• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف منسوب جھوٹ

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف منسوب جھوٹ

تحریر: جناب علامہ غلام مصطفی ظہیر
شیخ الاسلام، سید الفقہا، امیر المومنین فی الحدیث، امام بخاریؒ کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔آپ بلند پایہ فقیہ ، محدث اور مجتہد تھے۔صحیح بخاری آپ کی فقہ کا عظیم شاہکار ہے۔اللہ تعالیٰ نے تا قیامت آپ کے علم و عمل کو صالحین کے لیے باقی رکھا ہے۔آپ کی تصنیف ِلطیف کو بارگاہ ِخداوندی میں ڈھیروں برکات کا حصہ عنایت کیا گیا ہے۔ ایسابے مثال حسنِ قبولیت نصیب ہوا کہ آج بھی لوگ اس سے ہدایت پا رہے ہیں۔

لیکن حدیث کے دشمنوں کو آپ کی شخصیت ایک نظر نہیں بھاتی۔دنیا میں ایسے عاقبت نااندیش اور حاسدین بھی گزرے ہیں،جنہوں نے جھوٹ بول کر یہ باور کرانے کی ناکام اور مذموم کوشش کی کہ آپ مجتہدانہ صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں :
علامہ سرخسی حنفی(مـ:483ھ) نے لکھا ہے:
وَلَوْ أَنَّ صَبِیَّیْنِ شَرِبَا مِنْ لَّبَنِ شَاۃٍ أَوْ بَقَرَۃٍ؛ لَمْ تَثْبُتْ بِہٖ حُرْمَۃُ الرَّضَاعِ؛ لِأَنَّ الرَّضَاعَ مُعْتَبَرٌ بِالنَّسَبِ، وَکَمَا لَا یَتَحَقَّقُ النَّسَبُ بَیْنَ آدَمِيٍّ وَّبَیْنَ الْبَہَائِمِ؛ فَکَذٰلِکَ لَا تَثْبُتُ حُرْمَۃُ الرَّضَاعِ بِشُرْبِ لَبَنِ الْبَہَائِمِ، وَکَانَ مُحَمَّدُ ابْنُ إسْمَاعِیلَ الْبُخَارِيُّ، صَاحِبُ التَّارِیخِ، رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُولُ : تَثْبُتُ الْحُرْمَۃُ، وَہٰذِہِ الْمَسْأَلَۃُ کَانَتْ سَبَبَ إِخْرَاجِہٖ مِنْ بُخَارٰی، فَإِنَّہٗ قَدِمَ بُخَارٰی فِي زَمَنِ أَبِي حَفْصٍ الْکَبِیرِ رَحِمَہُ اللّٰہُ، وَجَعَلَ یُفْتِي، فَنَہَاہُ أَبُو حَفْصٍ رَّحِمَہُ اللّٰہُ، وَقَالَ لَسْتَ بِأَہْلٍ لَّہٗ، فَلَمْ یَنْتَہِ حَتّٰی سُئِلَ عَنْ ہٰذِہِ الْمَسْأَلَۃِ، فَأَفْتٰی بِالْحُرْمَۃِ، فَاجْتَمَعَ النَّاسُ وَأَخْرَجُوہُ ۔
’’اگر دو بچے کسی ایک بکری یا گائے کا دودھ پئیں تو اس سے حرمت ِرضاعت ثابت نہیں ہو گی،کیونکہ رضاعت کا اعتبار نسب میں ہوتا ہے اور جس طرح آدمی اور مویشیوں کے درمیان نسب قائم نہیں ہو سکتا،اسی طرح مویشیوں کا دودھ پینے سے حرمت ِرضاعت ثابت نہیں ہوتی۔لیکن صاحب ِ تاریخ، امام محمد بن اسماعیل بخاری کہتے تھے کہ اس طرح حرمت ثابت ہو جاتی ہے اور یہی مسئلہ ان کے بخاریٰ سے نکالے جانے کا سبب بنا۔ وہ بخاریٰ میں ابو حفص کبیر کے دَور میں آئے اور فتویٰ دینا شروع کر دیا۔ابو حفص نے انہیں منع کیا اور کہا کہ آپ افتاء کے اہل نہیں۔ اس کے باوجود امام صاحب فتویٰ دینے سے نہیں رُکے،حتی کہ آپ سے یہی مسئلہ دریافت کیا گیا تو آپ نے حرمت ثابت ہونے کا فتویٰ دیا۔ اس پر لوگ جمع ہو گئے اور آپ کو بخاریٰ سے نکال دیا۔‘‘
(المبسوط :297/30، تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق للزیلعي الحنفي : 186/2، البحرالرائق شرح کنز الدقائق لابن نجیم الحنفي : 246/3)
یہ کائنات کا سب سے بڑا جھوٹ ہے،جسے سرخسی حنفی نے وضع کیا ہے۔ دراصل یہ حضرات محدثین کے خلاف ایسی نامراد اور توہین آمیز کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ہمیشہ سے ان کا پروپیگنڈا رہا ہے کہ عوام الناس کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی جائے کہ محدثین مجتہدانہ شان نہیں رکھتے تھے اور فقہ اسلامی سے کورے تھے، دین سمجھانے کا ٹھیکہ تو ہم نے لے رکھا ہے۔حالانکہ یہ کم علم وعمل‘ حدیثیں انہی محدثین کرام سے لیتے ہیں۔

مکھی پر مکھی مارتے ہوئے شارحِ ہدایہ ،ابن ہمام حنفی(861-790ھ) نے تو حد ہی کر دی،لکھتے ہیں
:
وَمَنْ لَّمْ یَدِقَّ نَظَرُہٗ فِي مُنَاطَاتِ الْـأَحْکَامِ وَحِکَمِہَا، کَثُرَ خَطَؤُہٗ ۔ ’’جو شخص احکام کی علتوں اور حکمتوں میں دقت ِنظری سے کام نہیں لیتا، وہ بہت زیادہ غلطیاں کرتا ہے۔‘‘ (فتح القدیر : 457/3)
علامہ عبدالحی لکھنوی حنفیa(م: 1304ھ) اپنے اصحاب کی جہالت و کم فہمی پر یوں تبصرہ کرتے ہیں:
وَہِيَ حِکَایَۃٌ مَّشْہُورَۃٌ فِي کُتُبِ أَصْحَابِنَا، ذَکَرَہا أَیْضًا صَاحِبُ الْعِنَایِۃِ وَغَیْرُہٗ مِنْ شُرَّاحِ الْہِدَایَۃِ، لٰکِنِّي أَسْتَبْعِدُ وُقُوعَہَا بِالنِّسْبَۃِ إِلٰی جَلَالَۃِ قَدَرِ الْبُخَارِيِّ وَدِقَّۃِ فَہْمٍ وَّسِعَۃِ نَظْرِہٖ وَغَوْرِ فِکْرِہٖ، مِمَّا لَا یَخْفٰی عَلٰی مَنِ انْتَفَعَ بِصَحِیحِہٖ ۔
’’ہمارے اصحاب کی کتابوں میں یہ حکایت مشہور ہے۔صاحب ِعنایہ اور دیگر شارحین ہدایہ نے اسے ذکر کیا ہے۔لیکن میرے نزدیک امام بخاری کی جلالت ِقدر،دقت ِفہمی،وسعت ِنظری اور نکتہ شناسی کی موجودگی میں اس بات کا وقوع محال ہے۔ یہ ایسی بات ہے جو صحیح بخاری سے استفادہ کرنے والے شخص سے مخفی نہیں۔‘‘ (الفوائد البہیّۃ في تراجم الحنفیّۃ، ص : 18)

معلوم ہوا کہ ان حاسدوں نے امام بخاری کی صحیح کو پڑھا اور سمجھا ہی نہیں، ورنہ امام صاحب کی فقاہت اور ان کے اجتہاد کے حوالے سے اس طرح کی جھوٹی حکایات نہ گھڑتے۔محدثین کرام اس طرح کی باتوں سے مبرا ہیں۔
مضمون کا لنک
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
کہاجاتاہے آپ کی آزادی وہی تک ہے جہاں سے دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے،اگرکسی انسان کی آزادی کا دائرہ دوسرے انسان کے ناک کےدائرہ میں آجائے تو فوجداری کی دفعات کا ایک جرم اورقابل دست اندازی پولیس کیس بن جاتاہے۔
امام بخاری سےمحبت ہرمسلمان کم وبیش کرتاہے اورکرناچاہئے،لیکن جب یہ محبت دوسرے علماء کی توہین کا سبب بن جائے تواس کو محبت اورعقیدت مندی نہیں کہیں گے بلکہ ممدوح سے تعصب اور دوسروں سے نفرت کہاجائے گا جو کسی بھی مسلمان چہ جائے کہ جس اہل علم میں سمجھاجاتاہوہواس کےشایان شان سمجھاجائے۔
یہ کائنات کا سب سے بڑا جھوٹ ہے،جسے سرخسی حنفی نے وضع کیا ہے۔
اولا:توکائنات کا سب سے بڑاجھوٹ اللہ کےساتھ شرک اور کسی کو بیٹاقراردیناہے امام بخاری کی ذات کے بارے میں کچھ کہنانہیں ہے،توحید کی رٹ لگانے والے اسے یاد رکھیں۔امام بخاری عظیم ہستی ہیں، لیکن ان کی عظمت اتنی بڑی بھی نہیں ہے کہ ان کے تعلق سے کسی بات کو ’’کائنات کا سب سے بڑاجھوٹ‘‘کہاجائے۔
ثانیا:یہ کیسے معلوم ہواکہ یہ بات امام سرخسی نے وضع کی ہے؟یہ کیوں ممکن نہیں کہ ماقبل کے کسی عالم نے اس کو نقل کیاہو اورامام سرخسی نےمحض اس کو نقل کردیاہو۔
ثالثا:جتنی کتابوں میں بھی امام سرخسی کا ترجمہ موجود ہے،ان میں سے کسی نے ان پر اس طرح کے وضع کا الزام نہیں لگایا،تواتنی بڑی ان کے تعلق سے کیسے کہی جاسکتی ہے۔
رابعا:اگرکسی عالم کی کتاب میں کوئی غلط قول ملے توکیااس کو سب سے پہلے ’’وضع ‘‘ہی کہناچاہئے،کسی اورامکان کو ذہن ودل میں جگہ نہیں دینی چاہئے کہ ماقبل کے کسی عالم کا قول نقل کیاہوگا۔
خامسا:امام سرخسی کے سوانح نگاروں نے یہ وضاحت کی ہے کہ وہ ایک صاحب جرات عالم دین تھے، حق بات امیر اورحاکم کے سامنے میں جھجکتے نہیں تھے جیساکہ دورحاضر میں کئی فضیلۃ الشیوخ کا شیوہ ہے،اسی حق گوئی کی پاداش میں حاکم شہر نے ان کو اندھے کنویں میں قید کردیاتھااوراسی اندھے کنویں سے انہوں نے ’’کتاب المبسوط‘‘جیسی عظیم المرتبت اوررفیع القدر کتاب املاء کرائی،اسے سے جہاں ان کے تبحر علمی کااندازہ ہوتاہے،وہیں ان کے بے مثال قوت حافظہ کابھی قائل ہوناپڑتاہے۔
سادسا:امام سرخسی اسی خطے کے رہنے والے ہیں جہاں کے امام بخاری ہیں، بہت ساری باتیں ایسی ہوتی ہیں جو سینہ درسینہ نقل ہوتی رہتی ہیں،پھر امام سرخسی کا زمانہ امام بخاری سے کوئی آٹھ سو نوسوسال قدیم بھی نہیں ہے ،تواگرانہوں نے کوئی بات امام بخاری کے بارے میں نقل کردی ہے تواس پر اتناچراغ پاہوناکہ فریق مخالف کو وضع کے الزام سے نوازدیناکیاکوئی دانشمندانہ حرکت ہے؟یامحض شخصیت پرستی کانمنوہ اور جوش بے ہوش ہے؟
فائدہ:ائمہ محدثین کا کہناہےکہ حدیث حسن ظن کا احتمال نہیں رکھتی کہ محض راوی سے حسن ظن یاکسی اوروجہ سے کسی حدیث کی صحت وضعف پر حکم لگایاجائے لیکن شاید ہمارے برادران اہل حدیث نے اس دائرہ مین خود کوبھی شامل کرلیاہے یعنی وہ خود بھی کسی دوسرے عالم سےحسن ظن رکھنے کی زحمت گوارانہیں کرتے ،سب سے پہلے بدظنی کرتے ہیں اوراس کے نتیجے میں بدگوئی کرتے ہیں،یہی شکایت غیرمقلدین حضرات سے مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کو بھی تھی کہ ان میں دومرض بہت عام ہیں ایک بدگمانی اور دوسرے بدگوئی اوریہ صرف کسی حنفی عالم کی شکایت نہیں ہے دوسرے غیرمقلدین علماء نے بھی اپنے ہم مسلک افراد کی ان باتوں پر نکتہ چینی کی ہے۔
اللہ ہم سب کو بدگمانی اوربدگوئی کے مرض سے بچائے۔وباللہ التوفیق
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
کہاجاتاہے آپ کی آزادی وہی تک ہے جہاں سے دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے،اگرکسی انسان کی آزادی کا دائرہ دوسرے انسان کے ناک کےدائرہ میں آجائے تو فوجداری کی دفعات کا ایک جرم اورقابل دست اندازی پولیس کیس بن جاتاہے۔
امام بخاری سےمحبت ہرمسلمان کم وبیش کرتاہے اورکرناچاہئے،لیکن جب یہ محبت دوسرے علماء کی توہین کا سبب بن جائے تواس کو محبت اورعقیدت مندی نہیں کہیں گے بلکہ ممدوح سے تعصب اور دوسروں سے نفرت کہاجائے گا جو کسی بھی مسلمان چہ جائے کہ جس اہل علم میں سمجھاجاتاہوہواس کےشایان شان سمجھاجائے۔
یہ کائنات کا سب سے بڑا جھوٹ ہے،جسے سرخسی حنفی نے وضع کیا ہے۔
آپ دل پہ کیوں لیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آسان اور سیدھی سی بات ہے کہ :
اگر حنفی فقیہ جناب سرخسی نے جھوٹ نہیں بولا ۔۔۔تو آپ اس کا ثبوت پیش فرمادیں ۔۔۔
معاملہ صاف ہو جائے گا
آپ نے اتنی بڑی پوسٹ لگادی ۔۔لیکن ۔۔سوائے تقدیس کی دہائی کے ۔۔اپنے موقف میں کوئی دلیل پیش نہیں فرمائی !
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
آپ نے وضع کی کون سی دلیل پیش فرمائی ہے سوائے نفس قول کے ذکر کرنے کے؟
آپ کی اس پوسٹ سے صاف ظاہر ہے کہ :
حنفی فقیہ جناب سرخسی صاحب نے جو کہا اس کی کوئی دلیل موجود نہیں ،
کیونکہ اگر اس کی دلیل یا ثبوت کا وجود ہوتا تو آپ جیسا پختہ حنفی اسے پیش کرنے سے ہرگز دریغ نہ کرتا ۔
اس لئے ہمیں علامہ غلام مصطفی ظہیر صاحب کی تحریر پر یقین مزید پختہ ہوگیا ہے ۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
نفی فقیہ جناب سرخسی صاحب نے جو کہا اس کی کوئی دلیل موجود نہیں ،
دلیل ہے یانہیں ،دلیل قوی ہے یاضعیف،یہ الگ مسئلہ ہے لیکن یہ کہناکہ یہ بات امام سرخسی نے ’’وضع‘‘کی ہے یہ دوسری بات ہے۔
کسی قول کا بے دلیل ہونایاکمزورہونااس کو مستلزم نہیں کہ جس نے اس قول کو ذکر کیاہے اس نے وہ قول وضع بھی کیاہے اوراگراتنی بات آپ بھی تسلیم کرلیتے ہیں تو پھر بحث ہی ختم ہوجاتی ہے کیونکہ بنیادی بحث یہی ہے کہ کیایہ بات امام سرخسی نے ازخود وضع کی ہے؟اورمضمون نگارکی اسی بات پر میں نے اعتراض کیاہے۔وباللہ التوفیق
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اصل موضوع یہ ہے امام صاحب کی طرف جو بات منسوب کی گئی ہے وہ سچ ہے یا جھوٹ ؟
آپ کو اس بات سے شاید اتفاق ہے کہ یہ بات جھوٹ ہی ہے ، البتہ اختلاف یہ ہوا کہ امام سرخسی رحمہ اللہ کو وضاع کیوں کہا گیا ، اور لکھنے سے پہلے ناصحانہ انداز میں فرمایا :
کہاجاتاہے آپ کی آزادی وہی تک ہے جہاں سے دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے،اگرکسی انسان کی آزادی کا دائرہ دوسرے انسان کے ناک کےدائرہ میں آجائے تو فوجداری کی دفعات کا ایک جرم اورقابل دست اندازی پولیس کیس بن جاتاہے۔
لیکن آخر میں جاتے ہوئے تھانوی صاحب کا تحفہ بھی دے گئے ، حالانکہ اس کا موضوع سے کوئی تعلق نہیں تھا :
،یہی شکایت غیرمقلدین حضرات سے مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کو بھی تھی کہ ان میں دومرض بہت عام ہیں ایک بدگمانی اور دوسرے بدگوئی اوریہ صرف کسی حنفی عالم کی شکایت نہیں ہے دوسرے غیرمقلدین علماء نے بھی اپنے ہم مسلک افراد کی ان باتوں پر نکتہ چینی کی ہے۔
اللہ ہم سب کو بدگمانی اوربدگوئی کے مرض سے بچائے۔وباللہ التوفیق
حالانکہ ’’ بد گوئی‘‘ اور ’’ بد گمانی ‘‘ کسی مسلک یا مذہب کی صفت نہیں ، بلکہ یہ انسانوں کی صفات ہیں جو کسی بھی مذہب و مسلک کے لوگوں میں ہو بھی سکتی ہیں اور نہیں بھی ہوسکتی ۔
دوسروں کو طعنہ دینے کی بجائے اگر اپنے ارد گرد نظر دوڑا لیں تو آپ کے لیے حقیقت واضح ہو جائے گی ۔
 
Last edited:

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
بنیادی بات یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ ایسے عظیم مجتہد اور محدث پر اس قدر سطحی الزام کا باقاعدہ ثبوت پیش کرنا چاہیے؛اس باب میں دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں:
ایک یہ کہ اس کی باقاعدہ سند موجود ہو کیوں کہ علامہ سرخسیؒ اور حضرۃ الامام بخاریؒ کے مابین دو صدیوں سے زائد کا عرصہ حائل ہے؛ظاہر ہے سرخسیؒ نے خود تو امام المحدثین علیہ الرحمۃ کو یہ فتویٰ دیتے نہیں سنا کہ وہ تو موصوف کی پیدایش سے سیکڑوں سال پہلے ہی خداوند کریم کی بارگاہ میں پہنچ چکے تھے؛اب اگر سند موجود ہے تو پیش کی جائے !!
دوسری صورت یہ ہے کہ جناب سرخسیؒ نے سنی سنائی بات نقل کر دی اور اس کے متعلق نبوی وعید کو نظر انداز کر دیا اور یہ بھی نہ سوچا کہ کیا امام بخاریؒ سے ایسی نا معقول بات کی توقع بھی کی جا سکتی ہے؛ بہ ہر حال اس صورت میں یہ بہتان ہی قرار پاے گا!!
لیکن اس کے ساتھ میں یہ بھی گزارش کرنا چاہوں گا صاحب مضمون نے امام سرخسیؒ کے متعلق سخت الفاظ استعمال کیے ہیں جو بہتر انداز نہیں ہے(اور اسی لیے بحث اصل نکتے سے ہٹ رہی ہے)؛اصحاب الحدیث کا منہج یہ ہے کہ وہ دوسروں کی زیادتی اور ناروا لہجوں کے جواب میں عفو و درگزر اور وقار و شایستگی کا مظاہرہ کرتے ہیں تا ہم غلط الزامات کی حقیقت طشت از بام کرنے میں کوئی حرج نہیں تا کہ ارباب تقلید کا تعصب اور نامنصفانہ رویہ واضح ہو سکے اور ناواقف لوگ محدثین کرامؒ سے بدظن نہ ہو جائیں؛والسلام علیکم و رحمۃ اللہ
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
اصل موضوع یہ ہے امام صاحب کی طرف جو بات منسوب کی گئی ہے وہ سچ ہے یا جھوٹ ؟
ہرچیزکو سچ اورجھوٹ کے ترازوپر تولاجاتانہیں بسااوقات بہت سی باتیں صحیح اورغلط کے ترازومیں تولی جاتی ہیں، صحیح اورغلط اورسچ اورجھوٹ کے درمیان جوفرق ہے وہ آپ سے پوشیدہ نہیں ہوگا۔
کیامحدثین کی کتابوں میں اس طرح کےبے بنیاد اقوال نہیں ملتے ہیں،خود محدثین نے بسااوقات ایک دوسرے پرتعریض کی ہے کیایہاں بھی سچ اورجھوٹ اورسچے اورجھوٹے کاراگ الاپاجائے یاصحیح اورغلط کی بات کی جائے گی؟
امام مالک ابن اسحاق کو دجال من الدجاجلہ کہتے ہیں
فریابی ابن اسحاق کو زندیق کہتے ہیں
امام نسائی احمد مصری کو غیرثقہ قراردیتے ہیں
ابن مندہ اورابونعیم کی لڑائی کا حال ہرشخص جانتاہے
ابن ابی دائود اورامام جریرطبری کا مناقشہ کوئی مخفی چیز نہیں ہے
خودامام بخاری،امام ذہلی،اورابوزرعہ رازی اورابوحاتم رازی کے درمیان جو کچھ ہوا وہ کتب جرح وتعدیل میں موجود ہے،ابن مسلمہ نے امام بخاری پر ابن مدینی کی کتاب العلل کے سرقہ کا الزام لگایاہے
اس کے علاوہ دیگرمثالیں بھی بہت ہیں،امام ذہبی خود سیر اعلام النبلاء میں لکھتےہیں کہ اس موضوع پر ’’کراریس‘‘لکھے جاسکتےہیں۔
اب ایک شکل تویہ ہے کہ ان چیزوں کو ہم صحیح اورغلط کے دائرہ میں رکھیں اوردوسری چیز یہ ہے کہ ہروہ قول جوغلط نظرآئے اس کو سچ اورجھوٹ کے دائرے میں لاکر صاحب قول تک وسیع کردیں۔
امید ہے کہ ثانی الذکر شق آپ حضرات کوبھی پسند نہیں ہوگی توجوچیز آپ کو خود محدثین کے باب میں پسند نہیں ،وہ بات احناف کے باب میں کیوں کرپسند آجاتی ہے سمجھ سے باہر ہے؟
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
لیکن اس کے ساتھ میں یہ بھی گزارش کرنا چاہوں گا صاحب مضمون نے امام سرخسیؒ کے متعلق سخت الفاظ استعمال کیے ہیں جو بہتر انداز نہیں ہے
انداز کابہتر اورغیربہترہوناالگ مسئلہ ہے،ہرشخص کی تحریر کااپنااسلوب اورہرصاحب تحریر کا اپنامزاج سخت وگرم اورنرم وگداز ہوتاہے،اس سے بحث نہیں ،سوال یہ ہےکہ امام بخاری کےدفاع میں صاحب تحریر نے امام سرخسی پر جو وضع کاالزام لگایاہے کیاوہ درست ہے؟
 
Top