امام ابوالحسن الکرخی (متوفی 340)فقہ حنفی کے معتبر ائمہ میں سے ہیں۔ وہ امام طحاوی کےہم عصر ہیں اورامام طحاوی کے شیوخ واساتذہ سے علم حاصل کیاتھا۔امام کرخی کے شاگردوں میں بڑے با کمال اور نامورفقہاء ہوئے ہیں۔اسی کے ساتھ ساتھ وہ نہایت زاہد وعابد بھی تھے ۔کئی مرتبہ کو ان کے علمی مرتبہ ومقام کی وجہ سے عہدہ قضاپیش کیاگیا لیکن انہوں نے باوجود تنگدستی کے انکار کردیا۔صرف اسی پر بس نہیں بلکہ ان کے شاگردوں میں سے جوبھی فرد قضاء کا عہدہ قبول کرتاتھا۔ اس سے تعلقات ترک کردیتے تھے۔
آخرعمر میں جب فالج کا حملہ ہواتوان کے شاگردوں نے یہ سوچ کرکہ اس بیماری کے علاج کیلئے خاصی رقم کی ضرورت ہے۔سیف الدولہ ابن حمدان کو خط لکھ کر ان کے حال کے تعلق سے واقف کرایا۔سیف الدولہ نے ان کیلئے دس ہزاردرہم بھیجا۔ان کو اس سے قبل پتہ چل چکاتھاکہ میرے شاگردوں نے ایساکیاہے۔انہوں نے بارگاہ الہی میں دعاکیاکہ اے اللہ اس رقم کے مجھ تک پہنچنے سے پہلے تومجھ کو اپنے پاس بلالے۔ایساہی ہوا۔سیف الدولہ کی رقم پہنچنے سے پہلے ان کا انتقال ہوگیا۔رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ
(سیر اعلام النبلاء ،الجواہر المضیئۃ)
اصول فقہ میں انہوں نے مختصر طورپرایک کتاب لکھی ہے ۔اوراس کو اصول فقہ کیوں کہئے اس کے بجائے مناسب ہے کہ اس کوقواعدفقہ کی کتاب کہئے ۔جس میں فقہ کے چند بنیادی قاعدے بیان کئے گئے ہیں۔
اس میں انہوں نے ایک دوباتیں ایسی ذکر کی ہیں جن سے بظاہر قرآن کریم اورحدیث رسول کااستخفاف ہوتاہے اس کی حقیقت کو سمجھے بغیر اورغوروفکر کئے بغیر کچھ لوگ فوراتبراشروع کردیتے ہیں اورصرف امام ابوالحسن الکرخی کے ساتھ یہ معاملہ نہیں کرتے بلکہ پورے جمعیت احناف کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں یہ ان کی روایتی قلت فہم کی نشانی ہے کہ کسی بات کو سمجھے اورس کی حقیقت معلوم کئے بغیر فوراطعن وتشنیع شروع کردینا۔
امام ابوالحسن الکرخی اصول میں لکھتے ہیں۔
ان کل آیتہ تخالف قول اصحابنافانھاتحمل علی النسخ او علی الترجیح والاولی ان تحمل علی التاویل من جھۃ التوفیق
ہروہ آیت جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی تواس کو نسخ پر محمول کیاجائے گا یاترجیح پر محمول کیاجائے گا اوربہتر یہ ہے کہ ان دونوں میں تاویل کرکے تطبقیق کی صورت پیداکی جائے۔
ان کل خبریجی بخلاف قول اصحابنا فانہ یحمل علی النسخ اوعلی انہ معارض بمثلہ ثم صارالی دلیل آخر اوترجیح فیہ بمایحتج بہ اصحابنامن وجوہ الترجیح اویحمل علی التوفیق،وانمایفعل ذلک علی حسب قیام الدلیل فان قامت دلالۃ النسخ یحمل علیہ وان قامت الدلالۃ علی غیرہ صرناالیہ ۔(اصول البزدوی ویلیہ اصول الکرخی ص374)
ہروہ خبر جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی تو وہ نسخ پر محمول کی جائے گی،یاوہ اسی کے مثل دوسری حدیث کے معارض ہوگی توپھرکسی دوسرے دلیل سے کام لیاجائے گایاجس حدیث سے ہمارے اصحاب نے استدلال کیاہے اس میں وجوہ ترجیح میں سے کوئی ایک ترجیح کی وجہ ہوگی یاپھر دونوں حدیث میں تطبیق وتوفیق کا راستہ اختیار کیاجائے گا اوریہ دلیل کے لحاظ سے ہگا۔ اگر دلیل معارض حدیث کے نسخ کی ہے تونسخ پر محمول کیاجائے گا یااس کے علاوہ کسی دوسری صورت پر دلیل ملتی ہے تو وہی بات اختیار کی جائے گی۔
آخرعمر میں جب فالج کا حملہ ہواتوان کے شاگردوں نے یہ سوچ کرکہ اس بیماری کے علاج کیلئے خاصی رقم کی ضرورت ہے۔سیف الدولہ ابن حمدان کو خط لکھ کر ان کے حال کے تعلق سے واقف کرایا۔سیف الدولہ نے ان کیلئے دس ہزاردرہم بھیجا۔ان کو اس سے قبل پتہ چل چکاتھاکہ میرے شاگردوں نے ایساکیاہے۔انہوں نے بارگاہ الہی میں دعاکیاکہ اے اللہ اس رقم کے مجھ تک پہنچنے سے پہلے تومجھ کو اپنے پاس بلالے۔ایساہی ہوا۔سیف الدولہ کی رقم پہنچنے سے پہلے ان کا انتقال ہوگیا۔رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ
(سیر اعلام النبلاء ،الجواہر المضیئۃ)
اصول فقہ میں انہوں نے مختصر طورپرایک کتاب لکھی ہے ۔اوراس کو اصول فقہ کیوں کہئے اس کے بجائے مناسب ہے کہ اس کوقواعدفقہ کی کتاب کہئے ۔جس میں فقہ کے چند بنیادی قاعدے بیان کئے گئے ہیں۔
اس میں انہوں نے ایک دوباتیں ایسی ذکر کی ہیں جن سے بظاہر قرآن کریم اورحدیث رسول کااستخفاف ہوتاہے اس کی حقیقت کو سمجھے بغیر اورغوروفکر کئے بغیر کچھ لوگ فوراتبراشروع کردیتے ہیں اورصرف امام ابوالحسن الکرخی کے ساتھ یہ معاملہ نہیں کرتے بلکہ پورے جمعیت احناف کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں یہ ان کی روایتی قلت فہم کی نشانی ہے کہ کسی بات کو سمجھے اورس کی حقیقت معلوم کئے بغیر فوراطعن وتشنیع شروع کردینا۔
امام ابوالحسن الکرخی اصول میں لکھتے ہیں۔
ان کل آیتہ تخالف قول اصحابنافانھاتحمل علی النسخ او علی الترجیح والاولی ان تحمل علی التاویل من جھۃ التوفیق
ہروہ آیت جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی تواس کو نسخ پر محمول کیاجائے گا یاترجیح پر محمول کیاجائے گا اوربہتر یہ ہے کہ ان دونوں میں تاویل کرکے تطبقیق کی صورت پیداکی جائے۔
ان کل خبریجی بخلاف قول اصحابنا فانہ یحمل علی النسخ اوعلی انہ معارض بمثلہ ثم صارالی دلیل آخر اوترجیح فیہ بمایحتج بہ اصحابنامن وجوہ الترجیح اویحمل علی التوفیق،وانمایفعل ذلک علی حسب قیام الدلیل فان قامت دلالۃ النسخ یحمل علیہ وان قامت الدلالۃ علی غیرہ صرناالیہ ۔(اصول البزدوی ویلیہ اصول الکرخی ص374)
ہروہ خبر جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی تو وہ نسخ پر محمول کی جائے گی،یاوہ اسی کے مثل دوسری حدیث کے معارض ہوگی توپھرکسی دوسرے دلیل سے کام لیاجائے گایاجس حدیث سے ہمارے اصحاب نے استدلال کیاہے اس میں وجوہ ترجیح میں سے کوئی ایک ترجیح کی وجہ ہوگی یاپھر دونوں حدیث میں تطبیق وتوفیق کا راستہ اختیار کیاجائے گا اوریہ دلیل کے لحاظ سے ہگا۔ اگر دلیل معارض حدیث کے نسخ کی ہے تونسخ پر محمول کیاجائے گا یااس کے علاوہ کسی دوسری صورت پر دلیل ملتی ہے تو وہی بات اختیار کی جائے گی۔
یہی وہ عبارت ہے جس کی حقیقت سمجھے بغیر لوگ اناپ شناپ کہتے رہتے ہیں اوراس میں پیش پیش وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا علم اردو کی کتابوں اورچند عربی کتابوں کے اردو ترجمہ کی حدتک محدود ہے ۔اپنے معمولی علم وفہم کو کام میں لاکر کنویں کے مینڈک کی طرح وہ یہی سمجھتے ہیں کہ جوکچھ میں نے سمجھاہے وہی حرف آخر ہے اوراس کے علاوہ کوئی دوسرانقطہ نظر قابل قبول ہی نہیں ہے۔