مبشر شاہ
رکن
- شمولیت
- جون 28، 2013
- پیغامات
- 173
- ری ایکشن اسکور
- 67
- پوائنٹ
- 70
امام فخر الدین رازی اور عقیدہ حیات مسیح علیہ السلام
امام فخر الدین رازی آیت انی متوفیک و رافعک الی کے تحت لکھتے ہیں۔
وقد ثبت الدلیل انہ حی، وورد الخبر عن النبی ﷺ انہ سینزل و یقتل الدجال، ثم انہ تعالی یتوفاہ بعد زلک۔ (تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 689)
ترجمہ: اور بے شک دلیل سے یہ ثابت ہے کہ عیسی علیہ السلام ابھی زندہ ہیں اور محمدﷺ کی جانب سے یہ خبر دی گئی ہے کہ وہ (قرب قیامت میں) نازل ہوں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالی ان کو قبض کریں گے۔
اسی کے ذیل میں مزید لکھتے ہیں۔
الوجہ السادس: ان التوفی اخذ الشیء و افیاً، ولا علم اللہ ان من الناس من یخطر ببالہ ان الذی رفعہ اللہ ھو روحہ لاجسدہ، ذکر ھذا الکلام لیدل انہ علیہ السلام رفع بتامہ الی السماء بروحہ و جسدہ۔
ترجمہ: چھٹی وجہ یہ کہ توفی کے معنی پورا پورا لینا، چونکہ اللہ تعالی کو یہ علم ہے کہ بعض لوگوں کے دل میں ''وسوسہ'' پیدا ہو سکتا تھا کہ عیسی علیہ السلام کی صرف روح کو اللہ تعالی نے اٹھایا ہوگا جسم کو نہیں۔ اس لئے یہ کلام ذکر فرمایا تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ حضرت عیسی علیہ السلام روح و جسم سمیت صحیح و سالم اٹھا لیے گئے تھے۔
پھر آیت ، وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللہ الیہ کے ذیل لکھتے ہیں۔
المسالۃ الثانیۃ: رفع عیسی علیہ السلام الی السماء ثابت بہذہ الآیۃ و نظیر ھذہ الآیۃ قولہ فی آل عمران(انی متوفیک و رافعک الی)۔(تفسیرِکبیر جلد 3 صفحہ 504)
ترجمہ: دوسرا مسلہ: حضرت عیسی علیہ السلام کا آسمان کی طرف اٹھایااس آیت سے ثابت ہوتا ہے اور اس آیت کی نظیر سورہ آل عمران میں اللہ کا ارشاد انی متوفیک و رافعک الی ہے۔
اور اسے اگلی آیت وان من اھل الکتاب ۔۔الخ کے ذیل فرماتے ہیں۔
قولہ: (قبل موتہ) ای قبل موت عیسی علیہ السلام ، والمراد ان اھل الکتاب الذین یکونون موجودین فی زمان نزولہ لا بد و ان یؤ منوا بہ۔(تفسیر کبیر جلد 3 صفحہ 505)
ترجمہ: قبل موتہ سے مراد عیسی علیہ السلام کی موت سے پہلے آپ کا مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب میں سے جو لوگ عیسی علیہ السلام کے ذمانہ نزول کے وقت موجود ہوں گے و لا محالہ آپ پر ایمان لاے گے۔
پس امام رازی کی تحریر سے ثابت ہے کہ وہ حیات و نزولِ مسیح علیہ السلام کے قائل تھے۔
امام فخر الدین رازی آیت انی متوفیک و رافعک الی کے تحت لکھتے ہیں۔
وقد ثبت الدلیل انہ حی، وورد الخبر عن النبی ﷺ انہ سینزل و یقتل الدجال، ثم انہ تعالی یتوفاہ بعد زلک۔ (تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 689)
ترجمہ: اور بے شک دلیل سے یہ ثابت ہے کہ عیسی علیہ السلام ابھی زندہ ہیں اور محمدﷺ کی جانب سے یہ خبر دی گئی ہے کہ وہ (قرب قیامت میں) نازل ہوں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالی ان کو قبض کریں گے۔
اسی کے ذیل میں مزید لکھتے ہیں۔
الوجہ السادس: ان التوفی اخذ الشیء و افیاً، ولا علم اللہ ان من الناس من یخطر ببالہ ان الذی رفعہ اللہ ھو روحہ لاجسدہ، ذکر ھذا الکلام لیدل انہ علیہ السلام رفع بتامہ الی السماء بروحہ و جسدہ۔
ترجمہ: چھٹی وجہ یہ کہ توفی کے معنی پورا پورا لینا، چونکہ اللہ تعالی کو یہ علم ہے کہ بعض لوگوں کے دل میں ''وسوسہ'' پیدا ہو سکتا تھا کہ عیسی علیہ السلام کی صرف روح کو اللہ تعالی نے اٹھایا ہوگا جسم کو نہیں۔ اس لئے یہ کلام ذکر فرمایا تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ حضرت عیسی علیہ السلام روح و جسم سمیت صحیح و سالم اٹھا لیے گئے تھے۔
پھر آیت ، وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللہ الیہ کے ذیل لکھتے ہیں۔
المسالۃ الثانیۃ: رفع عیسی علیہ السلام الی السماء ثابت بہذہ الآیۃ و نظیر ھذہ الآیۃ قولہ فی آل عمران(انی متوفیک و رافعک الی)۔(تفسیرِکبیر جلد 3 صفحہ 504)
ترجمہ: دوسرا مسلہ: حضرت عیسی علیہ السلام کا آسمان کی طرف اٹھایااس آیت سے ثابت ہوتا ہے اور اس آیت کی نظیر سورہ آل عمران میں اللہ کا ارشاد انی متوفیک و رافعک الی ہے۔
اور اسے اگلی آیت وان من اھل الکتاب ۔۔الخ کے ذیل فرماتے ہیں۔
قولہ: (قبل موتہ) ای قبل موت عیسی علیہ السلام ، والمراد ان اھل الکتاب الذین یکونون موجودین فی زمان نزولہ لا بد و ان یؤ منوا بہ۔(تفسیر کبیر جلد 3 صفحہ 505)
ترجمہ: قبل موتہ سے مراد عیسی علیہ السلام کی موت سے پہلے آپ کا مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب میں سے جو لوگ عیسی علیہ السلام کے ذمانہ نزول کے وقت موجود ہوں گے و لا محالہ آپ پر ایمان لاے گے۔
پس امام رازی کی تحریر سے ثابت ہے کہ وہ حیات و نزولِ مسیح علیہ السلام کے قائل تھے۔