• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا مقام ومرتبہ حافظ ذہبی کی نگاہ میں

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
تاریخ اسلام اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ


اولا ہم تاریخ الاسلام کو لیتے ہیں۔ یہ حافظ ذہبی کی مشہور کتابوں میں سے ہے یہاں پربھی انہوں نے تراجم کے تذکرے میں اپنے محدثانہ جوہردکھائے ہیں۔یہاں پر بھی وہ راویوں کی حیثیت پر بے محابہ کلام کرتے چلے جاتے ہیں۔ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال نقل کرکے محدثین ،حفاظ اوررواۃ کی علم حدیث میں اوردیگر علوم وفنون میں مقام ومرتبہ کاتعین کرتے ہیں۔
امام ابوحنیفہ کے ذکر میں انہوں نے جرح کاایک بھی لفظ نقل نہیں کیاہے۔بلکہ اس کے بالمقابل ہمیں اس میں یہ الفاظ ملتے ہیں۔
النعمان بن ثابت. تم. ن. بن زوطى الإمام العلم أبو حنيفة الفقيه مولى بني تيم الله بن ثعلبة
اس کے بعد حافظ ذہبی نے جوکچھ مناقب اورفضائل میں نقل کیاہے اس پورے کو ذکر کرناتطویل کا باعث ہوگا اوریہ شاید پوراایک مقالہ ہی بن جائے گالیکن ہم کچھ اقوال بطور نمونہ ضرور نقل کرناچاہیں گے۔
ولا يقبل جوائز السلطان تورعاً، ولهار وصناع ومعاش متسع، وكان معدوداً في الأجواد الأسخياء والأولياء الأذكياء، وع الدين والعبادة والتهجد وكثرة التلاوة وقيام الليل رضي الله عنه.

سلطان کے تحفائف قبول بطور احتیاط قبول نہیں کرتے ہیں اوراسی کے ساتھ ان کااپناپیشہ تھا اوربطور معاش وہ خوشحال تھے اوروہ منتخب سخیوں،اولیاء اللہ ذہین ترین لوگوں میں سے تھے اسی کے ساتھ دین عبادت تہجد اورکثرت تلاوت اورقیام اللیل کے اوصاف سے متصف تھے۔
۔

وقال أبو داود: رحم الله مالكاً، كان إماماً، رحم الله الشافعي، كان إماماً، رحم الله أبا حنيفة، كان إماماً، سمع ابن داسة منه.)
وقال الخريبي: ما يقع في أبي حنيفة إلا حاسد أو جاهل. وقال يحيى القطان: لا نكذب الله ما سمعنا أحسن من رأي أبي حنيفة، وقد أخذنا بأكثر أقواله. وقال علي بن عاصم: لو وزن علم أبي حنيفة بعلم أهل زمانه لرجح عليهم. وقال حفص بن غياث: كلام أبي حنيفة في الفقه أدق من الشعر لا يعيبه إلا جاهل. وقال الحميدي: سمعت ابن عيينة يقول: شيئان ما ظننتهما يجاوزان قنطرة الكوفة: قراءة حمزة، وفقه أبي حنيفة، وقد بلغنا الآفاق.) وعن الأعمش أنه سئل عن مسألة فقال: إنما يحسن هذا النعمان بن ثابت الخزاز، وأظنه بورك له في علمه.
یہ میں نے تھوڑاسانمونہ نقل کیاہے ۔اس میں کوئی بھی دیکھ سکتاہے کہ امام ابوحنیفہ کے ذکر میں جرح کا ایک کلمہ تک نہیں ہے۔
ان ساری باتوں کا ہماری بحث سے کیا تعلق ہے ، جناب یہاں ابوحنیفہ کے مناقب پر نہیں ان کے ضعف پر بات ہورہی ہے لیکن ان تمام باتوں کا ہمارے موضوع سے کوئی تعلق ہیں نہیں ہے۔
نیزاس طرح کے فضائل جو امام ابوحنفہ رحمہ اللہ سے متعلق بیان کئے جاتے ہیں وہ اکثر جھوٹے ہیں جیساکہ خود اسی کتاب میں منقول ایک روایت میں ایک بات موجود ہے۔
چنانچہ امام ذہبی رحمہ اللہ اپنی اسی کتاب میں فرماتے ہیں:
وَرَوَى بِشْرُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ أَبِي يُوسُفَ قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا أَمْشِي مَعَ أَبِي حَنِيفَةَ إِذْ سَمِعْتُ رَجُلا يَقُولُ لِآخَرَ: هَذَا أَبُو حَنِيفَةَ لا يَنَامُ اللَّيْلَ، فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: وَاللَّهِ لا يَتَحَدَّثُ عَنِّي بِمَا لَمْ أَفْعَلْ فَكَانَ يُحْيِي اللَّيْلَ صَلاةً وَدُعَاءً وَتَضَرُّعًا.[تاريخ الإسلام ت بشار 3/ 992]۔
یعنی کسی نے امام ابوحنیفہ کی موجودگی میں کہا کہ ابوحنیفہ رات میں سوتے نہیں ہیں (یعنی عبادت کرتے ہیں ) تو یہ سنتے ہی ابوحنیفہ نے کہا کہ واللہ میرے تعلق سے ایسی بات نہ کہی جائے جسے میں کرتا ہی نہیں ، چنانچہ امام صاحب نماز و دعاء وگریہ وزاری میں شب بیداری کیا کرتے تھے۔

قارئین غورکریں کہ اس روایت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے جھوٹے فضائل کا بیان تو امام صاحب کی زندگی ہی سے شروع ہوگیا تھا اب اسی سے اندازہ لگالیں کہ ان کے چاہنے والوں نے اب تک کتنے جھوٹے فضائل بیان کئے ہوں گے۔

نیز اسی کتاب میں امام صاحب سے متعلق کچھ ایسی باتیں منقول ہوئی ہیں جو کوئی بھی سچامسلمان نہیں کرسکتا، مثلا:
امام ذہبی رحمہ اللہ اسی کتاب میں فرماتے ہیں:
وَرَوَى عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ السَّمَرْقَنْدِيُّ عَنْ أَبِي يُوسُفَ قَالَ: كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ يَخْتِمُ الْقُرْآنَ كُلَّ لَيْلَةٍ فِي رَكْعَةٍ.[تاريخ الإسلام ت بشار 3/ 993]
یعنی ابوحنیفہ ہر رات میں ایک رکعت میں قران ختم کرتے تھے۔
اب ذرا غورکریں کہ اگر اس بات کو مان لیا جائے تو امام صاحب نہ صرف حدیث میں ضعیف تھے بلکہ ان کی فقاہت پر بھی سوالیہ نشان لگ جائے گا، چنانچہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَمْ يَفْقَهْ مَنْ قَرَأَ القُرْآنَ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثٍ[سنن الترمذي ت شاكر 5/ 198 واسنادہ صحیح]۔
جس نے تین دن سے کم میں قران کو ختم کیا وہ فقہ سے محروم ہے ۔

اب دیکھیں کہ اس کتاب میں بتایا جارہا ہے کہ امام ابوحنیفہ تین دن تو دور کی بات ایک ہی رات میں اوروہ بھی ایک ہی رکعت میں قران ختم کردیا کرتے تھے ۔
اب غورکریں اگر تین دن میں قران ختم کرنے والا فرمان نبوی کے مطالق فقاہت سے محروم ہے تو جوشخص ایک دن بھی نہیں بلکہ ایک رات کے اندر اور اس میں بھی صرف ایک رکعت میں قران ختم کردے ، اس سے بڑا کوئی فقاہت سے محروم شخص ہوسکتاہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ ایک اورگپ دیکھیں :
امام ذہبی رحمہ اللہ اسی کتاب میں فرماتے ہیں:
وَيُرْوَى أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ خَتَمَ الْقُرْآنَ فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ سَبْعَةَ آلافِ مَرَّةٍ.[تاريخ الإسلام ت بشار 3/ 993]
یعنی جس مقام پر ابوحنیفہ کی وفات ہوئی اس مقام پر انہوں نے سات ہزر بار قران ختم کیا ۔

اب ایک اور لطیفہ دیکھیں ، جمشید صاحب مجھ ناچیز کے بارے میں لکھتے ہیں:
میرایہ شک گہراہوتاجارہاہے کہ آج کل آنجناب کم سورہے ہیں اس لئے بیداری میں بھی پوری طرح بیدار نہیں رہتے بلکہ جوچاہتے ہیں لکھ دیتے ہیں بغیر غوروفکر کئے ہوئے۔
نیند پوری نہ ہوایک مرتبہ براہ کرم نیندپوری کرلیں اورپھر جولکھیں پورے ہوش وحواس مین لکھیں۔
اب کس کی نیندپوی نہیں ہواکرتی تھی یہ آپ سی کتاب میں دیکھیں:
امام ذہبی رحمہ اللہ اسی کتاب میں فرماتے ہیں:
وَعَنْ أَسَدِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ صَلَّى الْعِشَاءَ وَالصُّبْحَ بِوُضُوءِ أَرْبَعِينَ سَنَةً.[تاريخ الإسلام ت بشار 3/ 992]۔
یعنی امام ابوحنیفہ نے چالیس سال تک فجر کی نماز عشاء کے وضوء سے ادا کی ۔

اب ذرا انصاف کریں کہ جسے چالیس سال تک سونا نصیب نہ ہو وہ کس قدر مخبوط الحواس شخص ہوسکتا ہے۔

اسی لئے اللہ والے لوگ انہیں نصیحت کیا کرتے تھے اورموصوف کو ان خرافات سے روکتے تھے ، جیساکہ اسی کتاب میں ہے کہ کسی نے ان سے کہا کہ اللہ کا خوف کریں :
امام ذہبی رحمہ اللہ اسی کتاب میں فرماتے ہیں:
وَعَنْ يَزِيدَ بْنِ كُمَيْتٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلا يَقُولُ لِأَبِي حَنِيفَةَ: اتَّقِ اللَّهَ، فَانْتَفَضَ وَاصْفَرَّ وَأَطْرَقَ وَقَالَ: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا مَا أَحْوَجُ النَّاسِ كُلَّ وَقْتٍ إِلَى مَنْ يَقُولُ لَهُمْ مِثْلَ هَذَا.[تاريخ الإسلام ت بشار 3/ 993]

بلکہ اسی کتاب میں ہے کہ کسی نے انہیں زندیق تک کہہ ڈالا
امام ذہبی رحمہ اللہ اسی کتاب میں فرماتے ہیں:
وَقِيلَ: إِنَّ إِنْسَانًا اسْتَطَالَ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - وَقَالَ لَهُ: يَا زِنْدِيقُ، فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: غَفَرَ اللَّهُ لَكَ هُوَ يَعْلَمُ مِنِّي خِلافَ مَا تَقُولُ.[تاريخ الإسلام ت بشار 3/ 993]

وقال صالح بن محمد جزرة وغيره: سمعنا ابن معين يقول: أبو حنيفة ثقة. وروى أحمد بن محمد بن محرز عن ابن معين قال: لا بأس به، لم يهم بكذب
اس پوری کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی توثیق کے سلسلے میں صرف ابن معین ہی کا قول ملتا ہے ، جو امام ابن معین رحمہ اللہ سے ثابت ہی نہیں ہے جیساکہ پہلے تفصیل پیش کی جاچکی ہے۔
نیز بفرض ثابت امام ابن معین کی توثیق والی روایات میں توثیق سے مراد اصطلاحی توثیق نہیں ہے بلکہ دیانت اور سچائی کے لحاظ سے توثیق ہے ، کیونکہ خودامام ابن معین نے انہیں حدیث میں صریح طور پر ضعیف بتلایا ہے ، اس کی مزید تفصیل اگلے مراسلے میں آرہی ہے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سیراعلام النبلاء اور امام ابوحنیفہ ۔


اس کتاب میں وہ امام ابوحنیفہ ترجمہ کی ابتداء میں لکھتے ہیں۔
الإِمَامُ، فَقِيْهُ المِلَّةِ، عَالِمُ العِرَاقِ، أَبُو حَنِيْفَةَ النُّعْمَانُ بنُ ثَابِتِ بنِ زُوْطَى التَّيْمِيُّ، الكُوْفِيُّ، مَوْلَى بَنِي تَيْمِ اللهِ بنِ ثَعْلَبَةَ.
وَعُنِيَ بِطَلَبِ الآثَارِ، وَارْتَحَلَ فِي ذَلِكَ، وَأَمَّا الفِقْهُ وَالتَّدْقِيْقُ فِي الرَّأْيِ وَغوَامِضِهِ، فَإِلَيْهِ المُنْتَهَى، وَالنَّاسُ عَلَيْهِ عِيَالٌ فِي ذَلِكَ. (6/393)اس کتاب میں انہوں نے وہ واقعہ نقل کیاہے کہ امام ابوحنیفہ نے سوچاکہ قرات کا علم حاصل کروں،پھراسے چھوڑاپھرسوچاکہ حدیث حاصل کروں پھرسوچاکہ علم کلام حاصل کروں۔ اس واقعہ کو بے اصل اورموضوع بتاتے ہوئے حافظ ذہبی کہتے ہیں۔
قُلْتُ: الآنَ كَمَا جَزَمتُ بِأَنَّهَا حِكَايَةٌ مُختَلَقَةٌ، فَإِنَّ الإِمَامَ أَبَا حَنِيْفَةَ طَلَبَ الحَدِيْثَ، وَأَكْثَرَ مِنْهُ فِي سَنَةِ مائَةٍ وَبَعدَهَا، وَلَمْ يَكُنْ إِذْ ذَاكَ يَسْمَعُ الحَدِيْثَ الصِّبْيَانُ، هَذَا اصْطِلاَحٌ وُجِدَ بَعْدَ ثَلاَثِ مائَةِ سَنَةٍ، بَلْ كَانَ يَطْلُبُه كِبَارُ العُلَمَاءِ، بَلْ لَمْ يَكُنْ لِلْفُقَهَاءِ عِلْمٌ بَعْدَ القُرْآنِ سِوَاهُ، وَلاَ كَانَتْ قَدْ دُوِّنَتْ كُتُبُ الفِقْهِ أَصلاً. (6/397)پھر جب علم کلام کا ذکرآتاہے تواس پرواقعہ کے موضوع ہونے پر نقد کرتے ہوئے لکھتے
ہیں۔
قُلْتُ: قَاتَلَ اللهُ مَنْ وَضَعَ هَذِهِ الخُرَافَةَ، وَهَلْ كَانَ فِي ذَلِكَ الوَقْتِ وُجِدَ عِلْمُ الكَلاَمِ؟!!
وَقَالَ الشَّافِعِيُّ: النَّاسُ فِي الفِقْهِ عِيَالٌ عَلَى أَبِي حَنِيْفَةَ.
قُلْتُ: الإِمَامَةُ فِي الفِقْهِ وَدَقَائِقِه مُسَلَّمَةٌ إِلَى هَذَا الإِمَامِ، وَهَذَا أَمرٌ لاَ شَكَّ فِيْهِ.
وَلَيْسَ يَصِحُّ فِي الأَذْهَانِ شَيْءٌ * إِذَا احْتَاجَ النَّهَارُ إِلَى دَلِيْلِ
وَسِيْرَتُه تَحْتَمِلُ أَنْ تُفرَدَ فِي مُجَلَّدَيْنِ - رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، وَرَحِمَهُ -.
یہ تمام باتیں بھی موضوع سے غیر متعلق ہیں ، نیز اس کتاب میں بھی امام حنیفہ رحمہ اللہ کے جوٹھے فضائل بیان کئے جانے والی روایت موجود ہے اسی طرح وہ دیگر روایات بھی جنہیں گذشتہ مراسلہ میں تاریخ الاسلام سے نقل کیا گیا۔

قَالَ مُحَمَّدُ بنُ سَعْدٍ العَوْفِيُّ: سَمِعْتُ يَحْيَى بنَ مَعِيْنٍ يَقُوْلُ:
كَانَ أَبُو حَنِيْفَةَ ثِقَةً، لاَ يُحَدِّثُ بِالحَدِيْثِ إِلاَّ بِمَا يَحْفَظُه، وَلاَ يُحَدِّثُ بِمَا لاَ يَحْفَظُ.
وَقَالَ صَالِحُ بنُ مُحَمَّدٍ: سَمِعْتُ يَحْيَى بنَ مَعِيْنٍ يَقُوْلُ: كَانَ أَبُو حَنِيْفَةَ ثِقَةً فِي الحَدِيْثِ.
وَرَوَى: أَحْمَدُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ القَاسِمِ بن مُحْرِزٍ، عَنِ ابْنِ مَعِيْنٍ: كَانَ أَبُو حَنِيْفَةَ لاَ بَأْسَ بِهِ.
وَقَالَ مَرَّةً: هُوَ عِنْدَنَا مِنْ أَهْلِ الصِّدْقِ، وَلَمْ يُتَّهَمْ بِالكَذِبِ، وَلَقَدْ ضَرَبَه ابْنُ هُبَيْرَةَ عَلَى القَضَاءِ، فَأَبَى أَنْ يَكُوْنَ قَاضِياً.اس کتاب میں بھی امام ابوحنیفہ کے ذکر میں جرح کاایک بھی لفظ مذکور نہیں ہے۔

امام ابن معین کی توثیق کا مفہوم

اب آئیے ہم امام ابوحنیفہ سے متعلق امام ابن معین کی توثیق کی حقیقت واضح کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ امام ابن معین رحمہ اللہ سے توثیق ابی حنیفہ صحیح سند سے ثابت ہی نہیں ہے ، جیسا کہ اس سلسلے کی تمام سندوں کی حقیقت بیان کی جاچکی ہے اس کے برعکس صحیح سندوں سے یہ ثابت ہے کہ امام ابن معین رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ کو صراحۃ ضعیف قرار دیا ہے اور اس کی تفصیل بھی پیش کی جاچکی ہے۔

اور جن روایت میں ابن معین سے توثیق ابی حنیفہ منقول ہے اول تو وہ ثابت نہیں ثانیا بفرض ثبوت اس سے مراد دیانت اور سچائی والی توثیق ہے نہ کہ حفظ وٍضبط والی، اس کی دو دلیلیں ہیں
پہلی دلیل:
خود امام ابن معین رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ کو صراحۃ ضعیف قراردیا ہے اس لئے ان کے توثیق والے قول میں لازمی طور پر غیراصطلاحی توثیق یعنی دیانت و سچائی مراد ہے۔
دوسری دلیل:
توثیق کے جو صیغے منقول ہیں ان کو اکٹھا کیا جائے تو اس سے بھی اسی طرف اشارہ ملتا ہے ، چنانچہ توثیق کے صیغے درج ذیل ہیں :


  1. قال له رجل أبو حنيفة كذاب قال كان أبو حنيفة أنبل من أن يكذب كان صدوقا إلا أن في حديثه ما في حديث الشيوخ(عباس دوری واسنادہ ضعیف)
  2. ثقة ثقة كان والله أورع من أن يكذب وهو أجل قدرا من ذلك(ابن صلت وہوکذاب)
  3. أبو حنيفة عندنا من أهل الصدق ولم يتهم بالكذب (ابن محرز وہو مجہول)
  4. كان أبو حنيفة لا بأس به وكان لا يكذب(ابن محرز وہو مجہول)
  5. كان أبو حنيفة ثقة صدوقا في الحديث والفقه مأمونا على دين الله(ابن صلت وہو کذاب)
  6. كان أبو حنيفة ثقة لا يحدث بالحديث إلا ما يحفظ ولا يحدث بما لا يحفظ (ابن سعد العوفی وہو ضعیف)
  7. كان أبو حنيفة ثقة في الحديث(صالح اسدی ولایعرف اسنادہ)



  • پہلی روایت میں دیکھیں امام ابن معین سے یہ سوال ہوا کہ کیا وہ جھوٹے ہیں جوابا فرمایا نہیں وہ جھوٹ سے بری ہیں لیکن ان کی حدیث شیوخ کی احادیث جیسی نہیں ہے ، واضح رہے کہ ’’شیخ‘‘ سب سے کمتردرجہ ہے ، یہ سوال وجواب صاف بتلاتا ہے کہ امام ابن معین سے توثیق کا صدور اس وقت ہوا تھا جب ان سے امام صاحب سے جھوٹ بولنے کے بارے میں سوال ہوا تھا اس کا وضح مطلب یہی ہے کی ان کی توثیق سے دیانت اورسچائی والی توثیق ہے جیساکہ اسی جواب میں انہوں نے وضاحت کردی کہ ان کی بیان کردہ احادیث عام شیوخ کی احادیث جیسی نہیں ہیں ۔
  • دوسری ، تیسری ، اورچوتھی روایت دیکھیں ان سب میں توثیق کے ساتھ کذب کی نفی ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان کی توثیق سے مراد کذب کی نفی اورصدق کا اثبات ہے بس ۔
  • پانچویں روایت میں میں بھی ان کی توثیق صدق اور مامون علی دین اللہ کے ساتھ مقترن ہے یعنی اس میں بھی ان کی توثیق سے مراد دیانت داری کا بیان ہے ۔
  • چھٹی روایت دیکھیں اس میں تو صاف اقرار ہے کہ وہ کچھ احادیث رکھتے تھے اورکچھ احادیث یاد نہیں رکھ سکتے تھے ۔
    پھر یہ بیان ہے کہ وہ صرف یاد کردہ احادیث ہی بیان کرتے تھے لیکن امام ابن معین کا یہ بیان لیکن ابن معین کا یہ بیان صرف چنداحادیث کو پرکھنے کی بناپر پر تھا کیونکہ دوسری روایات میں ابن کا صاف اعلان موجود ہےکہ ان کی احادیث ضعف حفظ کی زد میں آئی ہیں جیساکہ پہلی ہی روایت میں ہے کہ ان کی احادیث عام شیوخ کی احادیث جیسی نہیں ہیں ، نیز دوسری طرف تضعیف والی روایات بھی اس پرشاہد ہیں ۔
  • ساتویں روایت میں مطلق توثیق کا ذکر ہے جس کی تفصیل دیگرروایات میں مل جاتی ہے، یعنی موصوف حدیث بیان کرنے میں سچے تھے۔

یہ نتیجہ صرف توثیق والی روایات ضعیفہ کو یکجا کرنے سے نکلتا ہے اب اگر تضعیف والی روایات صحیحہ کو سامنے رکھ لیا جائے تو اس بات میں ذرہ برابر بھی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی توثیق والی روایت سے محض دیانت داری اور صدق کابیان مقصود ہے۔


واضح رہے توثیق سے کبھی کبھی دیانت داری اورسچائی کی طرف اشارہ کرنا یہ صرف ابن معین ہی کا عمل نہیں ہے بلکہ دیگر محدثین بھی کبھی کبھی توثیق سے یہی مراد لیتے تھے،
مثلا یہی امام ذہبی رحمہ اللہ ’’أبو جعفر محمد بن سابق‘‘ کے بارے میں ایک قول نقل کرتے ہیں:
هو ثقة، وليس ممن يوصف بالضبط.[ميزان الاعتدال موافق رقم 3/ 555]

صاحب مغانى الأخيار ایک قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛
ثقة ضعيف، وهو من أهل الصدق سيئ الحفظ[مغانى الأخيار 5/ 326، ]۔

امام مزی رحمہ اللہ ’’ربیع بن صبیح سعدی ‘‘ کے بارے میں ایک قول نقل کرتے ہیں:
رجل صالح صدوق ثقة ، ضعيف جدا [تهذيب الكمال مع حواشيه ليوسف المزي 9/ 93]

دکتور بشار اس قول پر حاشیہ لگاتے ہوئے فرماتے ہیں :
يعني : صالح صدوق ثقة في دينه وسلوكه وأخلاقه ضعيف في الحديث لعدم معرفته به ، وهذا هو الصواب.[تهذيب الكمال مع حواشيه ليوسف المزي 9/ 93 حاشیہ ٧]۔


معلوم ہوا کہ محدثین کبھی محض دیانت دار اور سچا بتلانے کے لئے کسی کو ثقہ کہ دیتے ہیں ۔

امام ذہبی رحمہ اللہ کی وضاحت

خود امام ذہبی رحمہ اللہ نے ایک مقام پر یہی وضاحت کی ہے :
امام حاکم رحمہ اللہ نے ایک راوی ’’ خارجة بن مصعب الخراسانی‘‘ کی توثیق کی تو امام ذہبی رحمہ اللہ نے یہ وضاحت کیا کہ اس توثیق سے مراد یہ ہے کہ اس راوی سے جھوٹ بولنا ثابت نہیں ہے ، امام ذہبی رحمہ اللہ کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
وَقَالَ الحَاكِمُ: هُوَ فِي نَفْسِهِ ثِقَةٌ -يَعْنِي: مَا هُوَ بِمُتَّهَمٍ [سير أعلام النبلاء 7/ 327]۔

معلوم ہوا کہ بعض ناقدین کبھی کبھی دیانت داری اور سچائی کے لئے لحاظ سے کسی کو ثقہ کہہ دیتے ہیں اس سے ناقدین کا مقصد اصطلاحی معنی میں ثقہ کہنا نہیں ہوتا اور امام ابن معین رحمہ اللہ کی توثیق ابی حنیفہ بشرط ثابت اسی معنی میں ہے، اورامام ذہبی رحمہ اللہ ابن معین کی جو توثیق نقل کی ہے اس سے یہی مراد کیونکہ خود امام ذہبی رحمہ اللہ ہی نے اپنی ضعفاء کی کتابوں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف کردی ہے بلکہ دیوان الضعفاء میں ابن معین ہی سے تضعیف نقل کی ہے اور کوئی دفاع نہیں کیا ہے، کمامضی ۔ امام ذہبی رحمہ اللہ کے اس طرزعمل سے بخوبی واضح ہوجاتاہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی کتب میں ابن معین سے جو توثیق نقل کی ہے اس سے امام ذہبی رحمہ اللہ کی نظرمیں کیا مراد ہے۔



جاری ہے۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
’’ذكر من يعتمد قوله في الجرح والتعديل‘‘ اور امام ابوحنیفہ


حافظ ذہبی کی ایک کتاب ہے جس میں انہوں نے علم حدیث کے نقاد اورائمہ جرح کا ذکر کیاہے۔یہ کتاب بہت مختصر ہے اورچند صفحات کی ہے اس کانام ہے۔ ذکر من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل ۔ یہ کتاب شیخ عبدالفتاح ابوغدہ کی تحقیق سے شائع ہوچکی ہے۔اس میں امام ابوحنیفہ کا نام تیسرے نمبر پر ہے
قارئین تیسرے نمبر سے اس دھوکہ میں نہ آئیں جارحین کے مقام ومرتبہ کے لحاظ سے امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام صاحب کوتیسرےنمبر پررکھا ہے ، بلکہ زمانہ کے لحاظ سے ان کا تیسرا نمبر ہے ۔
امام ذہبی رحمہ اللہ کی عبارت ان الفاظ میں شروع ہوتی ہے :
فأول من زكى وجرح عند انقراض عصر الصحابة [ذكر من يعتمد قوله في الجرح والتعديل ص: 172]۔
اس کے بعدآگے امام صاحب کے ذکر سے پہلے ہے :
فلما كان عند انقراض عامة التابعين في حدود الخمسين تكلم طائفة من الجهابذة في التوثيق والتضعيف[ذكر من يعتمد قوله في الجرح والتعديل ص: 175]۔

معلوم ہوا کہ مذکورہ ترتیب زمانہ کے لحاظ ہے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے نہیں اس لئے قارئین دھوکہ میں نہ پڑیں۔

اس میں وہ امام صاحب کو جہابذہ محدثین میں شمار کررہے ہیں ۔حافظ ذہبی کے الفاظ دیکھیں
فلما کان عندانقراض عامۃ التابعین فی حدود الخمسین ومئۃ تکلم طائفۃ من الجھابذۃ فی التوثیق والتضعیف فقال ابوحنیفۃ :مارایت اکذب من جابر الجعفی وضعف الاعمش جماعۃ ووثق الآخرین وانتقد الرجال شعبہ ومالک (صفحہ 5،اربع رسائل فی علوم الحدیث 175)
دیکھیں عبارت کتنی صاف اورواضح ہے حافظ ذہبی امام صاحب جہابذہ محدثین میں شمار کرتے ہیں اورکفایت اللہ صاحب حافظ ذہبی کی جانب سے کہتے ہیں کہ علم حدیث امام صاحب کا فن ہی نہیں ہے۔ اس سے بڑھ کر غلط ترجمانی ہوسکتی ہے؟
غلط ترجمانی تو آپ کررہے ہیں جناب ، پہلے بھی وضاحت کی جاچکی ہے کہ محدثین کی صف میں کھڑے ہوجانے سے کوئی ان کے مقام ومرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا یہاں اس صف میں امام صاحب کا ذکر صرف اس لئے آیا کہ موصوف نے بھی بعض رواۃ پر جرح کی ہے ، بس اتنی سی بات ہے ۔
ورنہ یہی کام کرنے والوں کی فہرست میں ضعیف رواۃ کا تذکرہ بھی ہے ۔
مثلا اسی کتاب میں ناقدین میں ابو الفتح محمد بن الحسين الازدي الموصلي کابھی تذکرہ ہے [ذكر من يعتمد قوله في الجرح والتعديل ص: 209]۔
اورخود حافظ ذہبی رحمہ اللہ انہیں اپنی بہت سی کتابوں میں ضعیف قرار دے چکے ہیں، جیساکہ تفصیل آگے آرہی ہے۔

برسبیل تذکرہ یہ بات بتاتاچلوں کہ حافظ ذہبی کی اسی کتاب سے مستفاد حافظ سخاوی کی بھی ایک کتاب ہے جس کانام ہے۔المتکلمون فی الرجال یہ کتاب بھی کچھ ہی صحفات کی ہے اوراس میں کل 209 ائمہ جرح وتعدیل کا ذکر ہے اس میں امام ابوحنیفہ کا ذکر 12ویں نمبر پر ہے اوروہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں۔
فلما کان عندآخر عصرالتابعین وھو حدود الخمسین ومئۃ ،تکلم فی التوثیق والتجریح طائفۃ من الائمۃ
فقال ابوحنیفہ :مارایت اکذب من جابرالجعفی ،وضعف الاعمش جماعۃ ووثق الآ خرین ونظر فی الرجال شعبہ وکان متثبتا لایکاد یروی الاعن ثقۃ وکذا کان مالک۔(اربع رسائل فی علوم الحدیث ص97)
میرے خیال میں اتنے دلائل تو لوگوں کیلئے کافی ہیں جو حق اورسچ کے جویاہیں اورجنہوں نے نہ ماننے کی قسم کھارکھی ہے توان سے میراتخاطب ہی نہیں ہے۔ فذرھم یخوضوا ویلعبوا
جب یہ کتاب بھی مذکورہ کتاب ہی سے مستفاد ہے تواس کاجواب بھی وہی ہے جو اوپر مذکورہے۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
’’تذہیب التہذیب‘‘ اورامام ابوحنیفہ


ایک تذہیب التہذیب :قارئین سے درخواست ہے کہ ذرادھیان سے پڑھیں اورحافظ ابن حجر کی تہذیب التہذیب اوراس میں فرق کو سمجھیں۔یہ کتاب حافظ مزی کی کتاب تہذیب الکمال فی اسماء الرجال کا اختصار ہے۔
اس کتاب میں امام ابوحنیفہ کاذکر رقم نمبر7194کے تحت ہے۔
اس میں کہیں بھی امام ابوحنیفہ کے ذکر میں جرح کا ایک بھی لفظ نہیں ہے۔بلکہ اس کے مقابل ان کے معاصرین اوربعد والوں سے امام ابوحنیفہ کے فضائل ومناقب منقول ہیں۔
اس میں مکی بن ابراہیم سے منقول ہے۔
کان ابوحنیفہ اعلم اہل زمانہ
۔یہ مکی بن ابراہیم وہی بزرگ ہیں جن کے طریقہ سے بیشتر امام بخاری کی ثلاثیات منقول ہیں۔ اوریہ دھیان رہے کہ اس زمانہ میں محدثین کرام بطور خاص علم کا اطلاق قران وحدیث کے علم پر کیاکرتے تھے۔ اسی میں یہ بھی منقول ہے۔
قال ابوالفضل عباس بن عزیر القطان ،حدثنا حرملہ ،سمعت الشافعی یقول:الناس عیال علی ھولاء ،فمن اراد ان یتبحر فی الفقہ فھو عیال علی ابی حنیفہ،ومن اراد ان یتبحر فی المغازی فھوعیال علی ابن اسحاق ومن اراد ان یتبحر فی التفسیر فھو عیال علی مقاتل بن سلمان ومن اراد ان یتبحر فی الشعر فی ھوعیال علی زہیر بن ابی سلمی ومن اراد ان یتبحر فی النحو فھوعیال علی الکسائی۔
اسی کے ساتھ یہ بھی منقول ہے۔
قال الربیع وغیرہ عن الشافعی قال:الناس فی الفقہ عیال علی ابی حنیفہ ۔
اس میں یہ بھی منقول ہے۔
روی نصر بن علی عن الخریبی قال: کان الناس فی ابی حنیفہ رحمہ اللہ حاسد اوجاہل واحسنھم عندی حالاالجاہل،وقال یحیی بن ایوب :سمعت یزید بن ہارون یقول: ابوحنیفۃ رجل من الناس خطوہ کخطاء الناس ،وصوابہ کصواب الناس۔
یزید بن ہارون کا جملہ لگتاہے ان لوگوں کے جواب میں ہے جوامام ابوحنیفہ کی نہایت مذمت کرتے تھے کہ اوران کی غلطیوں کو مشتہر کرکے اوررائی کو پربت بناتے تھے ان کے جواب میں کہاگیاکہ وہ بھی دوسرے لوگوں کی طرح ہیں ان سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں ۔
یہ ساری باتیں امام صاحب کے فضائل سے تعلق رکھتی ہے جن کا ہمارے موضوع سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے نیز ان کا اکثرحصہ من گھڑت اور جھوٹ ہے اور پہلے بتایا جاچکا ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے فضائل نقل کرنے میں اس بات کا التزام نہیں کیا ہے کہ صرف ثابت اورصحیح روایت نقل کریں گے بلکہ امام ذہبی رحمہ اللہ امام صاحب کے فضائل میں رطب ویابس سب نقل کردیتے ہیں چاہے وہ ثابت ہو یا من گھڑت ، امام ذہبی رحمہ اللہ نے مناقب ابی حنیفہ میں اکاذیب کا اچھاخاصہ حصہ نقل کردیا ہے جن میں سے بعض کی تردید تو خود کتاب کے محقق زاہد کوثری ( مشہور کذاب) نے بھی کررکھی ہے۔


اوراس میں ابن معین سےامام ابوحنیفہ کے حق میں توثیق کے اقوال بھی ہیں جواوپر منقول ہوچکے ہیں۔
اور امام ابن معین سے ان کی توثیق منقول ہے ۔
پہلے وضاحت کی جاچکی ہے کہ امام ابن معین کی توثیق سے مراد دیانت اورسچائی والی توثیق ہے اور اسی مفہوم میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے ابن معین سے ان کی توثیق نقل کی ہے ، امام ذہبی رحمہ اللہ نے اسے اصلاحی معنی میں نہیں لیا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ امام ابن معین کے تضعیف والے جو دیگراقوال ہیں ان سے امام ذہبی نے کسی بھی کتاب میں اختلاف نہیں کیاہے، بلکہ دیوان الضعفاء میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ضعیف بتلاتے ہوئے انہیں امام ابن معین ہی سے تضعیف کا قول نقل کیا ہے۔
اسی طرح مناقب ابی حنیفہ میں بھی امام ابن معین کی توثیق نقل کی ہے مگرساتھ ہی اس سے پہلے ان کی تضعیف کا اعلان بھی کیا ہے۔
یہ ساری باتیں اس بات کی دلیل ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ کی نظرمیں امام ابن معین کی توثیق اس معنی میں ہرگز نہیں ہے جسے باور کیا جارہاہے۔


یہ دیکھئے حافظ ذہبی کی علم جرح وتعدیل ا ورروات پر لکھی گئی یہ مستقل کتاب ہے ۔ اسمیں امام ابوحنیفہ کاذکر 6صفحات میں ہے اورایک بھی حرف امام صاحب کی جرح میں نہیں ہے
اس کتاب میں صرف امام ابوحنیفہ ہی نہیں بلکہ اوربھی بہت سے رواۃ سے متعلق فضائل ذکر کردئے گئے ہیں اور جرح کے اقوال مذکور نہیں ہیں، آپ نے امام ذہبی رحمہ اللہ کی مدح میں کہا تھا:
حافظ ذہبی کا علم جرح وتعدیل میں جومقام ہے وہ معلوم ہے حتی کہ حافظ الدنیا ابن حجر نے زمزم کا پانی پی کر حافظ ذہبی جیسابننے کی تمناکی تھی۔
یہی حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی اس کتاب ’’تذہیب‘‘ میں بعض رواۃ کے فضائل تو بیان کردئے ہیں مگرتصحیح وتضعیف کے لئے جن اقوال کی ضرورت پڑتی ہے انہیں ذکرنہیں کیا ہے ، حافظ ابن حجررحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ثم رأيت للذهبي كتابا سماه "تذهيب التهذيب" أطال فيه العبارة, ولم يعد ما في التهذيب غالبا, وإن زاد ففي بعض الأحايين, وفيات بالظن والتخمين, أو مناقب لبعض المترجمين, مع إهمال كثير من التوثيق والتجريح, اللذيْن عليهما مدار التضعيف والتصحيح [تهذيب التهذيب 2/ 3]۔

آخر میں حافظ الذہبی کہتے ہیں۔
قلت:قد احسن شیخناابوالحجاج حیث لم یورد شیئا یلزم منہ التضعیف
پھر آخر میں حافظ الذہبی نے حافظ مزی کے اس صنیع کی توثیق اورتائید کی ہے کہ امام ابوحنیفہ کے ذکر میں تضعیف والے اقوال نقل نہیں کئے اس سے یہ پوری طرح ثابت ہوجاتاہے کہ امام صاحب کا ضعیف ہوناحافظ ذہبی کے نزدیک متحقق نہیں ہے بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے جیساکہ اس کے کتاب سے ظاہر ہورہاہے۔
یہاں امام ذہبی رحمہ اللہ نے صرف اس بات کی تحسین کی ہے امام مزی نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے سلسلے میں‌ کوئی تضعیف والی بات نقل نہیں کی لیکن اس سے یہ ثابت ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ تضعیف والی باتوں سے متفق بھی نہیں ہیں ، دراصل امام مزی کی مذکورہ کتاب خاص ضعفاء پر نہیں ہے بلکہ رواۃ کے عمومی تعارف پر ہے لہٰذا امام ذہبی رحمہ اللہ کی مصلحت یہ ہے کہ چونکہ امام ابوحنیفہ کے عقیدت مند بہت ہیں اور ان کی تضعیف والی بات سے بدک اٹھتے ہیں اس لئے ان کی تضعیف ہرجگہ ذکر کرنا مصلحۃ مناسب نہیں ہے بلکہ صرف ان کتابوں‌ میں اس کا ذکر ہو جو خاص ضعفاء پر لکھی گئی ، اور عام کتب میں صرف ان کے فضائل کے ذکر پر اکتفا کیاجائے، چنانچہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے خاص ضعفاء پر جتنی بھی کتابیں‌ لکھیں سب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تضعیف ذکر کی ہے مثلا دیوان الضعفاء ، المغنی ، میزان الاعتدال۔
اورمیزان میں‌ یہ کھل کر لکھ دیا کہ اس کتاب میں ائمہ متبوعین کا تذکرہ نہیں‌ ہوگا ، اور اگرکسی کا تذکرہ ہوگا تو پورے انصاف کے ساتھ ہوگا تینوں ائمہ امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تو اس استثناء کے مصداق ہوہی نہیں سکتے کیونکہ ان میں سے کسی کے بارے میں بھی تضعیف کا تصور بھی احمقانہ ہے پھرلے دے کرایک ہی امام بچتے ہیں وہ ہیں امام ابوحنیفہ ، چنانچہ اس کتاب میں ابوحنفیہ کا تذکرہ کرکے اور ان کی تضعیف کرکے یہ بتلادیا کہ انصاف یہی ہے کہ ان کی تضعیف مسلم ہے، میزان ہی کی طرح دیوان الضعفاء میں بھی کئی اہل علم سے صرف امام صاحب کی تضعیف نقل کیا اوردفاع میں ایک حرف بھی نہیں لکھا ۔
حالانکہ اسی دیوان الضعاء میں ’’ابراہم بن مہاجر‘‘ کا ذکر کرکے ان کے بارے میں امام نسائی کا یہ قول نقل کیا ’’لیس بالقوی‘‘ تو ساتھ ہی میں صاف صراحت کردیا کہ ابراہم ثقہ ہیں ، دیکھئے دیوان الضعفاء :ص ٢١ترجمہ ٢٥٦۔
اسی طرح میزان میں بھی بعض ثقات کی تضعیف ذکرکرکے ان کا دفاع کیا ہے مگر اسی میزان میں ابوحنیفہ کا دوجگہ ذکر کیا اورکہیں بھی دفاع نہ کیا ۔
اس سے امام ذہبی رحمہ اللہ کا موقف صاف ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بلاشک وشبہ ضعیف ہیں مگر امام ذہبی مصلحۃ ہرجگہ ان کی تضعیف ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتے ۔



جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
الکاشف اور امام ابوحنیفہ۔

اس میں تذہیب التہذیب میں مذکور روات پر مختصرااحکام جرح وتعدیل ذکر کئے گئے ہیں اورایسالگتاہے کہ حافظ ابن حجر کی التقریب اسی سے ماخوذ بلکہ مستفاد ہے۔واللہ اعلم
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بے شک امام ذہبی کی کتابوں سے بہت استفادہ کیا ہے مگریہ کہنا کہ تقریب حافظ ذھبی کی کتاب کاشف سے مستفاد ہے بہت ہی عجیب غریب بات ہے ، دلچسپ کہ کاشف اور تقریب یہ دونوں کتابیں ایک غالی حنفی محمد عوامہ کی تحقیق سے بھی طبع ہوئی ہیں اورمیں نے بہت پہلے ان دونوں کتابوں میں عوامہ صاحب کے مقدمہ کا مطالعہ کیا تھا مگر مجھے نہیں یاد پڑتا کہ غالی اورمتعصب حنفی عوامہ نے بھی کہیں یہ بات کہی ہو۔
جمشیدصاحب سے گذارش ہے کہ ایک بار تقریب اورکاشف دونوں کا مقدمہ پڑھ لین ،پھر کوئی فیصلہ کریں۔

اس میں بھی امام ابوحنیفہ کا ذکر ہے لیکن جرح کا کوئی بھی لفظ ذکر نہیں ہے۔اس میں وہ امام ابوحنیفہ کوالامام کے اعلیٰ لفظ سے ذکر کرتے ہیں ۔
انا للہ وانا الیہ راجعون !!!
یہ ’’امام‘‘ توثیق کا صیغہ کب سے ہوگیا۔
اگر لفظ’’امام‘‘ توثیق کا صیغہ ہے تو پھر جمشید صاحب کو طوالت کی ضرورت ہی نہ تھی ، ان کے لئے توبس اتنا ہی کافی تھا کہ میری ہی تحریرسے ایسےتمام جملے نقل کردیتے جس میں ، میں نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ساتھ ’’امام‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے ، اورکہتے کہ جب آپ انہیں ’’امام‘‘ مان رہے ہیں تو ان کے ثقہ ہونے کا انکار کیا معنی رکھتاہے،
قارئین انصاف کریں لفظ ’’امام‘‘ سے توثیق ثابت کرنا ، اس سے بھی فضول بات کوئی ہوسکتی ہے۔

ویسے حقیقت یہ ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے ’’الکاشف‘‘ میں ابوحنیفہ کا جوامام کہاہے تو وہ ان کا درجہ بتانے کے لئے نہیں کہا ہے پہلے امام ذہبی رحمہ اللہ کی اصل عبارت دیکھ لیں:
النعمان بن ثابت بن زوطا الامام أبو حنيفة فقيه العراق مولى بني تيم الله بن ثعلبة رأى أنسا وسمع عطاء ونافعا وعكرمة وعنه أبو يوسف ومحمد وأبو نعيم والمقرئ أفردت سيرته في مؤلف عاش سبعين عاما مات في رجب ١٥ ت س[الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة 2/ 322]۔
قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ اس عبارت میں امام ابوحنیفہ کے ساتھ امام کا لفظ کس سیاق میں ہے ؟؟؟
بالکل ظاہرہے کہ ان کے نام سے پہلے امام لکھا گیاہے، تو بالکل اسی طرح جیسے ہم سب ان کے نام کے ساتھ ’’امام‘‘ لکھا اور بولا کرتے ہیں، یہاں اس سیاق میں اس لفظ کے ذریعہ روایت حدیث میں ان کا مرتبہ بتلانا بالکل مقصود نہیں ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ امام ذہبی کی یہ کتاب ’’الکاشف‘‘ ایک حنفی محمد عوامہ ہی کی تحقیق سے طبع ہوئی ہے ، اور محمدعوامہ صاحب نے اس کتاب کے مقدمہ میں ان تمام الفاظ کی تشریح پیش کی ہے جسے امام ذہبی رحمہ اللہ نے جرح وتعدیل کے لئے استعمال کئے ہیں ان کی کل تعداد محمدعوامہ صاحب کی تحقیق کے مطابق 32 ہے، لیکن اس فہرست میں مجھے کہیں بھی لفظ’’امام‘‘ نظر نہ آیا!!!!


یہ کتاب جرح وتعدیل پر مختصرالکھی گئی کتاب ہے اگر امام ابوحنیفہ ضعیف ہیں جیساکہ کفایت اللہ صاحب کہتے ہیں اوراپنی بات کی تائید میں آدھے ادھورے حوالہ جات نقل کرتے ہیں توپھریہاں حافظ ذہبی کوکیاچیز مانع تھے کہ وہ امام ابوحنیفہ کی تضعیف کاذکرکرتے بلکہ وہ الامام جیسابڑالقب امام ابوحنیفہ کو دے رہے ہیں۔
صرف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی کامسئلہ نہیں ہے بلکہ رواۃ کی ایک کثیر تعداد کے سلسلے میں بھی امام ذہبی رحمہ اللہ نے جرح کا کوئی صیغہ استعمال نہیں کیا ہے۔
سبط ابن العجمی فرماتے ہیں:
وكتاب " الكاشف " مختصره -(یعنی مختصر " تذهيب التهذيب ") - وكثيرا ما لا يذكر فيه تعديلا ولا تجريحا، ولا وفاة عض الشيوخ رمزا ولا تصريحا[نهاية السول في رواة الستة الأصول: ١/ ٦٨]۔

رہی ’’امام‘‘ جیسے بڑے لقب کی تو یہ لقب ہزاربڑا سہی لیکن توثیق کے باب میں چنداں مفید نہیں، کمامضی۔

خلاصہ کلام یہ کہ ’’الکاشف‘‘ میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ کی جرح یا تعدیل سے متعلق کچھ بھی رقم نہیں فرمایاہے۔




جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
پھردیوان الضعفاء


اب اخر میں ہم پھر لوٹتے ہیں دیوان الضعفاء والمتروکین کی جانب اوردیکھتے اوراس کی کچھ حقیقت جانناچاہتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ حافظ ذہبی اپنی ہرتالیف میں امام ابوحنیفہ کی توثیق میں امام جرح وتعدیل یحیی بن معین کا کلام نقل کرتے ہیں جس کی مثالیں گزر چکی ہیں لیکن اچانک دیوان الضعفاء والمتروکین میں دیکھتے ہیں کہ وہ ابن معین سے نقل کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ سے حدیث نہ لکھی جائے۔
جی ہاں !
اس کتاب حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے امام معین سے تضعیف نقل کرکے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ ہم نے اپنی کتب میں ابن معین سے توثیق کے جو کلمات نقل کئے ہیں ، ان سے اصطلاحی توثیق مراد نہیں بلکہ دیانت اورسچائی مراد ہے بس !اس لئے امام ذہبی کے کلام میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔

اوریہیں درحقیقت الحاق کرنے والے چوک ہوگئی ہے اس نے حافظ ذہبی کے صنیع پر نگاہ نہیں کیا۔
اس عبارت کے ناقل اورناسخ ایک حنفی ہی ہیں آپ کیوں خواہ مخواہ اپنوں ہی کومطعون کررہے ہیں۔


حافظ ذہبی کے نزدیک امام ابن معین غالی حنفیوں میں سے ہے ۔ دیکھئے وہ کیاکہتے ہیں۔
الرواة الثقات المتكلم فيهم بما لا يوجب" (1|30): «ابن معين كان من الحنفيّةِ الغُلاة في مذهبه، وإن كان مُحَدِّثاً».
ابن معین غالی حنفی ہیں باوجود اس کے کہ وہ محدث ہیں۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ و سیراعلام النبلاء میں ابن معین کاشمار حنفیوں میں کرتے ہیں چنانچہ اسی میں مذکور ہے کہ جب ابن معین سے پوچھاگیاکہ آدمی امام ابوحنیفہ کے اجتہاد پر عمل کرے یاامام شافعی کے اجتہاد پر تویحیی بن معین نے کہا
مَا أَرَى لأَحَدٍ أَنْ يَنْظُرَ فِي رَأْيِ الشَّافِعِيِّ، يَنْظُرُ فِي رَأْيِ أَبِي حَنِيْفَةَ أَحَبُّ إِلَيَّ.
میں کسی کیلئے یہ درست نہیں سمجھتاکہ وہ امام شافعی کے اجتہاد پر عمل کرے میرے نزدیک امام ابوحنیفہ کی رائے پر عمل کرنا بہتر اورمحبوب ہے۔
اس پر حافظ ذہبی کہتے ہیں۔
قُلْتُ: قَدْ كَانَ أَبُو زَكَرِيَّا -رَحِمَهُ اللهُ- حَنَفِيّاً فِي الفُرُوْعِ، فَلِهَذَا قَالَ هَذَا، وَفِيْهِ انحِرَافٌ يَسِيْرٌ عَنِ الشَّافِعِيِّ.
میں(ذہبی )کہتاہوں ابوزکریا(یحیی بن معین)فروعات مین حنفی ہیں اوراسی وجہ سے انہوں نے ایساکہااوران کے اندر امام شافعی سے تھوڑاانحراف بھی ہے۔
اگرواقعی ابن معین حنفی ہے تو امام ابوحنیفہ پر ان کی جرح بہت ہی منصفانہ ہے، والحمدللہ۔

اس سے ایک بات تومتحقق ہے کہ حافظ ذہبی کے نزدیک ابن معین سے امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی توثیق ہی ثابت ہے تضعیف ثابت نہیں ہے،یہی وجہ ہے کہ ہرجگہ حافظ ذہبی ابن معین سے امام ابوحنیفہ کی توثیق نقل کرتےہیں ۔اس میں استثناء صرف ایک مقام کاہے اور وہ ہے دیوان الضعفاء والمتروکین
امام ذہبی رحمہ اللہ نے کسی ایک بھی مقام پر یہ نہیں لکھا کہ امام ابوحنفیہ کے سلسلے میں ابن معین کی جرح ثاب نہیں ہے، اگریہ جرح ثابت نہ ہوتی امام ذہبی رحمہ اللہ کھل اس کی تردید کردیتے لیکن انہوں نے نہیں کیا بلکہ دیوان الضعفاء میں اسی جرح کو نقل بھی کیا اس سے صاف ظاہر ہے کہ امام ذہبی کی نظر میں ابن معین کی جرح ثابت ہے اور توثیق غیر اصطلاحی معنی میں ہے۔

مجھے لگتاہے کہ یہیں پر الحاق کرنے والے سے چوک ہوگئی کہ اس نے ابن معین سے امام ابوحنیفہ کے حق میں جرح نقل کردیاجوکہ حافظ ذہبی کی دیگر کتابوں کے برعکس ہے۔
پھر آپ نے اپنے ہی ایک حنفی عالم پھر یہ گھناؤنا الزام لگا دیا ، وضاحت کی جاچکی ہے اس جرح کا نقل حافظ ذہبی کی دیگر کتابوں کے برعکس نہیں ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
بے چارے شاکر ذیب صاحب

دیوان الضعفاء والمتروکین میں امام ابوحنیفہ کے ترجمہ کے الحاق کی ایک شہادت یاتائید یہ بھی ہے کہ
شاکر ذیب فیاض الخوالدۃ نے الرواۃ الذین ترجم لھم الذہبی فی تذکرۃ الحفاظ وحکم علیھم بالضعف فی کتبہ الضعفاء واسباب ذلک میں ان تمام رواۃ کاجائزہ لیاہے جس کوانہوں نے تذکرۃ الحفاظ میں ذکر کیاہے اورپھرانہی حفاظ کا ذکر حافظ ذہبی نے ضعفاء کی کتابوں مثلا میزان الاعتدال ،دیوان الضعفاء والمتروکین، المغنی فی الضعفاء اورذیول میں کیاہے ، اس کتاب میں بھی امام ابوحنیفہ کاذکر نہیں ہے۔ اگرامام ابوحنیفہ کاذکر دیوان الضعفاء میں ثابت ہوتا شاکر ذیب فیاض الخوالدہ اس کاذکر اس کتاب میں ضرور کرتے لیکن انہوں نے نہیں کیاہے۔
قارئین جمشید صاحب کا یہ استدلال پڑھئے اورسردھنیے !!!
ایک مخظوطہ میں الحاق کا دعوی اور تائید ایک ایسے شخص سے جس نے دیوان کے مخطوطہ نسخے سے نہیں بلکہ مطبوعہ نسخے سے استفادہ کیا ہے ، بہت ہی عجیب وغریب بات ہے !!
واضح رہے کہ شیخ شاکرذیب نے محولہ رسالہ کے اندر ہی صراحت کردی ہے کہ انہوں نے دیوان الضعفاء کے مطبوعہ نسخے سے استفادہ کیا ہے ، ملاحظہ ہو:[الرواة الذين ترجم لهم الذهبي في تذكرة الحفاظ وحكم عليهم بالضعف في كتبه في الضعفاء وأسباب ذلك،ص: ٨]۔

نیز شیخ شاکر ذیب نے محولہ رسالے کے اخیر میں مراجع کی جو فہرست دی ہے اس میں دیوان کے اس نسخہ کا حوالہ دیا ہے جو ’’حماد بن محمد الانصاری کی تحقیق سے طبع ہوا ہے ، ملاحظہ ہو:[الرواة الذين ترجم لهم الذهبي في تذكرة الحفاظ وحكم عليهم بالضعف في كتبه في الضعفاء وأسباب ذلك،ص: ٤٧]۔

اورہم نے ابوحنیفہ کی جو تضعیف نقل کی ہے وہ اسی نسخے سے نقل کی ہے ،


شیخ شاکرذیب سے چوک کی ایک مثال

اگرشیخ شاکر ذیب نے ابوحنیفہ کا تذکرہ نہیں کیا تو یہ موصوف کی کوتاہی اورغلطی ہے ، کتنی عجیب بات ہے کہ ایک صحیح بات کو غلط ثابت کرنے کے لئے ایک غلط بات کودلیل بنایا جارہا ہے۔
شیخ ذیب نے اپنی کتاب میں تذکرۃ الحفاظ میں موجود ایک ایسے ضعیف راوی کا بھی تذکرہ نہیں کیا ہے جسے حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی ایک نہیں بہت ساری کتب میں ضعیف قرار دیا ہے یہ راوی ہیں ’’أبو الفتح محمد بن الحسين الأزدي ‘‘ ہے ۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ تذکرۃ الحفاظ میں ان کا ذکرتے ہیں:
الأزدي الحافظ العلامة أبو الفتح محمد بن الحسين بن أحمد بن عبد الله بن بريدة الموصلي نزيل بغداد[تذكرة الحفاظ : 3/ 117]۔


اسی راوی کو امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی متعدد کتب میں ضعیف قرار دیا بلکہ بعض کتابوں میں تو اسی راوی کو دو دو مقامات پرضعیف قرار دیا ہے، چند حوالے ملاحظہ ہوں:

امام ذہبی رحمہ اللہ ’’میزان‘‘ میں فرماتے ہیں :
وأبو الفتح يسرف في الجرح، وله مصنف كبير إلى الغاية في المجروحين، جمع فأوعى، وجرح خلقا بنفسه لم يسبقه أحد إلى التكلم فيهم، وهو المتكلم فيه[ميزان الاعتدال موافق رقم 1/ 5]۔

امام ذہبی رحمہ اللہ ’’دیوان‘‘ میں فرماتے ہیں :
محمد بن الحسين بن أحمد أبو الفتح الأزدي الموصلي الحافظ، کان صاحب مناکیر وغرائب ،ضعفه البرقانی [دیوان الضعفاء ، ص ٣٤٧]۔

امام ذہبی رحمہ اللہ ’’عبر‘‘ میں فرماتے ہیں :
وأبو الفتح الأزدي الحافظ محمد بن الحسين بن أحمد الموصلي نزيل بغداد صنف في علوم الحديث وفي الضعفاء وحدث عن أبي يعلى ومحمد بن جرير الطبري وطبقتهما ضعفه البرقانی[العبر في خبر من غبر 2/ 374]۔

امام ذہبی رحمہ اللہ ’’معین‘‘ میں فرماتے ہیں :
والحافظ أبو الفتح محمد بن الحسين الأزدي المصري لین [المعين فى طبقات المحدثين ص: 30]۔

امام ذہبی رحمہ اللہ ’’سیر‘‘ میں فرماتے ہیں :
لَيْتَ الأَزْدِيّ عَرَفَ ضَعْفَ نَفْسِه.[سير أعلام النبلاء 13/ 389]۔

امام ذہبی رحمہ اللہ ’’تاریخ اسلام‘‘ میں فرماتے ہیں :
وليت الأزدي عرف ضعف نفسه [تاريخ الإسلام للذهبي 21/ 147]۔

امام ذہبی رحمہ اللہ ’’تاریخ اسلام‘‘ ہی میں دوسرے مقام پرفرماتے ہیں :
أبو الفتح متكلّم فيه[تاريخ الإسلام للذهبي 20/ 100]۔

قارئین غور فرمائیں تذکرۃ الحفاظ کے ایک راوی کو خود امام ذہبی رحمہ اللہ نے اتنی ساری کتابوں میں ضعیف قرار دیا ہے ، لیکن آپ شاکر ذیب صاحب کا مذکورہ رسالہ پڑھ جائیے انہوں نے اس راوی کا ذکر ہی نہیں کیا ہے !!!
اب آپ خود فیصلہ کریں کہ جب اتنے معروف ومشہورضعیف راوی جس کا ضعف امام ذہبی کی بہت سی کتابوں میں مذکورہے ، جب اس کا تذکرہ شیخ شاکر ذیب سے چھوٹ گیا تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا تذکرہ موصوف نے نہیں کیا تو اس میں کون سی بڑی بات ہے ؟؟؟

موصوف نے اپنے رسالہ میں ابوحنیفہ کا تذکرہ نہیں کیا جسے بنیاد بناکر کر جمشیدصاحب نے دیوان کی عبارت کو الحاقی کہہ دیا ، اب میں نے بطور مثال جس راوی کا نام پیش کیا ہے اس کی تضعیف بھی دیوان میں موجود ہے لیکن شاکر ذیب نے اپنے رسالہ میں اس کا تذکرہ نہیں کیا ہے ، کیا خیال ہے ، کیا دیوان میں اس راوی کا ترجمہ بھی الحاقی ہے ؟؟؟؟؟
اسی طرح امام ذھبی کی دیگرکتابوں سے اس راوی کی تضعیف میں امام ذہبی کو جو عبارات نقل کی گئی ہیں کیا وہ سب الحاقی ہیں؟؟؟؟

کسی مخطوطہ میں الحاق پر اس طرح کی باتوں سے استدلال انتہائی بچکانہ ہونے کے ساتھ ساتھ ، حددرجہ شرمناک بھی ہے !!!

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
’’الرواة الثقات المتكلم فيهم بما لا يوجب ردھم‘‘ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ


جہاں تک بات الرواة الثقات المتكلم فيهم بما لا يوجب ردھم کی ہے تو جیساکہ ثابت ہوچکاہے کہ میزان الاعتدال ،المغنی فی الضعفاء اوراس ذیل وغیرہ میں امام ابوحنیفہ کاتذکر ہ نہیں ہے۔ دیوان الضعفاء میں امام ابوحنیفہ کاتذکرہ مشکوک ہے اوراس کے دلائل نقل ہوچکے ہیں۔
امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ضعفاء میں شمار کیا اس کے دلائل بھی نقل ہوچکے ہیں۔

لہذا جب حافظ ذہبی نے امام ابوحنیفہ کو ضعفاء میں کہیں شمار ہی نہیں کیا تواس کتاب میں ان کے ذکر کرنے کی کوئی تک بنتی ہی نہیں ہے ۔ والسلام
بڑی عجیب بات ہے !!!
اگرجدلا مان لیں کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کا شمار ضعفاء میں نہیں کیا ہے ، تو دوسرے ناقدین نے تو ایسا کیا ہے ، اور امام ذہبی کا اس پر مطلع ہونا روز روشن کی طرح عیاں ہے ، چنانچہ انہوں نے خود اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے ’’ تذھیب ‘‘ میں لکھا ہے جیساکہ آپ نے خود نقل کیا تھا:
قد احسن شیخناابوالحجاج حیث لم یورد شیئا یلزم منہ التضعیف
اس طرح مناقب ابی حنیفہ میں بھی امام صاحب پر یحیی بن سعید کی جرح نقل کی ہے، کما مضی ۔

معلوم ہوا کہ اگر بالفرض امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام صاحب کو ضعفاء میں شمار نہیں کیا ہے تب تو ایسی صورت میں ان کا لازمی طور پر اس کتاب میں ذکر کیا جانا ضروری تھا ، کیونکہ اس کتاب کا موضوع ہی یہی ہے کہ ان میں ایسے رواۃ کا ذکر ہو جو حافظ ذہبی کی نظر میں ضعیف نہیں بلکہ ثقہ ہیں ، لیکن ان پر جرح ہوئی ہے ، اور امام ابوحنیفہ پر جرح ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار اب تک غالی سے غالی حنفی نے بھی نہیں کیا ہے ، حتی کہ مجنون ابی حنیفہ زاہد کوثری تک نے بھی تسلیم کیا ہے کہ بعض محدثین نے ابوحنیفہ پرجرح کی ہے۔

خود جمشیدصاحب بھی لکھتے ہیں:
اس سے صاف واضح ہے کہ حافظ ذہبی نے قلۃ اتقان فی الحدیث اورعدم توجہ کی بات کہی ہے وہ دراصل امام صاحب کے جارحین کے لئے بطور عذر کہی ہے
لہذا جب ابوحنیفہ پر جرح مسلم ہے اور امام ذہبی کے نزدیک یہ ثقہ ہیں تو پھر امام ذہبی کو ان کا تذکرہ اس کتاب میں ضرور کرنا چاہئے تھا لیکن امام ذہبی رحمہ اللہ نے ایسا نہیں کیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ امام ابوحنیفہ پر جرح مردود نہیں ہے ، بلکہ ان کا مجروح ہونا مسلم ہے ، اور ان پر کی گئی جروح ایسی نہیں کہ انہیں نظر انداز کرکے امام صاحب کو ثقات میں شمار کیاجائے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
نوٹ: شروع میں ارادہ تھاکہ ایک مختصرانوٹ لکھ کر کفایت اللہ صاحب کے استدلال کی غلطیاں واضح کردوں لیکن جب لکھنے بیٹھاتو پھر لذیذ بود حکایت دراز ترگفتم والامعاملہ پیش آگیا۔
باذوق صاحب سے درخواست ہے کہ وہ اس کو مستقل تھریڈ بنائیں۔ یہاں پر بات ختم ہوگئی۔ اب کفایت اللہ صاحب جوجواب دیناچاہیں شوق سے دیں۔
ویسے ہم ایک دوسرتے تھریڈ میں جوابن تیمیہ کے تعلق سے جواب کے منتظر ہیں۔ والسلام
الحمدللہ ہماری بات بھی یہاں پر ختم ہوگئی ہے، اورگذشتہ بعض مراسلات میں بھی ہم نے کچھ ترمیم کرکے بعض غلطیوں کی اصلاح کرلی ہے ،جمشیدصاحب اورتمام اراکین کا بے حد شکریہ کہ بھائیوں نے سکون سے لکھنے دیا جزاہم اللہ خیرا، اب جمشیدصاحب اپنی بات رکھ سکتے ہیں۔
جہاں تک ابن تیمہ والے ٹھریڈ کی بات ہے تو وہ ایساموضوع نہیں ہے کہ اسے ترجیح دی جائے اورہمارے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہے کہ بیک وقت ہرتھریڈ پرنظررکھی جائے بہرحال فرصت ملنے پراسے بھی دیکھ لیں گے۔
والسلام۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
جزاکم اللہ خیرا کفایت اللہ بھائی! آپ کی تحقیقی تحریر سے معلومات میں بہت اضافہ ہوا، اور کافی اصلاح بھی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ آپ کے علم وعمل میں اضافہ فرمائیں اور ہمارے بھی!
اللهم انفعنا بما علمتنا وعلمنا ما ينفعنا وزدنا علما
آمین یا رب العٰلمین
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top