• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور فتنہ تکفیر :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
10683446_297296953727305_1611813891725317596_o.jpg


بسم اللہ الرحمن الرحیم



امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور فتنہ تکفیر :


محدثین کے ہاں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا جو مقام ہے وہ کسی سے مخفی نہیں امت نے امیر المومنین فی الحدیث کے طور پر قبول کیا ہے اور ان کی مایہ ناز تالیف ’’ الجامع الصحیح ‘‘ کو ’’ اصح الکتب بعد کتاب اللہ ‘‘ قرار دیا ہے ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ نے مسئلہ تکفیر میں وہی موقف اختیار کیا جو عام اہلسنت کا موقف ہے کہ لوگ دین دار ہیں اور شرائع اسلام پرعمل پیرا ہیں ، اس کے علاوہ وہ تمام انبیا کرام کو ماننے والے اور اللہ کی نازل کتابوں پر یقین رکھتے ہیں ، لیکن عقائد و نظریات میں سنگین ترین قسم کی خرابیوں کے مرتکب ہیں ، عقائد کی خرابی کسی انکار و تکذیب کیوجہ سے نہیں بلکہ معقول تاویل یا جہالت کیوجہ سے ہے ایسے لوگوں کو دین اسلام سے خارج قرار نہ دیا جائے اور نہ ہی کافر قرار کہا جائے بلکہ اس قسم کے لوگوں سے روایات لینے میں بھی نرم گوشہ رکھاجائے ، بشریطیکہ وہ عدالت و امانت سے موصوف ہوں ۔ صداقت و تقویٰ میں موصوف ہوں ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں اس موقف کے ثبوت و تائید میں کئی ایک اسلوب اور انداذ اختیار کیے ہیں جن کی ھم وضاحت کرتے ہیں تاکہ تکفیری و خارجی سوچ کے حاملین فیس بکی مجاہدین کو کچھ عقل آئے ۔

اگر کوئی انسان ایمان کے منافی کسی بات یا کسی عمل کا مرتکب ہوتا ہے اگر اس کا ارتکاب معقول تاویل یا جہالت کیوجہ سے کرتا ہے تو اسے دین اسلام سے خارج قرار نہیں دیا جا سکتا ہاں اگر کوئی دیدہ دانستہ ، بلا تاویل و جہالت کسی کفر پر مبنی بات یا کام کا مرتکب ہے تو بلاشبہ وہ کافر اور دین اسلام سے خارج ہے ، دوسرے الفاظ میں اپنے کیے گناہ کو حلال سمجھتا ہے اور اس پر اعتقاد رکھتا ہے ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں اپنی صحیح میں ایک باب بایں الفاظ قائم کیا ہے :


جو کوئی اپنے بھائی کو بلا تاویل کافر کہتا ہے وہ اپنے کہنے کے مطابق خود کافر ہو جاتا ہے
صحیح البخاری : کتاب الادب ، باب 73


پھر آپ نے اس بات کو ثابت کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو پیش کیا ہے ۔


آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جب کوئی اپنے (مسلمان) بھائی کو ( یا کافر ) کے الفاظ سے پکارتا ہے تو ان دونوں میں ایک ضرور کافر ہو جاتا ہے ‘‘(بخاری : الادب : 6103)

پھر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں ایک دوسرا باب بایں الفاظ قائم کیا ہے ۔ :


’’ جو شخص کسی دوسرے کو تاویل یا جہالت کیوجہ سے کافر کہتا ہے تو اس صورت میں خود کافر نہیں ہوگا
صحیح البخاری : کتاب الادب : 73


امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو ثابت کرنے کے لیے سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا واقعہ پیش کیا ہے : ۔


انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سیدنا حاطب بن ابی بلتعہؓ کو منافق قرار دیدیا تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کا دفاع تو کیا لیکن رد عمل کے طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کافر یا منافق نہیں کہا ۔ کیونکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں معقول تاویل کی بنا پر منافق کہا تھا کہ انہوں نے اہل مکہ کے نام ایک خط رسید کر دیا تھا جس میں اسلام اور اہل اسلام کے خلاف ایک اہم راز کا افشا تھا ، ایسا کرنا کفار سے دوستی کے مترادف ہے ، چونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک معقول تاویل کیوجہ سے انہیں منافق کہا تھا اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کافر یا منافق قرار نہیں دیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حاطب رضی اللہ عنہ کے دفاع پر اکتفا کیا کہ جو لوگ غزوہ بدر میں شریک ہو چکے ہیں اللہ ان سب کو معاف فرماتا ہے ۔( صحیح البخاری : المغازی : 3983 )

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے موقف کو مضبوط کرنے کے لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا وہ واقعہ بھی پیش کیا جس میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے باپ کی قسم اٹھائی تھی ، چونکہ آپؓ کا یہ اقدام لا علمی کیوجہ سے تھا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی کہ ’’ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے باپ دادا کی قسم اٹھانے سے منع فرماتا ہے اگر کسی نے قسم اٹھانی ہے تو اللہ کی قسم اٹھائے‘‘ صحیح البخاری : الادب : 6108

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی لا علمی کے پیش نظر انہیں کافر یا مشرک قرار نہیں دیا ، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ : ۔

’’ جس نے اللہ کے علاوہ کسی غیر شے کی قسم اٹھائی اس نے کفر اور شرک کیا ‘‘ مسند امام احمد : ص ۔125۔۔ج : 2۔۔۔

ان تمام احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی معقول تاویل یا جہالت کیوجہ سے کافرانہ اقدام یا کفریہ بات کرتا ہے تو اس کو کافر نہیں کہا جا سکتا ۔ نہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔

امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک فتنہ پرور بدعتی کی اقتدا میں نماز جائز ہے چنانچہ آپ رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان قائم کیا ہے :۔


’’ فتنہ انگیز اور بدعتی کی امامت کا بیان ‘‘ ۔۔۔۔۔صحیح البخاری ۔ الاذان۔باب:56 )

اس کے بعد آپ رحمہ اللہ نے حسن بصری رحمہ اللہ کا ایک جواب نقل کیا ہے ۔ آپ سے سوال ہوا کہ بدعتی کی اقتدا میں نماز پڑھنا کیسا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : ’’ اس کے پیچھے نماز پڑھو بدعت کا وبال اُسی کے سر ہوگا۔


پھر آپ رحمہ اللہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ایک واقعے سے استدلال کیا ہے کہ جبکہ آپ رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں محصور تھے اور مدینہ منورہ پر فساد انگیز اور فتنہ پرور لوگوں کا قبضہ ہو چکا تھا اور مسجد نبوی میں بھی انہوں نے اپنا امام تعینات کر دیا تھا ، لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ تمام حالات آپکے سامنے ہیں ، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک فتنہ پرور شخص امامت کروا رہا ہے اور ھم اس کے پیچھے نماز پڑھنے میں حرج محسوس کر رہے ہیں ۔

آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نماز کی ادائیگی لوگوں کے اچھے اعمال سے ہے اگر وہ اچھا کام کرتے ہیں تو تم بھی اچھائی میں ان کے ہمراہ شریک ہو جاؤ اگر وہ برا کام کریں تو ان کی برائی سے اجتناب کرو ۔
( صحیح البخاری : کتاب الاذان : 690)

واضح رہے کہ امام فتنہ سے مراد کنانہ بن بشر ہے جو فتنہ میں خوارج کے سرداروں میں سے تھا ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اس فتوے کی صحابہ کرام میں سے کسی نے مخالفت نہیں کی ، اگر خوارج کے فتنہ پرور اور بدعتی لوگ دین اسلام سے خارج ہوتے تو سیدنا عثمان بن عفانؓ ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا فتویٰ نہ دیتے ۔

اِ مام بخاری رحمہ اللہ کے اس اسلوب و انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ تکفیر کے معاملہ میں آپ رحمہ اللہ بہت ہی محتاط تھے ۔ آج موجودہ خوارج کے پاس مسلمانوں کی تکفیر کر نے کے لیے جو جو پہلو ہیں وہ سب ان سے زیادہ خطرناک نہیں لیکن پھر بھی خوارج اپنے آباؤ اجداد کی روش پر قائم رہتے ہوئے مسلمانوں کی تکفیر کر کے عسکری خروج کرتے ہیں اور اہل اسلام کو قتل کرتے ہیں بت پرستوں کو اور حربی کافروں کو چھوڑ کر۔

معمولی جرائم کیوجہ سے کسی مسلمان کو کافر قرار دینا امام بخاری رحمہ اللہ کا منہج نہیں تھا ۔ وھو المقصود۔
امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک کفر، ظلم اور امور جاہلیت کی چند ایک اقسام ہیں ، ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جن کے ارتکاب سے انسان دین اسلام سے خارج نہیں ہوتا چنانچہ آپ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان باندھا ہے :


خاوند کی ناشکری کرنا اور کفر کی چند اقسام ہیں ‘‘بخاری : کتاب الایمان ، باب : 21)

پھر آپ نے وہ حدیث بیان کی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاوند کی ناشکری پر کفر کا اطلاق کیا ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثر عورتوں کو جہنم میں دیکھا تو آپ نے ان کو خبردارکیا کہ کیا تم اپنے خاوند کی نا شکری کرتی ہو ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ یہ برتاؤ کیا ہے ۔ بخاری ، کتاب الایمان۔ باب:22

اس عنوان کو ثابت کرنے کے لیے آپ نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کا واقعہ نقل کیا ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو اس کی ماں کی وجہ سے عار دلوائی ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس کا ذکر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا :
تو ایسا شخص ہے کہ جس میں ابھی بھی جاہلیت کی خو بو باقی ہے ‘‘
کتاب الایمان ۔ باب : 30۔ بخاری کا باب ہے

امام بخاری رحمہ لالہ کا موقف واضح ہے کہ تکفیر بہت ہی خطرناک شے ہے ، معمولی گناہوں کے ارتکاب پر کسی کو کافر قرار دینا دانشمندانہ قدم نہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کو جاہلیت کی عادت سے خبردار کیا انہیں کافر قرار نہیں دیا ۔


آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ظلم کی اقسام بتانے کے لیے ایک عنوان باندھا ہے کہ ظلم بھی کئی طرح کا ہوتا ہے ۔ کتاب الایمان ۔ باب :23

پھر آپ نے ظلم کی ایک قسم ایسی بتائی ہے جو شرک کے مترادف اور نا قابل معافی ہے ۔ چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی :

الذین اٰمنو ا ولم یلبسو ا ایمانھم بظلم اُلئک لھم الامن وھم مھتدون۔
’’ جو لوگ ایمان لائے پھر اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہیں کیا ، انہی کے لیے امن و سلامتی ہے ، یہی ہدایت یافتہ ہیں ‘‘الانعام : 82

تو صحابہ نے فرمایا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کون ہے جس نے ظلم نہ کیا ہو ؟ اس ظلم کی وضاحت کے لیے اللہ نے پھر یہ آیت نازل فرمائی کہ :

ان الشرک لظم عظیم ۔ ’’ بیشک شرک بہت بڑا ظلم ہے ‘‘۔ لقمان: 13

یعنی اس آیت میں مذکورہ ظلم شرک ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں لعن مطلق اور لعن معین کے درمیان فرق کو واضح کیا ہے یعنی کسی معصیت کے ارتکاب پر مطلق طور پر لعنت کرنا تو سہی اور جائز ہے لیکن کسی مرتکب گناہ کو نامزد کر کے لعنت کرنا سہی نہیں ہے ۔ اس لیے آپ ؒ نے اس سلسلہ میں ایک باب قائم کیا ہے ۔


’’ شراب نوشی کرنے والے کو نامزد کر کے لعنت کرنا ایک نا پسندیدہ فعل ہے اور شراب نوشی ہے کوئی شخص ملت اسلامیہ کے خارج نہیں ہوتا ‘‘
( بخاری ۔ کتاب الحدود ، باب :5)


پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث بیان کی کہ ایک شرابی کو جب حد لگائی گئی تو کسی نے اس پر لعنت کی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اس پر لعنت نہ کرو ، اللہ کی قسم ! یہ شخص اللہ اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہے‘‘
( بخاری : کتاب الحدود۔ باب :6780)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


تبصرہ :

مندرجہ بالا تمام مواد جو امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے مہیا کیا ہے سے واضح ثابت ہے کہ موجودہ تکفیری و خارجی اپنے دلائل میں جھوٹے اور حد درجے کے فاسق ہیں ، یہی لوگ بدعتی ہیں ۔ کیونکہ شریعت اسلامیہ میں جن سزاؤں کیوجہ سے اور جن گناہوں کی وجہ سے مسلمان کو کافر قرار نہیں دیا جا سکتا یہ خوارج انہی گناہوں پر عوام الناس کی تکفیر کر کے ان کے قتل کو حلال سمجھتے ہیں ۔ لہذا یہ نبی اکرم ؐ اور صحابہ کے عدل و انصاف پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں ۔شریعت کے نفاذ کی آڑ میں بدعتوں کو رواج دیکر مسلمان ملکو ں کو ہی کشت و خون میں ڈبو دیتے ہیں ۔ نہ صرف اِمام بخاری ؒ بلکہ تمام اسلاف نے مسئلہ تکفیر پر انتہائی مدلل انداز میں مواد مہیا کیا اور محتاط رہے ۔ موجودہ خوارج اور تکفیری کسی کی تکفیر کرنے میں کسی احتیاط کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتے ، بلکہ جو آیات مشرکین کفار کے لیے نازل ہوئیں ان کا اطلاق عام مسلمانوں پر کر تے اور ان کو قتل کرتے ہیں ۔ آپ پڑھ لیجیے کہ خوارج کون ہیں ؟ نشانیاں کیا ہیں ؟ موجودہ تحریک طالبان پاکستان اور الدولۃ الاسلامیہ فی العراق والشام جیسی تحریکیں جو طاقت کے باو جود حقیقی حربی کفار ہے جہاد کرنے سے قاصر ہیں اور مسلمانوں کا قتل کر کے اپنے دامن کو گندا کر رہے ہیں یہ تمام نشانیاں ان پر اس طرح صادق آتی ہیں کہ پیارے نبی ؐ کے احادیث کی سچائی پر ایک سہی منہج رکھنے والا مسلمان بھی رشک کرتا ہے ۔

اس کتاب کو PDF میں ڈاؤنلوڈ کریں ۔
کتاب کا لنک : http://tinyurl.com/k68mjob
 
Top