• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انبیاء علیہم السلام اور اولیاء رحمہم اللہ میں فرق

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
انبیاء علیہم السلام اور اولیاء رحمہم اللہ میں فرق

اُمت کے تمام سلف صالحین اور ائمہ کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ بجز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باقی کوئی شخص بھی کیوں نہ ہو۔ اس کے بعض قول قبول کیے جاسکتے ہیں اور بعض ترک کیے جاسکتے ہیں اور یہ انبیاء اور غیر انبیاء کا فرق ہے۔ انبیاء صلوات اللہ علیہم اللہ عزوجل کی طرف سے جو خبر دیں، ان سب پر ایمان لانا ضروری اور ان کے حکم کی اطاعت واجب ہے لیکن اولیاء رحمہم اللہ کے ہر حکم کی اطاعت واجب نہیں ہے اور نہ ان کی ہر خبر پر ایمان لانا ضروری ہے بلکہ ان کا حکم اور ان کی خبر کتاب و سنت کے سامنے پیش کی جائے گی، جو کتاب و سنت کے موافق نکلا وہ مان لیا جائے گا اور جو کتاب و سنت کے مخالف ہوا وہ ردّ کر دیا جائے گا۔ اگرچہ کتاب و سنت کے خلاف بات کہنے والا اولیاء اللہ ہی میں سے کیوں نہ ہو اور وہ مجتہد ہی کیوں نہ ہو۔ جو اپنے قول میں معذور ہے اور اسے اجتہاد کا اجر بھی دے دیا گیا ہو؟ لیکن جب اس کا قول کتاب و سنت کے مخالف ہوگا تو اس میں وہ خطا کار سمجھا جائے گا اور جو شخص حسبِ استطاعت اللہ سے ڈرتا رہے ۔ اس کی خطا معاف ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴿١٦﴾ تغابن
’’جہاں تک ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘
اور یہ تفسیر ہے اللہ کے اس کی قول کی۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَآمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ ﴿١٠٢﴾ آل عمران
’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ایسا ڈرو جیسا اس سے ڈرنا چاہیے۔‘‘
ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ
اس سے ڈرنے کا حق یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اور اس کی نافرمانی نہ کی جائے۔ اس کو یاد رکھا جائے اور اس کو فراموش نہ کیا جائے۔ اس کا شکر کیا جائے اور ناشکری نہ کی جائے اور یہ سب کچھ حسب ِ استطاعت ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَاكَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ﴿٢٨٦﴾ البقرہ
’’اللہ تعالیٰ کسی نفس کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا جو کام وہ کرے گا اس کا ثواب ہوگا تو اسی کے لیے اور عذاب ہوگا تو اسی کو ہوگا۔‘‘
اور فرمایا:
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْفِيهَا خَالِدُونَ ﴿٤٢﴾ الاعراف
’’اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے مقدور بھر نیک عمل بھی کیے اور ہم تو کسی شخص پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈالا ہی نہیں کرتے یہی لوگ جنتی ہوں گے کہ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
اور فرمایا:
وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِۖ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ﴿١٥٢﴾ الانعام
’’انصاف کے ساتھ پوری پوری ماپ کرو اور پوری پوری تول ۔ ہم کسی شخص پر اس کی وسعت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے کئی جگہ اس کا ذکر فرمایا ہے کہ انبیاء جو کچھ لائے اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔
چنانچہ فرمایا:
قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَإِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَوَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَمَا أُوتِيَالنَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُمُسْلِمُونَ ﴿١٣٦﴾ البقرہ
’’مسلمانو! تم یہودو نصاریٰ کو یہ جواب دو کہ ہم تو اللہ پر ایمان لائے ہیں اور جو ہم پر اترا اس پر اور جو ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام اور اولادِ یعقوب علیہ السلام پراترا۔اس پر اور موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کو جو دیا گیا اس پر اور جو دوسرے پیغمبروں کو ان کے پروردگار سے ملا، اس پر ہم ان پیغمبروں میں سے کسی ایک میں بھی کسی طرح کا فرق نہیں سمجھتے اور ہم اسی ایک اللہ کے فرمانبردار ہیں۔‘‘
اور فرمایا:
الم ﴿١﴾ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٢﴾ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَالصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٣﴾ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَاأُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ﴿٤﴾أُولَٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٥﴾ البقرہ
’’الم، یہ وہ کتاب ہے جس کے کلام الٰہی ہونے میں کچھ بھی شک نہیں۔ پرہیز گاروں کی راہنما ہے جو غیب پر ایمان لاتے ہیںاور نماز پڑھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دے رکھا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور اے پیغمبر! جو کتاب تم پر اتری اور جو تم سے پہلے اتریں۔ ان سب پر ایمان لاتے اور وہ آخرت کا بھی یقین رکھتے ہیں، یہی لوگ اپنے پروردگار کے سیدھے راستے پر ہیں اور یہی آخرت میں من مانی مرادیں پائیں گے۔‘‘
اور فرمایا:
لَّيْسَ الْبِرَّ أَنتُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْآمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِوَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰوَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَالصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖوَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَٰئِكَالَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ﴿١٧٧﴾ البقرہ
’’نیکی یہی نہیں کہ نماز میں اپنا منہ مشرق کی طرف کر لو۔ یا مغرب کی طرف کر لو بلکہ اصل نیکی تو ان کی ہے جو اللہ اور روزِ آخرت اور فرشتوں اور آسمانی کتابوں اور پیغمبروں پر ایمان لائے اور مالِ عزیز اللہ کی حب پر رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دیا اور غلامی وغیرہ کی قید سے لوگوں کی گردنوں کے چھڑانے میں دیا اور نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے رہے۔ جب کسی بات کا اقرار کر لیا تو اپنے قول کے پورے اور تنگدستی اور سختی اور جنگ کے وقت میں ثابت قدم رہے۔ یہی لوگ ہیں جو دعویٰ اسلام میں سچے نکلے اور یہی ہیں جن کو پرہیز گار کہنا چاہیے۔‘‘
یہ سب کچھ میں نے ذکر کیا ہے کہ اولیاء اللہ کے لیے کتاب و سنت کی پابندی لازمی ہے اور اولیاء اللہ میں کوئی ایسا معصوم نہیں ہوسکتا جس کے لیے یا کسی اور کے لیے روا ہو کہ کتاب و سنت کو ملحوظ رکھے بغیرہر اس بات کو جو اس کے دل میں القا ہو واجب الاتباع سمجھ لے یا کوئی اور اس کی پیروی کرے۔ اس پر اولیاء اللہ کا اتفاق ہے، جو شخص اس کا خلاف کرے وہ ان اولیاء اللہ سے نہیں ہے۔ جن کی اتباع کا حکم اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے بلکہ ایسا شخص یا تو کافر ہوگا یا حد سے زیادہ جاہل ہوگا۔

الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان- امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
جزاکم اللہ خیرا بھائی
 

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
جزاک اللہ خیرا واحسن الجزاء
بہت عمدہ تحریر پیش کی ہے جس میں جہالت کی مردہ ذہنیت کی تطہیر کی بہترین روشنی موجود ہے۔
شکریہ
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
اللہ کرےیہ بات اس امت کو سمجھ آجائےکہ وہ صرف اللہ اور اس کےرسول حضرت محمدﷺکی ہستی ہیں جن کی ہر بات حجت قطعی ہےان کےعلاوہ ہر ایک کی بات قابل تردیدہوسکتی ہے۔علما،صوفیاو فقہاکی خدمات بہت زیادہ ہیں انہوں نےپوری دیانت داری کےاساتھ اپنےوقت کےمطابق قرآن وسنت کی تعبیرات پیش کیں اور فہم نصوص میں ہمارےلئےنئی نئی راہیں ہموارکیں لیکن شریعت صرف قرآن وسنت ہےعلماکی تشریحات وتعبیرات اگر ان نصوص کےمطابق ہوں تو سرآنکھوں پر۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
انبیاء علیہم السلام اور اولیاء رحمہم اللہ میں فرق

اُمت کے تمام سلف صالحین اور ائمہ کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ بجز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باقی کوئی شخص بھی کیوں نہ ہو۔ اس کے بعض قول قبول کیے جاسکتے ہیں اور بعض ترک کیے جاسکتے ہیں اور یہ انبیاء اور غیر انبیاء کا فرق ہے۔ انبیاء صلوات اللہ علیہم اللہ عزوجل کی طرف سے جو خبر دیں، ان سب پر ایمان لانا ضروری اور ان کے حکم کی اطاعت واجب ہے لیکن اولیاء رحمہم اللہ کے ہر حکم کی اطاعت واجب نہیں ہے اور نہ ان کی ہر خبر پر ایمان لانا ضروری ہے
الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان- امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ

السلام علیکم
محترم ان باتوں کی وضاحت فرماسکتے ہیں کہ ان سے آپ کی کیا مراد ہے
اُمت کے تمام سلف صالحین اور ائمہ کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ بجز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باقی کوئی شخص بھی کیوں نہ ہو
کیا بتا سکتے ہیں کہ یہ اتفاق کہاں اور کب ہوا اور کن کے مابین ہوا اور ’’بجز‘‘ کہہ کر باقی تمام انبیاء ورسل کے اقوال کی نفی کردی
لیکن اولیاء رحمہم اللہ کے ہر حکم کی اطاعت واجب نہیں ہے اور نہ ان کی ہر خبر پر ایمان لانا ضروری ہے
ایمان لانے سے کیا مراد ہے؟ برائے مہربانی وضاحت فرمادیں
 
شمولیت
اگست 05، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
57
السلام علیکم
محترم ان باتوں کی وضاحت فرماسکتے ہیں کہ ان سے آپ کی کیا مراد ہے

کیا بتا سکتے ہیں کہ یہ اتفاق کہاں اور کب ہوا اور کن کے مابین ہوا اور ’’بجز‘‘ کہہ کر باقی تمام انبیاء ورسل کے اقوال کی نفی کردی
محترم بھائی! آپ نے شائد پوری پوسٹ ملاحظہ نہیں کی۔ اس پوسٹ میں ہی آپ کے سوال کا جواب موجود ہے، ہیڈنگ دیکھئے اور پہلا پیراگراف ملاحظہ کیجئے:
انبیاء علیہم السلام اور اولیاء رحمہم اللہ میں فرق

اُمت کے تمام سلف صالحین اور ائمہ کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ بجز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باقی کوئی شخص بھی کیوں نہ ہو۔ اس کے بعض قول قبول کیے جاسکتے ہیں اور بعض ترک کیے جاسکتے ہیں اور یہ انبیاء اور غیر انبیاء کا فرق ہے۔ انبیاء صلوات اللہ علیہم اللہ عزوجل کی طرف سے جو خبر دیں، ان سب پر ایمان لانا ضروری اور ان کے حکم کی اطاعت واجب ہے لیکن اولیاء رحمہم اللہ کے ہر حکم کی اطاعت واجب نہیں ہے اور نہ ان کی ہر خبر پر ایمان لانا ضروری ہے بلکہ ان کا حکم اور ان کی خبر کتاب و سنت کے سامنے پیش کی جائے گی، جو کتاب و سنت کے موافق نکلا وہ مان لیا جائے گا اور جو کتاب و سنت کے مخالف ہوا وہ ردّ کر دیا جائے گا۔ اگرچہ کتاب و سنت کے خلاف بات کہنے والا اولیاء اللہ ہی میں سے کیوں نہ ہو اور وہ مجتہد ہی کیوں نہ ہو۔ جو اپنے قول میں معذور ہے اور اسے اجتہاد کا اجر بھی دے دیا گیا ہو؟ لیکن جب اس کا قول کتاب و سنت کے مخالف ہوگا تو اس میں وہ خطا کار سمجھا جائے گا اور جو شخص حسبِ استطاعت اللہ سے ڈرتا رہے ۔ اس کی خطا معاف ہوتی ہے۔
نبی کریمﷺ کی استثناء صرف آخری نبی اور ان کی امت کے حوالے سے ہے ورنہ یہی معاملہ دیگر تمام انبیاء کرام﷩ کا اپنی اپنی قوم کے ساتھ تھا، جس وضاحت نہایت صراحت سے اوپر موجود ہے، نہ جانے آپ کو نظر کیوں نہ آئی؟

امام ابن تیمیہ نے نبی کریمﷺ اور امت محمدیہ کے علماء کے مابین امتیاز کرتے ہوئے فرمایا کہ صرف نبی کریمﷺ کا یہ خاصہ ہے کہ ہمیں ان کی ہر بات ماننی ہے، باقی علمائے امت کی ہر بات ماننا ہمارے لئے ضروری نہیں کیونکہ وہ معصوم نہیں، غلطی بھی کر سکتے ہیں۔ اس پر امام ابن تیمیہ﷫ نے اتفاق کا دعویٰ فرمایا۔ اگر آپ کو اس بارے میں امام ابن تیمیہ﷫ کے دعوے کی صداقت پر شک ہے تو اپنا موقف دلیل کے ساتھ بیان کریں کہ کیا آپ کے نزدیک نبی کریمﷺ کے بعد امت میں کوئی معصوم ہے؟؟؟
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
جلد بازی غیر موزوں عمل ہے جس کی وجہ سے مثبت اورمفید نتائج برآمد نہیں ہوتے اور بات تشدد کا شکار ہوجاتی ہے جس آدمی سے سوال کیا جائے وہی زیادہ بہتر جواب دے سکتا ہے اس لیے کچھ دیر انتظار کرنا فریقین کے لیے درست اور نتائج خیز عمل ہوسکتا ہے دیگر۔
میرے الفاظ میں غور کیا جائے اس میں تجسس ہے تنفر نہیں ہے ۔صاحب مراسلت کے الفاظ پر غور کیا جائے کہ وہ کیا لکھ رہے ہیں
اُمت کے تمام سلف صالحین اور ائمہ کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ بجز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باقی کوئی شخص بھی کیوں نہ ہو۔ اس کے بعض قول قبول کیے جاسکتے ہیں اور بعض ترک کیے جاسکتے ہیں
ان الفاظ سے میں جو سمجھ رہاتھا یا سمجھ رہاہوں اس کا تشفی بخش جواب وہی دے سکتے ہیں جن کا مراسلہ ہے ان کے ذہن میں کیا معنیٰ مفہوم ہیں اور میں کیا سمجھ رہا ہوں اورآپ کیا سمجھ رہے ہیں تینوں کے ذہن الگ الگ ہیں
اور ان الفاظ سے میں کیا مراد لوں میرے ذہن میں جو سوال پیدا ہوا یا شک پیدا ہوا اس کی وضاحت اگر میں صاحب مراسلت سے دریافت کرلوں تو کیا مضائقہ ہے ۔عبارت ہے
لیکن اولیاء رحمہم اللہ کے ہر حکم کی اطاعت واجب نہیں ہے اور نہ ان کی ہر خبر پر ایمان لانا ضروری ہے
’’ایمان‘‘ بمعنیٰ ’’تصدیق‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے اور معنیٰ حقیقی بھی مراد ہوسکتے ہیں میں کیا مراد لوں یا کیا سمجھوں اس کی وضاحت مطلوب ہے لیکن یہاں مصیبت یہ ہے کہ کوئی کسی تبادلہ خیال نہیں کر سکتا کہ میدان کارزار کی تیاری شروع ہوجاتی ہے بھائی کچھ صبر کرنا چاہئے
 
شمولیت
اگست 05، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
57
اس سوال کا جواب موصول نہیں ہوا:
امام ابن تیمیہ نے نبی کریمﷺ اور امت محمدیہ کے علماء کے مابین امتیاز کرتے ہوئے فرمایا کہ صرف نبی کریمﷺ کا یہ خاصہ ہے کہ ہمیں ان کی ہر بات ماننی ہے، باقی علمائے امت کی ہر بات ماننا ہمارے لئے ضروری نہیں کیونکہ وہ معصوم نہیں، غلطی بھی کر سکتے ہیں۔ اس پر امام ابن تیمیہ﷫ نے اتفاق کا دعویٰ فرمایا۔ اگر آپ کو اس بارے میں امام ابن تیمیہ﷫ کے دعوے کی صداقت پر شک ہے تو اپنا موقف دلیل کے ساتھ بیان کریں کہ کیا آپ کے نزدیک نبی کریمﷺ کے بعد امت میں کوئی معصوم ہے؟؟؟
اور اُمید بھی نہیں کہ موصول ہوگا، کیونکہ .....

باقی آپ سمجھدار ہیں!
 
Top