• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امیر یزید اور (حديث الخلافة ثلاثون عاما)

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
یہ بحث ذیل کے دھاگے سے موضوع سے غیرمتعلق ہونے کی بناپر یہاں منتقل کی گئی ہے۔





#################




جناب یزید تو بہت بعد کی بات ہے معاویۃ رضی اللہ عنہ کی حکومت خلافت راشدہ نہیں تھی بلکہ ملوکیت تھی اور اس پر آئمہ کا اجماع ہے اور یزید کو امام ابن تیمیہ وغیرہ نے خلافہ نہیں ٖغاصب کہا ہے اللہ کا خوف کرو
 
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
جناب یزید تو بہت بعد کی بات ہے معاویۃ رضی اللہ عنہ کی حکومت خلافت راشدہ نہیں تھی بلکہ ملوکیت تھی اور اس پر آئمہ کا اجماع ہے اور یزید کو امام ابن تیمیہ وغیرہ نے خلافہ نہیں ٖغاصب کہا ہے اللہ کا خوف کرو
جناب عبد اللہ صاحب :
کیوں آئمہ کرام پر جھوٹ باندھتے ہیں ؟ جناب نے لکھا ہے کہ
معاویۃ رضی اللہ عنہ کی حکومت خلافت راشدہ نہیں تھی بلکہ ملوکیت تھی اور اس پر آئمہ کا اجماع ہے
اپنے اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے صرف چار آئمہ کرام یعنی امام ابوحنیفہ،امام مالک، امام احمد بن حنبل، امام شافعی رحمہم اللہ علیہم سے ثابت کرو کہ سیدنا امام معاویہ بن ابی سفیان کی حکومت خلاف راشدہ نہیں تھی؟؟؟ آؤ میدان میں
دوسری بات یہ کہ شیخ کے اس مضمون کی کسی روایت اور کسی عبارت پر جناب نے انگلی نہیں رکھی اور نہ اسکا غلط ہونا ثابت کیا ۔ اس کا مطلب ہے جناب شیخ کے اس مضمون سے اتفاق رکھتے ہیں؟؟؟
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
جناب عبد اللہ صاحب :
کیوں آئمہ کرام پر جھوٹ باندھتے ہیں ؟ جناب نے لکھا ہے کہ
معاویۃ رضی اللہ عنہ کی حکومت خلافت راشدہ نہیں تھی بلکہ ملوکیت تھی اور اس پر آئمہ کا اجماع ہے
اپنے اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے صرف چار آئمہ کرام یعنی امام ابوحنیفہ،امام مالک، امام احمد بن حنبل، امام شافعی رحمہم اللہ علیہم سے ثابت کرو کہ سیدنا امام معاویہ بن ابی سفیان کی حکومت خلاف راشدہ نہیں تھی؟؟؟ آؤ میدان میں
دوسری بات یہ کہ شیخ کے اس مضمون کی کسی روایت اور کسی عبارت پر جناب نے انگلی نہیں رکھی اور نہ اسکا غلط ہونا ثابت کیا ۔ اس کا مطلب ہے جناب شیخ کے اس مضمون سے اتفاق رکھتے ہیں؟؟؟


ان آئمہ کے حوالے سے مجھے اقوال نکالنے پڑے گے فلحال آپ حنفی مالکی دیوبندی اور اہل حدیث کے معتبر آئمہ کے اس حوالے سے اقوال پڑھ لیں لنک پیش ہے
http://saifmaslool.blogspot.com/2014/12/blog-post.html
اور ایک اضافہ اور کر دوں علامہ البانی نے بھی سلسلہ احادیث صحیحہ میں ملوکیت ہے کہا ہے ابوداود میں شمس الدین مراد آبادی نے بھی اس حدیث کے تحت یہی کہا ہے دیوبندی کے ظفر احمد نعمانی نے اپنی کتاب معارف الحدیث میں بھی ملک عضوضا کی حدیث کے تحت یہی فرمایا ہے۔ حوالے بہت ہیں فلحال اپ یہ لنک دیکھو۔
اور جہاں تک مضمون کا جواب نہ دینا مضمون سے اتفاق ہے تو یہ اپ کی خوش فہمی ہے مصنف ابن ابی شیبہ میں صحیح روایت موجود ہے کہ بسر بن ارطاۃ نے مدینہ والوں سے تلوار کی نوک پر اور قتل کی دھمکی کے ساتھ معاویہ رضی اللہ عنہ کے لئے بیعت لی تھی اس لیے آئمہ احناف میں ابو بکر جصاص احکام القرآن میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کو تغلب کہتے ہیں اور فرمان نبوی موجود ہے کہ 30 سال بعد ملک عضوض ہے تو شیخ صاحب اس کو خلافت ثابت کرتے رہیں وہ خلافت نہیں ہو جائے گی۔ اللہ ہم سب کہ ہدایت دے۔
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
محترم -

ذرا یہ بیان فرما دیں کہ یزید بن معاویہ رحم الله کے ظلم کی کیا حقیقت تھی ؟؟ ہماری اکثریت ان کو ظالم و فاسق و فاجر، بدکار، زانی، ملعون اور پتا نہیں کیا کیا کہتی ہے -لیکن آج تک یہ ثابت نہیں کر سکی کہ یزید بن معاویہ رحم الله کے ظلم و فسق و فجور کی اصلی نوعیت کیا تھی ؟؟ کیا وہ عورتوں بچوں اور ضعیف افراد کو سر عام قتل کرواتے تھے ؟؟ کیا وہ قیدیوں اور اپنے مخالفین کو بھیانک سزائیں دیتے تھے ؟؟-انہوں نے کن عورتوں کی عزت لوٹی تھی ؟؟ کن محرمات سے انہوں نے نکاح کیا تھا- کیا ان کے نام بتائے جا سکتے ہیں ؟؟ مزید یہ کہ ان غیور صحابہ کرام کے سامنے سب کچھ ہوتا رہا لیکن وہ سب چپ رہے ؟؟ کیا صرف حضرت حسین رضی الله عنہ میں ہی اتنی جرّت پیدا ہوئی کہ وہ یزید بن معاویہ رحم الله کے مقابلے میں نکلے اور وہ بھی کسی منظم فوج کے بغیر صرف گھر والوں کے ساتھ ؟؟ کیا باقی تمام جید صحابہ کرام یزید بن معاویہ کے خوف سے گھروں میں دبکے رہے اور کسی کو اتنی توفیق نہ ہوئی کہ اس کار خیر میں حضرت حسین رضی الله عنہ کا ساتھ دیتے ؟ عشق حسین رضی الله عنہ کے دعوے دار اور یزید بن معاویہ رحم الله پر لعنت کو واجب سمجھنے والوں سے ان تمام سوالوں کے جوابات درکار ہیں ؟؟
جناب،
جذبات سے نہیں احادیث سے اس مسئلہ کو سمجھتے ہیں

(1) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ 30 سال خلافت ہے اس کے بعد "ملک "بادشاہت ہوگی(سنن ابو داؤد)
(2) اور مسند احمد کی حدیث میں اس ملوکیت کو ملک عضوض کہا ہےاس کا ترجمہ انگریزی میں اس لفظ کی صحیح ترجمانی کرتا ہے"tyrant kingdom"ظالم بادشاہت تو پہلے تو یہ ذہن صاف کرلیں کہ یہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ظالم بادشاہت تھی۔
(3) اب اس میں کیا ظلم ہوئے تو اس کی چند مثال احادیث کی کتب سے ہی پیش کروں گا اس کے لیے کسی تاریخ کی ضرورت نہیں ہے صحیح مسلم کتاب اماراۃ میں موجود ہے ظالم حاکم جو رعایا پر ظلم کرے کے باب سے اپ کو روایات مل جائی گی جس میں موجود ہے کہ عمرو بن عائذ رضی اللہ عنہ ابن زیاد کے پاس گئے اور اس سے حدیث بیان کی کہ جو ظالم حاکم رعایا پر ظلم کرے گا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔اس پر ابن زیاد نے کہا آرام سے بیٹھ جا تو اصحاب محمدصلی اللہ علیہ وسلم( یہ میں نے لکھا ہے ابن زیاد نے دورود نہیں پڑھا تھا) بوسی ہے۔ یہ عزت تھی ان گورنروں کے سامنے اور صحیح بخاری میں حدیث ہے جب زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت آیا تو یہ ابن زیاد ان سے ملنے آیا تو انہوں نے بھی یہی حدیث اس کو سنائی ہے اور مسلم کے الفاظ ہیں "اگر میں اب بھی زندہ رہتا تو تجھے یہ حدیث کبھی نہ سناتا۔
یہ ظلم اور جبر تھا کہ حکومت کو کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں اگر کہتے بھی تو اپنے آخری وقت میں اور اس کی شرح میں حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ حسن بصری فرماتے ہیں کہ جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے ابن زیاد کو ہمارا گورنر بنا دیا وہ چھوکرا جو خون پانی کی طرح بہاتا ظالم سفاک تھا(حوالے طلب کرنے پر پیش کروں گا انشاء اللہ)
(4) مروان منبر پر کھڑا ہے اور عید کا خطبہ نماز سے پہلے دینے کے لیے کھڑا ہوتا ہے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے اس کا کرتا پکڑ کر اس کو بیٹھانے کی کوشش کی اور فرمایا یہ سنت نہیں ہے اس پر اس نے جواب دیا وہ دن گئے جو تو نے دیکھے تھے اب یہی ہو گا(صحیح بخاری کتاب العیدین)
اب اپ بتاؤ سنت کی خلاف ورزی اور صحابہ خاموش کیوں یہ وہ ظلم تھا جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے صبر کیا تھا جیسا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے جب یزید کی بیعت کی تو فرمایا کہ اگر یہ اچھا ہے تو صحیح ورنہ ہم صبر کریں گے۔(ابن ابی دنیا)
اس ظلم کی وجہ سے صحابہ کرام صبر کا دامن تھام لیا تھا۔
(6) اب حسین رضی اللہ عنہ کیوں اٹھے تھے کیونکہ اس ظلم اور جبر سے صرف اپنے وقت کا بہترین انسان اور جنت کے جوانوں کا سردار ہی ٹکرا سکتا تھا ان کے نانا کا دین برباد ہو رہا تھا اور بچپن سے ہی ان کومعلوم تھا میں نے شھید ہونا ہے اس لئے وہ نکلے اور ان کا مقصد تھا کہ اس سوئی اور بےبس امت پر ایک ایسا خون کا چھیٹا مارا جائے کہ یہ جاگ جائیں اور وہ خون کسی عام آدمی کا نہیں تھا بڑے کام کے لیے بڑی قربانی چاھیے ہوتی ہے اور اہل بیعت کی پاکیزۃ خواتین کو کوفہ سے شام تک لے جایا گیا کہ امت دیکھے تاکہ اٹھ کھڑی ہو کہ کیسے ان پاکیزہ خواتین کو ایک ملک سے دوسرے میں سفر کروایا گیا ہے اور یہی وجہ تھی کہ پھر تحریک چلی مکہ میں ابن زبیر رضی اللہ عنہ ، مدینہ والوں نے بیعت توڑ دی ، اس کے بعد مروان کے خلاف جما جم کے مقام پر حافظ اور قاری کھڑے ہو گئے۔
اگر حسین رضی اللہ عنہ نہ کھڑے ہوتے تو یہ لکھا جانا تھا کہ یہ جو ہو رہا ہے سب صحیح ہے یہ اسلام حکومت ہی ہے مگر وہ جو اقبال نے کہاکہ
چوں خلافت رشتہ از قرآن گسیخت
حریت را زہر اندر کام ریخت
جب خلافت نے قران سے رشتہ توڑ لیا
تو ازادی کے حلق میں زہر انڈیل دیا گیا۔
یہ ہے کربلا کی حقیقت۔ اللہ سب کو ہدایت دے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
جناب،
جذبات سے نہیں احادیث سے اس مسئلہ کو سمجھتے ہیں

(1) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ 30 سال خلافت ہے اس کے بعد "ملک "بادشاہت ہوگی(سنن ابو داؤد)
(2) اور مسند احمد کی حدیث میں اس ملوکیت کو ملک عضوض کہا ہےاس کا ترجمہ انگریزی میں اس لفظ کی صحیح ترجمانی کرتا ہے"tyrant kingdom"ظالم بادشاہت تو پہلے تو یہ ذہن صاف کرلیں کہ یہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ظالم بادشاہت تھی۔
(3) اب اس میں کیا ظلم ہوئے تو اس کی چند مثال احادیث کی کتب سے ہی پیش کروں گا اس کے لیے کسی تاریخ کی ضرورت نہیں ہے صحیح مسلم کتاب اماراۃ میں موجود ہے ظالم حاکم جو رعایا پر ظلم کرے کے باب سے اپ کو روایات مل جائی گی جس میں موجود ہے کہ عمرو بن عائذ رضی اللہ عنہ ابن زیاد کے پاس گئے اور اس سے حدیث بیان کی کہ جو ظالم حاکم رعایا پر ظلم کرے گا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔اس پر ابن زیاد نے کہا آرام سے بیٹھ جا تو اصحاب محمدصلی اللہ علیہ وسلم( یہ میں نے لکھا ہے ابن زیاد نے دورود نہیں پڑھا تھا) بوسی ہے۔ یہ عزت تھی ان گورنروں کے سامنے اور صحیح بخاری میں حدیث ہے جب زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت آیا تو یہ ابن زیاد ان سے ملنے آیا تو انہوں نے بھی یہی حدیث اس کو سنائی ہے اور مسلم کے الفاظ ہیں "اگر میں اب بھی زندہ رہتا تو تجھے یہ حدیث کبھی نہ سناتا۔
یہ ظلم اور جبر تھا کہ حکومت کو کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں اگر کہتے بھی تو اپنے آخری وقت میں اور اس کی شرح میں حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ حسن بصری فرماتے ہیں کہ جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے ابن زیاد کو ہمارا گورنر بنا دیا وہ چھوکرا جو خون پانی کی طرح بہاتا ظالم سفاک تھا(حوالے طلب کرنے پر پیش کروں گا انشاء اللہ)
(4) مروان منبر پر کھڑا ہے اور عید کا خطبہ نماز سے پہلے دینے کے لیے کھڑا ہوتا ہے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے اس کا کرتا پکڑ کر اس کو بیٹھانے کی کوشش کی اور فرمایا یہ سنت نہیں ہے اس پر اس نے جواب دیا وہ دن گئے جو تو نے دیکھے تھے اب یہی ہو گا(صحیح بخاری کتاب العیدین)
اب اپ بتاؤ سنت کی خلاف ورزی اور صحابہ خاموش کیوں یہ وہ ظلم تھا جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے صبر کیا تھا جیسا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے جب یزید کی بیعت کی تو فرمایا کہ اگر یہ اچھا ہے تو صحیح ورنہ ہم صبر کریں گے۔(ابن ابی دنیا)
اس ظلم کی وجہ سے صحابہ کرام صبر کا دامن تھام لیا تھا۔
(6) اب حسین رضی اللہ عنہ کیوں اٹھے تھے کیونکہ اس ظلم اور جبر سے صرف اپنے وقت کا بہترین انسان اور جنت کے جوانوں کا سردار ہی ٹکرا سکتا تھا ان کے نانا کا دین برباد ہو رہا تھا اور بچپن سے ہی ان کومعلوم تھا میں نے شھید ہونا ہے اس لئے وہ نکلے اور ان کا مقصد تھا کہ اس سوئی اور بےبس امت پر ایک ایسا خون کا چھیٹا مارا جائے کہ یہ جاگ جائیں اور وہ خون کسی عام آدمی کا نہیں تھا بڑے کام کے لیے بڑی قربانی چاھیے ہوتی ہے اور اہل بیعت کی پاکیزۃ خواتین کو کوفہ سے شام تک لے جایا گیا کہ امت دیکھے تاکہ اٹھ کھڑی ہو کہ کیسے ان پاکیزہ خواتین کو ایک ملک سے دوسرے میں سفر کروایا گیا ہے اور یہی وجہ تھی کہ پھر تحریک چلی مکہ میں ابن زبیر رضی اللہ عنہ ، مدینہ والوں نے بیعت توڑ دی ، اس کے بعد مروان کے خلاف جما جم کے مقام پر حافظ اور قاری کھڑے ہو گئے۔
اگر حسین رضی اللہ عنہ نہ کھڑے ہوتے تو یہ لکھا جانا تھا کہ یہ جو ہو رہا ہے سب صحیح ہے یہ اسلام حکومت ہی ہے مگر وہ جو اقبال نے کہاکہ
چوں خلافت رشتہ از قرآن گسیخت
حریت را زہر اندر کام ریخت
جب خلافت نے قران سے رشتہ توڑ لیا
تو ازادی کے حلق میں زہر انڈیل دیا گیا۔
یہ ہے کربلا کی حقیقت۔ اللہ سب کو ہدایت دے
محترم -

پہلی بات یہ ہے کہ 30 سال خلافت ہے اس کے بعد "ملک "بادشاہت ہوگی (سنن ابو داؤد) ؛والی روایت پر اکثر محدثین نے جرح بھی کی ہے - دیکھیے امام عقیلی کی الضعفاء الكبير- بہرحال اکثر کے نزیک یہ روایت اگر صحیح بھی تسلیم کر لی جائے تو اس سے وہ مطلب اخذ کرنا جو اہل تشیع کا خاص شیوہ ہے- وہ مطالب اخذ کرنا اہل سنّت و الجماعت کے مسلمانوں کو کسی بھی طور زیب نہیں دیتا -اور آپ بھی بظاھر ایسا ہی کررے ہیں- کیوں کہ اگر تیس سال خلافت کے بعد ملوکیت (یعنی کاٹ کھانے والی بادشاہت) تسیلم کرلی جائے تو وہ دور تو حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی خلافت کا سنہری دور بنتا ہے (جسے اس روایت کی بنیاد پر مودودی صاحب اور ان جیسے اور عالم فاضل علماء نے بھی رافضیوں کی اقتداء میں ملوکیت قرار دے دیا ہے) بلکہ بعض کے نزدیک تو حضرت حسن رضی الله عنہا کی خلافت کو بھی ملوکیت میں شمار کرنا پڑے گا کہ وہ بھی ٣٠ سال بعد کی ہے-مزید یہ کہ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ حسن رضی الله عنہ امت کے دو گروہوں میں صلح کرائیں گے- لیکن مذکورہ تیس سال خلافت والی روایت کے اس غلط مفہوم کے تحت (جو اکثر اہل سنّت کے علماء رافضیوں کی اقتداء میں پیش کرتے ہیں) حسن رضی الله عنہ نے معاویہ رضی الله عنہ کے حق میں دستبردار ہو کر غلط کیا . اگر حسن رضی الله عنہ خلیفہ نہیں تھے تو وہ کس چیز سے دست بردار ہوئے. سارا الزام حسن رضی الله عنہ پر اتا ہے کہ وہ بادشاہوں کو امت پر مسلط کر کے چلے گئے؟؟

دوسرے یہ کہ صحیح روایات کے مطابق نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے اپنے بعد آنے والوں دو ادوار کو بھی خیر القرون سے تعبیر کیا ہے- پھر اس قسم کے قصّے گھڑ کر خاندان بنو امیّہ کو بدنام کرنا کہ ان کے حکمران ظالم و فاسق و فاجر تھے اور ملوکیت کے دلدادہ تھے وغیرہ- یہ سوچ عبد اللہ بن سبا، ابو مخنف لوط بن یحییٰ ، واقدی ، اور سعد کلبی جیسے جھوٹے کذابوں کی پیدا کردہ ہے- حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں -

صحیح بخاری کی حدیث ہے


باب إِذَا قَالَ عِنْدَ قَوْمٍ شَيْئًا، ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ بِخِلاَفِهِ

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ قَالَ لَمَّا خَلَعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ جَمَعَ ابْنُ عُمَرَ حَشَمَهُ وَوَلَدَهُ فَقَالَ إِنِّى سَمِعْتُ النَّبِىَّ – صلى الله عليه وسلم – يَقُولُ «يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ». وَإِنَّا قَدْ بَايَعْنَا هَذَا الرَّجُلَ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنِّى لاَ أَعْلَمُ غَدْرًا أَعْظَمَ مِنْ أَنْ يُبَايَعَ رَجُلٌ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، ثُمَّ يُنْصَبُ



نافع کہتے ہیں کہ جب مدینہ والوں نے يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ کی بیعت توڑی تو عبدللہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنے خاندان والوں کو جمع کیا اور کہا کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر دغا باز کے لئے قیامت کے دن اک جھنڈا گا ڑھا جائے گا – اور بے شک میں نے اس آدمی (یزید بن معاویہ) کی بیعت کی ہے الله اور اس کے رسول (کی اتبا ع پر) اور میں کوئی ایسا بڑا عذر نہیں جانتا کہ کسی کی الله اور رسول کے لئے بیعت کی جائے اور پھر توڑی جائے

اب اگر یزید بن معاویہ رضی الله عنہ فاسق و فاجر تھے تو پھر عبدللہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ کی اس تقریر کے بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟؟ کیا یہ سب کچھ انہوں یزید بن معاویہ رضی الله عنہ سے ڈر اور خوف کی بنا پر کیا تھا -صحابہ کرام تو وہ ہستیاں ہیں کہ انہوں نے بڑے بڑے دشمنوں سے خوف نہیں کھایا - کیا ایک یزید بن معاویہ سے خوف کھا کر بیٹھ گئے ؟؟
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
محترم -

پہلی بات یہ ہے کہ 30 سال خلافت ہے اس کے بعد "ملک "بادشاہت ہوگی (سنن ابو داؤد) ؛والی روایت پر اکثر محدثین نے جرح بھی کی ہے - دیکھیے امام عقیلی کی الضعفاء الكبير- بہرحال اکثر کے نزیک یہ روایت اگر صحیح بھی تسلیم کر لی جائے تو اس سے وہ مطلب اخذ کرنا جو اہل تشیع کا خاص شیوہ ہے- وہ مطالب اخذ کرنا اہل سنّت و الجماعت کے مسلمانوں کو کسی بھی طور زیب نہیں دیتا -اور آپ بھی بظاھر ایسا ہی کررے ہیں- کیوں کہ اگر تیس سال خلافت کے بعد ملوکیت (یعنی کاٹ کھانے والی بادشاہت) تسیلم کرلی جائے تو وہ دور تو حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی خلافت کا سنہری دور بنتا ہے (جسے اس روایت کی بنیاد پر مودودی صاحب اور ان جیسے اور عالم فاضل علماء نے بھی رافضیوں کی اقتداء میں ملوکیت قرار دے دیا ہے) بلکہ بعض کے نزدیک تو حضرت حسن رضی الله عنہا کی خلافت کو بھی ملوکیت میں شمار کرنا پڑے گا کہ وہ بھی ٣٠ سال بعد کی ہے-مزید یہ کہ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ حسن رضی الله عنہ امت کے دو گروہوں میں صلح کرائیں گے- لیکن مذکورہ تیس سال خلافت والی روایت کے اس غلط مفہوم کے تحت (جو اکثر اہل سنّت کے علماء رافضیوں کی اقتداء میں پیش کرتے ہیں) حسن رضی الله عنہ نے معاویہ رضی الله عنہ کے حق میں دستبردار ہو کر غلط کیا . اگر حسن رضی الله عنہ خلیفہ نہیں تھے تو وہ کس چیز سے دست بردار ہوئے. سارا الزام حسن رضی الله عنہ پر اتا ہے کہ وہ بادشاہوں کو امت پر مسلط کر کے چلے گئے؟؟

دوسرے یہ کہ صحیح روایات کے مطابق نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے اپنے بعد آنے والوں دو ادوار کو بھی خیر القرون سے تعبیر کیا ہے- پھر اس قسم کے قصّے گھڑ کر خاندان بنو امیّہ کو بدنام کرنا کہ ان کے حکمران ظالم و فاسق و فاجر تھے اور ملوکیت کے دلدادہ تھے وغیرہ- یہ سوچ عبد اللہ بن سبا، ابو مخنف لوط بن یحییٰ ، واقدی ، اور سعد کلبی جیسے جھوٹے کذابوں کی پیدا کردہ ہے- حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں -

صحیح بخاری کی حدیث ہے


باب إِذَا قَالَ عِنْدَ قَوْمٍ شَيْئًا، ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ بِخِلاَفِهِ

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ قَالَ لَمَّا خَلَعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ جَمَعَ ابْنُ عُمَرَ حَشَمَهُ وَوَلَدَهُ فَقَالَ إِنِّى سَمِعْتُ النَّبِىَّ – صلى الله عليه وسلم – يَقُولُ «يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ». وَإِنَّا قَدْ بَايَعْنَا هَذَا الرَّجُلَ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنِّى لاَ أَعْلَمُ غَدْرًا أَعْظَمَ مِنْ أَنْ يُبَايَعَ رَجُلٌ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، ثُمَّ يُنْصَبُ



نافع کہتے ہیں کہ جب مدینہ والوں نے يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ کی بیعت توڑی تو عبدللہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنے خاندان والوں کو جمع کیا اور کہا کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر دغا باز کے لئے قیامت کے دن اک جھنڈا گا ڑھا جائے گا – اور بے شک میں نے اس آدمی (یزید بن معاویہ) کی بیعت کی ہے الله اور اس کے رسول (کی اتبا ع پر) اور میں کوئی ایسا بڑا عذر نہیں جانتا کہ کسی کی الله اور رسول کے لئے بیعت کی جائے اور پھر توڑی جائے

اب اگر یزید بن معاویہ رضی الله عنہ فاسق و فاجر تھے تو پھر عبدللہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ کی اس تقریر کے بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟؟ کیا یہ سب کچھ انہوں یزید بن معاویہ رضی الله عنہ سے ڈر اور خوف کی بنا پر کیا تھا -صحابہ کرام تو وہ ہستیاں ہیں کہ انہوں نے بڑے بڑے دشمنوں سے خوف نہیں کھایا - کیا ایک یزید بن معاویہ سے خوف کھا کر بیٹھ گئے ؟؟
جناب
میں پھر عرض کر رہا ہوں جذبات سے نہیں احادیث سے سمجھتے ہیں
(1) 30 سال خلافت والی حدیث کو سلف سے خلف تک تمام محدثین نے قبول کیا ہے اور اس کی سند بھی صحیح ہے اس کے ایک راوی سَعِيدِ بْنِ جُمْهَان پر صرف ابن حاتم نے کچھ کلام کیا ہے وہ بھی اس طرح کا جیسا انہوں اکثر بخاری اور مسلم کے راویوں کے بارے میں کیا ہے " يكتب حديثه ، و لا يحتج به" مگر عصر حاضر کے تمام محدثین البانی زبیر علی زئی شعیب اروناط وغیرہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور یہ آپ بھی مانتے ہی ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
(2) آپ کی دوسری بات کہ میں نے اس سے بظاہر اہل تشیع کا مطلب اخذ کر رہا ہوں اور وہ مطلب اخذ کرنا اہل سنت کو شیوہ نہیں دیتا ہے اور مودوی کی اقتدا میں
ان جیسے اور عالم فاضل علماء نے بھی رافضیوں کی اقتداء میں ملوکیت قرار دے دیا ہے
میں بڑے مودبانہ انداز میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس حدیث سے اہل سنت کے اتنے علماء اور اکابرین نے 30 سال بعد ملوکیت کہا ہے کہ میرے خیال سے اہل سنت کے پاس اکابرین کی تعداد ہی انتہائی کم رہ جائے گی آپ گنا شروع کریں۔
(1) حافظ ابن حجر (2) امام ذہبی(3) امام ابن کثیر(4) امام ابن تیمیہ(5) صفی الرحمن مبارکپوری(6) شمس الدین مراد ابادی (شرح ابوداود)(7) ملا علی قاری(10) ناصر الدین البانی۔ ثم عشرہ کاملین۔
اس میں ابھی اور بھی نام تھے مگر اپ کہ لیے یہ کافی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی رافضی نہیں اور اگر کہیں گے تو سب کی الگ الگ عبارات بھی پیش کر دوں گا۔

اور یہ امام ابن تیمیہ کا فتاوی سے عبارت پڑھ لو
وَثَبَتَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: {خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَصِيرُ مُلْكًا} وَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ {عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ مِنْ بَعْدِي تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ} . وَكَانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ آخِرَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ. وَقَدْ اتَّفَقَ عَامَّةُ أَهْلِ السُّنَّةِ مِنْ الْعُلَمَاءِ وَالْعِبَادِ وَالْأُمَرَاءِ وَالْأَجْنَادِ عَلَى أَنْ يَقُولُوا: أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ؛ ثُمَّ عُثْمَانُ؛ ثُمَّ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ.(مجموع فتاوی جلد 3 ص 406
پڑھ لیا اخری خلیفۃ علی رضی اللہ عنہ ہے اور امام ابن تیمیہ بھی اسی حدیث سے استدلال فرما رہے ہیں اس پر اتفاق نقل کر رہے ہیں یہ اتفاق رافضیوں کا نہیں ہے بلکہ اہل سنت و الجماعت کا ہے۔ اور ذرا یہ لنک بھی دیکھ لیجیے گا۔

http://saifmaslool.blogspot.com/2014/12/blog-post.html

(3) ابن عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے جو اپ نے نقل کیا ہے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اخرت کو پسند کر لیا تھا اور اسی پر اکتفا کر لیا اور وہ فتنہ کی وجہ سے ہر کسی کی بیعت کر لیتے تھے جیسا میں نے پہلے بھی نقل کیا تھا۔
قَالَ ابْنُ عُمَرَ حِينَ أَتَتْهُ بَيْعَةُ يَزِيدَ: «إِنْ كَانَ خَيْرًا رَضِينَا، وَإِنْ كَانَ بَلَاءً صَبَرْنَا»
الصبر ابن ابی دنیا رقم 168
اور فتح الباری میں ابن حجر فرماتے ہیں۔
بن عُمَرَ بِخِلَافِ ذَلِكَ وَأَنَّهُ لَا يُبَايَعُ الْمَفْضُولُ إِلَّا إِذَا خُشِيَ الْفِتْنَةُ وَلِهَذَا بَايَعَ بَعْدَ ذَلِكَ مُعَاوِيَةَ ثُمَّ ابْنَهُ يَزِيدَ وَنَهَى بَنِيهِ عَنْ نَقْضِ بَيْعَتِهِ كَمَا سَيَأْتِي فِي الْفِتَنِ وَبَايَعَ بَعْدَ ذَلِكَ لِعَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَان (فتح الباری تحت رقم 4108 باب غزوہ الخندق)
اس میں صاف موجود ہے کہ انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ پھر یزید اور اس کے بعد عبدالملک بن مروان کی بیعت فتنہ کی وجہ سے کی تھی۔
(4) اب اخری بات میں نے جو مظالم کے واقعات نقل کیے تھے وہ کسی ابو مخف واقدی اور نہ کسی رافضی سے نقل کیےتھے یہ بخاری اور مسلم کی احادیث ہے آپ کو یقین نہیں ہوا اس لیے اب متن سمیت روایت کر رہا ہوں۔
صحیح مسلم کی روایت
عَادَ عُبَيْدُ اللهِ بْنُ زِيَادٍ مَعْقِلَ بْنَ يَسَارٍ الْمُزَنِيَّ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، فَقَالَ مَعْقِلٌ: إِنِّي مُحَدِّثُكَ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَوْ عَلِمْتُ أَنَّ لِي حَيَاةً مَا حَدَّثْتُكَ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْتَرْعِيهِ اللهُ رَعِيَّةً، يَمُوتُ يَوْمَ يَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لِرَعِيَّتِهِ، إِلَّا حَرَّمَ اللهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ»(صحیح مسلم کتاب امارہ باب فَضِيلَةِ الْإِمَامِ الْعَادِلِ، وَعُقُوبَةِ الْجَائِر
اور اس کی شرح میں یہ لکھا ہے
لولا أني في الموت لم أحدثك به يحتمل أنه كان يخافه على نفسه
انہوں نے مرنے کے وقت حدیث اس لئے بتائی کہ اس سے قبل ان کو جان کا خوف تھا۔
اس کی دوسری حدیث
أَنَّ عَائِذَ بْنَ عَمْرٍو، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى عُبَيْدِ اللهِ بْنِ زِيَادٍ، فَقَالَ: أَيْ بُنَيَّ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ شَرَّ الرِّعَاءِ الْحُطَمَةُ، فَإِيَّاكَ أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ» ، فَقَالَ لَهُ: اجْلِسْ فَإِنَّمَا أَنْتَ مِنْ نُخَالَةِ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم
اس کے الفاظ پڑھو "نُخَالَةِ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم"
تو آصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بھوسی ہے یہ صحابہ کی عزت کی جاتی تھی نعوذ باللہ۔
اب بخاری میں دیکھتے ہیں
أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ زِيَادٍ، عَادَ مَعْقِلَ بْنَ يَسَارٍ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، فَقَالَ لَهُ مَعْقِلٌ إِنِّي مُحَدِّثُكَ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا مِنْ عَبْدٍ اسْتَرْعَاهُ اللَّهُ رَعِيَّةً، فَلَمْ يَحُطْهَا بِنَصِيحَةٍ، إِلَّا لَمْ يَجِدْ رَائِحَةَ الجَنَّةِ»
بخاری رقم 7150

ابن حجر نے بھی معقل بن یسا کے وفات کے قصہ کے تحت حسن بصری رحمہ اللہ کا یہ قول ابن زیاد کے بارے میں نقل کیا ہے کہ"الْحَسَنِ قَالَ لَمَّا قَدِمَ عَلَيْنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ أَمِيرًا أَمَّرَهُ عَلَيْنَا مُعَاوِيَةُ غُلَامًا سَفِيهًا يَسْفِكُ الدِّمَاءَ سَفْكًا شَدِيدًا"
ابن زیاد سفاک بیوقوف چھوکرا جو خون پانی کی طرح بہاتا تھا۔(فتح الباری تحت رقم7150)
اب مروان کے بارے میں پڑھو
قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: «فَلَمْ يَزَلِ النَّاسُ عَلَى ذَلِكَ حَتَّى خَرَجْتُ مَعَ مَرْوَانَ - وَهُوَ أَمِيرُ المَدِينَةِ - فِي أَضْحًى أَوْ فِطْرٍ، فَلَمَّا أَتَيْنَا المُصَلَّى إِذَا مِنْبَرٌ بَنَاهُ كَثِيرُ بْنُ الصَّلْتِ، فَإِذَا مَرْوَانُ يُرِيدُ أَنْ يَرْتَقِيَهُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ، فَجَبَذْتُ بِثَوْبِهِ، فَجَبَذَنِي، فَارْتَفَعَ، فَخَطَبَ قَبْلَ الصَّلاَةِ» ، فَقُلْتُ لَهُ: غَيَّرْتُمْ وَاللَّهِ، فَقَالَ أَبَا سَعِيدٍ: «قَدْ ذَهَبَ مَا تَعْلَمُ» ، فَقُلْتُ: مَا أَعْلَمُ وَاللَّهِ خَيْرٌ مِمَّا لاَ أَعْلَمُ، فَقَالَ: «إِنَّ النَّاسَ لَمْ يَكُونُوا يَجْلِسُونَ لَنَا بَعْدَ الصَّلاَةِ، فَجَعَلْتُهَا قَبْلَ الصَّلاَةِ»
صحیح بخاری کتاب الجمعہ رقم 956
اس کی شرح میں موجود ہے کہ خطبہ کیوں پہلے پڑھا جاتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ خطبوں میں علی رضی اللہ عنہ پر لعنت کی جاتی تھی لوگ سنتے نہیں تھے اٹھ کر چلے جاتے اس لیے لوگوں کو سنانے کے لیے خطبہ پہلے کیا جاتا تھا۔ یہ چند حوالے ہیں جو میں نے نہ کسی تاریخ کی کتاب سے دیے ہیں اور نہ کسی رافضی کی کتاب سے بلکہ یہ اہل سنت و الجماعت کی سب سے معتبر کتب ہیں اس ظلم کے خلاف حیسن رضی اللہ عنہ کھڑے ہوے تھے اللہ سب کو ہدایت دے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
جناب
میں پھر عرض کر رہا ہوں جذبات سے نہیں احادیث سے سمجھتے ہیں
(1) 30 سال خلافت والی حدیث کو سلف سے خلف تک تمام محدثین نے قبول کیا ہے اور اس کی سند بھی صحیح ہے اس کے ایک راوی سَعِيدِ بْنِ جُمْهَان پر صرف ابن حاتم نے کچھ کلام کیا ہے وہ بھی اس طرح کا جیسا انہوں اکثر بخاری اور مسلم کے راویوں کے بارے میں کیا ہے " يكتب حديثه ، و لا يحتج به" مگر عصر حاضر کے تمام محدثین البانی زبیر علی زئی شعیب اروناط وغیرہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور یہ آپ بھی مانتے ہی ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
(2) آپ کی دوسری بات کہ میں نے اس سے بظاہر اہل تشیع کا مطلب اخذ کر رہا ہوں اور وہ مطلب اخذ کرنا اہل سنت کو شیوہ نہیں دیتا ہے اور مودوی کی اقتدا میں
ان جیسے اور عالم فاضل علماء نے بھی رافضیوں کی اقتداء میں ملوکیت قرار دے دیا ہے
میں بڑے مودبانہ انداز میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس حدیث سے اہل سنت کے اتنے علماء اور اکابرین نے 30 سال بعد ملوکیت کہا ہے کہ میرے خیال سے اہل سنت کے پاس اکابرین کی تعداد ہی انتہائی کم رہ جائے گی آپ گنا شروع کریں۔
(1) حافظ ابن حجر (2) امام ذہبی(3) امام ابن کثیر(4) امام ابن تیمیہ(5) صفی الرحمن مبارکپوری(6) شمس الدین مراد ابادی (شرح ابوداود)(7) ملا علی قاری(10) ناصر الدین البانی۔ ثم عشرہ کاملین۔
اس میں ابھی اور بھی نام تھے مگر اپ کہ لیے یہ کافی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی رافضی نہیں اور اگر کہیں گے تو سب کی الگ الگ عبارات بھی پیش کر دوں گا۔

اور یہ امام ابن تیمیہ کا فتاوی سے عبارت پڑھ لو
وَثَبَتَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: {خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَصِيرُ مُلْكًا} وَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ {عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ مِنْ بَعْدِي تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ} . وَكَانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ آخِرَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ. وَقَدْ اتَّفَقَ عَامَّةُ أَهْلِ السُّنَّةِ مِنْ الْعُلَمَاءِ وَالْعِبَادِ وَالْأُمَرَاءِ وَالْأَجْنَادِ عَلَى أَنْ يَقُولُوا: أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ؛ ثُمَّ عُثْمَانُ؛ ثُمَّ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ.(مجموع فتاوی جلد 3 ص 406
پڑھ لیا اخری خلیفۃ علی رضی اللہ عنہ ہے اور امام ابن تیمیہ بھی اسی حدیث سے استدلال فرما رہے ہیں اس پر اتفاق نقل کر رہے ہیں یہ اتفاق رافضیوں کا نہیں ہے بلکہ اہل سنت و الجماعت کا ہے۔ اور ذرا یہ لنک بھی دیکھ لیجیے گا۔

http://saifmaslool.blogspot.com/2014/12/blog-post.html

(3) ابن عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے جو اپ نے نقل کیا ہے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اخرت کو پسند کر لیا تھا اور اسی پر اکتفا کر لیا اور وہ فتنہ کی وجہ سے ہر کسی کی بیعت کر لیتے تھے جیسا میں نے پہلے بھی نقل کیا تھا۔
قَالَ ابْنُ عُمَرَ حِينَ أَتَتْهُ بَيْعَةُ يَزِيدَ: «إِنْ كَانَ خَيْرًا رَضِينَا، وَإِنْ كَانَ بَلَاءً صَبَرْنَا»
الصبر ابن ابی دنیا رقم 168
اور فتح الباری میں ابن حجر فرماتے ہیں۔
بن عُمَرَ بِخِلَافِ ذَلِكَ وَأَنَّهُ لَا يُبَايَعُ الْمَفْضُولُ إِلَّا إِذَا خُشِيَ الْفِتْنَةُ وَلِهَذَا بَايَعَ بَعْدَ ذَلِكَ مُعَاوِيَةَ ثُمَّ ابْنَهُ يَزِيدَ وَنَهَى بَنِيهِ عَنْ نَقْضِ بَيْعَتِهِ كَمَا سَيَأْتِي فِي الْفِتَنِ وَبَايَعَ بَعْدَ ذَلِكَ لِعَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَان (فتح الباری تحت رقم 4108 باب غزوہ الخندق)
اس میں صاف موجود ہے کہ انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ پھر یزید اور اس کے بعد عبدالملک بن مروان کی بیعت فتنہ کی وجہ سے کی تھی۔
(4) اب اخری بات میں نے جو مظالم کے واقعات نقل کیے تھے وہ کسی ابو مخف واقدی اور نہ کسی رافضی سے نقل کیےتھے یہ بخاری اور مسلم کی احادیث ہے آپ کو یقین نہیں ہوا اس لیے اب متن سمیت روایت کر رہا ہوں۔
صحیح مسلم کی روایت
عَادَ عُبَيْدُ اللهِ بْنُ زِيَادٍ مَعْقِلَ بْنَ يَسَارٍ الْمُزَنِيَّ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، فَقَالَ مَعْقِلٌ: إِنِّي مُحَدِّثُكَ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَوْ عَلِمْتُ أَنَّ لِي حَيَاةً مَا حَدَّثْتُكَ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْتَرْعِيهِ اللهُ رَعِيَّةً، يَمُوتُ يَوْمَ يَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لِرَعِيَّتِهِ، إِلَّا حَرَّمَ اللهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ»(صحیح مسلم کتاب امارہ باب فَضِيلَةِ الْإِمَامِ الْعَادِلِ، وَعُقُوبَةِ الْجَائِر
اور اس کی شرح میں یہ لکھا ہے
لولا أني في الموت لم أحدثك به يحتمل أنه كان يخافه على نفسه
انہوں نے مرنے کے وقت حدیث اس لئے بتائی کہ اس سے قبل ان کو جان کا خوف تھا۔
اس کی دوسری حدیث
أَنَّ عَائِذَ بْنَ عَمْرٍو، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى عُبَيْدِ اللهِ بْنِ زِيَادٍ، فَقَالَ: أَيْ بُنَيَّ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ شَرَّ الرِّعَاءِ الْحُطَمَةُ، فَإِيَّاكَ أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ» ، فَقَالَ لَهُ: اجْلِسْ فَإِنَّمَا أَنْتَ مِنْ نُخَالَةِ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم
اس کے الفاظ پڑھو "نُخَالَةِ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم"
تو آصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بھوسی ہے یہ صحابہ کی عزت کی جاتی تھی نعوذ باللہ۔
اب بخاری میں دیکھتے ہیں
أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ زِيَادٍ، عَادَ مَعْقِلَ بْنَ يَسَارٍ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، فَقَالَ لَهُ مَعْقِلٌ إِنِّي مُحَدِّثُكَ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا مِنْ عَبْدٍ اسْتَرْعَاهُ اللَّهُ رَعِيَّةً، فَلَمْ يَحُطْهَا بِنَصِيحَةٍ، إِلَّا لَمْ يَجِدْ رَائِحَةَ الجَنَّةِ»
بخاری رقم 7150

ابن حجر نے بھی معقل بن یسا کے وفات کے قصہ کے تحت حسن بصری رحمہ اللہ کا یہ قول ابن زیاد کے بارے میں نقل کیا ہے کہ"الْحَسَنِ قَالَ لَمَّا قَدِمَ عَلَيْنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ أَمِيرًا أَمَّرَهُ عَلَيْنَا مُعَاوِيَةُ غُلَامًا سَفِيهًا يَسْفِكُ الدِّمَاءَ سَفْكًا شَدِيدًا"
ابن زیاد سفاک بیوقوف چھوکرا جو خون پانی کی طرح بہاتا تھا۔(فتح الباری تحت رقم7150)
اب مروان کے بارے میں پڑھو
قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: «فَلَمْ يَزَلِ النَّاسُ عَلَى ذَلِكَ حَتَّى خَرَجْتُ مَعَ مَرْوَانَ - وَهُوَ أَمِيرُ المَدِينَةِ - فِي أَضْحًى أَوْ فِطْرٍ، فَلَمَّا أَتَيْنَا المُصَلَّى إِذَا مِنْبَرٌ بَنَاهُ كَثِيرُ بْنُ الصَّلْتِ، فَإِذَا مَرْوَانُ يُرِيدُ أَنْ يَرْتَقِيَهُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ، فَجَبَذْتُ بِثَوْبِهِ، فَجَبَذَنِي، فَارْتَفَعَ، فَخَطَبَ قَبْلَ الصَّلاَةِ» ، فَقُلْتُ لَهُ: غَيَّرْتُمْ وَاللَّهِ، فَقَالَ أَبَا سَعِيدٍ: «قَدْ ذَهَبَ مَا تَعْلَمُ» ، فَقُلْتُ: مَا أَعْلَمُ وَاللَّهِ خَيْرٌ مِمَّا لاَ أَعْلَمُ، فَقَالَ: «إِنَّ النَّاسَ لَمْ يَكُونُوا يَجْلِسُونَ لَنَا بَعْدَ الصَّلاَةِ، فَجَعَلْتُهَا قَبْلَ الصَّلاَةِ»
صحیح بخاری کتاب الجمعہ رقم 956
اس کی شرح میں موجود ہے کہ خطبہ کیوں پہلے پڑھا جاتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ خطبوں میں علی رضی اللہ عنہ پر لعنت کی جاتی تھی لوگ سنتے نہیں تھے اٹھ کر چلے جاتے اس لیے لوگوں کو سنانے کے لیے خطبہ پہلے کیا جاتا تھا۔ یہ چند حوالے ہیں جو میں نے نہ کسی تاریخ کی کتاب سے دیے ہیں اور نہ کسی رافضی کی کتاب سے بلکہ یہ اہل سنت و الجماعت کی سب سے معتبر کتب ہیں اس ظلم کے خلاف حیسن رضی اللہ عنہ کھڑے ہوے تھے اللہ سب کو ہدایت دے
تیس خلافت والی حدیث کی تخریج پر تو اہل علم بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں -

امام احمد اپنی مسند میں بیان کرتے ہیں کہ :

قَالَ حُذَيْفَةُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًّا، فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ نُبُوَّةٍ» ثُمَّ سَكَتَ،

حضرت حذیفه رضی الله عنہ فرماتے ہے کہ رسول الله صل الله علیہ و آ له وسلم نے فرمایا کہ تم میں نبوت کا وجود اس وقت تک رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نبوت کو اٹھالے گا اور اس کے بعد خلافت ہو گی جو نبوت کے طریقہ پر ہوگی جب تک الله چاہے گا۔ پھر خلافت کو اٹھالے گا اور اس کے بعد بادشاہت ہو گی کاٹنے والی پھر جب تک اللہ چاہے گا اسے قائم رکھے گا پھر اس کو بھی اللہ تعالیٰ اٹھا لے گا۔ پھر تکبر اور غلبہ کی حکومت ہو گی اور جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا وہ قائم رہے گی پھر اللہ تعالیٰ اس کو اٹھا لے گا اور اس کے بعد (دوبارہ ) نبوت کے طریقہ پر خلافت قائم ہو گی اتنا فرما کر آپ خاموش ہو گئے-

مذکورہ بالا حدیث میں ٣٠ سال کی کوئی قید نہیں بلکہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا ارشاد ہے کہ ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ اس کے بعد خلافت ہو گی جو نبوت کے طریقہ پر ہوگی جب تک الله چاہے گا- اور یہ حدیث نبی کریم کس اس صحیح حدیث سے بھی کسی حد تک مطابقت رکھتی ہے جس میں آپ صل الله علیہ و آ له وسلم نے فرمایا تھا کہ هذا الامر لاینقضی حتیٰ یمزی فیھم اثنا عشرخلیفه کلھم قریش (صحیح مسلم ١٨٢١) یہ دین ختم نہیں ہو گا جب تک اس میں بارہ خلفاء نہ ہو گزریں- یہ سب کے سب قریش سے ہونگے-

رہا اکابرین اہل سنّت کا اس ٣٠ سال والی روایت سے خلافت راشدہ کے بعد ملوکیت (کاٹ کھانے والی بادشاہت ) سے استدلال کا معامله -تو ضروری نہیں کہ ہر ایک کی راے سے متفق ہوا جائے - حافظ زبیر علی زئی اور مولانا عبد الرحمان کیلانی جیسے اکثر علماء نے علامہ البانی ، ابن تیمیہ رحم الله ،ابن حجر رحمہ الله وغیرہ سے کئی ایک مسائل میں اختلاف بھی کیا ہے- اور یہی اہل حدیث کا خاصہ ہے کہ کسی کی اندھی تقلید بہرحال نا جائز ہے-

کیوں کہ اگر ٣٠ سال والی روایت سے اکابرین کے اس رافضی مفہوم کو مان لیا جائے کہ اس کے بعد ملوکیت (کاٹ کھانے والی بادشاہت) تھی- تو پھر اس سے تو حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کا غاصب اور بدعتی ہونا لازم اتا ہے (نعوز باللہ) - صرف یہی نہیں بلکہ حضرت حسن رضی الله عنہ بھی اس بنا پر گناہ گار تصور کیے جائیں گے کہ انہوں نے ایک بدعتی ( امیر معاویہ رضی الله عنہ) سے مصالحت کی بیعت کی- جب کہ مصالحت کے اس سال کو صحابہ کے درمیان عام الجماعه کے نام سے جانا گیا- ورنہ اس سال کو تو اس ٣٠ سال خلافت والی حدیث کی روشنی میں عام الملوک (بادشاہوں کا سال ) کہا جانا چاہیے تھا- کیا حسن رضی الله تعالی عنہ ایک ایسے بادشاہ کے حق میں دستبردار ہو گئے جو بدعتی خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ پر نہیں تھا -؟؟ اللہ رب العزت کا تو ارشاد ہے کہ : وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ سوره المائدہ ٢ ترجمہ : اور آپس میں نیکی اور پرہیز گاری پر تعاون کرو اورگناہ اور ظلم پر ہرگز آپس میں تعاون نہ کرو- اور الله سے ڈرو بے شک الله سخت عذاب دینے والا ہے-

کیا حضرت حسن رضی الله عنہ اس آیت سے بے خبر تھے کہ انہوں نے ملوکیت کی بدعت کو ایجاد کرنے والے امیر معاویہ رضی الله عنہ سے تعاون کیا ؟؟ جب کہ انہیں معلوم تھا کہ ملوکیت ایک بدعت ہے جو نبی کریم اور آپ کے اصحاب کی سنّت نہیں - معاویہ رضی الله عنہ کے دور میں جو جہاد ہوئے ان میں حسین رضی الله تعالی عنہ بھی شریک تھے کیا وہ ایسے نظام کو مظبوط کر رہے تھے جو تھا ہی غلط . کیا اس جہاد کے نتیجے میں جو علاقے فتح ہوئے ان پر غیر اسلامی نظام مسلط کرنے کے لئے انہوں نے غلط کام نہیں کیا ؟؟ اور یہ بار گناہ انہی پر صرف نہیں- تمام صحابہ کرام رضوان الله اجمعین پر آتا ہے جنہوں نے جنہوں نے معاویہ رضی الله عنہ کی حکمرانی کو قبول کیا-؟؟

مزید یہ کہ معاویہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا إن ھذا الأمر فی قریش لا یعادیھم أحد إلا کبہ اللہ علی وجھہ ما أقامو ا الدین : (یہ امر خلافت قریش میں رہے گا جو شخص ان کی مخالفت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے اوندھا کر دے گا جب تک کہ وہ دین کو قائم رکھیں گے)۔ (صحیح بخاری کتاب المناقب باب مناقب قریش ،کتاب الاحکام) جب کہ اپنے اس قول کے باوجود وہ خود ملوکیت کی راہ چنتے ہیں- کیا یہ ممکن ہے؟؟ (فلعنت الله علی الکاذبین)-

مزید یہ کہ آپ کے مراسلے سے کہیں یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ یزید بن معاویہ ظالم و فاسق و فاجر حکمران تھے - زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کوفہ کے گورنر ابن زیاد میں فسق و فجور تھا- کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک حکمران خود صالح ہوتا ہے لیکن اس کے حکومتی کارندے فاسق ہوتے ہیں خود حضرت علی رضی الله عنہ جب خلیفہ وقت تھے تو ان کے نیچے کام کرنے والے فاسق و فاجر تھے یہی لوگ تھے جو بعد میں خارجی بن کر ابھرے تو خود حضرت علی رضی الله عنہ کے خلاف بغاوت کردی-

علامہ ابن جریر طبری (تاریخ طبری جلد ٥) میں لکھتے ہیں کہ جب حضرت حسین رضی الله عنہ کا سر مبارک امیر یزید بن معاویہ کے سامنے پیش کیا گیا تو یزید بن معاویہ رحم الله بے اختیار رو پڑے اور پھر کہا "الله کی لعنت ہو ابن مرجانہ (عبید الله بن زیاد ) پر کہ اس نے نبی کے نواسے کی عزت و عظمت کا پاس نہیں کیا - اگر میں وہاں ہوتا تو کبھی حسین رضی الله عنہ کے ساتھ ایسا نہ کرتا-
 
Last edited:

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
تیس خلافت والی حدیث کی تخریج پر تو اہل علم بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں -

امام احمد اپنی مسند میں بیان کرتے ہیں کہ :

قَالَ حُذَيْفَةُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًّا، فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ نُبُوَّةٍ» ثُمَّ سَكَتَ،

حضرت حذیفه رضی الله عنہ فرماتے ہے کہ رسول الله صل الله علیہ و آ له وسلم نے فرمایا کہ تم میں نبوت کا وجود اس وقت تک رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نبوت کو اٹھالے گا اور اس کے بعد خلافت ہو گی جو نبوت کے طریقہ پر ہوگی جب تک الله چاہے گا۔ پھر خلافت کو اٹھالے گا اور اس کے بعد بادشاہت ہو گی کاٹنے والی پھر جب تک اللہ چاہے گا اسے قائم رکھے گا پھر اس کو بھی اللہ تعالیٰ اٹھا لے گا۔ پھر تکبر اور غلبہ کی حکومت ہو گی اور جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا وہ قائم رہے گی پھر اللہ تعالیٰ اس کو اٹھا لے گا اور اس کے بعد (دوبارہ ) نبوت کے طریقہ پر خلافت قائم ہو گی اتنا فرما کر آپ خاموش ہو گئے-

مذکورہ بالا حدیث میں ٣٠ سال کی کوئی قید نہیں بلکہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا ارشاد ہے کہ ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ اس کے بعد خلافت ہو گی جو نبوت کے طریقہ پر ہوگی جب تک الله چاہے گا- اور یہ حدیث نبی کریم کس اس صحیح حدیث سے بھی کسی حد تک مطابقت رکھتی ہے جس میں آپ صل الله علیہ و آ له وسلم نے فرمایا تھا کہ هذا الامر لاینقضی حتیٰ یمزی فیھم اثنا عشرخلیفه کلھم قریش (صحیح مسلم ١٨٢١) یہ دین ختم نہیں ہو گا جب تک اس میں بارہ خلفاء نہ ہو گزریں- یہ سب کے سب قریش سے ہونگے-

رہا اکابرین اہل سنّت کا اس ٣٠ سال والی روایت سے خلافت راشدہ کے بعد ملوکیت (کاٹ کھانے والی بادشاہت ) سے استدلال کا معامله -تو ضروری نہیں کہ ہر ایک کی راے سے متفق ہوا جائے - حافظ زبیر علی زئی اور مولانا عبد الرحمان کیلانی جیسے اکثر علماء نے علامہ البانی ، ابن تیمیہ رحم الله ،ابن حجر رحمہ الله وغیرہ سے کئی ایک مسائل میں اختلاف بھی کیا ہے- اور یہی اہل حدیث کا خاصہ ہے کہ کسی کی اندھی تقلید بہرحال نا جائز ہے-

کیوں کہ اگر ٣٠ سال والی روایت سے اکابرین کے اس رافضی مفہوم کو مان لیا جائے کہ اس کے بعد ملوکیت (کاٹ کھانے والی بادشاہت) تھی- تو پھر اس سے تو حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کا غاصب اور بدعتی ہونا لازم اتا ہے (نعوز باللہ) - صرف یہی نہیں بلکہ حضرت حسن رضی الله عنہ بھی اس بنا پر گناہ گار تصور کیے جائیں گے کہ انہوں نے ایک بدعتی ( امیر معاویہ رضی الله عنہ) سے مصالحت کی بیعت کی- جب کہ مصالحت کے اس سال کو صحابہ کے درمیان عام الجماعه کے نام سے جانا گیا- ورنہ اس سال کو تو اس ٣٠ سال خلافت والی حدیث کی روشنی میں عام الملوک (بادشاہوں کا سال ) کہا جانا چاہیے تھا- کیا حسن رضی الله تعالی عنہ ایک ایسے بادشاہ کے حق میں دستبردار ہو گئے جو بدعتی خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ پر نہیں تھا -؟؟ اللہ رب العزت کا تو ارشاد ہے کہ : وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ سوره المائدہ ٢ ترجمہ : اور آپس میں نیکی اور پرہیز گاری پر تعاون کرو اورگناہ اور ظلم پر ہرگز آپس میں تعاون نہ کرو- اور الله سے ڈرو بے شک الله سخت عذاب دینے والا ہے-

کیا حضرت حسن رضی الله عنہ اس آیت سے بے خبر تھے کہ انہوں نے ملوکیت کی بدعت کو ایجاد کرنے والے امیر معاویہ رضی الله عنہ سے تعاون کیا ؟؟ جب کہ انہیں معلوم تھا کہ ملوکیت ایک بدعت ہے جو نبی کریم اور آپ کے اصحاب کی سنّت نہیں - معاویہ رضی الله عنہ کے دور میں جو جہاد ہوئے ان میں حسین رضی الله تعالی عنہ بھی شریک تھے کیا وہ ایسے نظام کو مظبوط کر رہے تھے جو تھا ہی غلط . کیا اس جہاد کے نتیجے میں جو علاقے فتح ہوئے ان پر غیر اسلامی نظام مسلط کرنے کے لئے انہوں نے غلط کام نہیں کیا ؟؟ اور یہ بار گناہ انہی پر صرف نہیں- تمام صحابہ کرام رضوان الله اجمعین پر آتا ہے جنہوں نے جنہوں نے معاویہ رضی الله عنہ کی حکمرانی کو قبول کیا-؟؟

مزید یہ کہ معاویہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا إن ھذا الأمر فی قریش لا یعادیھم أحد إلا کبہ اللہ علی وجھہ ما أقامو ا الدین : (یہ امر خلافت قریش میں رہے گا جو شخص ان کی مخالفت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے اوندھا کر دے گا جب تک کہ وہ دین کو قائم رکھیں گے)۔ (صحیح بخاری کتاب المناقب باب مناقب قریش ،کتاب الاحکام) جب کہ اپنے اس قول کے باوجود وہ خود ملوکیت کی راہ چنتے ہیں- کیا یہ ممکن ہے؟؟ (فلعنت الله علی الکاذبین)-

مزید یہ کہ آپ کے مراسلے سے کہیں یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ یزید بن معاویہ ظالم و فاسق و فاجر حکمران تھے - زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کوفہ کے گورنر ابن زیاد میں فسق و فجور تھا- کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک حکمران خود صالح ہوتا ہے لیکن اس کے حکومتی کارندے فاسق ہوتے ہیں خود حضرت علی رضی الله عنہ جب خلیفہ وقت تھے تو ان کے نیچے کام کرنے والے فاسق و فاجر تھے یہی لوگ تھے جو بعد میں خارجی بن کر ابھرے تو خود حضرت علی رضی الله عنہ کے خلاف بغاوت کردی-

علامہ ابن جریر طبری (تاریخ طبری جلد ٥) میں لکھتے ہیں کہ جب حضرت حسین رضی الله عنہ کا سر مبارک امیر یزید بن معاویہ کے سامنے پیش کیا گیا تو یزید بن معاویہ رحم الله بے اختیار رو پڑے اور پھر کہا "الله کی لعنت ہو ابن مرجانہ (عبید الله بن زیاد ) پر کہ اس نے نبی کے نواسے کی عزت و عظمت کا پاس نہیں کیا - اگر میں وہاں ہوتا تو کبھی حسین رضی الله عنہ کے ساتھ ایسا نہ کرتا-
جناب،
30 سال خلافت والی حدیث پر بقول اپ کے اہل علم ہی بہتر روشی ڈال سکتے ہیں تو چلیں ان ہی سے پوچھتے ہیں کہ جمہور محدثین نے اس حدیث کے بارے میں کیا کہا ہے۔
(1) امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں۔
قال أبو زرعة الدمشقي: سألت أحمد بن حنبل عن حديث سفينة، الخلافة بعدي ثلاثون سنة، يثبت؟ قال: نعم(مسوعۃ اقوال احمد بن حنبل جلد 4 ص 316)
اس میں امام احمد بن حنبل اس حدیث کو صحیح فرما رہے ہیں۔
(2) امام ذہبی نے معاویہ رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا اور تائید میں 30 سال والی حدیث نقل کی ہے
أَنَا أَوَّلُ المُلُوْكِ.
قُلْتُ: نَعَمْ.
فَقَدْ رَوَى سَفِيْنَةُ: عَنْ رَسُوْلِ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: (الخِلاَفَةُ بَعْدِي ثَلاَثُوْنَ سَنَةً، ثُمَّ تَكُوْنُ مُلْكاً(سیر اعلام النبلاع جلد 3 ص 150)
(3) امام ابن تیمیہ نے منھاج السنۃ میں کہا ہے کہ
عُلَمَاءُ أَهْلِ السُّنَّةِ الَّذِينَ لَهُمْ قَوْلٌ [يُحْكَى] فَلَيْسَ فِيهِمْ مَنْ يَعْتَقِدُ أَنَّ يَزِيدَ وَأَمْثَالَهُ مِنَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ وَالْأَئِمَّةِ الْمَهْدِيِّينَ ، كَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ - بَلْ أَهْلُ السُّنَّةِ يَقُولُونَ بِالْحَدِيثِ الَّذِي فِي السُّنَنِ: " «خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ (4) ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَصِيرُ مُلْكًا»
جلد 4 ص 522)
یہ سلف میں سے محدثین ہیں جو اس حدیث کو صحیح کہہ رہے ہیں اور اس سے حجت لے رہے ہیں اب متاخرین میں سے چند اقوال
(١) علامہ البانی نے اس کو سلسلہ الصیححہ میں اس کو نقل کیا ہے رقم ( ٤٥٩)
(٢) زبیر علی زئی نے بھی ابوداود کی تخریج میں اس کو صحیح کہا ہے
(٣) شیخ سنابلی نے بھی اپنی کتاب یزید پر اعتراضات کا جواب میں اس کی سند پر کوئی جرح نہیں کی ہے فقط اس میں موجود زیادتی کو ضعیف کہا ہے .
الحمدللہ یہ حدیث صحیح ہے اور سلف سے خلف تک سب نے اس سے استدلال کیا ہے .
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس حدیث کی صحت کا سوال نہیں، مسئلہ آپ کی فہم کا ہے!
آپ ذرا شرح فقہ اکبر کی عبارت کا ترجمہ تحریر فرمائیں!
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
تیس خلافت والی حدیث کی تخریج پر تو اہل علم بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں -

امام احمد اپنی مسند میں بیان کرتے ہیں کہ :

قَالَ حُذَيْفَةُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًّا، فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ نُبُوَّةٍ» ثُمَّ سَكَتَ،

حضرت حذیفه رضی الله عنہ فرماتے ہے کہ رسول الله صل الله علیہ و آ له وسلم نے فرمایا کہ تم میں نبوت کا وجود اس وقت تک رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نبوت کو اٹھالے گا اور اس کے بعد خلافت ہو گی جو نبوت کے طریقہ پر ہوگی جب تک الله چاہے گا۔ پھر خلافت کو اٹھالے گا اور اس کے بعد بادشاہت ہو گی کاٹنے والی پھر جب تک اللہ چاہے گا اسے قائم رکھے گا پھر اس کو بھی اللہ تعالیٰ اٹھا لے گا۔ پھر تکبر اور غلبہ کی حکومت ہو گی اور جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا وہ قائم رہے گی پھر اللہ تعالیٰ اس کو اٹھا لے گا اور اس کے بعد (دوبارہ ) نبوت کے طریقہ پر خلافت قائم ہو گی اتنا فرما کر آپ خاموش ہو گئے-

مذکورہ بالا حدیث میں ٣٠ سال کی کوئی قید نہیں بلکہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا ارشاد ہے کہ ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ اس کے بعد خلافت ہو گی جو نبوت کے طریقہ پر ہوگی جب تک الله چاہے گا- اور یہ حدیث نبی کریم کس اس صحیح حدیث سے بھی کسی حد تک مطابقت رکھتی ہے جس میں آپ صل الله علیہ و آ له وسلم نے فرمایا تھا کہ هذا الامر لاینقضی حتیٰ یمزی فیھم اثنا عشرخلیفه کلھم قریش (صحیح مسلم ١٨٢١) یہ دین ختم نہیں ہو گا جب تک اس میں بارہ خلفاء نہ ہو گزریں- یہ سب کے سب قریش سے ہونگے-

رہا اکابرین اہل سنّت کا اس ٣٠ سال والی روایت سے خلافت راشدہ کے بعد ملوکیت (کاٹ کھانے والی بادشاہت ) سے استدلال کا معامله -تو ضروری نہیں کہ ہر ایک کی راے سے متفق ہوا جائے - حافظ زبیر علی زئی اور مولانا عبد الرحمان کیلانی جیسے اکثر علماء نے علامہ البانی ، ابن تیمیہ رحم الله ،ابن حجر رحمہ الله وغیرہ سے کئی ایک مسائل میں اختلاف بھی کیا ہے- اور یہی اہل حدیث کا خاصہ ہے کہ کسی کی اندھی تقلید بہرحال نا جائز ہے-

کیوں کہ اگر ٣٠ سال والی روایت سے اکابرین کے اس رافضی مفہوم کو مان لیا جائے کہ اس کے بعد ملوکیت (کاٹ کھانے والی بادشاہت) تھی- تو پھر اس سے تو حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کا غاصب اور بدعتی ہونا لازم اتا ہے (نعوز باللہ) - صرف یہی نہیں بلکہ حضرت حسن رضی الله عنہ بھی اس بنا پر گناہ گار تصور کیے جائیں گے کہ انہوں نے ایک بدعتی ( امیر معاویہ رضی الله عنہ) سے مصالحت کی بیعت کی- جب کہ مصالحت کے اس سال کو صحابہ کے درمیان عام الجماعه کے نام سے جانا گیا- ورنہ اس سال کو تو اس ٣٠ سال خلافت والی حدیث کی روشنی میں عام الملوک (بادشاہوں کا سال ) کہا جانا چاہیے تھا- کیا حسن رضی الله تعالی عنہ ایک ایسے بادشاہ کے حق میں دستبردار ہو گئے جو بدعتی خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ پر نہیں تھا -؟؟ اللہ رب العزت کا تو ارشاد ہے کہ : وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ سوره المائدہ ٢ ترجمہ : اور آپس میں نیکی اور پرہیز گاری پر تعاون کرو اورگناہ اور ظلم پر ہرگز آپس میں تعاون نہ کرو- اور الله سے ڈرو بے شک الله سخت عذاب دینے والا ہے-

کیا حضرت حسن رضی الله عنہ اس آیت سے بے خبر تھے کہ انہوں نے ملوکیت کی بدعت کو ایجاد کرنے والے امیر معاویہ رضی الله عنہ سے تعاون کیا ؟؟ جب کہ انہیں معلوم تھا کہ ملوکیت ایک بدعت ہے جو نبی کریم اور آپ کے اصحاب کی سنّت نہیں - معاویہ رضی الله عنہ کے دور میں جو جہاد ہوئے ان میں حسین رضی الله تعالی عنہ بھی شریک تھے کیا وہ ایسے نظام کو مظبوط کر رہے تھے جو تھا ہی غلط . کیا اس جہاد کے نتیجے میں جو علاقے فتح ہوئے ان پر غیر اسلامی نظام مسلط کرنے کے لئے انہوں نے غلط کام نہیں کیا ؟؟ اور یہ بار گناہ انہی پر صرف نہیں- تمام صحابہ کرام رضوان الله اجمعین پر آتا ہے جنہوں نے جنہوں نے معاویہ رضی الله عنہ کی حکمرانی کو قبول کیا-؟؟

مزید یہ کہ معاویہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا إن ھذا الأمر فی قریش لا یعادیھم أحد إلا کبہ اللہ علی وجھہ ما أقامو ا الدین : (یہ امر خلافت قریش میں رہے گا جو شخص ان کی مخالفت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے اوندھا کر دے گا جب تک کہ وہ دین کو قائم رکھیں گے)۔ (صحیح بخاری کتاب المناقب باب مناقب قریش ،کتاب الاحکام) جب کہ اپنے اس قول کے باوجود وہ خود ملوکیت کی راہ چنتے ہیں- کیا یہ ممکن ہے؟؟ (فلعنت الله علی الکاذبین)-

مزید یہ کہ آپ کے مراسلے سے کہیں یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ یزید بن معاویہ ظالم و فاسق و فاجر حکمران تھے - زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کوفہ کے گورنر ابن زیاد میں فسق و فجور تھا- کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک حکمران خود صالح ہوتا ہے لیکن اس کے حکومتی کارندے فاسق ہوتے ہیں خود حضرت علی رضی الله عنہ جب خلیفہ وقت تھے تو ان کے نیچے کام کرنے والے فاسق و فاجر تھے یہی لوگ تھے جو بعد میں خارجی بن کر ابھرے تو خود حضرت علی رضی الله عنہ کے خلاف بغاوت کردی-

علامہ ابن جریر طبری (تاریخ طبری جلد ٥) میں لکھتے ہیں کہ جب حضرت حسین رضی الله عنہ کا سر مبارک امیر یزید بن معاویہ کے سامنے پیش کیا گیا تو یزید بن معاویہ رحم الله بے اختیار رو پڑے اور پھر کہا "الله کی لعنت ہو ابن مرجانہ (عبید الله بن زیاد ) پر کہ اس نے نبی کے نواسے کی عزت و عظمت کا پاس نہیں کیا - اگر میں وہاں ہوتا تو کبھی حسین رضی الله عنہ کے ساتھ ایسا نہ کرتا-
جناب اب آپ کی دوسری بات کی جانب چلتے ہیں اپ نے مسند احمد سے حدیث نقل کی ہے اور کہا کہ اس میں 30 سال کی کوئی قید نہیں ہے تو جناب سے گزارش ہے کہ مسند احمد میں خلافت کہ بعد ملک عضوض بتائی گئی ہے اور وہ ملک عضوض کب ہوگی اس کی مدت اس حدیث میں موجود ہے اس لئے آئمہ میں سے بعض نے اس 30 سال والی حدیث میں ملک عضوض کا اضافہ کیا جو اس پر دل ہے کہ یہ دونوں حدیث ایک دوسرے کی شارح ہیں۔
یہ مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی مسئلہ سے متعلق اس کی تمام روایات کو جمع کر کے اس کے بعد فیصلہ کیا جاتا ہے صرف ایک روایت کو سامنے رکھ کر نتیجہ نہیں نکالا جاتا ہے اور ایسا ہو تو پھر ابلیس صرف سورہ البقرہ کے مطابق فرشتہ ثابت ہو گا جبکہ سورہ الکھف میں اللہ نے اس کے بارے میں فرمادیا "و کان من الجن" تو صواب یہی ہے کہ مسئلہ کو یا کسی بھی حدیث سے حکم سمجھنے کے لئے اس کے تمام طرق کو سامنے رکھنا چاہے ورنہ نتیجہ اخذ نہیں ہوتا اور آدمی کچھ کا کچھ سمجھ لیتا ہے جیسا اپ نے کیا ہے اور اس طرح سمجھنے کی وجہ سے اپ سلف و اکابرین کے فہم سے دور ہو گئے ہیں۔
مسند احمد کی حدیث کی تائید میں اپ نے مسلم سے حدیث پیش کی ہے کے خلفاء قریش میں سے ہوں گے اس بارے میں اپ نے حدیث تو پیش کر دی مگر اسی حدیث پر شارح مسلم امام نووی اور اکابرین کا تبصرہ پڑھ لیتے تو یہ بات شاید اپ نہ کرتے چنانچہ امام نووی اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں۔
وَالْجَوَابُ عَنْ هَذَا أَنَّ الْمُرَادَ فِي حَدِيثِ الخلافة ثلاثون سنة خلافة النبوة وقد جاءمفسرا فِي بَعْضِ الرِّوَايَاتِ خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا وَلَمْ يُشْتَرَطْ هَذَا فِي الِاثْنَيْ عَشَرَ السُّؤَالُ الثَّانِي أَنَّهُ قَدْ وَلِيَ أَكْثَرُ مِنْ هَذَا الْعَدَدِ قَالَ وَهَذَا اعْتِرَاضٌ بَاطِلٌ لِأَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لم يقل لا يلي إلا اثنى عَشَرَ خَلِيفَةً وَإِنَّمَا قَالَ يَلِي وَقَدْ وَلِيَ هذا العدد ولا يضركونه وُجِدَ بَعْدَهُمْ غَيْرُهُم هَذَا إِنْ جُعِلَ الْمُرَادَ بِاللَّفْظِ كُلُّ وَالٍ وَيَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ الْمُرَادُ مُسْتَحِقَّ الْخِلَافَةِ الْعَادِلِين(شرح نووی ) اس سے مراد
عادل خلفاء کے بارے میں ہے اور وہ یہ سب ایک ساتھ نہیں ہوں گے جیسا کہ دیگر آئمہ نے نقل کیا ہے ۔
چنانچہ ابن کثیر فرماتے ہیں

وَلَيْسَ الْمُرَادُ مِنْ هَؤُلَاءِ الِاثْنَيْ عَشْرَ الَّذِينَ تَتَابَعَتْ وِلَايَتُهُمْ سَرْدًا إِلَى أَثَنَاءِ دَوْلَةِ بَنِي أُمَيَّةَ لِأَنَّ حَدِيثَ سَفِينَةَ: "الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سنة1" يمنع من هذا الملك، وَإِنْ كَانَ الْبَيْهَقِيُّ قَدْ رَجَّحَهُ وَقَدْ بَحَثَنَا معه في كتاب دلائل النبوة في كِتَابِنَا هَذَا بِمَا أَغْنَى عَنْ إِعَادَتِهِ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ، وَلَكِنَّ هَؤُلَاءِ الْأَئِمَّةَ الِاثْنَيْ عَشَرَ وُجِدَ مِنْهُمُ الْأَئِمَّةُ الْأَرْبَعَةُ أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ ثُمَّ عُثْمَانُ ثُمَّ عَلِيٌّ وَابْنُهُ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ أَيْضًا، وَمِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ كَمَا هُوَ عِنْدَ كَثِيرٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ وَجُمْهُورِ الأمة(النھایہ فی فتن و الملاحم ابن کثیر جلد 1ص 23)
ابن کثیر نے دونوں احادیث کو سامنے رکھا ہے اور اس میں نہ معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں اورنہ یزید نہ اس کے بعد بنو امیہ کے ملوک بلکہ انہوں نے اس میں عمر بن عبدالعزیز کو رکھا ہے۔
دوسری جگہ فرماتے ہیں

هَذَا الْحَدِيثِ دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّهُ لَا بُدَّ مِنْ وُجُودِ اثْنَيْ عَشَرَ خَلِيفَةً عَادِلًا وَلَيْسُوا هُمْ بِأَئِمَّةِ الشِّيعَةِ الِاثْنَيْ عَشْرَ، فَإِنَّ كَثِيرًا مِنْ أُولَئِكَ لَمْ يَكُنْ إِلَيْهِمْ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ، فَأَمَّا هَؤُلَاءِ فَإِنَّهُمْ يَكُونُونَ مِنْ قُرَيْشٍ يَلُونَ فَيَعْدِلُونَ، وَقَدْ وَقَعَتِ الْبِشَارَةُ بِهِمْ فِي الْكُتُبِ الْمُتَقَدِّمَةِ، ثم لا يشترط أن يكونوا مُتَتَابِعِينَ، بَلْ يَكُونُ وُجُودُهُمْ فِي الْأُمَّةِ مُتَتَابِعًا وَمُتَفَرِّقًا، وَقَدْ وُجِدَ مِنْهُمْ أَرْبَعَةٌ عَلَى الْوَلَاءِ وَهُمْ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ، ثُمَّ عُثْمَانُ، ثم علي رضي الله عنه، ثُمَّ كَانَتْ بَعْدَهُمْ فَتْرَةٌ، ثُمَّ وُجِدَ مِنْهُمْ من شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ قَدْ يُوجَدُ مِنْهُمْ مَنْ بقي في الوقت الذي يعلمه الله تعالى.
ومنهم المهدي الذي اسمه يطابق اسْمَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكُنْيَتُهُ كُنْيَتَهُ، يَمْلَأُ الْأَرْضَ عَدْلًا وَقِسْطًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا وَظُلْمًا.
تفیسر ابن کثیر تحت سورہ النور آیت 55
امام عینی حنفی عمدہ القاری میں اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں ۔
يزَال هَذَا الدّين قَائِما مَا كَانَ اثْنَي عشرَة خَليفَة، كلهم من قُرَيْش
... الحَدِيث. قلت: قيل: إِن الَّذين لم يزل قَائِما حَتَّى ولَّي اثْنَي عشر خَليفَة كلهم من قُرَيْش، وَأَرَادَ بِهَذَا خلَافَة النُّبُوَّة وَلم يرد أَنه لَا يُوجد غَيرهم، وَقيل: هَذَا الحَدِيث فِيهِ إِشَارَة بِوُجُود إثني عشر خَليفَة عادلين من قُرَيْش، وَإِن لم يوجدوا على الْوَلَاء وَإِنَّمَا اتّفق وُقُوع الْخلَافَة المتتابعة بعد النُّبُوَّة فِي ثَلَاثِينَ سنة، ثمَّ قد كَانَ بعد ذَلِك خلفاء راشدون مِنْهُم: عمر بن عبد الْعَزِيز، وَمِنْهُم الْمُهْتَدي بِأَمْر الله العباسي، وَمِنْهُم الْمهْدي المبشر بِوُجُودِهِ فِي آخر الزَّمَان

باب مناقب القریش جلد 16 ص 74
یہ چند حوالہ جات ہے جو میں نے اس حدیث کےتحت دیئے ہیں کسی نے بھی ان بارہ خلفاء سے مراد سارے امویہ نہیں لیے یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو بھی نہیں لیا ہے اب جو ان کو بعض جگہ خلیفہ کہا جاتا ہے اس سے مراد کیا ہے یہ بھی معلوم کرلیتے ہیں

الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً لِأَنَّ الْمُرَادَ بِهِ خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ وَمَنْ بَعْدَهُ فَكَانَ أَكْثَرُهُمْ عَلَى طَرِيقَةِ الْمُلُوكِ وَلَوْ سموا خلفاء وَالله أعلم
فتح الباری تحت رقم 7005
تو آئمہ سلف سے لے کر اب تک کسی آئمہ نے اس کا مطلب وہ نہیں لیا جو اپ مجھے سمجانا چاہ رہے ہو ۔


 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top