• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ کا یومِ شہادت یکم محرم نہیں ہے

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
176
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
گزشتہ چند سالوں میں ایک نئی روایت سامنے آئی ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ کا یومِ وفات یکم محرم کو منایا جانے لگا ہے۔ اس سلسلے میں ایسی روایات کا سہارا لیا جاتا ہے جو کہ تاریخ کی کتب سے لی گئی ہیں۔ ان تاریخ کی کتب میں سند کا التزام کم ہی کیا جاتا تھا اس لیے یہ موقف کے آپؓ کا یوم شہادت یکم محرم ہے اس کی کوئی مضبوط دلیل موجود نہیں ہے۔ مزید برآں، تاریخ کی معتبر کتب میں زیادہ تر روایات ایسی ہیں جن میں آپؓ کا یومِ شہادت یکم محرم نہیں ہے بلکہ 23 ھجری کے ماہ ذو الحجہ کے اختتام سے تین یا چار دن قبل ہے ۔ دیکھا جائے تو یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے مگر اس میں بھی یکم محرم کی تاریخ کے حوالے سے روایات کم جبکہ ذوالحجہ کے بارے میں روایات زیادہ ہیں ۔مندرجہ ذیل حوالہ جات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں:

ابن سعد(م230ھ)
طبقات (مترجم جلد 3 صفحہ 123 ، نفیس اکیڈیمی کراچی)میں "حضرت عمر ؓ کی مدت ِ خلافت " کے تحت لکھتے ہیں:
"ابوبکر بن اسماعیل بن محمد بن سعد نے اپنے والد سے روایت کی کہ عمر بن خطابؓ کو 26 ذی الحجہ 23 ھجری یوم چار شنبہ کو خنجر مارا گیا اور یکم محرم 24ھجری کی صبحی کو یک شنبے کے دن دفن کئے گئے،3 محرم یوم دو شنبہ کو عثمان بن عفانؓ سے بیعت کی گئی ۔ میں نے یہ روایت عثمان بن محمد اخنسی سے بیان کی تو انہوں نے کہا سوائے اس کے میں نہیں سمجھتا کہ تم سے غفلت ہوئی ۔ عمر ؓ کی وفات 26 ذی الحجہ کو ہوئی اور عثمانؓ سے 29 ذی الحجہ یوم دو شنبہ کو بیعت کی گئی"۔

ابن قتیبہ دینوری(م 276 ھ) اپنی کتاب المعارف (مترجم ص 225، قرطاس پرنٹرز کراچی) پر لکھتے ہیں:
"(حج کے بعد) مدینہ تشریف لائے تو مغیرہ بن شعبہ کے غلام فیروز ابو لولو نے بروز پیر، 26 ذو الحجہ 23 ھجری کو آپ پر قاتلانہ حملہ کیا۔ واقدی کی روایت ہے کہ عمر چہار شنبہ 23 ذوالحجہ کو زخمی ہوئے ۔ تین دن تک زندہ رہے اور 26 ذوالحجہ کو آپ نے وفات پائی۔۔۔۔۔۔۔ابن اسحاق کے بیان کے مطابق آپ کی خلافت کی مدت دس سال چھ ماہ اور پانچ راتیں تھی"۔

مؤرخ اسلام محمد بن جریر طبری(م310ھ) اپنی شہرہ آفاق تاریخ امم والملوک المعروف تاریخ طبری (مترجم جلد سوم حصہ اوّل ص 217) میں لکھتے ہیں:
"آپ نے چہار شنبہ کی شب کو 27 ذوالحجہ 23 ھجری کو وفات پائی اور چہار شنبہ کی صبح کو آپ کا جنازہ اٹھایا گیا"۔
مزید آگے طبری نے بھی طبقات ابن سعد کے روایت کا حوالہ بھی دیا ہے اور مزید لکھا ہے:
"ابو معشر کی روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ بروز چہار شنبہ 26 ذوالحجہ 23 ھجری کو شہید ہوئے۔ ان کی مدت خلافت دس سال چھ مہنے اور چارد ن رہی"۔

ابن جوزی (م597ھ)نے "المنتظم فی تاریخ امم والملوک "(جلد 4 ص 329،دارالکتب والعلمیہ، بیروت، لبنان) میں حضرت عمر ؓ کی شہادت کو 23 ھجری کے واقعات میں ذکر کیا ہے۔

ابن اثیر جزری (م630ھ)صحابہ کے حالات کے متعلق اپنی کتاب اُسد الغابہ (مترجم(حصہ پنجم) جلد 2 صفحہ 662 )میں حضرت عمر ؓ کے حالات میں لکھتے ہیں:
"عمر بن خطاب جب منیٰ سے لوٹے تو بطحا میں ٹھہرے اور وہاں کنکریوں کا ایک تودہ بنا کر اپنی چادر کا ایک گوشہ بچھا دیا اور اس پر سر رکھ کر دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور یہ دعا کرنے لگے کہ اے اللہ میں بوڑھا ہوا اور میری قوت ضعیف اور میری عقل سست ہوگئی پس اے اللہ تو مجھ کو اپنے پاس اٹھا لے اس کے بعد ذی الحجہ کا مہینہ بھی نہیں گزرا کہ آپ زخمی کئے گئے اور آپ کی وفات ہو گئی"۔
آگے مزید حالات میں طبقات ابن سعد کی اسی روایت کا بھی حوالہ دیتے ہیں جو اوپر بیان کی گئی ہے

علامہ ذہبی (م748ھ)تذہیب تہذیب الکمال (جلد 7 ص 76 رقم 4928 مطبوعہ الفاروق الحدیثیہ للطباعہ والنشر، قاہرہ ،مصر) میں لکھتے ہیں:
"آپ کثیر المناقب ہیں، آپ کی خلافت دس سال چھ ماہ رہی، اورآپ کی شہادت ذوالحجہ کے اختتام کو چار دن یا تین دن قبل ہوئی، جب ھجرت کے 23 سال ہوئے تھے، آپ کی نماز جنازہ صہیب بن سنان نے پڑھائی اور آپ حجرہ نبوی میں دفن ہوئے"۔
تہذیب التہذیب میں بھی ابن حجر یہی لکھتے ہیں(جلد 7ص441،دارالکتاب الاسلامی ، قاہرہ ، مصر)

علامہ ذہبی نے مشہور افراد کے سن وفات کے بارے میں اپنی کتاب "العبر فی خبر من غبر" (جلد 1ص 20 مطبوعہ دارالکتب والعلمیہ بیروت، لبنان) میں حضرت عمرؓ کی شہادت کو 23 ھجری میں ذکر کیا ہے اور یہ لکھا ہے کہ ذی الحجہ ختم ہونے سے تین یا چار دن پہلے آپ کی شہادت واقع ہوئی۔
ابن کثیر(م774ھ) اپنی مشہور ِ زمانہ "البدایہ والنہایہ" المعروف تاریخ ابن کثیر(مترجم جلد 7 ص 186) پر یہ تمام اقوال اور آپ کی تاریخ شہادت پر اختلافی روایت نقل کی ہیں۔اسی صفحہ پر آپ رقمطراز ہیں:
"ابن جریر کا قول ہے کہ ہشام بن محمد کے حوالہ سے میرے پاس بیان کیا گیا ہے کہ 23ھ کے ذولحجہ کی تین راتیں باقی تھیں کہ حضرت عمر ؓ شہید ہوئے اور ان کی خلافت دس سال چھ ماہ اور چارد ن رہی، اور سیف نے خلید بن فروۃ اور مجالد کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ 3 محرم کو حضرت عثمان خلیفہ بنے اور آپ نے باہر آکر لوگوں کو عصر کی نماز پڑھائی اور علی بن محمد مدائنی عن شریک عن اعمش یا جابر الجعفی عن عوف بن مالک الاشجعی عامر بن محمد سے اس کی قوم کے اشیاخ سے روایت کی ہے اور عثمان بن عبدالرحمان نے زہری سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر ؓ بدھ کے روز زخمی ہوئے جب کہ ذوالحجہ کی سات راتیں باقی تھیں، مگر پہلا قول زیادہ مشہور ہے"۔
یاد رہے کہ ایک روایت میں راوی مجالد (مجالدبن سعید) اور دوسری میں جابر بن یزید الجعفی ضعیف ہے۔

علامہ ابن خلدون (م808ھ)تاریخ ابن خلدون (مترجم جلد 2 ص 307) میں لکھتے ہیں:
"زخمی ہونے کے بعد برابر ذکر اللہ کرتے رہے یہاں تک کہ شب چہار شنبہ ذی الحجہ 23 ھجری کو اپنی خلافت کے دس برس چھ مہینے بعد جاں بحق تسلیم ہوئے"۔

حافظ ابن حجر (م852 ھ)اسماء الرجال کے حوالے سے اپنی شہرہ آفاق کتاب تقریب الہتذیب (مترجم جلد 1 صفحہ 658 رقم 4888) میں حضرت عمر ؓکے ترجمہ کے تحت لکھتے ہیں:
"قدرت نے آپؓ کی شخصیت میں بہت سی خوبیاں ودیعت کر رکھی تھیں، ذو الحجہ 23 ھجری میں شہید ہوئے اور 10 برس چھ ماہ تک خلیفہ رہے"۔

جلال الدین سیوطی (م911ھ) اپنی کتاب تاریخ الخلفاء(ص 254،مطبوعہ وزارت اوقاف قطر) پر لکھتے ہیں کہ ذی الحجہ میں چار دن باقی تھے جب آپ کی شہادت ہوئی اور آپ کی تدفین یکم محرم کو ہوئی۔

یاد رہے کہ اس بات پر تمام مؤرخین متفق ہیں کہ حضرت عمرؓ کے دورخلافت کے بارے میں تمام مؤرخین متفق ہیں کہ آپ کی خلافت کی مدت دس سال چھ ماہ اور چار دن ہے۔حضرت ابو بکر صدیقؓ کا یوم وفات 22 جمادی الثانی 13 ھجری ہے۔ اس حساب سے حضرت عمر ؓ کا یوم وفات 27 ذوالحجہ 23 ھجری بنتا ہے۔
حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے یومِ وفات کے بارے میں اقوال مندرجہ ذیل ہیں
٭ابن سعد (طبقات الکبریٰ مترجم جلد 3 ص 38/39)شب سہ شنبہ کی ابتدائی گھڑیوں میں 22 جمادی الآخر(جمادی الثانی) 13ھ کو ابو بکرؓ کی وفات ہوئی۔
٭طبری (تاریخ طبری جلد 4 ص198) لکھتے ہیں کہ اسی سال(13 ھجری) ابو بکر نے 22 یا 23 جمادی الآخر کو وفات پائی۔۔۔۔۔مگر ایک بیان یہ ہے کہ ابو بکر نے 22 جمادی الآخر برو زدو شنبہ 63 سال کی عمر میں وفات پائی۔۔۔۔مزید برآں طبری لکھتے ہیں کہ لیکن ایک اور روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو بکر ؓ کی علالت کا باعث یہ ہوا ہے 7 جمادی الآخر دو شنبہ کے دن آپ نے غسل کیا ۔اس روز خوب سردی تھی اس وجہ سے آپ کو بخار ہو گیا اور پندرہ روز تک رہا۔۔۔۔۔۔ابو بکرؓ نے سہ شنبہ کی شام کو بتاریخ 22 جمادی الآخر 13 ھجری کو انتقال فرمایا۔
٭علامہ ذہبی (العبر جلد 1 ص13) میں لکھتے ہیں کہ ابو بکر صدیقؓ کی وفات ذی القعدہ شرو ع ہونے سے آٹھ دن پہلے فوت ہوئے۔
٭ابن اثیر (اسد الغابہ مترجم جلد 2 ص320) لکھتے ہیں کہ ابو بکرؓ نے جمعہ کے دن جمادی الآخرہ 13ھ کو وفات پائی۔۔۔۔۔۔ اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ سہ شنبہ 22 جمادی الآخرہ کو ہوئی۔
حضرت عمر ؓ کا کل دورِ حکومت 10 سال 6 ماہ اور 4 دن پر مشتمل ہے۔ اگر حضرت ابو بکرؓ کی وفات اورحضرت عمرؓ کی بیعت کے دن سے حساب لگایا جائے تو آپ کا یوم وفات 26 ذوالحجہ ہے۔ اگر کوئی یہ بات کرتا ہے کہ یہ تاریخ آپ پر حملہ اور آپ کے زخمی ہونے کی ہے تو پھر بھی آپ کا یومِ شہادت یکم محرم نہیں ہے کیونکہ جمہور مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ آپؓ کی شہادت ، آپؓ کے زخمی ہونے کے تین دن بعد ہوئی۔ اس صورت میں آپ کا یوم شہادت 29 ذوالحجہ بنتا ہے۔
تدفین: بعض حضرت اس بات سے استدلال کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کو چونکہ یکم محرم کے دن سپردِ خاک کیا گیا اس لیے ان کی شہادت کا دن بھی یکم محرم ہی ہے۔اس حوالے سے یہ عرض کیا جائے کہ۔ نبیﷺ ، صحابہ اور سلف صالحین کا یہ عمل تھا کہ وفات کے بعد جلد از جلد تدفین کی جائے اس لیے یہ امر محال ہے کہ حضرت عمر ؓ کی تدفین ان کی وفات سے تین دن بعد کی جاتی۔ اگر یوم ِ تدفین کو یوم شہادت مانا جانا چاہئیے تو اس اصول کو یوم شہادت امیرالمومنین حضرت عثمان غنیؓ پر بھی لاگو کرنا چاہئیے جن کی تدفین شہادت سے دو یا تین بعد عمل میں لائی گئی۔جبکہ حقیقت یہی ہے کہ آپ کی شہادت 27 یا 28 ذی الحجہ کوہوئی، اور انہی دو دنوں پر آپ کا یوم شہادت ہونے کا احتمال زیادہ ہے۔

خلاصہ
حضرت عمرؓ کا یوم شہادت کو یکم محرم کے دن رائج کرکے اس کو منانا صرف ایک قلیل تعداد کی مساعی ہے جو کہ ایک خاص سوچ و مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کا مقصد محرم الحرام میں ہونے والے سانحہ عظیم ،شہادتِ امام حُسین ؓ سے عوام الناس کی توجہ ہٹانا ہے۔اہل سنت کے سلف صالحین سےکبھی بھی کسی صحابی کے یومِ شہادت کو خاص طور پر منانا ثابت نہیں ہے۔ حضرت ابو بکرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کا یوم ِ شہادت اس جوش و جذبہ سے منانے کی ساعی اس مکتبہ فکر نے کبھی بھی نہیں کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایک ہی پوسٹ کو مختلف دھاگوں میں پیسٹ کرنے کی بجائے، کسی ایک جگہ پوسٹ کر کے بقیہ دھاگوں میں اس کا ربط دے دینا چاہئے۔ لہذا آپ کی زائد پوسٹس کو حذف کیا جا رہا ہے۔ وہاں پر آپ اپنی اس پوسٹ کا ربط دے دیں۔۔شکریہ!
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
خلاصہ
حضرت عمرؓ کا یوم شہادت کو یکم محرم کے دن رائج کرکے اس کو منانا صرف ایک قلیل تعداد کی مساعی ہے جو کہ ایک خاص سوچ و مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کا مقصد محرم الحرام میں ہونے والے سانحہ عظیم ،شہادتِ امام حُسین ؓ سے عوام الناس کی توجہ ہٹانا ہے۔اہل سنت کے سلف صالحین سےکبھی بھی کسی صحابی کے یومِ شہادت کو خاص طور پر منانا ثابت نہیں ہے۔ حضرت ابو بکرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کا یوم ِ شہادت اس جوش و جذبہ سے منانے کی ساعی اس مکتبہ فکر نے کبھی بھی نہیں کی ہے۔
یہ آپ کی اور باطل گروہوں کی غلط فہمی ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ کی شہادت سانحہ کربلا سے کم عظیم تھی-

حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کے ١٠ سالہ دور خلافت میں جو اسلام کی ترویج و ترقی ہوئی اور دین اسلام دنیا کے دور دراز گوشے تک پھیلا ، بیت المقدس کی فتح ہوئی، اور جو معاشی خوشحالی مسلمانوں نے اس دور میں دیکھی اس کی نظیر کسی دوسرے خلیفہ کے دور خلافت میں نہیں ملتی- آپ رضی الله عنہ کی شہادت تاریخ اسلامی کا ایک عظیم سانحہ تھا - آپ کی شہادت کے بعد سرزمین حجاز و اطراف میں اندرونی و بیرونی خلفشار نے اسلام کی جڑیں کمزور کردیں - اور اسلام کو وہ ہیبت و عظمت نصیب نہ ہو سکی جو آپ رضی الله عنہ کے دور میں مسلمانوں کو حاصل تھی-

اور جہاں تک اصحاب رسول صل الله علیہ و آ له وسلم کا یوم شہادت منانے کا تعلق ہے تو اس بدعت کی ابتداء شیعان علی و خاندان بنو بویہ نے چوتھی صدی ہجری (٣٥٢-٣٧٥ ہجری) میں حضرت حسین رضی الله عنہ اور حضرت علی رضی الله عنہ کا یوم شہادت منانے سے کی- یہ لوگ غلو کی حد تک محبّت حسین رضی الله عنہ میں مبتلا تھے اور اسی حد تک شیخین (یعنی ابو بکر و عمر اور امیر معاویہ رضی الله عنھما) سے عداوت و دشمنی رکھتے تھے- رد عمل کے طور پر ان کے مخالفین نے جنم لیا اور پھر شیخین اور باقی اصحاب رسول کا شہادت منانے کا سلسلہ چل نکلا- یہ ہے اس کی حقیقت-

جہاں تک واقعہ کربلا کا تعلق ہے تو اگرچہ یہ ایک سانحہ تھا کہ خانوادہ رسول اس میں ایک بے گناہ کے طور شہید ہو گئے- لیکن یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں تھا کہ اس کو "حق و باطل کا معرکہ یا اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد" کے جیسا قرار دیا جائے- قرون اولیٰ میں اس واقعہ کی کوئی خاص تفصیل موجود نہیں- حیرت انگیز طور پر حضرت حسین رضی الله عنہ کے پوتے سیدنا زید بن علی (زین العابدین) بن حسین بن علی رضی الله عنہ کی تصنیف کردہ "مسند" میں بھی اس واقعہ کا ذکر موجود نہیں-جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اس غیر معمولی نوعیت کا نہیں تھا کہ جیسا منبروں سے بیان ہوتا ہے-اس کو شہرت دوام ایک کذاب مورخ "ابو مخنف لوط بن یحیی " سبائی (متوفی ١٧٠ ہجری) نے دی - جو اس واقعہ کے تقریباً ٣٠-٤٠ سال بعد پیدا ہوا- لوط بن یحییٰ کے اس افسانے کو شہرت اس وقت ملی جب مورخ امام طبری نے اسے اپنی تاریخ طبری میں جگہ دی . مزید یہ کہ واقعہ کربلا سے مطلق بیشتر روایات ام سلمہ رضی الله انہ سے مروی ہیں جو خود ٥٩ ہجری سے پہلے فوت ہو گئی تھیں یعنی واقعہ کربلا ہونے سے ٢ سال پہلے- حقیقت یہ ہے کہ چند باطل افکار رکھنے والوں نے اپنے سیاسی و مذہبی عقائد کو دوام بخشنے کے لئے اس واقعہ کو خوب اچھالا اور اپنے بد باطن کی اس طرز پر ترویج کی کہ بڑے بڑے ہوش مند مسلمان گمراہ ہوے بغیر نہ رہ سکے-
 
Last edited:

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
176
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ کی شخصیت اور ان کے فضائل سے کسی کافر کوہی انکار ہو سکتا ہے اور ان کی شہادت کا سانحہ اسلام کے پہلے تین بڑے سانحوں(شہادت عثمان، شہادت علی) میں سے ہے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ حضرت حُسین ؓ کی شہادت کے بارے میں نبی ﷺ کے واضح فرامین موجود ہیں اور آپﷺ نے اپنی زندگی میں ہی اس واقعے کی پیشن گوئی کر دی تھی اور اس پر غم کا اظہار بھی فرمایا تھا۔ بعض ناصبی حضرات کو اگر خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کے آنسوؤں پر اعتراض ہے تو پھر ان کی عقل کا اللہ ہی حافظ ہے۔ جس واقعہ سے پہلے ہی نبیﷺ نے اسے بیان فرمایا اور فرماتے ہوئے آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اس کو ایک معمولی نوعیت کا واقعہ آج سے ایک صدی قبل تک کسی بھی مکتبہ فکر نے نہیں سمجھا ۔ یہ پچھلے سو سال کے دوران ہی ایسے نظریات سامنے آئے ہیں۔
جہاں تک سند کی بات ہے تو یہ فضیلت صرف نبیﷺ کے الفاظ کو ہی حاصل ہے۔ جو تاریخ کا انکار کرتا ہے اسے اپنی عقل پر ماتم کرنا چاہئیے۔ بطور چیلنج میں چار تاریخی واقعات آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں جن کی کوئی سند موجود نہیں ہے مگر پھر بھی ان پر یقین کیا جات ہے۔ جس تواتر سے واقعہ کربلا بیان کیا گیا ہے ، ان واقعات میں سے صرف ایک واقعہ ہی ایسا ہے جو اس سے زیادہ بیان کیا جاتا ہے وگرنہ باقی سارے واقعات کا تواتر بھی کم ہے اور صحیح سند بھی موجود نہیں ہے۔ ناصبیوں کو یہ چیلنج ہے کہ ان واقعات کی صحیح سند لے کر آئیں، یا پھر ان واقعات کو تسلیم کرنا چھوڑ دیں۔(یہ مت سمجھئے گا کہ راقم الحروف ان واقعات پر یقین نہیں رکھتا ، راقم الحروف ان واقعات پر یقین رکھتا ہے مگر صرف الزامی طور پر یہ سوال سامنے رکھ رہا ہے )
1۔ کیا کسی صحیح سند سے یہ ثابت ہے کہ "ابرہہ" نام کے کسی حکمران بادشاہ نے مکہ پر حملہ کیا تھا اور بیت اللہ شریف کو گرانے کی کوشش کی تھی؟
2۔ کیا کسی صحیح سند سے ثابت ہے کہ جنگ احد کے موقعہ پر سردار المنافقین عبداللہ بن ابی اور اس کے دو تین سو کے لگ بھگ ساتھی مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ کر واپس چلے گئے تھے؟
3۔ کیا کسی صحیح سند سے ثابت ہے کہ امام احمد بن حنبل پر مامون کے دور میں تشدد کیا گیا تھا؟
4۔ کیا کسی صحیح سند اور باقاعدہ نام کے ساتھ یہ ثابت ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے کسی بیٹے کی قربان پیش کی تھی؟

ناصبیوں کو یہ چیلنج ہے کہ ان چار واقعات کی مبین اورصحیح اسناد لے کر آئیں وگرنہ اپنے خود ساختہ اصولوں کا اطلاق صرف واقعہ کربلا پر نہ کریں باقی سب واقعات پر بھی کریں۔
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
176
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
"اپنے کسی" کی بجائے "اپنے کس " بیٹے کی قربانی ۔۔۔پڑھا جائے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ کی شخصیت اور ان کے فضائل سے کسی کافر کوہی انکار ہو سکتا ہے اور ان کی شہادت کا سانحہ اسلام کے پہلے تین بڑے سانحوں(شہادت عثمان، شہادت علی) میں سے ہے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ حضرت حُسین ؓ کی شہادت کے بارے میں نبی ﷺ کے واضح فرامین موجود ہیں اور آپﷺ نے اپنی زندگی میں ہی اس واقعے کی پیشن گوئی کر دی تھی اور اس پر غم کا اظہار بھی فرمایا تھا۔ بعض ناصبی حضرات کو اگر خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کے آنسوؤں پر اعتراض ہے تو پھر ان کی عقل کا اللہ ہی حافظ ہے۔ جس واقعہ سے پہلے ہی نبیﷺ نے اسے بیان فرمایا اور فرماتے ہوئے آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اس کو ایک معمولی نوعیت کا واقعہ آج سے ایک صدی قبل تک کسی بھی مکتبہ فکر نے نہیں سمجھا ۔ یہ پچھلے سو سال کے دوران ہی ایسے نظریات سامنے آئے ہیں۔
جہاں تک سند کی بات ہے تو یہ فضیلت صرف نبیﷺ کے الفاظ کو ہی حاصل ہے۔ جو تاریخ کا انکار کرتا ہے اسے اپنی عقل پر ماتم کرنا چاہئیے۔ بطور چیلنج میں چار تاریخی واقعات آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں جن کی کوئی سند موجود نہیں ہے مگر پھر بھی ان پر یقین کیا جات ہے۔ جس تواتر سے واقعہ کربلا بیان کیا گیا ہے ، ان واقعات میں سے صرف ایک واقعہ ہی ایسا ہے جو اس سے زیادہ بیان کیا جاتا ہے وگرنہ باقی سارے واقعات کا تواتر بھی کم ہے اور صحیح سند بھی موجود نہیں ہے۔ ناصبیوں کو یہ چیلنج ہے کہ ان واقعات کی صحیح سند لے کر آئیں، یا پھر ان واقعات کو تسلیم کرنا چھوڑ دیں۔(یہ مت سمجھئے گا کہ راقم الحروف ان واقعات پر یقین نہیں رکھتا ، راقم الحروف ان واقعات پر یقین رکھتا ہے مگر صرف الزامی طور پر یہ سوال سامنے رکھ رہا ہے )
1۔ کیا کسی صحیح سند سے یہ ثابت ہے کہ "ابرہہ" نام کے کسی حکمران بادشاہ نے مکہ پر حملہ کیا تھا اور بیت اللہ شریف کو گرانے کی کوشش کی تھی؟
2۔ کیا کسی صحیح سند سے ثابت ہے کہ جنگ احد کے موقعہ پر سردار المنافقین عبداللہ بن ابی اور اس کے دو تین سو کے لگ بھگ ساتھی مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ کر واپس چلے گئے تھے؟
3۔ کیا کسی صحیح سند سے ثابت ہے کہ امام احمد بن حنبل پر مامون کے دور میں تشدد کیا گیا تھا؟
4۔ کیا کسی صحیح سند اور باقاعدہ نام کے ساتھ یہ ثابت ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے کسی بیٹے کی قربان پیش کی تھی؟

ناصبیوں کو یہ چیلنج ہے کہ ان چار واقعات کی مبین اورصحیح اسناد لے کر آئیں وگرنہ اپنے خود ساختہ اصولوں کا اطلاق صرف واقعہ کربلا پر نہ کریں باقی سب واقعات پر بھی کریں۔
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ-

سب سے پہلے تو مجھے خوشی ہے کہ آپ نے حضرت عمر فاروق ؓ کی شہادت کو اسلام کے بڑے سانحوں میں شمار کیا-ورنہ رافضیت زدہ عوام تو اس کوئی اہمیت ہی نہیں دیتی -

جہاں تک واقعہ کربلا کا تعلق ہے - تو محترم ! میں نے کب اس واقعہ کے رونما ہونے سے انکار کیا ہے - ظاہر ہے کہ یہ بھی اپنے وقت کا ایک سانحہ ہی تھا جو واقعتاً عراق کے اطرف میں رونما میں ہوا اور جس میں خانوادہ رسول سمیت چند بے گناہ جانوں کا ضیاع ہوا- اور جس کی بہرحال اسناد بھی موجود ہیں- اور یہ یقیناً اپنی نوعیت کا ایک افسوسناک واقعہ تھا- لیکن معامله یہ ہے کہ چند باطل افکار رکھنے والوں نے اس واقعہ کو اپنے مذموم مقاصد کو پورا کروانے کے لئے بڑے غلط انداز میں کیش کروایا- جس کی بنا پر امّت کی ایک بڑی تعداد گمراہ ہوئی- اس سانحہ کو کذاب راویوں کے ذریے اسطرح غلط رنگ دیا گیا کہ اس بنا پر ایک خاندان (خاندان ابو سفیان رضی الله عنہ) گمراہ اور فاسق قرار پایا جو باوجود اس کے کہ فتح مکہ کے موقع پر نبی ﷺ کے ہاتھ پر ایمان لا چکا تھا اور آپ کے اصحاب میں ان کا شمار ہوتا تھا اور پھر اس کو اور اسکی آل اولاد کو معطون ٹھرایا گیا -اور دوسری طرف اہل بیعت کو ہر اجتہادی غلطی سے پاک اور معصوم عن الخطاء قرار دیا گیا- میدان کربلا کا نقشہ اسطرح کھنچا گیا جیسے راویان وہاں خود بنفس نفیس موجود تھے - جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس سانحہ کے چشم دید گواہ صرف وہ لوگ تھے جو اس واقعہ میں یا تو زندہ بچ گئے یا وہ لوگ تھے جنہوں نے خود خانوادہ رسول کو شہید کیا تھا - ان سب میں ایک بھی راوی صحابی رسول نہ تھا- اور یہ بات بھی اپنی جگہ مسلم ہے اور تمام روایات، حتیٰ کہ شیعان علی کی بیان کردہ روایات سے بھی یہ بات واضح ہے کہ حضرت حسین رضی الله عنہ کسی جنگ کے ارادے سے مدینہ سے ازم سفر نہ ہوے تھے - تو پھر سوال ہے کہ یہ حق و باطل کا معرکہ کیسے قرار پایا ؟؟- مختصراً یہ کہ دشمنان اسلام نے جس انداز سے اپنے مذموم مقاصد کے لئے اس سانحہ کربلا کو کامیابی سے کیش کروایا - کسی اور واقعہ کو نہیں کیا-

باقی جو آپ نے الزامی طور پر چار تاریخی واقعات بیان کر کے یہ چیلنج دیا ہے کہ ان کو اسنادی حثیت سے ثابت کریں - تو اس پر اہل علم ہی بہتر جواب دے سکتے ہیں-
لیکن میں آپ سے سوال کروں گا کہ واقعہ کربلا کے علاوہ مجھے اسلامی تاریخ کا کوئی ایسا واقعہ بتا دیں کہ جس میں اس حد تک غلو پایا جاتا ہو- کہ تاریخ کی ایک ہی کتاب میں اس کو اتنے متضاد زاویوں سے بیان کیا گیا ہو کہ یہ سمجھنا مشکل ہو جائے کہ اس میں صحیح کیا تھا اور غلط کیا تھا؟؟-
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
176
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!حضرت عمرؓ کوئی معمولی انسان نہیں تھے ، ان کی وفات ہی ایک بہت بڑا دکھ ہوتی ،کجا کہ شہادت۔۔۔۔۔۔اس شہادت کی وجہ سے بہت سارے ایسے کام جو ان کی نظر میں تھے رک گئے۔۔۔اللہ حکیم و دانا ہے اس لیے یہ کہنا کہ اگر وہ یہ کام کر جاتے تو آگے کی خرابی نہ ہو تی ۔۔۔کوئی اچھی بات نہیں۔۔۔۔۔۔حضرت عمرؓکی شہادت عام بات نہیں ہے۔۔کسی بھی صحابی کی شہادت عام بات نہیں ہے۔۔۔واقعہ کربلا پر غلو صرف اس حد تک ہوا ہے کہ بہت سارے عجیب و غریب واقعات اس سے جوڑ دیے گئے ہیں وگرنہ سیاسی حوالے سے جو عوامل اس میں کارفرما تھے کسی بھی متقدم نے ان سے انکار نہیں کیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔جہاں تک آلِ اُمیہ کی ہے تو آپ ان دونوں خاندانوں کے ارکان کے نام دیکھ لیں۔۔۔کبار صحابہ ان میں موجود ہیں۔۔جہاں تک آلِ سفیان کی بات ہے تو ان میں بھی بڑی بڑی شخصیات اور بڑے بڑے نام ہیں۔۔مگر اس بنیاد پر ان کے فیصلوں کو صحیح مان لینا ایسا ہی ہے جیسے کسی کو نبوت کے منصب پر فائز کرنا۔۔ایسا کام روافض نے ہے اپنے آئمہ کے حوالے سے کیا ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ایک طبقہ "شخصیات" کا نام زیادہ لے کر ان معاملات کا ذکر کرتا ہے، اور دوسرا طبقہ اپنے "خود ساختہ جوابات" کے ذریعے ان کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر شخصیات کا نام زور سے نہ لیا جائے اور نظریات کو موضوع بنایا جائے تو پھر اس دور کے مسائل کی حقیقت بہتر طور سے واضح ہو سکتی ہے ۔
 
Top