• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابوالحسن کرخی کے ایک اصول پر اعتراض کا جواب

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
امام ابوالحسن الکرخی (متوفی 340)فقہ حنفی کے معتبر ائمہ میں سے ہیں۔ وہ امام طحاوی کےہم عصر ہیں اورامام طحاوی کے شیوخ واساتذہ سے علم حاصل کیاتھا۔امام کرخی کے شاگردوں میں بڑے با کمال اور نامورفقہاء ہوئے ہیں۔اسی کے ساتھ ساتھ وہ نہایت زاہد وعابد بھی تھے ۔کئی مرتبہ کو ان کے علمی مرتبہ ومقام کی وجہ سے عہدہ قضاپیش کیاگیا لیکن انہوں نے باوجود تنگدستی کے انکار کردیا۔صرف اسی پر بس نہیں بلکہ ان کے شاگردوں میں سے جوبھی فرد قضاء کا عہدہ قبول کرتاتھا۔ اس سے تعلقات ترک کردیتے تھے۔
آخرعمر میں جب فالج کا حملہ ہواتوان کے شاگردوں نے یہ سوچ کرکہ اس بیماری کے علاج کیلئے خاصی رقم کی ضرورت ہے۔سیف الدولہ ابن حمدان کو خط لکھ کر ان کے حال کے تعلق سے واقف کرایا۔سیف الدولہ نے ان کیلئے دس ہزاردرہم بھیجا۔ان کو اس سے قبل پتہ چل چکاتھاکہ میرے شاگردوں نے ایساکیاہے۔انہوں نے بارگاہ الہی میں دعاکیاکہ اے اللہ اس رقم کے مجھ تک پہنچنے سے پہلے تومجھ کو اپنے پاس بلالے۔ایساہی ہوا۔سیف الدولہ کی رقم پہنچنے سے پہلے ان کا انتقال ہوگیا۔رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ
(سیر اعلام النبلاء ،الجواہر المضیئۃ)

اصول فقہ میں انہوں نے مختصر طورپرایک کتاب لکھی ہے ۔اوراس کو اصول فقہ کیوں کہئے اس کے بجائے مناسب ہے کہ اس کوقواعدفقہ کی کتاب کہئے ۔جس میں فقہ کے چند بنیادی قاعدے بیان کئے گئے ہیں۔

اس میں انہوں نے ایک دوباتیں ایسی ذکر کی ہیں جن سے بظاہر قرآن کریم اورحدیث رسول کااستخفاف ہوتاہے اس کی حقیقت کو سمجھے بغیر اورغوروفکر کئے بغیر کچھ لوگ فوراتبراشروع کردیتے ہیں اورصرف امام ابوالحسن الکرخی کے ساتھ یہ معاملہ نہیں کرتے بلکہ پورے جمعیت احناف کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں یہ ان کی روایتی قلت فہم کی نشانی ہے کہ کسی بات کو سمجھے اورس کی حقیقت معلوم کئے بغیر فوراطعن وتشنیع شروع کردینا۔

امام ابوالحسن الکرخی اصول میں لکھتے ہیں۔

ان کل آیتہ تخالف قول اصحابنافانھاتحمل علی النسخ او علی الترجیح والاولی ان تحمل علی التاویل من جھۃ التوفیق
ہروہ آیت جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی تواس کو نسخ پر محمول کیاجائے گا یاترجیح پر محمول کیاجائے گا اوربہتر یہ ہے کہ ان دونوں میں تاویل کرکے تطبقیق کی صورت پیداکی جائے۔

ان کل خبریجی بخلاف قول اصحابنا فانہ یحمل علی النسخ اوعلی انہ معارض بمثلہ ثم صارالی دلیل آخر اوترجیح فیہ بمایحتج بہ اصحابنامن وجوہ الترجیح اویحمل علی التوفیق،وانمایفعل ذلک علی حسب قیام الدلیل فان قامت دلالۃ النسخ یحمل علیہ وان قامت الدلالۃ علی غیرہ صرناالیہ ۔(اصول البزدوی ویلیہ اصول الکرخی ص374)
ہروہ خبر جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی تو وہ نسخ پر محمول کی جائے گی،یاوہ اسی کے مثل دوسری حدیث کے معارض ہوگی توپھرکسی دوسرے دلیل سے کام لیاجائے گایاجس حدیث سے ہمارے اصحاب نے استدلال کیاہے اس میں وجوہ ترجیح میں سے کوئی ایک ترجیح کی وجہ ہوگی یاپھر دونوں حدیث میں تطبیق وتوفیق کا راستہ اختیار کیاجائے گا اوریہ دلیل کے لحاظ سے ہگا۔ اگر دلیل معارض حدیث کے نسخ کی ہے تونسخ پر محمول کیاجائے گا یااس کے علاوہ کسی دوسری صورت پر دلیل ملتی ہے تو وہی بات اختیار کی جائے گی۔
یہی وہ عبارت ہے جس کی حقیقت سمجھے بغیر لوگ اناپ شناپ کہتے رہتے ہیں اوراس میں پیش پیش وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا علم اردو کی کتابوں اورچند عربی کتابوں کے اردو ترجمہ کی حدتک محدود ہے ۔اپنے معمولی علم وفہم کو کام میں لاکر کنویں کے مینڈک کی طرح وہ یہی سمجھتے ہیں کہ جوکچھ میں نے سمجھاہے وہی حرف آخر ہے اوراس کے علاوہ کوئی دوسرانقطہ نظر قابل قبول ہی نہیں ہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
امام کرخی کے قول کا مطلب کیاہے اس کا جواب کئی اعتبار سے دیاجاسکتاہے۔

1:کسی بھی قول کابہتر مطلب قائل یاقائل کے شاگردوں کی زبانی سمجھنابہتر ہوتاہے کیونکہ وہ قائل کے مراد اورمنشاء سے دوسروں کی بنسبت زیادہ واقف ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جو بات کہی گئی ہے یالکھی گئی ہے اس میں کیامطلق اورکیامقید ہے کون سی بات ہے جو بظاہر تومطلق ہے لیکن وہ درحقیقت وہ مقید ہے۔اوراسی وجہ سے محدث الھند شاہ ولی اللہ دہلوی نے ائمہ اربعہ کی ہی اتباع اورپیروی کوواجب کہا ہے اوردیگر مجہتد ین کی پیروی سے منع کیاہے۔(دیکھئے عقد الجید)[/QUOTE]

امام کرخی کے شاگردوں کے شاگرد ابوحفص عمر بن محمد النسفی ہیں جو اپنے علمی تبحر کیلئے مشہور ہیں اور ان کی کتابیں فقہ حنفی کا بڑا ماخذ سمجھی جاتی ہیں۔ان کا انتقال 537ہجری میں ہوا۔انہوں نے اصول کرخی کے اصولوں کی تشریح کی ہے وہ کیاکہتے ہیں۔اسے بھی دیکھیں۔ وہ پہلے اصول ان کل آیتہ کی تشریح اور مثال میں لکھتے ہیں۔

قال(النسفی)من مسائلہ ان من تحری عندالاشتباہ واستدبرالکعبۃ جاز عندنالان تاویل قولہ تعالیٰ فولوا وجوھکم شطرہ اذاعلمتم بہ ،والی حیث وقع تحریکم عندالاشتباہ،اویحمل علی النسخ،کقولہ تعالیٰ ولرسولہ ولذی القربی فی الآیۃ ثبوت سھم ذوی القربی فی الغنیمۃ ونحن نقول انتسخ ذلک باجماع الصحابہ رضی اللہ عنہ او علی الترجیح کقولہ تعالیٰ والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا ظاہریقتضی ان الحامل المتوفی عنھازوجھا لاتنقضی عدتھا بوضع الحمل قبل مضی اربعۃ اشھر وعشرۃ ایام لان الآیۃ عامۃ فی کل متوفی عنھازوجھا حاملااوغیرھا وقولہ تعالیٰ اولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن یقتضی انقضاء العدۃ بوضع الحمل قبل مضی الاشھر لانھاعامۃ فی المتوفی عنھازوجھا وغیرھا لکنارجحناھذہ الآیۃ بقول ابن عباس رضی اللہ عنھما انھانزلت بعد نزول تلک الآیۃ فنسختھا وعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمع بین الاجلین احتیاطا لاشتباہ التاریخ۔(المصدرالسابق)
ان کل آیتہ تخالف قول اصحابناالخ کی شرح میں وہ لکھتے ہیں۔اس کے مسائل میں سے یہ ہے کہ جس پر قبلہ مشتبہ ہوجائے اوروہ غوروفکر کے بعد ایک سمت اختیار کرلے توہمارے نزدیک اس کی نماز جائز ہے (اگر چہ اس نے قبلہ کے علاوہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی ہو)کیونکہ ہمارے نزدیک اللہ تعالیٰ کے قول کی تاویل فولواوجوھکم شطرہ کی یہ ہے کہ جب تم اس کے بارے میں واقف رہو،اوراشتباہ کی صورت میں غوروفکر کے بعد جو سمت اختیار کرو،یاوہ نسخ پر محمول ہوگا جیساکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے ولرسولہ ولذی القربی الخ آیت میں رشتہ داروں کیلئے بھی غنیمت کے مال میں حصہ کا ثبوت ہے اورہم کہتے ہیں کہ یہ صحابہ کرام کے اجماع سے منسوخ ہے ۔ترجیح پر محمول کرنے کی صورت یہ ہے کہ آیت پاک والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا کا ظاہری تقاضایہ ہے کہ حاملہ عورت کاشوہر مرجائے تو اس کی عدت وضع حمل سے نہیں ہوگی بلکہ اس کو چارماہ دس دن عدت کے گزارنے ہوں گے کیونکہ آیت ہرایک عورت کے بارے میں عام ہے خواہ و ہ حاملہ ہو یاغیرحاملہ ہو،اللہ تبارک وتعالیٰ کا دوسراارشاد ہے کہ حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہو اس کا تقاضایہ ہے کہ حاملہ عورت کے وضع حمل کے بعد عدت ختم ہوجائے گی خواہ چارماہ دس دن پورے نہ ہوئے ہوں۔یہ آیت عام خواہ حاملہ عورت کا شوہر مراہو یانہ مراہو۔لیکن اس آیت کو ہم نے اس لئے ترجیح دی کیونکہ حضرت ابن عباسؓ کا قول موجود ہے کہ یہ آیت پہلی آٰت والذین یتوفون منکم کے بعد نازل ہوئی ہے۔اس سے پہلی آیت منسوخ ہوگئی ہے اورحضرت علی رضی اللہ عنہ نے دونوں قول میں جمع کی صورت اختیار کی ہے احتیاط کی بناء پر۔

قال من ذلک ان الشافعی یقول بجواز اداء سنۃ الفجر بعد اداء فرض الفجر قبل طلوع الشمس لماروی عن عیسی رانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصلی رکعتین بعد الفجر فقال ماھما فقلت رکعتاالفجر کنت الم ارکعھما فسکت قلت ھذا منسوخ بماروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال لاصلوۃ بعد الفجر حتی تطلع الشمس ولابعد العصر حتی تغرب الشمس والمعارضۃ فکحدیث انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہ کان یقنت فی الفجر حتی فارق الدنیا فھو معارض بروایۃ عن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قنت شھراثم ترکہ فاذا تعارضا روایتاہ تساقطافبقی لنا حدیث ابن مسعود وغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قنت شھرین یدعو علی احیاء العرب ثم ترکہ واماالتاویل فھو ماروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ کان اذارفع راستہ من الرکوع قال سمع اللہ لمن حمدہ ربنالک الحمد وھذا دلالۃ الجمع بین الذکرین من الامام وغیرہ ثم روی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال اذاقال الامام سمع اللہ لمن حمدہ قولوا ربنالک الحمد والقسمۃ تقطع الشرکۃ فیوفق بینھما فنقول الجمع للمنفرد والافراد للامام والمتقدی وعن ابی حنیفۃ انہ یقول الجمع للمتنفل والافراد للمفترض(المصدرالسابق)

اس کی شرح یہ ہے کہ امام شافعی طلوع شمس سے پہلے فجر کی فرض نماز کی ادائیگی کے بعد فجر کی سنت پڑھنے کو جائز قراردیتے ہیں ان کی دلیل حضرت حضرت عیسی سے منقول وہ حدیث ہے کہ رسول پاک نے مجھ کو فجر کے بعد دورکعت پڑھتے دیکھا انہوں نے پوچھایہ تم کیاپڑھ رہے تھے۔ میں نے عرض کیاکہ فجر کی دو سنت رکعتیں جس کو میں نہیں پڑھ سکتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کو سکوت اختیار کیا۔ میں کہتاہوں کہ یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے منسوخ ہے کہ فجر کے بعد کوئی نماز نہ پڑھی جائے تاوقتیکہ سورج طلوع ہوجائے اورعصر کے بعد کوئی نماز نہ پڑھی جائے تاوقتیکہ سورج غروب ہوجائے ۔معارضہ کی صورت یہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ کی حدیث ہے کہ آپ فجر کی نماز میں قنوت پڑھتے رہے اوراسی معمول پر دنیا سے رخصت ہوجائے ۔یہ حدیث حضرت انس کے دوسری حدیث کے معارض ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ فجر کی نماز میں قنوت پڑھاپھر اس کوچھوڑ دیا۔یہ دونوں روایت ایک دوسرے کے معارض ہونے کی بناء پر ساقط ہوگئیں ہم نے اس کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث پر عمل کیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دومہینہ فجر کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھی جس میں عرب کے قبیلوں کیلئے بددعا کی گئی پھر اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑدیا۔
اورتاویل کی صورت یہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے منقول ہے کہ آپ جب رکوع سے اپناسراٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ ربنالک الحمد کہتے تھے ۔یہ دونوں ذکر کوجمع کرنے کی دلیل ہے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی منقول ہے کہ انہوں نے فرمایاکہ جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربناالک الحمد کہاکرو تقسم شرکت کے منافی ہے۔توان دونوں حدیث میں تطبیق اس تاویل کے ذریعہ دی جائے گی کہ دونوں ذکر سمع اللہ لمن حمدہ اورربنالک الحمد کہنے کی صورت منفرد کیلئے ہے اورتقسیم اس صورت میں ہے جب باجماعت نماز ہورہی ہو ۔امام ابوحنیفہؓ سے منقول ہے کہ وہ فماتے تھے جمع نفل نماز پرھنے والے کیلئے ہے اورافراد فرض نماز پڑھنے والے کیلئے ہے۔


امام کرخی کے قاعدے کی امام نسفی کی وضاحت کی روشنی میں اتنی بات واضح ہوگئی ہے کہ

1: اس قول کا ظاہری مطلب مراد نہیں ہے کہ اگرکوئی قرآن کی آیت ہو یاکوئی حدیث ہو تواس کے مقابل میں صرف امام ابوحنیفہ کا قول کافی ہوگا۔
2:
یہ بھی واضح ہوگیاہے کہ امام کرخی کاصحیح منشاء یہ ہے کہ وہ یہ بتاناچاہ رہے ہیں کہ آئمہ احناف نے اگرقرآن پاک کی کسی آیت کو ترک کیاہے یاکسی حدیث کوقابل عمل نہیں ماناہے تواس وجہ یہ ہے کہ ان کی رائے میں قرآن کی وہ آیت منسوخ ہے یاپھر اپنے ظاہر پر نہیں ہے ۔
3:ائمہ احناف نے کسی مسئلہ میں جس پہلو کو اختیار کیاہے اس کیلئے بھی ان کے پاس قرآن وحدیث سےدلائل موجود ہیں۔
میرے خیال سے اتنی بات ماننے میں کسی بھی صحیح الدماغ شخص کو تامل نہ ہوگا۔

امام کرخی کی یہ بات کہ ائمہ احناف نے اگرآیت یاحدیث کو چھوڑاہے تواس لئے کہ یاتو وہ ان کی رائے میں منسوخ ہے،یااس کے معارض کوئی دوسری حدیث ہے یاپھروہ حدیث اپنے ظاہر پر محمول نہیں ہے۔

امام کرخی کی بات کاجومنشاء اورمقصد ہے وہ اپنی جگہ بالکل درست ہے اوریہی بات ہردور میں علماء اعلام نے ائمہ کرام کی جانب سے کہی ہیں۔چاہے وہ ابن تیمیہ ہوں یاپھر حضرت شاہ ولی اللہ ۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
امام ابن تیمیہ نے ایک کتاب لکھی ہے رفع الملام عن ائمۃ الاعلام ۔اس میں وہ ائمہ کرام کے کسی حدیث یانص قرانی کی مخالفت کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

الأسباب التي دعت العلماء إلى مخالفة بعض النصوص،وجميع الأعذار ثلاثة أصناف‏:‏ أحدها‏:‏ عدم اعتقاده أن النبي صلى الله عليه وسلم قاله‏.‏ والثاني‏:‏ عدم اعتقاده إرادة تلك المسألة ذلك القول‏.‏ والثالث‏:‏ اعتقاده أن ذلك الحكم منسوخ‏.‏ وهذه الأصناف الثلاثة تتفرع إلى أسباب متعددة‏.‏(رفع الملام عن ائمۃ الاعلام12)

وہ اسباب جس کی وجہ سے علماء نے بعض نصوص کی مخالفت کی وہ تمام اعذار تین قسم کے ہیں۔ ایک تویہ کہ ان کویقین نہ ہو کہ رسول پاک نے ایساکہاہوگا ۔دوسرے یہ کہ ان کا یقین نہ ہو کہ رسول پاک نے اس قول سے وہی بات مراد لی ہوگی ۔تیسرے ان کا یقین کہ وہ حکم منسوخ ہے ۔
اس کے بعد ابن تیمیہ نے ان تینوں اعذار کی شرح کی ہے اور شرح میں وہ لکھتے ہیں۔

السبب التاسع‏:‏ اعتقاده أن الحديث معارض بما يدل على ضعفه، أو نسخه، أو تأويله إن كان قابلا للتأويل بما يصلح أن يكون معارضا بالاتفاق مثل آية أو حديث آخر أو مثل إجماع ۔(المصدرالسابق ص30)

اس پیراگراف کو غورسے پڑھئے اوردیکھئے کہ امام کرخی کے بیان میں اورامام ابن تیمیہ کے بیان میں کس درجہ مطابقت ہے۔امام کرخی کی بات اورابن تیمیہ کی بات میں بہت کم فرق ہے اوراگرکچھ فرق ہے توصرف اسلوب اورطرزاداء کا ۔
امام کرخی کا اسلوب بیان منفی ہے یعنی ہروہ آیت یاحدیث جوہمارے اصحاب کے قول کے مخالف ہو ،جب کہ ابن تیمیہ کا بیان مثبت ہے یعنی اگرکسی امام نے کسی حدیث پر عمل ترک کیاہے تواس کی وجہ اس کا منسوخ ہونا،کسی دوسرے حدیث کے معارض ہونا وغیرہ ہے۔ اسلوب بیان کے فرق کے علاوہ گہرائی اورگیرائی سے دیکھیں اورپرکھیں تو دونوں میں کوئی فرق نہیں ملے گا۔

2:امام کرخی کے بیان کردہ قاعدہ کاایک اور مطلب ہے۔

امام کرخی نے اپنے بیان میں "ہمارے اصحاب"کا ذکر کیا ہے۔امام ابوحنیفہؓ کانام خاص طورپر نہیں لیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے یانادرالوقوع ہے کہ ائمہ امام ابوحنیفہ،امام ابویوسف،امام محمد،امام زفراوراسی طرح ائمہ متقدمین میں سے اورکچھ لوگ تمام کے تمام کسی ایسے قول کے قائل ہوں جس پر قرآن وحدیث کی کوئی دلیل نہ ہو ۔ایسانہیں ہوسکتابلکہ عموماایساہواہے کہ ائمہ احناف کے درمیان مختلف مسائل میں اختلاف رہاہے اوربعض کے ائمہ ترجیح نے دلائل کی بنیاد پر ایک قول کو دوسرے قول پر ترجیح دی ہے ۔ وقف کے مسئلہ میں صاحبین نے امام ابوحنیفہ سے اختلاف کیاہے۔ قرات خلف الامام کے مسئلہ میں امام محمد امام مالک اورامام احمد بن حنبل کی رائے کے قائل ہیں کہ جہری نمازوں میں نہ پڑھی جائے اور سری نمازوں میں پڑھی جائے ۔اب اگرایسے میں تمام ائمہ احناف نے کسی آیت پر عمل نہ کیاہویاکسی حدیث کو ترک کردیاہوتواس کی وجہ ہوسکتی ہے جوامام کرخی بیان کرچکے ہیں۔ میراخیال ہے کہ اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے بشرطیکہ انسان سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کرے اوردل کو ائمہ احناف کی طرف سے عناد اورتعصب کی جذبات سے پاک کرلے۔کسی کے عناد اورتعصب سے ان کا توکچھ بگڑنے والانہیں ہے انشاء اللہ لیکن یہ یہ غریب خسرالدنیاوالآخرۃ کا مصداق ضرور ہوگا۔

امام کرخی کے قاعدہ کے اس مطلب کے قریب قریب بات حضرت شاہ ولی اللہ نے بھی بیان کیاہے چنانچہ و ہ فیوض الحرمین میں لکھتے ہیں۔

عرضنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان فی المذہب الحنفی طریقۃ انیقۃ ھی اوفق الطرق بالسنۃ المعروفۃ التی جمعت ونقحت فی زمان البخاری واصحابہ وذلک ان یوخذمن اقوال الثلاثۃ قول اقبلھم بھا فی المسئلۃ ثم بعد ذلک یتبع اختیارات الفقہاء الحنفین الذی علماء الحدیث(فیوض الحرمین64)
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کوبتایاکہ مذہب حنفی میں ایک ایسابہترین طریقہ وپہلو ہے کہ جوتمام طرق میں سب سے زیادہ ان احادیث کے موافق ہے جن کی تدوین وتنقیح امام بخاری اوران کے اصحاب کے دور میں ہوئی۔اور وہ طریقہ یہ ہے کہ علماء ثلاثہ (یعنی اما م صاحب اورصاحبین) کے اقوال میں سے جس کا قول حدیث کے معنی سے زیادہ قریب ہو اسے اختیار کیاجائے۔پھراس کے بعد ان حنفی فقہاء کے اختیارات پر عمل کیاجائے جو محدث بھی تھے۔
ایک دوسری جگہ حضرت شاہ ولی اللہ اسی کتاب فیوض الحرمین(ص63) میں لکھتے ہیں۔

"پھر فقہ حنفی کے ساتھ احادیث کو تطبیق دینے کا ایک نمونہ وصورت مجھ پر منکشف کیاگیا اوربتایاگیاکہ علماء ثلاثہ(امام ابوحنیفہ وصاحبین)میں سے کسی ایک کے قول کو لے لیاجائے ،ان کے عام اقوال کو خاص قراردیاجائے،ان کے مقاصد سے واقف ہواجائے۔اوربغیرزیادہ تاویل سے کام لئے احادیث کے ظاہری الفاظ کا جومطلب سمجھ میں آتاہو اس پر اکتفاء کیاجائے ۔نہ تو احادیث کو ایک دوسرے سے ٹکرایاجائے،اورنہ ہی کسی حدیث صحیح کو امت کے کسی فرد کے قول کے پیش نظرترک کیاجائے۔

دیکھنے کی بات یہ ہے کہ دونوں مقام پر حضرت شاہ ولی اللہ ائمہ ثلاثہ کا ہی ذکر کرتے ہیں کہ ان کے اقوال سے باہر نہ نکلاجائے ۔بالواسطہ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ ائمہ ثلاثہ میں سے تینوں کسی ایسے قول پرمتفق ہوجائیں جس پر قرآن وحدیث کی کوئی دلیل نہ ہو ایسانہیں ہوسکتابلکہ ان میں سے کسی ایک کا قول قرآن وحدیث کی تائید سے متصف ہوگا۔

اگرخدا نے عقل وذہن کی دولت بخشی ہے توامام کرخی کے قول پرغورکریں ۔وہ بھی بالواسطہ طورپر یہی کہہ رہے ہیں لیکن ان کے طرز تعبیر نے ان کو ملامت کا نشانہ بنادیاہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
:کبھی ایساہوتاہے اوربہت ہواہے کہ بات صحیح ہوتی ہے لیکن غلط طرز تعبیر سے بات کچھ کی کچھ ہوجاتی ہے اسی جگہ اگر طرز اورتعبیر کو درست کردیاجائے تووہی بات درست اورصحیح لگنے لگے گی۔

بات گرچہ بے سلیقہ ہوکلیم
بات کہنے کا سلیقہ چاہئے

حضرت معاویہ کے گورنر ابن غیلان نے ایک مرتبہ کسی شخص کے دوران خطبہ کنکرپھینکنے پر ہاتھ کاٹ دیاتھا۔ کچھ لوگوں نے ابن غیلان سے لکھوایاکہ تم کہہ دیناکہ میں نے شبہ کی وجہ سے ہاتھ کاٹ دیاہے پھر اس تحریر کو لے جاکر حضرت معاویہ کو دیکھایااورفریادکناں ہوئے کہ ہمارے ساتھ انصاف کیجئے۔حضرت معاویہ نے اس موقع پر جوجملہ کہاہے وہ یہ ہے کہ "میں ہاتھ کی دیت بیت المال سے اداکردوں گالیکن ہمارے عمال سے قصاص لینے کی کوئی سبیل نہیں ہے"(البدایہ 71/8)
یہ جملہ کہ ہمارے عمال سے قصاص لینے کی کوئی سبیل نہیں ہے بہت غلط فہمی پیداکرنے والاجملہ ہے۔ اوراس کی وجہ سے مولانا مودودی نے خلافت وملوکیت میں حضرت معاویہ پر عمال اورگورنروں کو قانون سے بالاترقراردینے کا الزام حضرت معاویہ پر عائد کیاہے لیکن دیکھئے مسئلہ کی صحیح صورت حال یہ ہے کہ اگرشبہ کی وجہ سے حاکم کسی شخص پر کوئی حد جاری کردے تو پھر اس حاکم سے قصاص نہیں لیاجاسکتا۔ لیکن اس کے بغیر اگرکوئی حاکم کوئی جرم کرتاہے توپھراس پر سزا کا نفاذ لازمی طورپر ہوگا۔

اب اگراس جملے کو اس تشریح کے ساتھ پڑھیں توحضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس لفظ میں کوئی خرابی نہیں ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ احناف نے بسااوقات ایساموہم طرز اپنی کتابوں میں اختیار کیاہے جس سے کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہوگئی اورکچھ لوگ جوپہلے سے جلے بھنے بیٹھے تھے انہوں نے اپنی روٹیاں سینکنے کا اسے اچھاموقع شمار کیا۔
مثلا احناف کاایک اصول ہے کہ کوئی آیت جب عام ہو تواس کی خبرواحد سے تخصیص نہیں ہوسکتی ۔ اس موقع پر احناف نے ایساطرز اسلوب اختیار کیاہے جس سے لگتاہے کہ خبرواحد کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہےکہ احناف کاکہناہے کہ قرآن کی آیت جب عام ہو توخبر واحد سے تخیص درجہ فرض میں نہیں ہوسکتی درجہ وجوب میں ہوسکتی ہے۔ اس کی بہترین وضاحت علامہ انورشاہ کشمیری نے فیض الباری کے مقدمہ میں کیاہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔

ان النص اذا جاء ساکتا عن شیء وجاء الخبر یثبتہ فھل تجوز تلک الزیادۃ وتزاد بہ علی القاطع ،فماذکرہ ساداتناالعظام رحمھہم اللہ تعالیٰ انہا لاتجوز لانہافی معنی النسخ وھولایجوز من خبرالواحد ومن اجل تلک المقالٰۃ شنع علیھم بعض المحدثین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فانہم فہمواان امامنا الھمام لایبالی بخبرالنبی صلی اللہ علیہ وسلم مبالاۃ ولایہم بالاعمال ھما وھذاکماتری یبنی علی صورۃ التعبر فقط ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فلذا غیرت عنوانہم من السلب الی الایجاب وکم من مواضع فعلت فیمامثل صنیعی،فی ھذاالمقام غیرت العنوان وبقیت المسالۃ علی حالھا فانی اجد کثیرا من اعتراضاتھم علینا من ھذاالقبیل فاذا غیرالعنوان اندفعت وطاحت وھذاکماقیل :والحق قد یعتریہ سوء تعبیر،وبعض الاعتراضات تبنی علی سوء الفہم وفرط التعصب،وھذاایضا من باب:
کم من عائب قولاصحیحا
وآفتہ من الفہم السقیم
فاقول مغیراکلامہم ان خبرالواحد تجوز منہ الزیادۃ لکن فی مرتبہ النقل فلایزاد بہ علی القاطع رکنا اوشرطا فماثبت من القاطع یکون رکنااوشرطاًوماثبت من الخبر یکون واجبا اورمستحبا حسب اقتضاء المقام ولیس ھذا من باب التغیرفی المسالۃ بل من باب التصرف فی التعبیر،فان الزیادۃ عندھم فی مرتبۃ الرکنیۃ والشرطیۃ ھی التی تسمی زیادۃ اصطلاحا وامامافی مرتبۃ الوجوب والاستحباب ،فلایسمونھازیادۃ فحینئذ معنی قولھم لاتجوزالزیادۃ ای فی مرتبۃ الرکنیۃ والشرطیہ ۔

(فیض الباری مقدمہ جلد اول)
جب نص کسی کسی مسالہ سے خاموش ہو اورخبرواحد اس کا اثبات کررہاہوتوکیااس خبرواحد کے ذریعہ نص پر اضافہ معتبر ہوگا۔اوراس کے ذریعہ نص قطعی پراضافہ کیاجاسکے گا۔ ہمارے فقہاء نے ذکر کیاہے کہ خبرواحد کے ذریعہ نص پر اضافہ کرنا درست نہیں ہوگا۔کیونکہ وہ نسخ کے معنی میں ہوجائے گا اوریہ خبرواحد کے ذریعہ جائز نہیں ہے اوراسی بات کی وجہ سے بعض محدثین نے احناف پر تشنیع کی ہے۔ان لوگوں نے یہ سمجھاکہ ہمارے امام صاحب رسول پاک کے فرمودات کو اہمیت نہیں دیتے اورنہ ہی اعمال کو ایمان کیلئے ضروری سمجھتے ہیں۔اورجیساکہ آپ جانتے ہیں یہ کہ سب اسلوب بیان اورتعبیر کی وجہ سے ہواہے۔اسی لئے میں نے اس عنوان کو منفی سے مثبت کردیاہے اوردیگر مقامات پر بھی یہاں کاہی عمل دوہرایاہے۔اس مقام پر میں نے صرف عنوان بدلاہے۔نفس مسئلہ سے کوئی تعرض نہیں کیاہے وہ اپنی جگہ پر برقرار ہے۔میں نے پایاہے کہ ہم پر محدثین کے بہت سارے اعتراضات اسی قبیل سے ہیں۔لہذا جب تعبیر بدل دی جائے توان کے تمام اعتراضات ختم ہوجاتے ہیں اورہوامیں اڑجاتے ہیں۔اورویساہی ہے جیساکہ کہاگیاہے۔کبھی کبھار بری تعبیر کی وجہ سے حق بات بری معلوم ہونے لگتی ہے۔ہاں بعض اعتراضات محدثین کے یااحناف پر اعتراض کرنے والوں کے سوء فہم اورتعصب کی وجہ سے ہیں ۔
تومیں ان کی بات کو بدل کر کہتاہوں کہ خبرواحد سے اضافہ درست ہے لیکن گمان کے مرتبہ میں۔ تواب خبرواحد کے ذریعہ نص قطعی پر کسی رکن اورشرط کا اضافہ نہیں کیاجاسکتا جومسئلہ یاجوبات نص قطعی سے ثابت ہوگی تو وہ رکن اورشرط کے درجہ میں ہوگی اورجوچیز خبرواحد سے ثابت ہوگیاتو وہ تقاضائے کلام کے مطابق واجب یامستحب ہوگی۔ میری یہ بات مسئلہ میں ردوبدل نہیں ہے بلکہ صرف تعبیر میں فرق ہے۔ فقہاء احناف کے نزدیک اضافہ اس کو کہتے ہیں جو کہ رکن اورشرط کے درجہ میں ہواس سے کمتر درجہ میں(وجوب یااستحباب) اگرکوئی اضافہ ہورہاہے تووہ اس کو اصطلاحی طورپر اضافہ نہیں مانتے ۔تواب ان کے قول کا مطلب کہ خبرواحد کے ذریعہ نص پر اضافہ درست نہیں ہے یہ ہوا کہ رکنیت اورشرط کے مرتبہ میں اضافہ درست نہں ہے۔
اب ہم اسی طرز پر کہتے ہیں کہ حضرت امام کرخی کی بات کو آپ منفی سے مثبت کردیجئے اوران کی بات کو باقی رکھتے ہوئے یہ کہئے کہ
ہمارے اصحاب نے اگرکسی آیت پرعمل کو ترک کیاہے تواس کی وجہ یہ رہی ہوگی کہ یاتووہ آیت منسوخ ہوگی یاپھراس کے ظاہری طورپر معارض دوسری آیت پر عمل کیاگیاہوگااوراس کیلئے ان کے پاس وجہ ترجیح ہوگی بہتریہ ہے کہ دونوں آیتوں میں تطبیق کی صورت اختیار کی جائے۔
ہروہ حدیث جس پر ہمارے اصحاب نے عمل نہیں کیایااس کو ترک کیاہے تواس کی وجہ یہ رہی ہوگی کہ یاتو وہ حدیث منسوخ ہوگی یااس کے معارض دوسری حدیث پر انہوں نے عمل کیاہوگاجس کے ترجیح کے دلائل ان کے پاس ہوں گے یاپھر دونوں حدیث میں تاویل کرکے تطبیق اورتوفیق کی صورت پیداکیاجائے۔

اب دیکھئے کیااس بیان میں کوئی غلط بات ہے۔ کوئی ایسی بات جس پر کسی بھی گوشہ سے اعتراض کی زد پڑتی ہو حالانکہ نفس مسئلہ میں کوئی تغیرنہیں کیاگیاہے صرف تعبیر اوراسلوب بیان بدل دیاگیاہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
یہاں تک توبات یہ تھی کہ امام کرخی کے قول کا مطلب کیاہے اوراس کو پوری وضاحت سے بیان بھی کردیاگیاہے اب جوغلط فہمی کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں توانشاء اللہ ان کی غلط فہمیوں کا جواب ہوگیاہے۔اورجن کے اعتراض تعصب اورعناد کی پیداوار ہیں تواس کا کوئی جواب نہیں ہے

4: اگرکسی کو یہ خیال ہو کہ اس تمام قیل وقال کے باوجود ان کی بات غلط اورنادرست ہے توبھی ایسانہیں ہے کہ امام کرخی پر تبراپڑھنا ضروری ہو ۔

بسااوقات ایساہوتاہے کہ انسان جوش عقیدت میں یاکسی خاص لمحے میں کچھ ایسی باتیں کہہ گزرتاہے جو شرعاخلاف ہوتی ہیں لیکن جاننے والے اس کے عذر کو سمجھ لیتے ہیں اورصاحب مقولہ پر طعن وتشنیع نہیں کرتے ۔اس کی کچھ مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
1امام ابن معین کوفی ہیں اورانہیں امام وکیع سے انتہائی عقیدت ہے۔ عقیدت کے جوش میں وہ یہاں تک کہہ گئے
عباس وابن أبي خيثمة ، سمعا يحيى يقول : من فضل عبد الرحمن بن مهدي على وكيع ، فعليه لعنة الله والملامكة والناس أجمعين .[/ARB](سیراعلام النبلاء،ترجمہ وکیع بن الجراح)
جوکوئی عبدالرحمن مہدی کو وکیع پر ترجیح دے اس پر اللہ ،فرشتوں اورتمام لوگوں کی لعنت ہو۔
حالانکہ ظاہر ہے کہ امام وکیع کی فضیلت پر نہ کوئی حدیث موجود ہے اورنہ کوئی آیت اورنہ ہی مسلمانوں کا اجماع لیکن جوش عقیدت میں حضرت یحیی بن معین ایسی بات کہہ گئے۔

قال أبو يحيى الناقد : كنا عند إبراهيم بن عرعرة ، فذكروا يعلى بن عاصم ، فقال رجل : أحمد بن حنبل يضعفه . فقال رجل : وما يضره إذا كان ثقة ؟ فقال ابن عرعرة : والله لو تكلم أحمد في علقمة والأسود لضرهما .(سیر اعلام النبلاء،ترجمہ احمد بن حنبل)

ابویحیی الناقد کہتے ہیں کہ ہم ابراہیم بن عرعرۃ کے پاس تھے انہوں نے یعلی بن عاصم کا ذکر کیاتوایک شخص نے کہاکہ ان کو امام احمد بن حنبل نے ضعیف قراردیاہے۔تودوسرے شخص نے کہاکہ اس سے اس کو کیانقصان ہوسکتاہے جب کہ وہ ثقہ ہو ۔اس پر ابن عرعرہ نے کہاکہ خدا کی قسم اگر احمد علقمہ اوراسود کے بارے میں بھی کلام کرتے توان دونوں کو نقصان پہنچتا۔
حالانکہ سبھی کومعلوم ہے کہ حضرت علقمہ اورحضرت اسود کس پائے کے شخص ہیں۔ اگران پر حضرت امام احمد بن حنبل کلام کرتے تووہ تو مجروح نہ ہوتے البتہ خود ان پر دھبہ اورعیب لگتاجیساکہ حافظ ذہبی نے الرواۃ الثقات المتکلم فیہ میں حضرت ابن معین کے امام شافعی پر جرح کرنے پر لکھاہے کہ اس سے وہ تومجروح نہ ہوئے بلکہ خود ابن معین کو عیب اوردھبہ لگاہے۔
اسی کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ نقد کلام میں ابن معین اورامام احمد بن حنبل کا مرتبہ برابر ہے اورامام شافعی اورامام علقمہ واسود میں بون بعید ہے۔امام علقمہ وہ شخصیت ہیں جن کے بارے میں حضرت عبداللہ بن مسعود نے کہاتھاکہ جوکچھ میں جانتاہوں وہ یہ بھی جانتے ہیں ۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جیسے فقیہہ متبحرصحابی کایہ ارشاد کس قدر اہمیت رکھتاہے اس کی اہمیت صرف وہی لوگ جانتے ہوں جنہوں نے کتب روایت مین حضرت عبداللہ بن مسعود کی علمی گہرائی وگیرائی اورصحابہ کرام کے درمیان ان کے مقام ومرتبہ کو سمجھاہو۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ابن عرعرہ حضرت امام احمد بن حنبل کی تعریف میں ایک نامناسب مبالغہ کررہے ہیں لیکن اس کی وجہ سے ابن عرعرہ پر تنقید یاانکو لعن طعن کرنا مناسب نہیں بلکہ صرف اتناہوناچاہئے کہ غلطی واضح کردی جائے۔

محمد بن يحيى النيسابوري ، حين بلغه وفاة أحمد ، يقول : ينبغي لكل أهل دار ببغداد أن يقيموا عليه النياحة في دورهم . (المصدرالسابق).
جب محمد بن یحیی نیشاپوری کو حضرت امام احمد بن حنبل کے وفات کی خبرملی تو کہاکہ ہربغدادی کو چاہئے کہ وہ ان پر نوحہ کرے ۔

سبھی کومعلوم ہے کہ روناپیٹنا اورنوحہ کرنا اسلام میں غیرشرعی فعل ہے جس سے شریعت نے منع کیاہے اس کے باوجود ایک عظیم القدر محدث امام احمد کے انتقال پر لوگوں کو نوحہ کرنے کا حکم دے رہاہے۔ کیاجن لوگوں نے امام کرخی پر سخت اورکڑے لفظوں میں تنقید کی ہے کبھی اس کاآدھابھی محمد بن یحیی النیشاپوری کی اس غیرشرعی بات پرتنقید کی ہے؟

وقال آخر : نظرة عندنا من أحمد تعدل عبادة سنة .
ایک شخص نے کہاکہ ہمارے نزدیک امام احمد کی طرف ایک نگاہ دیکھنا ایک سال کی عبادت کے برابر ہے۔
قلت : هذا غلوٌ لا ينبغي؛ لكن الباعث له حب ولي الله في الله .
میں(ذہبی)کہتاہوں کہ یہ نامناسب غلو ہے لیکن اس کاباعث اللہ کے ولی کی محبت ہے۔(المصدرالسابق)
حافظ ذہبی نے یہ کہنے والے پر طعن وتشنیع شروع نہیں کردی کہ وہ دشمن اسلام ہے۔ شریعت سازی کررہاہے ۔ اور یہ اور وہ بس اتناکہاکہ بات اگرچہ غلط ہے لیکن اس کا باعث امام احمد بن حنبل کی محبت ہے۔
اگرسلفی حضرات بھی حافظ ذہبی کے اس ادب اورتادب سے کچھ سیکھ سکیں توشاید بہتر ہو۔

قال أبو عبيد الآجري : سمعت أبا داود يقول : قال أحمد بن سنان : سمعت عبد الرحمن بن مهدي يقول : لو كان لي عليه سلطان -على من يقرأ قراءة حمزة- لأوجعت ظهره وبطنه . (سیر اعلام النبلاء ترجمہ عبدالرحمن بن مہدی)
عبدالرحمن بن مہدی کہتے ہیں کہ اگرمجھ کو اقتدار ہوتا توجوشخص بھی حمزہ کی قرات پر قرآن پاک پڑھتاہے اس کی پٹائی کرتا۔
آج امت مسلمہ کا بڑا طبقہ بلکہ اگراس کو 95فیصد بھی کہاجائے تومبالغہ نہ ہوگاکہ وہ حمزہ کی قرات پر ہی قران پاک کی تلاوت کرتے ہیں اوراسی کو اللہ پاک نے قبول عام بخشاہے اس کے باوجود آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ابن مہدی حمزہ کی قرات کے سلسلہ میں کتناسخت رویہ اپناتے ہیں۔

ان تمام میں دیکھ سکتے ہیں کہ محبت یا نفرت میں کچھ ایسے اقوال ہیں جو حدود سے متجاوز ہیں لیکن کیااس کی وجہ سے اب ہم اب معین، عبدالرحمن بن مہدی، ابن عرعرہ اوراسی قسم کے دوسرے لوگوں پر طعن وتشنیع شروع کردیں جو کچھ نام نہاد اہل علم نے امام کرخی پر کررکھاہے۔یاان اقوال اوران کے قائلین کی بہترتاویل کی جائے جس سے کسی پر زد نہ پڑے۔ کچھ لوگوں پر افسوس ہے کہ وہ محدثین کی باتوں کی توتاویل کرلیتے ہیں لیکن جوں ہی بات کسی حنفی عالم کی آتی ہے توحسن ظن اورتاویل اورتشریح اوروضاحت کو سرے سے ناقابل قبول قراردے کر من مانی مراد پر اصرار کرتے ہیں۔
5:اجتہادی غلطی:یہ معلوم ہے کہ بات اصول فقہ کی ہو، نفس فقہ کی ہو یاپھرحدیث کی صحت وعدم صحت کی ہو اورروایوں پر جرح وتعدیل اورکلام کی ہو غلطی کسی سے بھی ہوسکتی ہے۔ کیاہمارایہ رویہ درست ہوگاکہ ہم بقیہ تمام کیلئے تواجتہادی غلطی کے عذر کو قبول کریں لیکن بات جوں ہی امام کرخی کی آئے اجتہادی غلطی کاعذر ناقابل سماعت ہوجائے۔
جہاں ہم ان سارے علماء کے اقوال کو ان کے فقہی اجتہاد کی غلطی سمجھ کر نظرانداز کردیتے ہیں اورزبان طعن دراز نہیں کرتے کیاہم یہی سلوک اور رویہ امام کرخی کے ساتھ روانہیں رکھ سکتے۔آخر ابن حزم کے موسیقی کے جواز کو بھی توہم اسی میں شامل کرتے ہیں۔ البانی کے چہرہ کو پردہ میں شامل نہ کرنے عورتوں پر بھی سونا کو حرام سمجھنے کوبھی تواسی میں شامل سمجھتے ہیں۔ اوران کیلئے لمبے چوڑے مضامین لکھ کریہ ثابت کرناچاہتے ہیں کہ یہ ان کی اجتہادی غلطی ہے اس لئے اس سے صرف نٖظرکرناچاہئے لیکن بات جب امام کرخی کے اس اصول کی آتی ہے تواس کو اجتہادی غلطی تک ماننے میں دشواری ہونے لگتی ہے کیونکہ پھربقیہ احناف کو مورد طعن ٹھہرانے کا ایک اچھاموقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔
7:ہرمسلک اورمذہب میں ایساہواہے کہ بعض علماء اپنے شاذ نظریات رکھتے ہیں۔اس کی وجہ سے پورے مسلک والوں کو مطعون کرنا کسی بھی عقل مند کے نزدیک درست نہیں ہے۔بالخصوص جب کہ دیگرفقہاء نے اس کی تائید نہ کی ہو،ایسے میں اصول یہ ہے کہ جس کی غلطی ہے بات اسی حد تک محدود رکھی جائے اس کو دوسروں تک متجاوز نہ کیاجائے ۔لیکن یہ طرفہ تماشاہے کہ امام کرخی کے نام پر پورے احناف کو پورے زوروشور کے ساتھ اورزبان کی پوری طاقت کے ساتھ لعن طعن کا نشانہ بنایاجاتاہے ۔لیکن اگراس کی جگہ نام نہاد اہل حدیث حضرات کے تفردات پر ان کی گرفت کرتے ہیں توفوراًیہ ارشاد ہوتاہے کہ وہ ان کا اپنااجتہاد تھاہم اس سے متفق نہیں ہیں۔ لیکن یہی بات ان کو امام کرخی سے گزرکر تمام احناف کو موردن طعن ٹھہراتے وقت یاد نہیں رہتاہے کہ وہ ایک عالم دین کی اپنی ذاتی رائے تھی۔ اگر اہل حدیث حضرات چاہیں توہم ان کے علماء کے تفردات پر بھی ایک دوسرامضمون سپرد قلم کرسکتے ہیں۔

یہ واضح رہے کہ امام کرخی کے اس قول کی دیگر ائمہ احناف نے کبھی تائید نہیں کی ہے بلکہ سرے سے اس کو ذکر ہی نہیں کیاہے۔امام بزدوی کی اصول البزدوی ہو،یاپھر جصاص رازی کی الفصول فی اصول الفقہ ہویاپھر امام سرخسی کی اصول السرخی ہو یاپھر امام سمرقندی کی میزان الااصول فی نتائج العقول فی اصول الفقہ ہو،ابن ہمام کی التحریر ہو ،ملامحب اللہ بہاری کی سلم ہویاپھراس کی شرح مسلم الثبوت ہوپھراصول شاشی ہویاپھرنورالانوار ۔کسی بھی فقہ حنفی کی کتاب میں امام کرخی کے اس اصول کا ذکر نہیں ملے گا۔
جب کسی بھی بعد کے حنفی فقیہہ نے اپنی کتابوں میں اس اصول کو ذکر نہیں کیااس کے بعد حنفیوں کو مورد الزام وطعن ٹھہراناکس درجہ دیدہ دلیری اورآنکھوں کاپانی مرنے کی بات ہے وہ صرف قیاس کیاجاسکتاہے۔
میراخیال ہے کہ یہ تمام مضمون اس بات کیلئے کافی ہوگاکہ امام کرخی کی بات کا صحیح مطلب سمجھاجائے :والسلام
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
جمشید بھائی لکھتے ہیں :
ہروہ آیت جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی تواس کو نسخ پر محمول کیاجائے گا یاترجیح پر محمول کیاجائے گا اوربہتر یہ ہے کہ ان دونوں میں تاویل کرکے تطبقیق کی صورت پیداکی جائے۔
یہاں یہ پوچھنے کی جسارت کی جاتی ہے کہ :( ہمارے اصحاب ) کو کس نے یہ درجہ دیا ہے کہ ان کے اقوال کو قرآن و سنت کے مد مقابل لا کھڑا کیا جائے ۔۔۔ اور جو قرآن وسنت میں ظاہرا تعارض کے وقت قواعد بیان کیے جاتے ہیں وہی ان ( اصحاب ) کے اقوال لیے استعمال کیے جائیں ۔
کیا ان ( اصحاب ) کے اقوال کی یہ حیثیت ہے ؟؟ او ران ( اصحاب ) کو یہ حیثیت کس نے دی ہے ؟
دوسری بات ( اصحاب حنفیۃ ) کے علاوہ بھی کوئی اصحاب ہیں کہ نہیں ؟ کیا ان کی طرف سے اگر ایسا دعوی کردیا جائے تو یہی قواعد استعمال ہوں گے ؟
ابن تیمیہ کی رفع الملام وغیرہ کا جو حوالہ دیا جاتا ہے تو اس سے یہ مطلب سمجھ آتا ہے کہ وہ علماء جن کا علم حدیث و فقہ واقعہ ہی مسلم ہے اگر ان سے کوئی اخطاء ہو گئی ہیں تو ان کو ان میں معذور سمجھا جائے ۔۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کو معصوم عن الخطاء قراردے کر باقاعدہ قواعد گھڑنے شروع کردیے جائیں کہ :
ہروہ آیت جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی تواس کو نسخ پر محمول کیاجائے گا یاترجیح پر محمول کیاجائے گا اوربہتر یہ ہے کہ ان دونوں میں تاویل کرکے تطبقیق کی صورت پیداکی جائے۔
ذرا غور فرمائیں ! ابن تیمیہ اور مقلدین کے مقاصد میں بڑا واضح فرق ہے ایک کہتا ہے کہ جو کچھ انہوں نےکہہ دیا وہ حرف آخر ہے چاہے اس کے مخالف قرآن و حدیث ہی کیوں نہ ہو ؟
اور دوسرا کہتا ہے چلو ان سے غلطی ہو گئی ہے تو اس پر ضد نہ کرو بلکہ ان کی اغلاط میں پڑہ کر ان کی بدنامی کا باعث نہ بنو ۔

جمشید بھائی لکھتے ہیں :
۔اپنے معمولی علم وفہم کو کام میں لاکر کنویں کے مینڈک کی طرح وہ یہی سمجھتے ہیں کہ جوکچھ میں نے سمجھاہے وہی حرف آخر ہے اوراس کے علاوہ کوئی دوسرانقطہ نظر قابل قبول ہی نہیں ہے۔
یہ نظریہ ان لوگوں کا ہو سکتا ہے جو واقعہ ہی اپنےعلاوہ کسی کو صحیح نہیں سمجھتے اور یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ :

ہروہ آیت جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی تواس کو نسخ پر محمول کیاجائے گا یاترجیح پر محمول کیاجائے گا اوربہتر یہ ہے کہ ان دونوں میں تاویل کرکے تطبقیق کی صورت پیداکی جائے۔
ایک جگہ اور لکھتے ہیں :
ہمارے اصحاب نے اگرکسی آیت پرعمل کو ترک کیاہے تواس کی وجہ یہ رہی ہوگی کہ یاتووہ آیت منسوخ ہوگی یاپھراس کے ظاہری طورپر معارض دوسری آیت پر عمل کیاگیاہوگااوراس کیلئے ان کے پاس وجہ ترجیح ہوگی بہتریہ ہے کہ دونوں آیتوں میں تطبیق کی صورت اختیار کی جائے۔
ہروہ حدیث جس پر ہمارے اصحاب نے عمل نہیں کیایااس کو ترک کیاہے تواس کی وجہ یہ رہی ہوگی کہ یاتو وہ حدیث منسوخ ہوگی یااس کے معارض دوسری حدیث پر انہوں نے عمل کیاہوگاجس کے ترجیح کے دلائل ان کے پاس ہوں گے یاپھر دونوں حدیث میں تاویل کرکے تطبیق اورتوفیق کی صورت پیداکیاجائے۔
اس میں جو بار بار ’’ ہو گی ‘‘ استعمال ہوا ہے تواس طرح کی باتوں کا اصول فقہ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔۔ بلکہ اس کو تاریخ کی کتب مین ذکر کرنا چاہیے ۔۔ کیونکہ یہاں بھی مقاصد کا فرق بڑا مہم ہے ۔۔۔ لیکن اپنے بھائیوں سے ہمیں یہ شکایت ہے کہ وہ ’’ ہو گا ، ہو گی ‘‘ کی آڑ میں شریعت سمجھنے کے قواعد بنانا شروع کر دیتے ہیں۔۔ جو بہر صورت ایک قبیح جرم ہے ۔۔ کہ متقدمیں کی غلطیوں کی نشاندہی اور اصلاح کی بجائے ان پر مزید قواعد کی تفریع شروع کردی جائے اور خود تو جو غلطی کر رہے ہیں کر ہی رہے ہیں ساتھ ان کو بھی رگڑا لگا دیا جائے جو ان چیزوں کو پسند نہیں کرتے تھے ۔

ویسے مجھے شروع سے لے کر ے آخر تک جمشید بھائی کی پوری بات پڑہنے کے باوجود یہ سمجھ نہیں آ سکی کہ وہ امام کرخی کے اصول کا دفاع کر رہے ہیں یا امام کرخی کے اصول کو غلط سمجھتے ہوئے امام کرخی کی ذات کےلیے عذر تلاش کررہے ہیں ( واللہ اعلم )
مثال کے طور پر ایک جگہ پر لکھتےہیں :
اس میں انہوں نے ایک دوباتیں ایسی ذکر کی ہیں جن سے بظاہر قرآن کریم اورحدیث رسول کااستخفاف ہوتاہے اس کی حقیقت کو سمجھے بغیر اورغوروفکر کئے بغیر کچھ لوگ فوراتبراشروع کردیتے ہیں اورصرف امام ابوالحسن الکرخی کے ساتھ یہ معاملہ نہیں کرتے بلکہ پورے جمعیت احناف کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں یہ ان کی روایتی قلت فہم کی نشانی ہے کہ کسی بات کو سمجھے اورس کی حقیقت معلوم کئے بغیر فوراطعن وتشنیع شروع کردینا۔
امام کرخی کے قول کا مطلب کیاہے اس کا جواب کئی اعتبار سے دیاجاسکتاہے۔
جبکہ آگے جاکر لکھتے ہیں :
بسااوقات ایساہوتاہے کہ انسان جوش عقیدت میں یاکسی خاص لمحے میں کچھ ایسی باتیں کہہ گزرتاہے جو شرعاخلاف ہوتی ہیں لیکن جاننے والے اس کے عذر کو سمجھ لیتے ہیں اورصاحب مقولہ پر طعن وتشنیع نہیں کرتے
ہرمسلک اورمذہب میں ایساہواہے کہ بعض علماء اپنے شاذ نظریات رکھتے ہیں۔اس کی وجہ سے پورے مسلک والوں کو مطعون کرنا کسی بھی عقل مند کے نزدیک درست نہیں ہے۔بالخصوص جب کہ دیگرفقہاء نے اس کی تائید نہ کی ہو،ایسے میں اصول یہ ہے کہ جس کی غلطی ہے بات اسی حد تک محدود رکھی جائے اس کو دوسروں تک متجاوز نہ کیاجائے ۔لیکن یہ طرفہ تماشاہے کہ امام کرخی کے نام پر پورے احناف کو پورے زوروشور کے ساتھ اورزبان کی پوری طاقت کے ساتھ لعن طعن کا نشانہ بنایاجاتاہے ۔لیکن اگراس کی جگہ نام نہاد اہل حدیث حضرات کے تفردات پر ان کی گرفت کرتے ہیں توفوراًیہ ارشاد ہوتاہے کہ وہ ان کا اپنااجتہاد تھاہم اس سے متفق نہیں ہیں۔ لیکن یہی بات ان کو امام کرخی سے گزرکر تمام احناف کو موردن طعن ٹھہراتے وقت یاد نہیں رہتاہے کہ وہ ایک عالم دین کی اپنی ذاتی رائے تھی۔ اگر اہل حدیث حضرات چاہیں توہم ان کے علماء کے تفردات پر بھی ایک دوسرامضمون سپرد قلم کرسکتے ہیں۔

یہ واضح رہے کہ امام کرخی کے اس قول کی دیگر ائمہ احناف نے کبھی تائید نہیں کی ہے بلکہ سرے سے اس کو ذکر ہی نہیں کیاہے۔امام بزدوی کی اصول البزدوی ہو،یاپھر جصاص رازی کی الفصول فی اصول الفقہ ہویاپھر امام سرخسی کی اصول السرخی ہو یاپھر امام سمرقندی کی میزان الااصول فی نتائج العقول فی اصول الفقہ ہو،ابن ہمام کی التحریر ہو ،ملامحب اللہ بہاری کی سلم ہویاپھراس کی شرح مسلم الثبوت ہوپھراصول شاشی ہویاپھرنورالانوار ۔کسی بھی فقہ حنفی کی کتاب میں امام کرخی کے اس اصول کا ذکر نہیں ملے گا۔
جمشید بھائی کے آخری اقتباس میں ایک اور بات ہے کہ اہل حدیث علماء کے تفردات سے غض النظر کیاجاتا ہے جبکہ احناف کے شاذ اقوال کو پکڑ کے مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے ۔ تو اس بنیادی فرق کی ایک ہی وجہ بیان کرنی کافی ہے کہ احناف مقلدین ہیں اور اہل حدیث مقلدین نہیں ہیں ۔۔
تقلید کرنے والے کو ایسی باتیں بطور الزام پیش کی جا سکتی ہیں جو تقلید نہ کرنے والے کو پیش نہیں کی جا سکتیں ۔ ( واللہ اعلم )

اگر کوئی غلط بات ہو تو بھائی متنبہ ضرور فرمادیں ۔۔ جزاکم اللہ ۔۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اگرکوئی پوری رامائن پڑھنے کے بعد بھی یہ سوال کرے کہ سیتا کس کی بیوی ہے توجوجواب اس کا دیاجاسکتاہے وہی جواب آپ کی معروضات کاہے۔
اولامیں نے کوشش کی ہے کہ امام کرخی کے قول کا بہترمحمل اورمطلب بیان کیاجائے۔ اور وہ مطلب جو ان کے بقیہ کلام سے ہم آہنگ ہو۔
عیسی بن ابان کہتے ہیں کہ حدیث کا راوی اگرغیرفقییہ ہو اورحدیث کے خلاف ہوتو حدیث رد کردی جائے گی جب کہ اس کے بالمقابل امام کرخی کہتے ہیں کہ حدیث کاراوی فقییہ ہو یاغیرفقییہ حدیث کوہرحال میں قیاس پر ترجیح رہے گی۔(کشف الاسرار)
اس سے بھی معلوم ہوتاہے کہ امام کرخی کے قول کا وہی مطلب نہیں ہے جو بعض الناس نے سمجھاہے بلکہ انشاء اللہ وہی مطلب ہے جو ہم نے بیان کیاہے۔
اس کے بعد ہم نے ذکر کیاہے کہ بات کہنے کا انداز غلط ہو لیکن اس کا صحیح معنی مراد لیاجاسکتاہے
پھر ہم نے اس کے انتہائے عقیدت پرمحمول کیاہے
پھر اس کے بعد ذاتی اجتہاد کا ذکر کیاہے ۔
ویسے مجھے شروع سے لے کر ے آخر تک جمشید بھائی کی پوری بات پڑہنے کے باوجود یہ سمجھ نہیں آ سکی کہ وہ امام کرخی کے اصول کا دفاع کر رہے ہیں یا امام کرخی کے اصول کو غلط سمجھتے ہوئے امام کرخی کی ذات کےلیے عذر تلاش کررہے ہیں ( واللہ اعلم )
اگر سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کرتے تو واضح نظرآتا کہ ان کے قول کا بہترمطلب اورمعنی مراد لیاجاسکتاہے اور اگرکسی کاذہنی دائرہ اس قدر تنگ ہوکہ اسے اس قول کا بہترمحمل تلاش کرنے میں انقباض خاطر محسوس ہورہاہو تواس کو ان کے ذاتی اجتہاد اورذاتی رائے سمجھ کر مسترد کردے۔
جمشید بھائی کے آخری اقتباس میں ایک اور بات ہے کہ اہل حدیث علماء کے تفردات سے غض النظر کیاجاتا ہے جبکہ احناف کے شاذ اقوال کو پکڑ کے مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے ۔ تو اس بنیادی فرق کی ایک ہی وجہ بیان کرنی کافی ہے کہ احناف مقلدین ہیں اور اہل حدیث مقلدین نہیں ہیں ۔۔
اس کی بھی وضاحت کردیجئے گا کہ احناف امام کرخی کی تقلید کرتے ہیں ؟یہ کس حنفی کا قول ہے!اورجہاں تک تقلید اورعدم تقلید کی بات ہے تووہ صرف دھوکے کی ٹٹی ہے۔اوراس کا بطلان اسی سے واضح ہے کہ صوفیوں کوتوبہت کچھ کہاجاتاہے لیکن جب اپنے صوفی اورصوفیت سے اشتغال رکھنے والے علماء کی بات آتی ہے توصم بکم عمی کی عملی تصویر بن جاتے ہیں۔
اس میں جو بار بار ’’ ہو گی ‘‘ استعمال ہوا ہے تواس طرح کی باتوں کا اصول فقہ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔۔ بلکہ اس کو تاریخ کی کتب مین ذکر کرنا چاہیے
اہل حدیث حضرات متقدمین اورمتاخرین میں سے جن لوگوں نے اصول فقہ پر کتابیں لکھی ہیں ذراان کی نشاندہی کیجئے گا۔ براہ کرم حنبلی اورشافعی فقہاء کی کتابوں کے نام مت لکھئے گا وہ سب کے سب تقلید کے قائل گزرے ہیں۔
اوران میں سے کس اصول کو اہل حدیث مانتے ہیں ذرا اس کی بھی وضاحت کردیجئے گاکہ کیونکہ ہم نے آج تک یہی دیکھاہے جس بات پر گرفت کرو فوراجواب آتاہے ہم اس کو نہیں مانتے توبراہ کرم اہل حدیث حضرات جس اصول فقہ اوراس میں جن باتوں کے قائل ہیں ذراان کی وضاحت کے ساتھ نشاندہی کردیجئے گا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اگرکوئی پوری رامائن پڑھنے کے بعد بھی یہ سوال کرے کہ سیتا کس کی بیوی ہے توجوجواب اس کا دیاجاسکتاہے وہی جواب آپ کی معروضات کاہے۔
اولامیں نے کوشش کی ہے کہ امام کرخی کے قول کا بہترمحمل اورمطلب بیان کیاجائے۔ اور وہ مطلب جو ان کے بقیہ کلام سے ہم آہنگ ہو۔
عیسی بن ابان کہتے ہیں کہ حدیث کا راوی اگرغیرفقییہ ہو اورحدیث کے خلاف ہوتو حدیث رد کردی جائے گی جب کہ اس کے بالمقابل امام کرخی کہتے ہیں کہ حدیث کاراوی فقییہ ہو یاغیرفقییہ حدیث کوہرحال میں قیاس پر ترجیح رہے گی۔(کشف الاسرار)
اس سے بھی معلوم ہوتاہے کہ امام کرخی کے قول کا وہی مطلب نہیں ہے جو بعض الناس نے سمجھاہے بلکہ انشاء اللہ وہی مطلب ہے جو ہم نے بیان کیاہے۔
اس کے بعد ہم نے ذکر کیاہے کہ بات کہنے کا انداز غلط ہو لیکن اس کا صحیح معنی مراد لیاجاسکتاہے
پھر ہم نے اس کے انتہائے عقیدت پرمحمول کیاہے
پھر اس کے بعد ذاتی اجتہاد کا ذکر کیاہے ۔




ویسے مجھے شروع سے لے کر ے آخر تک جمشید بھائی کی پوری بات پڑہنے کے باوجود یہ سمجھ نہیں آ سکی کہ وہ امام کرخی کے اصول کا دفاع کر رہے ہیں یا امام کرخی کے اصول کو غلط سمجھتے ہوئے امام کرخی کی ذات کےلیے عذر تلاش کررہے ہیں ( واللہ اعلم ) اگر سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کرتے تو واضح نظرآتا کہ ان کے قول کا بہترمطلب اورمعنی مراد لیاجاسکتاہے اور اگرکسی کاذہنی دائرہ اس قدر تنگ ہوکہ اسے اس قول کا بہترمحمل تلاش کرنے میں انقباض خاطر محسوس ہورہاہو تواس کو ان کے ذاتی اجتہاد اورذاتی رائے سمجھ کر مسترد کردے۔




جمشید بھائی کے آخری اقتباس میں ایک اور بات ہے کہ اہل حدیث علماء کے تفردات سے غض النظر کیاجاتا ہے جبکہ احناف کے شاذ اقوال کو پکڑ کے مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے ۔ تو اس بنیادی فرق کی ایک ہی وجہ بیان کرنی کافی ہے کہ احناف مقلدین ہیں اور اہل حدیث مقلدین نہیں ہیں ۔۔ اس کی بھی وضاحت کردیجئے گا کہ احناف امام کرخی کی تقلید کرتے ہیں ؟یہ کس حنفی کا قول ہے!اورجہاں تک تقلید اورعدم تقلید کی بات ہے تووہ صرف دھوکے کی ٹٹی ہے۔اوراس کا بطلان اسی سے واضح ہے کہ صوفیوں کوتوبہت کچھ کہاجاتاہے لیکن جب اپنے صوفی اورصوفیت سے اشتغال رکھنے والے علماء کی بات آتی ہے توصم بکم عمی کی عملی تصویر بن جاتے ہیں۔




اس میں جو بار بار ’’ ہو گی ‘‘ استعمال ہوا ہے تواس طرح کی باتوں کا اصول فقہ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔۔ بلکہ اس کو تاریخ کی کتب مین ذکر کرنا چاہیے اہل حدیث حضرات متقدمین اورمتاخرین میں سے جن لوگوں نے اصول فقہ پر کتابیں لکھی ہیں ذراان کی نشاندہی کیجئے گا۔ براہ کرم حنبلی اورشافعی فقہاء کی کتابوں کے نام مت لکھئے گا وہ سب کے سب تقلید کے قائل گزرے ہیں۔
اوران میں سے کس اصول کو اہل حدیث مانتے ہیں ذرا اس کی بھی وضاحت کردیجئے گاکہ کیونکہ ہم نے آج تک یہی دیکھاہے جس بات پر گرفت کرو فوراجواب آتاہے ہم اس کو نہیں مانتے توبراہ کرم اہل حدیث حضرات جس اصول فقہ اوراس میں جن باتوں کے قائل ہیں ذراان کی وضاحت کے ساتھ نشاندہی کردیجئے گا۔

درج ذيل باتیں بھی عرض کی گئی تھیں


جمشید بھائی لکھتے ہیں :


یہاں یہ پوچھنے کی جسارت کی جاتی ہے کہ :( ہمارے اصحاب ) کو کس نے یہ درجہ دیا ہے کہ ان کے اقوال کو قرآن و سنت کے مد مقابل لا کھڑا کیا جائے ۔۔۔ اور جو قرآن وسنت میں ظاہرا تعارض کے وقت قواعد بیان کیے جاتے ہیں وہی ان ( اصحاب ) کے اقوال لیے استعمال کیے جائیں ۔
کیا ان ( اصحاب ) کے اقوال کی یہ حیثیت ہے ؟؟ او ران ( اصحاب ) کو یہ حیثیت کس نے دی ہے ؟
دوسری بات ( اصحاب حنفیۃ ) کے علاوہ بھی کوئی اصحاب ہیں کہ نہیں ؟ کیا ان کی طرف سے اگر ایسا دعوی کردیا جائے تو یہی قواعد استعمال ہوں گے ؟
ابن تیمیہ کی رفع الملام وغیرہ کا جو حوالہ دیا جاتا ہے تو اس سے یہ مطلب سمجھ آتا ہے کہ وہ علماء جن کا علم حدیث و فقہ واقعہ ہی مسلم ہے اگر ان سے کوئی اخطاء ہو گئی ہیں تو ان کو ان میں معذور سمجھا جائے ۔۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کو معصوم عن الخطاء قراردے کر باقاعدہ قواعد گھڑنے شروع کردیے جائیں کہ :

ہروہ آیت جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی تواس کو نسخ پر محمول کیاجائے گا یاترجیح پر محمول کیاجائے گا اوربہتر یہ ہے کہ ان دونوں میں تاویل کرکے تطبقیق کی صورت پیداکی جائے۔
ذرا غور فرمائیں ! ابن تیمیہ اور مقلدین کے مقاصد میں بڑا واضح فرق ہے ایک کہتا ہے کہ جو کچھ انہوں نےکہہ دیا وہ حرف آخر ہے چاہے اس کے مخالف قرآن و حدیث ہی کیوں نہ ہو ؟
اور دوسرا کہتا ہے چلو ان سے غلطی ہو گئی ہے تو اس پر ضد نہ کرو بلکہ ان کی اغلاط میں پڑہ کر ان کی بدنامی کا باعث نہ بنو ۔

جمشید بھائی لکھتے ہیں :


یہ نظریہ ان لوگوں کا ہو سکتا ہے جو واقعہ ہی اپنےعلاوہ کسی کو صحیح نہیں سمجھتے اور یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ :

ہروہ آیت جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی تواس کو نسخ پر محمول کیاجائے گا یاترجیح پر محمول کیاجائے گا اوربہتر یہ ہے کہ ان دونوں میں تاویل کرکے تطبقیق کی صورت پیداکی جائے۔


ایک جگہ اور لکھتے ہیں :
ہمارے اصحاب نے اگرکسی آیت پرعمل کو ترک کیاہے تواس کی وجہ یہ رہی ہوگی کہ یاتووہ آیت منسوخ ہوگی یاپھراس کے ظاہری طورپر معارض دوسری آیت پر عمل کیاگیاہوگااوراس کیلئے ان کے پاس وجہ ترجیح ہوگی بہتریہ ہے کہ دونوں آیتوں میں تطبیق کی صورت اختیار کی جائے۔
ہروہ حدیث جس پر ہمارے اصحاب نے عمل نہیں کیایااس کو ترک کیاہے تواس کی وجہ یہ رہی ہوگی کہ یاتو وہ حدیث منسوخ ہوگی یااس کے معارض دوسری حدیث پر انہوں نے عمل کیاہوگاجس کے ترجیح کے دلائل ان کے پاس ہوں گے یاپھر دونوں حدیث میں تاویل کرکے تطبیق اورتوفیق کی صورت پیداکیاجائے۔

اس میں جو بار بار ’’ ہو گی ‘‘ استعمال ہوا ہے تواس طرح کی باتوں کا اصول فقہ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔۔ بلکہ اس کو تاریخ کی کتب مین ذکر کرنا چاہیے ۔۔ کیونکہ یہاں بھی مقاصد کا فرق بڑا مہم ہے ۔۔۔ لیکن اپنے بھائیوں سے ہمیں یہ شکایت ہے کہ وہ ’’ ہو گا ، ہو گی ‘‘ کی آڑ میں شریعت سمجھنے کے قواعد بنانا شروع کر دیتے ہیں۔۔ جو بہر صورت ایک قبیح جرم ہے ۔۔ کہ متقدمیں کی غلطیوں کی نشاندہی اور اصلاح کی بجائے ان پر مزید قواعد کی تفریع شروع کردی جائے اور خود تو جو غلطی کر رہے ہیں کر ہی رہے ہیں ساتھ ان کو بھی رگڑا لگا دیا جائے جو ان چیزوں کو پسند نہیں کرتے تھے ۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تابعیت ( )والے موضوع میں بھی آپ نے اسی طرح کیا ہے اور کر رہے ہیں ۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
اگر نسفی صاحب حنفی مذہب کے لئے وضع کئے گئے کرخی صاحب کے اصول کی تشریح، وضاحت اور توضیح تک ہی محدود رہتے تو بھی کسی قدر مناسب تھا لیکن نسفی صاحب تو اپنی حدود سے آگے بڑھکر اصول کرخی کی باطل اور مردود تاویلات میں مصروف ہوگئے۔ اصول کرخی کی عملی تشریح تو دیوبندیوں کے شیخ الہند محمود الحسن دیوبندی نے ان الفاظ میں پیش کی ہے: والحق والانصاف ان الترجیح للشافعی فی ھذہ المسالۃ ونحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفۃ۔ کہ حق اور انصاف یہ ہے کہ خیار مجلس کے مسئلہ میں امام شافعی کو ترجیح حاصل ہے لیکن ہم مقلد ہیں ہم پر امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔(تقریر ترمذی، جلد 1، صفحہ 49)

یہی اصول کرخی کی حقیقی تشریح ہے جو محمودالحسن دیوبندی کی حنفی مذہب کے خلاف آجانے والی صحیح حدیث کو اعلانیہ ٹھکرا دینے سے واضح ہے۔اب حنفی اپنے ان یہودیانہ اصولوں پر جتنا بھی پردہ ڈالنے کی کوشش کریں اہل حق اہل حدیث سے حقیقت کو چھپا نہیں سکتے۔ان شاء اللہ۔

کرخی کا حنفی مذہب کے دفاع میں گھڑا ہوا شرمناک اصول کسی مزید تشریح کا محتاج نہیں ہے کیونکہ اس میں صاف صاف یہ وضاحت مذکور ہے کہ قرآن کی آیت کو یا حدیث کو اس وقت منسوخ مانا جائے گا یا قرآن و حدیث کو ان کے اصل معنوں سے پھیر کر حنفی مذہب کے مطابق کرنے کے لئے اسکی اس وقت تاویل کی جائے گی جب وہ حنفی اماموں کے مذہب کے خلاف ہو۔

جس کی تحریر ہو اور جس کا قول ہو اس کے اصل معنی جاننے کے لئے خود اسی شخص کی تشریح و وضاحت حتمی ومعتبر ہوتی ہے۔ کسی دوسرے شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسروں کی تحریروں و اقوال کی ایسی تشریح کرتا پھرے جو قول و تحریر کو اس کے اصل معنی ہی سے پھیر دے۔ خود جمشید صاحب کا اپنا موقف بھی یہی ہے جسے انہوں نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
مذکورہ بالاتحریر میں آنجناب سے یہی عرض کیاگیاہے کہ جس کی تحریر لیں اسی کا مفہوم بھی لیں۔ تحریرکسی اورکی اورمفہوم من مانااخذ کیاجائے ۔ اگریہ حق آپ کو پہنچتاہے تودوسرے کوبھی ایساہی حق پہنچتاہے لہذا جولکھیں سنجیدگی سے لکھیں اوراس کے مالہ وماعلیہ پر غورکرکے لکھیں ۔
اپنے مطلب کے لئے تو جمشید صاحب نے یہ اصول پیش کردیا لیکن اس مضمون میں اپنے ہی اصول کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اصول کرخی پیش کرنے کے بعد اس کی تشریح میں کرخی صاحب ہی کی کوئی عبارت و وضاحت پیش کرنے کے بجائے اپنی من مانی تشریحات پیش فرما رہے ہیں اور اس کے ذریعہ اہل حق کو مغالطہ دینے کی ناکام سعی فرمارہے ہیں۔

جمشید صاحب آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ آپ کی اصول کرخی کے دفاع میں کی گئی تمام تاویلات مردود ہیں۔ اول تو کرخی صاحب کے اصول اپنی وضاحت آپ ہیں لیکن پھر بھی جمشید صاحب انکی کوئی اضافی تشریح بیان کرنا چاہتے ہیں تو کرخی صاحب ہی کوئی دوسری عبارت پیش فرمائیں جو انکے اصولوں کی وضاحت کرتی ہو۔کرخی صاحب کے شاگردوں یا آپ کی تشریح ناقابل التفات ہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اگر نسفی صاحب حنفی مذہب کے لئے وضع کئے گئے کرخی صاحب کے اصول کی تشریح، وضاحت اور توضیح تک ہی محدود رہتے تو بھی کسی قدر مناسب تھا لیکن نسفی صاحب تو اپنی حدود سے آگے بڑھکر اصول کرخی کی باطل اور مردود تاویلات میں مصروف ہوگئے۔ اصول کرخی کی عملی تشریح تو دیوبندیوں کے شیخ الہند محمود الحسن دیوبندی نے ان الفاظ میں پیش کی ہے: والحق والانصاف ان الترجیح للشافعی فی ھذہ المسالۃ ونحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفۃ۔ کہ حق اور انصاف یہ ہے کہ خیار مجلس کے مسئلہ میں امام شافعی کو ترجیح حاصل ہے لیکن ہم مقلد ہیں ہم پر امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔(تقریر ترمذی، جلد 1، صفحہ 49)

یہی اصول کرخی کی حقیقی تشریح ہے جو محمودالحسن دیوبندی کی حنفی مذہب کے خلاف آجانے والی صحیح حدیث کو اعلانیہ ٹھکرا دینے سے واضح ہے۔اب حنفی اپنے ان یہودیانہ اصولوں پر جتنا بھی پردہ ڈالنے کی کوشش کریں اہل حق اہل حدیث سے حقیقت کو چھپا نہیں سکتے۔ان شاء اللہ۔

کرخی کا حنفی مذہب کے دفاع میں گھڑا ہوا شرمناک اصول کسی مزید تشریح کا محتاج نہیں ہے کیونکہ اس میں صاف صاف یہ وضاحت مذکور ہے کہ قرآن کی آیت کو یا حدیث کو اس وقت منسوخ مانا جائے گا یا قرآن و حدیث کو ان کے اصل معنوں سے پھیر کر حنفی مذہب کے مطابق کرنے کے لئے اسکی اس وقت تاویل کی جائے گی جب وہ حنفی اماموں کے مذہب کے خلاف ہو۔

جس کی تحریر ہو اور جس کا قول ہو اس کے اصل معنی جاننے کے لئے خود اسی شخص کی تشریح و وضاحت حتمی ومعتبر ہوتی ہے۔ کسی دوسرے شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسروں کی تحریروں و اقوال کی ایسی تشریح کرتا پھرے جو قول و تحریر کو اس کے اصل معنی ہی سے پھیر دے۔ خود جمشید صاحب کا اپنا موقف بھی یہی ہے جسے انہوں نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: اپنے مطلب کے لئے تو جمشید صاحب نے یہ اصول پیش کردیا لیکن اس مضمون میں اپنے ہی اصول کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اصول کرخی پیش کرنے کے بعد اس کی تشریح میں کرخی صاحب ہی کی کوئی عبارت و وضاحت پیش کرنے کے بجائے اپنی من مانی تشریحات پیش فرما رہے ہیں اور اس کے ذریعہ اہل حق کو مغالطہ دینے کی ناکام سعی فرمارہے ہیں۔

جمشید صاحب آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ آپ کی اصول کرخی کے دفاع میں کی گئی تمام تاویلات مردود ہیں۔ اول تو کرخی صاحب کے اصول اپنی وضاحت آپ ہیں لیکن پھر بھی جمشید صاحب انکی کوئی اضافی تشریح بیان کرنا چاہتے ہیں تو کرخی صاحب ہی کوئی دوسری عبارت پیش فرمائیں جو انکے اصولوں کی وضاحت کرتی ہو۔کرخی صاحب کے شاگردوں یا آپ کی تشریح ناقابل التفات ہے۔
شاہد نذیر صاحب آپ جوکچھ لکھتے ہیں اس پر دوبارہ غورکرلیں ۔
اگر نسفی صاحب حنفی مذہب کے لئے وضع کئے گئے کرخی صاحب کے اصول کی تشریح، وضاحت اور توضیح تک ہی محدود رہتے تو بھی کسی قدر مناسب تھا
لیکن نسفی صاحب تو اپنی حدود سے آگے بڑھکر اصول کرخی کی باطل اور مردود تاویلات میں مصروف ہوگئے۔
اس کے علاوہ حضرت شیخ الہند کاجو حوالہ دیاگیاہے اس پر میں ماضی میں اردومجلس پر تفصیل سے لکھ چکاہوں اور آنجناب نے اس کو پڑھابھی ہوگا۔ اس کے باوجود وہی گھسے پٹے اعتراضات بارباردوہرایاجانا کس چیز کی نشانی ہے عرض کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتا۔
جہاں تک بات یہ ہے کہ انسان کے کلام کی بہترین تشریح اس کی اپنی بات سے ہونی چاہئے ۔
اس اصول سے میں نے کبھی انحراف نہیں کیاہے البتہ جب آپ نے مجھے اس اصول کی پابندی کامشورہ دیاہے تو آپ کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ دوسرے تھریڈ میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے کلام سے جومن مانا مطلب کشید کیاہے وہاں پر اپنی بات سے رجوع کریں ۔ (اگرآنجناب اخلاقی ذمہ داری کے مفہوم سے آشنا ہوں اوراس کے تقاضے سے واقف ہوں)
میں عرض کرچکاہوں کہ اگر اصول کرخی کا مطلب وہی ہوتاجو انجناب نے اورآپ ہی جیسے عقل وفہم رکھنے والے دیگر آپ کے ہم مسلکوں نے سمجھاہے توپھر امام کرخی کے اس قول کاکیامطلب ہوگاکہ حدیث کے سامنے چاہے اس کا راوی فقییہ ہویاغیرفقیہ مجتہد کے قیاس کو رد کردیاجائے گا۔(کشف الاسرار)
اس کے علاوہ ان کے دوسرے اقوال ہیں جس سے وضاحت کے ساتھ پتہ چلتاہے کہ اس قول کا ظاہری مفہوم مراد نہیں ہے۔ پھر یہ کہ ان کے کلام اوراس کلام میں تقیید واطلاق اورعام خاص کا ہم سے زیادہ علم امام کرخی کے شاگردوں اوران کے شاگردوں کے شاگردوں کو ہوگا۔
اس اصول کااطلاق ہم حضرت شاہ ولی اللہ ،ان کے شاگرد اوران کے شاگردوں کے شاگرد پر کرنے کیلئے بالکل تیار ہیں۔ آنجناب بتانا پسند کریں گے کہ شاہ ولی اللہ کے کس جملہ سے آپ نے یہ من مانا مطلب کشید کیاتھا کہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ مجتہد نہیں ہیں۔ یاان کے کس دوسرے کلام سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
بات وہ کیاکیجئے جس کاعقل وفہم سے کوئی تعلق ہو ۔ یوں ہی بس لکھتے رہنا اورمراسلات پوسٹ کرتے رہناہے تومجھے یقین ہے کہ آنجناب کے پاس اس فضول مشغلے کے علاوہ کچھ دوسرے اہم کام بھی ہوں گے۔
 
Top