محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
اﷲ تعالیٰ کی عبادت ہی وہ اصل اور بنیادی مسئلہ ہے جس پر انسان کی بقا اور وجود کا دارو مدار ہے۔ ہر نبی علیہ السلام نے آغاز رسالت میں اسی اہم مسئلہ کو اپنی دعوت کا محور و مرکز بنایا اور کہا ''لوگو ! گواہی دو کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں۔'' پھر اسی دعوت پر اپنی تمام قوت صرف کردی کہ انسانوں کو ان کے حقیقی پروردگار سے متعارف کروایا جائے اور انہیں صرف اسی کی بندگی کی راہ دکھلائی جائے۔انبیاء علیہم السلام کی بنیادی دعوت
کیونکہ یہی تو سب سے بڑا قضیہ ہے جس کے حل پر انسانی فلاح کا دارو مدار ہے۔ ہر نبی اور رسول علیہ السلام نے زندگی بھر یہی صدا لگائی کیونکہ یہ بات اتنی اہم ہے کہ پوری انسانی زندگی کا مرکزی نقطہ یہی ہے کہ لوگوں کو ان کے رب کی معرفت کا درس دیا جائے اور ہر چوکھٹ سے ہٹا کر انہیں اللہ وحدہٗ لاشریک کے آگے جھکایا جائے۔
انبیاء علیہم السلام نے بغیر کسی تمہید کے قوم کو توحید کی دعوت دی کیونکہ جب لَا اِلہَ اِلَّااللہُ کا عقیدہ دل کی گہرائیوں میں گھر کر جائے تو اس کے ساتھ ہی وہ پورا طرزِ زندگی روپذیر ہو جاتا ہے جو اس عقیدہ کی عملی تفسیر ہے۔ رسول ا ﷲﷺ نے بھی لوگوں کو یہی دعوت دی:
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ (البقرہ 21/2)
''اے لوگو اپنے رب کی بندگی کرو ۔''
حالانکہ محمد رسول اﷲﷺ کے زمانے میں بھی بہت سے اخلاقی، تمدنی ، معاشرتی اور سیاسی مسائل حل طلب تھے۔ خود عرب قوم جہالت ، اخلاقی پستی ، افلاس ، طوائف الملوکی اور خانہ جنگی میں مبتلاتھی۔ رومی اور ایرانی ایمپئر یلزم موجود تھا۔ طبقاتی امتیازات بھی تھے۔ مگر نبی کریم ﷺ نے کسی ایک مسئلہ کی طرف بھی توجہ نہ کی۔ اگر آپ چاہتے تو آسانی سے عرب قبائل کو جمع کرکے ایرانی اور رومی ایمپیئریلزم کا مقابلہ کرتے۔ عرب سرزمین سے ان لوگوں کو باہر نکال دیتے اس طرح عرب اپنی قومیت کے پلیٹ فارم پر جمع ہوکر آپ کی قیادت تسلیم کرلیتے پھر آپ انہیں توحید کی دعوت دیتے... اس طرح قومیت کی آسان راہ کے ذریعے عرب اﷲ تعالیٰ کے آگے جھک جاتے۔ مگر اﷲ تعالیٰ نے آپ کو اس راہ پر نہیں ڈالا آپ کو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی صدا بلند کرنے کا حکم دیا اور مخالفت پر صبر کرنے کی تلقین کی۔ اﷲ خوب جانتا تھا کہ قومیت کی راہ سے رومی اور ایرانی طاغوت سے نجات تو مل جاتی، مگر اﷲ کی زمین اسلامی قومیت کی بجائے عربی قومیت کے حوالے ہو جاتی اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کا جھنڈا اونچا نہ ہوتا۔