• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انبیاء علیہم السلام کی بنیادی دعوت ۔ جمہوریت دین جدید۔ از ڈاکٹر شفیق الرحمن

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
انبیاء علیہم السلام کی بنیادی دعوت
اﷲ تعالیٰ کی عبادت ہی وہ اصل اور بنیادی مسئلہ ہے جس پر انسان کی بقا اور وجود کا دارو مدار ہے۔ ہر نبی علیہ السلام نے آغاز رسالت میں اسی اہم مسئلہ کو اپنی دعوت کا محور و مرکز بنایا اور کہا ''لوگو ! گواہی دو کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں۔'' پھر اسی دعوت پر اپنی تمام قوت صرف کردی کہ انسانوں کو ان کے حقیقی پروردگار سے متعارف کروایا جائے اور انہیں صرف اسی کی بندگی کی راہ دکھلائی جائے۔

کیونکہ یہی تو سب سے بڑا قضیہ ہے جس کے حل پر انسانی فلاح کا دارو مدار ہے۔ ہر نبی اور رسول علیہ السلام نے زندگی بھر یہی صدا لگائی کیونکہ یہ بات اتنی اہم ہے کہ پوری انسانی زندگی کا مرکزی نقطہ یہی ہے کہ لوگوں کو ان کے رب کی معرفت کا درس دیا جائے اور ہر چوکھٹ سے ہٹا کر انہیں اللہ وحدہٗ لاشریک کے آگے جھکایا جائے۔

انبیاء علیہم السلام نے بغیر کسی تمہید کے قوم کو توحید کی دعوت دی کیونکہ جب لَا اِلہَ اِلَّااللہُ کا عقیدہ دل کی گہرائیوں میں گھر کر جائے تو اس کے ساتھ ہی وہ پورا طرزِ زندگی روپذیر ہو جاتا ہے جو اس عقیدہ کی عملی تفسیر ہے۔ رسول ا ﷲﷺ نے بھی لوگوں کو یہی دعوت دی:

يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ (البقرہ 21/2)
''اے لوگو اپنے رب کی بندگی کرو ۔''

حالانکہ محمد رسول اﷲﷺ کے زمانے میں بھی بہت سے اخلاقی، تمدنی ، معاشرتی اور سیاسی مسائل حل طلب تھے۔ خود عرب قوم جہالت ، اخلاقی پستی ، افلاس ، طوائف الملوکی اور خانہ جنگی میں مبتلاتھی۔ رومی اور ایرانی ایمپئر یلزم موجود تھا۔ طبقاتی امتیازات بھی تھے۔ مگر نبی کریم ﷺ نے کسی ایک مسئلہ کی طرف بھی توجہ نہ کی۔ اگر آپ چاہتے تو آسانی سے عرب قبائل کو جمع کرکے ایرانی اور رومی ایمپیئریلزم کا مقابلہ کرتے۔ عرب سرزمین سے ان لوگوں کو باہر نکال دیتے اس طرح عرب اپنی قومیت کے پلیٹ فارم پر جمع ہوکر آپ کی قیادت تسلیم کرلیتے پھر آپ انہیں توحید کی دعوت دیتے... اس طرح قومیت کی آسان راہ کے ذریعے عرب اﷲ تعالیٰ کے آگے جھک جاتے۔ مگر اﷲ تعالیٰ نے آپ کو اس راہ پر نہیں ڈالا آپ کو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی صدا بلند کرنے کا حکم دیا اور مخالفت پر صبر کرنے کی تلقین کی۔ اﷲ خوب جانتا تھا کہ قومیت کی راہ سے رومی اور ایرانی طاغوت سے نجات تو مل جاتی، مگر اﷲ کی زمین اسلامی قومیت کی بجائے عربی قومیت کے حوالے ہو جاتی اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کا جھنڈا اونچا نہ ہوتا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
رسول اﷲ ﷺ کے عہد میں سرمایہ دار سودی کاروبار سے عوام کا خون چوس رہے تھے۔ عوام پستی کی گہرائیوں میں سسک رہی تھی۔ اگر نبی رحمت ﷺ چاہتے تو عوام کی قوت سے سرمایہ داروں کی قوت کو خاک میں ملادیتے پھر ان عوامی انقلابیوں سے اﷲ کی توحید کا اقرار کرالیتے۔ مگر آپ نے ایسا نہیں کیا کیونکہ اصلاح اور فلاح کے لئے یہ طریق کار غلط ہے۔ اس سے لوگوں کے دل، لالچ اور حسد سے بھر جاتے اور اﷲ خوفی کی بنیاد پر اسلامی معاشرہ قائم نہ ہوسکتا۔

آپ ﷺ کی بعثت کے وقت اہل عرب کی اخلاقی حالت ابتر تھی۔ شراب نوشی ، جوئے بازی اور جنسی بے راہ روی عام تھی۔ لڑکیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔ آپ ﷺ چاہتے تو دعوت کا آغاز اخلاقی اصلاح سے کرتے، تزکیۂ نفس کا پرو گرام بناتے۔ یقیناً عوامی اصلاحی تحریک اُٹھ کھڑی ہوتی جمہور کی صالح جماعت تیار ہوتی۔ جن کے اخلاق سنور گئے ہوتے پھر اس جماعت کو عقیدۂ توحید کی دعوت دیتے اور یہ قبول کرلیتی مگر جس اخلاق کی پشت پر کوئی عقیدہ نہ ہو اﷲ اور آخرت پر ایمان نہ ہو وہ کتنے دن چل سکتا تھا؟

لہٰذا صرف لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کا جھنڈا بلندکیاگیا۔ دوسرا کوئی جھنڈا نہ تھا۔ لوگوں نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ زمین طواغیت روم و فارس سے پاک ہوگئی اور اقتدار بھی عربوں کا نہیںبلکہ اﷲ کا قائم ہوا۔ زمین ہر طاغوت سے پاک ہوگئی۔ لوگوں کا تزکیۂ نفس بھی ہوا۔ ان کے پیش نظر اﷲ کی رضا اور ثواب آخرت کے سوا کچھ نہ رہا۔ انسانیت اخلاق کی بلند چوٹی تک جاپہنچی۔ شراب نوشی ، سود ، جوئے اور جاہلیت کی تمام رسوم و عادات کا قلع قمع ہوگیا۔ قرآن کریم کی چند آیات اورنبی رحمت ﷺ کے مختصر سے کلمات سے ایسا ہونا ممکن ہوا۔

سیرت النبی ﷺ کے مطالعہ سے ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ دعوت کا سب سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ عقیدہ توحید کواپنے دل میں اُتارا جائے۔ یہ دعوت چاہے پہلے سے مسلمان ہونے کے دعویداروں کے اندر ہو یا کفار کے اندر ،اسلام کا پہلا تقاضا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ہے۔ پہلی دعوت یہ ہے کہ صرف اﷲ کی بندگی کرو اور اس کے سوا کسی کو الٰہ نہ مانو۔ کیونکہ اخلاقی تمدنی زندگی کی ان خرابیوں کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو خود مختار اور غیر ذمہ دار سمجھے یااﷲ کے سوا کسی اور کو الٰہ مان کر یہ عقیدہ رکھے کہ وہ رب العالمین کی بجائے اس کی فریاد رسی اور مشکل کشائی کر سکتاہے بلکہ اسے اﷲ تعالیٰ کے عذاب سے بھی بچاسکتا ہے۔ لہٰذا اسلام یہ مطالبہ کرتا ہے کہ انسان کی خود مختاری یا غیر اﷲ کی الوہیت کی بنیاد پر قائم پورے نظام کو جڑ سے اُکھاڑ دیا جائے اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی بنیاد پر ایک نیا نظام قائم کیا جائے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
جو لوگ قولاً و فعلاً تسلیم کرلیں کہ یہاں کوئی سرکار ، داتا ، کوئی ولی و کارساز اور غوثِ اعظم نہیں ہے بلکہ سب اﷲ کے بندے ہیں، حاکم اور اِلٰہ صرف اﷲ تعالیٰ ہے تو انسانوں کے ایسے گروہ کو ''حزب اﷲ'' کہا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو ''مسلم و مومن'' کہا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ اِلٰہ واحد پر ایمان لانے کے بعد زندگی کے تمام تر انفرادی اور اجتماعی اختیارات اپنے مالک کے حوالے کردیتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ کے نبیﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر یوں جم جاتے ہیں کہ اپنی قوم کے وقتی مسائل انہیں پریشان نہیں کرتے۔ ان کے سامنے صرف ایک ہی مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو اور دوسرے انسانوں کو غیر اﷲ کی بندگی سے کیسے نجات دلوائیں تاکہ اﷲ کی عبادت کا حق ادا ہو سکے۔

اﷲ کو اِلٰہ واحد مان لینے کے بعد جاہلی معاشرے کے لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف جمع ہوگئے مگر جنہوں نے دین حق قبول کیا تھا وہ ہر آزمائش میں اﷲ کے فضل سے پورے اُترے بعض کا گھر بار چھن گیا، دوست رشتہ دار چھوٹے مگر انہوں نے اﷲ کی خاطر سب کچھ برداشت کیا تاکہ اس نقصان کے بدلے جو صرف ایک اﷲ کی عبادت کی وجہ سے انہیں پہنچا ان سے اﷲ راضی ہو جائے اور انہیں جنت میں جگہ دے دے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس جاہلی معاشرے کے اندر اپنے اعتقادات اور تصورات کے لحاظ سے ، مراسم عبادت کے لحاظ سے، قانون و شریعت کے لحاظ سے ، غیراﷲ کی بندگی سے برأت کا اعلان کیا۔ دوسرے لفظوں میں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ کی عملی تصویر بن گئے اور اس طرح اسلامی معاشرہ وجود میں آیا۔ آج بھی حزب اﷲ کی نشوونما کا یہی ایک طریقہ ہے۔

اﷲ کی اس جماعت نے صرف ایک اﷲ کی عبادت کا رنگ قائم کرنے کے لئے محض تبلیغ اور اپیل سے ہی کام نہیں لیا بلکہ جب مالک نے انہیں قوت عطا کی تو انسانوں کی جھوٹی ربوبیت اور الوہیت کے خاتمہ کے لئے انہوں نے تلوار بھی اُٹھائی۔ جو لوگ اﷲ کی مخلوق کی گردنوں پر سوار تھے اور انہوں نے اﷲ کی حاکمیت پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا تھا انہیں عملی طاقت ''جہاد بالسیف'' کے ذریعے الگ کیا کیونکہ یہ غاصب اﷲ کی شریعت سے بے نیاز ہوکر لوگوں پر حکمرانی کرتے تھے اور اسلام کی دعوت لوگوں کے کانوں تک پہنچنے نہیں دیتے تھے۔ یہی وہ سیدھا راستہ ہے جس پر چل کر خلافت اسلامیہ قائم ہوئی۔

آج بھی اسلامی حکومت اسی طرح سے قائم ہوگی۔ اﷲ تعالیٰ کی حاکمیت کے تصور پر پوری عمارت قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس بات پر ایمان لایا جائے کہ ہم بحیثیت مجموعی اور فرداً فرداً بھی اﷲ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ اُس کے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے اور مرکر بھی ہم اُس کی گرفت سے نہیں چھوٹ سکتے۔ لہٰذا ہماری زندگی کا مقصد اﷲ تعالیٰ کی رضاہے۔ اس نظریۂ حیات کی بنیاد پر تعلیم و تربیت کا ایک نظام قائم ہوگا۔ جس سے وہ سائنسدان اور ماہر فلکیات پیدا ہونگے جو اسلامی نظریہ حیات پر ایمان رکھتے ہونگے ایسے ماہرین مالیات و معاشیات اور ماہرین قانون و سیاست پیدا ہونگے جو نظر و فکر کے اعتبار سے مسلم ہونگے۔ ایسی لیڈر شپ پیدا ہوگی جو ان اسلامی اصولوں سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہ ہوگی جن کا بول بالا کرنے کے لئے اسلام اُٹھا ہے۔ چاہے اس کیلئے سب مسلمانوں کو گھر بار، اولاد اور جانوں کو قربان کرنا پڑے۔ایسی قیادت اسلامی اصولوں سے بے نیاز ہوکر کسی معاملہ میں بھی قوم کا فائدہ تلاش نہ کرے گی۔ قوم کی دنیوی فلاح کی خاطر وہ اس کی اخروی زندگی کو تباہ نہیں کرے گی۔ بلکہ خوف الٰہی کا رنگ ان پر غالب ہوگا۔
 
Top