• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امریکہ کے اتحادیوں کا عبرتناک انجام ہر کوئی نوشتہ دیوار پڑھ لے

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
امریکہ کے اتحادیوں کا عبرتناک انجام ہر کوئی نوشتہ دیوار پڑھ لے

نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر ساری دنیا کو ملا کو حملہ کر دیا۔ طاقت کے نشے میں چور امریکہ کو اندازہ تو کیا گمان بھی نہیں تھا کہ انجام کیا ہو سکتا ہے۔ 9 برس بیتے، دنیا کا نقشہ بدلنا شروع ہوا اور امریکہ ہی نہیں اس کے سارے اتحادی تاریخ کے بدترین بحرانوں میں گھرِ کر اپنے اپنے سکون کو بچانے کے لئے ہاتھ پائوں مارنے لگے۔ وہی طالبان جن کو ڈیزی کٹر، نیپام، کلسٹر، کروز، جے ڈمز اور نجانے کن کن بموں کی بارش کر کے انہیں نابود کیا گیا تھا۔ اب ان کے ساتھ مالدیپ کے ویران جزیروں سے لے کر جدہ، ابوظہبی، کابل اور قندھار تک میں مذاکرات کی کوششیں کی گئیں کہ کسی طرح ’’باعزت‘‘ واپسی کا عمل شروع ہو سکے اور مکمل تباہی سے بچا جا سکے لیکن… اب نہ تو کمبل چھوڑ رہا ہے اور نہ تنکے کا سہارا مل رہا ہے۔ امریکہ اب مکمل طور پر روس کی تباہ کن تاریخ پر نہ صرف گامزن ہے بلکہ اس راہ پر صرف اس کی نہیں بلکہ اس کے اتحادیوں کی بھی شکست و ریخت کا سامان ہو چکا ہے۔ روس جب افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا اور پھر یہاں سے بھاگا تو اسی کے اتحادی ممالک ایک ایک کر کے گر رہے تھے۔ پولینڈ، یوگوسلاویہ، چیکوسلواکیہ عبرت کا سامان بن گئے اور روس کے ساتھ ساتھ وہ بھی ٹکڑوں میں بٹ گئے لیکن ان کے ساتھ یہ انجام روس کی واپسی اور شکست و ریخت کے بعد ہوا تھا جبکہ امریکی تاریخ اس معاملے میں کہیں تیز تر ہے۔ امریکی شکست تو ہو چکی لیکن اس کے فرار سے پہلے ہی اس کے اتحادی ایک ایک کر کے نہیں بلکہ ایک ساتھ گرنا شروع ہو گئے ہیں۔ تیونس کے بعد مصر اور اب لیبیا، بحرین، یمن، الجزائر اور مراکش بھی ہچکولوں کی زد میں ہیں۔
یہ وہ ممالک ہیں جہاں مسلمانوں کی بھاری اکثریت تھی لیکن امریکی دبائو اور اثرورسوخ سے یہاں اسلام دشمن حکمران قابض ہو گئے اور دنیا بھر میں جمہوریت کے نعرے لگانے والے امریکہ اور یورپی ممالک نے یہاں 23 سال، 30سال، 40 سال تک ڈکٹیروں کی کھلی حمایت کی۔ انہیں خوب تحفظ دیا اور ان کی کمر پر ہاتھ رکھے رکھا۔ انہوں نے اسلامی ہی نہیں بلکہ یورپ کے تخلیق کردہ انسانی حقوق کا بھی کبھی معمولی سا پاس نہ رکھا لیکن اسی پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا کیونکہ یہ سب کچھ اسلام دشمنی پر مبنی تھا جبکہ الجزائر اور فلسطین میں جمہوریت کو ان ممالک نے خود شکست دیکر وہاں بھی اسلام دشمنوں کو مسلط کر دیا تھا جو اب تک وہاں مظالم ڈھا رہے ہیں۔ غزہ کے 16 فلسطینیوں کو اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا جو انہیں جانوروں سے بدتر سلوک کر کے زندہ درگور کر رہے ہیں بلکہ دن رات بھوکا پیاسا رکھ کر تڑپا تڑپا کر مار رہے ہیں لیکن یہ ظلم کسی کو نظر نہیں آتا کیونکہ ظلم ڈھانے والے یہودی اور مظلوم مسلمان ہیں… لیکن اب ان ظالموں کے دن گنے جا رہے ہیں۔ مصر سے حسنی مبارک کے اقتدار سے انخلاء کے بعد فلسطینی سب سے زیادہ خوش ہیں کیونکہ حسنی مبارک مصر کا وہ فرعون تھا جس نے اسرائیل کو مستحکم کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا اور وہ مسلم دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا۔ سب منظر بدل رہے ہیں۔ مسلم ممالک پر قابض اسلام دشمن حکمرانوں کے لئے زمین تنگ ہو رہی ہے اور ان کا قدم رکھنا ناممکن ہو رہا ہے۔ لیبیا کا فرعون اپنے بیٹوں کے ہمراہ عوام کے قتل عام میں مصروف ہو گیا ہے اور شاید انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ نہتے اور عام اور اپنے عوام پر جہازوں اور ہیلی کاپٹروں سے گولیاں برسائی جا رہی ہیں لیکن صورتحال قابو سے باہر ہے۔ امریکہ سب سے زیادہ پریشان ہے کہ اس کے بنائے سارے بت ٹوٹ رہے ہیں۔ یہ بت دیکھنے میں تو بہت مضبوط نظر آتے تھے لیکن جب گرنے لگے ہیں تو مٹی کے گھروندوے بھی ثابت نہیں ہوئے بلکہ اس سے بھی زیادہ بودے ثابت ہوئے ہیں۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شکست تو ہونا تھی ان کی تباہی تو یقینی تھی لیکن اب ان کے گماشتوں ان کے اشاروں پر دن رات ناچنے اور انہیں اپنی حکومت و اقتدار کا واسطہ اور وسیلہ سمجھنے کے لئے لمحہ فکریہ آن پہنچا کہ اب انہوں نے دنیا میں کیسے زندہ رہنا ہے اور جینا ہے۔ اب فوری اور جلد فیصلے کا وقت ہے۔ ذلت کے ساتھ فرار یا اسلام کے وفادار… یہ وقت اب سوچنے کا بھی نہیں بلکہ فیصلہ کر کے آگے بڑھنے کا ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقہ کی بھی آنکھیں فوری کھلنا ضروری ہیں وگرنہ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ وہ بھی 41 سال سے قابض اقتدار تھے آج راندہ ’’درگاہ‘‘ ہیں اس لئے نوشتہ دیوار پڑھ کر سب کو اپنی راہیں درست کر لینی چاہئیں۔ یہ سوچ اور فکر صرف حکمرانوں کے اندر ہی پیدا ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ مغرب سے متاثرہ ہر شخص کے لئے آنکھیں کھول دینے والی ہے۔ وہ جو امریکہ اور یورپ کو پوجتے تھے اب انہیں بھی سنبھل کر اگلی اور نئی لائن اختیار کر لینی چاہئے، اس وقت جو نہ سمجھ سکا اس کا انجام امریکہ سے بدتر ہو رہا ہے اور ہونا چاہئے ۔
 
Top