• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے حالاتِ زندگی

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
امام بخاری﷫کے حالاتِ زندگی

سلسلۂ نسب
امام بخاری﷫ کا سلسلۂ نسب یہ ہے :
ابو عبداﷲ محمد (امام بخاری ؒ) بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بردزبہ البخاری الجعفی۔ امام بخاری ؒ کے والد حضرت اسماعیل ؒ کو جلیل القدر علمااور امام مالک رحمتہ اﷲ علیہ کی شاگردی کا بھی شرف حاصل تھا۔
پیدائش:
امام بخاریؒ 13 شوال 194؁ھ (20 جولائی 810؁ئ) کو بعد نمازِ جمعہ بخارا میں پیدا ہوئے۔ امام بخاری ؒ ابھی کم سن ہی تھے کہ شفیق باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور تعلیم و تربیت کیلئے صرف والدہ کاہی سہارا باقی رہ گیا۔ شفیق باپ کے ا ٹھ جانے کے بعد ماں نے امام بخاری ؒ کی پرورش شروع کی اور تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔ امام بخاری ؒ نے ابھی اچھی طرح آنکھیں کھولی بھی نہ تھیں کہ بینائی جاتی رہی۔ اس المناک سانحہ سے والدہ کو شدید صدمہ ہوا۔
انہوں نے بارگاہِ الہٰی میں آہ زاری کی، عجز و نیاز کا دامن پھیلا کر اپنے لاثانی بیٹے کی بینائی کیلئے دعائیں مانگیں۔ ایک مضطرب ، بے قرار اور بے سہارا ماں کی دعائیں قبول ہوئیں۔ انہوں نے ایک رات حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام کو خواب میں دیکھا فرما رہےتھے: ’’جا اے نیک خو ! تیری دعائیں قبول ہوئیں۔تمہارے نورِ نظر اور لختِ جگر کو اﷲ تعالیٰ نے پھر نورِ چشم سے نواز دیا ہے ‘‘ صبح اٹھ کر د یکھتی ہیں کہ بیٹے کی آنکھوں کا نور لوٹ آیا ہے ۔
سبحان اﷲ حضرت احمد بن حفص ؒ نے کہا کہ میں حضرت اسمٰعیل ؒ کے پاس ’’ ان کی موت کے وقت‘‘ گیا جو امام بخاری ؒکے والد تھے ا نہوں نے کہا میں نہیں سمجھتا میرے مال میں کوئی روپیہ حرام یا شبہہ کا ہو (یعنی آپؒ کی پرورش حلال مال سے ہوئی) حضرت وراقہ ؒ فرماتے ہیں کہ
امام بخاری ؒ کو اپنے باپ کے ترکہ میں سے بہت مال ملا تھا۔ غنجار نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ امام بخاری ؒ کے پاس کچھ مالِ تجارت آیا۔ تاجروں نے پانچ ہزار کے نفع سے اسے مانگا۔ پھر دو سرے دن کچھ اور تاجروں نے دس ہزار کے نفع کی پیش کش کی تو امام صاحب ؒنے فرمایا: ’’میں نے پہلے تاجروں کو دینے کی نیت کر لی تھی‘‘۔ آخر اُنہی کو دے دیا اور مزید پانچ ہزار کا نفع چھوڑ دیا۔
امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کو اپنے والد کی میراث سے کافی دولت ملی تھی۔ آپؒ اس سے تجارت کیا کرتے تھے۔ اس آسودہ حالی سے آپؒ نے کبھی اپنے عیش و عشرت کا اہتمام نہیں کیا جو کچھ آمدنی ہوتی طلب علم کیلئے صرف کرتے۔ غریب اور نادار طلبا کی امداد کرتے، غریبوں اور مسکینوں کی مشکلات میں ہاتھ بٹاتے۔ ہر قسم کے معاملات میں آپ رحمہ اللہ علیہ بے حد احتیاط برتتے تھے۔
حضرت عبداﷲ بن محمد صیارفی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ میں امام بخاری ؒکے ساتھ ان کے مکان میں بیٹھا تھا اتنے میں ان کی لونڈی آئی اور اندرجانے لگی۔سامنے ایک دوات (انک کی بوتل) رکھی تھی اس کو ٹھوکر لگی۔ امام بخاری ؒنے کہا تم کیسے چلتی ہو وہ بولی جب راستہ نہ ہو تو کیسے چلوں؟ یہ سن کر امام بخاری ؒنے اپنے دونوں ہاتھ پھیلا دیئے اور کہا: ’’جا میں نے تجھ کو آزاد کر دیا ‘‘ لوگوں نے کہا اے ابو عبداﷲ! اس لونڈی نے تو آپ ؒ کو غصّہ دلایا ہے۔ انہوں نے کہا میں نے اس کام سے اپنے نفس کو ر ا ضی کر لیا ہے۔
’’وضاحت: آپ بھی جب کسی پر ناراض ہوں یا اس کی غیبت کریں یا نقصان پہنچائیں یا دل دکھائیں تو اس پر کوئی نہ کوئی احسان ضرور کریں۔ یا اس سے معافی مانگیں۔ کم از کم اس کے لئےدعائِ مغفرت کریں تاکہ آخرت کے عذاب سے آپ بچ جائیں۔‘‘
حضرت وراقہ ؒ فرماتے ہیں کہ امام بخاری ؒبہت کم خوراک لیتے تھے، طالب علموں کے ساتھ بہت احسان کرتے اور نہایت سخی تھے۔ ایک دفعہ امام بخاری ؒبیمار ہوئے۔ ان کا قارورہ (پیشاب کی رپورٹ) طبیبوں کو چیک کرایا گیا تو ا نہوں نے کہا یہ قارورہ تو اس شخص کا ہے جس نے کبھی سالن نہ کھایا ہو۔ پھر امام بخاری ؒ نے ان کی تصدیق کی اور کہا کہ چالیس سال سے میں نے سالن نہیں کھایا (یعنی روکھی روٹی پر قناعت کی) طبیبوں نے کہا اب آپؒ کی بیماری کا علاج یہ ہے کہ سالن کھایا کریں۔ امام بخاری ؒ نے قبول نہ فرمایا۔ بڑے اصرار سے یہ قبول کیا کہ روٹی کے ساتھ کچھ کھجور کھا لیا کریں گے۔ محمد بن منصور فرماتے ہیں ہم ابو عبداﷲ بخاری ؒ کی مجلس میں تھے۔ ایک شخص نے آپؒ کی داڑھی میں سے کچھ کچرا نکالا اور زمین پر ڈال دیا۔ امام بخاری ؒنے لوگوں کو جب غافل پایا تو اس کو اٹھا کر اپنی جیب میں رکھ لیا۔ جب مسجد سے باہر نکلے تو اس کو پھینک دیا (گویا مسجد کا اتنا احترام کیا)
امام بخاری ؒ کا حافظہ:
امام بخاری ؒ کو اﷲ تعالیٰ نے غیر معمولی حافظہ اور ذہن عطا کیا تھا۔ ایک مرتبہ بغداد آئے، محدثین جمع ہوئے اور آپؒ کا امتحان لینا چاہا، امتحان کی ترتیب یہ رکھی کہ دس آدمیوں نے دس دس حدیثیں لے کر ان کے سامنے پیش کیں، ان احادیث کے متن (عبارت) اور سندوں کو بدلا گیا، متن ایک حدیث کا اور سند دوسری حدیث کی لگا دی گئی۔ امام بخاری ؒ حدیث سنتے اور کہتے، مجھے اس حدیث کے بارے میں علم نہیں جب سارے محدثین اپنی دس دس حدیثیں سنا چکے اور ہر ایک کے جواب میں امام بخاری ؒ نے کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں، تو سارے لوگ ان سے بدظن ہوئے اور کہنے لگے کہ یہ کیسے امام ہیں کہ 100 احادیث میں سے چند حدیثیں بھی نہیں جانتے۔
امام بخاری ؒ پہلے شخص سے مخاطب ہو کر کہنے لگے تم نے پہلی حدیث یوں سنائی تھی اور پھر صحیح حدیث سنائی دو سری حدیث کے بارے میں فرمایا کہ تم نے یہ حدیث اس طرح سنائی تھی جب کہ صحیح یہ ہے اور پھر صحیح حدیث سنائی، مختصر یہ کہ امام بخاری ؒ نے دس کے دس آدمیوں کی مکمل حدیثیں پہلے ان کے ردّو بدل کے ساتھ سنائیں اور پھر صحیح اسناد کے ساتھ حدیثیں سنائیں۔
اس مجلس میں امام صاحب کی اس طرح حدیثوں کی صحت، پر سارا مجمع حیران اور خاموش تھا، علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ یہ واقعہ لکھنے کے بعد فرماتے ہیں، یہاں امام بخاری ؒ کی امامت تسلیم کرنی پڑتی ہے۔ تعجب یہ نہیں کہ امام بخاری ؒ نے غلط احادیث کی تصحیح کی اسلئے کہ وہ تو تھے ہی حافظ حدیث، تعجب تو اس کرشمہ پر ہے کہ امام بخاری ؒ نے ایک ہی دفعہ میں ان کی بیان کردہ ترتیب کے مطابق وہ تمام تبدیل شدہ حدیثیں بھی یاد کر لیں۔ (فتح الباری ، شرح صحیح بخاری)
آپؒ کی سب سے بلند پایہ تصنیف صحیح بخاری ہے۔ آپ ؒ نے بخاری کی ترتیب و تالیف میں صرف علمیت، زکاوت اور حفظ ہی کا زور خرچ نہیں کیا بلکہ خلوص، دیانت، تقویٰ اور طہارت کے بھی آخری مرحلے ختم کر ڈالے اور اس شان سے ترتیب و تدوین کا آغاز کیا کہ جب ایک حدیث لکھنے کا ارادہ کرتے تو پہلے غسل کرتے، دو رکعت نماز استخارہ پڑھتے بارگاہِ ربّ العزت میں سجدہ ریز ہوتے ا ور اس کے بعد ایک حدیث تحریر فرماتے۔ اس سخت ترین محنت اور دیدہ ریزی کے بعد سولہ سال کی طویل مدت میں یہ کتاب زیورِ تکمیل سے آراستہ ہوئی
اور ایک ایسی تصنیف عالمِ وجود میں آگئی جس کا یہ لقب قرار پایا:
’’ ا صح ا لکتب بعد کتا ب ا للہ‘‘ یعنی اﷲ تعالیٰ کی کتاب (قرآن مجید) کے بعد سب سے زیادہ صحیح کتاب ہے‘‘
۔ اُمّت کے ہزاروں محدثین نے سخت سے سخت کسوٹی پر کسا، پرکھا اور جانچا مگر جو لقب اس مقدس تصنیف کیلئے من جانب اﷲ مقدر ہو چکا تھا وہ پتھر کی کبھی نہ مٹنے والی لکیریں بن گیا۔
امام بخاری ؒ کی شرط کا بیان:
آپ ؒ وہی حدیث بیان کرتے تھے جس کو ثقہ نے ثقہ سے مشہور صحابی تک روایت کی ہو اور معتبر ثقات اس حدیث میں اختلاف نہ کرتے ہوں اور سلسلۂ اسناد متصل ہو۔ اگر صحابی سے دو شخص راوی ہوں تو بہتر ورنہ ایک معتبر راوی بھی کافی ہے۔امام مسلم ؒ نے امام بخاری ؒسے علم حدیث حاصل کیا اور فائدہ اٹھایا لیکن وہ امام بخاریؒ کے اکثر اساتذہ کے بھی شاگرد ہیں (یعنی دونوں نے ایک ہی ا ستادوں سے علم حا صل کیا) اور ان دونوں کی کتابیں قرآن مجید کے بعد تمام کتابوں سے زیادہ صحیح ہیں۔ علما کااس امر پر اتفاق ہے کہ صحیح بخاری صحت میں صحیح مسلم سے افضل ہے۔ بخاری شریف کے علاوہ بھی امام صاحب کی 22 اہم اور بلند پایہ تصانیف ہیں۔ آپ کی مجالسِ درس زیادہ تر بصرہ، بغداد اور بخارا میں رہیں، لیکن دنیا کا غالباً کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں امام بخاری ؒکے شاگرد سلسلہ بسلسلہ نہ پہنچے ہوں۔
طالب حق کو دنیا میں دو کتابیں ہی کافی ہیں !
ایک اﷲ تعالیٰ کی کتاب قرآنِ کریم جو سب کے نزدیک مشہور اور متواتر ہے، اور دو سری رسول اکرم ﷺ کی احادیث کی کتاب صحیح بخاری ہے اگرچہ احادیث رسول اﷲﷺ پر کتابیں اور بھی ہیں لیکن کوئی بھی ان میں سے صحیح بخاری کے ہم پلہ نہیں۔
اسی لئے علما نے صحیح بخاری کو ا صح الکتب بعد کتا ب ا للہ کہا ہے۔ لہٰذا طالب حق کو یہی دو کتابیں کافی ہیں۔ ’’ یعنی قرآن مجید اور صحیح بخاری‘‘
تدوینِ حدیث
تدوینِ حدیث (احادیث کوجمع کرنا) کی ابتدا خلفائے راشدین ہی سے ہوئی ہے۔ حضرت عمر فاروق ؓ کو اگر ذرا بھی شبہ ہو جاتا تو دلیل اور گواہ طلب کر لیتے تھے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ کے بارے میں محدثین لکھتے ہیں کہ روایت میں انتہائی سختی برتتے تھے اور اگر کوئی شاگرد الفاظِ حدیث یاد کرنے میں کوتاہی کرتا تو ڈانٹتے تھے۔ تحقیق و تنقید کی بنیاد حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ نے ڈالی۔ تابعین ؒ نے اس کے اصول و ضوابط مرتب کئے اور تبع تابعین ؒ نے مستقل اور باضابطہ فن کی حیثیت دی ۔
بخاری شریف کو اگر اسلامی علوم کا ’’ انسا ئیکلوپیڈیا ‘‘ کہا جائے تو بالکل صحیح ہو گا۔
مستجاب الدعوات:
امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ مستجاب الدعوات تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب کے قاری کیلئے بھی دعا کی ہے اور صدہا مشائخ نے اس کا تجربہ کیا ہے کہ ختم بخاری ہر نیک مطلب اور مقصد کیلئے مفید ہے۔
’’ اسلئے تکمیل بخاری کی مجالس میں شریک ہو کر اﷲ ربّ ا لعزّت سے دعائیں مانگنی چاہئیں ‘‘
وفات :
محمد بن ابی حاتم وراق ؒفرماتے ہیں میں نے غالب بن جبریل ؒسے سنا کہ امام بخاری ؒخرتنگ میں انہیں کے پاس تشریف فرما تھے۔ امام بخاری ؒچند روز وہاں رہے پھر بیمار ہوگئے۔ اس وقت ایک ایلچی آیا اور کہنے لگا کہ سمرقند کے لوگوں نے آپ ؒ کوبلایا ہے۔ امام بخاری ؒنے قبول فرمایا۔ موزے پہنے، عمامہ باندھا۔ بیس قدم گئے ہوں گے۔ کہ ا نہوں نے کہا مجھ کو چھوڑ دو ، مجھے ضعف ہو گیا ہے۔ ہم نے چھوڑ دیا۔ امام بخاریؒ نے کئی دعائیں پڑھیں پھر لیٹ گئے۔ آپؒ کے بدن سے بہت پسینہ نکلا۔ دس شوال 256؁ھ بعد نماز عشاء آپؒ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ اگلے روز جب آپؒ کے انتقال کی خبر سمرقند اور ا طراف میں مشہور ہوئی تو کہرام مچ گیا۔ پورا شہر ماتم کدہ بن گیا۔ جنازہ اٹھا تو شہر کا ہر شخص جنازہ کے ساتھ تھا۔ نماز ظہر کے بعد اس علم و عمل اور زہد و تقویٰ کے پیکر کو سپردِ خاک کر دیا گیا۔ جب قبر میں رکھا تو آپؒ کی قبر سے مشک کی طرح خوشبو پھوٹی اور بہت دنوں تک یہ خوشبو باقی رہی۔ (ابن ابی حاتم ؒ)
ا نا للہ وا نا ا لیہ راجعون
’’ ہم تو خود اللہ تعالی کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں (2:156)
کل من علیھا فا ن ۔ و یبقیٰ و جہ ربک ذ و ا لجلا ل و ا لا کرام ۔
’’زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے ہیں۔ صرف تیرے رب کی ذات جو عظمت و عزت والی ہے باقی رہ جائے گی ‘‘
 

آزاد

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
363
ری ایکشن اسکور
919
پوائنٹ
125
امام بخاری﷫کے حالاتِ زندگی

امام بخاری ؒ کا حافظہ:
امام بخاری ؒ کو اﷲ تعالیٰ نے غیر معمولی حافظہ اور ذہن عطا کیا تھا۔ ایک مرتبہ بغداد آئے، محدثین جمع ہوئے اور آپؒ کا امتحان لینا چاہا، امتحان کی ترتیب یہ رکھی کہ دس آدمیوں نے دس دس حدیثیں لے کر ان کے سامنے پیش کیں، ان احادیث کے متن (عبارت) اور سندوں کو بدلا گیا، متن ایک حدیث کا اور سند دوسری حدیث کی لگا دی گئی۔ امام بخاری ؒ حدیث سنتے اور کہتے، مجھے اس حدیث کے بارے میں علم نہیں جب سارے محدثین اپنی دس دس حدیثیں سنا چکے اور ہر ایک کے جواب میں امام بخاری ؒ نے کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں، تو سارے لوگ ان سے بدظن ہوئے اور کہنے لگے کہ یہ کیسے امام ہیں کہ 100 احادیث میں سے چند حدیثیں بھی نہیں جانتے۔ اس مجلس میں امام صاحب کی اس طرح حدیثوں کی صحت، پر سارا مجمع حیران اور خاموش تھا، علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ یہ واقعہ لکھنے کے بعد فرماتے ہیں، یہاں امام بخاری ؒ کی امامت تسلیم کرنی پڑتی ہے۔ تعجب یہ نہیں کہ امام بخاری ؒ نے غلط احادیث کی تصحیح کی اسلئے کہ وہ تو تھے ہی حافظ حدیث، تعجب تو اس کرشمہ پر ہے کہ امام بخاری ؒ نے ایک ہی دفعہ میں ان کی بیان کردہ ترتیب کے مطابق وہ تمام تبدیل شدہ حدیثیں بھی یاد کر لیں۔ (فتح الباری ، شرح صحیح بخاری)
یہ تحقیق کیسی ہے؟


 

siddique

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
170
ری ایکشن اسکور
900
پوائنٹ
104
بغداد کا قصہ سند کے اعتبار کے سے ضعیف ہے؟

السلام علیکم کلیم بھائی
بحرین کے ایک شیخ نے ایک کتاب لکھی ہے جسکا نام ہے۔ تبصرۃ اولی الحکام من ٖقصص فیھا کلام ہے۔ اور شیخ کا نام ہے۔ابو عبدالرحمنٰ الفوزی ہے۔
اس کتاب میں شیخ نے جو جو مشہور واقعات ہے۔جو عوام میں مشہور ہے۔مگر سند کے اعتبار سے ضعیف ہے۔یکجا کیا۔اور اردو میں اس کا نام مشہور واقعات کی حقیقت رکھا گیا۔
اس کتاب کا ترجمہ محمد صدیق رضا،نظر ثانی حافظ زبیر علی زئی نے کی ہے۔
امام بخاری جب بغداد آئے ان کے حافظے کا امتحان لیا ۔دس احادیث کو خلط ملط کر کے امام بخاری کے سامنے پیش کیا اور امام صاحب نے ان احادیث کو صھیح سندوں کے ساتھ بیان کیاوغیرہ وغیرہ
شیخ نے کہا یہ واقعہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہے،
یہ کتاب ircpk.comپر موجود ہے۔
http://www.ircpk.com/books/Mash_hur_Waqiaat_ki_Haqeeqat(abu abdulrehman alfozi {Sadiq Raza .pdf
اللہ حافظ
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
کسی آیت قرآن کے بطور قرآن ثبوت کے لیے جو معیار مقرر ہے وہ اور ہے اور کسی حدیث کے بطور حدیث ثبوت کے لیے جو معیار مقرر ہے وہ اور ہے۔ اسی طرح ائمہ کی طرف منسوب اقوال کو بھی اصول حدیث کے کامل معیار پر پرکھا جائے گا تو یہ میرے خیال میں سلف صالحین یا محدثین عظام سے ثابت نہیں ہے۔ ورنہ تو تاریخ میں کچح باقی ہی نہ رہے گا بلکہ اسلامی تاریخ کی کتابوں کو دریا برد کر دینا چاہیے۔
لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہر گز نہیں ہے تاریخ کے نام پر ہر رطب ویابس کو جمع کر لیا جائے۔ میرے خیال میں تاریخ،سیرت اور حدیث الگ الگ فن اور میدان ہیں اور ان کی تحقیق کے اصول اور معیارات بھی الگ الگ ہیں۔ ایک فن کے معیار تحقیق کی روشنی میں دوسرے فن کی روایات کو ضعیف قرار دینا صحیح نہیں ہے۔
تاریخ میں ائمہ کی تعریفات میں بھی مبالغہ ہوا ہے۔
١۔ کسی امام کے مناقب میں منقول اقوال کی اگر سند ہی موجود نہ ہو تواس صورت میں تو اس قول کی نسبت مشکوک ہے۔
٢۔ یا اگر کسی امام کی طرف منسوب قول میں کوئی کذاب راوی ہو تو ایسی صورت میں اس قول کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔
٣۔ یا اگر سند موجود ہے اور درمیان میں انقطاع ہے تو پھر بھی روایت میں دونوں پہلو ہو سکتے ہیں۔ اور کثرت اسناد سے یہ روایت قوی ہو جاتی ہے۔
٤۔ لیکن اگر سند موجود ہے اور ایک راوی کے حالات آپ کو معلوم نہیں ہیں تو صرف حالات نامعلوم ہونے کی وجہ سے میرے خیال میں اس روایت کو ضعیف قرار صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ دین کا مسئلہ نہیں ہے کہ جس میں محدثین عظام جیسا سخت معیار مقرر کیا جائے بلکہ یہ تاریخ کا مسئلہ ہے اور تاریخ ایسے ہی نقل ہوتی ہے۔ یعنی دین کے منتقل ہونے میں اس کے ماننے والے جس اہتمام کا لحاظ کرتے ہیں وہ تاریخ کے منتقل ہونے میں اس اہتمام کا لحاظ نہیں کرتے ہیں لہذا اس تاریخ میں اس اہتمام کو تلاش کرنا اس فن ہی کو پھینک دینے کے مترادف ہو جاتا ہے۔
٥۔ اس میں اس بات کا بھی لحاظ رکھنا چاہیے کہ کسی مصنف نے وہ واقعہ بیان کیا ہے اور اس کا اس امام سے زمانہ کس قدر قریب ہے کیونکہ قریبی زمانہ میں عموما زیادہ جھوٹ پھیلنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔
٦۔ اس طرح ان روایات کو متن کے اعتبار سے بھی پرکھا جائے مثلا اس میں کوئی مافوق الفطرت مبالغہ آرائی نہ ہو یا اس میں کوئی ایسی مدح نہ ہو جس کا امکان اس امام سے مشکل ہو یا وہ مدح وذم عقل عام کے خلاف ہو وغیرہ ذلک۔
میں یہ سوچتا ہوں کی فن سیرت اور فن تاریخ کی تحقیق کے اصول وضوابط پر مفصل روشنی ڈالی جائے اور انہیں اصول حدیث کی طرح مرتب کیا جائے جیسا کہ قراء نے قرآن کے ثبوت کے اصول مقرر کیے اور وضع کیے اور مرتب کیے اور اصول حدیث سے مختلف ہیں۔ اور اگر قرآن کے ثبوت کے اصول وضوابط پر احادیث کو پرکھا جائے گا تو شاید احادیث کے ذخیرہ میں چند احادیث ہی اس معیار پر پورا اتریں گی۔
 
شمولیت
مئی 02، 2012
پیغامات
40
ری ایکشن اسکور
210
پوائنٹ
73
ہرات میں تحقیق کامعیار اعلی ہی ہونا چاہئے
ندہ کا خیال ہے کہ تحقیق کا معیار مکمل ہی ہونا چاہئے، جیساکہ او عدالرحمن الفوزی صاح نے اس قصہ کوضعیف السند قرار دیا۔ اس سے ہمارے دین کی مزید پختگی ہوگی اوریوں ھی قرآن وحدیث حق اورسچ ولنے کی مطلقا تاکیدآئی ہے نہ اگرچہ حدیث میں احتیاط سخت ہوجاتی ہے۔ جیساکہ فرمان الہی ہے اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور درست ات کہو ،اللہ تمہارے اعمال درست کردے گا۔اور یوں ھی ہم قرآن وسنت کے پاندہیں نہ کہ تاریخ اور دیگر چیزوں کے۔اگر اللہ کے ایک ادنی سے حکم اور اللہ کا ہرحکم اعلی اورارفع ہے اوراس کی فرمانرداری میں ہم کو پوری تاریخ سے ہاتھ صاف کرنا پڑیں تویہ کوئی ڑی ات نہیں۔اور یوں ھی ان قصوں کے غیر دین مکمل ہے ناں کہ ناقص۔لکھنے میں الف کے عد والا حرف پریس نہیں ہورہا لہذا جگہ جگہ وہ متروک ہے ،معذرت کے ساتھ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
جس شے کی دین کی جتنی اہمیت ہو، اس کی تحقیق کا معیار اتنا ہی بلند ہوگا، قرآن وسنت شریعت کی بنیاد ہیں، لہٰذا ان کی تحقیق کا معیار اتنا ہی بلند ہے، اگرچہ دونوں کے ثبوت کیلئے معیار فرق ہے۔

اسی طرح صحابہ کرام﷢ کے اقوال (ذاتی اجتہاد یا اسرائیلیات کے علاوہ) مرفوع حکمی کا درجہ رکھتے ہیں ان کے ثبوت کا معیار بھی حدیث والا ہی ہے۔

جہاں تک صحابہ کرام﷢ کے اجتہادات اور اسرائیلیات سے ماخوذ اقوال وغیرہ کا تعلق ہے تو اگرچہ ان کی حیثیت حدیث مرفوع کی نہیں ہے لیکن پھر بھی دین میں ان کی اہمیت مسلمہ ہے، لہٰذا ان کے ثبوت کا معیار بہت کافی سخت ہوگا، البتہ حدیث کے معیار تحقیق سے کچھ فروتر ہی ہوگا۔

یہی معاملہ بعد کے سلف صالحین﷭ کے اقوال کا ہے۔

جہاں تک امام بخاری﷫ کے واقعے کا تعلق ہے تو اس سے نہ تو دین میں کوئی اضافہ ہوتا ہے نہ کمی، البتہ امام بخاری﷫ کے قوتِ حافظہ کا علم ہوتا ہے، جو دیگر بکثرت دلائل سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ لہٰذا اس واقعے کے ثبوت کیلئے حدیث کے ثبوت والے معیارات مقرر کر لینا مناسب نہیں۔ اس طرح تو کوئی واقعہ ثابت ہی نہ ہو پائے گا۔

اگر ان واقعات کیلئے حدیث والے معیار ہی رکھنے ہیں تب پھر آج دُنیا میں جو واقعات پیش آتے ہیں ان کی تحقیق کا معیار بھی وہی ہونا چاہئے جو آج کسی صورت پورا ہو ہی نہیں سکتا، آج ہمیں کہاں ائمہ ابو زرعہ، دارمی، بخاری اور مسلم ﷭ جیسے ثقہ اور حفاظِ دُنیا ملیں گے؟؟!!

واللہ تعالیٰ اعلم!
 

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,596
پوائنٹ
139
السلام علیکم کلیم بھائی
بحرین کے ایک شیخ نے ایک کتاب لکھی ہے جسکا نام ہے۔ تبصرۃ اولی الحکام من ٖقصص فیھا کلام ہے۔ اور شیخ کا نام ہے۔ابو عبدالرحمنٰ الفوزی ہے۔
اس کتاب میں شیخ نے جو جو مشہور واقعات ہے۔جو عوام میں مشہور ہے۔مگر سند کے اعتبار سے ضعیف ہے۔یکجا کیا۔اور اردو میں اس کا نام مشہور واقعات کی حقیقت رکھا گیا۔
اس کتاب کا ترجمہ محمد صدیق رضا،نظر ثانی حافظ زبیر علی زئی نے کی ہے۔
امام بخاری جب بغداد آئے ان کے حافظے کا امتحان لیا ۔دس احادیث کو خلط ملط کر کے امام بخاری کے سامنے پیش کیا اور امام صاحب نے ان احادیث کو صھیح سندوں کے ساتھ بیان کیاوغیرہ وغیرہ
شیخ نے کہا یہ واقعہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہے،
یہ کتاب ircpk.comپر موجود ہے۔
http://www.ircpk.com/books/Mash_hur_Waqiaat_ki_Haqeeqat(abu abdulrehman alfozi {Sadiq Raza .pdf
اللہ حافظ
اس کتاب کےعلاوہ شیخ البانی رحمہ اللہ کے شاگرد فضیلۃ الشیخ ابو عبیدہ مشہور بن حسن آل سلمان اور ان کے دیگر ساتھیوں حفظہم اللہ نے بھی اسی طرح کا ایک سلسلہ مرتب کیا ہے اور اس کا نام قصص لا تثبت رکھا ہے۔اس کے ٨ اجزاء شائع ہو چکے ہیں۔مندرجہ بالا کتاب میں اس سلسلہ کے بھی پہلے ٢ اجزاء کے وہ قصے جو شیخ فوزی کی کتاب میں نہیں ہیں،ان کو بھی شامل کیا گیا ہے۔یہ بھی انتہائی مفید کتاب ہے اور اس کے کچھ اجزاء انٹرنیٹ پر مل بھی سکتے ہیں۔
 
Top