میں ریاض الصالحین كی یہ حدیث پڑھ رہا تھا:
373 -
وعن عمر بن الخطاب - رضي الله عنه - قَالَ: اسْتَأذَنْتُ النَّبيَّ - صلى الله عليه وسلم - في العُمْرَةِ، فَأذِنَ لِي، وَقالَ: «لا تَنْسَنا يَا أُخَيَّ مِنْ دُعَائِكَ» فَقَالَ: كَلِمَةً مَا يَسُرُّنِي أنَّ لِي بِهَا الدُّنْيَا.
وفي رواية: وَقالَ: «أشْرِكْنَا يَا أُخَيَّ في دُعَائِكَ».
حديث صحيح رواه أَبُو داود والترمذي، وَقالَ: (حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحيحٌ).
اس میں ’حدیث صحیح‘ كس كا قول ہے؟
اور اس حدیث كو میں نے انوار الصحیفہ میں دیكھا ہے اور وہاں شیخ نے امام النووی كا قول نقل كیا ہے اس كے ایك راوی كا ’ضعفہ الجمھور‘۔
میرا سوال یہ ہے كہ امام النووی نے ریاض الصالحین كے مقدمہ میں لكھا ہے كے وَألتَزِمُ فيهِ أَنْ لا أَذْكُرَ إلا حَدِيثًا صَحِيحًا مِنَ الْوَاضِحَاتِ
اور ساتھ ہی اس كے ایك راوی كے بارے میں جمہور كی تضعیف كا ذكر كیا ہے۔ كچھ سمجھ نہیں آیا۔
یہ حدیث سنن ابی داود میں اس طرح ہے :
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: اسْتَأْذَنْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعُمْرَةِ، فَأَذِنَ لِي، وَقَالَ: «لَا تَنْسَنَا يَا أُخَيَّ مِنْ دُعَائِكَ»، فَقَالَ كَلِمَةً مَا يَسُرُّنِي أَنَّ لِي بِهَا الدُّنْيَا، قَالَ شُعْبَةُ، ثُمَّ لَقِيتُ عَاصِمًا بَعْدُ بِالْمَدِينَةِ، فَحَدَّثَنِيهِ، وَقَالَ: «أَشْرِكْنَا يَا أُخَيَّ فِي دُعَائِكَ»
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور سنن الترمذی میں ہے :
حدیث نمبر: 3562
حدثنا سفيان بن وكيع حدثنا ابي عن سفيان عن عاصم بن عبيد الله عن سالم عن ابن عمر عن عمر انه استاذن النبي صلى الله عليه وسلم في العمرة ، فقال: " اي اخي اشركنا في دعائك ولا تنسنا ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح.
عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ کرنے کی اجازت مانگی تو آپ نے (اجازت دیتے ہوئے) کہا: ”اے میرے بھائی! اپنی دعا میں ہمیں بھی شریک رکھنا، بھولنا نہیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج سنن ابی داود/ الصلاة ۳۵۸ (۱۴۹۸)، سنن ابن ماجہ/المناسک ۵ (۲۸۹۴) (یہ حدیث اسلئے ضعیف ہے کیوں کہ اس کی سند میں ’’ عاصم بن عبید اللہ ‘‘ ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2894)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور علامہ البانی ؒ کے مایہ ناز شاگرد ابو اسامہ سلیم بن عید الھلالی
(بهجة الناظرين شرح رياض الصالحين )میں لکھتے ہیں :
’’ قلت اسناده ضعيف لان عاصم بن عبيد الله ضعيف ،فلذالك ، فتصحيح المصنف رحمه الله تقليدا للترمذي لا يخفى ضعفه ،،
یعنی اس کی سند ضعیف ہے ،کیونکہ عاصم بن عبیداللہ ضعیف ہے ،اور علامہ النووی ؒ کا اس کو صحیح کہنا محض امام ترمذی کی پیروی میں ہے ،حالانکہ اس ضعف واضح ہے ‘‘
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ شرح ریاض الصالحین میں اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
فهذا حديث ضعيف وإن صححه المؤلف، فطريقة المؤلف رحمه الله له أنه يتساهل في الحكم على الحديث إذا كان في فضائل الأعمال وهذا وإن كان يصدر عن حسن نية، لكن الواجب اتباع الحق؛ فالصحيح صحيح، والضعيف ضعيف، وفضائل الأعمال تدرك بغير تصحيح الأحاديث الضعيفة ‘‘ ( شرح ریاض الصالحین ۔جلد ۳ ،صفحہ ۲۵۲ )
یعنی اس حدیث کو اگر چہ علامہ نووی نے صحیح کہا ہے ، لیکن یہ ضعیف ہے ، اور علامہ نووی نے اسے اس لئے صحیح کہا ،کہ وہ حدیث پر حکم لگانے میں نرمی برتتے ہیں ،
یعنی متساہل ہیں ۔بالخصوص جب حدیث فضائل اعمال کے موضوع پر ہو ۔
اور فضائل اعمال کی احادیث پر حکم لگانے میں اگرچہ ان کی نیت اچھی ہوتی ہے لیکن حق کا اتباع ہی ضروری ہے،یعنی ضعیف کو دلیل نہ بنایا جائے ،
کیونکہ صحیح ، صحیح ہے۔۔اور ضعیف ،ضعیف ۔
اور اعمال کے فضائل ضعیف روایات کی تصحیح کے بغیر بھی حاصل ہوتے ہیں (یعنی صحیح احادیث میں بھی فضائل اعمال موجود ہیں )