• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امریکی برانڈ ”دہشت گرد“

شمولیت
اپریل 13، 2011
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
142
پوائنٹ
0
نیویارک میں مبینہ بم دھماکے کی ناکام کوشش کرنیوالے فیصل شہزاد کی پراسرار کہانی نے عالمی میڈیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ امریکی ذرای¿ع ابلاغ اس دوڑ میں سب سے آگے نظر آتے ہیں اور اس کی پاکستانی شناخت کو خوب خوب پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ ہیلری کلنٹن سمیت کئی اعلی ترین امریکی عہدیداروں نے پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی ہیں تو دوسری جانب جنرل میکرسٹل اور امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن صدر پاکستان اور آرمی چیف سے وزیر ستان میں بڑے آپریشن کے لیے دباو¿ بڑھاتے نظر آتے ہیں ۔جنوبی ایشیاءکے لیے امریکی نائب وزیر خارجہ رابرٹ بلیک کا تو کہنا ہے کہ فوجی آپریشن کو پنجاب تک وسعت دی جائے اور اس کی زد میں لشکر طیبہ جیسے کشمیری گروپ بھی لائے جائیں جوکہ امریکہ اور بھارت کے لیے مشترکہ خطرہ ہیں جبکہ فیڈرل اٹارنی جنرل ارک ہولڈر کا کہنا ہے کہ یہ کاررستانی تحریک طالبان پاکستان کی ہے ۔۔ پاکستان کے میڈیا ٹرائل ، سخت ترین دھمکیوں اور من گھڑت رپورٹس کے ذریعے نت نئی کہانیاں گھڑنے کا سلسلہ جاری ہے یکطرفہ بہتے ہوئے اس سیلاب میں حقائق کی بات کرنا انتہائی مشکل نظر آتا ہے ۔۔ مغربی میڈیا کی جانب سے ایک خاص ایجنڈے کے تحت مخصوص سوچ کا اظہار تو سمجھ میں آتا ہے لیکن مقام افسوس یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا کی اکثریت بھی پروپیگنڈے کے اس طوفان کے سامنے بے بس ہو کر انہی خیالات اور افکار کی ترویج کر رہی ہے کہ جن کا سچ ہونا ابھی ثابت نہیں ہو سکا ۔
امریکہ میں گزشتہ ایک سال کے دوران دہشت گردی کی مبینہ کوششوں پر اگر نظر ڈالی جائے تو بہت سے دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں ۔ فیصل شہزاد ، کولیمین ہیڈلی ، جہاد جینز اور عمر فاروق عبدالمطلب کے ناموں کے ساتھ بڑے بڑے منصوبے نتھی کیے گئے اور میڈیا پر کچھ اس طرح سے تشہیر کی گئی کہ ہر واقعہ ہی گویا دوسرا نائن الیون ہو ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ انتہائی خفیہ اور منصوبہ بندی سے بنائے گئے یہ سارے منصوبے ہی ناکام ہوئے ہیں ۔ کہیں بم چند ثانیے پہلے ناکارہ بنا دیا گیا تو کہیں ای میل رابطوں سے سارا منصوبہ ہی پکڑ لیا گیا۔ ناکام ہو جانا ہی صرف ایک مماثلت نہیں ہے بلکہ سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ امریکہ کے ان نام نہاد ” جہادیوں “ میں سے ہر کوئی شوبز ، فیشن ، شراب و شباب اور ایسی ہی دیگر سرگرمیوں میں ملوث رہا اور پھر اچانک اسے اسلام کی سربلندی کے لیے زندگی قربان کرنے کا خیال آیا۔ ان سب کی زندگیاں تو واقعات کے ناکام ہونے کی وجہ سے بچ گئیں لیکن ان کی پراسرار کوششیں اسلام ، امریکہ میں موجود مسلم کمیونٹی اور پاکستان سمیت کئی دیگر اسلامی ممالک کے لیے ان گنت مشکلات میں اضافہ کر گئیں ۔
سب سے پہلے ہم فیصل شہزاد کی کہانی کا جائزہ لیتے ہیں ۔ پاکستان کے انتہائی امیر ترین گھرانے کا ایک لڑکا تعلیم کے لیے امریکہ جاتا ہے ۔ کئی سال کے قیام اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہاں کی شہریت حاصل کرنے میں کامیاب رہتا ہے ۔ اس کی بیوی کا بیان ہے کہ فیصل نت نئے فیشنز کا دلدادہ تھا ۔ نائٹ کلبوں میں عیش و مستی کے لمحات کی تصاویر تو اخبارات کی زینت بن چکی ہیں ۔ کتنی حیرانی کی بات ہے کہ ایک ایسا شخص کہ جو اسلام کی سربلندی کے لیے جان قربان کرنے کا عزم کر چکا ہے وہ تفریح کے لیے ہالی وڈ کی فلموں کا سہارا لیتا ہے ۔ اس کے گھر میں ڈی وی ڈیز کی موجودگی کی باقاعدہ ویڈیو موجود ہے جوکہ نیو یارک واقعے کے بعد خود امریکی میڈیا نے جاری کیں ہیں ۔ مصوری کو آج تک اسلامی حلقوں میں پزیرائی نہیں مل سکی لیکن نیویارک کا یہ ” جہادی “ اپنے کاررنامے سے پہلے آخری وقت تک اس مشغلے میں مصروف رہتا ہے ۔ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ مختلف سٹورز اور دکانوں میں سی سی ٹی وی کیمرے سکیورٹی مقاصد اور چوری کے واقعات روکنے کے لیے لگائے جاتے ہیں اور انتہائی حساس مقامات کے علاوہ ان کی فیڈ زیادہ دیر کے لیے محفوظ نہیں رکھی جاتی لیکن فیصل شہزاد آٹھ مارچ کو جس سٹور سے خریداری کرتا ہے اس کی فوٹیج دو ماہ تک محفوظ رہتی ہے اور فوری طور پر جاری بھی کر دی جاتی ہے ۔ اسی طرح اس شخص کی جانب سے بھاگتے ہوئے شرٹ اتار کر مشکوک بننے اور اپنی گاڑی کی چابی گھر بھولنے کی سنگین غلطی بھی بہت سے سوالوں کو جنم دیتی ہے ۔
فیصل شہزاد کی کہانی بہت سے اور پہلوں سے بھی کافی مشکوک لگتی ہے ۔ نیویارک میں بم رکھنے کی ناکام کوشش کرنیوالے فیصل شہزاد کی فوری گرفتاری ، اعتراف جرم اور اس کیس میں پاکستان مخالف متعصب بھارتی عناصر کی مداخلت نے واقعے کو مشکوک بنا دیا ہے جبکہ دوسری جانب ا نتہائی ڈرامائی انداز میں گاڑی سے دھماکہ خیز مواد کی برآمدگی ، سی سی ٹی وی فوٹیج میں شرٹ اتارتے ایک شخص کو مشکوک قرار دینے ، فوری طور پر گاڑی کے مالک کا سامنے آنا اور ایک جنوبی ایشیائی شخص کی نشاندھی جیسے واقعات بھی قابل توجہ ہیں ۔ وہ بھی ایسے وقت میں کہ جس وقت ممبئی حملوں کا فیصلہ آنے کے باعث پاکستان زیر عتاب تھا۔ امریکی قوانین کے مطابق کسی بھی مجرم کو بہت سے رعائتیں حاصل ہوتی ہیں جبکہ مکمل تفتیش اور دلائل کے بغیر مقدمے کی سماعت شروع نہیں کی جاتی۔ قانونی ماہرین فیصل شہزاد کے کیس کی تیز ترین کارروائی سے حیران ہیں کیونکہ صرف ایک ہی دن میں گرفتاری ، اعتراف اور فرد جرم عائد کرنے کے مراحل طے کر لیے گئے۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا کیس شروع ہونے میں کئی ماہ لگے تھے جبکہ پاکستانی نڑاد فہد ہاشمی کو تین سال بعد عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔ فیصل شہزاد پر فرد جرم عائد کرنیوالے نیویارک کے فیڈرل اٹارنی پریت بھرارا ایک متعصب ہندو ہیں اور پاکستان مخالف رویے کی وجہ سے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ اوبامہ نے صدر بننے کے بعد انہیں دو ہزار نو میں فیڈرل اٹارنی مقرر کیا تھا۔ پریت بھرارا نے اپنے ہم خیال ایک اور متعصب بھارتی شہری انجن ساہنی کو انٹرنیشنل ٹیررازم اینڈ نارکوٹیکس یونٹ کا سربراہ مقرر کر رکھا ہے۔ یہ بات کافی دلچسپ ہے کہ اوبامہ انتظامیہ عوامی حلقوں کی شدید تنقید کے باوجود نائن الیون کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ کا مقدمہ نیویارک میں شفٹ کرا چکی ہے اور خیال ہے کہ اس میں بھی پریت بھرارا نے اہم کردار ادا کیا۔ پاکستانی کمیونٹی متعدد بار پریت بھرارا اور انجن ساہنی کی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کر چکی ہے جبکہ پریت بھرارا کے پاکستان مخالف رویے میں اس کی یہودی بیوی کا بھی ہاتھ ہے ۔
د وسری جانب یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستانی حکام کئی بار تحریک طالبان پاکستان کے بھارتی اور مغربی خفیہ اداروں کے ساتھ تعلقات کے دعوے کر چکے ہیں۔ تحریک طالبان کے قبضے سے نیٹو کا اسلحہ برآمد ہو چکا ہے جبکہ سوات اور وزیرستان آپریشن کے دوران بعض تحریک طالبان کے لیڈرز کا پراسرار طور پر غائب ہو جانے سے متعلق ہر کوئی آگاہ ہے ۔ اتحادی افواج نے وزیر ستان آپریشن کے دوران پاک افغان سرحد سے فوجی چیک پوسٹیں ختم کر دی تھیں جس پر پاکستان نے زبردست احتجاج کیا تھا ۔ نیویارک واقعے کی تحریک طالبان کی جانب سے فوری طور پر ذمہ داری قبول کرنا ، حکیم اللہ محسود کی ویڈیو میں امریکہ پر حملوں کی دھمکی جبکہ فیصل شہزاد کی پشاور میں رہائش اور وزیرستان کا سفر بھی اس معاملے کو مزید مشکوک بنا دیتے ہیں۔
امریکہ میں دہشت گردی کے ایک اور بڑے منصوبہ ساز اور لشکر طیبہ کے ساتھ ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کے ملزم ڈیوڈ کولیمین ہیڈلی کی کہانی فیصل شہزاد سے بھی کہیں زیادہ رنگین ہے ۔ یہ شخص وائس آف امریکہ میں کام کرنیوالے ایک پاکستانی سید سلیم گیلانی کی امریکی بیوی سے پیدا ہوا۔ ماں باپ میں طلاق ہو گئی ۔ یہ حسن ابدال کیڈٹ کالج میں پڑھتا رہا لیکن آخر کار امریکہ چلا گیا ۔۔ اس کی ماں امریکی معاشرے کی حد سے بڑھی ہوئی عیاشیوں اور بے راہ روی کی عادی تھی ۔ ہیڈلی بھی اسی راہ کا مسافر ہوا ۔ ماں نے کسی بوائے فرینڈ سے رقم بٹور کر فلاڈیفیا ریاست میں خیبر پاس بار کھولی تو ہیڈلی نے بھی ساتھ بٹانا شروع کر دیا ۔ ہیڈلی اپنی جوانی میں اس قدر بگڑ گیا کہ تعلیم بھی جاری نہ رکھ سکا اور منشیات کا عادی بن گیا ۔ بار کو اجاڑ کر ماں سے الگ ہوگیا اور کسی نامعلوم ذریعے سے پیسے حاصل کر کے نیویارک میں فلمیں کرائے پر دینے کے دو سٹور بنا لیے ۔ اسی دوران منشیات کا سمگلر بنا اور انیس سو اٹھانوے میں پکڑا گیا ۔ ڈیرھ سال تک جیل کی ہوا کھانے کے بعد اب کولیمین ہیڈلی ایک نئے روپ میں سامنے آیا اور امریکی خفیہ اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے لگا ۔ اس نے ایک پاکستانی خاتون سے شادی کی لیکن بیوی بچوں کے ساتھ شکاگو میں رہنے کی بجائے نیویارک میں گرل فرینڈ کے ساتھ رہنا پسند کیا ۔ اسی عرصے میں ہیڈلی کے ہندوستان اور پاکستان میں دورے شروع ہوئے ۔ بھارت کا الزام ہے کہ اس نے ممبئی حملوں کے لیے مدد فراہم کی لیکن اس کی بھارت میں سرگرمیاں تو کچھ اور ہی کہانی سناتی ہیں ۔ کولیمین ہیڈلی معروف بھارت ہدایت کار مہیش بھٹ کے بیٹے راہول بھٹ کے زریعے بالی وڈ سے متعارف ہوا اور پھر اس کے تاج محل اور اوبرائے ہوٹل میں گزارے گئے دن رات بھارت کی دو خوبرو اداکاراو¿ں آرتی چھابریہ اور کنگنا راناوت کے نام رہے ۔ لشکرطیبہ ، الیاس کشمیری اور تحریک طالبان سے تعلقات اور ڈنمارک میں توہین آمیز خاکے بنانے والوں کے قتل کا منصوبہ بنانے کے دعویدار اس شخص کے ذاتی کردار سے متعلق یہ حقائق اس کے کردار کو مشکوک بنانے کے لیے کافی ہیں اور سب سے اہم ترین بات یہ بھی کہ جب یہ شخص ماضی میں امریکی خفیہ اداروں کے لیے کام بھی کرچکا ہو ۔۔ ڈیوڈ کولیمین ہیڈلی کی وجہ سے پاکستان ، کشمیری تنظیموں پر بڑھنے والا دباو¿ اور امریکہ میں متعدد مسلمانوں کی گرفتاریاں بھی بہت سے سوالات کو جنم دیتی ہیں ۔۔ کیا واقعی وہ ایک نظریاتی جہادی بن چکا تھا یا پھر کسی خفیہ ایجنسی کا ایک کارندہ ہے کہ جس کے زریعے کشمیر کی جدوجہد آزادی اور پاکستان کو بدنام کرنے کا کام لیا گیا ۔
امریکہ میں دہشت گردی کے ایک اور ناکام منصوبے کی اہم ترین کردار جہاد جینز کے نام سے شہرت حاصل کر چکی ہے ۔ امریکی ریاست فلاڈلفیا کے شہر پینز برگ کی رہائشی کولین لاروز کو اکتوبر دو ہزار نو میں گرفتار کیا گیا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے جنوبی ایشیا کے ایک شخص کے ساتھ ملکر توہین آمیز خاکے بنانے والے کارٹونسٹ پر حملے کا منصوبہ بنایا تھا جبکہ یہ خاتون اس قدر جوشیلی اور پرعزم تھی کہ اس نے انٹرنیٹ پر جہاد کے لیے بھرتی کی مہم بھی چلائی اور کئی لوگوں کو تیار کر لیا ۔ اس کہانی سے ایسے لگتا ہے کہ کولین لاروز عرف جہاد جین کسی بہت ہی دینی گھرانے سے تعلق رکھتی ہے ۔۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ۔ یہ خاتون گرفتاری سے صرف ایک ماہ پہلے تک اپنے بوائے فرینڈ کریٹ گورمان کے ساتھ رہائش پذیر تھیں اور اچانک غائب ہونے سے پہلے گورمان کا پاسپورٹ بھی ساتھ لے گئیں ۔ گورمان کا کہنا ہے کہ اس نے لاروز کو کبھی بھی اسلامی لباس اوڑھے یا کسی مذہبی اجتماع میں شرکت کرتے نہیں دیکھا بلکہ وہ تو ایک حد درجہ آزاد خیال خاتون تھی ۔ جبکہ میڈیا پر جاری کی گئی تصاویر میں اس کو اسلامی لباس پہنے اور سکارف اوڑھے دیکھایا گیا ۔ گورمان سے الگ ہونے کے ایک ماہ کے دوران ہی اس نے سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ پر لکھا کہ وہ اپنے ہونیوالے خاوند کے لیے جان قربان کرنا اعزاس سمجھتی ہے یعنی اب بھی وہ بغیر شادی کے ایک شخص کے ساتھ مقیم تھی ۔ جہاد جینز اس قدر دلیر تھی کہ اپنے ہر ہر منصوبے کا تذکرہ انٹرنیٹ پر ضرور کرتی ۔۔اس حوالے سے دوسروں کو ای میل کرتی جبکہ سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس پر بھی اظہار خیال کرنا نہ بھولتی ۔ حتی کہ اس نے یہ بھی لکھ ڈالا کہ وہ اپنے حدف کے انتہائی قریب پہنچ چکی ہے اور اسے اب موت ہی مجھ سے بچا سکتی ہے۔ اور آخر کار اسے پندرہ ماہ تک جاری رہنے والی انٹرنیٹ سرگرمیوں کی نگرانی کی بنیاد پر گرفتار کر لیا گیا ۔ کتنی حیران کن بات ہے کہ اسلام کا درد رکھنی والی یہ خاتون جو کہ دو ہزار آٹھ میں یو ٹیوب پر بھیجی گئی ایک ویڈیو میں اس بات کا اظہار کر چکی تھی کہ وہ اسلام کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی وہ اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ ہی مقیم رہی ۔ انٹرنیٹ کا غیر محفوظ ہونا کوئی راز کی بات نہیں لیکن جہاد جینز اس کے باوجود اپنے منصوبوں کا اظہار کرتی رہی ۔۔ اب یہ بات واقعی قابل توجہ ہے کہ ایک نظریاتی جنگجو بن جانے کے باوجود آخر کس طرح وہ اسلامی شریعیت کے
چند سادہ اور بنیادی اصولوں سے بھی ناواقف رہی ۔۔ مذہب کے لیے جان دینے کا جذبہ رکھنے والی کسی شخصیت کی ذاتی زندگی کے یہ پہلو کیا قابل توجہ نہیں ۔۔
امریکہ کی نیشنل انٹیلی جنس کے سربراہ ڈینس بلئیر پاکستانی سفیر حسین حقانی سے ملاقات میں یہ انکشاف کر چکے ہیں کہ انہیں خفیہ آپریشنز کے لیے بہت سے پاکستانیوں کی مدد حاصل ہے جبکہ سی آئی اے کے لیون پینٹا کا کہنا ہے کہ پاکستانی نژاد امریکی قبائلی علاقوں میں کافی مو¿ثر ثابت ہوئے ہیں ۔ ان تینوں کے ناکام منصوبوں کے اثرات کا اگر جائزہ لیا جائے تو الجھی ہوئی کڑیوں کو سلجھانے میں مدد ملتی ہے ۔ فیصل شہزاد کی وجہ سے ہی آج پاکستان کٹہرے میں ہے ۔ وزیرستان آپریشن کے لیے دباو¿ بڑھ رہا ہے ۔ اس کے اعلی ترین فوجی خاندان سے تعلق کو غلط رنگ دے کر افواج پاکستان کو بدنام کیا جا رہا ہے ۔ کوئی القاعدہ سے تعلق کی بات کرکے امریکی مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاو¿ن کی بات کرت ہے جبکہ دہشت گردوں سے وابستگی کے الزامات کے تحت امریکی شہرت کی منسوخی کی قرارداد تو کانگرس میں آ بھی چکی ہے ۔

کیونکر اس بارے میں غور نہیں کیا جاسکتا کہ عیاشی اور آزاد خیالی کا رہن سہن والے لوگ کس طرح اچانک نظریاتی جنگجو¿ بن جاتے ہیں ۔ ایسا تو پاکستانی سوسائٹی میں ہونا مشکل نظر آتا ہے جبکہ کہاں امریکہ کا سخت ترین نگرانی اور نائن الیون کے بعد ڈر اور خوف کی بنیاد پر بننے والا معاشرہ ۔ فیصل شہزاد کی وجہ سے آج پاکستان کٹہرے میں ہے ۔ کولیمین ہیڈلی کی وجہ سے بھارت اور امریکہ نے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے لیے سرگرم لشکرطیبہ کو عالمی خطرہ قرار دلانے کا مقصد حاصل کیا ہے ۔ جب کہ بھارت بھی ممبئی حملوں کے حوالے سے عالمی توجہ کا مرکز بن جانے پر خوش ہے ۔ مسئلہ تو پاکستان کے لیے ہوا کہ جسے الزامات کا سامنا ہے ۔ انفرادی کرداروں کی وجہ سے ملک کی پالیسیوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس طرح جہاد جینز کی پراسرار سرگرمیوںکے باعث امریکہ و یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کو ڈرانے کا خوب موقعہ ہاتھ آیا ہے ۔ ہمارے میڈیا کو ان خطوط پر بھی سوچنے کی ضرورت ہے کیونکہ خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے مقامی ایجنٹ بھرتی کر کے مقاصد کرنا انتہائی آسان ہو جاتا ہے
 
Top