• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا مقام ومرتبہ حافظ ذہبی کی نگاہ میں

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا مقام ومرتبہ حافظ ذہبی کی نگاہ میں
پہلے یہ نقطہ طے کرلیں کہ بحث کا موضوع یہ ہے کہ کیاامام ذہبی نے امام ابوحنیفہ کو ضعیف قراردیاہے۔ اس لئے اس میں جوبھی بات ہوگی حافظ ذہبی کے اعتبار سے ہی ہوگی۔دوسروں کے اعتبار سے نہیں ہوگی اورہمیں امید ہے کہ کوئی دوسراشخص بھی اس میں خلط مبحث نہ کرے گا اورجوکوئی یہ بات کرے وہ علم اوراعتماد کے ساتھ بات کرے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ حافظ ذہبی امام ابوحنیفہ کے بہت مرتبہ شناس ہیں اوران کا بہت عقیدت اوراحترام کے ساتھ ذکر کرتے ہین امام صاحب کے مناقب پر کتاب بھی لکھی ہے اورجہاں کہیں امام صاحب کا تذکرہ کیاہے پوری عقیدت اورمحبت کے ساتھ تذکرہ کیا ہے۔
پہلی مثال لیتے ہیں تذکرۃ الحفاظ کی۔ یہ بات کفایت اللہ صاحب کی بالکل صحیح ہے کہ تذکرۃ الحفاظ میں بہت سے ضعیف حفاظ کابھی تذکرہ ہے جس پر شاکر ذیب فیاض الخوالدۃ نے باقاعدہ ایک کتاب لکھی ہے الرواۃ الذین ترجم لھم الذہبی فی تذکرۃ الحفاظ وحکم علیھم بالضعف فی کتبہ الضعفاء واسباب ذلک اوراس کتاب میں ان تمام رواۃ کاجائزہ لیاہے جس کوانہوں نے تذکرۃ الحفاظ میں ذکر کیاہے اورپھرانہی حفاظ کاذکراپنی ضعفاء کی کتاب میں کیاہے۔ لہذا عمرومعاویہ صاحب کااستدلال غلط ہے ۔

حافظ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں جن حضرات کاذکر کیاہے ۔اس کے ترجمہ میں جیساکہ دیکھاجاسکتاہے حافظ ذہبی نے خود ان کے ضعف اورکذب کی تصریح کردی ہے جیساکہ کفایت اللہ صاحب کے مراسلوں میں دیکھاجاسکتاہے۔ اس کے برعکس کفایت اللہ صاحب یادوسرے حضرات خوردبین لگاکر دیکھیں ۔تذکرۃ الحفاظ میں کہیں بھی امام ابوحنیفہ کے تذکرہ میں کوئی ضعف یاکذب یاکسی دوسرے نامناسب امر کابیان ہے؟
اس اہم فرق کو نگاہ میں رکھیں۔

دوسری کتاب جہاں تک معین المحدثین کا ذکر ہے۔ اس میں ہم چلیں اس سے صرف نظرکرلیتے ہیں کہ صرف ثقہ راویوں کاذکر نہیں ہے لیکن کم ازکم اتناتوثابت ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ حفاظ حدٰیث کی صف میں ہیں۔ اورجولوگ امام ابوحنیفہ کو قلیل الحدیث کہتے ہیں وہ جہالت وسفاہت کامظاہرہ اورمجاہرہ دونوں کررہے ہیں۔ میرے خیال سے اتنی بات ماننے میں کفایت اللہ صاحب کوبھی کوئی عذر نہ ہوگا۔

آگے بڑھتے ہیں۔مناقب ابی حنیفۃ وصاحبیہ کی جانب ۔

کفایت اللہ صاحب نے اپنی من پسند باتیں نقل کرلی ہیں اورجوباتیں ان کی پسند کی نہیں تھی اسے چھوڑدیاہے ۔یہ انکی تحریر کاعیب ہے جس سے بچناچاہئے کہ جیساکہ حافظ ذہبی نے خود میزان الاعتدال میں ابن جوزی کے بارے میں کہاہے کہ ان کی کتاب کا عیب یہ ہے کہ وہ جارحین کے اقوال نقل کردیتے ہین اورمعدلین کے اقوال نقل نہیں کرتے۔آئیے ذرادیکھیں کہ کفایت اللہ صاحب نے علم اورتحقیق اورانصاف پسندی کاکس قدرخیال رکھاہے۔ہم حافظ ذہبی کی پوری بات نقل کرتے ہیں۔
فصل فی الاحتجاج بحدیثہ
اختلفو فی حدیثیہ علی قولین فمنھم من قبلہ وراہ حجۃ ومنھم من لینہ لکثرۃ غلطہ فی الحدیث لیس الا
قال علی بن المدینی : قیل لیحیی بن سعید القطان کیف کان حدیث ابی حنیفۃ قال:لم یکن بصاحب حدیث
قلت: لم یصرف الامام ھمتہ لضبط الالفاظ والاسناد ،وانماکانت ھمتہ القران والفقہ ،وکذلک حال کل من اقبل علی فن فانہ یقصر عن غیرہ
ومن ثم لینوا حدیث جماعۃ من ائمۃ القراء کحفص،وقالون،وحدیث جماعۃ من الفقہاء کابن ابی لیلی ،وعثمان البتی،وحدیث جماعۃ من الزہاد کفرقد السبخی،وشقیق البلخی ،وحدیث جماعۃ من النحاۃ ،وماذاک لضعف فی عدالۃ الرجل،بل لقلۃ اتقانہ للحدیث،ثم ھوانبل من ان یکذب
وقال ابن معین فیمارواہ عنہ صالح بن محمد جزرۃ وغیرہ،ابوحنیفہ ثقہ ،
وقال احمد بن محمد بن القاسم بن محرز،عن یحیی بن معین: لاباس بہ۔وقال ابوداؤد السجسستانی:رحم اللہ مالکاکان اماما،رحم اللہ اباحنیفہ کان اماما۔

امام ابوحنیفہ کی احادیث سے احتجاج کے بارے میں فصل

ان کی احادیث کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل کے دوقول ہیں۔ بعض نے ان کی احادیث کوقبول کیاہے اوران کو حجت تسلیم کیاہے اوران میں سے بعض نے ان کو لین قراردیاہے اوراس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کی احادیث میں کثرت سے غلطیاں واقع ہوئی ہیں۔
میں کہتاہوں کہ امام (ابوحنیفہ)نے حدیث کے الفاظ اوراسناد کے ضبط کی جانب توجہ نہیں دی اس کی پوری توجہ قران اورفقہ کی جانب تھی اورایساحال ہراس شخص کاہوتاہے جوکسی فن کی جانب متوجہ ہوتاہے تو وہ دوسرے سے قاصر رہتاہے اوراسی میں سے یہ ہے کہ ائمہ جرح وتعدیل نے ائمہ قرات میں سے حفص اورقالون کو لین(ایک گونہ ضعیف)قراردیااورفقہاء کی ایک جماعت جیسے ابن ابی لیل عثمان البتی کو لین قراردیا اورزہاد کی ایک جماعت فرقد السنجی،شقیق البلخی کو حدیث میں لین قراردیااورنحویوں کی ایک جماعت کو حدیث میں لین قراردیا۔اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان کی عدالت میں کوئی کمزوری تھی بلکہ حدیث کی پختگی میں قلت تھی پھر وہ اس سے پاک تھے کہ وہ جھوٹ بیان کریں۔
صالح بن محمد جزرہ اوردوسروں نے ابن معین سے نقل کیاہے کہ امام ابوحنیفہ ثقہ تھے۔
احمد بن محمد قاسم بن محرز نے یحیی بن معین سے امام ابوحنیفہ کے بارے میں نقل کیاہے ۔کوئی حرج نہیں۔اورامام ابوداؤد السجستانی کہتےہیں اللہ امام مالک پر حم کرے وہ امام تھے اللہ امام ابوحنیفہ پر رحم کرے کہ وہ امام تھے
یہ ہے آپ کے سامنے حافظ ذہبی کی پوری عبارت ۔آپ اس کو سامنے رکھیں اورکفایت اللہ نے جولکھاہے اورپھردیکھیں انہوں نے کیاچھوڑااورکیانقل کیاہے۔
حافظ ذہبی کاآدھاادھوراکلام نقل کرنے کے بعد کفایت اللہ صاحب بڑے طرے سے کہتے ہیں۔
کفایت اللہ
تو عرض ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے بے شک اس کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی بعض خوبیوں کا ذکر ہے ، لیکن جب روایت حدیث کی بات آئی تو امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس کتاب میں بھی دو ٹوک فیصلہ کردیا ہے کہ امام صاحب راویت حدیث میں معتبر نہیں ہیں بلکہ یہاں تک صراحت کی ہے کہ یہ ان کافن ہی نہیں ہے ، اس میں وہ مشغول ہی نہیں ہوئے ۔
اس کلام میں جواستدلال کی خامیاں ہیں ان پر ہم صرف لاحول ہی پڑھ سکتے ہین
حافظ ذہبی نے امام ابوحنیفہ کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل کااختلاف نقل کیاہے۔اولااس قول کو نقل کیاہے کہ امام ابوحنیفہ حدیث میں لین تھے۔
اس کے بعد حافظ ذہبی نے اس کی توجیہہ بیان کی ہے کہ اگر وہ لین ہیں تواس کی وجہ کیاہوسکتی ہے۔انہوں نے بیان کیاکہ امام صاحب نے اپنی پوری توجہ حفظ اسناد والفاظ حدیث کی جانب نہیں دی اسی لئے یہ غلطیاں واقع ہوئیں ان حضرات کے خیال کے مطابق جوامام ابوحنیفہ کو لین قراردیتے ہیں ۔پھر اس کی مثالیں نقل کیں کہ دیگر ائمہ قرات اورفقہاء کوبھی اسی سبب سے محدثین نے لین قراردیاہے۔
یہاں پر حافظ ذہبی نے دوٹوک فیصلہ نقل کردیاہے کہ امام صاحب اوردیگر فقہاء زہاد کی عدالت میں کوئی کلام نہیں ہے اب اس پر مقبل جیسے لوگوں کو شرم آنی چاہئے جونشرالصحیفۃ جیسی کتاب لکھتاہے۔
اس کے بعد آخر میں (اورآخری کلام ہی عمومامصنف کی مراد سمجھی جاتی ہے)حافظ ذہبی نے یحیی بن معین اورامام ابوداؤد سے امام ابوحنیفہ کی توثیق نقل کی ہے۔
اس سے صاف واضح ہے کہ حافظ ذہبی نے قلۃ اتقان فی الحدیث اورعدم توجہ کی بات کہی ہے وہ دراصل امام صاحب کے جارحین کے لئے بطور عذر کہی ہے نہ کہ خود حافظ ذہبی امام صاحب کو ضعیف فی الحدیث سمجھتے ہیں۔اس کی مزید وضاحت آگے بیان ہوگی۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اس کے بعد کفایت اللہ صاحب نے دیوان الضعفاء والمتروکون کاحوالہ دیاہے ہم اس کابھی جائزہ لیتے ہیں۔
دیوان الضعفاء والمتروکون میں حافظ ذہبی کی یہ عبارت ہے۔جیساکہ کفایت اللہ صاحب نے نقل کیاہے ۔
النعمان الامام رحمه الله. قال ابن عدي: عامة ما يرويه غلط وتصحيف وزيادات وله احاديث صالحة وقال النسائي: ليس بالقوي في الحديث کثير الغلط علي قلة روايته وقال ابن معين: لا يکتب حديثه [ديوان الضعفاء والمتروکين، ص:٤١١ ، ٤١٢]۔
لیکن اس عبارت کے حافظ ذہبی کی جانب مستند ہونے میں کئی شکوک وشبہات ہیں۔
1:حافظ ذہی کی کتابوں میں سے ایک المغنی فی الضعفاء ہے۔اس کتاب میں انہوں نے میزان الاعتدال کی طرح ہرمتکلم فیہ راوی کاذکر کیاہے خواہ کتناہی ثقہ وغیرہ کیوں نہ ہو۔ چنانچہ اسی کتاب میں اپنے منہج کے بارے میں لکھتے ہیں۔
لم اذکر بنداراوامثالہ فی کتابی للین فیہ عندی،ولکن لئلا یتعقب علی فیھم ،فیقول قائل،فیھم مقال (المغنی فی الضعفاء رقم 5387)باوجود یکہ اس میں ثقات ائمہ کاذکر کیاگیاہے اس میں امام ابوحنیفہ کاتذکرہ نہیں ہے۔
2:یہ کتاب حافظ ذہبی کے آخری عہد کی کتابوں میں سے ہے۔جیساکہ اس کتاب کے محقق نورالدین عتر لکھتے ہیں۔
انہانسخت وقوبلت علی المولف فی اواخرحیاتہ سنہ738کماھومثبت بخطہ رحمہ اللہ فھی تمثل الوضع الاخیر للکتاب الذی ارتضاہ المولف فان الذہبی انہی تبیضہ سنہ720ثم شرع بعدہ فی کتابہ میزان الاعتدال وفرغ من تبیضہ سنہ728
یہ کتاب حافظ ذہبی پر 737کو پڑھی گئی ۔یہ کتاب حافظ ذہبی کے اپنے قلم سے لکھے گئے نسخہ سے حافظ سفاقسی نے نقل کیاہے اورخود مولف کے سامنے پڑھ کر تصدیق حاصل کی ۔ اسی نسخہ سے یہ کتاب لکھی گئی ہے اس کتاب میں کہیں بھی امام ابوحنیفہ کاتذکرہ نہیں ہے۔
اسی طرح حافظ ذہبی کی ضعفاء پر لکھی گئی مشہور عالم کتاب میزان الاعتدال میں کہیں بھی امام ابوحنیفہ کا تذکرہ نہیں ہے جیساکہ اس کے دلائل میں اپنے مضمون مین دے چکاہوں۔
اس کے کچھ اقتباسات نقل کرتاہوں۔
شیخ عبدالفتاح ابوغدہ فرماتے ہیں 1382ہجری میں مجھے مغرب جانے کا اتفاق ہوا۔وہاں کے خزانہ عامہ میں(129ق) میزان الاعتدال کا ناقص نسخہ ہے جوحافظ ذہبی کا لکھاہواہے۔جو عثمان بن مقسم البری سے شروع ہوکر آخرکتاب تک ہے۔
اس نسخہ کے حواشی میں بہت سارے زیادات اورحواشی ہیں جو ہرصفحہ پر موجود ہیں یہاں تک کہ بعض صفحات میں زیادات اورحواشی تہائی اورچوتھائی صفحہ کے قریب تک پہنچ جاتے ہیں ۔پوری اصل کتاب ایک خط میں ہے جب کہزیادات اورحواشی الگ الگ خطوں میں لکھے گئے ہیں۔یہ الحاقات اورحواشی کتاب کے چاروں طرف ہیں۔اس نسخہ میں ایسابھی ہے کہ اپنی جانب سے کسی صفہ وغیرہ کو بیچ میں داخل کرکے کچھ لوگوں نے حواشی لکھے ہیں جس کو شیخ عبدالفتاح ابوغدہ نے اوراق مدرجہ سے تعبیر کیاہے۔اصل نسخہ کے آخری ورق پر بہت ساری قرائتوں کیتاریخ اوراس نسخہ سے دیگر جو نسخے نقل کئے گئے ہیں ان کا اظہار ہے۔اس سے ثابت ہوتاہے کہ یہ نسخہ مولف پر کئی مرتبہ پڑھاگیا اوراصل نسخہ سے دیگر لوگوں نے مقابلہ کرکے نقل بھی کیاہے۔ان میں سے چند کو ہم یہاں نقل کرتے ہیں۔
انھاہ کتابۃًومعارضۃ داعیالمولفہ عبداللہ المقریزی فی سنۃ تسع وعشرین وسبع ماءۃ
انھاہ کتابۃ ومعارضۃ ابوبکربن السراج داعیالمولفہ فی سنۃ ثلاث وثلاثین وسبع ماءۃ
فرغہ نسخامرۃ ثانیۃ داعیالمولفہ ابوبکر بن السراج عفااللہ عنہ فی سنۃ تسع وثلاثین وسبع ماءۃ
اب کچھ تذکرہ امام ذہبی پر اس نسخہ کے قرات کئے جانے کا ۔
قرات جمیع ھذالمیزان وہوسفران علی جامعہ سیدنا شیخ الاسلام الذھبی ابقاہ اللہ تعالی،فی مجالس آخرھا یوم السبت ثانی عشر شھررمضان سنۃ ثلاث واربعین وسبع ماءۃ بالمدرسۃ الصدریہ بدمشق وکتب سعید بن عبداللہ الدہلی عفااللہ عنہ
قرآت جمیع ھذاالکتاب علی جامعہ شیخناشیخ الاسلام ۔۔۔الذھبی فسح اللہ فی مدتہ ،فی مجالس آخرھا یوم الجمعۃ ثانی عشر رجب الفرد سنۃ خمس واربعین وسبع ماءۃ بمنزلۃ فی الصدریہ،رحم اللہ واقفھا بدمشق المححروسۃ،وکتبہ علی بن عبدالمومن بن علی الشافعی البعلبکی حامداًومصلیاًعلی النبی وآلہ مسلماً
قرات جمیع کتاب میزان الاعتدال فی نقدالرجال وماعلی الھوامش من التخاریج والحواشی والملحقات بحسب التحریر والطاقۃ والتؤدۃ علی مصنفہ شیخناالام العلامۃ ۔۔۔الذھبی فسح اللہ فی مدتہ فی مواعید طویلۃ وافق آخرھا یوم الاربعاء العشرین میں شہر رمضان المعظم فی سنۃ سبع واربعین وسبع ماءۃ فی الصدریہ بدمشق ،واجاز جمیع مایرویہ وکتب محمد(بن علی الحنفی)بن عبداللہ۔۔۔۔۔۔
جیساکہ دیکھاجاسکتاہے کہ یہ حافظ ذہبی پر ان کے اآخری ایام میں علی الاطلاق پڑھاگیاہے اوراس میں امام ابوحنیفہ کاتذکرہ نہیں ہے۔اس سے قبل ان کے انتقال سے 11سال پہلے المغنی فی الضعفاء لکھی گئی اس میں بھی امام ابوحنیفہ کا تذکرہ نہیں ہے۔
یہ توحال ہوا المغنی اورمیزان الاعتدال کے نسخوں کی صحت کا ۔اب ذراجائزہ لیتے ہیں کہ دیوان الضعفاء والمتروکین کے نسخہ کاکیاحال ہے۔ تومیرے سامنے جو نسخہ ہے وہ دارالقلم سے شائع ہواہے۔اس تحقیق اورفہرست بنانےاورنگرانی کاکام علماء کی ایک جماعت نے کیاہے۔
اس کا مقدمہ فضیلۃ الشیخ خلیل المیس نے لکھاہے۔ اب ہم مقدمہ میں دیکھتے ہیں کہ صاحب تقدمہ نگار نے اس کے نسخوں کی کیاوضاحت کی ہے اور وہ کتنے موثوق بہ ہیں۔
اولا اس کے محققین یامقدمہ نگار نے اس کے نسخوں کی کوئی وضاحت نہیں کی ہے ۔صرف اتنالکھاہے
فھذادیوان الضعفاء والمتروکین یضاف الی قائمۃ مصنفات الذہبی المطبوعۃ ۔۔۔وینحم الی مجموعۃ التاریخ لرجال الحدیث ذباعن سنۃ االرسول الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
یہ دیوان الضعفاء والمتروکین ہے جو حافظ ذہبی کی تصنیفات کی جانب منسوب ہے اوررسول کریم کی سنت سے دفاع کی خاطر لکھی گئی تاریخ رجال کی کتابوں میں شامل ہے۔
اس کے علاوہ کسی نے کچھ نہیں لکھاہے۔
کفایت اللہ صاحب سے ایک سوال!
حافظ ابن تیمیہ کی حدت وشدت کے سوال پر توآنجناب نے ذیل تاریخ الاسلام پر سوال اٹھادیاتھا۔اوراس کی صحت کو مشکوک ٹھہرایاتھا محض احتمالات کی بنیاد پر جوکہ غلط تھے اوریہاں امام ابوحنیفہ جرح کی بات ہے تواب کتاب کی صحت اورنسبت کی وثاقت پر کوئی سوال نہیں ،کوئی اعتراض نہیں ۔اللہ اللہ !لیکن اس کے باوجود ہم امام ابوحنیفہ کی جانب سے غلط باتوں کادفاع کریں تو مقلد اورمتعصب ہوجائیں اورآپ ابن تیمیہ کی ثابت شدہ باتوں کا انکار کریں تو متبع اورمحقق قرارپائیں۔
آپ نے میزان الاعتدال اورالمغنی فی الضعفاء میں دیکھ لیاکہ امام ابوحنیفہ کاذکر وہاں نہیں ہے حالانکہ وہاں ہوناچاہئے کیونکہ حافظ ذہبی کے پیش نظر استعیاب مقصود ہے خواہ متکلم فیہ راوی واقعتاًاورنفس الامر میں ثقہ صدوق اورامام ہی کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں امام علی بن مدینی تک کا تذکرہ موجود ہے اورالمغنی میں بھی بہت سارے حفاظ حدیث اورثقہ روات موجود ہیں لیکن موجود نہیں ہیں توامام ابوحنیفہ ۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
الاعتدال اورالمغنی فی الضعفاء میں دیکھ لیاکہ امام ابوحنیفہ کاذکر وہاں نہیں ہے حالانکہ وہاں ہوناچاہئے کیونکہ حافظ ذہبی کے پیش نظر استعیاب مقصود ہے خواہ متکلم فیہ راوی واقعتاًاورنفس الامر میں ثقہ صدوق اورامام ہی کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں امام علی بن مدینی تک کا تذکرہ موجود ہے اورالمغنی میں بھی بہت سارے حفاظ حدیث اورثقہ روات موجود ہیں لیکن موجود نہیں ہیں توامام ابوحنیفہ ۔
دیوان الضعفاء والمتروکین کے نسخوں اورصحت وصداقت سے قطع نظر کچھ داخلی شہادتیں بھی ہیں۔
امام ذہبی نے اس کے علاوہ مختلف تراجم کی کتابوں میں امام ابوحنیفہ کاتذکرہ کیاہے ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں حافظ ذہبی نے کہیں امام ابوحنیفہ کی تضعیف کی نشاندہی کی ہے۔
اولا ہم تاریخ الاسلام کو لیتے ہیں۔ یہ حافظ ذہبی کی مشہور کتابوں میں سے ہے یہاں پربھی انہوں نے تراجم کے تذکرے میں اپنے محدثانہ جوہردکھائے ہیں۔یہاں پر بھی وہ راویوں کی حیثیت پر بے محابہ کلام کرتے چلے جاتے ہیں۔ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال نقل کرکے محدثین ،حفاظ اوررواۃ کی علم حدیث میں اوردیگر علوم وفنون میں مقام ومرتبہ کاتعین کرتے ہیں۔
امام ابوحنیفہ کے ذکر میں انہوں نے جرح کاایک بھی لفظ نقل نہیں کیاہے۔بلکہ اس کے بالمقابل ہمیں اس میں یہ الفاظ ملتے ہیں۔
النعمان بن ثابت. تم. ن. بن زوطى الإمام العلم أبو حنيفة الفقيه مولى بني تيم الله بن ثعلبة
اس کے بعد حافظ ذہبی نے جوکچھ مناقب اورفضائل میں نقل کیاہے اس پورے کو ذکر کرناتطویل کا باعث ہوگا اوریہ شاید پوراایک مقالہ ہی بن جائے گالیکن ہم کچھ اقوال بطور نمونہ ضرور نقل کرناچاہیں گے۔
ولا يقبل جوائز السلطان تورعاً، ولهار وصناع ومعاش متسع، وكان معدوداً في الأجواد الأسخياء والأولياء الأذكياء، وع الدين والعبادة والتهجد وكثرة التلاوة وقيام الليل رضي الله عنه.
سلطان کے تحفائف قبول بطور احتیاط قبول نہیں کرتے ہیں اوراسی کے ساتھ ان کااپناپیشہ تھا اوربطور معاش وہ خوشحال تھے اوروہ منتخب سخیوں،اولیاء اللہ ذہین ترین لوگوں میں سے تھے اسی کے ساتھ دین عبادت تہجد اورکثرت تلاوت اورقیام اللیل کے اوصاف سے متصف تھے۔
وقال صالح بن محمد جزرة وغيره: سمعنا ابن معين يقول: أبو حنيفة ثقة. وروى أحمد بن محمد بن محرز عن ابن معين قال: لا بأس به، لم يهم بكذب،وقال أبو داود: رحم الله مالكاً، كان إماماً، رحم الله الشافعي، كان إماماً، رحم الله أبا حنيفة، كان إماماً، سمع ابن داسة منه.)
وقال الخريبي: ما يقع في أبي حنيفة إلا حاسد أو جاهل. وقال يحيى القطان: لا نكذب الله ما سمعنا أحسن من رأي أبي حنيفة، وقد أخذنا بأكثر أقواله. وقال علي بن عاصم: لو وزن علم أبي حنيفة بعلم أهل زمانه لرجح عليهم. وقال حفص بن غياث: كلام أبي حنيفة في الفقه أدق من الشعر لا يعيبه إلا جاهل. وقال الحميدي: سمعت ابن عيينة يقول: شيئان ما ظننتهما يجاوزان قنطرة الكوفة: قراءة حمزة، وفقه أبي حنيفة، وقد بلغنا الآفاق.) وعن الأعمش أنه سئل عن مسألة فقال: إنما يحسن هذا النعمان بن ثابت الخزاز، وأظنه بورك له في علمه.
یہ میں نے تھوڑاسانمونہ نقل کیاہے ۔اس میں کوئی بھی دیکھ سکتاہے کہ امام ابوحنیفہ کے ذکر میں جرح کا ایک کلمہ تک نہیں ہے۔
حافظ ذہبی کی دوسری کتاب ہے
سیر اعلام النبلاء
حافظ ذہبی کی عمر کے آخری کتابوں میں سے ایک ہے۔
اسے لکھتے لکھتے حافظ ذہبی کی آنکھوں میں قلت روشنی کی شکایت پیداہوگئی اوروفات سے قبل وہ پورے طورپر اندھے بھی ہوگئے تھے۔ سیر اعلام النبلاء میں کئی مقامات پر انہوں نے نزول الماء اورآنکھوں میں قلت روشنی کی شکایت بھی کی ہے۔
اس کتاب میں وہ امام ابوحنیفہ ترجمہ کی ابتداء میں لکھتے ہیں۔
الإِمَامُ، فَقِيْهُ المِلَّةِ، عَالِمُ العِرَاقِ، أَبُو حَنِيْفَةَ النُّعْمَانُ بنُ ثَابِتِ بنِ زُوْطَى التَّيْمِيُّ، الكُوْفِيُّ، مَوْلَى بَنِي تَيْمِ اللهِ بنِ ثَعْلَبَةَ.
وَعُنِيَ بِطَلَبِ الآثَارِ، وَارْتَحَلَ فِي ذَلِكَ، وَأَمَّا الفِقْهُ وَالتَّدْقِيْقُ فِي الرَّأْيِ وَغوَامِضِهِ، فَإِلَيْهِ المُنْتَهَى، وَالنَّاسُ عَلَيْهِ عِيَالٌ فِي ذَلِكَ. (6/393)
اس کتاب میں انہوں نے وہ واقعہ نقل کیاہے کہ امام ابوحنیفہ نے سوچاکہ قرات کا علم حاصل کروں،پھراسے چھوڑاپھرسوچاکہ حدیث حاصل کروں پھرسوچاکہ علم کلام حاصل کروں۔ اس واقعہ کو بے اصل اورموضوع بتاتے ہوئے حافظ ذہبی کہتے ہیں۔
قُلْتُ: الآنَ كَمَا جَزَمتُ بِأَنَّهَا حِكَايَةٌ مُختَلَقَةٌ، فَإِنَّ الإِمَامَ أَبَا حَنِيْفَةَ طَلَبَ الحَدِيْثَ، وَأَكْثَرَ مِنْهُ فِي سَنَةِ مائَةٍ وَبَعدَهَا، وَلَمْ يَكُنْ إِذْ ذَاكَ يَسْمَعُ الحَدِيْثَ الصِّبْيَانُ، هَذَا اصْطِلاَحٌ وُجِدَ بَعْدَ ثَلاَثِ مائَةِ سَنَةٍ، بَلْ كَانَ يَطْلُبُه كِبَارُ العُلَمَاءِ، بَلْ لَمْ يَكُنْ لِلْفُقَهَاءِ عِلْمٌ بَعْدَ القُرْآنِ سِوَاهُ، وَلاَ كَانَتْ قَدْ دُوِّنَتْ كُتُبُ الفِقْهِ أَصلاً. (6/397)پھر جب علم کلام کا ذکرآتاہے تواس پرواقعہ کے موضوع ہونے پر نقد کرتے ہوئے لکھتے
ہیں۔
قُلْتُ: قَاتَلَ اللهُ مَنْ وَضَعَ هَذِهِ الخُرَافَةَ، وَهَلْ كَانَ فِي ذَلِكَ الوَقْتِ وُجِدَ عِلْمُ الكَلاَمِ؟!!
وَقَالَ الشَّافِعِيُّ: النَّاسُ فِي الفِقْهِ عِيَالٌ عَلَى أَبِي حَنِيْفَةَ.
قُلْتُ: الإِمَامَةُ فِي الفِقْهِ وَدَقَائِقِه مُسَلَّمَةٌ إِلَى هَذَا الإِمَامِ، وَهَذَا أَمرٌ لاَ شَكَّ فِيْهِ.
وَلَيْسَ يَصِحُّ فِي الأَذْهَانِ شَيْءٌ * إِذَا احْتَاجَ النَّهَارُ إِلَى دَلِيْلِ
وَسِيْرَتُه تَحْتَمِلُ أَنْ تُفرَدَ فِي مُجَلَّدَيْنِ - رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، وَرَحِمَهُ -.

اس کے بعد امام ابوحنیفہ کے تعلق سے ان کے فضائل ومناقب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
قَالَ مُحَمَّدُ بنُ سَعْدٍ العَوْفِيُّ: سَمِعْتُ يَحْيَى بنَ مَعِيْنٍ يَقُوْلُ:
كَانَ أَبُو حَنِيْفَةَ ثِقَةً، لاَ يُحَدِّثُ بِالحَدِيْثِ إِلاَّ بِمَا يَحْفَظُه، وَلاَ يُحَدِّثُ بِمَا لاَ يَحْفَظُ.
وَقَالَ صَالِحُ بنُ مُحَمَّدٍ: سَمِعْتُ يَحْيَى بنَ مَعِيْنٍ يَقُوْلُ: كَانَ أَبُو حَنِيْفَةَ ثِقَةً فِي الحَدِيْثِ.
وَرَوَى: أَحْمَدُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ القَاسِمِ بن مُحْرِزٍ، عَنِ ابْنِ مَعِيْنٍ: كَانَ أَبُو حَنِيْفَةَ لاَ بَأْسَ بِهِ.
وَقَالَ مَرَّةً: هُوَ عِنْدَنَا مِنْ أَهْلِ الصِّدْقِ، وَلَمْ يُتَّهَمْ بِالكَذِبِ، وَلَقَدْ ضَرَبَه ابْنُ هُبَيْرَةَ عَلَى القَضَاءِ، فَأَبَى أَنْ يَكُوْنَ قَاضِياً.
اس کتاب میں بھی امام ابوحنیفہ کے ذکر میں جرح کاایک بھی لفظ مذکور نہیں ہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
حافظ ذہبی کی ایک کتاب ہے جس میں انہوں نے علم حدیث کے نقاد اورائمہ جرح کا ذکر کیاہے۔یہ کتاب بہت مختصر ہے اورچند صفحات کی ہے اس کانام ہے۔ ذکر من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل ۔ یہ کتاب شیخ عبدالفتاح ابوغدہ کی تحقیق سے شائع ہوچکی ہے۔اس میں امام ابوحنیفہ کا نام تیسرے نمبر پر ہے
اس میں وہ امام صاحب کو جہابذہ محدثین میں شمار کررہے ہیں ۔حافظ ذہبی کے الفاظ دیکھیں
فلما کان عندانقراض عامۃ التابعین فی حدود الخمسین ومئۃ تکلم طائفۃ من الجھابذۃ فی التوثیق والتضعیف فقال ابوحنیفۃ :مارایت اکذب من جابر الجعفی وضعف الاعمش جماعۃ ووثق الآخرین وانتقد الرجال شعبہ ومالک (صفحہ 5،اربع رسائل فی علوم الحدیث 175)
دیکھیں عبارت کتنی صاف اورواضح ہے حافظ ذہبی امام صاحب جہابذہ محدثین میں شمار کرتے ہیں اورکفایت اللہ صاحب حافظ ذہبی کی جانب سے کہتے ہیں کہ علم حدیث امام صاحب کا فن ہی نہیں ہے۔ اس سے بڑھ کر غلط ترجمانی ہوسکتی ہے؟

برسبیل تذکرہ یہ بات بتاتاچلوں کہ حافظ ذہبی کی اسی کتاب سے مستفاد حافظ سخاوی کی بھی ایک کتاب ہے جس کانام ہے۔المتکلمون فی الرجال یہ کتاب بھی کچھ ہی صحفات کی ہے اوراس میں کل 209 ائمہ جرح وتعدیل کا ذکر ہے اس میں امام ابوحنیفہ کا ذکر 12ویں نمبر پر ہے اوروہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں۔
فلما کان عندآخر عصرالتابعین وھو حدود الخمسین ومئۃ ،تکلم فی التوثیق والتجریح طائفۃ من الائمۃ
فقال ابوحنیفہ :مارایت اکذب من جابرالجعفی ،وضعف الاعمش جماعۃ ووثق الآ خرین ونظر فی الرجال شعبہ وکان متثبتا لایکاد یروی الاعن ثقۃ وکذا کان مالک۔(اربع رسائل فی علوم الحدیث ص97)

میرے خیال میں اتنے دلائل تو لوگوں کیلئے کافی ہیں جو حق اورسچ کے جویاہیں اورجنہوں نے نہ ماننے کی قسم کھارکھی ہے توان سے میراتخاطب ہی نہیں ہے۔ فذرھم یخوضوا ویلعبوا
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
حافظ ذہبی کا علم جرح وتعدیل میں جومقام ہے وہ معلوم ہے حتی کہ حافظ الدنیا ابن حجر نے زمزم کا پانی پی کر حافظ ذہبی جیسابننے کی تمناکی تھی۔ اور حافظ سبکی باوجود حافظ ذہبی کے سخت خلاف ہونے کے طبقات الشافعیہ الکبریٰ (9/100-101) میں ان کے حق میں بڑی تعریف نقل کی ہے اس میں یہاں تک نقل کیاہے ان کے علم اورحافظہ کودیکھ کر ایسامعلوم ہوتاہے:
کانما جمعت الامۃ فی صعیدفنظرھا،ثم اخذیخبر عنہااخبار من حضرھا ۔
گویاکہ تمام لوگ ان کے سامنے ہیں اور وہ ان کو دیکھ کر ان کے حالات بتارہے ہیں۔
حافظ ذہبی کی بیشتر کتابوں کا تعلق کسی نہ کسی اعتبار سے جرح وتعدیل سے اورتراجم وسیر سے رہاہے اس میں کچھ کتابیں ضعفاء کیلئے خاص ہیں جن کابیان اوپر گذر چکااورکچھ کتابیں ایسی ہیں جس میں انہوں نے صحاح ستہ کے راویوں کا ذکر کیاہے۔اوراس میں ثقہ ضعیف ،کذاب وضاع ہرقسم کے روات کاذکرہے۔
اس پر ان کی دوکتابیں بڑی مشہور ہیں۔
ایک تذہیب التہذیب :قارئین سے درخواست ہے کہ ذرادھیان سے پڑھیں اورحافظ ابن حجر کی تہذیب التہذیب اوراس میں فرق کو سمجھیں۔یہ کتاب حافظ مزی کی کتاب تہذیب الکمال فی اسماء الرجال کا اختصار ہے۔
اس کتاب میں امام ابوحنیفہ کاذکر رقم نمبر7194کے تحت ہے۔
اس میں کہیں بھی امام ابوحنیفہ کے ذکر میں جرح کا ایک بھی لفظ نہیں ہے۔بلکہ اس کے مقابل ان کے معاصرین اوربعد والوں سے امام ابوحنیفہ کے فضائل ومناقب منقول ہیں۔ اوراس میں ابن معین سےامام ابوحنیفہ کے حق میں توثیق کے اقوال بھی ہیں جواوپر منقول ہوچکے ہیں۔
اس میں مکی بن ابراہیم سے منقول ہے۔
کان ابوحنیفہ اعلم اہل زمانہ
۔یہ مکی بن ابراہیم وہی بزرگ ہیں جن کے طریقہ سے بیشتر امام بخاری کی ثلاثیات منقول ہیں۔ اوریہ دھیان رہے کہ اس زمانہ میں محدثین کرام بطور خاص علم کا اطلاق قران وحدیث کے علم پر کیاکرتے تھے۔ اسی میں یہ بھی منقول ہے۔
قال ابوالفضل عباس بن عزیر القطان ،حدثنا حرملہ ،سمعت الشافعی یقول:الناس عیال علی ھولاء ،فمن اراد ان یتبحر فی الفقہ فھو عیال علی ابی حنیفہ،ومن اراد ان یتبحر فی المغازی فھوعیال علی ابن اسحاق ومن اراد ان یتبحر فی التفسیر فھو عیال علی مقاتل بن سلمان ومن اراد ان یتبحر فی الشعر فی ھوعیال علی زہیر بن ابی سلمی ومن اراد ان یتبحر فی النحو فھوعیال علی الکسائی۔
اسی کے ساتھ یہ بھی منقول ہے۔
قال الربیع وغیرہ عن الشافعی قال:الناس فی الفقہ عیال علی ابی حنیفہ ۔
اس میں یہ بھی منقول ہے۔
روی نصر بن علی عن الخریبی قال: کان الناس فی ابی حنیفہ رحمہ اللہ حاسد اوجاہل واحسنھم عندی حالاالجاہل،وقال یحیی بن ایوب :سمعت یزید بن ہارون یقول: ابوحنیفۃ رجل من الناس خطوہ کخطاء الناس ،وصوابہ کصواب الناس۔
یزید بن ہارون کا جملہ لگتاہے ان لوگوں کے جواب میں ہے جوامام ابوحنیفہ کی نہایت مذمت کرتے تھے کہ اوران کی غلطیوں کو مشتہر کرکے اوررائی کو پربت بناتے تھے ان کے جواب میں کہاگیاکہ وہ بھی دوسرے لوگوں کی طرح ہیں ان سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں ۔
آخر میں حافظ الذہبی کہتے ہیں۔
قلت:قد احسن شیخناابوالحجاج حیث لم یورد شیئا یلزم منہ التضعیف
تذہیب التہذیب 9/225
یہ دیکھئے حافظ ذہبی کی علم جرح وتعدیل ا ورروات پر لکھی گئی یہ مستقل کتاب ہے ۔ اسمیں امام ابوحنیفہ کاذکر 6صفحات میں ہے اورایک بھی حرف امام صاحب کی جرح میں نہیں ہے بلکہ ائمہ محدثین سے ان کے فضائل اوراخلاق وصفات محمودہ کاذکر ہے اور امام ابن معین سے ان کی توثیق منقول ہے ۔پھر آخر میں حافظ الذہبی نے حافظ مزی کے اس صنیع کی توثیق اورتائید کی ہے کہ امام ابوحنیفہ کے ذکر میں تضعیف والے اقوال نقل نہیں کئے اس سے یہ پوری طرح ثابت ہوجاتاہے کہ امام صاحب کا ضعیف ہوناحافظ ذہبی کے نزدیک متحقق نہیں ہے بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے جیساکہ اس کے کتاب سے ظاہر ہورہاہے۔
اس کے علاوہ بھی حافظ ذہبی کی ایک کتاب ہے
الکاشف فی معرفۃ من لہ روایۃ فی الکتب الستۃ وحاشیتہ
اس میں تذہیب التہذیب میں مذکور روات پر مختصرااحکام جرح وتعدیل ذکر کئے گئے ہیں اورایسالگتاہے کہ حافظ ابن حجر کی التقریب اسی سے ماخوذ بلکہ مستفاد ہے۔واللہ اعلم
اس میں بھی امام ابوحنیفہ کا ذکر ہے لیکن جرح کا کوئی بھی لفظ ذکر نہیں ہے۔اس میں وہ امام ابوحنیفہ کوالامام کے اعلیٰ لفظ سے ذکر کرتے ہیں ۔
یہ کتاب جرح وتعدیل پر مختصرالکھی گئی کتاب ہے اگر امام ابوحنیفہ ضعیف ہیں جیساکہ کفایت اللہ صاحب کہتے ہیں اوراپنی بات کی تائید میں آدھے ادھورے حوالہ جات نقل کرتے ہیں توپھریہاں حافظ ذہبی کوکیاچیز مانع تھے کہ وہ امام ابوحنیفہ کی تضعیف کاذکرکرتے بلکہ وہ الامام جیسابڑالقب امام ابوحنیفہ کو دے رہے ہیں۔
اب اخر میں ہم پھر لوٹتے ہیں دیوان الضعفاء والمتروکین کی جانب اوردیکھتے اوراس کی کچھ حقیقت جانناچاہتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ حافظ ذہبی اپنی ہرتالیف میں امام ابوحنیفہ کی توثیق میں امام جرح وتعدیل یحیی بن معین کا کلام نقل کرتے ہیں جس کی مثالیں گزر چکی ہیں لیکن اچانک دیوان الضعفاء والمتروکین میں دیکھتے ہیں کہ وہ ابن معین سے نقل کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ سے حدیث نہ لکھی جائے۔ اوریہیں درحقیقت الحاق کرنے والے چوک ہوگئی ہے اس نے حافظ ذہبی کے صنیع پر نگاہ نہیں کیا۔
حافظ ذہبی کے نزدیک امام ابن معین غالی حنفیوں میں سے ہے ۔ دیکھئے وہ کیاکہتے ہیں۔
الرواة الثقات المتكلم فيهم بما لا يوجب" (1|30): «ابن معين كان من الحنفيّةِ الغُلاة في مذهبه، وإن كان مُحَدِّثاً».
ابن معین غالی حنفی ہیں باوجود اس کے کہ وہ محدث ہیں۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ و سیراعلام النبلاء میں ابن معین کاشمار حنفیوں میں کرتے ہیں چنانچہ اسی میں مذکور ہے کہ جب ابن معین سے پوچھاگیاکہ آدمی امام ابوحنیفہ کے اجتہاد پر عمل کرے یاامام شافعی کے اجتہاد پر تویحیی بن معین نے کہا
مَا أَرَى لأَحَدٍ أَنْ يَنْظُرَ فِي رَأْيِ الشَّافِعِيِّ، يَنْظُرُ فِي رَأْيِ أَبِي حَنِيْفَةَ أَحَبُّ إِلَيَّ.
میں کسی کیلئے یہ درست نہیں سمجھتاکہ وہ امام شافعی کے اجتہاد پر عمل کرے میرے نزدیک امام ابوحنیفہ کی رائے پر عمل کرنا بہتر اورمحبوب ہے۔
اس پر حافظ ذہبی کہتے ہیں۔
قُلْتُ: قَدْ كَانَ أَبُو زَكَرِيَّا -رَحِمَهُ اللهُ- حَنَفِيّاً فِي الفُرُوْعِ، فَلِهَذَا قَالَ هَذَا، وَفِيْهِ انحِرَافٌ يَسِيْرٌ عَنِ الشَّافِعِيِّ.
میں(ذہبی )کہتاہوں ابوزکریا(یحیی بن معین)فروعات مین حنفی ہیں اوراسی وجہ سے انہوں نے ایساکہااوران کے اندر امام شافعی سے تھوڑاانحراف بھی ہے۔
اس سے ایک بات تومتحقق ہے کہ حافظ ذہبی کے نزدیک ابن معین سے امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی توثیق ہی ثابت ہے تضعیف ثابت نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ہرجگہ حافظ ذہبی ابن معین سے امام ابوحنیفہ کی توثیق نقل کرتےہیں ۔اس میں استثناء صرف ایک مقام کاہے اور وہ ہے دیوان الضعفاء والمتروکین
مجھے لگتاہے کہ یہیں پر الحاق کرنے والے سے چوک ہوگئی کہ اس نے ابن معین سے امام ابوحنیفہ کے حق میں جرح نقل کردیاجوکہ حافظ ذہبی کی دیگر کتابوں کے برعکس ہے۔
دیوان الضعفاء والمتروکین میں امام ابوحنیفہ کے ترجمہ کے الحاق کی ایک شہادت یاتائید یہ بھی ہے کہ
شاکر ذیب فیاض الخوالدۃ نے الرواۃ الذین ترجم لھم الذہبی فی تذکرۃ الحفاظ وحکم علیھم بالضعف فی کتبہ الضعفاء واسباب ذلک میں ان تمام رواۃ کاجائزہ لیاہے جس کوانہوں نے تذکرۃ الحفاظ میں ذکر کیاہے اورپھرانہی حفاظ کا ذکر حافظ ذہبی نے ضعفاء کی کتابوں مثلا میزان الاعتدال ،دیوان الضعفاء والمتروکین، المغنی فی الضعفاء اورذیول میں کیاہے ، اس کتاب میں بھی امام ابوحنیفہ کاذکر نہیں ہے۔ اگرامام ابوحنیفہ کاذکر دیوان الضعفاء میں ثابت ہوتا شاکر ذیب فیاض الخوالدہ اس کاذکر اس کتاب میں ضرور کرتے لیکن انہوں نے نہیں کیاہے۔

جہاں تک بات الرواة الثقات المتكلم فيهم بما لا يوجب ردھم کی ہے تو جیساکہ ثابت ہوچکاہے کہ میزان الاعتدال ،المغنی فی الضعفاء اوراس ذیل وغیرہ میں امام ابوحنیفہ کاتذکر ہ نہیں ہے۔ دیوان الضعفاء میں امام ابوحنیفہ کاتذکرہ مشکوک ہے اوراس کے دلائل نقل ہوچکے ہیں۔
لہذا جب حافظ ذہبی نے امام ابوحنیفہ کو ضعفاء میں کہیں شمار ہی نہیں کیا تواس کتاب میں ان کے ذکر کرنے کی کوئی تک بنتی ہی نہیں ہے۔ والسلام
نوٹ: شروع میں ارادہ تھاکہ ایک مختصرانوٹ لکھ کر کفایت اللہ صاحب کے استدلال کی غلطیاں واضح کردوں لیکن جب لکھنے بیٹھاتو پھر لذیذ بود حکایت دراز ترگفتم والامعاملہ پیش آگیا۔
باذوق صاحب سے درخواست ہے کہ وہ اس کو مستقل تھریڈ بنائیں۔ یہاں پر بات ختم ہوگئی۔ اب کفایت اللہ صاحب جوجواب دیناچاہیں شوق سے دیں۔
ویسے ہم ایک دوسرتے تھریڈ میں جوابن تیمیہ کے تعلق سے جواب کے منتظر ہیں۔ والسلام
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا مقام ومرتبہ حافظ ذہبی کی نگاہ میں
پہلے یہ نقطہ طے کرلیں کہ بحث کا موضوع یہ ہے کہ کیاامام ذہبی نے امام ابوحنیفہ کو ضعیف قراردیاہے۔ اس لئے اس میں جوبھی بات ہوگی حافظ ذہبی کے اعتبار سے ہی ہوگی۔دوسروں کے اعتبار سے نہیں ہوگی اورہمیں امید ہے کہ کوئی دوسراشخص بھی اس میں خلط مبحث نہ کرے گا اورجوکوئی یہ بات کرے وہ علم اوراعتماد کے ساتھ بات کرے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ حافظ ذہبی امام ابوحنیفہ کے بہت مرتبہ شناس ہیں اوران کا بہت عقیدت اوراحترام کے ساتھ ذکر کرتے ہین امام صاحب کے مناقب پر کتاب بھی لکھی ہے اورجہاں کہیں امام صاحب کا تذکرہ کیاہے پوری عقیدت اورمحبت کے ساتھ تذکرہ کیا ہے۔
پہلی مثال لیتے ہیں تذکرۃ الحفاظ کی۔ یہ بات کفایت اللہ صاحب کی بالکل صحیح ہے کہ تذکرۃ الحفاظ میں بہت سے ضعیف حفاظ کابھی تذکرہ ہے جس پر شاکر ذیب فیاض الخوالدۃ نے باقاعدہ ایک کتاب لکھی ہے الرواۃ الذین ترجم لھم الذہبی فی تذکرۃ الحفاظ وحکم علیھم بالضعف فی کتبہ الضعفاء واسباب ذلک اوراس کتاب میں ان تمام رواۃ کاجائزہ لیاہے جس کوانہوں نے تذکرۃ الحفاظ میں ذکر کیاہے اورپھرانہی حفاظ کاذکراپنی ضعفاء کی کتاب میں کیاہے۔ لہذا عمرومعاویہ صاحب کااستدلال غلط ہے ۔
اس اعتراف کے بعد اب حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے حوالہ سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی توثیق کے سلسلے میں اس کتاب کا حوالہ نہیں آناچاہئے۔


حافظ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں جن حضرات کاذکر کیاہے ۔اس کے ترجمہ میں جیساکہ دیکھاجاسکتاہے حافظ ذہبی نے خود ان کے ضعف اورکذب کی تصریح کردی ہے جیساکہ کفایت اللہ صاحب کے مراسلوں میں دیکھاجاسکتاہے۔ اس کے برعکس کفایت اللہ صاحب یادوسرے حضرات خوردبین لگاکر دیکھیں ۔تذکرۃ الحفاظ میں کہیں بھی امام ابوحنیفہ کے تذکرہ میں کوئی ضعف یاکذب یاکسی دوسرے نامناسب امر کابیان ہے؟
اس اہم فرق کو نگاہ میں رکھیں۔
ہم نے یہ کب دعوی کیا کہ اس کتاب میں دوسرے نامناسب امر کا بیان ہے ؟؟؟
تذکرہ الحفاظ پر بحث اس لئے ہوئی کہ بعض احباب محض اس بات کو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی توثیق سمجھتے ہیں کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کا تذکرہ اپنی کتاب ’’تذکرۃالحفاظ‘‘ میں کیا ہے اور یہ ان کی توثیق کے لئے کافی نہیں ہے یہی بتانے کے لئے اوپرمثالیں دی گئی ہیں ، اوراس بات کا دعوی ہرگزنہیں کیا گیا ہے کہ اس کتاب میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ضعیف قرار دیا ہے پھربھی معلوم نہیں کیوں آپ دوربین لگانے کا مشورہ کیوں دے رہے۔

دوسری کتاب جہاں تک معین المحدثین کا ذکر ہے۔ اس میں ہم چلیں اس سے صرف نظرکرلیتے ہیں کہ صرف ثقہ راویوں کاذکر نہیں ہے
صرف نظر کرلیتے ہیں یا تسلیم کرلیتے ہیں کہ واقعی اس کتاب میں کذاب اورضعیف راویوں کا بھی تذکرہ ہے؟؟؟
تذکرۃ الحفاظ کے ساتھ ساتھ اگر آپ اس کتاب کے بارے میں بھی اس حقیقت کا اعتراف کرلیتے ہیں ، کہ اس میں بھی مجروحین کا ذکرموجود ہے تو آپ کا کیا بگڑ جاتا ؟؟؟

جاری ہے۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
’’المعين فى طبقات المحدثين‘‘ اور قلیل الحدیث رواۃ


لیکن کم ازکم اتناتوثابت ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ حفاظ حدٰیث کی صف میں ہیں۔
۔
امام صاحب حفاظ حدیث کی صف میں ہیں اس سے کس کو اختلاف ہے؟؟؟
احادیث کی روایت میں انہوں نے بھی حصہ لیا ہے اور اس معنی میں وہ محدث بھی ہیں اور حفاظ کی صف میں شامل بھی ہیں ، لیکن اس صف میں ان کی پوزیشن کیا ہے یہ جانناضروری ہے، حفاظ کی صف میں شامل ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ موصوف بھی حافظ ہوگئے ، یہ تو بالکل وہی مثال ہوئی کی انگلی کٹا کے شہیدوں میں نام لکھانا !!!
انگلی کٹا کر کوئی شہیدوں کی صف میں تو کھڑا ہوسکتا ہے مگر شہادت کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا، صف میں کھڑے ہونے میں اورصف میں میں دوسروں کا مقام پانے میں بڑا فرق ہے ، بات امام ذہبی کی ہورہی ہے تو آپ امام ذہبی ہی کی کوئی ایسی صریح روایت پیش کردیں کہ جس میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ’’حافظ‘‘ کے لقب سے ملقب کیا ہو!!!

بہرحال ہم نے پہلے مثالوں کے ذریعہ واضح کیا تھا کہ ’’المعين فى طبقات المحدثين‘‘ میں کذاب اورضعیف رواۃ بھی موجود ہیں ، اس کا فائدہ یہ ہوا کہ عام قارئین کو یہ بات معلوم ہوگئی اس کتاب میں بھی کسی کے ذکر سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ ثقہ ہے۔
لیکن اب یہ مسئلہ اٹھایا گیا ہے کہ اس کتاب میں ذکرکئے جانے سے کم از کم اتنا تو ثابت ہوا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ حفاظ حدیث میں شامل تھے یعنی قلیل الحدیث نہیں تھے جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں۔

تو آئے اب ہم مثالوں کے ذریعہ یہ بات بھی واضح کردیتے ہیں کہ اس کتاب ’’المعين فى طبقات المحدثين‘‘ میں کسی راوی کے ذکر ہونے سے یہ مطلب نکالنا بھی درست نہیں
کہ وہ قلیل الحدیث کے بجائے کثیر الحدیث ہوگیا ۔
ذیل میں ہم اسی کتاب ’’المعين فى طبقات المحدثين‘‘ سے بعض ایسے رواۃ کے نام پیش کرتے ہیں جنہیں خود امام ذہبی رحمہ اللہ ہی نے دوسرے مقام پر صریح طور پر قلیل الحدیث کہہ رکھا ہے:

پہلی مثال:
المعین میں پہلے طبقہ یعنی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے طبقہ سے بھی قبل والے طبقہ میں ’’حمران مولى عثمان‘‘ ہیں[المعين فى طبقات المحدثين ص: 6]۔

انہیں کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ خود دوسری کتاب میں فرماتے ہیں:
حُمْرَانُ بنُ أَبَانٍ الفَارِسِيُّ (ع)الفَقِيْهُ، مَوْلَى أَمِيْرِ المُؤْمِنِيْنَ عُثْمَانَ.كَانَ مِنْ سَبْيِ عَيْنِ التَّمْرِ ، ابْتَاعَهُ عُثْمَانُ مِنَ المُسَيِّبِ بنِ نَجَبَةَ.حَدَّثَ عَنْ: عُثْمَانَ، وَمُعَاوِيَةَ.
وَهُوَ قَلِيْلُ الحَدِيْثِ. رَوَى عَنْهُ: عَطَاءُ بنُ
[سير أعلام النبلاء 4/ 182]۔

دوسری مثال:
المعین میں دوسرے طبقہ یعنی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے طبقہ سے بھی قبل والے طبقہ میں ’’ لحارث بن سويد التميمي‘‘ ہیں،[المعين فى طبقات المحدثين ص: 6]۔

انہیں کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ خود دوسری کتاب میں فرماتے ہیں:
الحَارِثُ بنُ سُوَيْدٍ التَّيْمِيُّ الكُوْفِيُّ أَبُو عَائِشَةَ (ع) إِمَامٌ، ثِقَةٌ، رَفِيْعُ المَحَلِّ.حَدَّثَ عَنْ: عُمَرَ، وَابْنِ مَسْعُوْدٍ، وَعَلِيٍّ.يُكْنَى: أَبَا عَائِشَةَ.رَوَى عَنْهُ: إِبْرَاهِيْمُ التَّيْمِيُّ، وَأَشْعَثُ بنُ أَبِي الشَّعْثَاءِ، وَعُمَارَةُ بنُ عُمَيْرٍ، وَجَمَاعَةٌ.وَهُوَ قَلِيْلُ الحَدِيْثِ، قَدِيْمُ المَوْتِ، قَدْ ذَكَرَهُ أَحْمَدُ بنُ حَنْبَلٍ، فَعَظَّمَ شَأْنَهُ، وَرَفَعَ مِنْ قَدْرِهِ.[سير أعلام النبلاء 4/ 156]۔

تیسری مثال:
المعین میں دوسرے طبقہ یعنی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے طبقہ سے بھی قبل والے طبقہ میں ’’شريح القاضي أبو أمية‘‘ ہیں [المعين فى طبقات المحدثين ص: 7]۔

انہیں کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ خود دوسری کتاب میں فرماتے ہیں:
(شريح بن الحارث) ابن قيس بن الجهم بن معاوية بن عامر القاضي: أبو أمية الكندي الكوفي قاضيها. ويقال: شريح بن شراحيل، ويقال: ابن شرحبيل، ويقال: إنه من أولاد الفرس الذي كانوا باليمن. وقد أدرك الجاهلية، ووفد من اليمن بعد النبي صلى الله عليه وسلم، وولي قضاء الكوفة لعمر. وروى عنه: وعن: علي، وعبد الرحمن بن أبي بكر. روى عنه: الشعبي، وإبراهيم النخعي، ومحمد بن سيرين، وقيس بن أبي حازم، ومرة الطيب، وتميم بن سلمة. وهو مع فضله وجلالته قليل الحديث [تاريخ الإسلام للذهبي 5/ 420]۔


چوتھی مثال :
المعین میں دوسرے طبقہ یعنی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے طبقہ سے بھی قبل والے طبقہ میں ’’مالك بن أوس بن الحدثان‘‘ ہیں [المعين فى طبقات المحدثين ص: 7]۔

انہیں کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ خود دوسری کتاب میں فرماتے ہیں:
مَالِكُ بنُ أَوْسِ بنِ الحَدَثَانِ بنِ الحَارِثِ بنِ عَوْفٍ النَّصْرِيُّ (ع)الفَقِيْهُ، الإِمَامُ، الحُجَّةُ، أَبُو سَعْدٍ - وَيُقَالُ: أَبُو سَعِيْدٍ - النَّصْرِيُّ، الحِجَازِيُّ، المَدَنِيُّ.۔۔۔ ۔۔۔۔۔قُلْتُ: كَانَ مَذْكُوْراً بِالبَلاَغَةِ وَالفَصَاحَةِ، وَهُوَ قَلِيْلُ الحَدِيْثِ. [سير أعلام النبلاء 4/ 172]۔

پانچویں مثال:
المعین میں تیسرے طبقہ یعنی ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے طبقہ سے بھی قبل والے طبقہ میں ’’الحارث بن يزيد العكلي الفقيه‘‘ ہیں ،[المعين فى طبقات المحدثين ص: 10]۔

انہیں کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ خود دوسری کتاب میں فرماتے ہیں:
(الحارث بن يزيد العكلي خ م ن ق أبو علي التيمي الكوفي الفقيه تلميذ إبراهيم النخعي.) روى عنه مغيرة بن مقسم وخالد بن دينار النيلي وابن عجلان والقاسم ابن الوليد وجماعة. وهو قديم الموت قليل الحديث جداً. وثقه يحيى بن معين.[تاريخ الإسلام للذهبي 8/ 70]۔

چھٹی مثال:
المعین میں پہلے طبقہ یعنی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے طبقہ سے بھی قبل والے طبقہ میں ’’عمرو بن عثمان بن عفان الأموي‘‘ ہیں ۔[ المعين فى طبقات المحدثين ص: 7]۔

انہیں کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ خود دوسری کتاب میں فرماتے ہیں:
(عمرو بن عثمان بن عفان بن أبي العاص) بن أمية القرشي الأموي. روى عن: أبيه، وأسامة بن زيد، وهو قليل الحديث. روى عنه: علي بن الحسين، وسعيد بن المسيب، وأبو الزناد. توفي في حدود الثمانين، وكان زوج رملة بنت معاوية. [تاريخ الإسلام للذهبي 5/ 496]۔


ساتویں مثال:
معین میں چھٹے طبقہ میں ’’محمد بن عبدالرحمن بن أبي ذئب الفقيه‘‘ ہیں،[المعين فى طبقات المحدثين ص: 14]۔

انہیں کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ خود دوسری کتاب میں فرماتے ہیں:
ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ مُحَمَّدُ بنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ العَامِرِيُّ (ع) ابْنِ المُغِيْرَةِ بنِ الحَارِثِ بنِ أَبِي ذِئْبٍ، وَاسْمُ أَبِي ذِئْبٍ: هِشَامُ بنُ شُعْبَةَ. الإِمَام، شَيْخُ الإِسْلاَمِ، أَبُو الحَارِثِ القُرَشِيُّ، العَامِرِيُّ، المَدَنِيُّ، الفَقِيْهُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَكَانَ قَلِيْلَ الحَدِيْثِ.[سير أعلام النبلاء 7/ 145]۔

آٹھویں مثال:
المعین میں طبقہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی کی لسٹ میں ’’عثمان البتي الفقيه‘‘ ہیں [المعين فى طبقات المحدثين ص: 12]۔

انہیں کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ خود دوسری کتاب میں فرماتے ہیں:
(عثمان البتي الفقيه أبو عمرو البصري بياع البتوت.) اسم أبيه مسلم ويقال أسلم ويقال سليمان، وأصله من الكوفة. روى عن أنس بن مالك وعبد الحميد بن سلمة والشعبي والحسن البصري. وعنه شعبة والثوري هشيم ويزيد بن زريع وابن علية وآخرون. وثقة أحمد والدار قطني وهو قليل الحديث لكنه من كبار الفقهاء.[تاريخ الإسلام للذهبي 8/ 485]۔

نویں مثال:
المعین میں طبقہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی کی لسٹ میں ’’عبدالله بن شبرمة الفقيه‘ ہیں [المعين فى طبقات المحدثين ص: 12]

انہیں کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ خود دوسری کتاب میں فرماتے ہیں:
(عبد الله بن شبرمة، م د ن ق، ابن الطفيل بن حسان أبو شبرمة الضبي الكوفي.) الفقيه عالم أهل الكوفة مع الإمام أبي حنيفة.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وهو قليل الحديث[تاريخ الإسلام للذهبي 9/ 194]۔

دسویں مثال:
المعین میں طبقہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی کی لسٹ میں ’’حميد بن قيس المكي‘‘ ہیں [المعين فى طبقات المحدثين ص: 12]۔

انہیں کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ خود دوسری کتاب میں فرماتے ہیں:
(حميد بن قيس ع أبو صفوان المكي الأعرج المقريء.) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدث عنه مالك ومعمر وابن عيينة وطائفة. وثقة أبو داود وغيره وهو قليل الحديث [تاريخ الإسلام للذهبي 8/ 403]۔

تلک عشرہ کاملہ ۔

ان مثالوں کے بعد یہ بات بہت اچھی طرح سے واضح ہوجاتی ہے کہ ’’المعين فى طبقات المحدثين‘‘ میں کسی راوی کے ذکر ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ حفاظ کے مقام پر پہنچ گیا۔

ملاحظہ :
یہ بات بھی نوٹ کریں کہ مذکورہ مثالوں میں جنہیں قلیل الحدیث بتلایا گیا ہے ان میں اچھی خاصی تعداد کو ’’فقیہ‘‘ بھی کہا گیاہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو قلیل الحدیث کہنے والے لوگ کون ہیں؟؟؟


امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ قلیل الحدیث ہیں یا کثیر الحدیث یہ ہماری تحریر کا موضوع بالکل نہیں تھا اس کے باوجوبھی جمشید صاحب نے جواب میں اس پر بھی بات کرنا ضروری سمجھا اگر جمشید صاحب نے سادہ لفظوں یہ بات کہی ہوتی تو موضوع سے غیر متعلق اس بات کو نظر انداز کرکے ہم آگے بڑھ جاتے مگر آن جناب نے بڑے سخت قسم کے الفاظ میں یہ بات رکھی ہے، لکھتے ہیں:
اورجولوگ امام ابوحنیفہ کو قلیل الحدیث کہتے ہیں وہ جہالت وسفاہت کامظاہرہ اورمجاہرہ دونوں کررہے ہیں۔
دیکھیں اس عبارت میں جن اہل علم نے امام صاحب کو قلیل الحدیث کہا ہے انہیں جہالت و سفاہت کا مرکب بتلایا گیا ہے، اس لئے یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس طعن وتشنیع کی زد کن کن محدثین پر پڑتی ہے۔
تو ملاحظہ فرمائیں ان محدثین عظام کے اسماء جنہوں نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو قلیل الحدیث قرار دیا ہے:

امام عبد الله بن المبارك بن المتوفى: 181ھ رحمہ اللہ۔


آپ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی شاگردی میں بھی رہ چکے ہیں اورشاگر اپنے استاذ کی کیفیت بہترانداز میں بیان کرسکتا ہے تو آئیے دیکھتے ہیں کہ امام ابن عبدالمبارک رحمہ اللہ اپنے استاذ کی حدیث دانی کی بابت کیا گواہی دیتے ہیں:

امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
نا عبدان بن عثمان قال سمعت بن المبارك يقول كان أبو حنيفة مسكينا في الحديث [الجرح والتعديل موافق 8/ 449 وسندہ صحیح عبدان ھو الحافظ العالم أبو عبد الرحمن عبدالله بن عثمان بن جبلة بن أبي رواد]

امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ثنا محمد بن يوسف الفربري ثنا على بن خشرم ثنا على بن إسحاق قال سمعت بن المبارك يقول كان أبو حنيفة في الحديث يتيم [الكامل في الضعفاء 7/ 6 وسندہ صحیح یوسف الفربری من رواۃ الصحیح للبخاری]

امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سمعت محمد بن محمود النسائي يقول : سمعت علي بن خشرم يقول : سمعت علي بن إسحاق السمرقندي يقول : سمعت ابن المبارك يقول : كان أبو حنيفة في الحديث يتيما [المجروحين لابن حبان 2/ 331 وسندہ حسن ]


ابوعمر حفص بن غياث المتوفى:194 ھ رحمہ اللہ ۔


امام عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدثني إبراهيم سمعت عمر بن حفص بن غياث يحدث عن أبيه قال كنت أجلس إلى أبي حنيفة فاسمعه يفتي في المسألة الواحدة بخمسة أقاويل في اليوم الواحد فلما رأيت ذلك تركته وأقبلت على الحديث[السنة لعبد الله بن أحمد 1/ 205 واسنادہ صحیح ]۔


امام يحيى بن سعیدالقطان المتوفى: 198ھ ، رحمہ اللہ۔


امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدثنا بن حماد حدثني صالح ثنا على قال سمعت يحيى بن سعيد يقول مر بي أبو حنيفة وأنا في سوق الكوفة فقال لي قيس القياس هذا أبو حنيفة فلم أسأله عن شيء قيل ليحيى كيف كان حديثه قال ليس بصاحب [الكامل في الضعفاء 7/ 7 واسنادہ صحیح]۔

امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدثناه محمد بن عيسى قال حدثنا صالح قال حدثنا علي بن المديني قال سمعت يحيى بن سعيد يقول مر بي أبو حنيفة وأنا في سوق الكوفة فقال لي تيس القياس هذا أبو حنيفة فلم أسأله عن شيء قال يحيى وكان جاري بالكوفة فما قربته ولا سألته عن شيء قيل ليحيى كيف كان حديثه قال لم يكن بصاحب الحديث [ضعفاء العقيلي 4/ 283]۔

خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أخبرنا البرقاني أخبرنا محمد بن العباس بن حيويه أخبرنا محمد بن مخلد حدثنا صالح بن احمد بن حنبل حدثنا علي يعني بن المديني قال سمعت يحيى هو بن سعيد القطان وذكر عنده أبو حنيفة قالوا كيف كان حديثه قال لم يكن بصاحب حديث[تاريخ بغداد 13/ 445 واسنادہ صحیح]۔


أبو بكر عبد الله بن الزبير الحميدي المتوفى:219 ۔


امام حمیدی رحمہ اللہ کے شاگردامام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سمعت الحميدي يقول قال أبو حنيفة قدمت مكة فأخذت من الحجام ثلاث سنن لما قعدت بين يديه قال لي استقبل القبلة فبدأ بشق رأسي الأيمن وبلغ إلى العظمين، قال الحميدي فرجل ليس عنده سنن عن رسول الله صلى الله عليه و سلم ولا أصحابه في المناسك وغيرها كيف يقلد أحكام الله في المواريث والفرائض والزكاة والصلاة وأمور الإسلام [التاريخ الصغير 2/ 43]۔


امام أبو عبد الرحمن أحمد بن شعيب النسائي المتوفى: 303ھ رحمہ اللہ۔


آپ فرماتے ہیں:
أبو حنيفة ليس بالقوي في الحديث وهو كثير الغلط والخطأ على قلة روايته [تسمية الضعفاء والمتروکين : 71]۔


امام محمد بن حبان التميمي، البستي، متوفي354ھ رحمہ اللہ۔


امام ابن حبان رحمہ اللہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
وكان رجلا جدلا ظاهر الورع لم يكن الحديث صناعته، حدث بمائة وثلاثين حديثا مسانيد ماله حديث في الدنيا غيرها أخطأ منها في مائة وعشرين حديثا.إما أن يكون أقلب إسناده، أو غير متنه من حيث لا يعلم فلما غلب خطؤه على صوابه استحق ترك الاحتجاج به في الاخبار.[المجروحين لابن حبان: 2/ 321]۔


امام يحيي بن معين، متوفي 359ھ رحمہ اللہ۔


امام عبداللہ بن احمدبن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدثني أبو الفضل ثنا يحيى بن معين قال كان أبو حنيفة مرجئا وكان من الدعاة ولم يكن في الحديث بشيء [السنة لعبد الله بن أحمد: 1/ 226]۔


امام عبدالله بن عدي الجرجاني، متوفي 365 ھ رحمہ اللہ۔


آپ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں:
أبو حنيفة له أحاديث صالحة وعامة ما يرويه غلط وتصاحيف وزيادات في أسانيدها ومتونها وتصاحيف في الرجال وعامة ما يرويه كذلك ولم يصح له في جميع ما يوريه الا بضعة عشر حديثا وقد روى من الحديث لعله أرجح من ثلاثمائة حديث من مشاهير وغرائب وكله على هذه الصورة لأنه ليس هو من أهل الحديث ولا يحمل على من تكون هذه صورته في الحديث [الكامل في الضعفاء 7/ 12]۔


امام أبو عبد الله الحاكم النيسابوري المتوفى: 405ھ رحمہ اللہ۔


آپ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں:
النوع الحادي والخمسون : معرفة جماعة من الرواة لم يحتج بحديثهم ولم يسقطوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ هذا النوع من هذه العلوم معرفة جماعة من الرواة التابعين فمن بعدهم لم يحتج بحديثهم في الصحيح ولم يسقطوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ومثال ذلك في أتباع التابعين : موسى بن محمد بن إبراهيم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔أبو حنيفة النعمان بن ثابت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فجميع من ذكرناهم في هذا النوع بعد الصحابة والتابعين فمن بعدهم قوم قد اشتهروا بالرواية ولم يعدوا في الطبقة الأثبات المتقنين الحفاظ والله أعلم[معرفة علوم الحديث ص: 337]۔

امام ذھبی شمس الدين محمد بن احمد الذهبي، متوفي748 ھ رحمہ اللہ۔


آپ مناقب ابی حنیفہ میں لکھتے ہیں:
قلت: لم يصرف الإمام همته لضبط الألفاظ والإسناد، وإنما كانت همته القرآن والفقه، وكذلك حال كل من أقبل على فن، فإنه يقصر عن غيره [مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه ص: 45]۔


تلک عشرۃ کاملہ۔

یہ کل دس محدثین کے حوالہ پیش خدمت یہ تمام کے تمام امام صاحب سے کثرت حدیث دانی کی نفی کررہے ہیں اس فہرست میں ام ابن معین بھی ہیں جو جمشید صاحب کے بقول حنفی ہیں انہوں نے بھی صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ ’’لم يكن في الحديث بشيء ‘‘ اب ایک حنفی محدث اور وہ بھی عظیم الشان محدث کو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے کیا دشمنی تھی کہ انہوں نے صاف لفظوں میں امام صاحب سے حدیث دانی میں مہارت کی نفی کردی !!!

جمشیدصاحب نے امام صاحب کو قلیل الحدیث کہنے والوں کےحق میں جو سخت زبان استعمال کی ہے کیا اس کی زد میں یہ اجلہ محدثین نہیں آتے ؟؟؟ پھر یہ بات بھی ناقابل فہم ہے کہ امام صاحب کوقلیل الحدیث مان لینے میں کیا ان کی توہیں ہے؟؟؟ اس سے قبل والے مراسلے میں قارئین دیکھ سکتے ہیں کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے بہت سارے محدثین کو قلیل الحدیث بھی کہا ہے مگر ان کی جلالت شان اور ان کی عظمت و منقبت کو تسلیم بھی کیا ہے ، لہٰذا امام صاحب کو قلیل الحدیث مان لینے سے امام صاحب کی شان میں کوئی گستاخی نہیں ہے۔

میرے خیال سے اتنی بات ماننے میں کفایت اللہ صاحب کوبھی کوئی عذر نہ ہوگا۔
۔
اگر آپ یہ کہیں امام صاحب ایک بڑے امام تھے ، فقیہ تھے ، نیک تھے ، بزرگ تھے ، دین کی خدمت میں ان کی نیت مخلصانہ تھی ، انہوں نے دین کی خدمت میں اپنی پوری زندگی صرف کردی وغیر وغیرہ تو یقینا مجھے ان باتوں سے اختلاف نہیں ہوگا۔

لیکن میدان حدیث میں ان کا مقام کیا ہے ؟ اس سلسلے میں اسی میدان کے جلیل القدر محدثین نے جو گواہیاں دی ہیں ہم ان کے ساتھ ناانصافی نہیں کرسکتے ۔


جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
آگے بڑھتے ہیں۔مناقب ابی حنیفۃ وصاحبیہ کی جانب ۔

کفایت اللہ صاحب نے اپنی من پسند باتیں نقل کرلی ہیں اورجوباتیں ان کی پسند کی نہیں تھی اسے چھوڑدیاہے ۔یہ انکی تحریر کاعیب ہے جس سے بچناچاہئے کہ جیساکہ حافظ ذہبی نے خود میزان الاعتدال میں ابن جوزی کے بارے میں کہاہے کہ ان کی کتاب کا عیب یہ ہے کہ وہ جارحین کے اقوال نقل کردیتے ہین اورمعدلین کے اقوال نقل نہیں کرتے۔آئیے ذرادیکھیں کہ کفایت اللہ صاحب نے علم اورتحقیق اورانصاف پسندی کاکس قدرخیال رکھاہے۔ہم حافظ ذہبی کی پوری بات نقل کرتے ہیں۔
فصل فی الاحتجاج بحدیثہ
اختلفو فی حدیثیہ علی قولین فمنھم من قبلہ وراہ حجۃ ومنھم من لینہ لکثرۃ غلطہ فی الحدیث لیس الا
قال علی بن المدینی : قیل لیحیی بن سعید القطان کیف کان حدیث ابی حنیفۃ قال:لم یکن بصاحب حدیث

قلت: لم یصرف الامام ھمتہ لضبط الالفاظ والاسناد ،وانماکانت ھمتہ القران والفقہ ،وکذلک حال کل من اقبل علی فن فانہ یقصر عن غیرہ
ومن ثم لینوا حدیث جماعۃ من ائمۃ القراء کحفص،وقالون،وحدیث جماعۃ من الفقہاء کابن ابی لیلی ،وعثمان البتی،وحدیث جماعۃ من الزہاد کفرقد السبخی،وشقیق البلخی ،وحدیث جماعۃ من النحاۃ ،وماذاک لضعف فی عدالۃ الرجل،بل لقلۃ اتقانہ للحدیث،ثم ھوانبل من ان یکذب
وقال ابن معین فیمارواہ عنہ صالح بن محمد جزرۃ وغیرہ،ابوحنیفہ ثقہ ،
وقال احمد بن محمد بن القاسم بن محرز،عن یحیی بن معین: لاباس بہ۔
وقال ابوداؤد السجسستانی:رحم اللہ مالکاکان اماما،رحم اللہ اباحنیفہ کان اماما۔


امام ابوحنیفہ کی احادیث سے احتجاج کے بارے میں فصل
ان کی احادیث کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل کے دوقول ہیں۔ بعض نے ان کی احادیث کوقبول کیاہے اوران کو حجت تسلیم کیاہے اوران میں سے بعض نے ان کو لین قراردیاہے اوراس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کی احادیث میں کثرت سے غلطیاں واقع ہوئی ہیں۔

میں کہتاہوں کہ امام (ابوحنیفہ)نے حدیث کے الفاظ اوراسناد کے ضبط کی جانب توجہ نہیں دی اس کی پوری توجہ قران اورفقہ کی جانب تھی اورایساحال ہراس شخص کاہوتاہے جوکسی فن کی جانب متوجہ ہوتاہے تو وہ دوسرے سے قاصر رہتاہے اوراسی میں سے یہ ہے کہ ائمہ جرح وتعدیل نے ائمہ قرات میں سے حفص اورقالون کو لین(ایک گونہ ضعیف)قراردیااورفقہاء کی ایک جماعت جیسے ابن ابی لیل عثمان البتی کو لین قراردیا اورزہاد کی ایک جماعت فرقد السنجی،شقیق البلخی کو حدیث میں لین قراردیااورنحویوں کی ایک جماعت کو حدیث میں لین قراردیا۔اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان کی عدالت میں کوئی کمزوری تھی بلکہ حدیث کی پختگی میں قلت تھی پھر وہ اس سے پاک تھے کہ وہ جھوٹ بیان کریں۔
صالح بن محمد جزرہ اوردوسروں نے ابن معین سے نقل کیاہے کہ امام ابوحنیفہ ثقہ تھے۔
احمد بن محمد قاسم بن محرز نے یحیی بن معین سے امام ابوحنیفہ کے بارے میں نقل کیاہے ۔کوئی حرج نہیں۔اورامام ابوداؤد السجستانی کہتےہیں اللہ امام مالک پر حم کرے وہ امام تھے اللہ امام ابوحنیفہ پر رحم کرے کہ وہ امام تھے
یہ ہے آپ کے سامنے حافظ ذہبی کی پوری عبارت ۔آپ اس کو سامنے رکھیں اورکفایت اللہ نے جولکھاہے اورپھردیکھیں انہوں نے کیاچھوڑااورکیانقل کیاہے۔
حافظ ذہبی کاآدھاادھوراکلام نقل کرنے کے بعد کفایت اللہ صاحب بڑے طرے سے کہتے ہیں۔
کفایت اللہ
تو عرض ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے بے شک اس کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی بعض خوبیوں کا ذکر ہے ، لیکن جب روایت حدیث کی بات آئی تو امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس کتاب میں بھی دو ٹوک فیصلہ کردیا ہے کہ امام صاحب راویت حدیث میں معتبر نہیں ہیں بلکہ یہاں تک صراحت کی ہے کہ یہ ان کافن ہی نہیں ہے ، اس میں وہ مشغول ہی نہیں ہوئے ۔
اس کلام میں جواستدلال کی خامیاں ہیں ان پر ہم صرف لاحول ہی پڑھ سکتے ہین
حافظ ذہبی نے امام ابوحنیفہ کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل کااختلاف نقل کیاہے۔اولااس قول کو نقل کیاہے کہ امام ابوحنیفہ حدیث میں لین تھے۔
اس کے بعد حافظ ذہبی نے اس کی توجیہہ بیان کی ہے کہ اگر وہ لین ہیں تواس کی وجہ کیاہوسکتی ہے۔انہوں نے بیان کیاکہ امام صاحب نے اپنی پوری توجہ حفظ اسناد والفاظ حدیث کی جانب نہیں دی اسی لئے یہ غلطیاں واقع ہوئیں ان حضرات کے خیال کے مطابق جوامام ابوحنیفہ کو لین قراردیتے ہیں ۔پھر اس کی مثالیں نقل کیں کہ دیگر ائمہ قرات اورفقہاء کوبھی اسی سبب سے محدثین نے لین قراردیاہے۔
ِآپ کی اس پوری تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ میں نے ملون بلون الاحمر سطور کو نقل نہ کرکے کوئی خیانت کی ہے !!!
محترم سب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ نقل عبارت میں کسی حصہ کو چھوڑ دینے پر خیانت یا عیب کا الزام اس وقت درست ہوگا جب متروکہ عبارت کے نہ ہونے سے کلام کا مفہوم بدل جائے ۔
لیکن یہاں ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے ۔
ہمارا مقصود یہ تھا کہ امام ذہی نے امام ابوحنیفہ کو ضیعف لین تسلیم کیا ہے اور جس عبارت میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے یہ بات تسلیم کی ہے وہ ’’قلت ‘‘ کی صراحت کے ساتھ شروع ہوتی ہے ۔
اس ’’قلت‘‘ کے بعد امام ذہبی رحمہ اللہ نے صاف اعلان کیا ہے امام صاحب ہی کی طرح اور بھی بہت سے اہل علم کو حدیث میں لین کہا گیا ہے ۔
اتنی سی بات سے یہ واضح ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے لین اورضعیف کہنے جانے پرمعترض نہیں ہیں ورنہ وہ یہاں اس تلیین و تضعیف کی وجہ پیش کرنے کے بجائے اس کی تردید ضرور کرتے جیساکہ حاٍفظ موصوف دیگر مقامات پر ایسا کرتے ہیں ۔

اب اگلے مراسلے میں ہم اپنے نقل کردہ اقتباس کے ماقبل اورمابعد کی عبارتوں کو سامنے رکھ کر وضاحت کرتے ہیں کہ ان کے ترک سے منقولہ عبارت کے مفہوم پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

جاری ہے ۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
امام ذہبی رحمہ اللہ کی پوری عبات ماقبل اور مابعد کے ساتھ ملاحظہ ہو:
فصل في الاحتجاج بحديثه اختلفوا في حديثه على قولين، فمنهم من قبله ورآه حجة، ومنهم من لينه لكثرة غلطه في الحديث ليس إلا.
قال علي بن المديني: قيل ليحيى بن سعيد القطان: كيف كان حديث أبي حنيفة؟ قال: " لم يكن بصاحب حديث۔
قلت: لم يصرف الإمام همته لضبط الألفاظ والإسناد، وإنما كانت همته القرآن والفقه، وكذلك حال كل من أقبل على فن، فإنه يقصر عن غيره , من ثم لينوا حديث جماعة من أئمة القراء كحفص، وقالون وحديث جماعة من الفقهاء كابن أبي ليلى، وعثمان البتي، وحديث جماعة من الزهاد كفرقد السنجي، وشقيق البلخي، وحديث جماعة من النحاة، وما ذاك لضعف في عدالة الرجل، بل لقلة إتقانه للحديث، ثم هو أنبل من أن يكذب "۔
وقال ابن معين فيما رواه عنه صالح بن محمد جزرة وغيره: أبو حنيفة ثقة،
وقال أحمد بن محمد بن القاسم بن محرز، عن يحيى بن معين لا بأس به
وقال أبو داود السجستاني: «رحم الله مالكا كان إماما، رحم الله أبا حنيفة كان إماما»

[مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه ص: 46]

ملون اورمخطوط حصہ کو ہم نے نقل کیا تھا اورعبارت کے اسی حصہ میں امام ذہبی رحمہ اللہ کا فیصلہ موجود ہے جس کی وضاحت میں پچھلے مراسلے میں کرچکا ہوں ۔
اب اسے ماقبل کی عبارت یہ ہے:

ماقبل کی عبارت

فصل في الاحتجاج بحديثه اختلفوا في حديثه على قولين:
فمنهم :
من قبله ورآه حجة۔
ومنهم :
من لينه لكثرة غلطه في الحديث ليس إلا۔
قال علي بن المديني: قيل ليحيى بن سعيد القطان: كيف كان حديث أبي حنيفة؟ قال: " لم يكن بصاحب حديث۔


ام ابوابوحنیفہ رحمہ اللہ کی حدیث سے احتجاج کا بیان ، آپ کی حدیث سے احتجاج کے سلسلے میں محدثین کے دو قول ہیں:
پہلا قول:
ابوحنیفہ مقبول اور حجت ہیں۔
دوسراقول:
ابوحنیفہ لین الحدیث ہیں کیونکہ حدیث میں یہ بکثرت غلطی کرتے تھے صرف اسی وجہ سے۔
امام علی بن مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : امام یحیی بن سعیدالقطان سے پوچھا گیا کہ ابوحنیفہ کی حدیث کسی ہے ؟ تو آپ نے جواب دیا :ابوحنیفہ حدیث والے نہ تھے ۔


اس کے بعد امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس دوسرے قول کی تردید بالکل نہیں کی ہے جب کہ امام ذہبی کا معمول ہے کہ ایسے مواقع پر غیر درست جروح کو رد کردیتے ہیں ،

ایک مثال ملاحظہ ہو:
إبراهيم بن خالد أبو ثور الكلبى.أحد الفقهاء الاعلام.وثقه النسائي والناس.
وأما أبو حاتم فتعنت، وقال: يتكلم بالرأى فيخطئ ويصيب، ليس محله محل المسمعين في الحديث.
فهذا غلو من أبى حاتم، سامحه الله.

[ميزان الاعتدال موافق رقم 1/ 29]۔

لیکن یہاں امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام یحیی بن سعید رحمہ اللہ کے قول سے ہرگز اختلاف نہیں کیا ہے بلک اس کی تائید کرتے ہوئے اس کی وجہ بھی بتادی ہے کہ امام صاحب کی توجہ اس جانب تھی ہی نہیں جس کے سبب وہ حدیث میں مضبوطی لانے سے قاصر تھے پھر اس قسم کے اور لوگوں کی مثالیں دی ہیں جو حدیث کی طرف مکمل توجہ نہ دینے کے سبب لین الحدیث ہوگئے، اس سے صاف ظاہر ہے امام ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک امام ابوحنیفہ لین الحدیث و ضعیف الحدیث تھے۔

تنبیہ اول :
جمشید صاحب نے عربی میں پورا اقتباس تو نقل کردیا لیکن ترجمہ کرتے وقت معلوم نہیں کیوں امام یحیی بن سعید رحمہ اللہ کے اس قول کا ترجمہ نہیں کیا ہے جس میں امام یحیی بن سعد رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ پر جرح کی ہے ۔

تنبیہ ثانی :
امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام یحیی بن سعید رحمہ اللہ کی جو جرح نقل کی ہے وہ بسندصحیح کئی طرق سے ثابت ہے جیساکہ گذشتہ سے پیوستہ مراسلے میں نقل کیا جاچکا ہے، زاہدکوثری نے اس کے صرف ایک طریق پر بے بنیاد جرح کرکے یہ مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے کہ یہ جرح امام یحیی بن سعید رحمہ اللہ سے ثابت ہیں نہیں ، حالانکہ یہی جرح دیگرطرق سے بھی مروی ہے جس میں وہ راوی ہے ہی نہیں جس پر زاہدکوثری نے بے بنیاد جرح کی ہے۔


مابعد کی عبارت

ثم هو أنبل من أن يكذب۔
وقال ابن معين فيما رواه عنه صالح بن محمد جزرة وغيره: أبو حنيفة ثقة،
وقال أحمد بن محمد بن القاسم بن محرز، عن يحيى بن معين لا بأس به
وقال أبو داود السجستاني: «رحم الله مالكا كان إماما، رحم الله أبا حنيفة كان إماما»


اب ذرا غورکریں کہ ان اقوال کا حافظ ذھبی کے اپنے اس فیصلہ سے کیا تعلق ہے جسے وہ پہلے پیش کرچکے ہیں ، مابعد کی اس عبارت سے صرف یہ ثابت ہوا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے ابن معین سے توثیق کا قول بھی نقل کیا ہے ، لیکن اس بات کا ثبوت کہاں ہے کہ امام ذھبی رحمہ اللہ اس سے متفق ہیں خصوصا جبکہ امام ذہبی اس سے قبل اپنافیصلہ سنا چکے ہیں !!!

اورامام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنا یہ کوئی اصول نہیں بتایا ہے کہ میں جس قول کو آخر میں پیش کروں وہی میرا موقف ہے ، بلکہ امام ذھبی رحمہ اللہ کی کتب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ ایسی کسی ترتیب کے پابند نہیں ہیں ، مثلا:

دیوان الضعفاء میں فرماتے ہیں:
ابراہیم بن مھاجر البجلی الکوفی ، ثقة ، قال النسائی : لیس بالقوی ۔[دیوان الضعفاء:ص٢١]۔
غورکریں یہاں امام ذہبی رحمہ اللہ نے پہلے خود فیصلہ کردیا کہ ابراہم ثقہ ہیں اس کے بعد امام نسائی کی تضعیف نقل کی ہے۔
یادرہے امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس راوی کو اپنی کتاب ’’من تكلم فيه وهو موثق‘‘ میں نقل کیا ہے دیکھیں:من تكلم فيه وهو موثق ص: 33۔

ایک اور مثال ملاحظہ ہوں ۔
امام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
إبراهيم بن عبدالله الهروي الحافظ شيخ الترمذي. عنده عن هشيم وبابته.قال أبو داود: ضعيف. قال غير واحد: صدوق.وقال إبراهيم الحربى: متقن تقى.
وقال الدارقطني: ثقة ثبت حافظ قال النسائي: ليس بالقوى.
[ميزان الاعتدال موافق رقم 1/ 39]۔

غورکریں کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے صح کی علامت سے اشارہ دے دیا کہ یہ راوی ثقہ ہے لیکن پھر بھی اخیر میں امام نسائی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ :قال النسائي: ليس بالقوى.
اب کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک ابراہیم بن عبداللہ لیس بالقوی ہیں ؟؟؟

اگر ہاں تو پھر اسی راوی کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی دوسری کتاب میں اس طرح لکھا ہے:
إبراهيم بن عبدالله بن حاتم الهروي ثم البغدادي الحافظ عن إسماعيل بن جعفر وهشيم وعنه الترمذي وابن ماجة والفريابي وأبو يعلى وخلق
قال النسائي وغيره ليس بالقوي ووثقه طائفة
[الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة 1/ 215]۔

اب ذرا غور کریں کہ اسی راوی کے بارے میں اپنی ایک کتاب میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے سب سے آخر میں امام نسائی کی جرح نقل کی تھی اور دوسری کتاب میں اسی راوی کا ترجمہ توثیق پر ختم کرتے ہیں !!

اس کے بعد آخر میں (اورآخری کلام ہی عمومامصنف کی مراد سمجھی جاتی ہے)حافظ ذہبی نے یحیی بن معین اورامام ابوداؤد سے امام ابوحنیفہ کی توثیق نقل کی ہے۔
۔
اس کی وضاحت تو کی جاچکی ہے لیکن بطور لطیفہ عرض ہے کہ آخر میں امام ذہبی رحمہ نے کون سا قول نقل کیا ہے ذرا اسے پھر سے پڑھ لیں ، مذکورہ عبارت میں آخری قول آپ کے ترجمہ کے ساتھ پیش خدمت ہے:
وقال ابوداؤد السجسستانی:رحم اللہ مالکاکان اماما،رحم اللہ اباحنیفہ کان اماما۔۔
اورامام ابوداؤد السجستانی کہتےہیں اللہ امام مالک پر رحم کرے وہ امام تھے اللہ امام ابوحنیفہ پر رحم کرے کہ وہ امام تھے ۔

اب آپ کے اصول کے مطابق یہی آخری قول امام ذھبی رحمہ اللہ کا موقف ہونا چاہئے ، پھر یاد رہے کہ ہم نے کبھی بھی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی امامت سے انکار نہیں کیا ہے ، بلکہ میری اکثر تحروں میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ساتھ امام لفظ نظر آئے گا یعنی ہم بھی مانتے ہیں کہ دیگر ائمہ کی طرح یہ بھی ایک امام تھے ۔

مابعدکی عبارت میں توثیق اصطلاحی نہیں ہے۔


اب تک تو ہم نے یہ بتلایا کہ مابعد کی عبارت سے امام ذہبی رحمہ اللہ کے اتفاٖق کی صراحت نہیں ہے ، لیکن اب آئیے یہ واضح کرتے ہیں کہ مابعد کی عبارت میں میں ہے کیا ؟؟؟

تو معلوم ہونا چاہئے کہ اہل فن کبھی کبھی کسی کوثقہ کہتے ہیں تو اس سے مراد اس راوی کو صرف دینداراورسچابتلانا مقصود ہوتاہے ، نہ کہ یہ مطلب ہوتا ہے کہ وہ اصطاحی معنی میں ثقہ ہیں یعنی عادل ہونے کےساتھ ساتھ ضابط بھی ہے، اوراس بات کافیصلہ ناقد کے تمام اقوال کو جمع کرنے کے بعد ہوتاہے ۔
یہاں بھی یہی معاملہ ہے کہ مابعد کی عبارت میں امام یحیی بن معین رحمہ اللہ سے جو توثیق منقول ہے وہ قطع نظر اس کے کہ ثابت ہے یا نہیں، وہ دینداری اور سچائی کے اعتبار سے ہے نہ کہ ضبط اور حفظ کے اعتبار سے کیونکہ ضبط اورحفظ کے اعتبار سے تو امام ابن معین رحمہ اللہ نے صراحۃ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ضعیف کہہ رکھا ہے جس کی تفصل آگے آرہی ہے۔
یہ واضح ہوجانے کے بعد بات صاف ہوگئی کی اس مابعدکی عبارت سے قبل امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام صاحب کی جو تضعیف و تلیین کی ہے وہ اپنی جگہ پر اٹل ہے اور مابعد کی عبارت میں صرف ان کی دیانت داری والی توثیق نقل ہوئی ہے جو تضعیف و تلیین کے منافی ہے ہی نہیں ۔
اس کی پوری تفصیل تو آگے آئے گی لیکن یہاں کا سیاق دیکھ لیں تو وہ بھی اسی بات پر دلالت کرتاہے چنانچہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف کرنے کے بعد توثیق کی جوبات نقل کی ہے اس کی شروعات ان لفظوں سے ہوتی ہے :
ثم هو أنبل من أن يكذب۔۔۔
یعنی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ جھوٹ بولنے سے پاک ہیں ۔
پھر اس کے بعد فورا ابن معین سے توثیق نقل کی ہے اس سیاق سے صاف ظاہر ہے کہ مابعد کی عبارت میں امام صاحب کی جو توثیق منقول ہے وہ توثیق غیر اصطلاحی ہے، لہٰذا اس عبارت سے امام ذہبی رحمہ اللہ کی تضعیف سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top