• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام بخاری کے شیعہ راوی اور احادیث

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بہرام صاحب !میزان الاعتدال کے لگتا ہے آپ کافی مطالعہ رکھتے ہیں
اسی کتاب کے ترجمہ نمبر دو کو غور سے پڑھیں اور محدثین منہج سمجھنے کی کوشش کریں امام ذہبی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :
أبان بن تغلب الكوفي شيعي جلد، لكنه صدوق، فلنا صدقه وعليه بدعته وقد وثقه أحمد بن حنبل، وابن معين، وأبو حاتم، وأورده ابن عدي، وقال: كان غاليا في التشيع. وقال السعدي: زائغ مجاهر.
فلقائل أن يقول: كيف ساغ توثيق مبتدع وحد الثقة العدالة والإتقان؟ فكيف يكون عدلا من هو صاحب بدعة؟
وجوابه أن البدعة على ضربين: فبدعة صغرى كغلو التشيع، أو كالتشيع بلا غلو ولا تحرف، فهذا كثير في التابعين وتابعيهم مع الدين والورع والصدق.
فلو رد حديث هؤلاء لذهب جملة من الآثار النبوية، وهذه مفسدة بينة.
ثم بدعة كبرى، كالرفض الكامل والغلو فيه، والحط على أبي بكر وعمر رضي الله عنهما، والدعاء إلى ذلك، فهذا النوع لا يحتج بهم ولا كرامة.
وأيضاً فما أستحضر الآن في هذا الضرب رجلا صادقا ولا مأمونا، بل الكذب شعارهم، والتقية والنفاق دثارهم، فكيف يقبل نقل من هذا حاله! حاشا وكلا.
فالشيعي الغالي في زمان السلف وعرفهم هو من تكلم في عثمان والزبير وطلحة ومعاوية وطائفة ممن حارب عليا رضي الله عنه، وتعرض لسبهم.
والغالي في زماننا وعرفنا هو الذي يكفر هؤلاء السادة، ويتبرأ من الشيخين أيضاً، فهذا ضال معثر


محدثین نے کتب مصطلح میں یہ مسئلہ بڑی وضاحت سے لکھا ہے لہذا کسی کتاب سے بدعتی یا فاسق کی روایت کے قبول اور عدم قبول کے سلسلے میں جو وضاحتیں ہیں ان کو ذہن میں رکھیں ۔
یہ سوال صر ف میں اپنی معلومات میں اضافہ کے لئے پوچھ رہا ہوں اگر جواب عنایت کریں تو نوازش ہوگی ۔
کیا یہ امر مسلم ہے کہ کسی شیعہ حافظ ،صادق و صدوق اور ثقہ راوی سے محدیثیں مناقب آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرتی ہوئی حدیث پر صحیح کا حکم نہیں لگاتے بلکہ اس حدیث کو ضیف میں شمار کرتے ہیں ؟؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
یہ سوال صر ف میں اپنی معلومات میں اضافہ کے لئے پوچھ رہا ہوں اگر جواب عنایت کریں تو نوازش ہوگی ۔
کیا یہ امر مسلم ہے کہ کسی شیعہ حافظ ،صادق و صدوق اور ثقہ راوی سے محدیثیں مناقب آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرتی ہوئی حدیث پر صحیح کا حکم نہیں لگاتے بلکہ اس حدیث کو ضعیف میں شمار کرتے ہیں ؟؟
بھائی آ پ جانتےہوں گے اگر نہیں تو سمجھ لیں کہ کسی بھی راوی کے مقبول ہونے کے لیے دو بنیادی شرطیں ہیں :
١۔ اس کا حافظہ قابل اعتماد ہو
٢۔ صاحب عدالت ہو ۔
ہمارا زیر بحث مسئلہ دوسری شرط سے متعلق ہے ۔ کیونکہ عدالت کی شرط سے بدعتی رواۃ خارج ہوجاتے ہیں ۔ اور تشیع یا رفض ایک بدعت ہے لہذا اصل یہ ہے کہ کسی بھی شیعہ یا رافضی کی روایت کو قبول نہیں کیا جائے گا چاہے وہ حفظ و ضبط کا پہاڑ ہی کیوں نہ ہو ۔
لیکن بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی کیونکہ مبتدعہ کی بہت ساری اقسام ہیں مختلف اصناف ہیں کچھ ایسے ہیں جن کی بدعت ان کی روایت پر اثر انداز نہیں ہوتی یا وہ کسی بدعت صغری میں مبتلا ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ وہ نیک صادق اللہجہ اور دین دار ہوتے ہیں جبکہ کچھ رواۃ اس کے بر عکس ہوتے ہیں اور جھوٹ بولنا اور تقیہ کرنا ان کے نزدیک جزو ایمان ہے جیساکہ حافظ ذہبی کے کلام میں یہ بات گزری ۔
ایسی صورت میں نہ تو بدعتی کی روایت پر مطلقا رد کا حکم لگایا جا سکتا ہے کیونکہ بہت ساری احادیث صحیحہ کے رد ہونے کا خدشہ ہے ۔
اور نہ ہی سب بدعتیوں کی روایات کو تسلیم کیا جا سکتا ہے کیونکہ خطرہ ہے کہ بہت ساری بدعات سنت کے نام پر امت کا بیڑا غرق کردیں گی ۔
اس لیے محدثین نے اس سلسلے میں کچھ شروط ذکر کیں کہ کن کن بدعتیوں کی روایات کن کن حالات میں قبول ہوں گی (علوم الحدیث لابن الصلاح اور اس کے متعلقات میں تفصیل ملاحظہ کی جا سکتی ہے )اس سلسلے میں جو راحج مذہب اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ بدعتی کی روایت چند شرائط کے ساتھ مقبول ہے
١۔ صادق اللہجۃ ہونا چاہیے ۔ جھوٹ بولنا جائز نہ سمجھتا ہو۔
٢۔ بدعت مکفرہ میں مبتلا نہ ہو ۔
٣۔ بدعت کی طرف دعوت نہ دیتا ہو ۔
٤۔ اس کی روایت میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے اس کے بدعتی مذہب کی تائید ہو رہی ہو ۔
یہ موٹی موٹی شرائط ہیں جن کی موجودگی میں کسی بدعتی کی روایت کو قبول کیا جائے گا ۔ لیکن ایک بات ذہن میں رکھیں چونکہ یہ دو جمع دو برابر چار حساب کے قواعد نہیں لہذا بعض جگہوں پر محدثین نے ان قواعد سے اختلاف بھی کیا ہے مطلب کئی جگہوں پر ان شرائط سے تساہل کیا ہے اور بعض مقامات پرتشدد بھی کیا ہے اور یہ سب کچھ دلائل و قرائن کے ساتھ تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ یہ خواہشات نفس کی پیروی ہے ۔
رہا صحیح بخاری میں شیعہ و دیگر بدعتیوں کی روایات تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ موجود ہیں بلکہ بعض ایسے بدعتی بھی جو مذکورہ شرائط پر پورے نہیں اترتے لیکن پھر بھی ان کی روایات کو نقل کیا گیا ہے ۔
چنانچہ محدثین نے امام بخاری کی صحیح کا تتبع کر کے بدعتی کے بارے میں ان کا موقف سمجھنے کی کوشش کی ہے اور امام بخاری کے اس سلسلے میں معیار کا کھوج لگایا ہے جو کہ درج ذیل نقاط میں بیان کیا جا سکتا ہے :
١۔ بدعت مکفرہ والا راوی کوئی نہیں ہے ۔
٢۔ اکثر ان میں سے غیر داعی ہیں کچھ ایسے ہیں جو داعی تھے لیکن پھر توبہ کر چکے تھے ۔
٣۔ اکثر روایات متابعات و شواہد میں ہیں ۔
٤۔ بعض ایسے ہیں جن کا بدعتی ہونا ہی ثابت نہیں ۔
تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں باحث أبو بکر الکافی کا رسالہ (منہج الإمام البخاری فی تصحیح الأحادیث و تعلیلہا ص ١٠٥ خاصۃ )
یہ تو تھی عمومی بات ۔۔۔ ہم اپنے موضوع کے مزید قریب ہوتے ہیں اور آپ سےگزارش کرتے ہیں کہ آپ شیعہ کی کچھ ایسی روایات پیش کریں جنکو محدثین نے رد کردیا یا قبول کر لیا اور آپ کا موقف اس کے برعکس ہے تاکہ اس سلسلے میں قبول و رد کی توجیہ بیان کی جا سکے ۔

آخر میں آپ کےسوال کے حوالے سے بالخصوص عرض کیے دیتا ہوں اگرچہ مذکورہ تفصیل میں اس کی وضاحت موجود ہے کہ :
کہ آپ کوئی اس طرح کی روایت کو پیش کریں پھر محدثین کے اس سلسلے میں احکام کو مدنظر رکھ کر اس کے قبول یا رد کا فیصلہ کیا جائے گا اور ہر دو صورتوں میں توجیہ بھی بیان کرنے کی کوشش کریں گے ۔
 
شمولیت
مئی 02، 2012
پیغامات
40
ری ایکشن اسکور
210
پوائنٹ
73
حضرت امیر معاویہ رضٰ اللہ عنہ سے متعلق روایت کا ایک راوی علی بن زید بن جدعان ہے۔ حدیث کا ادنی طالب علم بھی جانتا ہے کہ اس کی روایات کی کوئی حٰثیت نہیں ۔ بندہ صرف اس کانام دیکھ کر روایت کے کھوکھلے ہونے کو جان گیا ہے اور امام ذہبی نے کس پیرائے میں ذکر کیا ہےاس کا بہرام بھائی نے ذکر نہیں کیا۔ ائمہ ضعیف روایات بھی ذکرکرتے رہتے ہیں ان کے ضعف کو ظاہر کرنے کیلئے ۔ وقت ملا تو ان شاء اللہ دیکھ کر ذکرکروں گا۔حضرت معاویہ سے متعلق شیعوں نے مذمت کی اور امویوں نے محبت کی احادیث وضع کر رکھی ہیں اس میں تو کوئی شک نہیں۔
 
شمولیت
مئی 02، 2012
پیغامات
40
ری ایکشن اسکور
210
پوائنٹ
73
نیز اس کا شیعہ ہونا ائمہ نے تسلیم کیا ہے اور امام ذہبی میزان میں اس کی منکر روایات نقل فرماتے ہیں۔ اکثر ائمہ نے اس پر جرح کی ہے اور اس کی روایات سے حجت نہیں لیتے
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
٤۔ اس کی روایت میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے اس کے بدعتی مذہب کی تائید ہو رہی ہو ۔
لیکن ایک بات ذہن میں رکھیں چونکہ یہ دو جمع دو برابر چار حساب کے قواعد نہیں لہذا بعض جگہوں پر محدثین نے ان قواعد سے اختلاف بھی کیا ہے مطلب کئی جگہوں پر ان شرائط سے تساہل کیا ہے اور بعض مقامات پرتشدد بھی کیا ہے اور یہ سب کچھ دلائل و قرائن کے ساتھ تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ یہ خواہشات نفس کی پیروی ہے ۔
اگر میں غلط ہوں تو میری تصحیح فرما دیجئے گا
محدثین کے نزدیک راوی کے بدعتی ہونے کے باوجود اس سے ایسی روایت لی جاسکتی ہے جو اس کے بدعتی مذھب کی تائید کر رہی ہو کیونکہ یہ دو جمع دو برابر چار حساب کے قواعد نہیں ۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
اگر میں غلط ہوں تو میری تصحیح فرما دیجئے گا
محدثین کے نزدیک راوی کے بدعتی ہونے کے باوجود اس سے ایسی روایت لی جاسکتی ہے جو اس کے بدعتی مذھب کی تائید کر رہی ہو کیونکہ یہ دو جمع دو برابر چار حساب کے قواعد نہیں ۔
ہوسکتا ہے یہ بدعتی روافض کے فرقہ زیدیہ سے ہو۔۔۔
جو حضرت ابوبکر، حضرت عمر، اور حضرت عثمان رضی اللہ عنھما کو خلیفہ برحق تسلیم کرتے ہیں۔۔۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
ہوسکتا ہے یہ بدعتی روافض کے فرقہ زیدیہ سے ہو۔۔۔
جو حضرت ابوبکر، حضرت عمر، اور حضرت عثمان رضی اللہ عنھما کو خلیفہ برحق تسلیم کرتے ہیں۔۔۔
یعنی مدار ثقاھت خلفہ ثلاثہ کو برحق تسلیم کرنا ہوا ۔ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
یعنی مدار ثقاھت خلفہ ثلاثہ کو برحق تسلیم کرنا ہوا ۔ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا جواب تو فرقہ زیدیہ ہی بہترین ڈھنگ سے دے پائیں گے۔۔۔
کیونکہ گھر کے بھیدی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ زیرغور!۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
لیکن بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی کیونکہ مبتدعہ کی بہت ساری اقسام ہیں مختلف اصناف ہیں کچھ ایسے ہیں جن کی بدعت ان کی روایت پر اثر انداز نہیں ہوتی یا وہ کسی بدعت صغری میں مبتلا ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ وہ نیک صادق اللہجہ اور دین دار ہوتے ہیں جبکہ کچھ رواۃ اس کے بر عکس ہوتے ہیں اور جھوٹ بولنا اور تقیہ کرنا ان کے نزدیک جزو ایمان ہے جیساکہ حافظ ذہبی کے کلام میں یہ بات گزری ۔
پھر یہ کیا ہے اس سے ایسا لگ رہا ہے کہ امام بخاری بھی تقیہ کے قائل ہیں !
وقول الله تعالى ‏ {‏ إلا من أكره وقلبه مطمئن بالإيمان ولكن من شرح بالكفر صدرا فعليهم غضب من الله ولهم عذاب عظيم‏}‏ وقال ‏ {‏ إلا أن تتقوا منهم تقاة‏}‏ وهى تقية وقال ‏ {‏ إن الذين توفاهم الملائكة ظالمي أنفسهم قالوا فيم كنتم قالوا كنا مستضعفين في الأرض‏}‏ إلى قوله ‏ {‏ عفوا غفورا‏}‏ وقال ‏ {‏ والمستضعفين من الرجال والنساء والولدان الذين يقولون ربنا أخرجنا من هذه القرية الظالم أهلها واجعل لنا من لدنك وليا واجعل لنا من لدنك نصيرا‏}‏ فعذر الله المستضعفين الذين لا يمتنعون من ترك ما أمر الله به،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ والمكره لا يكون إلا مستضعفا غير ممتنع من فعل ما أمر به‏.‏ وقال الحسن التقية إلى يوم القيامة‏.‏ وقال ابن عباس فيمن يكرهه اللصوص فيطلق ليس بشىء،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وبه قال ابن عمر وابن الزبير والشعبي والحسن‏.‏ وقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ الأعمال بالنية ‏"‏‏.

ترجمہ از داؤد راز
جس پر زبردستی کی جائے اور درآنحالیکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو لیکن جس کا دل کفر ہی کے لیے کھل جائے تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہو گا اور ان کے لیے عذاب دردناک ہو گا اور سورۃ آل عمران میں فرمایا یعنی یہاں یہ ہو سکتا ہے کہ تم کافروں سے اپنے کو بچانے کے لیے کچھ بچاؤ کر لو۔ ظاہر میں ان کے دوست بن جاؤ یعنی تقیہ کرو۔ اور سورۃ نساء میں فرمایا بیشک ان لوگوں کی جان جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کر رکھا ہے جب فرشتے قبض کرتے ہیں تو ان سے کہیں گے کہ تم کس کام میں تھے وہ بولیں گے کہ ہم اس ملک میں بے بس تھے اور ہمارے لیے اپنے قدرت سے کوئی حمایتی کھڑا کردے-----آخر آیت تک۔ امام بخاری نے کہا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کمزور لوگوں کو اللہ کے احکام نہ بجالانے سے معذور رکھا اور جس کے ساتھ زبردستی کی جائے وہ بھی کمزور ہی ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس کام سے منع کیا ہے وہ اس کے کرنے پر مجبور کیا جائے۔ اور امام حسن بصری نے کہا کہ تقیہ کا جواز قیامت تک کے لیے ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جس کے ساتھ چوروں نے زبردستی کی ہو (کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دیدے) اور پھر اس نے طلاق دے دی تو وہ طلاق واقع نہیں ہو گی یہی قول ابن زبیر، شعبی اور حسن کا بھی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اعمال نیت پر موقوف ہیں۔
صحیح بخاری ،کتاب الاکراہ ،باب: اللہ تعالیٰ نے فرمایا مگر اس پر گناہ نہیں کہ
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
سوال
یہ سوال صر ف میں اپنی معلومات میں اضافہ کے لئے پوچھ رہا ہوں اگر جواب عنایت کریں تو نوازش ہوگی ۔
کیا یہ امر مسلم ہے کہ کسی شیعہ حافظ ،صادق و صدوق اور ثقہ راوی سے محدیثیں مناقب آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرتی ہوئی حدیث پر صحیح کا حکم نہیں لگاتے بلکہ اس حدیث کو ضیف میں شمار کرتے ہیں ؟؟
جواب
بھائی آ پ جانتےہوں گے اگر نہیں تو سمجھ لیں کہ کسی بھی راوی کے مقبول ہونے کے لیے دو بنیادی شرطیں ہیں :
١۔ اس کا حافظہ قابل اعتماد ہو
٢۔ صاحب عدالت ہو ۔
ہمارا زیر بحث مسئلہ دوسری شرط سے متعلق ہے ۔ کیونکہ عدالت کی شرط سے بدعتی رواۃ خارج ہوجاتے ہیں ۔ اور تشیع یا رفض ایک بدعت ہے لہذا اصل یہ ہے کہ کسی بھی شیعہ یا رافضی کی روایت کو قبول نہیں کیا جائے گا چاہے وہ حفظ و ضبط کا پہاڑ ہی کیوں نہ ہو ۔
لیکن بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی کیونکہ مبتدعہ کی بہت ساری اقسام ہیں مختلف اصناف ہیں کچھ ایسے ہیں جن کی بدعت ان کی روایت پر اثر انداز نہیں ہوتی یا وہ کسی بدعت صغری میں مبتلا ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ وہ نیک صادق اللہجہ اور دین دار ہوتے ہیں جبکہ کچھ رواۃ اس کے بر عکس ہوتے ہیں اور جھوٹ بولنا اور تقیہ کرنا ان کے نزدیک جزو ایمان ہے جیساکہ حافظ ذہبی کے کلام میں یہ بات گزری ۔
ایسی صورت میں نہ تو بدعتی کی روایت پر مطلقا رد کا حکم لگایا جا سکتا ہے کیونکہ بہت ساری احادیث صحیحہ کے رد ہونے کا خدشہ ہے ۔
اور نہ ہی سب بدعتیوں کی روایات کو تسلیم کیا جا سکتا ہے کیونکہ خطرہ ہے کہ بہت ساری بدعات سنت کے نام پر امت کا بیڑا غرق کردیں گی ۔
اس لیے محدثین نے اس سلسلے میں کچھ شروط ذکر کیں کہ کن کن بدعتیوں کی روایات کن کن حالات میں قبول ہوں گی (علوم الحدیث لابن الصلاح اور اس کے متعلقات میں تفصیل ملاحظہ کی جا سکتی ہے )اس سلسلے میں جو راحج مذہب اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ بدعتی کی روایت چند شرائط کے ساتھ مقبول ہے
١۔ صادق اللہجۃ ہونا چاہیے ۔ جھوٹ بولنا جائز نہ سمجھتا ہو۔
٢۔ بدعت مکفرہ میں مبتلا نہ ہو ۔
٣۔ بدعت کی طرف دعوت نہ دیتا ہو ۔
٤۔ اس کی روایت میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے اس کے بدعتی مذہب کی تائید ہو رہی ہو ۔
یہ موٹی موٹی شرائط ہیں جن کی موجودگی میں کسی بدعتی کی روایت کو قبول کیا جائے گا ۔ لیکن ایک بات ذہن میں رکھیں چونکہ یہ دو جمع دو برابر چار حساب کے قواعد نہیں لہذا بعض جگہوں پر محدثین نے ان قواعد سے اختلاف بھی کیا ہے مطلب کئی جگہوں پر ان شرائط سے تساہل کیا ہے اور بعض مقامات پرتشدد بھی کیا ہے اور یہ سب کچھ دلائل و قرائن کے ساتھ تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ یہ خواہشات نفس کی پیروی ہے ۔
رہا صحیح بخاری میں شیعہ و دیگر بدعتیوں کی روایات تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ موجود ہیں بلکہ بعض ایسے بدعتی بھی جو مذکورہ شرائط پر پورے نہیں اترتے لیکن پھر بھی ان کی روایات کو نقل کیا گیا ہے ۔
چنانچہ محدثین نے امام بخاری کی صحیح کا تتبع کر کے بدعتی کے بارے میں ان کا موقف سمجھنے کی کوشش کی ہے اور امام بخاری کے اس سلسلے میں معیار کا کھوج لگایا ہے جو کہ درج ذیل نقاط میں بیان کیا جا سکتا ہے :
١۔ بدعت مکفرہ والا راوی کوئی نہیں ہے ۔
٢۔ اکثر ان میں سے غیر داعی ہیں کچھ ایسے ہیں جو داعی تھے لیکن پھر توبہ کر چکے تھے ۔
٣۔ اکثر روایات متابعات و شواہد میں ہیں ۔
٤۔ بعض ایسے ہیں جن کا بدعتی ہونا ہی ثابت نہیں ۔
تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں باحث أبو بکر الکافی کا رسالہ (منہج الإمام البخاری فی تصحیح الأحادیث و تعلیلہا ص ١٠٥ خاصۃ )
یہ تو تھی عمومی بات ۔۔۔ ہم اپنے موضوع کے مزید قریب ہوتے ہیں اور آپ سےگزارش کرتے ہیں کہ آپ شیعہ کی کچھ ایسی روایات پیش کریں جنکو محدثین نے رد کردیا یا قبول کر لیا اور آپ کا موقف اس کے برعکس ہے تاکہ اس سلسلے میں قبول و رد کی توجیہ بیان کی جا سکے ۔

آخر میں آپ کےسوال کے حوالے سے بالخصوص عرض کیے دیتا ہوں اگرچہ مذکورہ تفصیل میں اس کی وضاحت موجود ہے کہ :
کہ آپ کوئی اس طرح کی روایت کو پیش کریں پھر محدثین کے اس سلسلے میں احکام کو مدنظر رکھ کر اس کے قبول یا رد کا فیصلہ کیا جائے گا اور ہر دو صورتوں میں توجیہ بھی بیان کرنے کی کوشش کریں گے ۔
اب میرے اس سوال کو معکوس کرکے پیش کرتا ہوں کہ اگر کسی حدیث کی روایت میں تمام راوی بنو امیہ کے وظیفہ خور ہو اور روایت بھی بنو امیہ کے حکمرانوں کے مناقب بیان کرتی ہو اور تمام محدیثین اس پر صحیح کا حکم اپنے کس خود ساختہ اصول حدیث کی بناء پر لگاتے ہیں مثلا جیسے آپ حدیث قسطنطنیہ کہتے ہیں( جبکہ اس حدیث میں قسطنطنیہ کا کہیں ذکر تک نہیں ) اس حدیث کے تمام راوی بنوامیہ کے درباری وظیفہ خور ہیں پھر بھی یہ حدیث صحیح ہے کیا آپ کے یہ اصول انصاف پر مبنی ہے؟
 
Top