• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام بخاری رحمہ اللہ پر ایک بہتان کی تحقیق

شمولیت
نومبر 07، 2013
پیغامات
76
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
47
[امام بخاری رحمہ اللہ کے بارے میں مشہور ہے کہ انہیں ابو حفص کبیر نے بخارا سے اس لیے نکالا کہ انہوں نے فتویٰ دیا ہے کہ گائے(یا بکری) کا دودھ اگر کوئی لڑکا اور لڑکی پی لے تو ان میں رضاعت ثابت ہوجائے گی۔]

چناچہ اوکاڑی نے لکھا ہے کہ: "امام بخاری کے سرپرست اور استاد امام ابو حفص کبیر نے پیغام بھیجا کہ آپ صرف درس حدیث دیا کریں اور فتویٰ نہ دیا کریں۔" (مقدمہ جزء القراءۃللاوکاروی ص 12)
اور لکھا ہے کہ : "چناچہ آپ نے فتویٰ دیا کہ دو بچے (لڑکا اور لڑکی) ایک بکری کا دودھ پی لیں تو ان کا آپس میں نکاح حرام ہے۔" ("المبسوط للسرخی: ج30 ص 297۔۔۔" ایضاً ص 12)

تحقیق: سرخسی مذکور "محمد بن محمد بن محمد" ہے جو کہ 544ھ میں مرا ۔ (دیکھئے حاشیہ الجواہر المضیہ:130/2 والفوائدالبھیۃ : ص 189)

امام بخاری اور ابو حفص احمد بن حفص الکبیر، اس سرخسی کی پیدائش سے پہلے فوت ہو گئے تھے۔ یہ عین ممکن ہے کہ سرخسی مذکور نے اپنی بیان کردہ حکایت اس شیطان سے سنی ہو جس کا ذکر سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا ہے:
"شیطان انسانی شکل و صورت میں قوم (لوگوں) کے پاس آکر ان سے کوئی جھوٹی بات کہہ دیتا ہے۔ لوگ منتشر ہوتے ہیں تو ان میں سے ایک آدمی کہتا ہے کہ میں نے ایسے آدمی سے، یہ بات سنی ہے جس کی شکل سے واقف ہوں لیکن اس کا نام نہیں جانتا۔ " (صحیح مسلم: مترجم اردو ج1 ص 38، ترقیم دار السلام: 17)

سرخسی کا ثقہ ہونا محدثین کرام سے ثابت نہیں ہے۔ عبد القادر القرشی وغیرہ متعصبین اور بے کار لوگوں کا اسے "امام کبیر" قرار دینا چنداں مفید نہیں ہے۔ سرخسی کے بعد والوں نے یہ روایت سرخسی سے ہی نقل کر رکھی ہے۔ [دیکھئے البحر الرائق، فتح الکبیر، الکشف الکبیر، الجواہر المضیہ، تاریخ خمیس للبکری، الخیرات الحسان لابن حجر الہیتمی المبتدع وغیرہ]

٭عبد الحئی لکھنوی نے باوجود متعصب حنفی ہونے کے اس واقعہ کا انکار کیا ہے۔ (الفوائد البھیۃ: ص 188)
اوکاڑوی نے اس جھوٹے قصے کو باسند صحیح ثابت کرنے کے بجائے امام یحییٰ بن معین اور امام عبد الرحمن بن مہدی پر جرح شروع کردی ہے۔ حالانکہ ابن الجوزی (ص 72) کا حوالہ بے اصل ہے اور تاریخ بغداد (66/6) المحدث الفاصل (ص 249ح157) اور طبقات الشافعیہ (229/1) والی روایت کا راوی "رجل" نامعلوم و مجہول ہے۔
اس طرح کی مجہول و موضوع روایتوں کی بنیاد پر ہی یہ لوگ محدثین کرام پر تنقید وجرح کرتے ہیں۔
[محدث العصر زبیر علی زئی رحمہ اللہ: نصر الباري فی تحقیق جزء قراءۃ للبخاری: ص 37-38]
 
Top