• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امراض دل کا علاج

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207

امراض دل کا علاج

اوّل: ۔
دل کی صحت و تندرستی کا را زیہ ہے کہ وہ اللہ پر مکمل ایمان اور پختہ یقین رکھے۔ اس ایمان و یقین کا اظہار مندرجہ ذیل صورتوں میں ہونا چاہیئے ۔


1۔اللہ کی مکمل محبت:
کہ انسان کی محبت صرف اللہ کے لئے ہو اس کی نفرت و دشمنی بھی صرف اللہ کی خاطر ہو ۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی دل کی بیماری کا علاج یہ بتایا ہے کہ انسان کا دل اللہ کی محبت سے بھرا ہوا ہو۔
وَالَّذِیْنَ اَشَدُّ حُبًّا ِللہِ (البقرہ:165)

جو لوگ مؤمن ہیں وہ اللہ سے شدید محبت رکھنے والے ہیں ۔
اللہ سے محبت کے ذرائع بھی بہت سارے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں قرآن کی تلاوت، قرآن میں غورو تدبر اس کے معانی و مفاہم کو سمجھنا فرائض کے بعد نوافل کے ذریعے سے اللہ کا قرب ہمیشہ اور ہر حال میں اللہ کا ذکر اللہ کی پسند پر اپنی پسند کو قربان کرنا۔ اللہ کے اسماء و صفات سے دل کو ہر وقت معمور رکھنا۔ دل کا اللہ کے حضور عاجزی کرنا وغیرہ وغیرہ۔ (مدارج السالکین ابن قیم)۔

2۔اخلاص:
اللہ کافرمان ہے۔

قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ ِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (انعام:162-163)
کہہ دیجئے کہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی ، میری موت ، سب اللہ رب العلمین کے لئے ہے ا سکا کوئی شریک نہیں ۔ مجھے اسی کا حکم دیاگیا ہے اور میں (اس حکم کو)سب سے پہلے تسلیم کرنے والا ہوں۔
جو شخص بھی اپنے دل میں اخلاص پیدا کرے گا اس کو دلی سکون و اطمینان مل جائے گا اسی لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ :
وَمَآ اُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآء ۔(البینۃ:5)

انہیں صرف اس بات کا حکم دیاگیا ہے کہ اللہ کی عبادت کریں اس کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے یک طرفہ ہوکر۔

3۔(نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی )بہتر طریقے سے اتباع:
کہ انسان کے اعمال اور اس کا عقیدہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق ہو ۔
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اﷲُ ۔(آل عمران:31)

اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
وَمَا اٰتَاکُمُ الرَّسُوْلَ فَخُذُوْہٗ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہٗ فَانْتَھُوْا ۔(الحشر:7)

جو کچھ تمہیں رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) دیں وہ لے لو اور جس چیز سے روکیں اس سے رک جاؤ۔
نیز ارشاد ہے:
وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اﷲُ وَرَسُوْلُہٗ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ فِیْ اَمْرِھِمْ۔ (احزاب:36)

کسی مومن مرد یا مومن عورت کے لئے مناسب نہیں کہ جب اللہ اور اسکا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام کا حکم کریں تو پھر یہ اپنے معاملات میں اپنی مرضی اختیار کریں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اب ہمیں اپنے دل سے پوچھنا چاہیئے کہ کیا ہم اپنے تمام اعمال میں اپنی نیتوں اور ارادوں میں اپنے معمولات میں اللہ کی شریعت کی موافقت کرتے ہیں ؟ہماری حالت تو یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنی بیوی کی مرضی پر چلتے ہیں کچھ اپنے سردار، سیٹھ اور مالک کی مرضی پر ، کچھ قبیلے ، خاندان ، کنبے اور رسم و رواج کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں کچھ لوگ تنظیم پارٹی یا جماعت کی پالیسی پر گامزن و عمل پیرا ہیں اگرچہ ان تمام قسم کی تابعداریوں میں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ہی کیوں نہ ہوتی ہو؟اگر ان میں سے ہم کسی بھی شخص سے پوچھیں کہ بھائی آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں تو کہے گا کہ میرا سردار، یا میرا مالک یعنی سیٹھ اس طرح کرنے کو کہتا ہے اس لئے اگر ہم کہیں کہ بھائی یہ تو غلط ہے ؟تو جواب دیتا ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ یہ کام غلط ہے مگر کیاکروں ؟اگر ایسا نہیں کرتا تو نوکری جاتی ہے یا ترقی رک جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اب ہم سوچیں کہ اللہ و رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کہاں ہے؟اپنے سیٹھ کی مرضی کو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی پر مقدم رکھا ہے۔ہمیں چاہیئے کہ اپنے اعمال پر غور کریں ۔ اپنی اطاعت کی سچائی کو پرکھیں کہ کیا ہم اس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر پورے اترتے ہیں ؟
لا یؤمن احدکم حتی یکون ھواہ تبعا لما جئت بہ ۔(جامع العلم )
تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے موافق نہ ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
لہٰذا مسلمان کو چاہیئے کہ اپنے دل کو مذکورہ خرابیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے مندرجہ ذیل صفات اپنائے اور ان پر ہمیشہ عمل پیرا رہے ۔
1۔اللہ کاذکر:
اس سے دلوں کا زنگ صاف ہوجاتا ہے گناہوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے جو میل کچیل دلوں پر آجاتا ہے وہ اللہ کے ذکر سے جاتا رہتا ہے انسان اپنے رب کے قریب ہوجاتا ہے خاص کر جب اللہ کاذکر خلوص ، خشوع سے اور ہر حال میں کرتا ہے اللہ کا ارشاد ہے :
اَلَمْ یَأنِ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُہُمْ لِذِکْرِ اﷲِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ (حدید:16)
کیا ایمان والوں کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر اور جو حق کے ساتھ نازل ہوا ہے اس کے لئے تابع ہوجائیں جھک جائیں؟
دوسری جگہ ارشاد ہے:
وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا ھُوَ شِفَآئٌ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ۔(اسراء:82)
ہم قرآن نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفاو رحمت ہے۔
اسی طرح اللہ تعالی نے کم ذکر کرنے کی وجہ سے منافقین کی مذمت کی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی دلوں کے امتحان و آزمائش کے لئے مجرب اور یقینی علاج بتا رہا ہے کہ:
اَلَا بِذِکْرِ اﷲِ تَطْمَئِنُ الْقُلُوْبِ ۔(الرعد:28)
باخبر رہو کہ اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اللہ کے ذکر کی بڑی اور اہم اقسام میں سے قرآن پڑھنا اور سمجھنا ہے جیسا کہ اللہ عزوجل نے فرمایا ہے:
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا (محمد:24)
یہ لوگ قرآن میں کیوں غور نہیں کرتے یا دلوں پر تالے ہیں؟
آج کل مسلمان دیگر رسائل ، اخبارات ڈائجسٹ طویل کہانیاں ناول پڑھنے میں دن رات منہمک رہتے ہیں نہ تھکتے ہیں نہ اکتاتے ہیں مگر قرآن کا ایک پارہ یا رکوع تک پڑھنا ان کے لئے مشکل ہوجاتا ہے اگر کبھی قرآن پڑھنے کے لئے بیٹھتے بھی ہیں تو بہت جلد اکتا جاتے ہیں سلف میں سے کسی صالح بندے کا قول ہے کہ اگر ہمارے دل پاک ہوتے تو کبھی قرآن کی تلاوت سے نہ اکتاتے۔

[2]۔محاسبہ:
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اپنا محاسبہ کرنا دل کے علاج کے لئے بہت اہم ہے اور اس سے دل صحیح راہ پر قائم رہتا ہے اور فرماتے ہیں کہ :دل کی بربادی کا سبب ہے خود احتسابی میں سستی کرنا اور دلی خواہشات کی پیروی کرنا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لئے فرمایا ہے :
الکیس من دان نفسہ و عمل لما بعد الموت والعاجز من أتبع نفسہ ھواھا و تمنی علی اللہ الأمانی (ترمذی)
عقل مند وہ ہے جس نے اپنے نفس کو دبایا کمزور کیا اور موت کے بعد حالات کے لئے عمل کیا۔ کمزور وہ ہے جس نے اپنے دل کو اس کی خواہشات کے پیچھے لگایا اور اللہ سے امیدیں لگائے رکھیں۔
جناب عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
حاسبوا انفسکم قبل تحاسبوا وزنوا انفسکم قبل ان توزنوا (ترمذی)
اپنا محاسبہ کرو اس سے پہلے کہ تمہارا حساب کیاجائے (قیامت میں )اور اپنا اندازہ (وزن خود کرو اس قبل کہ تمہارا اندازہ لگایا جائے (وزن کیاجائے)
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں آپ جس مومن کو بھی دیکھیں گے وہ اپنا محاسبہ کرنے والا ہوگا۔ اور کہتے ہیں کہ انسان اس وقت تک بھلائی پر رہتا ہے جب تک اس کے اندر اسے سمجھانے والا موجود رہتا ہے اور اپنا محاسبہ کرنا اس کی اہم عادت ہو۔
لہٰذا ہر مسلمان کو خیال رکھنا چاہیئے کہ عمل سے پہلے اس میں اخلاص اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کتنا ہے؟اور اپنے دل کو ٹٹولتے رہنا چاہیئے کہ اس میں اللہ کی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے محبت کتنی ہے ؟ان صفات کو حاصل کرنے کی کوشش بھی مسلسل کرتے رہنا چاہیئے عمل کرنے کے بعد بھی یہ دیکھنا چاہیئے کہ عمل میں کیا کمی رہ گئی ہے؟اخلاص میں کتنی کمی تھی؟
ہمارے خیال میں دل کے امراض کے علاج کے لئے یہ دو اہم ذریعے تھے جن کی نشاندہی ہم نے کر دی ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا۔(العنکبوت:69)
جن لوگوں نے ہماری راہ میں جہاد کیاہم انہیں اپنے راستے دکھائیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
3۔دیگر ذرائع:
ان میں شامل ہیں ۔علم ، تقویٰ کے بارے میں تحقیق و معلومات ، راتوں کو قیام ، زیادہ دعائیں کرنا، خاص کر رات کے پچھلے پہر ، راتوں کو کی گئی دعائیں کبھی رائیگاں نہیں جاتیں اس لئے کہ انسان کو چاہیئے کہ رات کو اللہ کے آگے عاجزی کرے گڑگڑائے ۔ اللہ سے گناہوں کی معافی طلب کرے ۔اسی طرح ان ذرائع میں سے یہ بھی ہے کہ اپنا لباس، اپنا کھانا، پینا پاکیزہ اور حلال رکھے۔ صدقات کثرت سے ادا کرتا رہے ۔
خُذْ مِنْ اَمْوِالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْہِمْ بِہَا (التوبہ:103)
(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کے مال میں سے زکاۃ و صول کر تاکہ تو اس کے ذریعہ سے ان کی تطہیر کرتا رہے اور انہیں ترقی پر گامزن کرے۔
دل کے امراض کے علاج میں یہ بھی ہے کہ نظریں نیچے رکھے ۔
قُلْ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ (النور:30)۔
مومنوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نظریں نیچے رکھیں اور اپنی عصمتوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کا سبب ہے۔
امراض دل کا علاج ذکر کرنے کے بعد اب ہم امام ابن قیم رحمہ اللہ کے عمدہ اور نفیس خیالات پیش کررہے ہیں جو ہمارے موضوع سے متعلق ہیں اور بہت ہی مفید و کارآمد ہیں ہمیں امید ہے کہ مسلمانوں کو اس سے ضرور فائدہ پہنچے گا ان شاء اللہ ۔

امتحان القلوب
 
Top