدیک مجتہد تھے۔ یہ بات عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ مجتہد تقلید نہیں کرتا۔
طحطاوی حنفی نےطبقۃ المجتھدین فی الشرع کا لأربعۃ وأمثالھم” کے بارے میں لکھا ہے کہ :”وھم غیر مقلدین اور وہ غیر مقلد ہیں (حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار ۵۱/۱)
ماسٹر محمد امین اوکاڑوی دیوبندی حیاتی لکھتے ہیں کہ:
“جو شخص خود مجتہد ہوگا وہ خود قواعد شرعیہ سے مسئلہ تلاش کرکے کتاب و سنت پر عمل کرے گا” (تحقیق مسئلہ تقلید ص ۵ مجموعہ رسائل ۲۱/۱ مطبوعہ ، اکتوبر ۱۹۹۱ء گوجرانوالہ)

دلیل سوم: کچھ لوگ یہ کہتے رہتے ہیں کہ عوام پر فلاں (مثلاً امام ابوحنیفہؒ) یا فلاں کی تقلید واجب ہے ۔ ان لوگوں کی تردید کرتے ہوئے حافظ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ:
وأما أن یقول قائل: إنہ یجب علی العامۃ تقلید فلان أو فلان فھذا لا یقولہ مسلم
اور اگر کوئی کہنے والا کہے کہ عوام پر فلاں یا فلاں کی تقلید واجب ہے ، تو ایسی بات کوئی مسلم نہیں کہتا۔ (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ۲۴۹/۲۲)معلوم ہوا کہ حافظ ابن تیمیہ کے نزدیک کوئی مسلمان بھی وجوب تقلیدِ فلاں کا قائل نہیں ہے۔
دلیل چہارم: جو شخص (تقلید کرتے ہوئے) کسی ایک امام کے لئے تعصب کرتا ہے (جیسا کہ آلِ دیوبند وغیرہ کا طریقۂ کار ہے) تو ایسے شخص کو امام ابن تیمیہ کالر افضي…. جاھلاً ظالماً” قرار دیتے ہیں دیکھئے مجموع فتاویٰ (۲۵۲/۲۲) یعنی ان کے نزدیک ایسا شخص جاہل ، ظالم اور رافضیوں کی طرح ہے ۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام ابن تیمیہؒ مقلد نہیں تھے بلکہ متبع کتاب و سنت تھے والحمدللہ۔
۲: حافظ ابن القیم نے ایک مستقل کتاب “اعلام الموقعین” تقلید کے رد پر لکھی ہے جو یہاں سے ڈاؤنلوڈ کی جا سکتی ہے۔ اس کتاب کا نام جلال الدین سیوطی (متوفی ۹۱۱؁ھ) “ذم التقلید” بتاتے ہیں (دیکھئے الرد علی من أخلد إلی الأرض ص ۱۶۶)
دلیل پنجم: حافظ ابن القیم الجوزیہ تقلید کے بارے میں فرماتے ہیں کہ :
وإنما حدثت ھذہ البدعۃ فی القرن الرابع المذموم علی لسان رسول اللہ ﷺ
اور یہ بدعت تو چوتھی صدی (ہجری) میں پیدا ہوئی، جس کی مذمت رسول اللہ ﷺ نے اپنی (مبارک) زبان سے بیان فرمائی ہے ۔(اعلام الموقعین ۲۰۸/۲)
معلوم ہوا کہ مروجہ تقلید امام بن القیم کے نزدیک بدعت مذمومہ ہے ۔ لہذا ثابت ہوا کہ وہ بذاتِ خود حنبلی مقلد ہرگز نہیں تھے بلکہ مجتہد و متبع کتاب و سنت تھے، والحمدللہ۔
فائدہ: دیوبندیوں اور بریلویوں کے بزرگ ملا علی قاری حنفی (متوفی ۱۰۱۴؁ھ) لکھتے ہیں کہ :
ومن طالع شرح منازل السائرین تبین لہ أنھما کانا من أکابر أھل السنۃ و الجماعۃ ومن أولیاء ھذہ الأمۃ اور جو شخص شرح منازل السائرین کا مطالعہ کرے تو اس کے لئے واضح ہوجائے گا کہ وہ دونوں (ابن تیمیہ اور ابن القیم) اہل سنت و الجماعت کے اکابر اور اس امت کے اولیاء میں سے تھے ۔ (جمع الوسائل فی شرح الشمائل ۲۰۷/۱)

۳: میرے علم کے مطابق ابن تیمیہ اور ابن القیم رحمہما اللہ کی کتابوں میں شرک اکابر کا کوئی ثبوت نہیں ہے ، تاہم ابن القیم کی ثابت شدہ “کتاب الروح” اور دیگر کتابوں میں ضعیف و مردود روایات ضرور موجود ہیں۔ یہ دونوں حضرات مردوں سے مدد مانگنے کے قائل نہیں تھے ، رہا مسئلہ سماع موتیٰ کا تو یہ سلف صالحین کے درمیان مختلف فیہا مسئلہ ہے ، اسے کفر و شرک سمجھنا غلط ہے۔ صحیح اور راجح یہی ہے کہ صحیح احادیث سے ثابت شدہ بعض مواقع مخصوصہ کے علاوہ مُردہ کچھ بھی نہیں سنتا۔
آپ کے بریلوی دوست کا یہ دعویٰ کہ “ہمارا عقیدہ، ابن تیمیہ اور ابن قیم سے ملتا ہے ” محتاج دلیل ہے ۔ اس سے کہیں وہ اپنے مشہور عقائد مثلاً وجوب تقلید ابی حنیفہ، حاضر ناظر ، نور من نور اللہ اور علم الغیب وغیرہ مسائل کا مدلل وباحوالہ ثبوت ابن تیمیہ و ابن القیم سے پیش کریں تاکہ مزید بحث و تحقیق جاری رکھی جاسکے ۔
۴: بریلوی دوست کو کہیں کہ وہ کسی ایک ثقہ و مستند امام ، جوکہ محمد بن عبدالوہابؒ سے پہلے گزرا ہے،سے صرف ایک حوالہ ثابت کردے کہ قبروں سے مدد مانگنا صحیح ہے یا شرک نہیں ہے ۔ شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہابؒ کی پیدائش سے صدیوں پہلے شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ (متوفی ۷۲۸؁ھ) نے ایک کتاب “الجواب الباھرفی زوار المقابر ” لکھی ہے جس میں قبرپرستوں کا زبردست رد کیا ہے۔
جو لوگ آپﷺ کی قبر کی طرف رخ کرکے سلام (السلام علیک) کی اونچی آوازیں بلند کرتے ہیں ان کے بارے میں ابن تیمیہؒ نے لکھا ہے :بل ھذہ بدعۃ لم یستحبھا أحد من العلماء بلکہ یہ بدعت ہے ، علماء میں سے کسی ایک نے بھی اسے مستحب قرار نہیں دیا (الجواب الباھر ص ۹ ، مطبوعہ: الریاض ، جزیرۃ العرب/ السعودیہ)
جو لوگ قبروں پر جاکر انہیں پکارتے ہیں (ویدعونہ ویحبونہ مثل ما یحبون الخالق) انہیں ابن تیمیہ نےأھل الشرک قرار دیا ہے (الجواب الباھر ص ۲۱)
یہ ساری کتاب پڑھنے کے لائق ہے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے قبر پرستی کو پہلا سبب شرک (ھو أول أسباب الشرک فی قوم نوح) قرار دیا ہے (الجواب الباھر ص ۱۲)
شیخ الاسلام سے صدیوں پہلے سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ نبی ﷺ کی قبر کو چھونا مکروہ سمجھتے تھے۔ أن ابن عمر کان یکرہ مس قبر النبیﷺ (جزء محمد بن عاصم الثقفی الاصبہانی : ۲۷ و سندہ صحیح ، أبو أسامۃ برئي من التدلیس)
فائدہ: ابن قدامہ الحنبلی (متوفی ۶۲۰؁ھ) نے قبروں پر چراغ جلانے سے منع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
وافراطاً فی تعظیم القبور أشبہ تعظیم الأصنام..” اور قبروں کی تعظیم میں یہ افراط ہے، یہ بتوں کی تعظیم سے مشابہ ہے (المغنی ۱۹۳/۲ مسئلہ: ۱۵۹۴)

سورت یونس کی ایک آیت (۱۰۱) کی تشریح میں مفسر ابن جریر طبری (متوفی ۳۱۰؁ھ) فرماتے ہیں:یقول تعالیٰ ذکرہ ولا تدع یا محمد من دون معبودک و خالقک شیئاً فی الدنیا ولا فی الآخرۃ….” إلخاللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد(ﷺ) اپنے معبود اور خالق (اللہ) کے علاوہ دنیا و آخرت میں کسی چیز کو بھی (مافوق الاسباب) نہ پکارو إلخ (تفسیر طبری ۱۲۲/۱۱)قدیم مفسرین میں سے صرف اسی ایک ثقہ مفسر کا حوالہ کافی ہے ۔ جو لوگ قبر پرستی کو جائز سمجھتے ہیں ان سے مطالبہ کریں کہ صرف ایک قدیم ثقہ مفسر سے قبرپرستی کا جواز ثابت کریں۔
ابن تیمیہ نے ان لوگوں کو مشرک قرار دیا ہے جو قبر والوں کو (مدد کے لئے) پکارتے ہیں، دیکھئے کتاب الرد علی الاخنائی (ص ۵۲) اور مجموع فتاویٰ (۲۵۶/۲۷)
۵: آپ کی بیان کردہ روایت اپنی مختلف سندوں کے ساتھ مسند ابی یعلیٰ، المعجم الکبیر للطبرانی اور مسند البزار وغیرہ میں موجو دہے۔اس کی تمام سندیں ضعیف ہیں دیکھئے السلسلۃ الضعیفۃ للالبانی (۱۰۸/۲۔۱۱۲ ح ۶۵۵،۶۵۶)
مسند بزار والی سند شیخ البانی کے نزدیک شاذ ہونے کی وجہ سے مردود ہے ۔ حافظ بذاتِ خود متکلم فیہ ہیں۔ حافظ دارقطنیؒ نے ان کے بارے میں فرمایا:ثقۃ یخطئ کثیراً ویتکل علی حفظہ (سؤالات حمزۃ بن یوسف الھمي للدارقطنی:۱۱۶)
اور فرمایا:یخطئ فی الاسناد و المتن، حدث بالمسند بمصر حفظاً، ینظر فی کتب الناس و یحدث من حفظہ، ولم تکن معہ کتب فأخطأ فی أحادیث کثیرۃ، یتکلمون فیہ، جرحہ أبوعبدالرحمٰن النسائي (سوالات الحاکم للدارقطنی: ۲۳)ابو احمد الحاکم سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا:”یخطیٔ فی الإسناد و المتن” (دیکھئے لسان المیزان ۲۳۷/۱)بزار کو خطیب بغدادی، ابوعوانہ صاحب المسند ، وغیرہما نے ثقہ و صدوق قرار دیا ہے ۔
فقط والسلام (۲۵ ذوالقعدہ ۱۴۲۶؁ھ)
ربط۔۔۔۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی شخصیت اور علمی خدمات کا تعارف
از فضیلۃ الشیخ عزیر شمس حفظہ اللہ۔
اہم باتیں جو اس تقریر میں زیر بحث رہیں:
ابن تیمیہ کا علمی نبوغ
جرأت و بہادری
قید و بند کی صعوبتیں
تصنیفی ملکہ کی کچھ مثالیں
ابن تیمیہ کی تصنیفات کی تعداد
مفقود ومطبوع کتابیں
مجموع الفتاوی کے علاوہ ابن تیمیہ کی تصنیفات
ابن تیمیہ کی تصنیفات کے اعداد و شمار کرنے والے کچھ اہم نام
کتابیں جو مجموع الفتاوی سے پہلے پڑھنی چاہییں۔
ابن تیمیہ اور ایک مستشرق کی بوکھلاہٹ
برصغیر میں ابن تیمیہ کی کتب
دمشق میں تصنیف کردہ کتب
مصر میں تصنیف کردہ کتب
دمشق واپسی اور اس زمانے کی تصانیف
تحریروں کی نوعیت :فتوی نویسی ، شرح ، ردو و تنقید ، مکاتیب و خطوط
ابن تیمیہ کی رواداری
ابن تیمیہ کی تصانیف پڑھنے کا طریقہ
ابن تیمیہ کی کتب کے ساتھ کھلواڑ کی کچھ مثالیں​
بعض شخصیات کے نام جو اس تقریر میں آئے:
ابن قیم ، ابن عبد الہادی ، ابن رشیق ، ابن المحب ، علامہ سبکی، امام رازی، مجد ابن تیمیہ،صلاح الدين صفدی، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی ، علامہ رشید رضا ، صلاح الدین المنجد، شیخ عبد الرحمن فریوائی ، ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری، مولانا ابو المکرم عبد الجلیل، مولانا شمس تبریز ندوۃ العلماء، مولانا داود راغب ، ابوالکلام آزاد، مولانا شبلی نعمانی ، مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی، ابوبکر غازیپوری دیوبندی​
 
Last edited:
Top