• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابن عبد البر اور ’ التمہید ‘ کا مختصر تعارف

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
امام ابن عبد البر اور ’ التمہید ‘ کا مختصر تعارف

تحریر : حافظ خضر حیات ، جامعہ اسلامیہ ، مدینہ منورہ
امام ابن عبد البر کا تعارف
نام و نسب اور کنیت وغیرہ :
ابو عمر یوسف بن عبد اللہ بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمری الاندلسی القرطبی المالکی۔ (سیر اعلام النبلاء ( 18 / 153 )
ولادت باسعادت :
آپ قرطبہ میں 368 ھ میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے شاگرد طاہر بن مفوز کا بیان ہے ، میں نے شیخ کو یہ فرماتے سنا کہ میرے والد صاحب کی تحریر کے مطابق میں 368 ھ ربیع الآخر کی 25 تاریخ کو جمعہ کے دن پیدا ہوا ، جب امام خطبہ دے رہا تھا ۔( الصلۃ لابن بشکوال 2 / 642 ، تاریخ الإسلام 10 / 199 )
تحصیل علم :
امام صاحب کا تعلق ایک علمی خانوادے سے تھا ، آپ کے والد گرامی عبد اللہ اور جد امجد محمد دونوں ہی وقت کے علماء میں شمار ہوتے تھے ، اسی لیے صغر سنی میں ہی طلب علم کی طرف متوجہ ہوگئے ، کبار علماء سے کسب فیض کیا ، گو اندلس سے باہر نہیں گئے ، لیکن قرطبہ وغیرہ میں آنے والے اکابرین اہل حدیث سے خوب خوب استفادہ کیا ۔ ( بغیۃ الملتمس 489 )
حافظ ذہبی لکھتے ہیں : آپ نے تقریبا 380 میں جبکہ حافظ بغدادی ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے ، علم حدیث حاصل کرنا شروع کردیا تھا ۔ ( تاریخ الاسلام 10 / 199 )
ابھی آپ صغر سنی میں ہی تھے کہ پہلے والد گرامی اور پھر دادا جان وفات پاگئے ، اس لیے محسوس یہی ہوتا ہے کہ ان دونوں سے باقاعدہ درس نہیں لے سکے ، البتہ وقت کے کبار علماء کرام آپ کے اساتذہ کرام میں شمار کیے جاتے ہیں ، جیساکہ أبو الولید ابن الفرضی (403 ھ ) ، أبو القاسم ابن الدباغ ( 430 ھ ) ، أبو عمر الطلمنکی ( 429 ھ ) ، اور ابو الید الباجی ( 476 ھ ) وغیرہم ۔ ( الصلۃ 1 / 249 ، بغیۃ الملتمس 289 )
آپ کے تلامذہ میں بھی ابن حزم (456ھ) ، أبو عبد اللہ الحمیدی ( 473ھ ) ، أبو علی الغسانی ( 498 ھ ) جیسے جلیل القدر نام شامل ہیں ۔
تصنیف و تالیف :
حافظ ابن عبد البر ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں ، جنہیں اللہ تعالی نے علم و فضل کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا بھی خصوصی ملکہ عطا فرمایا تھا ، حافظ ذہبی لکھتے ہیں :
’ آپ تالیف میں توفیق و مدد ایزدی سے سرفراز تھے ، اللہ تعالی نے آپ کی تالیفات کو نفع مند بنایا ، علم الاثر میں امامت ، فقہ و معانی حدیث میں بصیرت کے ساتھ ساتھ علم الانساب وغیرہ میں بھی ید طولی رکھتے تھے ‘ ( سیر اعلام النبلاء 18 / 158 )
مختلف علوم و فنون میں آپ کی تصنیفات و تالیفات کی لمبی چوڑی فہرست ہے ، جن میں سے چند مشہور درج ذیل ہیں ، موطا کی شرح التمہید(اس کا تعارف آگے آئے گا إن شاءاللہ) ، الاستذکار لمذاہب علماء الأمصار ، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب ، علم کی فضیلت و اہمیت میں جامع بیان العلم و فضلہ ، الإنباہ عن قبائل الرواۃ اور الانتقاء لمذاہب الثلاثۃ العلماء ۔
امام صاحب کا عقیدہ :
امام صاحب مجموعی طور پر سلفی عقیدہ رکھنے والے تھے ، علماء کرام نے عقیدہ میں انہیں کبار علماء اہل سنت میں شمار کیا ہے ، حافظ ابن قیم نے اپنی کتاب ’ اجتماع الجیوش الإسلامیۃ ( 2 / 143 ) ‘ میں ان کا موقف ذکر کرتے ہوئے انہیں ’ بخاریِ مغرب ‘ اور ’ امامِ اہل سنت ‘ جیسے عظیم الشان القاب سے یاد کیا ہے ۔
اپنی کتاب الاستذکار (6 / 129) میں فرماتے ہیں :
’ہدایت محض اتباع کتاب اللہ میں ہے اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے جس سے کتاب کی مراد متعین ہوتی ہے ‘
’حدیث نزول ‘ کے متعلق رقمطراز ہیں :
’اس حدیث کی صحت میں اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں ، اور یہ اہل سنت و الجماعت کی معتزلہ کے خلاف دلیل ہے کہ اللہ تعالی آسمانوں میں عرش پر ہے ‘ ( التمہید 7 / 128 )
عقیدہ کے باب میں امام صاحب کی خدمات پر ایک مستقل تصنیف مطبوع ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ اہل سنت کے امام ہیں ، البتہ بعض مسائل جیسا کہ صالحین کی قبروں سے تبرک اور بعض صفات کی تاویل میں ان کا موقف اہل سنت سے موافقت نہیں رکھتا ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے : شیخ سلیمان بن صالح الغصن کی کتاب ’ عقیدۃ ابن عبد البر فی التوحید و الإیمان ‘ ۔
فقہی مسلک :
امام ابن عبدالبر دیگر ائمہ حدیث کی طرح کتاب وسنت کے پیروکار تھے ، علماء کے احترام کے ساتھ ساتھ قرآن وسنت کو سب سے مقدم رکھتے تھے ۔
اس طرح کے علماء کا چاہے کسی فقہی مذہب کی طرف انتساب ہو بھی تو وہ ایک اعزازی نسبت کی حد تک ہوتا ہے ، ورنہ تقلید میں مبتلا ہونا ایسے علماء کی شایان شان نہیں ہے ۔
امام صاحب کس مذہب کی طرف منتسب تھے ؟ اس میں اقوال ذرا مختلف ہیں :
برہان الدین الیعمری نے آپ کو مذہب مالکی کے کبار علماء میں شمار کیا ہے ۔ ( الدیباج المذہب فی أعیان المذہب 2 / 367 ) ، آپ خود بھی اپنی تصنیفات میں ’ اصحابنا المالکیۃ ‘ کا جملہ بکثرت استعمال کیا کرتے تھے ۔
آپ کے شاگرد حمیدی کے مطابق آپ امام شافعی کے اقوال کی طرف میلان رکھتے تھے (جذوۃ المقتبس 367 ) ، ابن سید الناس کے مطابق آپ شروع میں عرصہ دراز ظاہری رہے ، بعد میں قیاس کے قائل ہوگئے ، کسی کی تقلید نہیں کی ، البتہ بہت سارے مسائل میں مذہب شافعی کی طرف میلان رہا ( 18 / 160 )
حافظ ذہبی آپ کے فقہی مسلک کے متعلق لکھتے ہیں :
’ آپ ثقہ و متقن ، متبحر اور دین کی پاسداری کرنے والے امام ، صاحب حدیث و متبع سنت تھے ، کہا جاتا ہے کہ شروع میں منہج ظاہریہ کے مطابق نصوص پر کاربند رہے ، پھر مالکی مذہب اختیار کیا ، لیکن کئی مسائل میں فقہ شافعی کی طرف واضح میلان رہا ۔ امام صاحب کا یہ طریقہ کوئی اچھنبےکی بات نہیں ، کیونکہ آپ ائمہ مجتہدین کے درجہ پر فائز تھے ، آپ وسعت علم ، قوت فہم اور ذہانت میں کیا مقام رکھتے تھے ، آپ کی مصنفات کا مطالعہ کرنے والے کے لیے یہ سب باتیں واضح ہیں ۔ ‘ ( سیر اعلام النبلاء 18 / 157 )
خلاصہ یہ کہ ابن عبد البر چاہے مذہب مالکی کی طرف انتساب رکھتے ہیں ، لیکن ان کا طرز تحقیق اور اسلوب استدلال تمسلک بالکتاب والسنۃ اور اتباع دلیل ہی ہے ، کتاب و سنت ، اجماع و قیاس صحیح کے مقابلے میں کسی کے اجتہاد کو قبول نہیں کرتے ، چاہے جتنا بڑا عالم دین کیوں نہ ہو ، اور جس مرضی مسلک و مذہب سے تعلق رکھتا ہو ، ہاں البتہ مرجوح اقوال کی تردید میں ان کا اسلوب خالص عالمانہ اور منصفانہ ہے ، شاذ قسم کی آراء کو چھوڑ کر ہر قول کی مناسب توجیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ابن حزم اور ابن عبد البر دونوں تقریبا ایک ہی علاقے اور زمانے کی دو عبقری شخصیات ہیں ، لیکن دونوں کے طرز استدلال اور اسلوب تحقیق و تنقید میں بہت فرق ہے ، اس حوالے سے ’ منہج الاستدلال الفقہی عند ابن حزم و ابن عبد البر ‘ کے عنوان سے ایک علمی تحقیقی اور تجزیاتی مقالہ ہے ، جس کے مطالعہ سے دونوں ائمہ کرام کی شخصیات ، منہج اور اسلوب سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے ۔
وفات :
قرآن وسنت ، سیر و تاریخ ، اور دیگر علوم و فنون کی خدمت میں بھرپور زندگی گزار کر مغرب سے طلوع ہونے والا یہ آفتابِ علم و عرفان خود تو مغرب میں ہی غروب ہوگیا ، البتہ اس کے علم و فضل کی شعائیں رہتی دنیا تک جہانِ علم و فن کو روشن کرتی رہیں گی ۔ امام صاحب کی وفات اندلس کے معروف علاقے ’ شاطبہ ‘ میں 463 ھ کو ہوئی ، اس وقت آپ کی عمر 95 سال پانچ دن تھی ۔ ( سیر اعلام النبلاء 18 / 159 )​
حافظِ مشرق خطیب بغدادی بھی اسی سال اس جہان فانی سے رخصت ہوئے ۔ رحمہما اللہ رحمۃ واسعۃ و نفع بعلومہما .
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
’ التمہید ‘ کا تعارف
کتاب کا نام :
کتاب کا مکمل نام اس طرح ہے : ’ التمہید لما فی الموطاء من المعانی و الأسانید ‘ ۔ اور مختصرا ’ التمہید ‘ یا ’ تمہید ابن عبد البر ‘ سے معروف ہے ۔
امام صاحب نے کتاب کے اندر کہیں بھی مکمل یا مختصر عنوان کا تذکرہ نہیں کیا ، البتہ اپنی دیگر تصانیف میں اسے ’ التمہید ‘ کے نام سے ذکر کیا ہے ، ہاں البتہ امام صاحب کے سوانح نگاروں ، اور کتب فہارس و اثبات مرتب کرنے والوں میں سے بہت سارے بزرگوں نے کتاب کا مکمل نام ذکر کیا ہے ، جیسا کہ ابو نصر الحمیدی ، قاضی عیاض ، ابن خیر ، ابن خلکان وغیرہم ۔ کتاب کے مطبوعہ نسخوں پر بھی یہ مکمل نام موجود ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ موطا میں وارد احادیث کے معانی و مفاہیم کی تفہیم اور اسانید و طرق کی تحقیق و تدقیق پر مبنی ایک رہنما کتاب ۔
موضوع ، منہج اور محتویات کتاب :
امام صاحب نے کتاب کا آغاز کچھ اصولی مباحث سے کیا ہے ، جس میں حدیث مرسل ، مدلس ، منقطع و متصل ، صیغِ تحمل و ادا اور ان میں فرق جیسی مباحث کو زیر بحث لائے ہیں ، اور اس سلسلے میں مختلف محدثین و فقہاء کی آراء ذکر کی ہیں ، اس تمہیدی بحث کے آخر میں حدیث و سنت کی اہمیت اور اس کی حفاظت و تدوین میں علماء کرام کے اہتمام و عنایت کا تذکرہ کیا ہے ، پھر امام مالک رحمہ اللہ اور ان کی مایہ ناز کتاب موطا کے فضائل و خصائص رقم فرمانے کے بعد اپنی کتاب کا سبب تالیف یوں بیان کرتے ہیں :
’ میں اس کتاب میں ان تمام احادیث کو جمع کرنا چاہتا ہوں ، جو روایت یحیی لیثی کے مطابق موطا امام مالک میں مذکور ہیں ، ان کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہو ، چاہے وہ مسند ہوں ، یا مقطوع و مرسل وغیرہ ۔ ‘ (التمهيد (1/ 8)
گویا امام صاحب مرفوع احادیث کو زیر بحث لائیں گے ، موطا میں وارد آثار صحابہ و تابعین اس کتاب کے موضوع میں شامل نہیں ہیں ۔ اس کےلیے انہوں نے الگ سے ’ الاستذکار ‘ تصنیف فرمائی ہے ۔
اس کے بعد فرماتے ہیں :
’ میں نے یحیی بن یحیی لیثی کی روایت پر بنیاد اس لیے رکھی ہے ، کیونکہ ہمارے ہاں موطا کے یہ راوی ثقاہت و دیانت ، علم و فضل کے اعلی درجہ پر فائز ہیں ، اسی طرح ان کی روایت بھی ہمارے علماء و مشایخ میں بکثرت متداول ہے ، البتہ اگر احادیث احکام وغیرہ میں سے کوئی اہم حدیث اس روایت میں موجود نہ ہوئی ، تو پھر اسے دیگر روایات سے شامل کروں گا ۔‘ (التمهيد (1/ 10)
بطور شارح اپنا منہج یوں بیان کرتے ہیں :
’ احادیث کے معانی کے بیان میں ، احکامات کے استخراج میں ظاہر نص کے ساتھ فقہاء کے طریقہ کار کو بھی مد نظر رکھا ہے ، تاویل ، ناسخ و منسوخ وغیرہ میں علماء کے اقوال ذکر کیے ہیں ، تاکہ یہ چیزیں عام قاری اور طالبعلم کے لیے باعث اطمینان اور علماء کے لیے بصیرت میں اضافہ کا سبب بنیں ، معانی اور اسانید کے لیے بطور شواہد و قرائن ، منقولات میں سے جو کچھ یاد آیا ، ذکر کردیا کہ یہ چیزیں کتاب کی اہمیت میں اضافہ کا باعث ہیں ، مشکل الفاظ کی شرح میں اہل لغت کے اقوال پر اعتماد کیا ہے ، اور رواۃ کے احوال ذکر کرتے ہوئے ، ان کے انساب ، قدر و منزلت ، عمریں اور معلوم ہونے پر تاریخ وفات وغیرہ کی طرف اشارہ کردیا ہے ۔ ‘ (التمهيد (1/ 8)
علامہ ابن عبد البر نے اس کتاب کو اصل سے ہٹ کر امام مالک کے شیوخ کی ترتیب پر مرتب کیا ہے ، فرماتے ہیں :
جعلته على حروف المعجم[1] في أسماء شيوخ مالك رحمهم الله ليكون أقرب للمتناول
کتاب کو حروف معجم کے مطابق ترتیب دیا ہے ، تاکہ قاری کے لیے فائدہ اٹھانا آسان ہو ۔
مزید لکھتے ہیں :
ورتبت ذلك ( أي أحاديث شيوخ مالك ) مراتب قدمت فيها المتصل ثم ما جرى مجراه مما اختلف في اتصاله ثم المنقطع والمرسل
ہر شیخ کی احادیث کو بھی ترتیب سے ذکر کیا ہے ، پہلے متصل اور اس کے قائم مقام احادیث ، پھر منقطع اور مرسل احادیث ۔
متابعات و شواہد کے حوالے سے لکھتے ہیں :
’وصلت كل مقطوع جاء متصلا من غير رواية مالك وكل مرسل جاء مسندا من غير طريقه رحمة الله عليه فيما بلغني علمه وصح بروايتي جمعه ليرى الناظر في كتابنا هذا موقع آثار الموطأ من الاشتهار والصحة واعتمدت في ذلك على نقل الأئمة وما رواه ثقات هذه الأمة ‘ (التمهيد (1/ 9)
موطا میں موجود منقطع و مرسل احادیث اگر کہیں سے متصل و مسند مل سکی ہیں تو میں نے انہیں ذکر کردیا ہے ، اس سلسلے میں ، ائمہ کرام اور ثقہ رواۃ پر اعتماد کیا ہے ، تاکہ قاری کے ہاں موطا مالک کی احادیث کا شہرت و صحت کے اعتبار سے مقام واضح ہوسکے ۔
کتاب کی نوعیت و طبیعت کو صاحب کتاب کے الفاظ میں ذکر کرنے کے بعد مزید کھول کر درج ذیل نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے ۔
کتاب کا موضوع صرف مرفوع احادیث ہیں ، آثار صحابہ و تابعین اس میں شامل نہیں ۔
ورنہ موطا بروایۃ یحیی اللیثی میں آٹھ سو کے قریب آثار صحابہ و تابعین ہیں ، جبکہ مرفوع احادیث کی تعداد ہزار سے متجاوز نہیں ۔
شرح کی بنیاد موطا کی مختلف روایات میں سے ، روایت یحیی بن یحیی اللیثی پر رکھی گئی ہے ، البتہ اگر کہیں کوئی اہم حدیث اس روایت میں رہ گئی ہے ، تو اسے دیگر روایات سے ذکر کیا گیا ہے ۔
مثال کے طور پر محدث ایوب سختیانی رحمہ اللہ کی سند سے مروی مشہور حدیث ابن عباس ’ جاء رجل إلى رسول الله فقال : إن أمي عجوز كبيرة لا تستطيع أن نركبها على البعير۔۔۔ أفأحج عنها قال نعم ‘ یہ حدیث انہوں نے لیثی سےہٹ کر امام مالک کے دیگر تلامذہ قعنبی ، ابن وہب وغیرہ سے نقل کی ہے ۔ ( دیکھیے : التمهيد (1/ 382)
کتاب کو امام مالک کے شیوخ کی ترتیب پر مرتب کیا گیا ہے ۔ مثلا
سب سے پہلے باب الالف ہے ، اس میں امام مالک کے وہ تمام مشایخ بالترتیب ذکر کیے جائیں گے ، جن کا نام الف ( ہمزہ ) سے شروع ہوتا ہے ۔ سب سے پہلے اس شیخ کے مختصر حالات زندگی ، اور عدالت و ضبط میں ان کا درجہ ذکر کریں گے ، پھر موطا میں وارد اس کی احادیث کی تعداد ۔اگر احادیث ایک سے زیادہ ہوئیں تو پہلے متصل و مسند اور پھر منقطع و مرسل روایات ذکر کریں گے ۔
چنانچہ موطا کی ابتدا’ وقوت الصلاۃ ‘سے ہوتی ہے اس میں امام مالک ابن شہاب زہری کی روایت لائے ہیں ، لیکن شارح نے التمہید میں شرح ِحدیث کا آغاز ’ باب الألف فی أسماء شیوخ مالک ‘ کے عنوان سے کیا ہے ، اور اس میں سب سے پہلے امام مالک کے شیخ ابراہیم بن عقبہ المدنی کی روایت لائے ہیں ۔ اور مذکورہ ترتیب کے مطابق اس شیخ کے حالات زندگی ، پھر حدیث ، اور اس میں وارد رواۃ کا ترجمہ وغیرہ ذکر کیا ہے ۔
ہر حدیث میں شیخِ مالک کا ذکر کرنے کے بعد اس کے باقی رواۃ کا ترجمہ کریں گے ، ، پھر اس حدیث کے متعلق اگر موطا کے نسخ و روایات میں اختلاف ہوا تو اس کی نشاندہی کریں گے ، اور بوقت ضرورت دیگر طرق اور شواہد و متابعات لائیں گے ۔​
إسنادِ مرسَل کی مثال :
قال في ترجمة إبراهيم بن عقبة :
لمالك عنه في الموطأ من حديث النبي صلى الله عليه وسلم حديث واحد مرسل عند أكثر رواة الموطأ ... إلى أن قال : وقد أسنده عن مالك ابن وهب والشافعي وابن عثمة وأبو المصعب وعبد الله بن يوسف قالوا فيه عن مالك عن إبراهيم بن عقبة عن كريب مولى ابن عباس عن ابن عباس أن رسول صلى الله عليه وسلم الحديث

.( التمهيد (1/ 95)
وصلِ منقطع کی مثال :
قال في ترجمة إسماعيل بن أبي حكيم بعد أن ساق حديثه :
هذا حديث منقطع وقد روي متصلا مسندا من حديث أبي هريرة وحديث أبي بكرة أخبرنا عبد الله بن محمد ... ثم ساق أسانيده .

(التمهيد (1/ 174)
متابعت کی مثال :
قوله في بعض أحاديث الزهري :
سفيان بن حسين في الزهري ليس بالقوي وقد تابعه على ذلك عن الزهري عبد الرحمن بن نمير وسليمان بن كثير .
(التمهيد (3/ 311)
اسانید میں اختلاف کی مثال :
قال في حديث رواه عن ابن عباس رضي الله عنه :
اختلف فيه على ابن القاسم فمرة قال فيه عن عبد الله بن عباس وهو الأثبت عنه ومرة قال عن عبيد الله بن عباس والصحيح فيه من رواية مالك عبيد الله بن عباس وقد اختلف فيه أيضا على ابن سيرين من غير رواية مالك ومن غير رواية أيوب أيضا فقيل عنه فيه عن عبيد الله بن عباس وقيل عنه عن الفضل بن عباس وقيل عنه عن عبد الله بن عباس ... إلى أن قال : ولم يسمع ابن سيرين هذا الحديث لا من الفضل ولا من غيره من بني العباس وإنما رواه عن يحيى بن أبي إسحاق عن سليمان بن يسار عن ابن عباس .

( التمهيد (1/ 382)
اسنادی ابحاث کے بعد فقہ الحدیث کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ، مشکل الفاظ کے معانی کا بیان ، پھر حدیث سے ماخوذ احکام و مسائل اور اس میں موجود فقہاء کا اختلاف ذکر کرتے ہیں ۔ کتاب چونکہ فقہی ابواب کی بجائے رواۃ پر مرتب ہے ، اس لیے ایک ہی مسئلہ کے متعلق کئی ایک جگہوں پر گفتگو کرتے ہیں ، اور ساتھ ساتھ دیگر جگہوں کی طرف رہنمائی بھی کردیتے ہیں ۔
غریب الحدیث کی مثال :
قال تحت حديث " تفتح اليمن فيأتي قوم يبسون .. " ما نصه :
وأما قوله (يبسون ) فمن رواه يبسون برفع الياء وكسر الباء من أبس يبس على الرباعي فقال معناه يزينون لهم البلد الذي جاءوا منه ويحببونه إليهم ويدعونهم إلى الرحيل إليه من المدينة قالوا والإبساس مأخوذ من إبساس الحلوبة عند حلابها كي تدر باللبن وهو أن تجري يدك على وجهها وصفحة عنقها كأنك تزين ذلك عندها وتحسنه لها ومنه قول عمران بن حطان ... والدهر دو درة من غير إبساس ... وإلى هذا ذهب ابن وهب قال معناه يزينون لهم الخروج من المدينة وكذلك رواية ابن وهب يبسون بالرفع من الرباعي وكذلك رواية ابن حبيب عن مطرف عن مالك يبسون من الرباعي وفسر ابن حبيب الكلمة بنحو هذا النفسير وأنكر قول من قال إنها من السير كل الإنكار وقال ابن بكير يبسون بفتح الياء وكذلك روايته وفسره يسيرون قال من قوله وبست الجبال بسا يعني سارت ويقال سالت وذكر حبيب عن مالك مثل تفسير ابن بكير وقال ابن القاسم عن مالك يبسون يدعون وأظن رواية ابن القاسم بفتح الياء وضم الباء ورواية ابن بكير بكسرها وكل ذلك من الثلاثي وقال ابن هشام والبس أيضا المبالغة في فت الشيء ومنه قيل في الدقيق المصنوع بالزيت ونحوه البسيس قال الراجز ... أخبزا خبزا وبسا بسا ... يريد عملا بسيسا قال أبو عمر وقال غيره يبسون يسرعون السير وقيل يزجرون دوابهم وقال غيره يبسون يسألون عن البلدان ويتشفون من أخبارها ليتحملوا إليها وهذا لا يكاد يعرفه أهل اللغة وأهل الرباعي فلا خلاف فيه وفي معناه وليس له إلا وجه واحد وأما الثلاثي ففيه لغتان بس يبس بكسر الباء ويبس بضمها ومثل هذه الكلمة عندي قتر وأقتر فيه لغتان قتر على الثلاثي وأقتر على الرباعي وفي الثلاثي لغتان في المستقبل منه يقتر بكسر التاء ويقتر بضمها وقد قرئ قوله عز وجل لم يسرفوا ولم يقتروا على الثلاثة الأوجه يقتروا من الرباعي ويقتروا من الثلاثي ويقتروا منه أيضا وأما رواية يحيى بن يحيى في يبسون عند أكثر شيوخنا الذين اعتمدنا عليهم في التقييد فعلى فتح الياء وكسر الباء من الثلاثي وفسروه يسيرون على نحو رواية ابن بكير وتفسيره ولا يصح في رواية يحيى بن يحيى غير هذا الضبط ومن روى في موطأ يحيى غير ذلك فقد روى ما لم يرو يحيى والله أعلم.
( التمهيد (22/ 224- 226)
فقہ الحدیث کی مثال : مشہور حديث " فإن غم عليكم فأكملوا العدة ثلاثين " كے تحت فرماتے ہیں :​
وفي حديث ابن عباس هذا من الفقه : أن الشهر قد يكون تسعا وعشرين ، وفيه أن الله تعبد عباده في الصوم برؤية الهلال لرمضان أو باستعمال شعبان ثلاثين يوما ، وفيه تأويل لقول الله عز وجل فمن شهد منكم الشهر فليصمه أن شهوده رؤيته أو العلم برؤيته ، وفيه أن اليقين لا يزيله الشك ولا يزيله إلا بيقين مثله لأنه صلى الله عليه وسلم أمر الناس ألا يدعوا ما هم عليه من يقين شعبان إلا بيقين رؤية واستكمال العدة وأن الشك لا يعمل في ذلك شيئا ولهذا نهى عن صوم يوم الشك اطراحا لأعمال الشك وإعلاما أن الأحكام لا تجب إلا بيقين لا شك فيه وهذا أصل عظيم من الفقه أن لا يدع الإنسان ما هو عليه من الحال المتيقنة إلا بيقين .( التمهيد (2/ 39)
فقہی اختلاف کے ذکر کی مثال : اختلف الفقهاء في معنى قول رسول الله صلى الله عليه وسلم أكل كل ذي ناب من السباع حرام فقال منهم قائلون إنما أراد رسول الله صلى الله عليه وسلم بقوله هذا ما كان يعدو على الناس مثل الأسد والذيب والنمر والكلب العادي وما أشبهه ذلك مما الأغلب في طبعه أن يعدو وما كان الأغلب من طبعه أنه لا يعدو فليس مما عناه رسول الله صلى الله عليه وسلم بقوله هذا وإذا لم يكن يعدو فلا بأس بأكله واحتجوا بحديث الضبع في إباحة أكله (التمهيد (1/ 152) إلى أن ذكر الأقوال و ساق أدلتها .
[1]۔ علماء کے ہاں حروف تہجی کی ترتیب ایک معروف طریقہ تصنیف ہے ، لیکن اس میں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اہل مشرق اور اہل مغرب کے ہاں حروف تہجی میں بھی تقدیم و تاخیر کا فرق ہے ، لہذا اگر ہم کسی کتاب میں حروف تہجی کے اعتبار سے کوئی چیز تلاش کرنا چاہتے ہیں ، تو علم ہونا چاہیے کہ اس میں کس ترتیب کو اختیار کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ ابن عبد البر اہل مغرب سے ہیں ، لہذا ان کی ترتیب کو اہل مشرق کی بجائے ’ مغربی ترتیب ‘ کے مطابق دیکھا جائے ۔
یہ چند ایک مثالیں ، بطور نمونہ پیش کی ہیں ، ورنہ کتاب کا موضوع چونکہ یہی ہے ،چنانچہ ہر حدیث کی شرح میں امام صاحب اسی طرح علم و تحقیق کے موتی بکھیرتے نظر آئیں گے ۔​
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
’ التمہید ‘ کی قدر و منزلت :
تمہید امہاتِ شروحاتِ حدیث میں شمار ہوتی ہے ، چاہے کوئی فقیہ ہو یا محدث برابر اس سے مستفید ہوسکتا ہے ، شروع سے لیکر اب تک اہل علم و فن متنوع مسالک و مختلف مشارب کے باوجود اس چشمہ صافی سے سیراب ہورہے ہیں ، علماء نے اس کتاب کو جس قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا ہے ، اس کا ذکر آگے آئے گا ، خود ابن عبد البر نے بھی اس پر کافی اطمینان کا اظہار کیا ہے ، اس حوالے سے ان کے مشہور اشعار ہیں :​
سمير فؤادي مذ ثلاثين حجة ......... وصيقل ذهني والمفرج عن همي
بسطت لكم فيه كلام نبيكم ......... بما في معانيه من الفقه والعلم
وفيه من الآداب ما يهتدى به ......... إلى البر والتقوى وينهى عن الظلم​

یہ کتاب تیس سالوں سے میری قلبی جد و جہد ، ذہنی عرق ریزی ، اور غموں کا مداوا ہے ۔جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے معانی ، ان سے متعلقہ علمی نکات و فقہی مسائل بیان کیے گئے ہیں ، اس میں ذکر کردہ آداب نیکی و تقوی کی طرف رہنما اور ظلم سے روکنے والے ہیں ۔
ابو علی غسانی فرماتے ہیں کہ ابو عمر ( ابن عبد البر ) نے موطا کے متعلق التمہید تصنیف فرمائی ہے ، ستر اجزاء پر مشتمل یہ کتاب بے مثال ہے ۔ (" الصلة " 2 / 678)
ابن حزم فرماتے ہیں : ’ فقہ حدیث کے متعلق اس سے بہتر تو کجا ، اس پائے کی کوئی کتاب میرے علم میں نہیں ہے ‘(سابقہ حوالہ )
قاضی عیاض فرماتے ہیں : ’ بیس جلدوں پر مشتمل اس طرح کی کتاب آج تک کوئی تصنیف نہیں کرسکا ‘ (ترتيب المدارك (8/ 129)
ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس سے بکثرت نقل کرتے ہیں ، ایک جگہ فرماتے ہیں : ’ اپنے فن میں سب سے بہترین اور جلیل القدر کتاب ہے ‘ (كما في مجموع الفتاوى (3/ 220) ( 3 / 263 )
حافظ ذہبی نے چار کتابوں کو ’ دواوین الاسلام ‘ قرار دیا ہے ، محلی ابن حزم ، مغنی ابن قدامہ ، السنن الکبری للبیہقی اور التمہید لابن عبد البر ۔ فرماتے ہیں :
فمن حصل هذه الدواوين، وكان من أذكياء المفتين ، وأدمن المطالعة فيها ، فهو العالم حقا. (سير أعلام النبلاء (18/ 193)
جس مفتی کو اللہ نے فہم و فراست سے نوازا ہے ، اور وہ ان کتابوں کا تواتر سے مطالعہ کرتا ہے ، یقینا وہ ایک حقیقی عالم دین کے مرتبہ پر فائز ہے ۔
’ التمہید ‘ کی نمایاں خصوصیات کو مختصرا درج ذیل نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے :
۔ موطا کی سب سے پہلی کامل شرح ہے ، جو ہم تک پہنچی ہے ۔
۔ مشہور احادیث کے احکام ، متابعات و شواہد جاننے کے لیے ایک بہترین کتاب ہے ۔
۔ اس میں احادیث کے بہت سارے مشہور رواۃ کے تراجم مذکور ہیں ۔
۔ فقہی مسائل میں علماء کے اقوال کا بہترین ذخیرہ ہے ۔
۔ ابن عبد البر محدث و فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین لغوی ، تاریخ دان بھی تھے ، یہ خوبیاں بھی اس شرح میں نمایاں ہیں ۔​
۔ جس طرح موطا کو کتب حدیث میں اولیت کا مقام حاصل ہے ، اسی طرح شروحات حدیث میں التمہید اس مقام پر فائز نظر آتی ہے ، جس طرح بعد والے محدثین کی کتابیں امام مالک کے ذکر سے خالی نہیں ، اس طرح شروحات حدیث میں شاید ہی کوئی کتاب ہوگی ، جس میں التمہید یا اس کے مولف علام کا تذکرہ نہ ہو ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
’التمہید‘ کے مطبوعہ نسخے :
اس مایہ ناز کتاب کو سب سے پہلے زیور طبع سے آراستہ کرنے کا شرف مغرب کی وزارت اوقاف نے حاصل کیا تھا ، طباعت کی ابتدا 1387 ھ میں ہوئی ، جبکہ 1411 ھ میں یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچا ، تحقیق کے فرائض مصطفی احمد علوی ، اور محمد عبد الکبیر البکری اور دیگر علماء و محققین نے سر انجام دیے ، اصل کتاب 24 جلدوں میں چھپی ، جبکہ بعد میں دو جلدوں میں کتاب سے متعلقہ فہارس وغیرہ طبع کی گئیں ۔ ایک عرصہ تک یہی طبعہ مختلف مکتبات کاپی کرکے چھاپتے رہے ۔
التمہید کا دوسرا ایڈیشن دار الکتب العلمیہ سے عبد القادر عطا کی تحقیق سے منظر عام پر آیا ، یہ کل دس جلدیں ہیں ، جبکہ گیارہویں فہارس پر مشتمل ہے ۔
سن 1429ھ میں دار الفاروق مصر والوں نے اپنی طرف سے التمہید کا چوتھا ایڈیشن نشر کیا ، جو اب تک سب سے بہتر شمار کیا جاتا ہے ۔یہ کل گیارہ جلدیں ہیں ، محقق کا اسم گرامی اسامہ ابراہیم ہے ، لیکن اس میں شرح کی اپنی ترتیب ختم کرکے ، اسے اصل کتاب یعنی موطا کے مطابق مرتب کیا گیا ہے ۔
ایک عرصے سے سنتے آرہے ہیں کہ معروف محقق دکتور بشار عواد بھی ایک ٹیم کے ساتھ اس کتاب کی تحقیق میں مصروف ہیں ، کچھ لوگوں کے مطابق یہ کتاب بہت جلد چھپنے والی ہے ، لیکن اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہ مسودہ زیور طباعت سے آراستہ ہوچکا ہے یا کب ہوگا ؟
’ التمہید ‘ سے متعلق کچھ علمی کاوشیں :
اس عظیم الشان کتاب کے مقدمہ میں مؤلف یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ میں نے اس کتاب میں اختصار پیش نظر رکھا ہے اور اسے اس انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ اس سے فائدہ اٹھانا آسان ہو ، لیکن بہر صورت یہ ’ مختصر ‘ ابن عبد البر کے لیے ہوگی ، یا اس کی ترتیب اس دور کے طالبعلموں کے لیے آسان رہی ہوگی ، خو د ابن عبد البر کو بعد میں اس کی عظمت و ضخامت کا اندازہ ہوا ، اور انہوں نے اس ’ مختصر ‘ کو مزید ایک جلد میں مختصر کیا ، جو ’ التقصی ‘ اور ’ تجرید التمہید ‘ کے نام سے مطبوع ہے ۔
مدینہ منورہ کے مشہور مالکی عالم دین شیخ عطیہ سالم نے التمہید کو موطا کے فقہی ابواب پر مرتب کیا ، بارہ جلدوں پر مشتمل یہ کتاب ’ ہدایۃ المستفید من کتاب التمہید ‘ کے عنوان سے مطبوع ہے ۔
مغرب کے مشہور سلفی عالم دین شیخ محمد عبد الرحمن المغراوی نے بھی اسے فقہی ابواب پر مرتب کیا ہے ، جس کا نام ہے ’ فتح البر فی الترتیب الفقہی لتمہید ابن عبد البر ‘ ان کی یہ کتاب ان کی ایک دوسری کتاب ’ فتح المجید فی اختصار تخریج أحادیث التمہید ‘ کے ساتھ بارہ جلدوں میں مطبوع ہے ۔
شیخ عطیہ سالم اور شیخ مغراوی کا کام بظاہر ایک ہی نظر آتا ہے ، لیکن دونوں میں بہت زیادہ فرق ہے ، شیخ عطیہ نے کتاب موطا کے فقہی ابواب کے مطابق مرتب کی ہے ، جبکہ شیخ مغراوی نے اپنے ذوق کے مطابق ایک ڈھانچہ مرتب کرکے ’ التمہید ‘ کو اس میں ڈھال دیا ہے ، جس میں اعتقادی مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
ایک اور کتاب ہے ’ معجم فقہ التمہید ‘ کے عنوان سے ہے ، جس کے فاضل مصنف کا نام علی بن عبد القادر ہے ، اس کتاب کو ’ التمہید ‘ جیسے ضخیم علمی خزانے کے لیے بطور مفتاح اور چابی کے تیار کیا گیا ہے ۔ پوری کتاب کے فقہی مواد کو کئی ایک عناوین کے تحت اکٹھا کرکے ، پھر ان عناوین کو حروف تہجی کے اعتبار سے جمع کردیا گیا ہے ، اور ہر ہر عنوان کے تحت متعلقہ مباحث کا تفصیل سے ذکر کردیا گیا ہے ۔ اس کتاب کا فائدہ یہ ہے کہ کسی بھی فقہی مسئلہ کے متعلق تمہید میں جس قدر بھی گفتگو کی گئی ہے ، وہ مکمل منظم و مرتب انداز میں ایک جگہ پر مل جاتی ہے ۔
جامعہ اسلامیہ ، قسم التربیۃ سے چند سال پہلے ایک ماسٹر کا مقالہ نمایاں پوزیشن سے پاس ہوا ہے ، جس میں ’ منہج ابن عبد البر فی التالیف من خلال کتابہ التمہید ‘ کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ عرب جامعات میں ’ تمہید ابن عبد البر ‘ کو موضوع بنا کر ’ عقیدہ ، حدیث ، فقہ وغیرہ پر درجنوں رسائل لکھے جاچکے ہیں اور تاحال لکھے جارہے ہیں ۔​
فجزی اللہ الجمیع خیرالجزاء و أوفاہ ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
جزاکم اللہ خیرا
اللہ آپکے علم میں مزید برکت فرمائے. آمین.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
الامام الحافظ ابن عبد البر کا مختصر تذکرہ اور انکی مشہور کتب اور شاگرد


مکمل نام اور وجہ شہرت
حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ تعالیٰ کا مکمل نام ابو عمر یوسف بن عبداللہ بن محمد ابن عبد البر النمیری القرطبی ہے۔ آپ اندلس کے اسلامی دور کے سرخیل ائمہ اسلام میں سے ہیں۔ آپ نے اندلس سے باہر کا سفر نہیں کیا۔
آپ کے عظیم کارناموں میں سے امام دارلہجرہ مالک بن انس رحمہ اللہ کی کتاب المؤطا جو حدیث کی پہلی مدون اور مرتب کتاب سمجھی جاتی ہے اس کی تخریج اور شرح ہے۔ آپ نے اسکی دو شروحات کی تھیں۔
التمھید اور الاستذکار
ایک کا نام "تجريد التمهيد في الموطأ من المعاني والأسانيد" ہے اور یہ شرح اہل علم کے ہاں التمھید کے نام سے معروف ہیں ۔ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے اس کتاب میں زیادہ تر مؤطا کی اسناد پہ بحث کی ہے٬ جیسا کے نام سے ظاہر ہوتا ہے اور احادیث پہ احکام لگائے ہیں اور اس کتاب کو امام مالک رحمہ اللہ کے شیوخ کے ناموں پہ ترتیب دیا ہے۔ مؤطا میں کچھ آثار اور احادیث ایسی ہیں جن میں امام مالک رحمہ اللہ نے کہا بلغنا یعنی ہم تک یہ بات پہنچی اور اسکی اسناد محذوف ہیں امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے ان اسناد کو مکمل کیا ہے۔ اسکی دوسری شرح جو حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے کی ہے اس کا نام "الاستذكار الجامع لمذاهب فقهاء الأمصار وعلماء الأقطار فيما تضمنه الموطأ من معاني الرأي والآثار وشرح ذلك كله بالإيجاز والإختصار" ہے اور یہ شرح اہل علم کے ہاں الاستذکار کے نام سے معروف ہیں اس شرح میں امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے فقہ الحدیث پہ زیادہ بحث کی ہے۔ اور احادیث کے تحت مسائل اخذ کئے اور اس پہ اسلاف کے اقوال نقل کئے اور پھر ان اقوال کو جمع اور ترجیح دی ہے۔ الاستذکار میں امام نے مؤطا کی یحیی بن یحیی اللیثی رحمہ اللہ کی روایت نقل کی ہے اور اسی ترتیب سے احادیث کی شرح کی ہے۔
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ کی اسکے علاؤہ بھی بہت سی کتب ہیں جن میں سے چند مشہور الاستعیاب فی معرفۃ الاصحاب٬ الکافی فی فقہ اھل المدینۃ٬ اختلاف اقوال مالک واصحابہ ہیں۔
ابن عبدالبر کے نزدیک اجماع کی اہمیت
حافظ ابن عبد البر ان اولین ائمہ میں سے ہیں جو اجماع کو ایک قوی دلیل مانتے ہیں اس لئے الاستذکار میں بہت سے مسائل میں انھوں نے اجماع نقل کیا ہے۔
امام ابن عبدالبر کا فقہی مذہب
ابن عبد البر رحمہ اللہ نے اندلس سے باہر سفر نہیں کیا ہے۔ اسکے باوجود وہ بحر العلوم تھے اور بیک وقت محدث اور فقیہ تھے۔ آپ پہلے ظاہری تھے اور پھر مذہب مالکی پہ رہے اور امام ذھبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ آپ کا میلان مذہب شافعی کی طرف کافی زیادہ تھا۔ اگرچہ امام خود مجتھد اور صاحب الرائے علما میں سے تھے۔
علمائے مشرق سے خط و کتابت
کیونکہ آپ اندلس میں مقیم تھے لہذا آپ کو حافظ المغرب کہا جاتا ہے آپ نے خط و کتابت کے ذریعے حجاز٬ عراق اور شام کے علماء سے تعلق قائم کیا اور پ وکتابت ہی مے ذریعے تعلیم وتعلم کے مراحل طے کئے۔
حافظ المشرق خطیب البغدادی اور حافظا المغرب ابن عبدالبر رحمھما اللہ
انھیں ناموں میں سے ایک بڑا نام أبو بكر أحمد بن عبدالمجيد بن علی بن ثابت رحمہ اللہ کا ہے جو خطيب البغدادی کے نام سے معروف ہوئے اور اپنے زمانے کے امام تھے انھیں حافظ المشرق بھی کہا جاتا ہے۔۔۔ حسن اتفاق یہ ہے کہ حافظ المغرب اور حافظ المشرق دونوں ایک ہی سال 463 ہجری میں فوت ہوئے۔
علمائے حدیث حافظ سے کیا مراد لیتے ہیں
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ حافظ سے کیا مراد ہے٬ حافظ کا اطلاق علمائے حدیث کے ہاں اس عالم کے لئے ہوتا ہے جو حدیث کے علم میں پختہ ہو٬ حدیث کی سب اقسام اسے معلوم ہوں٬ روایت اور درایت دونوں کا ماہر ہو حدیث کی اصطلاحات کو جانتا ہو٬ فقہ الحدیث اور استخراج المسائل اے واقف ہو اور اسے کم ازکم ایک لاکھ احادیث کی اسناد اور متن یاد ہوں۔
امام ابن عبدالبر کے معروف شاگرد
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ کے معروف شاگردوں میں سے امام ابو محمد علی بن حزم الظاہری تھے۔ جنھوں نے مذہب ظاہریہ کو ایک نئی پہچان دی۔ امام ابن حزم کثیر الکتب ائمہ میں سے ہیں انکی کتاب المحلى ہے جس کے بارے بہت سے علما کہتے ہیں کہ یہ امہات الکتب میں سے ہے۔
آپ کے شاگردوں میں سے امام احمد بن نصر الداودی بھی تھے جو مالکیہ کے مشہور امام تھے اور صحیح البخاری کی پہلی شرح انھوں نے ہی کی تھی۔ اسکے علاؤہ مؤطا کی بھی شرح کی۔
علم فلسفہ اور امام ابن عبد البر
امام ابن عبد البر ان ائمہ میں سے ہیں جنھوں نے علم فلسفہ کو بالکل نظر التفات نہ بخشا حالانکہ اس دور میں یہ علم اپنے عروج پہ تھا اور قرطبہ اس علم کا گڑھ تھا بلکہ امام عقیدہ سلف پہ چلتے ہوئے اس علم سے دور رہے۔
امام ابن عبدالبر اور سفر حج
کیونکہ امام اندلس سے باہر کا سفر نہیں کر سکے اس لئے ان ہستیوں میں سے ایک ہیں جو دین کی خدمات میں
مصروف عمل رہے اور حج سے محروم رہے ان مشہور شخصیات میں سے صلاح الدین ایوبی فاتح بیت المقدس٬ امام ابن حزم٬ امام بغوی صاحب التفسیر معالم التنزیل٬ امام ابن جماعۃ٬ امام منذری صاحب الکتاب الترغیب والترھیب شامل پیں٬ اس لئے انکی طرف سے موجودہ مفتی اعظم سماحۃ الشیخ عبد العزیز آل الشیخ نے دو بار حج کیا ہے۔
عبدالوہاب سلیم
مدینہ منورہ
 
Top