• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام سفیان الثوری اور ترك رفع الیدین كا جواب مطلوب ہے

شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
امام ابوحاتم نے خطا کہ کر غلطی کی نشاندھی کردی۔۔اسے یوں سمجھیں کہ کہیں جرم ہوگیا، ۔۔لیکن مجرم کا پتہ نہیں یااسکی تعیین مین اختلاف ہے۔۔۔ توکیا مجرمین کی تعین میں اختلاف سے جرم کاانکار کیاجاسکتا ہے۔۔؟؟ائمہ نقدنے ثوری کی روایت کو غلط اور وہم قرار دیا ہے۔۔لیکن انکا مخطئ کے تعین میں اختلاف ہے۔۔گویا خطا پر ائمہ نقد متفق ہیں۔۔لیکن خطا کرنے پر اختلاف ہے۔۔لہذا یہ جرح مفسر ہی ہے۔۔اور ابو حاتم کا 'یقال " سے مراد امام بخاری ہیں۔۔کیونکہ ثوری سے وہم کے وہی قائل ہیں۔۔ ان باتوں کو میں نے مقالہ میں تفصیلا بیان کیا ہے
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اسے جرح نہیں کہتے!
یہ جرح مفسر ہے امام ابوحاتم نے خاص اس روایت پر کلام کیا ہے اس کے مقابلہ میں آپ جمہور سے اس جرح کا صراحۃ ازالہ پیش کریں محض تصحیح مبہم کافی نہیں ہے۔
کس کی مانیں؟
ذاتی خیال یہ ہے کہ خضر بھائی کی بات زیادہ قابل اعتبار ہے.
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ جرح مفسر ہے امام ابوحاتم نے خاص اس روایت پر کلام کیا ہے اس کے مقابلہ میں آپ جمہور سے اس جرح کا صراحۃ ازالہ پیش کریں محض تصحیح مبہم کافی نہیں ہے۔
امام ابوحاتم کے علاوہ دیگرمحدثین نے بھی اس روایت پر جرح مفسرکی ہے، تفصیل کے لئے دیکھیں:
نور العینین :ص١٣٠تا ١٣٤۔
کس کی مانیں؟
ذاتی خیال یہ ہے کہ خضر بھائی کی بات زیادہ قابل اعتبار ہے.
کلام سمجھنے کی صلاحیت پیدا کریں!
خضر حیات بھائی نے روایت پر جرح کا کہا ہے، راوی پر جرح کا نہیں!
اور @احمد پربھنوی اور میرے مراسلہ کو غور سے پڑھیں، وہاں راوی پر جرح کی بات ہے!

مگر مشکل ہی معلوم ہوتا ہے سمجھ آئے!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
وضاحت :ميری جس پوسٹ پر آپ نے اعتراض کیا ہے ، اس میں میں نے حدیث کے متعلق جرح مفسر و غیر مفسر کی تعبیر استعمال کی ہے ، یہ گرچہ تحریر میری ہے ، لیکن پھر بھی جرح کا مفسر و غیر مفسر ہونا ، اس کا استعمال راویوں کے لیے زیادہ مناسب ہے ۔
میں نے کہنا یہ چاہا تھا کہ جنہوں نے تضعیف کی ہے ، انہوں نے متعین طور پر اس حدیث کی تضعیف کی ہے ، اس کی خطا بیان کی ہے ، جبکہ جن کی طرف سے تصحیح بیان کی جاتی ہے ، انہوں نے غیر متعین اور مبہم انداز میں اس کی تصحیح کی ہے ، اس پر ہونے والی جرح یا جس وجہ سے اس کی تضعیف کی گئی ہے ، اس کا جواب نہیں دیا ۔
پہلی بات تو یہ کہ اس میں خطا کس سے ہوئی ابو حاتم رح نے یہ نہیں بتلایا آپ تو جانتے ہی ہیں سند میں سے ہی کسی ایک سے غلطی ہوئی ہوگی نا تو امام ابو حاتم رح نے یہ تو نہیں بتلایا تو یہ جرح مفسر کیسے ہوئی؟؟ اسے مبہم ہی کہیں گے ہوسکتا ہے آپ کہیں کے اس کے آگے لکھا تو ہے کہ کہا جاتا ہے سفیان کو اس میں وہم ہوا یعنی "کہا جاتا ہے" کس نے کہا معلوم نہیں اگر خضر حیات صاحب اگر آپ کو معلوم ہوگا تو بتلادیں تاکہ معلوم تو ہو امیر المومنین فی الحدیث پر وہم کی جرح کرنے والا کون بندہ یے؟
شاید اسی نور العینین میں جس کا آپ حوالہ دے رہے ہیں اس میں زبیر علی زائ، محمد بن اسماعیل رح پر ابن ابی حاتم کی جرح تکلموا فیہ کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں یہ جرح غیر مفسر ہے اور اس کا جارح نامعلوم ہے ـ کیا احناف کے لیے یہ اصول باقی نہیں رہتے یا صرف احناف کے خلاف استعمال کرنے کے لیے ہی یہ اصول ہیں کچھ تو انصاف سے کام کیجیے صاحب!
ابو حاتم رح نے ایک جماعت کا ذکر کیا جو تطبیق والی حدیث نقل کرتے ہیں لیکن جب کتب احادیث میں تلاش کیا گیا تو عاصم بن کلیب سے یہ روایت کرنے والے صرف ابن ادریس ہی ملے پتہ نہیں ابو حاتم رح نے کونسی جماعت کا تذکرہ کیا تو خضر حیات صاحب آپ بتا دیں وہ کونسی جماعت ہے ورنہ ایسی اندھی تقلید کی تو آپ زبردست مخالف ہے یہاں آپ کیوں تقلید کرنے لگ جاتے اللہ اعلم
آپ جیسے حضرات سے مجھے امید نہیں تھی کہ اس قول کو پیش کرتے ـ
اب ایک سوال اٹھتا ہے کہ عبداللہ بن ادریس کی روایت کا کیا؟؟
جسے یحی بن معین رح شعبہ رح ابو عاصم رح وغیرہ نے امیر المومنین فی الحدیث جیسے لقب سے نوازا ان کا مقابلہ ابن ادریس رح سے کیا جاسکتا ہے؟؟
زیادہ تفصیل میں نہ جاتے ہوئے حافظ ابن حجر رح کے اقوال ملاحضہ کرلیں
سفيان بن سعيد بن مسروق الثوري أبو عبد الله الكوفي ثقة حافظ فقيه عابد إمام حجة( تقریب التہذیب )

اور عبداللہ بن ادریس کے بارے میں لکھتے ہیں

عبد الله بن إدريس بن يزيد بن عبد الرحمن الأودي بسكون الواو أبو محمد الكوفي ثقة فقيه عابد( تقریب التہذیب)

آپ کے شیخ نذیر حسین دہلوی رح اپنے فتاوی ص 450 میں کہتے ہیں اگر کوئی سفیان کی مخالفت کرے گا تو سفیان کا ہی قول معتبر ہوگاـ

اب خود فیصلہ کرلیں کس کے قول کا اعتبار کیا جائیگا اور کس کی بیان کردہ حدیث معتبر ہوگی ـ
اس حوالے سے ایک دو نکات عرض کرتا ہوں :
1۔ امام ابو حاتم ماہر علل حدیث ہیں ، انہوں نے بلا کسی تردد ، اس روایت کو ’ خطا ‘ یعنی ’ غلطی ‘ قرار دیا ہے ۔ لہذا اگر غلطی کے بیان میں ان کی بات میں تصریح نہیں ، تو ان کے خالی حکم کو رد کرنے کے لیے قوی دلیل کی ضرورت ہے ، یا پھر انہیں کے ہم عصر یا انہیں جیسے امام کی ضرورت ہے ، جو صراحتا اس روایت کو درست کہے ، یا پھر ابو حاتم کی تردید کرے ۔
2۔ وہم ہر کسی سے ہوسکتا ہے ، امام سفیان ثوری کی کسی روایت میں وہم کا ذکر ہے ، تو علل حدیث میں یہ باتیں عام ہیں ، اس میں راوی کی ثقاہت پر فرق نہیں آتا ، بلکہ علت کی بحثیں عموما آتی ہی وہاں ہیں ، جہاں ثقہ راوی ہوں اور سند بظاہر صحیح نظر آرہی ہو ۔
3۔ زبیر علی زئی صاحب نے ’ تکلموا فیہ ‘ والی جرح پر جو اعتراض کیا ہے ، اسے دیکھنے کی ضرورت ہے ، ممکن ہو ، ان کا اعتراض درست ہو اور ممکن ہے غلط ہو ۔ لیکن اس بات کو اس حدیث کے ساتھ جوڑنا غلط ، یا قیاس مع الفارق کہا جاسکتا ہے ۔
4۔ آپ نے جس بات کو امام ابو حاتم کی تقلید کہا ہے ، میں عرض کروں گا کہ یہ تقلید ہے ہی نہیں ، بہر صورت اگر آپ کے نزدیک یہ تقلید ہے ، تو آپ مجھے اس معنی میں اندھا مقلد کہہ سکتے ہیں ، مجھے اعتراض نہیں ہوگا ، کیونکہ روایت ، جرح و تعدیل اور ہر وہ چیز جس کا تعلق ’ خبر و اخبار ‘ سے ہے ، اس میں ایک انسان کے لیے سوائے دوسرے پر اعتماد کرنے کے اور کوئی چارہ نہیں ۔
5۔ ابن ادریس کی روایت کو اس لیے ترجیح دی گئی ہے ، کیونکہ وہ کتاب پر اعتماد کرتا تھا ، جب حفظ اور کتاب آپس میں ٹکرائے تو ائمہ علل نے کتاب والی روایت کو ترجیح دی ہے ، اگر آپ نے اس روایت کے مالہ و ماعلیہ پر پڑھا ہے ، تو یقینا یہ بات آپ کے علم میں ہو گی ۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
وضاحت :ميری جس پوسٹ پر آپ نے اعتراض کیا ہے ، اس میں میں نے حدیث کے متعلق جرح مفسر و غیر مفسر کی تعبیر استعمال کی ہے ، یہ گرچہ تحریر میری ہے ، لیکن پھر بھی جرح کا مفسر و غیر مفسر ہونا ، اس کا استعمال راویوں کے لیے زیادہ مناسب ہے ۔
میں نے کہنا یہ چاہا تھا کہ جنہوں نے تضعیف کی ہے ، انہوں نے متعین طور پر اس حدیث کی تضعیف کی ہے ، اس کی خطا بیان کی ہے ، جبکہ جن کی طرف سے تصحیح بیان کی جاتی ہے ، انہوں نے غیر متعین اور مبہم انداز میں اس کی تصحیح کی ہے ، اس پر ہونے والی جرح یا جس وجہ سے اس کی تضعیف کی گئی ہے ، اس کا جواب نہیں دیا ۔
آپ کی بات سے ذہن اس برف گیا ہے کہ حدیث روات کے لحاظ سے بھی ضعیف ہوتی ہے اور بعض اوقات اس کا متن ضعیف ہوتا ہے روات کے ثقہ ہونے کے باوجود۔
کیا میں صحیح سمجھ پایا ہوں؟ اگر ہاں تو ٹھیک اور اگر نہ تو وضاحت فرمادیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
امام ابو حاتم ماہر علل حدیث ہیں ، انہوں نے بلا کسی تردد ، اس روایت کو ’ خطا ‘ یعنی ’ غلطی ‘ قرار دیا ہے ۔ لہذا اگر غلطی کے بیان میں ان کی بات میں تصریح نہیں ، تو ان کے خالی حکم کو رد کرنے کے لیے قوی دلیل کی ضرورت ہے ، یا پھر انہیں کے ہم عصر یا انہیں جیسے امام کی ضرورت ہے ، جو صراحتا اس روایت کو درست کہے ، یا پھر ابو حاتم کی تردید کرے ۔
2۔ وہم ہر کسی سے ہوسکتا ہے ، امام سفیان ثوری کی کسی روایت میں وہم کا ذکر ہے ، تو علل حدیث میں یہ باتیں عام ہیں ، اس میں راوی کی ثقاہت پر فرق نہیں آتا ، بلکہ علت کی بحثیں عموما آتی ہی وہاں ہیں ، جہاں ثقہ راوی ہوں اور سند بظاہر صحیح نظر آرہی ہو ۔
خضر بھائی پھر میرا خیال ہے کہ اگر ہم اس مسئلے میں ہی دیگر فقہاء میں سے کسی کی تقلید کر لیں تو بھی درست ہے کہ آپ نے امام ابو حاتمؒ کی "وہم" کی بات بلا دلیل مان کر اس مسئلے کو اپنے لحاظ سے سمجھنا ہے اور ہم نے ائمہ احناف کی بات کو مان کر۔ ورنہ سچی بات ہے کہ دونوں روایات میں "نماز شروع کرنے اور ہاتھ اٹھانے" تک اتفاق ہے اور اس کے بعد دونوں الگ الگ روایات ہیں۔ ایک روایت کی بنا پر دوسری کو رد نہیں کیا جاتا بلکہ تطبیق کی جاتی ہے جیسے ہاتھ باندھنے کے مسئلے میں ایک روایت میں "وضع علی" کے الفاظ ہیں اور دوسری میں "قبض" کے، اور علماء حدیث نے دونوں میں سے کسی ایک رد نہیں کیا بلکہ تطبیق کی ہے۔ امید ہے آپ بخوبی اس روایت کو جانتے ہوں گے، وہاں بھی تقریباً یہی معاملہ ہے۔
و اللہ اعلم
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
آپ کی بات سے ذہن اس برف گیا ہے کہ حدیث روات کے لحاظ سے بھی ضعیف ہوتی ہے اور بعض اوقات اس کا متن ضعیف ہوتا ہے روات کے ثقہ ہونے کے باوجود۔
کیا میں صحیح سمجھ پایا ہوں؟ اگر ہاں تو ٹھیک اور اگر نہ تو وضاحت فرمادیں۔
سند صحیح اور متن ضعیف ، اس تعبیر پر مجھے تحفظات ہیں ، باقی بات یہی ہے کہ بظاہر صحیح نظر آنے والی حدیث بھی اصل میں ضعیف ہوسکتی ہے ۔
 
Last edited:
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
ابن مسعودرضی اللہ عنہ والی یہ روایت کوئی مستقل حدیث نہیں، بلکہ یہ لمبی حدیث،حدیث التطبیق ہے، جس میں اختصار اور روایت بالمعنی کی وجہ سے راوی سے غلطی ہوگئی ہے، امام ابوحاتم، امام ابوداؤد، اور امام حاکم نے یہی صراحت کی ہے، اور محدثین کا متفقہ اصول ہے کہ جب تک کسی حدیث کے طرق جمع نہیں ہونگے، حکم واضح نہیں ہوگا..ان ائمہ کے نزدیک حدیث ابن مسعود لمبی حدیث، حدیث التطبیق کا ہی ایک طریق ہے، اور حدیث تطبیق میں قطعا عدم رفع کا ذکر نہیں،، لہذا یہ طریق روایت بالمعنی اور اختصار کی وجہ سے اصل حدیث کے مخالف ہوگیا، اور اس طرح یہ معلول ہوگیا ...اسکے معلول ہونے کی یہی وجہ ہے...لیکن تعجب کی بات ہے اسے محض محدثین کا ظن کہ کر رد کردیاجاتا ہے.
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ابن مسعودرضی اللہ عنہ والی یہ روایت کوئی مستقل حدیث نہیں، بلکہ یہ لمبی حدیث،حدیث التطبیق ہے، جس میں اختصار اور روایت بالمعنی کی وجہ سے راوی سے غلطی ہوگئی ہے، امام ابوحاتم، امام ابوداؤد، اور امام حاکم نے یہی صراحت کی ہے، اور محدثین کا متفقہ اصول ہے کہ جب تک کسی حدیث کے طرق جمع نہیں ہونگے، حکم واضح نہیں ہوگا..ان ائمہ کے نزدیک حدیث ابن مسعود لمبی حدیث، حدیث التطبیق کا ہی ایک طریق ہے، اور حدیث تطبیق میں قطعا عدم رفع کا ذکر نہیں،، لہذا یہ طریق روایت بالمعنی اور اختصار کی وجہ سے اصل حدیث کے مخالف ہوگیا، اور اس طرح یہ معلول ہوگیا ...اسکے معلول ہونے کی یہی وجہ ہے...لیکن تعجب کی بات ہے اسے محض محدثین کا ظن کہ کر رد کردیاجاتا ہے.
اس پر تمام طرق تو بتائیے!
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
سند صحیح اور متن ضعیف ، اس تعبیر پر مجھے تحفظات ہیں ، باقی بات یہی ہے کہ بظاہر صحیح نظر آنے والی حدیث بھی اصل میں ضعیف ہوسکتی ہے ۔
آپ اپنے تحفظات کی کچھ تفصیل بتانا پسند فرمائیں گے؟
 
Top