• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امّ المؤمنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بنت زمعہ !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
امّ المؤمنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بنت زمعہ !!!

بسم اللہ الرحمن الرحیم
امّہات المومنین
امّ المؤمنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بنت زمعہ :
سودہ نام،قریش کے قبیلے عامر بن لُؤیّ سے تھیں۔ سلسلہ نسب یہ ہے۔

سودہ بنت زمعہ بن قیس بن عبد شمس بن عبددود بن نصر بن مالک بن حسل بن عامر بن لُؤیّ۔

ماں کا نام سموس بنت قیس تھا جو انصار کے خاندان بنو نجّار سے تھیں۔ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح انکے چچازاد بھائی حضرت سکران رضی اللہ عنہ بن عمرو سے ہوا۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو نہایت صالح طبیعت عطا کی تھی۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت حق کا آغاز کیا تو انہوں نے فوراََ اس پر لبّیک کہا۔ ان کے سعید الفطرت شوہر نے بھی ان کے ساتھ اسلام قبول کر لیا۔ حبشہ کی دوسری ہجرت میں حضرت سودہ رضی اللہ عنہا اور حضرت سکران رضی اللہ عنہ بھی دوسرے مسلمانوں کے ہمراہ حبش کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ کئی برس وہاں رہ کر مکہ واپس لوٹے، جہاں چند دن بعد حضرت سکران رضی اللہ عنہ نے وفات پائی اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہو گئیں۔

یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے وفات پائی تھی، بن ماں کی بچیوں کو دیکھ دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعیت مبارک افسردہ رہتی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک جاں نثار صحابیہ حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا نے ایک دن بارگاہ نبوی میں عرض کی:

’’ یا رسول اللہ! خدیجہ کی وفات کے بعد میں آپ کو ہمیشہ ملول دیکھتی ہوں۔‘‘

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ہاں، گھر کا انتظام اور بچوں کی تربیت خدیجہ ہی کے سپرد تھی۔‘‘

خولہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی: ’’ تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک رفیق و غمگسار کی ضرورت ہے۔ اگر اجازت ہو تو میں آپ کے نکاح ثانی کیلئے سلسلہ جنبانی کروں؟۔‘‘

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منظور فرمالیا۔ حضرت خولہ رضی اللہ عنہا اب حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئیں اور ان سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش بیان کی۔ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے بخوشی حرم نبوی بننے پر اظہار رضامندی کیا۔ ان کے والد زمعہ نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام قبول کر لیا اور اپنی لخت جگر کا نکاح سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے چار سو درہم پر خود پڑھایا۔نکاح کے بعد ان کے صاحبزادے عبداللہ گھر تشریف لائے ، وہ ابھی تک مشرّف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے، اس نکاح کا حال سن کر سخت رنجیدہ ہوئے اور سر پر خاک ڈالی۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انہیں ساری عمر اپنی اس نادانی کا بہت قلق رہا۔

یہ مبارک نکاح باختلاف روایت اواخر رمضان یا شوّال سنہ ۱۰ بعد بعثت میں ہوا۔

زرقانی کا بیاں ہے کہ اپنے پہلے شوہر حضرت سکران کی زندگی میں ایک دفعہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے خواب میں دیکھا کہ تکیہ کے سہارے لیٹی ہیں کہ آسمان پھٹا اور چاند ان پر گر پڑا۔ انہوں نے یہ خواب حضرت سکران رضی اللہ عنہ سے بیان کیا تو وہ بولے۔ ’’ اس خواب کی تعبیر یہ معلوم ہوتی ہے کہ میں عنقریب فوت ہو جاؤنگا اور تم عرب کے چاند محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آؤگی۔‘‘ واقعی اس خواب کی تعبیر چند دن بعد پوری ہو گئی۔

بعض روایتوں کے مطابق حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد حضرت سودہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں اور بعض کے مطابق حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے حضورﷺ کا نکاح ثانی ہوا۔ سنہ ۱۳ بعد بعثت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما کر مدینے تشریف لے گئے تو وہاں سے حضرت رافع رضی اللہ عنہ اور حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ کو مکہ بھیجا کہ حضرت فاطمہ الزّہرا، امّ کلثوم اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا وغیرہ کو ساتھ لے آئیں۔ چناچہ وہ سب حضرت رافع رضی اللہ عنہ اور حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مدینہ آئیں۔آیت حجاب کے نزول سے پیشتر حضرت سودہ رضی اللہ عنہ قضائے حاجت وغیرہ کیلئے باہر تشریف لے جاتی تھیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ ازواج مطہّرات کو باہر نہ نکلنا چاہئیے، اس کے لئے وہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض بھی کر چکے تھے لیکن حضور خاموش رہے تھے۔ ایک دن حضرت سودہ رضی اللہ عنہا قضائے حاجت کیلئے جنگل کی طرف جا رہی تھیں کہ راستے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ مل گئے، حضرت سودہ بلند قامت تھیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں پہچان لیا اور کہا: ’’ سودہ تم کو ہم نے پہچان لیا۔‘‘ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ جملہ سخت ناگوار گزرا ، اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شکایت کی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ اس واقعہ کے بعد آیت حجاب نازل ہوئی اور تمام خواتین پردہ کی پابند ہو گئیں۔

حضرت سودہ رضی اللہ عنہ کے مزاج میں کسی قدر تیزی تھی لیکن اس کے ساتھ ہی ظرافت بھی تھی جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات محفوظ ہوتے تھے۔ ابن سعد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ وہ کبھی کبھی جان بوجھ کر بے ڈھنگے پن سے چلتی تھیں، حضورﷺ دیکھتے تو ہنس پڑتے تھے۔ ایک دن رات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، حضور ﷺ بڑی دیر تک رکوع میں رہے۔ صبح ہوئی تو کہنے لگیں۔’’ یا رسول اللہ! رات کو نماز میں آپ نے اتنی دیر تک رکوع کیا کہ مجھے اپنی نکسیر پھوٹنے کا اندیشہ ہو گیا چنانچہ میں بڑی دیر تک اپنی ناک سہلاتی رہی۔ حضور ﷺ انکی بات سن کر متبسّم ہو گئے۔

حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نہایت رحم دل اور سخی تھیں، جو کچھ ان کے ہاتھ آتا تھا اسے نہایت دریا دلی سے حاجت مندوں میں تقسیم کر دیتی تھیں۔حافظ ابن حجر نے اصابہ میں لکھا ہے کہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا دستکار تھیں اور طائف کی کھالیں بنایا کرتی تھیں۔ اس سے جو آمدنی ہوتی تھی اسے راہ خدا میں خرچ کر دیتی تھیں۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ ان کی خدمت میں درہموں کی ایک تھیلی ہدیتاً بھیجی۔ انہوں نے پوچھا، اس میں کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا ’’ درہم’’ بولیں! تھیلی میں کھجوروں کی طرح؟ یہ کہہ کر تمام درہم ضرورت مندوں میں اس طرح بانٹ دیئے جس طرح کھجوریں تقسیم کی جاتی ہیں۔

چونکہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا سن زیادہ ہو چکا تھا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ابھی نوعمر تھیں اس لئے انہوں نے اپنی باری بھی حضرت عائشہ کو دے دی جو انہوں نے خوشی سے قبول کر لی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے: ’’ میں نے کسی عورت کو جزبہ رقابت سے خالی نہ دیکھا سوائے سودہ کے۔‘‘

حضرت سودہ رضی اللہ عنہا اتنے پاکیزہ اخلاق کی مالک تھیں کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’ سوائے سودہ کے کسی اور عورت کو دیکھ کر میرے دل میں یہ کواہش پیدا نہ ہوئی کہ اس کے جسم میں میری روح ہوتی۔‘‘

حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سنہ ۱۰ ہجری میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج بیت اللہ سے مشرّف ہوئیں چونکہ دراز قد اور فربہ اندام تھیں اس لئے تیز چلنے سے مجبور تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ روانگی سے پہلے انہیں چلے جانے کی اجازت دے دی تاکہ ان کو بھیڑ بھاڑ سے تکلیف نہ ہو۔ حجّتہ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام ازواج مطہّرات کو مخاطب کرکے فرمایا:

’’ اس حج کے بعد اپنے گھروں میں بیٹھنا۔‘‘

چنانچہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا اور حضرت زینب بنت جحش نے اس حکم کی نہایت سختی سے تعمیل کی۔ دوسری ازواج ممطہّرات ادائے حج پر اس حکم کا طلاق نہیں کرتی تھیں لیکن حضرت سودہ اور حضرت زینب رضی اللہ عنہما رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ساری عمر گھر سے باہر نہ نکلیں۔ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتیں:


’’ میں حج اور عمرہ دونوں کر چکی ہوں، اب اللہ کے حکم کے مطابق گھر سے باہر نہ نکلوں گی۔‘‘

حضرت سودہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہا کے عہد خلافت میں سنہ ۲۲ ہجری میں وفات پائی۔ حضرت سکران رضی اللہ عنہا سے ان کے ایک فرزند تھے جن کا نام عبد الرّحمٰن رضی اللہ عنہ تھا ،انہوں نے خلافت فاروقی میں جنگ جلولا میں شرکت کی اور نہایت بہادری سے لڑ ر رتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے پانچ احادیث مروی ہیں۔ ان میں سے ایک صحیح بخاری میں ہے اور چار سنن اربعہ میں ہیں۔

رضی اللہ تعالیٰ عنہا
 
Top