• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امر بالمعروف اور نھی عن المنکر

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
امر بالمعروف اور نھی عن المنکر- اللہ تعالی کی پسندیدہ عبادت

(( أَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَی اللّٰہِ إِیْمَانٌ بِاللّٰہِ، ثُمَّ صِلَۃُ الرَّحِمِ، ثُمَّ الْأَمْرُ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّھْيُ عَنِ الْمُنْکَرِ۔ )) صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۱۶۴۔
’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: اللہ کے ہاں سب سے اچھا عمل اس پر ایمان لانا ہے پھر صلہ رحمی کرنا اور پھر نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ہے۔ ‘‘
اس عمل کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ o} [آل عمران:۱۱۰]
’’ تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے ہی پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے اور بری باتوں سے روکتے ہو۔ ‘‘
معروف کی تعریف اور وجۂ تسمیہ:
ہر قسم کی فرمانبرداری کو معروف کہا جاتا ہے۔ معروف کو معروف اس لیے کہتے ہیں کہ عقل سلیم اور فطرتِ مستقیم اس کو پہچان لیتی ہے اور آسمانی شرائع اس کا اقرار کرتی ہیں۔
سب سے پہلی اور بڑی نیکی (معروف) صرف اور صرف ایک رب کی عبادت کرنا اور اس کے علاوہ تمام کی عبادت و پوجا کو ترک کرنا ہے۔ اس کے بعد ہر قسم کی فرمانبرداری، خواہ اس کا تعلق واجبات سے ہو یا مستحبات سے، وہ معروف (نیکی) کے دائرہ میں شامل ہے۔ تو ہر وہ چیز جس کا حکم اللہ تعالیٰ یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دیں وہ معروف (نیکی) ہے۔ ‘‘
منکر:
ہر وہ چیز جس سے اللہ تعالیٰ یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم منع کردیں وہ منکر کہلاتی ہے۔ چنانچہ ہر قسم کی نافرمانی، خواہ وہ کبیرہ گناہوں سے متعلق ہو یا صغیرہ گناہوں سے، منکر کے نام سے موسوم ہے۔
منکر کو منکر اس لیے کہتے ہیں کہ عقل سلیم، فطرتِ مستقیم اور آسمانی شریعتیں اس کا انکار کرتی ہیں۔
سب سے بڑی برائی (منکر) اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا ہے۔ سب انبیاء اسی لیے مبعوث ہوئے کہ لوگوں کو سب سے بڑی نیکی یعنی، توحید کی دعوت دیں اور سب سے بڑی برائی، یعنی شرک سے روکیں۔

شرک کی تعریف:
اللہ رب العزت کے علاوہ کسی کی پوجا کرنا یا عبادت کی اقسام میں سے کسی قسم کو غیر اللہ کے لیے کرنا۔
فرمان رب العالمین ہے۔
{وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ط} [النحل:۳۶]
’’ اور یقینا ہم نے ہر امت میں (اس لیے) رسول بھیجا کہ (وہ لوگوں کو یہ پیغام پہنچادے کہ) لوگو! صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو۔ ‘‘
دوسرے پر مقام پر فرمایا:
{وَمَآ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ إِلاَّ نُوْحِیْٓ إِلَیْہِ أَ نَّہٗ لَآ إِلٰہَ إِلَّآ أَنَا فَاعْبُدُوْنِo} [الانبیاء:۲۵]
’’تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں تم سب میری ہی عبادت کرو۔ ‘‘
امر بالمعروف اور نھی عن المنکر، مؤمن اور منافق کے درمیان فرق ہے کیونکہ یہ عام مؤمن کا اخص الخاص وصف ہے۔اس کام کے تین مراتب ہیں:

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(( مَنْ رَأَی مِنْکُمْ مُّنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ، فَإِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ، فَإِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذٰلِکَ أَضْعَفُ الْاِیْمَانِ۔ )) أخرجہ مسلم في کتاب الإیمان، باب: وجوب الأمر بالمعروف والنہي عن المنکر، ح: ۱۷۷۔
’’ تم میں سے جو برائی کو دیکھے تو اپنے ہاتھ سے اسے روکے، اگر ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں تو زبان سے روکے، اگر اس کی بھی طاقت نہیں تو دل سے برا سمجھے اور یہ کمزور ترین ایمان (کی نشانی) ہے۔ ‘‘
یہ کام کرنے والوں کو حسب ذیل تین صفات سے آراستہ ہونا چاہیے۔
(۱) علم…: یعنی جس نیکی کا حکم دینا اور جس برائی سے روکنا ہے اس کا علم ہونا چاہیے۔
(۲) نرمی…: اس کی طبیعت میں نرمی ہو اور جس کا حکم دیتا اور جس سے روکتا ہے اس کے متعلق دانائی رکھتا ہو۔
مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے:
(( إِنَّ الرِّفْقَ لَا یَکُوْنَ فِيْ شَيْئٍ إِلاَّ زَانَہٗ، وَلَا یُنْزَعُ مِنْ شَيْئٍ إِلاَّ شَانَہٗ۔)) أخرجہ مسلم في کتاب البر والصلۃ، باب: فضل الرفق، ح: ۲۵۹۴۔
’’ نرمی جس چیز میں بھی ہوگی اس کو بلند کردے گی اور جس چیز سے کھینچ لی جائے گے تو اسے پست کردے گی۔ ‘‘
(۳) صبر…: تکالیف پر بہت زیادہ صبر کرنے والا ہو، جیسا کہ لقمان حکیم اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہیں جس کا تذکرہ قرآن میں اس لیے ہوا کہ لوگوں کے سامنے ایسا نقشہ ہو جس کی وہ پیروی کرسکیں کیونکہ یہ بہت مفید وصیت ہے۔
{یٰبُنَیَّ أَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَأْمُرْ بِالْمَعْروْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ أَصَابَکَ إِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُوْرِ o} [لقمان:۱۷]
’’ اے میرے بیٹے! نماز قائم رکھنا، اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا، برے کاموں سے منع کیا کرنا اور جو مصیبت تم پر آجائے صبر کرنا۔ یقین مانو کہ یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے۔ ‘‘
علم کا تعلق امر اور نہی سے پہلے ہے اور نرمی کا امر اور نہی کی حالت میں اور صبر کا ان کے بعد۔
http://www.kitabosunnat.com/forum/تزکیہ-نفس-194/اللہ-تعالی-کی-پسند-اور-ناپسند-12447/
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
محترم جناب @محمد نعیم یونس صاحب حفظہ اللہ!
آپ نے ماشاء اللہ اس کتاب کو یونیکوڈ میں پیش کرکے بہت بڑا کام کیا ہے. اللہ آپکو اس کا بہتر بدلہ عطا فرمائے اور آپکو مزید توفیق عطا فرمائے آمین.
 
Top