• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امیر یزید اور (حديث الخلافة ثلاثون عاما)

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
بسم الله الرحمن الرحیم
امابعد !
جناب آپ نے یہ تو تسلیم کر لیا کہ "پچھلے گناہوں کی معافی کا اعلان ہے "
تو جنا ب بقول آپ کے ہی جب الله نے یزید کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے تو پھر آپ کون ہوتے ہیں پکڑ کرنے والے ؟؟؟


محترم ،
بالکل میں مانتا ہوں کہ پچھلے گناہ معاف ہیں اب اپ سے یہ سوال ہے کہ قسطنطنیہ میں یزید کب شریک ہوا ٥٢ میں اور اس کے بعد اس کے ظلم کی داستان کب سے شروع ہوئی ٦٠ ہجری سے کربلا واقعہ حرہ خانہ کعبہ پر چڑھائی اگے تو اپ خود سممجھدار ہیں
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
محترم ،
بالکل میں مانتا ہوں کہ پچھلے گناہ معاف ہیں اب اپ سے یہ سوال ہے کہ قسطنطنیہ میں یزید کب شریک ہوا ٥٢ میں اور اس کے بعد اس کے ظلم کی داستان کب سے شروع ہوئی ٦٠ ہجری سے کربلا واقعہ حرہ خانہ کعبہ پر چڑھائی اگے تو اپ خود سممجھدار ہیں
بسم الله الرحمن الرحیم
اما بعد !
لوگوں کو ہمیشہ سے تاریخی کتب کے جھوٹے قصوں اور واقعات کی وجہ سے مشکلات کا سامنا رہا ہے، اگر کوئی عقل مند اس فرمانِ باری تعالٰی پر غور کرے:
( تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ )
ترجمہ: یہ امت ہے جو گزر گئی جو اس نے کمایا اس کیلیے وہی ہےاور تمہارے لئے وہ ہےجو تم نے کمایا، اور تم سے ان کے اعمال کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔
[ البقرة:134]
لوگوں کو چاہیے کہ اس آیت پر عمل کرتے ہوئے اپنی زبان کو لگام دیں ، اور فتنوں سے متعلقہ گفتگو میں مت پڑیں ، تاکہ الله کے سامنے جب جائیں تو کسی پر ظلم نہ کیا ہو -
مسلمین کے ما بین ہونے والے اختلافات اور جھگڑوں کو بیان کرنے والے عام طور پر راوی جھوٹے ، نا معلوم اور کذاب ہوتے ہیں، اس لیے ان راویوں کی جانب سے بیان کردہ روایات پر بالکل بھی اعتماد نہیں کرنا چاہیے؛ کیونکہ وہ عادل راوی نہیں ہیں، جبکہ کسی کی بات پر اعتماد کرنے کیلیے الله تعالی نے اصول بیان فرمایا کہ:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرلیا کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ طور پر نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو
( الحجرات -6)
الله تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے ، اسے دل سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے !
آمین یا رب العالمین
والحمدلله رب العالمین
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
بسم الله الرحمن الرحیم
اما بعد !
لوگوں کو ہمیشہ سے تاریخی کتب کے جھوٹے قصوں اور واقعات کی وجہ سے مشکلات کا سامنا رہا ہے، اگر کوئی عقل مند اس فرمانِ باری تعالٰی پر غور کرے:
( تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ )
ترجمہ: یہ امت ہے جو گزر گئی جو اس نے کمایا اس کیلیے وہی ہےاور تمہارے لئے وہ ہےجو تم نے کمایا، اور تم سے ان کے اعمال کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔
[ البقرة:134]
لوگوں کو چاہیے کہ اس آیت پر عمل کرتے ہوئے اپنی زبان کو لگام دیں ، اور فتنوں سے متعلقہ گفتگو میں مت پڑیں ، تاکہ الله کے سامنے جب جائیں تو کسی پر ظلم نہ کیا ہو -
مسلمین کے ما بین ہونے والے اختلافات اور جھگڑوں کو بیان کرنے والے عام طور پر راوی جھوٹے ، نا معلوم اور کذاب ہوتے ہیں، اس لیے ان راویوں کی جانب سے بیان کردہ روایات پر بالکل بھی اعتماد نہیں کرنا چاہیے؛ کیونکہ وہ عادل راوی نہیں ہیں، جبکہ کسی کی بات پر اعتماد کرنے کیلیے الله تعالی نے اصول بیان فرمایا کہ:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرلیا کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ طور پر نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو
( الحجرات -6)
الله تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے ، اسے دل سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے !
آمین یا رب العالمین
والحمدلله رب العالمین
محترم ،
جب یزید کے حوالے سے میرے اس مضمون کا کوئی جواب نہیں آیا تو یہ آیات پیش کردیں الٹی ٹرین نہیں چلتی ہے جب اپ یزید کو نیک فرمایں تو سب صحیح اور جب اس کے جواب میں کوئی اس کو امت کا فاسق اور فاجر بتائے تو اپ جیسوں کو یہ آیات یاد آ جاتی ہے بہرحال یہ نیکوں کی بارے میں ہے بروں کی برائی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اس لئے اس طرح کی گفتگو سے وقت برباد نہ کیا کریں الله ہدایت دے
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
اس کو امت کا فاسق اور فاجر بتائے تو اپ جیسوں کو یہ آیات یاد آ جاتی ہے
بسم الله الرحمن الرحیم
امابعد !
جناب آپ کے مذکور بالا اعتراض کا ازالہ میں نے سابقہ پیغام میں کیا تھا - اس کو غور سے ملاحضہ کریں اور " آناخیر " کے الفاظ کو اپنے سے دور کیجیے - اور حق بات کو قبول کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہا کریں -
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
محترم ،
بالکل میں مانتا ہوں کہ پچھلے گناہ معاف ہیں اب اپ سے یہ سوال ہے کہ قسطنطنیہ میں یزید کب شریک ہوا ٥٢ میں اور اس کے بعد اس کے ظلم کی داستان کب سے شروع ہوئی ٦٠ ہجری سے کربلا واقعہ حرہ خانہ کعبہ پر چڑھائی اگے تو اپ خود سممجھدار ہیں
بسم الله الرحمن الرحیم
امابعد !
جناب اگر شہادت حسینؓ رضی اللہ عنہ کے پیچھے یزیدؒ رحمۃاللہ کی مرضی یا سازش ہوتی تو عبداللہ بن عمرؓ رضی اللہ عنہ یہ کبھی نہ کہتے کہ ان کو اہل عراق نے قتل کیا ہے ۔ وہ کبھی حق کو چھپانے والے نہیں تھے اور اُس وقت موجود تمام صحابہؓ رضی اللہ عنہما اس سانحہ پر خاموش ہیں جس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ اُس وقت تمام صحابہؓ رضی اللہ عنہما اس سانحہ کا الزام یزیدؒ کو نہیں دیتے تھے بلکہ اہل عراق کو مجرم سمجھتے تھے ۔ کیونکہ وہ بھی ان پیشنگوئیوں کے متعلق جانتے تھے ، اور یزیدؒ کا کردار بھی ان کے سامنے تھا ۔
اور عبد اللہ بن عمر ؓ کا یہ کہنا کہ حسین ؓ کو اہل عراق نے قتل کیا ہے ۔ اس پرعراقی شخص کی خاموشی بتا رہی ہے کہ عبد اللہ بن عمر ؓ کا یہ کہنا صحیح تھا کہ حسین ؓ کو اہل عراق نے قتل کیا ہے۔
ابن عمر ؓ سے ایک شخص نے مچھر کے مارنے کا خون بہا ( کفارہ)پوچھا تو انہوں نے پوچھا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو اس نے بتایا کہ میں عراق کا رہنے والا ہوں ، فرمایا کہ اس شخص کو دیکھو مچھر کے خون کا کفارہ (تاوان) پوچھتا ہے ، حالانکہ اس کے ملک والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے نواسہ کو (دھوکے سے بلاکر) قتل کر ڈالا ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ سنا ہے کہ یہ دونوں (حسنؓ اور حسینؓ ) دنیا میں میرے دو پھول ہیں ۔
(صحیح بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الولد )
اگر یزیدؒ نے کوئی قصور کیا ہوتا تو کیا ابن عمر ؓ یہ جواب دیتے ؟؟؟کیا آپ مانتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمرؓ نے جھوت بولا تھا ؟؟؟؟
کچھ تو انصاف سے کام لیجیے - الله کا خوف کیجیے -​
اور جناب عبداللہ بن زبیرؓ کےمقابلے میں بھی اس وقت عبداللہ بن عمرؓ ،و عبداللہ بن زید ؓ ،و انسؓ اور دوسرے صحابہؓ و تا بعیین نے نہ تو بیعت توڑی اور نہ اس بغاوت کو اچھا سمجھا بلکہ انہوں نے باقیوں کو بھی منع کر دیا کہ نہ تو یزیدؒ کی بیعت توڑیں اور نہ ہی اس سازش میں شریک ہوں ۔
جس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ یزیدؒ ایک اچھے انسان تھے اور خلافت کا اہل بھی تھے اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر اس وقت موجود اصحابؓ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ان کو کبھی بھی برداشت نہ کرتے ۔
عبداللہ بن عمرؓ کا یہ کہنا کہ "ہم نے یزید ؒ کے ہاتھ پر اللہ اوررسول صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت پر بیعت کی تھی" اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ یزیدؒ امارت کے اہل تھے-
والحمد للہ رب العالمین
 
Last edited:
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
  1. یہ پڑھ لیں
  2. محترم ساتھیوں
    یزید کے بارے میں بہت سے لوگ سلف صالحین اور اکابرین امت کے منھج کو چھوڑ کر اس ڈگر پر چلے گئے کہ اس کو واجبی جنتی قرار دینے لگے ہیں جیسا شیخ سنابلی صاحب نے اپ کتاب یزید پر الزامات کا تحقیقی جائزہ میں ثابت کیا ہے یہ ان کی رائے ہے جس سے کوئی بھی اختلاف رکھ سکتے ہیں اور علمی انداز میں اس اختلاف کو بیان کرنے کا حق بھی رکھتا ہے میں شیخ صاحب کا بہت احترام کرتا ہوں ان کے کتب سے میں نے بہت استفادہ بھی کیا ہے مگر اس بارے میں جو میں نے اکابرین کے اقوال پڑھے ہیں وہ شیخ صاحب کی رائے سے مختلف ہے پہلے ہم وہ حدیث بیان کرتے ہیں جس کی بنیاد پر یزید مغفور لھم میں شامل ہوتا ہے حالانکہ میرے مطالعہ کی حد تک یزید اس بشارت میں بھی شامل نہیں ہے مگر وقت اور زندگی نے ساتھ دیا تو کسی اور تھرڈ پر بیان کروں گا فلحال ہم اس حدیث کا مزداق یزید کو مانتے ہوئے اس پر گفتگو کرتے ہیں جس میں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔

    حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ قَالَ حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ أَنَّ عُمَيْرَ بْنَ الْأَسْوَدِ الْعَنْسِيَّ حَدَّثَهُ أَنَّهُ أَتَى عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ وَهُوَ نَازِلٌ فِي سَاحَةِ حِمْصَ وَهُوَ فِي بِنَاءٍ لَهُ وَمَعَهُ أُمُّ حَرَامٍ قَالَ عُمَيْرٌ فَحَدَّثَتْنَا أُمُّ حَرَامٍ أَنَّهَا سَمِعَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ الْبَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا قَالَتْ أُمُّ حَرَامٍ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا فِيهِمْ قَالَ أَنْتِ فِيهِمْ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ فَقُلْتُ أَنَا فِيهِمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لَا(صحیح بخاری کتاب جہاد باب قتال الروم رقم 2924)
    اس حدیث کے الفاظ ہی اس مفہوم سے اباحت کرتے ہیں جو بعض لوگ پیش کرتے ہیں اس میں دو گروہ کا ذکر ہے ایک کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر جنت واجب ہے جبکہ دوسرے گروہ کے بارے میں فرمایا کہ وہ مغفور لھم ہوں گے اگر دونوں گروہ پر جنت واجب ہے جیسا اس سے سمجھا گیا ہے تو پھر دونوں کے بارے میں "
    قَدْ أَوْجَبُوا" کے الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے جاری ہوتے کیونکہ دونوں کو جنت کی بشارت دی گئی مگر ایک میں قَدْ أَوْجَبُوا اور دوسرے میں مَغْفُورٌ لَهُمْ کہا گیا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دونوں میں فرق ہے اور اس میں فرق یہی ہے کہ ایک پر جنت واجب قرار دی گئی ہے کہ یہ جنتی گروہ ہے اور دوسرے کے پچھلے گناہوں کی معافی کا اعلان ہے آئیں اس کو ایک اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھتے ہیں۔
    حدثنا عبيدالله بن معاذ العنبري حدثنا أبي حدثنا قرة بن خالد عن أبي الزبير عن جابر بن عبدالله قال
    Y قال رسول الله صلى الله عليه و سلم من يصعد الثنية ثنية المرار فإنه يحط عنه ما حط عن بني إسرائيلقال فكان أول من صعدها خيلنا خيل بني الخزرج ثم تتام الناس فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم وكلكم مغفور له إلا صاحب الجمل الأحمر فأتيناه فقلنا له تعال يستغفر لك رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال والله لأن أجد ضالتي أحب إلي من أن يستغفر لي صاحبكم قال وكان الرجل ينشد ضالة له(صحیح مسلم رقم 2780)
    ترجمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو ثنیہ المرار کی گھاٹی پر چڑھے گااس کے گناہ اس طرح ختم ہو جائیں گے جس طرح بن اسرائیل سے ان کے گناہ ختم ہوئے تھے پس سب سے پہلے اس پر چڑھنے والا ہمارا شہسواریعنی بنو خزرج کے گھوڑے چڑھے پھر دوسرے لوگ یکے بعد دیگرے چڑھناشروع ہو گئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سب بخش دیئے گئے سوائے سرخ اونٹ والے آدمی کے ہم سب اس کے پاس گئے اور اس سے کہا چلو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرے لئے مغفرت طلب کریں گےاس نے کہا اللہ کی قسم اگر میں اپنی گمشدہ چیز کو حاصل کروں تویہ میرے نذدیک تمہارے ساتھی کی میرے لئے مغفرت مانگنے سے پسندید ہے اور وہ آدمی اپنی گمشدہ چیز تلاش کرتا رہا۔
    اس حدیث میں بنی اسرائیل کے لئے بھی مغفر لہ کے الفاظ ہیں جیسا بخاری کی اس حدیث میں ہیں اگر بخاری کے مذکورہ الفاظ مغفور لھم جنت کو واجب کرتے ہیں تو پر لازمی یہ ماننا پڑے گا کہ بنی اسرائیل پر بھی جنت واجب ہو گئی ہے کیونکہ ان کے لئے بھی بین ہی وہی الفاظ فرمائے گئے جو بخاری کی روایت میں ہیں اور یہ بات مسلمہ ہے کہ بنی اسرائیل پر جنت واجب نہیں ہے اس کا اقرار کوئی بھی نہیں کر سکتا ہے تو لامحالہ بخاری میں مغفور لھم سے مراد ابدی جنت نہیں لی جاسکتی ہے اس سے مراد وہی ہے کہ جو مسلم کی روایت میں ہے کہ بنی اسرائیل سے اس کے پچھلے گناہ ختم کردیئے گئے تھے اسی طرح بخاری میں موجود مغفور لھم سے مراد یہی ہے کہ اس گروہ جس نے قسطنطنیہ میں جہاد کیا ہے اس کے پچھلے گناہ کی معافی مراد ہے وگرنہ بنی اسرائیل کے لئے بھی ابدی جنت ماننا پڑے گی جو قرآن کی صریح آیات کے خلاف ہے۔چنانچہ امت کے اکابرین نے بھی اس کو بین ہی اسی طرح بیان کیا ہے کہ یہ مغفور لھم کی بشارت پچھلے گناہوں سے معافی ہے اس سے مراد وجوب جنت نہیں ہے۔

    اکابرین امت کے اقوال


    حافظ ابن حجر بخاری کی شرح میں ابن التین وغیرہ کے اقوال نقل کیے ہیں۔

    ابن التين وابن المنير بما حاصله: أنه لا يلزم من دخوله في ذلك العموم أن لا يخرج بدليل خاص إذ لا يختلف أهل العلم أن قوله صلى الله عليه وسلم مغفور لهم مشروط بأن يكونوا من أهل المغفرة حتى لو ارتد واحد ممن غزاها بعد ذلك لم يدخل في ذلك العموم اتفاقا فدل على أن المراد مغفور لمن وجد شرط المغفرة فيه منهم(فتح الباری تحت رقم 2942)
    اس میں یہی بیان ہوا ہے کہ اہل علم کا اس پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مغفور لھم اس شرط سے مشروط ہے کہ اگر کوئی اس غزوہ کے بعد مرتد ہو گیا تو وہ اس عمومی بشارت میں داخل نہیں ہے پس یہ دلیل ہے کہ اس سے مراد یہی ہے کہ مغفرت یافتہ وہی ہو گا جس میں اس کی شرائط پائی جائیں۔
    تو اس سے یہی ثابت ہے کہ مغفرت اس وقت ہو گی جب تک آگے بھی نیک اعمال پر قائم رہے ورنہ مغفرت سے محروم ہو جائے گا۔
    اور یہی بات تقریبا بخاری کے کئی شارح نے بیان کی ہے
    (1) امام عینی نے بھی یہی لکھا ہے۔
    (2) امام قسطلانی نے بھی یہی لکھا ہے۔

    اور شاہ ولی محدث دہلوی جن کا احترام تینوں (اہلحدیث، دیوبندی،برہلوی)کرتے ہیں چنانچہ وہ اپنی کتاب بخاری تراجم ابواب میں اسی قتال الروم کے تحت رقمطراز ہیں۔
    انہ لا یثبت بھذا الحدیث الا کونہ مغفورا لہ ما تقدم من ذنبہ علی ھذہ الغزوۃ لان الجھاد من الکفارات و شان الکفارات ازالۃ آثار الذنوب السابقۃ علیھا لا الواقعۃ بعدھا۔
    نعم لو کان مع ھذا الکلام انہ مغفور لہ الی یوم القیامۃ لدل علی نجاتہ۔
    شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے واضح فرما دیا کے جہاد کفارہ ہوتا ہے جس سے سابقہ گناہ معاف ہوتے ہیں ہاں اگر اس مغفور لھوم کے ساتھ قیامت تک کے الفاظ ہوتے تو یہ اس کی نجات کی دلیل ہوتے۔

    آئمہ کے ان اقوال سے اظہر من الشمس ہے کہ وہ دونوں احادیث میں جو مغفور لھم کی بشارت ہے وہ سابقہ گناہوں کی بخشش ہے اور اس کی آئمہ سے بھی تائید ہوتی ہے۔

    صحابہ کرام کی بشارتین وجوب جنت پر دل تھی
    آخر میں یہ مسئلہ بھی حل کر دیا جائے کہ بعض لوگ یزید کی بشارت کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی بشارت جیسا سمجھتے ہوئے اس مغفور لھم کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جیسی بشارت سمجھتے ہیں حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو جو بشارات دی گئی ہیں ان میں جنت میں جانے کی اور آگلی تمام خطاؤں کی بخشش موجود تھی اس کی ایک آدھا مثال سے ہی پڑھنے والوں پر واضح ہو جائے گا۔

    غزوہ بدر میں شمولیت اختیار کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے بشارت کے یہ الفاظ زبان اقدس سے جاری ہوئے ہیں ۔
    غفرت لکم ماشئتم۔
    تم بخشش دیئے گئے ہو جو چاہے کرو۔
    بیعت رضوان کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں موجود ہے کہ " لایدخل النار احد بایع تحت الشجرۃ(صحیح مسلم، ترمذی)
    تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی مبشرات کے ساتھ قرینہ موجود ہے مگر مغفور لھم کی اس حدیث کے ساتھ کوئی قرینہ نہیں جیسا اوپر شاہ ولی اللہ کے حوالے سے بھی نقل کیا ہے کہ " اگر اس مغفور لھوم کے ساتھ قیامت تک کے الفاظ ہوتے تو یہ اس کی نجات کی دلیل ہوتے۔

    حاصل کلام

    یزید کے بارے میں اس ساری بحث سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر تو وہ اس غزوہ میں سب سے پہلے لشکر میں شامل تھا تب بھی اس کے لیے وجوب جنت کا دعوی اس حدیث کے مطابق بے بنیاد اور باطل ہے اللہ اپنے تمام بندوں سے واقف ہے اور جانتا ہے کہ کس نے کیا کرنا ہے اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے وجوب کے نہیں مغفور لھم کے الفاظ جاری ہوئے کیونکہ حدیث وحی خفی ہے اور وحی کبھی بھی تضاد نہیں ہو سکتی ہے کہ ایک طرف جنت کی بشارت ہو اور دوسری طرف شفاعت سے محروم کرنے والے کو کیسے جنت کی بشارت مل سکتی ہے
    چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
    صنفان من أمتي لن تنالهما شفاعتي , إمام ظلوم غشوم , و كل غال مارق (سلسلہ احادیث صحیحہ رقم470)
    اس میں ظالم حکمران کو شفاعت سے محرومی ہے تو کیسے ممکن ہے کہ جنتی بھی ہو اور شفاعت سے محروم یعنی جہنم میں بھی جائے۔
    اللہ سب کو سمجھنے کی توفقیق عطا کرے۔


    رپورٹ​


بسم الله الرحمن الرحیم
امابعد !
غلط فہمی : "اس حدیث کے الفاظ ہی اس مفہوم سے اباحت کرتے ہیں جو بعض لوگ پیش کرتے ہیں اس میں دو گروہ کا ذکر ہے ایک کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر جنت واجب ہے جبکہ دوسرے گروہ کے بارے میں فرمایا کہ وہ مغفور لھم ہوں گے اگر دونوں گروہ پر جنت واجب ہے جیسا اس سے سمجھا گیا ہے تو پھر دونوں کے بارے میں " قَدْ أَوْجَبُوا" کے الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے جاری ہوتے کیونکہ دونوں کو جنت کی بشارت دی گئی مگر ایک میں قَدْ أَوْجَبُوا اور دوسرے میں مَغْفُورٌ لَهُمْ کہا گیا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دونوں میں فرق ہے اور اس میں فرق یہی ہے کہ ایک پر جنت واجب قرار دی گئی ہے کہ یہ جنتی گروہ ہے اور دوسرے کے پچھلے گناہوں کی معافی کا اعلان ہے "
ازالہ : جناب یہ آپ کی اپنی سوچ کی پیدا وار ہے ۔
کیونکہ جو بخش دیئے گئے ہیں وہ کہاں جائیں گے ؟؟؟

جن کی مغفرت ہو تو وہ جنت میں ہی جائیں گے ۔
اگر آپ کی سوچ کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو پھر (((قَدْ أَوْجَبُوا ))) سے پہلے اور بعد میں جنت کا لفظ نہیں ہے تو پھر ان پر کیا واجب ہوئی ؟؟؟
یہ آپ کی کم علمی ہے کہ (((مَغْفُورٌ لَهُمْ ))) کو جنت سے باہر نکال رہے ہیں ۔

اللہ ربّ العالمین جس کو بخشش عطاء فرمائے تو اس کا ٹھکانہ سوائے جنت کے اور کیا ہو سکتا ہے ۔
باقی آپ کا دوسری روایت کے ان الفاظ(((نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو ثنیہ المرار کی گھاٹی پر چڑھے گااس کے گناہ اس طرح ختم ہو جائیں گے جس طرح بن اسرائیل سے ان کے گناہ ختم ہوئے تھے ))) سے یہ قیاس کرنا کہ بنی اسرائیل سے مراد سارے زمانوں کے بنی اسرائیل ہیں تو یہ کسی صورت بھی صحیح نہیں ۔
یہ اس وقت کے ان لوگوں کے بارے میں ہے جو ایمان لائے نہ کہ تمام زمانوں کے بنی اسرائیل کے لیئے ہے ۔
بنی اسرائیل نے بہت ہی زیادہ گناہ کیئے تھے بہت تاویلیں اور اپنی پسند سے اللہ تعالیٰ کے احکام بدل دینا ، حیلہ سازی سے حرام کو حلال کر دینا ، جیسے شرکیہ کام کا بھی بخش دیا جانا ، اللہ تعالیٰ کی بے حد مہربانی اور رحم ہے ۔
تو جناب یہ مبالغہ کا فقرہ ہے یعنی بنی اسرائیل کے بہت زیادہ اور بڑے گناہ بخش دیئے گئے تھے ۔
جب وہ ایمان لے آئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف کر دیا ۔
اللہ تعالیٰ کی بخشش کے بعد وہ کہاں جائیں گے ؟ ؟؟
ظاہر ہے کہ جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہو تو وہ جنت میں ہی جائے گا ۔
لہذا یزیدؒ بن معاویہ رحمۃ اللہ علیہ کے لیے جنت کی بشارت صحیح ہے
اسحاق ، بن یزیدد مشقی، یحیی بن حمزہ، ثور بن یزید، خالد بن معدان، عمیر بن اسود، عنسی سے روایت کرتے ہیں کہ وہ عبادہ ؓبن صامت کے پاس گئے جب کہ وہ ساحل حمص میں اپنے ایک محل میں تھے، اور ان کے ہمراہ ان کی بی بی ام حرامؓ بھی تھیں۔ عمیر کہتے ہیں کہ ہم سے ام حرام ؓ نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اُمت کاسب سے پہلا لشکر جو سمندر میں سفر کر کے جہاد کے لیئے جائے گا ، ان کے لیے (جنت ) واجب ہو گئی ۔ ام حرام ؓ کہتی تھیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں انہیں میں سے ہو جاؤں تو فرمایا تم انہیں میں ہو، ام حرام ؓ کہتی تھیں، کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں سب سے پہلے جو لوگ قیصر(رومیوں کے بادشاہ) کے شہر (قسطنطنیہ )میں جہادکریں گے، وہ مغفور ہیں(یعنی ان سب کی مغفرت ہو چکی ) میں نے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں ان لوگوں میں سے ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔
(صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 193)
محمودؓ بن ربیع بیان کرتے ہیں ۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مشہور صحابی ابوایوب انصاریؓ بھی موجود تھے ۔
یہ روم کے اس جہاد کا ذکر ہے جس میں ابوایوب انصاریؓ کی وفات ہوئی تھی ۔ فوج کے سپاہ سالار یزیدؒ بن
معاویہؓ تھے ۔ (صحیح بخاری کتاب التہجد باب صلوٰۃ النوافل جماعۃ )
یہ دونوں رویتیں صحیح بخاری کی ہیں جن کی حیثیت گھٹانے کے لیئے ایسے اعتراض کیئے جاتے ہیں ۔
(نوٹ : آپ نے جو صحیح مسلم کا حوالہ دیا ، تو آپ کی درج کردہ حدیث اس نمبر پر نہیں ہے بلکہ وہاں کوئی اور ہے ، اس کی تصحیح بھی کر لیجیے )
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے ، اسے دل سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے !
آمین یا رب العالمین

والحمدللہ ربّ العالمین
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
بسم الله الرحمن الرحیم
امابعد !
غلط فہمی : "اس حدیث کے الفاظ ہی اس مفہوم سے اباحت کرتے ہیں جو بعض لوگ پیش کرتے ہیں اس میں دو گروہ کا ذکر ہے ایک کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر جنت واجب ہے جبکہ دوسرے گروہ کے بارے میں فرمایا کہ وہ مغفور لھم ہوں گے اگر دونوں گروہ پر جنت واجب ہے جیسا اس سے سمجھا گیا ہے تو پھر دونوں کے بارے میں " قَدْ أَوْجَبُوا" کے الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے جاری ہوتے کیونکہ دونوں کو جنت کی بشارت دی گئی مگر ایک میں قَدْ أَوْجَبُوا اور دوسرے میں مَغْفُورٌ لَهُمْ کہا گیا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دونوں میں فرق ہے اور اس میں فرق یہی ہے کہ ایک پر جنت واجب قرار دی گئی ہے کہ یہ جنتی گروہ ہے اور دوسرے کے پچھلے گناہوں کی معافی کا اعلان ہے "
ازالہ : جناب یہ آپ کی اپنی سوچ کی پیدا وار ہے ۔
کیونکہ جو بخش دیئے گئے ہیں وہ کہاں جائیں گے ؟؟؟

جن کی مغفرت ہو تو وہ جنت میں ہی جائیں گے ۔
اگر آپ کی سوچ کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو پھر (((قَدْ أَوْجَبُوا ))) سے پہلے اور بعد میں جنت کا لفظ نہیں ہے تو پھر ان پر کیا واجب ہوئی ؟؟؟
یہ آپ کی کم علمی ہے کہ (((مَغْفُورٌ لَهُمْ ))) کو جنت سے باہر نکال رہے ہیں ۔

اللہ ربّ العالمین جس کو بخشش عطاء فرمائے تو اس کا ٹھکانہ سوائے جنت کے اور کیا ہو سکتا ہے ۔
باقی آپ کا دوسری روایت کے ان الفاظ(((نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو ثنیہ المرار کی گھاٹی پر چڑھے گااس کے گناہ اس طرح ختم ہو جائیں گے جس طرح بن اسرائیل سے ان کے گناہ ختم ہوئے تھے ))) سے یہ قیاس کرنا کہ بنی اسرائیل سے مراد سارے زمانوں کے بنی اسرائیل ہیں تو یہ کسی صورت بھی صحیح نہیں ۔
یہ اس وقت کے ان لوگوں کے بارے میں ہے جو ایمان لائے نہ کہ تمام زمانوں کے بنی اسرائیل کے لیئے ہے ۔
بنی اسرائیل نے بہت ہی زیادہ گناہ کیئے تھے بہت تاویلیں اور اپنی پسند سے اللہ تعالیٰ کے احکام بدل دینا ، حیلہ سازی سے حرام کو حلال کر دینا ، جیسے شرکیہ کام کا بھی بخش دیا جانا ، اللہ تعالیٰ کی بے حد مہربانی اور رحم ہے ۔
تو جناب یہ مبالغہ کا فقرہ ہے یعنی بنی اسرائیل کے بہت زیادہ اور بڑے گناہ بخش دیئے گئے تھے ۔
جب وہ ایمان لے آئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف کر دیا ۔
اللہ تعالیٰ کی بخشش کے بعد وہ کہاں جائیں گے ؟ ؟؟
ظاہر ہے کہ جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہو تو وہ جنت میں ہی جائے گا ۔
لہذا یزیدؒ بن معاویہ رحمۃ اللہ علیہ کے لیے جنت کی بشارت صحیح ہے
اسحاق ، بن یزیدد مشقی، یحیی بن حمزہ، ثور بن یزید، خالد بن معدان، عمیر بن اسود، عنسی سے روایت کرتے ہیں کہ وہ عبادہ ؓبن صامت کے پاس گئے جب کہ وہ ساحل حمص میں اپنے ایک محل میں تھے، اور ان کے ہمراہ ان کی بی بی ام حرامؓ بھی تھیں۔ عمیر کہتے ہیں کہ ہم سے ام حرام ؓ نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اُمت کاسب سے پہلا لشکر جو سمندر میں سفر کر کے جہاد کے لیئے جائے گا ، ان کے لیے (جنت ) واجب ہو گئی ۔ ام حرام ؓ کہتی تھیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں انہیں میں سے ہو جاؤں تو فرمایا تم انہیں میں ہو، ام حرام ؓ کہتی تھیں، کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں سب سے پہلے جو لوگ قیصر(رومیوں کے بادشاہ) کے شہر (قسطنطنیہ )میں جہادکریں گے، وہ مغفور ہیں(یعنی ان سب کی مغفرت ہو چکی ) میں نے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں ان لوگوں میں سے ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔
(صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 193)
محمودؓ بن ربیع بیان کرتے ہیں ۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مشہور صحابی ابوایوب انصاریؓ بھی موجود تھے ۔
یہ روم کے اس جہاد کا ذکر ہے جس میں ابوایوب انصاریؓ کی وفات ہوئی تھی ۔ فوج کے سپاہ سالار یزیدؒ بن
معاویہؓ تھے ۔ (صحیح بخاری کتاب التہجد باب صلوٰۃ النوافل جماعۃ )
یہ دونوں رویتیں صحیح بخاری کی ہیں جن کی حیثیت گھٹانے کے لیئے ایسے اعتراض کیئے جاتے ہیں ۔
(نوٹ : آپ نے جو صحیح مسلم کا حوالہ دیا ، تو آپ کی درج کردہ حدیث اس نمبر پر نہیں ہے بلکہ وہاں کوئی اور ہے ، اس کی تصحیح بھی کر لیجیے )
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے ، اسے دل سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے !
آمین یا رب العالمین

والحمدللہ ربّ العالمین
محترم ،
میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو
یزید کی حدیث میں مغور لھم کا اطلاق جنت پر کر رہے ہیں اور اس سے ععموم کا مفہوم لے رہے ہیں جبکہ بنی اسرائیل سے مراد اس وقت کے بنی اسرائیل لے رہے ہیں اس قیاس کی اجازت اپ کو کس نے دی بنی اسرائیل کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی مقید زمانہ نہیں کہا ہے مطلق بنی اسرائیل کے الفاظ ہیں اس لئے اپ کون ہوتے ہیں اس کو مقید کرنے والے اورمغفور لھم سے پچھلے گناہوں کی ہے معافی ہے وگرنہ حدیث میں دو لفظ کیوں آتے دونوں گروہ کے لیے قد اجبو کے الفاظ استعمال کردیئے جاتے یہ دونوں الگ الگ الفاظ اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ دونوں کا ییمانہ مغفرت الگ ہے اس لئے دونوں کے لیے الگ الفاظ استعمال کیے ہیں اور امت کے اکابریں نے بھی یہی بات فرمائی ہے جو میری بات پر ایک اور دلیل ہے کیونکہ امت کے اکابرین عربی کے الفاظ اور لغت سے اپ سے زیادہ واقف ہیں اس انہوں نے میری بات کی تائید کی ہے اور اگر اپ کی بات مان لی جائے تو پھر بنی اسرائیل کے لیے جنت واجب ہے کیونکہ وہاں بنی اسرائیل کے الفاظ مطلق ہے اس کو خاص کسی وقت کے بنی اسرائیل سے کرنے کےلیے خاص دلیل کی ضرورت ہےجواپ کے پاس نہیں ہے اوردسری بات یزیدکی حکومت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظالم حکومت فرمایا ہے
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
بسم الله الرحمن الرحیم
امابعد !
جناب اگر شہادت حسینؓ رضی اللہ عنہ کے پیچھے یزیدؒ رحمۃاللہ کی مرضی یا سازش ہوتی تو عبداللہ بن عمرؓ رضی اللہ عنہ یہ کبھی نہ کہتے کہ ان کو اہل عراق نے قتل کیا ہے ۔ وہ کبھی حق کو چھپانے والے نہیں تھے اور اُس وقت موجود تمام صحابہؓ رضی اللہ عنہما اس سانحہ پر خاموش ہیں جس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ اُس وقت تمام صحابہؓ رضی اللہ عنہما اس سانحہ کا الزام یزیدؒ کو نہیں دیتے تھے بلکہ اہل عراق کو مجرم سمجھتے تھے ۔ کیونکہ وہ بھی ان پیشنگوئیوں کے متعلق جانتے تھے ، اور یزیدؒ کا کردار بھی ان کے سامنے تھا ۔
اور عبد اللہ بن عمر ؓ کا یہ کہنا کہ حسین ؓ کو اہل عراق نے قتل کیا ہے ۔ اس پرعراقی شخص کی خاموشی بتا رہی ہے کہ عبد اللہ بن عمر ؓ کا یہ کہنا صحیح تھا کہ حسین ؓ کو اہل عراق نے قتل کیا ہے۔
ابن عمر ؓ سے ایک شخص نے مچھر کے مارنے کا خون بہا ( کفارہ)پوچھا تو انہوں نے پوچھا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو اس نے بتایا کہ میں عراق کا رہنے والا ہوں ، فرمایا کہ اس شخص کو دیکھو مچھر کے خون کا کفارہ (تاوان) پوچھتا ہے ، حالانکہ اس کے ملک والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے نواسہ کو (دھوکے سے بلاکر) قتل کر ڈالا ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ سنا ہے کہ یہ دونوں (حسنؓ اور حسینؓ ) دنیا میں میرے دو پھول ہیں ۔
(صحیح بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الولد )
اگر یزیدؒ نے کوئی قصور کیا ہوتا تو کیا ابن عمر ؓ یہ جواب دیتے ؟؟؟کیا آپ مانتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمرؓ نے جھوت بولا تھا ؟؟؟؟
کچھ تو انصاف سے کام لیجیے - الله کا خوف کیجیے -​
اور جناب عبداللہ بن زبیرؓ کےمقابلے میں بھی اس وقت عبداللہ بن عمرؓ ،و عبداللہ بن زید ؓ ،و انسؓ اور دوسرے صحابہؓ و تا بعیین نے نہ تو بیعت توڑی اور نہ اس بغاوت کو اچھا سمجھا بلکہ انہوں نے باقیوں کو بھی منع کر دیا کہ نہ تو یزیدؒ کی بیعت توڑیں اور نہ ہی اس سازش میں شریک ہوں ۔
جس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ یزیدؒ ایک اچھے انسان تھے اور خلافت کا اہل بھی تھے اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر اس وقت موجود اصحابؓ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ان کو کبھی بھی برداشت نہ کرتے ۔
عبداللہ بن عمرؓ کا یہ کہنا کہ "ہم نے یزید ؒ کے ہاتھ پر اللہ اوررسول صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت پر بیعت کی تھی" اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ یزیدؒ امارت کے اہل تھے-
والحمد للہ رب العالمین
محترم،
ابن عمر رضی اللہ عنہ نے عبدالملک بن مروان کے بارے میں بھی یہی کہا تھا میں سنت پر اس کی بیعت کر رہا ہوں وہ صحیح تھا امام ذہبی نے کہا کہ عبدالملک میں عدالت کیسے ہو گی جو مسلمانوں کے خون کو جائز سمجھتا تھا (میران الاعتدال ترجم عبدالملک بن مروان)
اور ابن عمر رضی اللہ عنہ نے صحیح کہا کہ ان کو عراقیوں نے شھید کیا ہے وہ عراقی جو یزید کے حامی تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ نے کیوں نہیں بولا اس لئے کو ظلم کے اگے انہوں نے صبر کا دامن تھام لیا تھا اس کے حوالے میں بے شمار دے چکا ہوں میں پوسٹ پر پڑھ سکتے ہیں کہ صحابہ کرام اس حد تک خاموش ہو گئے تھے کہ حدیث بھی دین نہ چھپ جائے اس لیے مرتے وقت بتا گئے اللہ تم لوگوں کو سمجھنے کی توفیق دے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظالم بادشاہت کہا ہے جو کتب احادیث کی روایات سے معلوم ہوتی ہیں مگر کوئی انکھ بند کر لے تو فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی نظر نہیں آتا ہے اللہ سب کو ہدایت دے
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
بسم الله الرحمن الرحیم
امابعد !
جناب اگر شہادت حسینؓ رضی اللہ عنہ کے پیچھے یزیدؒ رحمۃاللہ کی مرضی یا سازش ہوتی تو عبداللہ بن عمرؓ رضی اللہ عنہ یہ کبھی نہ کہتے کہ ان کو اہل عراق نے قتل کیا ہے ۔ وہ کبھی حق کو چھپانے والے نہیں تھے اور اُس وقت موجود تمام صحابہؓ رضی اللہ عنہما اس سانحہ پر خاموش ہیں جس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ اُس وقت تمام صحابہؓ رضی اللہ عنہما اس سانحہ کا الزام یزیدؒ کو نہیں دیتے تھے بلکہ اہل عراق کو مجرم سمجھتے تھے ۔ کیونکہ وہ بھی ان پیشنگوئیوں کے متعلق جانتے تھے ، اور یزیدؒ کا کردار بھی ان کے سامنے تھا ۔
اور عبد اللہ بن عمر ؓ کا یہ کہنا کہ حسین ؓ کو اہل عراق نے قتل کیا ہے ۔ اس پرعراقی شخص کی خاموشی بتا رہی ہے کہ عبد اللہ بن عمر ؓ کا یہ کہنا صحیح تھا کہ حسین ؓ کو اہل عراق نے قتل کیا ہے۔
ابن عمر ؓ سے ایک شخص نے مچھر کے مارنے کا خون بہا ( کفارہ)پوچھا تو انہوں نے پوچھا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو اس نے بتایا کہ میں عراق کا رہنے والا ہوں ، فرمایا کہ اس شخص کو دیکھو مچھر کے خون کا کفارہ (تاوان) پوچھتا ہے ، حالانکہ اس کے ملک والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے نواسہ کو (دھوکے سے بلاکر) قتل کر ڈالا ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ سنا ہے کہ یہ دونوں (حسنؓ اور حسینؓ ) دنیا میں میرے دو پھول ہیں ۔
(صحیح بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الولد )
اگر یزیدؒ نے کوئی قصور کیا ہوتا تو کیا ابن عمر ؓ یہ جواب دیتے ؟؟؟کیا آپ مانتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمرؓ نے جھوت بولا تھا ؟؟؟؟
کچھ تو انصاف سے کام لیجیے - الله کا خوف کیجیے -​
اور جناب عبداللہ بن زبیرؓ کےمقابلے میں بھی اس وقت عبداللہ بن عمرؓ ،و عبداللہ بن زید ؓ ،و انسؓ اور دوسرے صحابہؓ و تا بعیین نے نہ تو بیعت توڑی اور نہ اس بغاوت کو اچھا سمجھا بلکہ انہوں نے باقیوں کو بھی منع کر دیا کہ نہ تو یزیدؒ کی بیعت توڑیں اور نہ ہی اس سازش میں شریک ہوں ۔
جس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ یزیدؒ ایک اچھے انسان تھے اور خلافت کا اہل بھی تھے اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر اس وقت موجود اصحابؓ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ان کو کبھی بھی برداشت نہ کرتے ۔
عبداللہ بن عمرؓ کا یہ کہنا کہ "ہم نے یزید ؒ کے ہاتھ پر اللہ اوررسول صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت پر بیعت کی تھی" اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ یزیدؒ امارت کے اہل تھے-
والحمد للہ رب العالمین
محترم ،
اپ نے جو کہا کہ"
اگر شہادت حسینؓ رضی اللہ عنہ کے پیچھے یزیدؒ رحمۃاللہ کی مرضی یا سازش ہوتی تو عبداللہ بن عمرؓ رضی اللہ عنہ یہ کبھی نہ کہتے کہ ان کو اہل عراق نے قتل کیا ہے"

مجھے ایک سوال کا جواب دیں علامہ احسان الہی ظہیر کی شہادت کے بارے میں کسی کے پاس ثبوت ہےکہ ان کو ضیاء الحق نےمروایا کبھی ضیاء الحق نےاس کا اقرار کیا اس کا حکم دیا کسی کےپاس کوئی ثبوت ہے کہ اس نےمروانےکا حکم دیا تھا بالکل نہیں ہے صرف یہی بات ہے کہ ان کی شہادت سےحکومت کو فائدہ تھا اور ان کے زندہ رہینے سے حکومت کو نقصان تھا اس لیے اس کے شبہات میں یہی کہا جاتا ہے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے اسی طرح حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا کس کو فائدہ ہوتا ان کے تو فوج میں سے ابن زیاد نے مروانے کا حکم دیا ہے جبکہ ضیاء الحق کے کسی حکومتی شخص کا اس میں نام بھی نہیں ہے پھر بھی یزید نے شہید نہیں کیا مگر ضیاء الحق نے شہید کیا ہے اللہ تم لوگوں کو ہدایت دے جو بنو امیہ کے چھوکروں کے مظالم کو چھپاتے ہو۔ اللہ ہدایت دے
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
محترم ،
بالکل میں مانتا ہوں کہ پچھلے گناہ معاف ہیں اب اپ سے یہ سوال ہے کہ قسطنطنیہ میں یزید کب شریک ہوا ٥٢ میں اور اس کے بعد اس کے ظلم کی داستان کب سے شروع ہوئی ٦٠ ہجری سے کربلا واقعہ حرہ خانہ کعبہ پر چڑھائی اگے تو اپ خود سممجھدار ہیں

کوئی حوالہ؟
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top