• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابو حنیفہ

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
میراتوخیال ہے کہ جوشخص فقہاء پر کلام کرے تواسے کم ازکم عربی کی شد بد ہونی ہی چاہئے۔اگراتنابھی نہیں ہے اوراس کے باوجود فقہاء پر کلام کی جسارت کی جائے توپھراس کو کس چیز سے تعبیر کیاجائے میرے پاس اس کیلئے الفاظ نہیں ہیں۔

بہرحال اس عبارت کاوہ مطلب نہیں جوآپ نے سمجھاہے۔
دیکھئے بیان چل رہاہے اجارہ کا۔
اب ایک فاحشہ خاتون ہے۔وہ کسی مکان کواجارہ یعنی کرایہ پر لیتی ہے وہ پیشہ کرتی ہے اوراسی پیشہ کے روپئے کوکرایہ کی مد میں دیتی ہے توصاحب مکان کیلئے یہ پیسے لیناجائز ہوگایانہیں۔یہ اصل اختلاف ہے۔
امام ابوحنیفہ کاکہناہے کہ اگرچہ کسب حرام ہے لیکن صاحب مکان کیلئے کرایہ لیناجائز ہوگاکیونکہ اگرصورت حال ایسی ہوتی کہ کوئی شخص مکان کرایہ پر لیتا لیکن کرایہ طے نہ ہوتاتواس کوقیمت مثل دیاجاتااگرچہ کرایہ طے نہ ہونے کی وجہ سے یہ اجارہ فاسد ہوتا۔وہی صورت حال یہاں بھی ہے کہ ایک خاتون فاحشہ مکان کرایہ پر لیتی ہے اس کاکسب حراب ہے جس کی وجہ سے اجارہ فاسدہوگالیکن اس فاحشہ کے روپے کرایہ کے مد میں لینامالک مکان کیلئے درست ہوگا۔
اس کی دلیل یہ ہوسکتی ہے کہ مشہور حدیث ہے کہ
حضرت بریرہ رضی اللہ عنہاکے پاس صدقہ کاکچھ کھانے پینے کاسامان آیا۔حضورپاک بھی ان کے یہاں گئے تودیکھااورفرمائش کی کہ ان کوبھی کھلایاجائے ۔انہوں نے عرض کیاکہ یہ توصدقہ کاہے۔
اس پر حضور نے فرمایاکہ وہ تمہارے لئے صدقہ ہوگاہمارے لئے توہدیہ ہوگا۔
اس سے فقہاء نے یہ استنباط کیاکہ ملک بدل جانے سے مال کی حیثیت بھی بدل جاتی ہے۔
اب وہ فاحشہ خاتون پیشہ کرتی ہیں تویہ ان کیلئے وبال عظیم ہے لیکن وہ اس روپئے کوچونکہ کرایہ کے مد میں اداکرتی ہیں لہذا مکان جوکرایہ لے رہاہے تو اپنے مکان کاکرایہ لے رہاہے اوریہ اس کیلئے درست ہوگاامام ابوحنفیہ کے نزدیک صاحبین کے نزدیک وہ بھی درست نہیں ہوگا۔
نوٹ:فقہاء بالخصوص فقہاء احناف عمومی قانونی طورپر بات کرتے ہیں کہ جواز کاآخری پہلوکیاہوسکتاہے لیکن تقوی اورایک مسلمان کاشعار کیاہوناچاہئے وہ سبھی کو استفت قلبک یعنی خود اپنے ضمیر سے پوچھ کر عمل کرلیناچاہئے۔والسلام
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
میراتوخیال ہے کہ جوشخص فقہاء پر کلام کرے تواسے کم ازکم عربی کی شد بد ہونی ہی چاہئے۔اگراتنابھی نہیں ہے اوراس کے باوجود فقہاء پر کلام کی جسارت کی جائے توپھراس کو کس چیز سے تعبیر کیاجائے میرے پاس اس کیلئے الفاظ نہیں ہیں۔
مجبوری یہ ہے کہ زندگی کے تمام اثاثوں میں تمام خوبیوں میں تمام حاصل میں سب سے قیمتی سب سے اعلٰی شُے حسُن خیال ہے ۔۔۔ کیونکہ خیال نعمت پروردگارہےزندگی میں حاصل ہونے والا اور زندگی کے بعد بھی رہنے والا سرمایہ۔۔۔ مگررائے سے اتفاق ضروری نہیں۔۔۔ شدُبد سے نابلد ہوسکتا ہےسُدرپُدر کی سمجھ رکھتے ہیں۔۔۔ لہذا ایک بار دوبارہ پڑھ لیں کے بات کیا ہے؟؟؟۔۔۔ اوررائے کیا پیش کی جارہی ہے۔۔۔

ان ما اخذتہ الزانیہ ان کان بعقد الاجارۃ فحلال عند الامام الاعظم لان اجر المثل طیب وان کان السبب حراما
یعنی اگر کوئی زانیہ زنا کے بدلے مقرر کردہ اجرت لے تو وہ (اجرت) امام اعظم (نعمان بن ثابت ابوحنیفہ) کے نزدیک حلال ہے(رائے) اس لئے کہ مثل کی مزدوری لینا پاک ہے اگرچہ سبب حرام ہو۔۔۔(چلپی حاشیہ شرع وقایہ صفحہ ٢٩٤، باب الاجارۃ الفاسدۃ الظفر المبین صفحہ ٢١٤)۔۔۔

وہ حکایت جس میں کوئی اخلاقی یا روحانی حقیقت بیان کی جائے، وہ قصہ جس میں تمثیل یا استعارے کے پیرائے میں کوئی بات بیان کی جائے، اخلاقی حکایت، مثالیہ، مجازیہ، قصہ، کہانی، داستان۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
امام ابوحنیفہ کاکہناہے! لیکن اس فاحشہ کے روپے کرایہ کے مد میں لینامالک مکان کیلئے درست ہوگا۔
حدیث میں ہے زانیہ کی کمائی کو حرام قرار دیا ہے۔۔۔ اور کمائی ظاہر ہے پیسوں یعنی روپے کی صورت میں ہی وصول ہوگی۔۔۔ اب حرام کی کمائی کرائے کی مد میں دینے سے وہ حلال کیسے ہوگی؟؟؟۔۔۔ ایک شخص شراب بناتا ہے۔۔۔ دوسرا شخص وہ شراب اس سے خریدتا ہے کے اس کو گاہوں کو بیچے۔۔۔ تیسرا شخص گاہک وہ اس شراب کو پینے کے لئے اس کی قیمت ادا کرتا ہے۔۔۔ اب شراب حرام ہے لہذا ان تینوں مرحلوں میں اس کی کمائی کس مرحلے پر آکر حلال ہوجائے گی؟؟؟۔۔۔

امام صاحب نے اپنی ایک رائے دی۔۔۔ لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ زانیہ اپنی کمائی سے کیا زکات ادا کرسکتی ہے؟؟؟َ۔۔۔ فطرہ ادا کرسکتی ہے؟؟؟۔۔۔ صدقہ یا خیرات کرسکتی ہے؟؟؟۔۔۔ یا کسی مدرسے یا مسجد کی تعمیر میں وہ پیسے دے کر کار خیر کا حصہ بن سکتی ہے۔۔۔ کیا وہ فاحشہ روپے کی مد میں قاری صاحب سے قرآن وحدیث کی تعلیم حاصل کرسکتی ہے؟؟؟۔۔۔ جیسے اُس نے کرائے پر مکان حاصل کیا۔۔۔

آپ نے مشہور حدیث جو دلیل ہوسکتی ہے!۔۔۔ نہیں بھی ہوسکتی جو پیش کی ہے۔۔۔

حضرت بریرہ رضی اللہ عنہاکے پاس صدقہ کاکچھ کھانے پینے کاسامان آیا۔حضورپاک بھی ان کے یہاں گئے تودیکھااورفرمائش کی کہ ان کوبھی کھلایاجائے ۔انہوں نے عرض کیاکہ یہ توصدقہ کاہے۔ اس پر حضور نے فرمایاکہ وہ تمہارے لئے صدقہ ہوگاہمارے لئے توہدیہ ہوگا۔
سب سے پہلی بات کیا صدقہ حرام ہے؟؟؟۔۔۔ لیکن زنا حرام ہے۔۔۔ صدقہ کا کچھ سامان کھانے پینے کا حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا۔۔۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں۔۔۔ اب اگر اس پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے صدقہ ہمارے لئے ہدیہ ہے تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم صاحب شریعت ہیں۔۔۔ لیکن یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کے صدقہ حرام نہیں ہے۔۔۔ جیسے زانیہ کی کمائی (اجرت) حرام ہے۔۔۔ فرمان رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔

لٰہذا اس حدیث کو دلیل کےطور پر پیش کرنا کسی بھی زاویئے سے صحیح نہیں ہے۔۔۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کے کیا امام صاحب نے بھی اس مسئلے پر رائے دینے کے لئے اس حدیث کو پیش کیا تھا یا یہ آپ کی اپنی کوشش ہے؟؟؟۔۔۔

امام ابوحنفیہ کے نزدیک صاحبین کے نزدیک وہ بھی درست نہیں ہوگا۔
بات ہی ختم ہوگئی تو اختلاف کہاں رہا۔۔۔

نوٹ:فقہاء بالخصوص فقہاء احناف عمومی قانونی طورپر بات کرتے ہیں کہ جواز کا آخری پہلوکیاہوسکتاہے
تبصرہ!۔ عمومی قانون کچھ بھی ہو چاروں فقہاء کا یکسان بھی ہوسکتا ہے اور مختلف بھی۔۔۔ لیکن جو عمل بھی شریعت کی حدود سے ٹکرائے یا تجاوز کرجائے تو وہاں جواز کو ہی ختم کرنا پڑے گا۔۔۔ یعنی ہر قسم کا پہلو ختم۔۔۔

لیکن تقوی اورایک مسلمان کاشعار کیاہوناچاہئے وہ سبھی کو استفت قلبک یعنی خود اپنے ضمیر سے پوچھ کر عمل کرلیناچاہئے۔والسلام
لیکن چھوٹا سا اعتراض ضمیر کی یہ آواز اگر امام صاحب رائے دینے سے پہلے سُن لیتے تو اس زانیہ پر حد جاری کرواتے۔۔۔ لیکن یہ قطعی نہ سمجھا جائے کے میرا مقصدکسی بھی قسم کی الزام تراشی ہےلیکن کیا امام صاحب نے مسئلے پر رائے ضمیر سے پوچھے بغیردی تھی؟؟؟۔۔۔
والسلام علیکم۔۔۔
 

ارم

رکن
شمولیت
جنوری 09، 2013
پیغامات
39
ری ایکشن اسکور
173
پوائنٹ
42
ایک مرتبہ امام ابو حنیفہ کہیں جا رہے تھے‘ راستے میں زبردست کیچڑ تھا‘ ایک جگہ آپ کے پاؤں کی ٹھوکر سے کیچڑ اڑکر ایک شخص کے مکان کی دیوار پر جالگا‘ یہ دیکھ کر آپ بہت پریشان ہوگئے کہ کیچڑ اکھاڑ کر دیوار صاف کی جائے تو خدشہ ہے کہ دیوار کی کچھ مٹی اتر جائے گی اور اگر یوں ہی چھوڑ دیا تو دیوار خراب رہتی ہے۔

آپ اسی پریشانی میں تھے کہ صاحب خانہ کو بلایا گیا‘ اتفاق سے وہ شخص مجوسی تھا اور آپ کا مقروض بھی‘ آپ کو دیکھ کر سمجھا کہ شاید قرض مانگنے آئے ہیں‘ پریشان ہوکر عذر اور معذرت پیش کرنے لگا‘ آپ نے فرمایا: قرض کی بات چھوڑو‘میں اس فکر وپریشانی میں ہوں کہ تمہاری دیوار کو کیسے صاف کروں‘اگر کیچڑ کھرچوں تو خطرہ ہے کہ دیوار سے کچھ مٹی بھی اتر آئے گی اور اگر یوں ہی رہنے دوں تو تمہاری دیوار گندی ہوتی ہے‘

یہ بات سن کر وہ مجوسی بے ساختہ کہنے لگا حضور! دیوار کو بعد میں صاف کیجئے گا پہلے مجھے کلمہ طیبہ پڑھا کر میرا دل صاف کردیں‘ چنانچہ وہ مجوسی آپ کے عظیم اخلاق وکردار کی بدولت مشرف بہ اسلام ہوگیا۔

امام ابو حنیفہ جس طرح علم وفضل اور فقہ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے اسی طرح اخلاق وکردار کے لحاظ سے بھی آپ یکتائے روزگار تھے- آپ کے اخلاق اور کردار کی یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جس پر عمل پیرا ہو کر نا صرف آئمہ کرام بلکہ عالم اسلام کا ہر شخص اخلاق و کردار میں آپ اپنی مثال بن سکتا ہے- اللہ رب العزت ہم سب میں ایسے اوصاف پیدا فرماۓ- آمین

بحوالہ گلستانِ اولیا
جزاک اللہ
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
اب ایک فاحشہ خاتون ہے۔وہ کسی مکان کواجارہ یعنی کرایہ پر لیتی ہے وہ پیشہ کرتی ہے اوراسی پیشہ کے روپئے کوکرایہ کی مد میں دیتی ہے توصاحب مکان کیلئے یہ پیسے لیناجائز ہوگایانہیں۔
امام ابوحنیفہ کاکہناہے کہ اگرچہ کسب حرام ہے لیکن صاحب مکان کیلئے کرایہ لیناجائز ہوگا
یعنی حرام کام کے لئے مکان کرایہ پر دینا حلال ہے،
اور اس کی اجرت لینا بھی حلال ہے؟
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
یعنی حرام کام کے لئے مکان کرایہ پر دینا حلال ہے،
اور اس کی اجرت لینا بھی حلال ہے؟
بغیر سمجھے کسی بات کو غلط رخ دینا مناسب نہیں اور شکوک وشبہات پیدا کرنا یہ اس سے بھی بڑا جرم ہے۔ جس شخصیت پر تبصرہ اور تنقید فرمائی جارہی ہےاسی اہلیت کا علم بھی ضروری ہے ۔ ’’فتدبر‘‘
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
انسان کو علمی مسائل میں سنجیدگی برتنی چاہئے۔
سنجیدگی کا تقاضہ یہ تھاکہ پہلے آپ اس فقہی عبارت سے غلط مطلب تراشنے کااعتراف کرتے اوراس کے بعد بات آگے بڑھاتے۔

حدیث میں ہے زانیہ کی کمائی کو حرام قرار دیا ہے۔۔۔ اور کمائی ظاہر ہے پیسوں یعنی روپے کی صورت میں ہی وصول ہوگی۔۔۔ اب حرام کی کمائی کرائے کی مد میں دینے سے وہ حلال کیسے ہوگی؟؟؟۔۔۔ ایک شخص شراب بناتا ہے۔۔۔ دوسرا شخص وہ شراب اس سے خریدتا ہے کے اس کو گاہوں کو بیچے۔۔۔ تیسرا شخص گاہک وہ اس شراب کو پینے کے لئے اس کی قیمت ادا کرتا ہے۔۔۔ اب شراب حرام ہے لہذا ان تینوں مرحلوں میں اس کی کمائی کس مرحلے پر آکر حلال ہوجائے گی؟؟؟۔۔۔
محترم اگرفقہاء کی عبارت سمجھنے کا سلیقہ نہیں ہے توپھر کیوں خواہ مخواہ ٹانگ اڑارہے ہیں کم ازکم اسی مبحث پر کتب فقہ کی ورق گردانی کرلیں توبہت ساری مشکلات حل ہوجائیں گی۔
اگرشراب کی مثال ہی دینی ہے تواس طورپر دیجئے کہ ایک شخص شراب کاکاروبار کرتاہے۔وہ کسی سے مکان کرایہ پر لیتاہے اب مالک مکان کوجووہ کرایہ اداکرتاہے توظاہر ہے کہ اس کاکاروبار شراب ہے اس کے روپئے بھی اسی تعلق سے ہوں گے۔لہذا مالک مکان کیلئے کرایہ وصول کرنادرست ہوگایانہیں امام اعظم کے یہاں درست ہوگا۔صاحبین کے نزدیک درست نہیں ہوگا۔وجہ میں ماقبل میں عرض کرچکاہوں۔
امام صاحب نے اپنی ایک رائے دی۔۔۔ لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ زانیہ اپنی کمائی سے کیا زکات ادا کرسکتی ہے؟؟؟َ۔۔۔ فطرہ ادا کرسکتی ہے؟؟؟۔۔۔ صدقہ یا خیرات کرسکتی ہے؟؟؟۔۔۔ یا کسی مدرسے یا مسجد کی تعمیر میں وہ پیسے دے کر کار خیر کا حصہ بن سکتی ہے۔۔۔ کیا وہ فاحشہ روپے کی مد میں قاری صاحب سے قرآن وحدیث کی تعلیم حاصل کرسکتی ہے؟؟؟۔۔۔ جیسے اُس نے کرائے پر مکان حاصل کیا۔۔۔
اب ہم کہاں تک آپ کی عدم فقاہت کااورفقہاء کی باتیں نہ سمجھنے کا شکوہ کریں۔
ایک ہے راہ خدامیں کچھ دینایہ مخصوص طورپر حق اللہ ہے اس کیلئے پاک اورحلال اورطیب مال چاہئے۔یہی وجہ ہے کہ مسجد مین زکوٰۃ کامال بھی نہیں دیاجاسکتا۔
زکوٰۃ کی مد میں فقہاء احناف کا کہناہے بینکوں سے آنے والے سود کے پیسے سے ادانہیں کیاجاسکتا۔بلکہ اس کسی نیک کام یں صرف کردے بغیر ثواب کی نیت کی۔ اگرثواب کی نیت رکھے گاتوگنہکارہوگا۔
دوسراہے حق العبد ۔یعنی ایک شخص کام کرتاہے اس کام کے بدلے وہ روپے کا طلب ہوتاہے۔اب کام لینے والے اس کو جوروپے یامعاوضہ دے رہاہے وہ کیسے پیسوں سے دے رہاہے یہ اس کا مسئلہ ہے لینے والے کیلئے جائز ہے یانہیں اس مین امام ابوحنیفہ اورصاحبین کااختلاف ہے۔
آپ نے جونقطہ نگاہ واضح کیاہے اس کے حساب سے توننانوے فیصد افرادکی آمدنی حرام ہوجائے گی بالخصوص وہ تمام لوگ جو گورنمنٹ کے ملازم ہیں۔ گورنمنٹ فاحشاؤں سے بھی ٹیکس کے روپے وصول کرتی ہے۔اس کے علاوہ ہزاروں غیرشرعی کام کرنے والوں سے ٹیکس وصول کرتی ہے پھراسی ٹیکس کو ٹیچر،پروفیسر اورحکومت کی ماتحتی میں چلنے والے اداروں کو دیتی ہے توکیافتوی ہے حرب بن شداد صاحب کااندریں حالات۔
آپ نے مشہور حدیث جو دلیل ہوسکتی ہے!۔۔۔ نہیں بھی ہوسکتی جو پیش کی ہے۔۔۔



سب سے پہلی بات کیا صدقہ حرام ہے؟؟؟۔۔۔ لیکن زنا حرام ہے۔۔۔ صدقہ کا کچھ سامان کھانے پینے کا حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا۔۔۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں۔۔۔ اب اگر اس پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے صدقہ ہمارے لئے ہدیہ ہے تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم صاحب شریعت ہیں۔۔۔ لیکن یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کے صدقہ حرام نہیں ہے۔۔۔ جیسے زانیہ کی کمائی (اجرت) حرام ہے۔۔۔ فرمان رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔
اگرلاعلمی کی حالت یہی ہے توپھر بحث ختم کرناچاہئے۔
یہ سبھی کومعلوم ہے کہ حضرت سادات پر مال صدقہ اوزکوٰۃ سے استفادہ جائز نہیں ہے۔نہ ہی ان کو صدقہ اورزکوٰۃ کامال دیاجاسکتاہے یہ توبچے بھی جانتے ہیں۔
حَدَّثَنَا الْغَزِّيُّ، وَأَبُو إِسْمَاعِيلَ، قَالَا: ثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ فِي بَرِيرَةَ ثَلَاثُ سُنَنٍ فَكَانَتْ أَحَدُ السُّنَنِ أَنَّهَا أُعْتِقَتْ، فَخُيِّرَتْ فِي زَوْجِهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ» وَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْبُرْمَةُ تَفُورُ بِاللَّحْمِ، فَقُرِّبَ إِلَيْهِ [ص:232] خُبْزٌ، وَأُدْمٌ مِنْ أُدْمِ الْبَيْتِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلَمْ أَرَ بُرْمَةً فِيهَا لَحْمٌ؟» ، فَقَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَذَلِكَ لَحْمٌ تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، وَأَنْتَ لَا تَأْكُلُ الصَّدَقَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هُوَ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ وَهُوَ لَنَا هَدِيَّةٌ»
اس کے باوجود رسول پاک نے فہمائش کرکے کھایااورفرمایاکہ هُوَ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ وَهُوَ لَنَا هَدِيَّةٌ

لٰہذا اس حدیث کو دلیل کےطور پر پیش کرنا کسی بھی زاویئے سے صحیح نہیں ہے۔۔۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کے کیا امام صاحب نے بھی اس مسئلے پر رائے دینے کے لئے اس حدیث کو پیش کیا تھا یا یہ آپ کی اپنی کوشش ہے؟؟؟۔۔۔
اس حدیث پر دوبارہ غورکرین گے تومطلب سمجھ میں آجائے گاکہ ملک بدلنے سے مال کی حیثیت بھی بدل جایاکرتی ہے جو چیز حضرت بریرہ کیلئے صدقہ کے طورپر آئی تھی اورصدقہ سے استفادہ سادات کیلئے درست نہیں لیکن سید السادات نے فرمایاکہ وہ بربرہ کیلئے صدقہ ہوگا لیکن ہمارے لئے توہدیہ ہے۔

بات ہی ختم ہوگئی تو اختلاف کہاں رہا۔۔۔
اسے بلاتبصرہ ہی چھوڑنابہترہے۔
تبصرہ!۔ عمومی قانون کچھ بھی ہو چاروں فقہاء کا یکسان بھی ہوسکتا ہے اور مختلف بھی۔۔۔ لیکن جو عمل بھی شریعت کی حدود سے ٹکرائے یا تجاوز کرجائے تو وہاں جواز کو ہی ختم کرنا پڑے گا۔۔۔ یعنی ہر قسم کا پہلو ختم۔۔۔
یعنی کسی کیلئے بھی دیار غیر وحکومتی ملامت کی گنجائش باقی نہیں رکھیں گے پہلے اس کو اپنے خاندان،محلہ اورشہر میں نافذ العمل کرالیں پھراس کے بعد ہمارے لئے بھی غورکرنے کا موقع رہے گا۔

لیکن چھوٹا سا اعتراض ضمیر کی یہ آواز اگر امام صاحب رائے دینے سے پہلے سُن لیتے تو اس زانیہ پر حد جاری کرواتے۔۔۔ لیکن یہ قطعی نہ سمجھا جائے کے میرا مقصدکسی بھی قسم کی الزام تراشی ہےلیکن کیا امام صاحب نے مسئلے پر رائے ضمیر سے پوچھے بغیردی تھی؟؟؟۔۔۔
ایک چیز کسی کی وجہ شہرت ہوتی ہے کہ فلاں ایساکام کرتاہے اورایک چیز کسی کا معائنہ ہے دونوں میں آسمان وزمین کے اتنافرق ہے۔خود آپ کے محلہ میں کتنے لوگ ہوں گے جن کی بری شہرت سنی ہوگی لیکن ان کے برے افعال کا معائنہ کرنے کا کتناموقع آنجناب کوملاہے اگرملتاہے توہمیں توقع ہے کہ اچھے شہری کی طرح پولس اوردیگر لاء اینڈ آرڈر اداروں سے رجوع کرتے۔وہی بات یہاں بھی سمجھیں۔
تھوڑااپنے ذہن پر زورڈال کریں ایسابھی کیاکہ عقل جیسی ملی تھی ویسی ہی بغیر استعمال کے حضوررب حاضری کی خواہش ہو۔
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
بغیر سمجھے کسی بات کو غلط رخ دینا مناسب نہیں اور شکوک وشبہات پیدا کرنا یہ اس سے بھی بڑا جرم ہے۔ جس شخصیت پر تبصرہ اور تنقید فرمائی جارہی ہےاسی اہلیت کا علم بھی ضروری ہے ۔ ’’فتدبر‘‘
الله نے صحیح اور غلط کو پرکھنے کی ہمیں سمجھ دی ہے الحمد لله

بات واضح ہے محترم
اور بات کون کہ رہا ہے صرف یہ نہیں دیکھا جاتا بات کیا کہ رہا ہے وہ بھی دیکھا جاتا ہے

آپ کتنا سمجھیں ہے ذرا وضاحت فرماے
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
جمشید بھائی آپ کے اس بیان پر
اب ایک فاحشہ خاتون ہے۔وہ کسی مکان کواجارہ یعنی کرایہ پر لیتی ہے وہ پیشہ کرتی ہے اوراسی پیشہ کے روپئے کوکرایہ کی مد میں دیتی ہے توصاحب مکان کیلئے یہ پیسے لیناجائز ہوگایانہیں۔یہ اصل اختلاف ہے۔
امام ابوحنیفہ کاکہناہے کہ اگرچہ کسب حرام ہے لیکن صاحب مکان کیلئے کرایہ لیناجائز ہوگاکیونکہ اگرصورت حال ایسی ہوتی کہ کوئی شخص مکان کرایہ پر لیتا لیکن کرایہ طے نہ ہوتاتواس کوقیمت مثل دیاجاتااگرچہ کرایہ طے نہ ہونے کی وجہ سے یہ اجارہ فاسد ہوتا۔وہی صورت حال یہاں بھی ہے کہ ایک خاتون فاحشہ مکان کرایہ پر لیتی ہے اس کاکسب حراب ہے جس کی وجہ سے اجارہ فاسدہوگالیکن اس فاحشہ کے روپے کرایہ کے مد میں لینامالک مکان کیلئے درست ہوگا۔
مالک مکان کےلیے یہ کرایہ لینا کیوں جائز ہوگا۔ اس کی وجہ بھی آپ نے بیان فرمائی کہ
اب وہ فاحشہ خاتون پیشہ کرتی ہیں تویہ ان کیلئے وبال عظیم ہے لیکن وہ اس روپئے کوچونکہ کرایہ کے مد میں اداکرتی ہیں لہذا مکان جوکرایہ لے رہاہے تو اپنے مکان کاکرایہ لے رہاہے اوریہ اس کیلئے درست ہوگاامام ابوحنفیہ کے نزدیک صاحبین کے نزدیک وہ بھی درست نہیں ہوگا۔
حرب بن شداد بھائی کی اس پوسٹ کے جواب میں مطلوب وضاحت باتوں پر آپ نے فرمایا
ایک شخص شراب کاکاروبار کرتاہے۔وہ کسی سے مکان کرایہ پر لیتاہے اب مالک مکان کوجووہ کرایہ اداکرتاہے توظاہر ہے کہ اس کاکاروبار شراب ہے اس کے روپئے بھی اسی تعلق سے ہوں گے۔لہذا مالک مکان کیلئے کرایہ وصول کرنادرست ہوگایانہیں امام اعظم کے یہاں درست ہوگا۔صاحبین کے نزدیک درست نہیں ہوگا۔وجہ میں ماقبل میں عرض کرچکاہوں۔
آپ کے ہی بیان میں یہ بات ہے کہ اس مسئلہ میں امام صاحب اور صاحبین کا اختلاف ہے، کیوں اختلاف ہے؟ اس پر بات نہیں۔ اور آپ بھی صاحبین سے اختلاف کررہے ہیں۔
اس کےبعد آپ نے فرمایا
ایک ہے راہ خدامیں کچھ دینایہ مخصوص طورپر حق اللہ ہے اس کیلئے پاک اورحلال اورطیب مال چاہئے۔یہی وجہ ہے کہ مسجد مین زکوٰۃ کامال بھی نہیں دیاجاسکتا۔
اس عبارت میں آپ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں پاکیزہ مال ہی خرچ کرنا چاہیے۔
آگے آپ نے فرمایا کہ
ملک بدلنے سے مال کی حیثیت بھی بدل جایاکرتی ہے
جب ملک بدلنے سے مال کی حیثیت بدل جاتی ہے، تو پھر مالک مکان کےلیے اس شرابی اور زانی سے لیے گئے مال سے صدقہ خیرات وزکوۃ دینا کیسا ہے ؟ کیونکہ ملک تو بدل گئی ہے ناں۔ ذرا اس کی وضاحت بھی پیش فرمادینا۔ جزاک اللہ
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
حرب بن شداد بھائی
ارے بھایئ آپ نے باتوں باتوں میں ہمیں پھنسا لیا ہمیں معلوم نہیں تھا آپ’’ گگلی ‘‘کے بجائے’’ دوسرا ‘‘بھی پھینک دیتے ہو ایک ذراسی بات کا کیا بتنگڑ بنا دیا ۔امام ابوحنیفہؒ کا نام کیا آگیا قیامت آگئی یہ تو بالکل ہائی اٹینشن والی بات ہوگئی دیکھو مرغی نکلنے نہ پائے میں تو اسی وجہ سے دور دور ہی کھیلتا ہوں ارے بھائیو امام صاحب نے آپ لوگوں کا کیا بگاڑا کہ اتنی نفرت ہے میرے خیال سے تو ان بیچاروں نےکبھی کسی کی برائی نہیں کی نہ کبھی یہ کہا کہ اس کی بات مت مانو میری بات مانو اس بارے میں تو ان کے با لکل آزاد نظریات ہیں جس کو اچھا لگے عمل کر لے جس کو پسند نہ ہووہ اپنے حساب سےاپنے دینی معاملات کو سلجھا لے حقیقت میں میں ابھی تک اس بات کو نہیں سمجھ پایا کہ اس ضد بازی اور نفرت کی کیا وجہ ہے اتنا بڑا اختلاف کیسے رونما ہوگیا کوئی صاحب میری اس بارے میں صدق دل سے رہنمائی فرمادیں میں آج ایمانداری سے کہہ رہا ہوں کہ میں کبھی بھی مقلد اور غیر مقلد کے چکر میں نہیں پڑا میں تو صرف یہ سمجھتا تھا کہ کچھ نظریات ہیں جس میں کچھ اختلافات ہیں اور وہ ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن اتنی بڑی خلیج اس کا مجھے اندازہ نہیں تھا میں سمجھتا ہوں کہ جیسے جیسے سائنس ترقی کرتی جارہی ہے ویسے ویسے یہ خلیج بڑھتی جارہی ہے کیونکہ منٹوں میں بات کہیں کہیں کی پہنچ جاتی ہے ابھی ایک زخم دور ہوتا نہیں کہ دوسرا زخم لگ جاتا ہے ۔ہم نے تو یہ پڑھا اور دیکھا تھا کہ اگر کسی دو عالم میں کوئی علمی غلطی ہوئی تو افہام و تفہیم کے ذریعہ بڑی خوش اسلوبی سے طے ہوجاتی تھی اور فریقین اپنے فیصلوں سے رجوع بھی فرما لیا کرتے تھے اور پھر وہی ایک دسترخوان پر کھانا کھا لیا کرتے تھے لوگ حیران ہوتے تھے یہ کیسے انسان ہیں کہ ابھی گرما گرمی ہورہی تھی اور ابھی ایک ہوگئے ۔ جب مجھے ہی حیرت ہے تو اسلام مخالفین کا کیا حال ہوتا ہوگا ۔اب ایسے حالات میں کوئی علمی بات کرے تو کیسے کرے اب یہ باتیں ’’ علمی تبادلہ ‘‘ (Knowledge Sare ) کے لیے نہیں بلکہ تحفظ نفس(Self Care ) کے لیے ہورہی ہیں ہم نے شروع میں اشارہ کردیا یہ مسئلہ’’ اضطراری کیفیت کا ہے‘‘ بات ختم ۔ ہم صبح سے شام تک کتنی باتوں پر بحالت مجبوری عمل کرتے ہیں جو بظاہر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہوتی ہیں وہاں ان مسائل کو خود بخود حل کرلیا جا تا ہے لیکن ضد والی بات یہ ہے کہ امام صاحبؒ نے ایسا کیوں کہا اور بس ،یعنی علم کا حق ان کو نہیں ہمیں ہے ہم ہی اس کے حق دار تھے وہ نہیں تھے۔ ہماری پیدائش سے لیکر اور اب تک ہم پر کتنی اضطررای کیفیات لاحق ہوتی ہیں اگر ان حالات میں اسلام پر عمل کیا جائے تو زندگی دوبھر ہوجائے ۔جب کہ اسلام نےہی ان مخصوص حالات میں حالات کے تحت عمل کرنے کی اجازت دی ہے۔ ہم جتنی بھی دوائیاں استعمال کرتے ہیں ان میں حرام اشیاء کی آمیزش ہوتی ہے کھانسی کے جتنے بھی سیرپ ہیں سب میں الکوحل ہوتا ہے اور معلوم ہے یہ جانوروں کا خون ان کی ہڈیاں کہاں استعمال ہوتی ان کی آنت اوجھڑی کہاں استعمال ہوتی ہیں یہ سب دواؤں میں اور ٹوتھ پیسٹ میں استعمال ہوتی ہیں اور یہ جو’’چائینا بون ‘‘کیا ہے ۔ اور انٹر نیٹ کیا ہے اور یہ یوٹیوب کیا ہے جس کے لنک اس فورم پر دکھائے جاتے ہیں ۔اور ’’ نیٹ سرفنگ ‘‘ کے دوران جو گلیمر کی دنیا دکھائی دیتی ہے یہ کیا ہے کیا ان سب کی اسلام میں اجازت ہے اور ہم جو موبائل یا کمپیوٹر پر قرآن کی تلاوت چلاتے ہیں (میں لفظ سننا استعمال نہیں کررہاہوں) کیا یہ لہو لعب نہیں ہے اور دور کیوں جاتے ہیں سب کی جیبوں میں لیڈروں کی تصاویر ہوتی ہیں (نوٹوں پر) کیا وہ جائز ہے۔ زیادہ باریکیوں میں نہ جائیں یاد رہے جتنی باریکی میں جایا جائےگا اتنا ہی سخت اللہ تعالیٰ کے یہاں حساب بھی دینا ہوگا۔ایک واقعہ شاید امام حنبلؒ کا ہے یا کسی اور کا ہے بہر حال ہے، بیان کرتا ہوں ’’ ان کے انتقال کے بعد ان کا ایک شاگرد خواب میں دیکھتا ہے کہ شیخ پریشان حال پسینہ صاف کرتے ہوئے آرہے ہیں ،شاگرد نے پوچھا حضرت کیا معاملہ ہے فرمایا مت پوچھو بڑی مشکل میں جان بچی ہے ،اللہ تعالیٰ نے مجھ سے سوال کرلیا تھا کہ ہمارے واسطے کیا لائے ہوتو میں نے کہا’’ توحید لایا ہوں‘‘اس پر اللہ تعالیٰ نے کہا اچھا ’’توحید ‘‘لائے ہو اور اس دن کیا ہوا جب تمہارے پیٹ میں درد ہوا تھا اور تم نے کہا تھا کہ فلاں چیز کھانے سے درد ہوا تھا تو کیا کسی چیز میں یہ طاقت ہے کہ ہماری مرضی کے بغیر کام کرے ۔شیخ فرماتے ہیں بس میری حالت خراب ہوگئی خیر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے معاف فرمایا ‘‘ اب اس خواب پر بھی سوال ہوں گے کہ اس کی سند کیا ہے( اللہ میری توبہ) یہ خواب کس درجہ کا ہےجس درجہ کا بھی ہو لیکن اتنا تو طے ہے ہر چیز اللہ کے حکم سے حرکت کرتی ہے اب غور فرمالیں صبح سے شام تک ہم غیر اللہ کی طرف کتنی نسبتیں کرتے ہیں کیا وہاں بھی امام ابو حنیفہؒ کو مورد الزام ٹھہرائیں گے ۔اب دل کو تسلی نہیں ہے تو پھر آتے ہیں بحث مباحثہ کی طرف بہتر تو یہی ہے کہ بات یہیں ختم کرلی جائے اور وقت کوکسی دوسرے مفید کام لگایا جائے فقط واللہ اعلم بالصواب
 
Top